Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

عقلمند راجا

فیاض احمد

عقلمند راجا

فیاض احمد

MORE BYفیاض احمد

    یہ کہانی ہے جنگل کے راجا شیر کی۔ شیر اور راجاؤں کی طرح نہیں تھا۔ یہ راجا تھا بڑا چالاک، بڑا شاطر۔ ہر کام سوچ سمجھ کر کرتا، ہر فیصلہ سنبھل کر لیتا۔ یہی وجہ تھی کہ وہ برسوں سے حکومت کر رہا تھا۔ کبھی کبھار کہیں سے اگر بغاوت کی ہلکی سی بھی چنگاری اٹھتی، اس پر فوراً پانی ڈال دیتا۔ منتری سنتری تک سبھی راجا کی عقل مندی کے قائل تھے۔

    ایک دن راجا کو اچانک خیال آیا کہ اس کی کابینہ میں ایک بھی چڑیا نہیں ہے۔ پھر اس نے سوچا، ’’کیوں نہ اپنی کابینہ میں اس بار چڑیوں کو بھی شامل کر لیا جائے۔‘‘ دوسرے راجاؤں کی طرح یہ راجا اپنا مشورہ یا اپنا خیال کسی پر تھوپتا نہیں تھا۔ کیونکہ اسے تھوپنے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی تھی۔ اس نے بڑی سادگی سے اپنے دل کی بات ایک وزیر سے کہی۔ اب اگر راجا کی یہی خواہش تھی تو بھلا کون منع کرتا۔ راجا نے جیسے ہی کابینہ کے سامنے اپنی تجویز رکھی سارے وزیروں نے بغیر سوچے سمجھے ہاں میں سر ہلا دیے۔ لیکن مہا منتری گیدڑ، جس کی چڑیاؤں سے کبھی نہیں بنتی تھی، خوش نہیں تھا مگر ’نا‘ کہنے کی اس میں ہمت نہیں تھی۔ وہ اپنی جگہ سے اٹھا اور بڑے ادب سے راجا سے مخاطب ہوا ’’جان کی امان پاؤں تو کچھ کہوں؟‘‘ راجا نے اپنے شاہی انداز میں مسکراتے ہوئے کہا، ’’اجازت ہے!‘‘ مہا منتری گیدڑ بولا، ’’مہاراج کی سوچ کبھی غلط ہوئی ہے کیا؟ مہاراج نے کچھ سوچ کر ہی چڑیاؤں کو اپنی کابینہ میں شامل کرنے کا فیصلہ لیا ہوگا۔ بس ایک مسئلہ ہے مہاراج!‘‘ شیر نے گیدڑ کی بات پوری ہی نہیں ہونے دی اور بڑے پیار سے بولا، ’’کیسا مسئلہ؟‘‘ مہاراج کی اس ادا پر پوری کابینہ جان چھڑکتی تھی۔ وہ کبھی غصہ نہیں ہوتے تھے۔ پھر بھی گیدڑ سہم گیا اور کانپتے ہوئے اپنی بات پوری کی، ’’چڑیوں کی ایک بہت بڑی جماعت ہے، اس میں سے کون ان کا لیڈر بنےگا؟ اور کیسے؟‘‘ راجا مسکرایا، باری باری سے سبھی کو دیکھا اور بولا، ’’ایک عام اجلاس میں، میں خود چڑیوں کے لیڈر کا انتخاب کرون گا۔ منادی کروا دی جائے۔‘‘

    منادی ہو گئی۔ چڑیوں کے درمیان جوش کا ماحول تھا۔ ہر طرف جشن منایا جانے لگا۔ گیت سنگیت کے پروگرام کا اہتمام کیا گیا۔ راجا کی جے جےکار ہو رہی تھی، گویا راجا نے انہیں اپنی کابینہ میں شامل نہیں کیا ہو بلکہ پوری حکومت ہی دینے کا فیصلہ کر لیا ہو۔ خیر جو بھی ہو ان کے لیے تو بڑی بات تھی۔ پہلی بار ان کی طرف سے کسی کو راجا کے سامنے ان کی بات رکھنے کا موقع ملے گا اور ان کے لیے یہی کافی تھا۔ اب ان کے سامنے ایک ہی مسئلہ تھا کہ ’’کون ہوگا ان کا لیڈر؟‘‘ یہ خیال آتے ہی رنگ میں بھنگ پڑ گیا۔ سبھی سر جوڑ کر بیٹھ گئے۔ طے ہوا کہ چڑیوں کی ایک میٹنگ بلائی جائے۔ آناً فاناً میٹنگ بلائی گئی۔ میٹنگ میں سبھی شامل ہوئے یہاں تک کہ ان کی حمایت میں کیڑے مکوڑے بھی آ گئے، مگر میٹنگ سے ایک غائب تھا۔۔۔ اور وہ تھا بھٹکو کوا وہ کہیں دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ اس کی غیر حاضری کو لیکر سبھی باتیں کرنے لگے۔

    ’’جب منادی ہو رہی تھی، اس وقت بھٹکو ہی سب سے آگے آگے تھا۔‘‘

    ’’کہاں چلا گیا؟‘‘

    ’’اپنے رشتےدار کے یہاں تو نہیں چلا گیا؟‘‘

    ’’اس حالت میں کوئی ایسا کیسے کر سکتا ہے؟‘‘

    ’’مگر وہ ہے کہاں’’

    ’’اسے تلاش کیا جائے’’

    ’’اسے راج محل کی طرف جاتے دیکھا گیا ہے’’

    ’’مطلب‘‘

    ’’آپ خود سمجھ لیجئے۔‘‘

    ’’یہ کیسے ہو سکتا ہے؟‘‘

    ’’ادھر کچھ دنوں سے بھٹکو کو کئی بار راج محل کی طرف جاتے دیکھا گیا ہے۔‘‘

    ’’ہو سکتا ہے، وہ ادھر کسی اور کام سے گیا ہو؟‘‘

    میٹنگ میں اسی طرح کی باتیں ہوتی رہیں لیکن یہ طے نہیں ہو پایا کہ ان کا لیڈر کون ہوگا۔ اب سب کی نظر تھی راجا کے دربار میں ہونے والے عام اجلاس پر۔

    عام اجلاس میں سبھی نے اپنے اپنے کمال دکھائے۔ بلبل نے مسحور کن نغمہ سنایا تو مور نے اپنے دلفریب رقص سے سبھی کا دل جیت لیا۔ مگر بات بن نہیں رہی تھی۔ ناچنے یا گانے سے کابینہ کا کام نہیں چل سکتا تھا۔ خبر رسانی کے لیے تو کبوتر ٹھیک تھا۔۔۔ مگر بحیثیت وزیر؟ نہیں، نہیں۔۔۔ راجا کو کچھ ٹھیک نہیں لگا۔ ٹھیک بھی کیسے لگتا؟ آنکھوں میں تو کوئی اور بسا تھا۔ شام ہونے والی تھی۔ نتیجہ کا اعلان بھی کرنا تھا۔ راجا اٹھا اوردہاڑ کر گلا صاف کیا، پنجوں کو ہلا ہلا شرکا کو اپنی طرف مخاطب کیا، پھر مسکراتے ہوئے ایک طرف دیکھا اور کسی کو اسٹیج پر آنے کا اشارہ کیا۔ بھٹکو کوے کو اسٹیج پر لایا گیا۔ یہ منظر دیکھ کر پورا مجمع حیرت میں پڑ گیا۔ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ بھٹکو کو وزیر بنایا جائے گا۔

    ویسے بھٹکو نے یہاں تک پہنچنے میں بڑی محنت کی تھی۔ اتنے پاپڑ بیلے تھے کہ خود لاغر ہو گیا تھا۔ لیکن کیا فرق پڑتا ہے؟ وزیر تو بن ہی گیا۔۔۔

    جلسہ ختم ہوا۔ ایک بار پھر سے راجا کی جے جے کار سے پورا جنگل گونج اٹھا۔ لیکن بہت سارے کے دل میں ایک سوال تھا، ’بھٹکو کس کا لیڈر بنا؟ راجا کا یا چڑیوں کا؟‘

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے