Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

اشکوں کی بارات

داؤد محسن

اشکوں کی بارات

داؤد محسن

MORE BYداؤد محسن

    زینت کی زندگی پھر ایک بار جہنم بن گئی جب سے اس پر اکمل کا کالا سایہ پڑا تھا وہ اندر ہی اندر پگھلنے لگی۔ ستم ظریفی کی بارش میں وہ شب و روز بھیگنے لگی۔ کیونکہ غریبی کا ناگ پھن پھیلائے پھر سے کھڑا تھا۔ اپنوں کی بے مروتی اور ان کی لعن و طعن اس کی راہ میں کانٹوں کی طرح بچھے ہوئے تھے گویا اس کی زندگی کی کتاب کے پنوں پر خوشی نام کا لفظ لکھا نہیں تھا۔ سارا دن تین چار گھروں میں یکے بعد دیگرے برتن مانجھنا ،کپڑے دھونا اور زمین صاف کرنا اور رات بھر اپنی آسیب زدہ زندگی پر آنسو بہانا معمول بن گیا۔ اس حالت میں اپنے معصوم بچے کی پرورش اور دیکھ بھال کرنا اس پر ایک کوہ گراں کے مصداق تھا۔ ہر ایک اس کی درد بھری داستان سن کر افسوس کرتا اور اور ہمدردی جتاتا مگر کوئی اس کامعاون ومددگار نہیں تھا۔

    وسیم اور زینت، جنیدی صاحب کے بچے تھے۔ جو ایک پرہیزگار اور خدا ترس شخص تھے اچانک اپنے والد کا انتقال ہوا تو ان کی زندگی میں ایک زبر دست انقلاب آیا اور ان کی خوش و خرم زندگی کے نظام کی دھجیاں اڑ گئیں۔ دونوں بچے ماں کی کفالت میں آگئے اور ماں نے اپنے بچوں کی پرورش کی خاطر کپڑے سینا شروع کیا۔ لیکن اس کام سے ان کی پرورش اور تعلیم مشکل ہو گئی اور گذارا محال ہو گیا۔ دونوں بچے کافی سمجھدار تھے وہ اپنی ماں کی حالت سے خوب واقف تھے۔

    ان کی زندگی بڑی مشکل سے گذرنے لگی۔ ایک مرتبہ وسیم نے اپنی ماں سے اصرار کیا کہ وہ اسکول جانے کی بجائے کوئی کام کرےگا جس سے معاشی حالت میں کچھ مدد مل سکے مگر ماں نے صاف منع کر دیا کہ وہ ابھی بچہ ہے اس لئے درمیان میں تعلیم ترک نہ کرے اور اپنی پڑھائی جاری رکھے۔ لہذا ماں کی بات پر عمل کرتے ہوئے وسیم نے اپنی تعلیم جاری رکھی۔ چند دن اسی طرح گذرتے رہے۔ جب مصیبتیں اور پریشانیاں آتی ہیں تو وہ دبے پاؤں زندگی میں داخل ہو جاتی ہیں اس کا اندازہ لگانا بسا اوقات دشوار ہو جاتا ہے۔ ان سے نپٹنے اور ان پر قابو پانے کے لاکھ جتن کریں سب بےسود ثابت ہو جاتے ہیں۔ یہاں بھی فاقہ کشی کی نوبت آنے لگی۔ ایک دن وسیم شام گھر لوٹا اور کچھ روپیئے ماں کے ہاتھ میں دیتے ہوئے کہا۔ یہ لو ماں میری محنت کی کمائی۔

    ماں نے تعجب سے پوچھا۔ تمہارے پاس اتنے سارے روپیئے کہاں سے آئے؟

    نہیں ماں!میں گیراج میں کام کر رہا ہوں۔

    میں نے اپنی پلکوں پر کتنے خواب سجائے ہیں۔ میری آرزو ہے کہ تم پڑھ لکھ کر ایک افسربن جاؤگے۔ ہماری غریبی دور کرو گے اور ہمارا سہارا بنوگے مگر تم نے تو ہمارے سارے خواب چکنا چور کر دیئے۔

    پہلے پیٹ کی آگ بجھا لیں ماں ،پھر خوشحال زندگی تو مرضی مولا پر منحصر ہے۔

    تو کیا تم آگے پڑھنا نہیں چاہتے ہو؟

    ارادہ تو ہے مگر مفلسی اجازت نہیں دیتی۔ میں یہ فاقہ کشی اور بے بسی و لاچاری دیکھ نہیں سکتا۔

    ماں نے روتے ہوئے اپنے بیٹے کوبہت سمجھانے کی کوشش کی کہ وہ تعلیم جاری حاصل کرے اور کام پہ جانا چھوڑدے۔ لیکن وسیم اپنی ضد پر قائم رہا اور کولھو کے بیل کی طرح دن رات محنت کرکے کم سنی میں زندگی کی گاڑی کھینچنے لگا۔ جس میں ماں اور بہن سوار تھیں۔ وہ یکے دیگرے کئی جگہوں پر کام کرتا رہا ہر جگہ اس کے ساتھ ہوٹلوں، کارخانوں، ورکشاپوں اور گیراجوں وغیرہ میں بے رحمانہ سلوک کیا جاتا رہا۔

    اسے خوب محنت کرنے کے باوجود تنخواہ کے نام پر ہفتے میں ایک بار چند روپیئے تھما دئیے جاتے تھے۔ جس سے خود کی کفالت بھی مشکل ہو جاتی تھی۔ ادھر مہنگائی کا اشدھا منہ کھولے کھڑا تھا۔ اس کی کمائی سے کیا خاک سیرابی ہو سکتی تھی۔ زندگی ایک غریب کی چادر کے مصداق ہو گئی تھی۔ جب پیٹ کی آگ بجھانا اور تن ڈھانپنا بھی دشوار ہو گیا تو زینت بھی تعلیم ترک کرکے وقت اور حالات کی چکی میں پس کر رہ گئی۔ وہ ایک گھر میں برتن صاف کرنے کے کام پر مامور ہو گئی۔ دن بھر کم سن بچے محنت مزدوری کرکے گھر لوٹتے، ماں انہیں دیکھ کر خون کے آنسو روتے یا سرد آہیں بھر تے ہوئے اپنے مقدر پر نالاں رہنے لگیں۔ زینت اور وسیم دونوں سمجھدار ہو گئے تھے اپنی ماں کو تسلی دیتے اور خود بھی خون کے گھونٹ پی کر رہ جاتے تھے۔

    اسی طرح ان کی زندگی خاردار راستوں اور پر پیچ گذرگاہوں سے اس امید پر گذرتی رہی کہ کبھی تو سرخروئی حاصل ہوگی۔ آخر وقت کی گاڑی میں بریک کب ہوتا ہے جو رک سکے۔ بالآخر اسی کشمکش میں کئی سال گذر گئے۔ تخم پودے اور پودے پیڑ بنتے گئے۔ وسیم جوان ہو گیا اور زینت بھی شباب کی دہلیز پر قدم رکھنے لگی۔ حسن جھونپڑیوں میں ہوتا ہے کہ مصداق وہ حسن و جمال کا ایک پیکر بن گئی۔ مگر شومئی قسمت کہ سماج کی نظریں اس پر جم گئیں۔ جس طرح لوگوں کی نظروں سے دولت مندوں کو اپنی دولت سنبھالنی پڑتی ہے اسی طرح غریبوں کو اپنا حسن اورجوانی سنبھالنا مشکل ہو جاتا ہے کیونکہ وہ ان کے لئے بھی بوجھ بن جاتے ہیں جنہیں زمانے کی نگاہوں سے بچانا دشوار ہو جاتا ہے۔

    زینت ایک دن کام سے جلد واپس آ گئی گھر میں داخل ہوتے ہی ماں سے لپٹ کر رونے لگی۔

    ماں نے دریافت کیا۔ کیا بات ہے؟ تم کیوں رو رہی ہو۔

    میں کل سے کام پر نہیں جاؤں گی۔ زینت روتے ہوئے کہنے لگی۔

    اتنا اچھا گھر تمہیں اور کہاں ملے گا بیٹی؟ وہ شریف لوگ ہیں اور تنخواہ بھی اچھی دیتے ہیں۔ ماں نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا۔

    میں بھوکی رہ جاؤں گی مگر وہاں نہیں جاؤں گی۔ زینت نے ہمت باندھتے ہوئے کہا۔

    صاف صاف بتاؤ زینت کیا بات ہے؟ کیا مالکن نے کچھ کہا یا کسی نے ڈانٹا یا برا بھلا کہاہے۔

    تم اتنی رنجیدہ کیوں ہو۔ ماں نے اصرار کیا۔

    زینت آنسو پیتے ہوئے رک رک کر کہنے لگی۔ امی !میں جب زمین پونچھ رہی تھی توانکل۔۔۔ مجھے گھور کر بری اور بھوکی نظروں سے بہت دیر تک دیکھتے رہے۔ تھوڑی دیر بعدوہ میرے قریب آئے مجھے ایک کونے میں لے گئے، دونوں ہاتھوں سے اپنے دامن میں دبوچ لیا اور مجھےوہ میرے یہ تم کیا کہہ رہی ہو۔ اس سے پہلے تو تم نے ان کے بارے میں کچھ نہیں کہا۔ ماں نے حیرت سے پوچھا۔

    زینت سسکیاں بھرتی ہوئی کہنے لگی۔ انکل چند دنوں سے مجھے گھورتے رہتے تھے۔ ان کا بیٹا بھی کبھی کبھی چھیڑتا رہتا تھا۔ مجھے ان کی نیتوں کا اندازہ نہیں ہوا۔

    ماں نے کہا۔ تمہیں آنٹی کو بتا دینا چاہئے تھا۔

    زینت نے جواب دیا۔ مجھے کیا خبر تھی کہ اچانک آج اس طرح ماں نے پوچھا۔ آج اچانک یہ سب کیسے ہوا؟

    آج آنٹی گھر پر نہیں تھیں اور وہ اپنے بیٹے کے ہمرا ہ باہرگئی ہوئی تھیں۔ ان کی غیرموجودگی میں مجھے تنہا پاکر انکل نے میرے ساتھ۔۔۔ میں ڈرکر ایک کونے میں کھڑی ان سے رحم کی بھیک مانگتی رہی مگر وہ میرے قریب آگئے اور دونوں ہاتھوں سے۔۔۔ شاید مرضئی خدا تھی کہ اچانک دروازہ پر دستک ہوئی اور آنٹی آ گئیں۔ انہیں دیکھتے ہی انکل نے مجھے چھوڑ دیا اورمعصومیت کا مظاہرہ کیا۔ اس کے بعد میں وہاں سے نکل آئی۔ میں وہاں نہیں جاؤں گی۔ مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے۔ یہ کہتے ہوئے زینت رونے لگی۔

    زینت پر صرف مالک اور اس کے بیٹے کی نظریں ہی نہیں تھیں بلکہ اس کا معاملہ غریب کی جورو سب کی بھابی کے مصداق تھا۔ جب سے وہ جوان ہوئی تھی اسے اپنی جوانی سنبھالنا دشوار ہو چکا تھا۔ گلی محلہ کے ہر ایک فرد کی نگاہوں میں اس کا شباب بری طرح کھٹکتا تھا۔ وہ بڑی مشکل سے اپنے آپ کو سنبھا ل رہی تھی۔

    اس واقعہ کے بعدماں نے زینت کا کام پر جانا بند کروا دیا۔ اب وسیم کی کمائی پر گھر چل رہا تھا۔ اب ماں اور بھائی کو اس کی شادی کی فکر لاحق ہو گئی۔ وہ دونوں کسی طرح اس کے ہاتھ پیلے کرنا چاہتے تھے۔ جوان بیٹی غریب ماں کے سینے پر ایک چٹان لگ رہی تھی۔ حالانکہ زینت حسین و جمیل تھی مگر حسن ہی سب کچھ نہیں ہوتا اس کی اہمیت اس وقت بڑھ جاتی ہے جب حسن و جمال کے ساتھ مال و زر بھی ہو۔ ورنہ آج بھی حسن اور شرافت غریبوں کے یہاں ہچکولے کھا رہے ہیں اور بہت سی نوجوان لڑکیاں چوتھی کے جوڑے کا خواب سجائے جوانی پار کر چکی ہیں۔ یہی کیفیت زینت کی ہو گئی۔ جو بھی رشتہ آتا وہ جہیز کا طلبگار ہوتا مگر یہاں اس کی گنجائش نہیں تھی۔ بڑی تگ و دو کے بعد عاصم کے ساتھ زینت کا رشتہ طے ہوا۔ اس کے بعد زینت کی ماں نے راحت کی سانس لی۔

    رشتہ طے کرتے وقت عاصم کی ماں کی یہ فرمائش تھی کہ شادی دو تین مہینوں کی اندر کر دینی چاہیئے۔ زینت کی ماں اور اس کے بھائی وسیم نے مان لیا۔ وہ کسی بھی صورت میں رشتہ کر دینا چاہتے تھے۔ لہذا وعدہ کے مطابق انہوں نے شادی کی تیاری کے لئے کوشش میں جٹ گئے۔ زینت کی ماں نے سلائی وغیرہ کرکے زینت کے لئے ضروری ساز و سامان جوڑ کر رکھا تھا۔ ادھر وسیم بھی اپنے مالک سے منت و سماجت کر کے پیشگی رقم لے لی۔ حسب وعدہ اپنی طاقت اور حیثیت سے بڑھ کر شادی کر دی گئی۔ اس طرح دو ماہ بعد زینت اور عاصم شادی کے اٹوٹ بندھن میں بندھ گئے۔

    شادی کے بعد زینت کی زندگی میں وقتی طور پر خوشیوں کے پھول مہکنے لگے جو بہت جلد مرجھا گئے۔ غریبوں کی خوشیوں کا موسم بھی عجیب ہوتا ہے۔ جب آتی ہیں تو دم بھر رکنے کا نام نہیں لیتیں۔ ہواؤں کی مانند آکر چلی جاتی ہیں اور کئی دنوں تک ادھرکا رخ بھی نہیں کر پاتیں۔ زندگی میں عموماً شادی خانہ آبادی ہوتی ہے مگر زینت کے لئے شادی خانہ بربادی کا پیغام تھی۔ اس کی حسرتوں اور تمناؤں کا جنازہ چند ہی مہینوں میں اٹھ گیا۔ عاصم بظاہر شریف اور معصوم لگتا تھا لیکن اس میں جہاں بھر کی برائیاں تھیں۔ دراصل وہ غیرقانونی کاموں میں ملوث تھا۔ زینت کو عاصم کی کالی کرتوتوں کا علم اس وقت ہوا جب اس کی غیر موجودگی میں اسے ڈھونڈتے ہوئے پولس آئی۔ پولس کے جانے کے بعد پڑوس کی ایک عورت نے آکر عاصم کی اصلی حالت سے اسے واقف کروایا۔ جب عاصم گھر لوٹا تو زینت نے ہمت کرکے اس سے پوچھا۔ لیکن اس نے صاف انکار کر دیا۔ ہر وقت جب بھی زینت اسے برے کاموں سے باز آنے اور پرہیز کرنے کی نصیحت کرتی وہ ہمیشہ ان سنی کر دیتا۔ زینت کی باتوں کا اس پر کوئی اثر نہ ہوتا تھا۔ اسی کشمکش میں دو سال گذر گئے۔ زینت کی گود میں عدنان آ گیا۔

    ایک دن زینت نے روتے ہوئے عاصم سے عرض کیا۔ خدا کے لئے آپ غیر قانونی کام چھوڑ دیجئے اور کوئی چھوٹا موٹا کام دیکھ لیجئے۔ بےایمانی اور غیرقانونی کاموں کا انجام ہمیشہ برا ہی ہوتا ہے۔

    یہ میرا ذاتی معاملہ ہے تم دخل نہ دو تو اچھا ہے۔ عاصم نے دھمکی کے انداز میں کہا۔

    میں آپ کی بھلائی کے لئے کہہ رہی ہوں۔ ہم کسی طرح گذارا کر لیں گے چاہے ہمیں دو وقت کی روٹی ملے یا نہ ملے۔ زینت نے گذارش کرتے ہوئے کہا۔

    مجھے کسی کی پرواہ نہیں ہے اور میں کسی سے ڈرنے والا نہیں ہوں۔ اگر ہم ڈرنے لگیں تو ہمارا جینا دشوار ہو جائےگا۔

    ہمیں سماج میں رہنا ہے۔ اگر عزت کی زندگی چاہئے تو ان کاموں سے باز آ جانا چاہیئے۔ ورنہ سماج ہمیں اچھی نظروں سے نہیں دیکھےگا اور ہماری عزت۔۔۔

    تم جس سماج کی بات کرتی ہو وہ ہمیں کچھ نہیں دےگا اورجس عزت اور ایمانداری کی تم دہائی دے رہی ہو۔ اس کے آٹے سے روٹی نہیں بنا پاؤگی۔ عاصم زینت کو الٹی نصیحت کرنے لگا۔

    پہلے کی بات کچھ اور تھی مگر اب میرے لئے نہ سہی اس معصوم بچے کی خاطر برے کاموں سے چھٹکارا حاصل کر لیجئے۔ زینت نے عدنان کو سامنے لاکر کہا۔

    عاصم کی نظریں جب اپنے معصوم عدنان پر پڑیں تو اس کی آنکھیں کھل گئیں اور اس کا ضمیر جاگنے لگا۔ اس نے اپنے دل میں ارادہ کر لیا کہ وہ غیر قانونی کاموں سے توبہ کرکے ہمیشہ کے لئے نجات حاصل کر لےگا۔

    دوسرے دن کی صبح اپنی پوری رنگینیاں بکھیرتی ہوئی نمودار ہوئی۔ عاصم گھر میں نیک دلی کے ساتھ اپنے دل میں خواہشات کے دیپ جلائے اپنی بیوی اور بچے کے ساتھ خوش تھا۔ آج اس نے گھر سے باہر قدم نہیں رکھا۔ اسی طرح وہ چند دن بیوی اور بچے کے ساتھ خوش خوش رہنے لگا۔ اس نے مصمم ارادہ کرکے کوئی اچھا سا کام کرنے کی ٹھان لی۔ وہ اسی جستجو میں تھا کہ ایک شام ڈھلنے پر اس سے ملنے اس کے دو ساتھی آئے اور کوئی اہم نکتہ پر بات کرنے کے بہانے اسے باہر آنے کے لئے اصرار کرتے رہے۔ اس کے منع کرنے کے باوجود جبراً اسے باہر لے گئے۔ عاصم حسرت بھری نگاہوں سے زینت اور عاصم کو دیکھتا ہوا خدا حافظ کہتے ہوئے گھر سے رخصت ہوا۔

    دو تین گھنٹوں بعد عاصم کی موت کی خبر آ گئی۔ زینت حواس باختہ ہو گئی ، اس کے ہوش کے طوطے اڑ گئے، اس کے پاؤں تلے زمین سرک گئی اور دنیا اجڑ گئی۔ عاصم کی تجہیز و تکفین کے بعد رشتہ داروں کی آپسی گفتگو سے پتہ چلا کہ اس کا اس کے ہی ساتھیوں نے محض اس لئے قتل کیاکیونکہ وہ ان سے نجات حاصل کرنا چاہتا تھا، ایک اچھا شہری بن کر زندگی گذارنا چاہتا تھا جو ان بد افعال لوگوں کے لئے گوارا نہ تھاکیونکہ یہ ان کے لئے مضر تھا۔ عاصم کی موت سے زینت کی زندگی میں ایک بھونچال آ گیا۔ چند ہی دنوں میں تمام رشتے کچے دھاگوں کی مانند ٹوٹنے لگے اور جو اپنے تھے وہ بے رخی برتنے لگ گئے۔ عاصم کی بہنیں زینت کی صورت سے کترانے لگیں۔ حالانکہ عاصم کی ماں زینت کو چاہتی تھی اور اپنی بہو کی حالت زار پر ترس کھاتی تھی مگر اس کی بیٹیوں کو زینت ایک آنکھ نہیں بھاتی تھی۔ ہر وقت اسے برا بھلا سناتی تھیں۔ ایک دن عاصم کی بہن زاہدہ نے زینت کو طعنہ دیتے ہوئے کہنے لگی۔ تمہاری وجہ سے ہمارے بھیا بے موت مارے گئے۔

    زینت نے التجا کرتے ہوئے کہا۔ خدا کے لئے مجھ پر الزام نہ دو۔ میں نے توان سے صحیح راستہ اختیار کرنے کی محض گذارش کی تھی۔ اس میں میرا کیا قصور۔

    وہ جس حال میں تھے خوش تھے۔ اگر تم نے انہیں روکا نہ ہوتا تو آج وہ زندہ ہوتے۔ زاہدہ نے پھر طنزیہ وار کر دیا۔

    یہ سب مصلحت خدا وندی ہے اس میں میرا کوئی قصور نہیں ہے۔ زینت نے جواب دیا۔

    تم ہی میرے بھیا کی قاتل ہو۔ میرے بھیا کو کھا کراب بڑی سیانی بنتی ہو۔ زاہدہ نے کہا۔ زینت ان باتوں کی تاب نہ لا سکی، وہ ایک کونے میں بیٹھی سسکیاں بھرنے لگی۔ زینت کی بوڑھی ساس ایک طرف اپنی بیٹی کو سمجھانے کی کوشش کرتی اور دوسری طرف زینت کے آنسو پونچھنے کی کوشش کرتی تھی۔ غرض اسی طرح دو تین ماہ گذر گئے اور طعنہ کشی کا سلسلہ روز بروز دراز ہونے لگا اور زینت پر ظلم کے پہاڑ توڑے جانے لگے۔ زینت بیچاری اپنے کم سن بچے کو اپنے دامن میں رکھے زندگی کا بوجھ تنہا ڈھوتی اور روتی رہی۔ یہاں اس کے آنسوؤں کی کو ئی قدر تھی اور نہ ہی کوئی آنسو پونچھنے والا تھا۔ بچے کا چہرہ دیکھ کر وہ کسی طرح زندگی گذار رہی تھی مگر نندوں کے طعنوں سے اسے نجات نہیں مل سکی تھی۔ بات بات میں زاہدہ اس سے جھگڑنے کے بہانے تلاش کرتی تھی اور موقع کی تاک میں رہتی تھی۔ وہ چاہتی تھی کہ کسی طرح زینت ان کی زندگی سے نکل جائے اور اپنی زندگی خود گذارے۔ اسی طرح لڑتے جھگڑتے دن کٹ رہے تھے کہ زینت کو ایک اور جھٹکا لگا۔ وہ یہ کہ عاصم کی ماں جو اپنے بیٹے کے غم میں مبتلاتھی وہ بھی اس دنیا سے رخصت ہو گئی۔ چند دن اس غم کو بھلانے میں گذر گئے۔ اس کے بعدوہی سلسلہ شروع ہو گیا اور اس میں مزید اضافہ ہو گیا۔ اب اس کا ذمہ دار بھی زینت کو ٹہرایا جانے لگا۔

    ایک دن پھر ز اہدہ نے زینت سے جھگڑتے ہوئے اپنے دل کی بات کہہ دی۔ اب ہم تمہارا بوجھ اور اٹھا نہیں سکتے۔ تم اپنا راستہ دیکھ لو۔ بھیا اور ماں ہی نہیں رہے تو تمہارا اور ہمارا کیا تعلق اور کیسا رشتہ۔

    مجھ جیسی قسمت کی ماری پرخدارا ایسا ظلم نہ کرو دیدی۔ میں اس معصوم کو لے کر کہاں جاؤں اور کیسے زندگی گذاروں۔ زینت روتے ہوئے کہنے لگی۔

    دنیا اتنی بڑی ہے۔ کہیں بھی چلی جاؤ۔ اب تم یہاں رہ کر کیا کروگی۔ اگر تم خیریت چاہتی ہو تو ہمارے گھر سے نکل جاؤ۔ ورنہ۔۔۔ زاہدہ نے اسے ایک دھکا دیتے ہوئے کہا۔

    بالآخر زینت کومجبوراً اس گھر سے نکلنا پڑا اور وہ معصوم کو اٹھائے اپنے میکے چلی آئی اور اپنی ماں کے ساتھ رہنے لگی۔ جب تک زینت کی شادی نہیں ہوئی تھی اس کی ماں کو شادی کے غم نے آدھا کر دیا تھا۔ اب جب کہ وہ مستقل طور پر میکے چلی آئی اور بیوہ کی زندگی اور بیوہ کا لباس پہن کر زندگی گذارنے لگی تو جوان بیٹی کو اس روپ میں دیکھ کر مزید غمگین ہو گئی اور دن بدن اسی غم میں گھٹ گھٹ کر پگھلنے لگی بالآخر ایک دن ختم ہو گئی۔

    زینت کے تمام سہارے چھوٹ گئے اور وہ اس بھری دنیا میں اکیلی اور تنہا رہ گئی پھر فاقہ کشی اس کا مقدر بن گئی۔ اس کے علاوہ جوان بیوہ کا شباب ایک قیامت ڈھا نے لگا۔ اس کا غضب ڈھاتا ہوا حسن و جمال اس کے لئے وبال جان بن گیا۔ اسے اپنی عفت و عصمت کو سنبھالنا دشوار ہو گیا۔ اس بےبس و لاچار کو دیکھ کرسب کی نیتیں خراب ہونے لگیں۔ زینت مرجھائی سی رہنے لگی اور شش و پنچ میں مبتلا ہو گئی۔ اس کا گھر سے نکلنا دشوار ہو گیا۔ کسی طرح وہ زندگی کے دن کاٹ رہی تھی اور تذبذب کا شکار تھی کہ اس کی زندگی میں ایک اجنبی جھانکنے لگا جس کا نام اکمل تھا۔ وہ دبے پاؤں اس کے دل میں داخل ہونے لگا۔

    شروع میں زینت اکمل کے سائے سے بھی گھبراتی اور بھاگتی رہی کیونکہ اسے اپنی بیوگی کا احساس اور اپنی خاندانی شرافت اور عزت کا علم بخوبی تھا۔ جب اکمل اس میں غیرمعمولی دلچسپی لینے لگا توزینت تشویش میں مبتلا ہو گئی۔ چند ہمنواؤں نے زینت کو سمجھانے کی کوششیں کیں مگروہ رضامند نہیں ہوئی۔ ایک دن ایک پڑوسی نے جب زینت پر اپنی ہوس کے ڈورے ڈالنے کی کوشش کی تو وہ سہم گئی کیونکہ اس کی آنکھوں میں اسے لالچ اور مردانہ ہوس دکھائی دی۔ رات کو اس نے ہر زاؤیہ سے سوچا اور وہ اس نتیجے پر پہنچی کہ زمانہ بڑا ظالم ہے یہاں تنہا عورت کا جینا اور الزامات سے بچنا محال ہے اس لئے بہتر صورت یہی ہے کیوں نہ اکمل کی باہوں میں اپنا تحفظ ڈھونڈ لیا جائے۔ چونکہ اکمل کی طرف سے بار بار فرمائشیں آ رہی تھیں۔ جب اکمل کی جانب سے پھر پیغام آیا کہ وہ اسے بچے کے ساتھ اپنانے کے لئے تیار ہے تو وہ بادل نخواستہ اسے اپنانے پر راضی ہو گئی اور پھر وہ شادی کے بندھن میں بندھ گئی۔

    زینت اپنے کم سن بچے کو لئے اکمل کے ساتھ پھر زندگی کے خواب دیکھنے لگی اور اس کی باہوں میں سکون۔ اس نے محسوس کیا کہ اس کے دکھوں کا آتش فشاں سرد پڑ گیا ہے اور قسمت نے کروٹ لی ہے۔ اب بچی ہوئی زندگی اس کی باہوں میں کسی طرح کٹ جائےگی اور اپنے معصوم بچے کو ایک باپ کا پیار مل جائے گا۔ مگر افسوس! چند ہی دنوں اس کے سارے خواب ٹوٹ کر چکنا چور ہو گئے۔ امیدوں کا صحرا گلشن بننے سے رہ گیا۔ کیو نکہ اکمل کا آئینۂ کردار داغدار تھا۔ اس میں دنیا جہاں کی بری عادتیں موجود تھیں وہ شرابی بھی تھا اور سٹہ باز بھی۔ جو بھی کماتا تھا وہ سب شراب اور سٹہ میں اڑا دیتا تھا۔ زینت ہمت کرکے اسے سمجھانے کی کوشش کرتی اور بری عادتوں سے باز آنے کی گذارش کرتی اور اس سے رحم کی بھیک مانگتی مگر وہ اپنی عادتوں سے باز آنے کے لئے تیار نہ تھا۔ وہ جب بھی اسے سمجھانے کی کوشش کرتی تھی وہ اسے بری طرح ڈانٹ دیتا تھا اور ہر بار یہی دھمکی دیتا تھا۔ اگر تمہیں میرے ساتھ رہنا ہے تو سب کچھ سہنا پڑےگا۔ میں اپنی مرضی کا مالک ہوں۔ اگر تم مجھے یوں ہی بار بار پریشان کرتی رہوگی تو ایک دن۔۔۔

    اس قسم کی دھمکیوں سے زینت سہم جاتی اور خاموش ہو جاتی تھی۔ کیونکہ وہ اس سے قبل زمانے کی تلخیاں چکھ چکی تھی۔ اپنی زبان کو جنبش دے کر وہ مزید پچھتانا نہیں چاہتی تھی۔ خاموشی میں ہی اس کی اور اس کے بچے کی بھلائی سمجھتی تھی۔ وہ ایک چلتی پھرتی لاش بن گئی اور خود اپنی لاش اپنے ہی کندھوں پر اٹھائے پھرنے لگی۔ جیسے جیسے دن گذرنے لگے اکمل کی آوارگی میں اضافہ ہوتاگیا۔ زینت نے اسے صحیح راستے پر لانے کی ہر ممکن کوششیں، مرادیں اور منتیں کرتی رہی مگر تمام بےسود ثابت ہو گئیں۔ اب اکمل بات بات پر لڑنے جھگڑنے لگا اور کئی کئی دن گھر سے غائب رہنے لگا۔ اسے اپنی بیوی اور بچے کا خیال نہ رہا۔ زینت کو چند دن بعد پتہ چلا کہ پڑوس کے ایک گاؤں میں اس نے دوسری شادی کر لی ہے اور ان دنوں وہ اسی کے ساتھ رہنے لگا ہے۔

    ادھر زینت اپنے بچے کو سینے سے لگائے سسکیاں بھرتی اور خون کے گھونٹ پی کر رہنے لگی۔ اسے دن کی روشنی نشتر بن کر چبھنے لگی اور رات کے سناٹے کاٹ کھانے پر آمادہ ہو گئے مگر وہ مجبور و لاچار تھی۔ پھر بےبسی، تنہائی اور فاقہ کشی اس کی ساتھیاں بن گئیں۔ وہ خون کے آنسو روتی ہوئی خاموش رہنے لگی کیونکہ زینت اب اسے بھی کھونا نہیں چا ہتی تھی۔ وہ رو سکتی تھی اور اشک بہا سکتی تھی مگر ان اشکوں سے اپنے بچے کا پیٹ نہیں بھر سکتی تھی۔ فاقے بڑھنے لگے تو اس نے اپنے بچے کی خاطر پھر امیروں کے در پر دستک دے دیا۔ وہی برتن، میلے کپڑوں کے ڈھیر اور کوڑا کرکٹ اس کا مقدر بن گئے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے