Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

عورت

MORE BYہاجرہ مسرور

    کہانی کی کہانی

    عورت کی عزت نفس اور انتقام کو بنیاد بنا کر لکھی گئی کہانی ہے۔ تصدق اور قدسیہ آپس میں محبت کرتے ہیں لیکن بوجوہ دونوں کی شادی نہیں ہو پاتی اور کاظم قدسیہ کا شوہر بن جاتا ہے۔ جس کے بعد قدسیہ تصدق کو یکسر فراموش کر دیتی ہے۔ لیکن تصدق پر اس حادثہ کا نفسیاتی رد عمل یہ ہوتا ہے کہ وہ غلط روی کا شکار ہو جاتا ہے۔ کاظم وقتاً فوقتاً تصدق کو بہانہ بنا کر قدسیہ پرطنز کرتا رہتا تھا جسے قدسیہ نظر انداز کر دیتی تھی۔ ایک دن جب تصدق قدسیہ سے ملنے آتا ہے تو کاظم قدسیہ کو زہریلی ناگن سے مخاطب کرتے ہوئے پوچھتا ہے کہ بتاؤ اس سے کیا باتیں ہوئیں۔ قدسیہ کہتی ہے کہ جب آپ اپنی راتیں آوارہ عورتوں کے ساتھ بسر کرتے ہیں تو میں تو نہیں پوچھتی کیا باتیں ہوئیں۔ اس پر کاظم بپھر جاتا ہے۔ قدسیہ پولیس اسٹیشن فون کر دیتی ہے کہ کاظم مجھے قتل کرنا چاہتا ہے اور پھر پستول سےخود کو گولی مار لیتی ہے، پولیس کاظم کو گرفتار کر لیتی ہے۔

    ’’تصدق بھائی! یہ کنگھی سے ناآشنا بکھرے ہوئے بال، یہ کثیف پوشاک اور یہ بڑھا ہوا خط، میں پوچھتی ہوں آپ کو کیا ہوگیا ہے؟‘‘ قدسیہ نے تصدق کو حیرت سے دیکھتے ہوئے کہا۔ جو ایک مدت کے بعد اس کے سامنے تھا۔

    ’’قدسی! انجان نہ بنو۔ میں اپنے مضطرب دل کو تسکین دینے آخری بار آیا ہوں اور ابھی چلا جاؤں گا۔ ہاں ایک بار پھر اپنے انہیں دلنواز جملوں سے میرے کانوں میں رس ٹپکاؤ کہ تصدق میں تمہاری ہوں۔‘‘

    ’’کیا کہہ رہے ہیں آپ؟ سوچئے تو چھوٹے گاؤں سے کیا ناطہ؟‘‘

    ’’نہیں قدسی! ایک بار پھر وہی کہہ دو اعتراف محبت کی تجدید میری تاریک زندگی میں روشنی کی ایک کرن ہوگی۔‘‘ اس کے پاؤں لڑکھڑا رہے تھے۔ اور منہ سے شراب کی تیز بو آرہی تھی۔

    ’’آپ نے شراب کب منہ سے لگائی؟‘‘ قدسیہ نے جانتے ہوئے پوچھا۔

    ’’تم میری دکھتی رگوں کو نہ چھوؤ قدسی! لیکن اگر تم اپنے معلوم کرنے کے طفلانہ جذبے کو تسکین دینے پر ہی مصر ہو تو سن لو میری زندگی کی چند طویل چیخیں۔‘‘

    ’’آپ اپنی گفتگو کو دردناک بنا کر اپنی لغزشوں پر پردہ نہیں ڈال سکتے؟‘‘ وہ غصے سے بولی۔

    ’’تم جی کھول کر کہہ لو، جو کچھ بھی کہہ سکتی ہو۔ مجھے اعتراف ہے کہ میں نے تمہیں بھولنےکے لیے شاہدان بازاری کی پر پیچ زلفوں میں گم ہو جانا چاہا۔ شراب پی اور کچھ دیر کے لیے تم کو بھول گیا۔ لیکن شراب کا عارضی نشہ تمہاری یاد کے دائمی نشے پر فتح نہ پا سکا اور پھر وہی یاد جان لیوا۔۔۔‘‘

    قدسیہ کی پیشانی پر شکنیں پڑگئیں۔ وہ اس کی بات کاٹ کر تیزی سے بولی، ’’ہوش کی دنیا میں قدم رکھیے۔‘‘ پھر تصدق کی طرف سے منہ پھیر کر آتش دان پر رکھی ہوئی اپنے شوہر کاظم کی تصویر کو دیکھتے ہوئے کہنے لگی، ’’مدت ہوئی میں اپنے آپ کی یاد کو ماضی کے ملبے میں دفن کر دیا کیونکہ پاکیزہ محبت بھی کوئی نہ کوئی قربانی چاہتی ہے۔ لیکن آپ نے محبت کی ناکامی کا ڈھونگ رچا کر عیاشی کرنا شروع کردی۔ نفس کا بچاری مرد محبت میں نفسانی خواہشات کی تسکین نہ پاکر آپے سے باہر ہوگیا۔‘‘

    تصدق قدسیہ کاسرخ چہرہ دیکھ کر مبہوت رہ گیا۔ کیا وہ یہی سننے کے لیے آیا تھا۔ کیا اس نے اس دن کے لیے اپنی عزت و دولت کا خون کیا تھا۔ کیا وہ اس عورت کا نام لےکر جی رہا تھا۔ ’’بس کرو، میں یہ وعظ سننے نہیں آیا ہوں۔ بلکہ اپنی زخمی روح پر تمہارے اقرار محبت کا پھاہا رکھنے کی امید پر آیا ہوں۔‘‘ کہتے کہتے اس کی آواز آنسوؤں میں ڈوب گئی۔ ایک لمحہ رک کر پگھلا دینے والی آواز میں بولا، ’’قدسی کیا شہد کی نہر کا ایک قطرہ بھی میری تلخ زندگی کو نہیں بخشا جا سکتا؟‘‘ قدسیہ نے منہ پھیر کر خشک لہجے میں کہا، ’’آپ مجھے خیانت کا مرتکب دیکھنا چاہتے ہیں۔‘‘ وہ اپنے امکان سے کہیں بڑھ کر بول گئی۔

    ’’کیا تم اپنے وہ الفاظ بھول گئی کہ میری روح تمہاری ہے۔‘‘ تصدق نے ماضی کے ترکش کا آخری تیر چھوڑ دیا۔ قدسی کا سفید چہرہ سرخ ہوگیا۔ جیسے وہ سینے کے اندر پھوٹنے والے جذبات کے سوتوں کو وہیں دبا دینے کی کوشش کر رہی ہو۔ اس کی آنکھوں پر غم آلود دھند چھائی ہوئی تھی۔

    ’’کہا ہوگا۔ لیکن تجربے نے قبول کی تردید کردی۔ کاظم میرے جسم کا مالک ہے اور جسم کی حکمران روح، تو جسم و روح کو الگ کر دینے سے کچھ بھی نہیں رہ جاتا۔‘‘ قدسیہ تصدق کی تباہی سے وقتی طور پر متاثر ہو کر اپنی زبان کو دھوکہ دے رہی تھی۔

    ’’کیا یہ تمہارا فیصلہ ہے۔‘‘ تصدق نے امید بھری آواز میں کہا۔

    ’’ہاں!‘‘اس کے حلق کو چیرتا ہوا نکلا۔ وہ اس وقت محسوس کر رہی تھی کہ اس نے اپنی دکھوں سے بھری ہوئی زندگی کی آخری رنگینی بھی کھو دی۔ اس کی آنکھیں خشک تھیں اور دل خون کےآنسو رو رہا تھا۔

    ’’کاش میں تمہارے مکر وہ باطن سے فریب کی سنہری چادر پہلے ہی سرکا سکتا۔‘‘ تصدق کے صبر کا پیمانہ چھلک پڑا۔ اس نے قدسیہ کو پہلی بار کڑی نظروں سے دیکھا۔ اس کی دونوں مٹھیاں بھنچی ہوئی تھیں۔ جیسے وہ بے وفا قدسیہ کا سب کچھ مسل کر پھینک دینا چاہتا تھا۔ قدسیہ نے اس کی طرف دیکھا تو ایسا محسوس کیا کہ اس کے الفاظ کی خلیج جو دونوں کے درمیان حائل تھی خود بخود پٹتی جا رہی ہے اور وہ پھر اس کی طرف بڑھ رہی ہے۔

    ’’اب مجھے تم سے نفرت ہے۔‘‘ وہ پھر الفاظ کی اوٹ میں ہوگئی۔ تصدق نے ایک لمحے تک قدسیہ کو گھورا اور پھر جاتے جاتے کہہ گیا، ’’تو نے مجھے محبت کا فریب دے کر میری تباہی دیکھی۔ اب تو میری کامیاب زندگی سے جلنا ڈائن!‘‘ اس کے پیچھے قدسیہ کی کمزور بانہیں اس انداز میں پھیلی ہوئی تھیں جیسے وہ سب کچھ کھو بیٹھی تھی۔ شہد کی نہر تصدق کو اپنی حلاوت بخش چکی تھی۔

    تصدق اور قدسیہ خالہ زاد بہن بھائی تھے۔ قدسیہ کو بچپن ہی میں تصدق سے منسوب کر دیا گیا تھا۔ وہ دونوں ایک ساتھ پلے بڑھے، ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک رہے اور کیوں نہ رہتے جب کہ وہ سمجھتے تھے کہ چند برسوں کے بعد انہیں شادی کی زنجیروں میں جکڑ دیا جائے گا۔ لیکن! شادی کی مقررہ تاریخ سے کچھ دن قبل زمانے کے سرد گرم بوڑھوں میں ایک ذرا سی بات پر جھگڑا ہوا اور اتنا بڑھا کہ منگنی کے توڑ پر آ کر ختم ہوا۔ اٹھارہ برس کا عہد آناً فاناً میں فراموش کر دیا گیا۔ قدسیہ اور تصدق کے خواب محبت کی تعبیر دو دلوں کی کبھی نہ ختم ہونے والی ایک کشش تھی۔

    اس جھگڑے کے فوراً بعد ہی قدسیہ کا رشتہ ایک امیر کبیر شخص کے ساتھ کر دیا گیا۔ باجے بجے، آتش بازی میں آگ لگائی گئی، دیگیں کھنکیں اور بے بس قدسیہ کو سرخ جوڑے میں دلہن بنا کر رخصت کر دیا گیا۔ بیچاری قدسیہ دل ہی دل میں گھٹتی اور منہ سے کچھ نہ کہتی۔ شوہر بھی ملا تو اتنہا درجہ کا شکی اور کم ظرف۔ بات بات پر تصدق کے طعنے، ذرا دیر بھی خاموش بیٹھی تو کہا گیا اری کم بخت کس کا سوگ منایا جا رہا ہے۔ قدسیہ سنتی اور خون کے سے گھونٹ پی کر رہ جاتی۔ اس نے لاکھ چاہا کہ وہ کاظم کے دل سے یہ واہیات خیال نکال دے۔ لیکن وہاں تو اس کی ہر صفائی اسے اور بھی گہنگار بنا دیتی۔

    ادھر تصدق پر بھی شادی کے لیے زور دیا گیا۔ لیکن اس نے والدین کے فیصلے کے آگے سرنہ جھکایا۔ بلکہ قدسیہ سے زبردستی الگ کر دینے کی سزا میں اس نے باپ کی دولت دھڑلے سے ادھر ادھر اڑانا شروع کردی۔ وہ ہفتوں گھر میں صورت نہ دکھاتا۔ ہر طرف تصدق ہی کے چرچے تھے۔ بوڑھا باپ اپنے اکلوتے بیٹےکی بربادی دیکھتا اور کڑھتا۔ لیکن تصدق سے سامنا ہونے پر وہ اس پر اس کی بربادی کا الزام رکھتا۔ تصدق پر باپ کی سرزنش بالکل الٹا اثر کرتی۔ اگر باپ کبھی اس کے سامنے اپنی غلطی کا اعتراف کر لیتے تو شاید کچھ نہ ہوتا۔ لیکن بڑے بوڑھے تو اپنی غلطی کو ماننا ہی اپنی ہتک تصور کرتے ہیں۔

    تصدق کی غلط روی کی خبریں ہر روز نمک مرچ لگا لگا کر کاظم قدسیہ سے بیان کرتا۔ ایک روز تو کاظم نے باہر سے آتے ہی بڑے طنز سے کہا، ’’لوجی! آج تو تمہارے چہیتے زہرہ جان کے کمرے کے نیچے شراب میں مست نالی میں منہ ڈالے دیکھے گئے ہیں۔ وہ تو کہو کہ پولیس کے آنے سے پہلے ان کے ابا جان انہیں گھر اٹھوا لے گئے۔ ورنہ تم جانو۔‘‘ قدسیہ جلدی سے کمرے میں گھس گئی کہ کاظم کی زہریلی گفتگو نہ سن سکے۔ اس دن رات بھر وہ یہی سوچتی رہی کہ ہاں تصدیق نے میری ہی خاطر اپنی یہ حالت بنائی ہے۔ اب میں ہی اسے دنیا کے سامنے انسان کی صورت میں پیش کروں گی۔ آخر اس نے موقع ملنے پر وہی کیا جو سوچا تھا۔

    تصدق کے جانے کے بعد قدسیہ نڈھال ہو کر پڑ رہی۔ آج وہ اپنی آخری پونجی بھی کھو چکی تھی۔ بچپن کی محبت جو دیوانگی کی حد تک پہنچ چکی ہو،اسے بھول جانا کوئی بچوں کا کھیل نہ تھا۔ دوسرے ہر وقت کے طعن تشنیع، بیہودہ الزامات نے اس کے دل میں ایک طوفان سا برپا کر دیا تھا۔ کاظم کی بدمزاجی اور شکی پن اس کے لیے آہستہ آہستہ آنے والی موت تھی۔ لیکن وہ اب تک جی رہی تھی۔ صرف اس خیال کے سہارے کہ ابھی دنیا میں کوئی اسے دیوانہ وار چاہنےوالا بھی موجود ہے۔ یہ احساس اس کی ہستی کے بنجر میدان میں گلاب کے پھول کی طرح تھا۔ لیکن آج اس نے اپنے ہاتھوں اس یکہ و تنہا پھول کی پنکھڑیاں نوچ کر زمانے کی ہوا کے ہاتھوں سونپ دیں تھیں۔ آج اس کی زندگی بالکل سونی اور بے مقصد تھی۔

    شام کو کاظم غصے میں لال پیلا ہوتا گھر آیا۔ اسے کسی نے بتایا تھا کہ آج تصدق اس کے گھر سے نکلتے دیکھا گیا۔

    ’’کیوں جی! آج تمہارے ’’وہ‘‘ کیسے آئے تھے؟‘‘

    قدسیہ مارے خوف کے سفید پڑگئی۔

    ’’کون؟‘‘ اس نے ڈرتے ڈرتے سوال کیا۔

    ’’ارے! اتنی جلدی بھول گئیں؟ ہونا ہرجائی؟‘‘

    اسے شادی کے بعد پہلی مرتبہ قدسیہ کی طرف سے ایک بات ملی تھی۔ بھلا کیسے اس موقع کو ہاتھ سے جانے دیتا۔ قدسیہ کے سارے جسم کا خون سمٹ کر چہرے پر آگیا۔ جیسے اس کی رگوں میں سیکڑوں سوئیاں دوڑنے لگیں۔ تاہم وہ اپنے غصے کو ضبط کر کے بولی، ’’یونہی ملنےآگئے تھے۔‘‘

    ’’کیا کیا باتیں ہوئیں؟‘‘ وہ ایک گندی ہنسی ہنس کر بولا۔

    ’’وہ اب میرا بھائی ہے۔ آپ ناحق شک کرتے ہیں۔‘‘ وہ بات کو زیادہ طول نہ دینا چاہتی تھی۔

    ’’بکواس مت کرو، میں پوچھتا ہوں اتنی دیر تک کیا ہوتا رہا؟‘‘ کاظم نے جھپٹ کر اس کی سوکھی ہوئی کلائی مروڑ دی۔ ’’جلدی بول، ورنہ اچھا نہ ہوگا۔‘‘

    شادی کے بعد گالیاں تو اکثر ملا ہی کرتی تھیں لیکن یہ مار بالکل نئی تھی۔ ماں باپ کی لاڈلی جسے کبھی کسی نے انگلی نہ چھوائی تھی، آج بلا وجہ اتنا ظلم سہہ رہی تھی۔ وہ تکلیف سے زرد پڑ گئی۔ لیکن اس کی خودداری زندہ ہو گئی۔

    ’’جب آپ اپنی راتیں آوارہ عورتوں میں بسر کرتے ہیں تو میں نہیں پوچھتی کہ ان سے کیا باتیں ہوئیں!‘‘

    آدم کے پہلو سے نکلی ہوئی حوا کی بیٹی اپنے ازلی مساویانہ حق کی دعویدار تھی۔ لیکن ابن آدم جو عورت کی پیدائش کے مقصد کو پہلو سے گرا کر پاؤں سے کچلنے کا عادی تھام بھلا یہ جائز نکتہ چینی کیونکہ برداشت کرسکتا تھا۔ وہ سراپا شعلہ بن گیا۔ بیوی کی اتنی ہمت کہ وہ اس سے بازپرس کرے؟ یہ مرد کی آمرانہ ذہنیت پر ایک زوردار طمانچہ تھا۔ کاظم صداقت کی تلخی برداشت نہ کر سکا اور کونےمیں رکھا ہوا بید اس کے ہاتھ میں تھا۔ پھر قدسیہ پر مار پڑنے لگی۔ وہ چیخی چلائی لیکن اس کی آواز پر کوئی کیوں دوڑتا بھلا، کسی کو کیا غرض تھی کہ کسی کی بیوی یا بالفاظ دیگر ملکیت کےمتعلق بازپرس کرتا۔ مار کھاتے کھاتے اس کا جسم سن پڑگیا۔ اب وہ حیرت انگیز سکوت کے ساتھ لچکتے ہوئے بید کو گھور رہی تھی اور کاظم بے دردی سے اس کے جسم پر خونیں برقیں ڈال رہا تھا۔

    ’’بول جلدی زہریلی ناگن۔‘‘ وہ زبان پر چڑھی ہوئی گالیاں فراٹے سے بکنے لگا۔ لیکن قدسیہ خاموش تھی جیسے وہ پتھر کی ہوگئی تھی۔ کاظم اپنے بازوؤں کی قوت آزما کر کمرے سےباہر نکل گیا اور دفعتاً جیسے ایک ہی لمحے میں قدسیہ کو ہوش آگیا۔ اس نے بڑھ کر کمرے کا دروازہ اندر سے بند کرلیا۔ وہ آئینے کے سامنے کھڑی تھی۔ نچی کھچی جلد، ابلی ہوئی آنکھیں اور دکھتا نیلا جسم اس کے کانوں میں جیسے تصدق اور کاظم دونوں پھنکار رہے تھے۔

    ’’تو شہد کی نہر ہے۔‘‘

    ’’تو زہریلی ناگن ہے۔‘‘

    باہر سے کاظم دروازہ بھڑبھڑانے لگا۔ قدسیہ کے دل نے پکار کر کہا،’’تجھ کو جو جیسا سمجھے اس سے ویسا ہی سلوک کر۔‘‘

    ’’ہیلو! پولیس اسٹیشن؟‘‘ قدسیہ نے ریسیور اٹھا کر پھولی ہوئی سانسوں کے درمیان کہا۔ ’’مدد۔ مدد! کاظم مجھے قتل کرنا چاہتا ہے۔ مظفر گنج کوٹھی نمبر ۲۴۔‘‘ اس نے نےریسیور پھینک دیا اور دوڑ کر کاظم کا بھرا ہوا پستول دراز سے نکال کر دروازہ کھول دیا۔ کاظم اس کے ہاتھ میں پستول دیکھ کر خوفزدہ ہوا۔

    ’’آجاؤ اندر۔‘‘ وہ زہریلی ناگن کی طرح پھنکاری۔ یہ وہی کمزور اور بے بس بیوی تھی جو ذرا دیر قبل مار کھا کر خاموش رہی لیکن اب وہ کاظم کے سامنے ایک ’’سچی عورت‘‘کے روپ میں کھڑی تھی۔

    ’’ظالم مرد! اگر میں چاہوں تو اس وقت تیرا بھرا ہوا دماغ ایک ہی گولی سے اڑا دوں۔ لیکن نہیں میں تیری روح سے اپنی روح کو بہت فاصلے پر رکھنا چاہتی ہوں۔ تو نےمیرے ضبط کی شیرینی چکھی۔ اب میرے انتقام کے زہر کو بھی حلق سے اتار۔ یاد رکھ عورت ہیرے کی کنی ہے جو چاہے اسے اپنے جسم کی زینت بنائے جو چاہے موت کا باعث۔‘‘

    قدسیہ نے جرأت سے پستول کی نالی اپنے سینے سے لگالی۔ دھائیں کی لرزہ خیز آواز سے ہر چیز کانپ اٹھی اور ساتھ ہی آئینے میں قدسیہ کا خون آلودہ عکس۔ ناگن کاظم کو ڈس چکی تھی۔ وہ گھبرا کر صحن کی طرف پلٹا اور دیوانہ وار گھر سے بھاگا۔ پھاٹک پر لاری سےاترتے ہوئے سرخ پگڑی والوں نےاس کے کپڑوں پر خون کے دھبے دیکھ کر گھیر لیا اور دوسرے لمحے اس کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں جھنجھنا رہی تھیں۔

    مأخذ:

    سب افسانے میرے (Pg. 788)

    • مصنف: ہاجرہ مسرور
      • ناشر: مقبول اکیڈمی، لاہور
      • سن اشاعت: 1991

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے