باد صبا کا انتظار
ڈاکٹر آبادی میں داخل ہوا۔
راستے کے دونوں جانب اونچے کشادہ چبوتروں کا سلسلہ اس عمار ت تک چلا گیا تھا جو ککیا اینٹ کی تھی جس پر چونے سے قلعی کی گئی تھی۔ چبوتروں پر انواع و اقسام کے سامان ایک ایسی ترتیب سے رکھے تھے کہ دیکھنے والوں کو معلوم کئے بغیر قیمت کا اندازہ ہو جاتا تھا۔ سامان فروخت کرنے والے مختلف رنگوں اور نسلوں کے نمائندے تھے جو اپنی اپنی دوکانوں پر چاق و چوبند بیٹھے تھے۔ چبوتروں کا یہ سلسلہ اس عمارت پر جاکر ختم نہیں ہوتا تھا بلکہ عمارت کے دوسرے رخ پر اسی طرح کے چبوترے انواع و اقسام کے سامان کے ساتھ سجے ہوئے دور تک چلے گئے تھے۔ راستے میں گٹھیلے بدن کے مرد، کندھے پر مشکیزے لٹکائے ہاتھوں میں کٹورا پکڑے بجا رہے تھے اور چھڑکاؤ کرتے پھر رہے تھے۔ خریدار مختلف قبیلوں، گروہوں اور رنگوں کی پوشاک پہنے اس چبوترے سے اس چبوترے تک آ جارہے تھے۔ راستہ طرح طرح کی شیریں، نرم، سخت، کرخت، بھدی، چٹختی ہوئی، دکھی سکھی آوازوں سے بھرا ہوا تھا۔
ککیا اینٹ کی سفید عمارت کے دیواریں ناقابل عبور حد تک اونچی نہیں تھیں۔ ان میں جگہ جگہ در، دریچے اور روشندان تھے اور ان سے آتی ہوئی ھو، حق کی پراسرار گونج دار آوازیں بازار میں صاف سنائی دے رہی تھیں۔ بازار میں کھڑے ہو کر ان آوازوں کو سن کر ایسا لگتا تھا جیسے ان آوازوں کے جسم ہوں اور ان جسموں پر دراز سفید ریشم جیسی داڑھیاں ہوں اور کانوں سے نیچے تک کھیلتی ہوئی نرم نرم کاکلیں ہوں۔ ان آوازوں کو سن کر ایک ایسے سکون کا احساس ہوتا جو سخت لو میں، کوسوں کا سفر پا پیادہ طے کرنے کے بعد ٹھنڈی صراحی کا سوندھا سوندھا پانی سیر ہو کر پینے پر ملتا ہے۔ نیچی نیچی دیواروں والی اس نورانی عمارت کو چاروں طرف سے ستونوں، برجیوں، مناروں اور پھاٹکوں نے گھیر رکھا تھا جو بظاہر کسی محل کی موجودگی کا احساس دلاتے تھے۔ کسی نے شاید بہت کوشش کی بھی نہیں اور اگر کرتا بھی تو غالباً یہ جاننا بہت مشکل ہوتا کہ بازار اس سفید عمارت کو گھیرے ہوئے ہے یا بازار اس سفید عمارت کا باہری حصہ ہے یا یہ دونوں ستونوں اور مناروں والی عمارت کے ناقابل تقسیم حصے ہیں۔ یہ تینوں کسی واحد نقشے کی بنیادی لکیروں کی طرح ایک دوسرے سے متصل اور مسلسل تھے۔ محل نما عمارت کے اندر سے کبھی کبھی تیز آوازیں بلند ہوتیں جو سفید عمارت کے ’ھوحق‘ اور بازار کی چہکتی رنگا رنگ آوازوں پر ایک لمحے کے لئے چھا جاتیں۔ کبھی کبھی یہ وقفے طویل بھی ہو جاتے۔ پھر اچانک یہ بھی ہوتا کہ بازاروں کی آوازیں دھیمی دھیمی سرگوشیوں کے لب و لہجہ میں بلند ہوتیں ان میں کھنکھناہٹ پیدا ہوتی بہت سی آوازیں مل جاتیں اور پھر سفید عمارت نورانی کاکل دار آوازیں بازار کی آوازوں کے ساتھ مل کر محل کی سب آوازوں کو ڈھانپ لیتیں۔
ڈاکٹر نے ہاتھ لگا کر جنئیوں برابر کیا، گلے میں پڑے آلے کو ٹٹول کر محوس کیا اور ہاتھ میں تھامے بیگ کو مضبوطی سے پکڑے اس اونچے مستطیل کمرے میں داخل ہو گیا جو اس آبادی اور عمارتوں کے عین درمیان میں واقع تھا۔ ایک لمحہ کو ٹھٹھک کر اس نے کمرے کی سو گوار ٹھنڈی خاموشی بھری فضا سے خود کو ہم آہنگ کیا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ وہ اس بےپناہ حسین کمرے کو دیکھ کر سہم گیا ہو۔ کمرے کے درمیان مدور پایوں کی ایک بڑی اور حسین مسہری پڑی تھی جس کے سرہانے کے سیاہ حصے میں نفیس کام بنا ہوا تھا۔ مسہری پر قیمتی اور مرعوب کرنے والا بستر لگا ہوا تھا اور اس بستر پر وہ بدن رکھا ہوا تھا۔ وہ ایک دراز قد نہایت حسین و جمیل خاتون تھی۔ اس کے بال ترکی نژاد عورتوں کی طرح سنہرے تھے جن سے عمر کی شہادت نہیں ملتی تھی۔ اس کی پیشانی شفاف اور ناک ستواں اور بلند تھی۔ آنکھیں نیم وا اور سرمگیں تھیں۔ ہونٹ اور رخسار بیماری کے باوجود گلابی تھے۔ ہونٹ بھی نیم وا تھے اور سفید موتی سے دانت ستاروں کی طرح سانس کے زیر و بم کے ساتھ ساتھ رہ رہ کر دمک رہے تھے۔ شفاف گرد پر نیلگوں مہین رگیں نظر آ رہی تھیں اور گردن کے نیچے کا عورت حصہ اٹھا ہوا اور مخروطی تھا۔ ساعد سیمیں کولہوں کے ابھار سے لگے ہوئے رکھے تھے۔ ڈاکٹر نے غور سے اس کے ہاتھوں پیروں کو دیکھا اور ایک عجیب بات محسوس کی کہ خاتون کے بھرے بھرے ہاتھ اور پیر محنت کے عادی ہونے کی غمازی کر رہے تھے لیکن انہیں نرم اور صاف ستھرا رکھنے کا اہتمام بھی کیا گیا تھا۔ مریضہ کی سانس بے ترتیب تھی۔ کئی لمحوں تک بدن ساکت نظر آتا پھر یکایک جھٹکے کے ساتھ بے ترتیب سانسیں آنے لگتیں۔
مسہری سے ٹکا ہوا وہ دراز قد شخص استادہ تھا جس کے سر اور بالوں کو ایک گوشے دار کلاہ نے ڈھانپ رکھا تھا۔ سرخ و سفید معمر چہرے پر خوبصورت داڑھی تھی جو باترتیب نہیں تھی۔ اس شخص کی آنکھوں میں جلال و جمال کی پر چھائیاں رہ رہ کر چمکتی تھیں۔ اپنی شخصیت اور لباس سے وہ کبھی بادشاہ لگتا کبھی درویش۔ ڈاکٹر مسہری کی دوسری طرف اس شخص کے مقابل سر جھکا کر کھڑا ہو گیا۔
ڈاکٹر دیر تک مریضہ کو دیکھتا رہا۔ وہ شخص متفکر آنکھوں سے مریضہ کو ایک ٹک دیکھے جا رہا تھا۔ دفعتاً ڈاکٹر کو احساس ہوا کہ اس بڑے مستطیل کمرے کے چاروں طرف بہت سے کمرے ہیں جن پر پردے پڑے ہوئے ہیں اور ان پردوں کے پیچھے چوڑیوں کی کھنکھناہٹ دھیمی دھیمی مغموم سرگوشیاں اور دبی دبی آہیں سنائی دے رہی ہیں۔ کسی کسی کمرے میں نوعمر بچوں کی شور مچانے والی آوازیں بھی بلند ہو رہی تھیں۔ جب ان آوازوں کا شور ایک خاص آہنگ سے زیادہ بلند ہو جاتا تو دراز قدر شخص کے ماتھے پر ناگواری کی لکیریں کھینچ جاتیں۔ ڈاکٹر نے محسوس کیا کہ پردے کے پیچھے سے بلند ہونے والی سرگوشیاں قابل فہم ہیں لیکن ان کا تعلق کسی ایک زبان سے نہیں ہے۔
ڈاکٹر نے قدرے توقف کے بعد مرض کا حال جاننے کے لئے اس شخص کے رشتے کے بارے میں سوچا۔
’’یہ۔۔۔ آپ کی کون ہیں؟‘‘
’’عزیزہ ہیں‘‘
’’کیا؟‘‘
’’عزیزہ کا مطلب بہت عزت والی اور بہت پیاری بھی‘‘
’’آپ سے سمبندھ کیا ہے؟‘‘
’’میں ہی رب مجازی ہوں۔‘‘
ڈاکٹر آنکھیں پھیلائے اس کا چہرہ دیکھتا رہا۔ پھر آواز صاف کر کے بولا، ’’ڈاکٹر ہونے کے ناطے مجھے جاننا چاہیئے کہ روگی کو کیا روگ ہے۔ روگ کے بارے میں جاننے کے لئے آپ سے ان کے سمبندھ کے بارے پوچھنا آوشک ہے۔ آپ جو سمبندھ بتا رہے ہیں وہ میری سمجھ میں نہیں آ سکا۔‘‘
دراز قد انسان تکلیف کے ساتھ مسکرایا۔
’’آپ معلوم کیجئے جو کچھ میرے علم حضوری میں ہے آپ کے روبرو پیش کروں گا‘۔ ‘
ڈاکٹر کے چہرے کے تاثرات سے محسوس ہو رہا تھا کہ وہ اس جملے کو مکمل طور پر نہ سمجھ پانے کے باوجود مطمئن ہے کہ وہ شخص مریضہ کے بارے میں بہت کچھ یا سب کچھ جانتا ہے۔
’’یہ دشا کب سے ہے؟‘‘
’’بہت عرصے سے‘‘
پھر دیر تک خاموشی رہی۔ خاموشی اور زیادہ گہری محسوس ہونے لگی تھی کہ برابر کے کمروں سے اسی قابل فہم مگر نامانوس زبان میں سرگوشیاں بلند ہو رہی تھیں۔
دراز قد انسان نے ڈاکٹر کے چہرے پر پریشانی پڑھی اور اس بار وہ تفصیل سے گویا ہوا۔
’’عزیزہ۔۔۔ میری مراد مریضہ نے مدتوں سے غذا کو منہ نہیں لگایا۔ گھریلو نسخوں سے تیار شدہ ادویات ہونٹوں تک تو پہنچ جاتی ہے لیکن معدے تک نہیں جاپا تیں۔ مریضہ اپنے مرض کا اظہار بذات خود کبھی نہیں کرتیں۔ کبھی کبھی جلد بدن بخار کی شدت سے سرخ ہو جاتی ہے اور زندگی کے سارے آثار ختم ہوتے محسوس ہونے لگتے ہیں۔ تنفس کی بے ترتیبی تردد کا سب سے بڑا سبب ہے۔‘‘
’’کس چیز کی بےترتیبی‘‘ ڈاکٹر نے پوچھا۔
تنفس کی، ’’مراد سانسوں کی بے ترتیبی۔‘‘
ڈاکٹر نے ایک گہر سانس لی اور جھجھکتے ہوئے پوچھا۔
’’کیا میں روگی کو آلہ لگا کر دیکھ سکتا ہوں؟‘‘
’’ضرور۔ عزیزہ کبھی بھی پردہ نشین خاتون نہیں رہیں۔‘‘
مریضہ کی سانسیں اس وقت نسبتاً معمول پر تھیں۔ ڈاکٹر نے سینے پر پڑے کام دار دوپٹے کو تہذیب سے ایک طرف کیا اورسینے پر آلہ رکھ کر غور سے سنا۔ اس کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔ اس نے جلدی سے آلہ ہٹایا اور کان لگا کر کمرے کے ہر کونے سے ابھرتی مہین سے مہین آواز کو سننا چاہا۔ کمرے میں سانسوں کے علاوہ اور کوئی آواز نہیں تھی۔ اس نے پھر آلہ لگایا۔ اس کے چہرے پر پھر حیرت کے آثار نمودار ہوئے۔ وہ دیر تک آلے کو سینے پر رکھے آنکھیں بند کئے کچھ سنتا رہا۔ مریضہ کے چہرے پر، جتنے وقت تک آلہ رہا اطمینان رہا۔ ڈاکٹر نے آلہ ہٹایا اور بےچین آواز میں بولا۔
’’روگی کا دل بہت اچھی حالت میں ہے۔ کسی روگ کا کوئی نشان نظر نہیں آتا۔‘‘
دراز قد انسان کے چہرے پر کوئی تحیر نمودار نہیں ہوا۔
’’کیا اس بات سے آپ کو اچرج نہیں؟‘‘
’’نہیں‘‘ دراز قد انسان کا جواب مختصر تھا۔ ڈاکٹر کو اس جواب کی امید نہیں تھی لیکن اس نے خود کو سنبھالا اور ایک ایک لفظ پر زور دے کر بولا۔
’’اب جو بات آپ کو بتاؤں گا اسے سن کر آپ اچھل پڑیں گے۔ روگی کے دل سے سنگیت کی لہریں نکل رہی ہیں جنہیں میں نے کئی بار سنا۔‘‘
دراز قد انسان دھیمے سے وقار کے ساتھ مسکرایا اور آہستہ سے اثبات میں سر ہلایا۔
دراز قد انسان کے اطمینان پر ڈاکٹر کو حیرت ہوئی لیکن اس نے سلسلہ کلام جاری رکھا۔
’’ہر دے کی چال سے جو دھن پھوٹ رہی تھی اس میں ندی کے بہنے کی کل کل تھی۔ ہوا کی مد بھری سرسراہٹ تھی، پنچھیوں کی چہکار تھی۔۔۔‘‘
دراز قد انسان نے ہاتھ اٹھا کر اسے روک دیا۔ ڈاکٹر کو محسوس ہوا کہ دراز قد انسان کسی پچھلی بات کو یاد کر کے کہیں کھو گیا ہے۔ دراز قد انسان گویا ہوا۔
’’اس آواز میں میدان جنگ میں طبل پر پڑنے والی پہلی ضرب کی آواز کا ارتعاش بھی ہوگا۔ دو محبت کرنے والے بدن جب پہلی بار ملتے ہیں اور ایک دوسرے کو اپنے ہونٹوں سے محسوس کرتے ہیں وہ نرم لذت بھری آواز بھی ہوگی۔ ملا گیری رنگ کی عبا پہنے صوفی کے نعرہ مستانہ کی گونچ بھی ہوگی۔ دربار میں خون بہا کا فیصلہ کرنے والے بادشاہ کی آواز کی گرج بھی شامل ہو گی۔ صحراؤں میں بہار کی آمد سے متشکل ہونے والی زنجیر کی جھنک بھی ہو گی اور بنجر زمین پر پڑنے والے موسم بر شگال کے پہلے قطرے کی کھنک بھی ہو گی۔ بربط، ستار اور طبلے کی۔۔۔‘‘ وہ خاموش ہو گیا۔
’’ہاں کچھ اس پرکار کی آوازیں ہیں پر انہیں شبدوں میں بتا پانا بہت کٹھن ہے۔‘‘ ڈاکٹر بولا۔ اچانک برابر کے کمرے سے ایک نوعمر لڑکا نکلا۔
’’ڈاکٹر نے لیڈی کو کیا روگ بتایا اندر سے انکوائری کی ہے۔‘‘
یہ آواز سنتے ہی مریضہ کے چہرے کا رنگ بدل گیا اور سانسیں یکا یک بے ترتیب ہو گئیں۔ دراز قد شخص کے چہرے پر ناگواری کا دھواں پھیل گیا۔
’’اندر جاؤ۔ اند ر جاؤ۔ خبردار بلا اجازت یہاں قدم نہ رکھنا۔‘‘ نو عمر بچہ حیرت سے اسے دیکھتا ہوا اندر چلا گیا۔
ڈاکٹر نے مریضہ کے سنہرے بالوں میں کنگھی کرنے والے انداز سے جڑوں تک انگلیاں لے جاکر کاسہ سر پر ہتھیلی جمادی۔
’’فیور بڑھ رہا ہے‘‘ وہ بڑبڑایا۔ پیشانی کی پسینے کے قطروں سے اپنی ہتھیلی کو نم کرتا ہوا وہ آنکھوں تک ہاتھ لے گیا۔ انگوٹھے کے نرم پیٹ سے آنکھ کے پپوٹے کو آہستگی سے اوپر اٹھایا۔ آنکھوں کی سفیدی چمکی۔ رخساروں کی گرمی ہاتھ کی پشت سے محسوس کرتا ہوا وہ دھیمے سے بولا۔
’’اصل مرض کا تعلق تنفس سے ہے۔‘‘
ڈاکٹر نے اس کے چہرے کی طرف دیکھ کر کچھ سوچا اور پھر مریضہ کے ابھرتے ڈوبتے سینے پر آنکھیں جمادیں اور بے ترتیب سانسوں کا معائنہ کرنے لگا۔ ڈاکٹر نے سیدھے کھڑے ہو کر بہت یقین کے ساتھ کہا۔
’’اس روگی کے سارے شریر میں جیون ہے۔ کیول سانس کی پرابلم ہے اور یہی سب سے بڑی پرابلم ہے۔ پھیپھڑے کی خرابی کا کوئی علاج نہیں ہے۔‘‘
’’کیا آپ کو یقین کامل ہے کہ اعضائے تنفس قطعاً بیکار ہو چکے ہیں؟‘‘ ڈاکٹر نے اس کی طرف دیکھا تو اس نے ڈاکٹر کو آسان زبان میں سوال سمجھایا۔
ڈاکٹر نے آلہ لگا کر پہلی بار پھیپھڑوں کو دیکھا۔ دیر تک دیکھتا رہا۔ پھر بولا۔
’’بڑی و چتر بات ہے۔ پھیپھڑے بالکل ٹھیک ہیں پرپوری سانس نہیں لے پا رہے۔‘‘
’’پوری سانس لینے سے بدن کے دیگر اعضا کی قوت کا کیا تعلق ہے‘‘ ؟ دراز قد انسان نے سوال کیا
’’بہت بڑا سمبندھ ہے۔ تازہ ہوا جب پھیپھڑوں کے راستے رکت میں ملتی ہے تو جیون کا سروپ بنتا ہے۔ وہ جیون رکت کے ساتھ مل کر شریر کے ہر انگ کو شکتی دیتا ہے۔ پوری ہوا نہ ملے تو رکت۔۔۔ لال رکت تھوڑی دیر بعد نیلا پڑ جاتا ہے اور شریر کے ہر بھاگ میں روگ چھا جاتا ہے۔‘‘
’’آپ کا گمان ہے اعضائے تنفس اپنا کام بحسن و خوبی انجام دے رہے ہیں تو پھر بدن میں تازہ ہوا کی کمی کیوں ہے؟‘‘
’’شریر میں تازہ ہوا کی کمی اس لئے ہے کہ اس کمرے میں تازہ ہوا نہیں ہے۔‘‘ ڈاکٹر نے اعتماد کے ساتھ جواب دیا۔
’’اس کمرے میں کھلنے والے باقی کمروں کے دروازے کھلے ہوئے ہیں ان کمروں میں باہر کی طرف بےشمار کھڑکیاں ہیں‘‘ دراز قد انسان نے تفصیل سے بتایا۔
’’پر مجھے لگتا ہے کہ کسی کھڑکی سے تازہ ہوا نہیں آ رہی۔‘‘
دفعتاً برابر کا ایک کمرا کھلا اور ایک نو عمر فراک اسکرٹ پہنے داخل ہوئی۔
’’ماما نے پوچھا کہ لیڈی کا فیورڈاؤن ہوا کہ نہیں؟‘‘
مریضہ کا بدن ایک لمحے کو تڑپا اور سانس پھر بے ترتیب ہو گئی۔
’’دور ہو جاؤ میرے نگاہوں کے سامنے سے۔ ناہنجار۔‘‘ دراز قد انسان شدید طیش کے عالم میں دانت پیستے ہوئے آواز کے آہنگ کو کم کرتے ہوئے بولا۔
’’آپ اینگری کیوں ہوتے ہیں۔ میرے کو حال پوچھنے اندر سے ماما بھیجتی ہے۔ میری مسٹیک کدھر ہوتی۔‘‘ لڑکی نے ناک پھلا کر احتجاج کیا۔
اس لڑکی کے الفاظ، لہجے اور آواز سے دراز قد انسان پر پاگل پن جیسا دورہ پڑ گیا۔ ڈاکٹر نے بمشکل اسے