aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

باد صبا کا انتظار

سید محمد اشرف

باد صبا کا انتظار

سید محمد اشرف

MORE BYسید محمد اشرف

    ڈاکٹر آبادی میں داخل ہوا۔

    راستے کے دونوں جانب اونچے کشادہ چبوتروں کا سلسلہ اس عمار ت تک چلا گیا تھا جو ککیا اینٹ کی تھی جس پر چونے سے قلعی کی گئی تھی۔ چبوتروں پر انواع و اقسام کے سامان ایک ایسی ترتیب سے رکھے تھے کہ دیکھنے والوں کو معلوم کئے بغیر قیمت کا اندازہ ہو جاتا تھا۔ سامان فروخت کرنے والے مختلف رنگوں اور نسلوں کے نمائندے تھے جو اپنی اپنی دوکانوں پر چاق و چوبند بیٹھے تھے۔ چبوتروں کا یہ سلسلہ اس عمارت پر جاکر ختم نہیں ہوتا تھا بلکہ عمارت کے دوسرے رخ پر اسی طرح کے چبوترے انواع و اقسام کے سامان کے ساتھ سجے ہوئے دور تک چلے گئے تھے۔ راستے میں گٹھیلے بدن کے مرد، کندھے پر مشکیزے لٹکائے ہاتھوں میں کٹورا پکڑے بجا رہے تھے اور چھڑکاؤ کرتے پھر رہے تھے۔ خریدار مختلف قبیلوں، گروہوں اور رنگوں کی پوشاک پہنے اس چبوترے سے اس چبوترے تک آ جارہے تھے۔ راستہ طرح طرح کی شیریں، نرم، سخت، کرخت، بھدی، چٹختی ہوئی، دکھی سکھی آوازوں سے بھرا ہوا تھا۔

    ککیا اینٹ کی سفید عمارت کے دیواریں ناقابل عبور حد تک اونچی نہیں تھیں۔ ان میں جگہ جگہ در، دریچے اور روشندان تھے اور ان سے آتی ہوئی ھو، حق کی پراسرار گونج دار آوازیں بازار میں صاف سنائی دے رہی تھیں۔ بازار میں کھڑے ہو کر ان آوازوں کو سن کر ایسا لگتا تھا جیسے ان آوازوں کے جسم ہوں اور ان جسموں پر دراز سفید ریشم جیسی داڑھیاں ہوں اور کانوں سے نیچے تک کھیلتی ہوئی نرم نرم کاکلیں ہوں۔ ان آوازوں کو سن کر ایک ایسے سکون کا احساس ہوتا جو سخت لو میں، کوسوں کا سفر پا پیادہ طے کرنے کے بعد ٹھنڈی صراحی کا سوندھا سوندھا پانی سیر ہو کر پینے پر ملتا ہے۔ نیچی نیچی دیواروں والی اس نورانی عمارت کو چاروں طرف سے ستونوں، برجیوں، مناروں اور پھاٹکوں نے گھیر رکھا تھا جو بظاہر کسی محل کی موجودگی کا احساس دلاتے تھے۔ کسی نے شاید بہت کوشش کی بھی نہیں اور اگر کرتا بھی تو غالباً یہ جاننا بہت مشکل ہوتا کہ بازار اس سفید عمارت کو گھیرے ہوئے ہے یا بازار اس سفید عمارت کا باہری حصہ ہے یا یہ دونوں ستونوں اور مناروں والی عمارت کے ناقابل تقسیم حصے ہیں۔ یہ تینوں کسی واحد نقشے کی بنیادی لکیروں کی طرح ایک دوسرے سے متصل اور مسلسل تھے۔ محل نما عمارت کے اندر سے کبھی کبھی تیز آوازیں بلند ہوتیں جو سفید عمارت کے ’ھوحق‘ اور بازار کی چہکتی رنگا رنگ آوازوں پر ایک لمحے کے لئے چھا جاتیں۔ کبھی کبھی یہ وقفے طویل بھی ہو جاتے۔ پھر اچانک یہ بھی ہوتا کہ بازاروں کی آوازیں دھیمی دھیمی سرگوشیوں کے لب و لہجہ میں بلند ہوتیں ان میں کھنکھناہٹ پیدا ہوتی بہت سی آوازیں مل جاتیں اور پھر سفید عمارت نورانی کاکل دار آوازیں بازار کی آوازوں کے ساتھ مل کر محل کی سب آوازوں کو ڈھانپ لیتیں۔

    ڈاکٹر نے ہاتھ لگا کر جنئیوں برابر کیا، گلے میں پڑے آلے کو ٹٹول کر محوس کیا اور ہاتھ میں تھامے بیگ کو مضبوطی سے پکڑے اس اونچے مستطیل کمرے میں داخل ہو گیا جو اس آبادی اور عمارتوں کے عین درمیان میں واقع تھا۔ ایک لمحہ کو ٹھٹھک کر اس نے کمرے کی سو گوار ٹھنڈی خاموشی بھری فضا سے خود کو ہم آہنگ کیا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ وہ اس بےپناہ حسین کمرے کو دیکھ کر سہم گیا ہو۔ کمرے کے درمیان مدور پایوں کی ایک بڑی اور حسین مسہری پڑی تھی جس کے سرہانے کے سیاہ حصے میں نفیس کام بنا ہوا تھا۔ مسہری پر قیمتی اور مرعوب کرنے والا بستر لگا ہوا تھا اور اس بستر پر وہ بدن رکھا ہوا تھا۔ وہ ایک دراز قد نہایت حسین و جمیل خاتون تھی۔ اس کے بال ترکی نژاد عورتوں کی طرح سنہرے تھے جن سے عمر کی شہادت نہیں ملتی تھی۔ اس کی پیشانی شفاف اور ناک ستواں اور بلند تھی۔ آنکھیں نیم وا اور سرمگیں تھیں۔ ہونٹ اور رخسار بیماری کے باوجود گلابی تھے۔ ہونٹ بھی نیم وا تھے اور سفید موتی سے دانت ستاروں کی طرح سانس کے زیر و بم کے ساتھ ساتھ رہ رہ کر دمک رہے تھے۔ شفاف گرد پر نیلگوں مہین رگیں نظر آ رہی تھیں اور گردن کے نیچے کا عورت حصہ اٹھا ہوا اور مخروطی تھا۔ ساعد سیمیں کولہوں کے ابھار سے لگے ہوئے رکھے تھے۔ ڈاکٹر نے غور سے اس کے ہاتھوں پیروں کو دیکھا اور ایک عجیب بات محسوس کی کہ خاتون کے بھرے بھرے ہاتھ اور پیر محنت کے عادی ہونے کی غمازی کر رہے تھے لیکن انہیں نرم اور صاف ستھرا رکھنے کا اہتمام بھی کیا گیا تھا۔ مریضہ کی سانس بے ترتیب تھی۔ کئی لمحوں تک بدن ساکت نظر آتا پھر یکایک جھٹکے کے ساتھ بے ترتیب سانسیں آنے لگتیں۔

    مسہری سے ٹکا ہوا وہ دراز قد شخص استادہ تھا جس کے سر اور بالوں کو ایک گوشے دار کلاہ نے ڈھانپ رکھا تھا۔ سرخ و سفید معمر چہرے پر خوبصورت داڑھی تھی جو باترتیب نہیں تھی۔ اس شخص کی آنکھوں میں جلال و جمال کی پر چھائیاں رہ رہ کر چمکتی تھیں۔ اپنی شخصیت اور لباس سے وہ کبھی بادشاہ لگتا کبھی درویش۔ ڈاکٹر مسہری کی دوسری طرف اس شخص کے مقابل سر جھکا کر کھڑا ہو گیا۔

    ڈاکٹر دیر تک مریضہ کو دیکھتا رہا۔ وہ شخص متفکر آنکھوں سے مریضہ کو ایک ٹک دیکھے جا رہا تھا۔ دفعتاً ڈاکٹر کو احساس ہوا کہ اس بڑے مستطیل کمرے کے چاروں طرف بہت سے کمرے ہیں جن پر پردے پڑے ہوئے ہیں اور ان پردوں کے پیچھے چوڑیوں کی کھنکھناہٹ دھیمی دھیمی مغموم سرگوشیاں اور دبی دبی آہیں سنائی دے رہی ہیں۔ کسی کسی کمرے میں نوعمر بچوں کی شور مچانے والی آوازیں بھی بلند ہو رہی تھیں۔ جب ان آوازوں کا شور ایک خاص آہنگ سے زیادہ بلند ہو جاتا تو دراز قدر شخص کے ماتھے پر ناگواری کی لکیریں کھینچ جاتیں۔ ڈاکٹر نے محسوس کیا کہ پردے کے پیچھے سے بلند ہونے والی سرگوشیاں قابل فہم ہیں لیکن ان کا تعلق کسی ایک زبان سے نہیں ہے۔

    ڈاکٹر نے قدرے توقف کے بعد مرض کا حال جاننے کے لئے اس شخص کے رشتے کے بارے میں سوچا۔

    ’’یہ۔۔۔ آپ کی کون ہیں؟‘‘

    ’’عزیزہ ہیں‘‘

    ’’کیا؟‘‘

    ’’عزیزہ کا مطلب بہت عزت والی اور بہت پیاری بھی‘‘

    ’’آپ سے سمبندھ کیا ہے؟‘‘

    ’’میں ہی رب مجازی ہوں۔‘‘

    ڈاکٹر آنکھیں پھیلائے اس کا چہرہ دیکھتا رہا۔ پھر آواز صاف کر کے بولا، ’’ڈاکٹر ہونے کے ناطے مجھے جاننا چاہیئے کہ روگی کو کیا روگ ہے۔ روگ کے بارے میں جاننے کے لئے آپ سے ان کے سمبندھ کے بارے پوچھنا آوشک ہے۔ آپ جو سمبندھ بتا رہے ہیں وہ میری سمجھ میں نہیں آ سکا۔‘‘

    دراز قد انسان تکلیف کے ساتھ مسکرایا۔

    ’’آپ معلوم کیجئے جو کچھ میرے علم حضوری میں ہے آپ کے روبرو پیش کروں گا‘۔

    ڈاکٹر کے چہرے کے تاثرات سے محسوس ہو رہا تھا کہ وہ اس جملے کو مکمل طور پر نہ سمجھ پانے کے باوجود مطمئن ہے کہ وہ شخص مریضہ کے بارے میں بہت کچھ یا سب کچھ جانتا ہے۔

    ’’یہ دشا کب سے ہے؟‘‘

    ’’بہت عرصے سے‘‘

    پھر دیر تک خاموشی رہی۔ خاموشی اور زیادہ گہری محسوس ہونے لگی تھی کہ برابر کے کمروں سے اسی قابل فہم مگر نامانوس زبان میں سرگوشیاں بلند ہو رہی تھیں۔

    دراز قد انسان نے ڈاکٹر کے چہرے پر پریشانی پڑھی اور اس بار وہ تفصیل سے گویا ہوا۔

    ’’عزیزہ۔۔۔ میری مراد مریضہ نے مدتوں سے غذا کو منہ نہیں لگایا۔ گھریلو نسخوں سے تیار شدہ ادویات ہونٹوں تک تو پہنچ جاتی ہے لیکن معدے تک نہیں جاپا تیں۔ مریضہ اپنے مرض کا اظہار بذات خود کبھی نہیں کرتیں۔ کبھی کبھی جلد بدن بخار کی شدت سے سرخ ہو جاتی ہے اور زندگی کے سارے آثار ختم ہوتے محسوس ہونے لگتے ہیں۔ تنفس کی بے ترتیبی تردد کا سب سے بڑا سبب ہے۔‘‘

    ’’کس چیز کی بےترتیبی‘‘ ڈاکٹر نے پوچھا۔

    تنفس کی، ’’مراد سانسوں کی بے ترتیبی۔‘‘

    ڈاکٹر نے ایک گہر سانس لی اور جھجھکتے ہوئے پوچھا۔

    ’’کیا میں روگی کو آلہ لگا کر دیکھ سکتا ہوں؟‘‘

    ’’ضرور۔ عزیزہ کبھی بھی پردہ نشین خاتون نہیں رہیں۔‘‘

    مریضہ کی سانسیں اس وقت نسبتاً معمول پر تھیں۔ ڈاکٹر نے سینے پر پڑے کام دار دوپٹے کو تہذیب سے ایک طرف کیا اورسینے پر آلہ رکھ کر غور سے سنا۔ اس کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔ اس نے جلدی سے آلہ ہٹایا اور کان لگا کر کمرے کے ہر کونے سے ابھرتی مہین سے مہین آواز کو سننا چاہا۔ کمرے میں سانسوں کے علاوہ اور کوئی آواز نہیں تھی۔ اس نے پھر آلہ لگایا۔ اس کے چہرے پر پھر حیرت کے آثار نمودار ہوئے۔ وہ دیر تک آلے کو سینے پر رکھے آنکھیں بند کئے کچھ سنتا رہا۔ مریضہ کے چہرے پر، جتنے وقت تک آلہ رہا اطمینان رہا۔ ڈاکٹر نے آلہ ہٹایا اور بےچین آواز میں بولا۔

    ’’روگی کا دل بہت اچھی حالت میں ہے۔ کسی روگ کا کوئی نشان نظر نہیں آتا۔‘‘

    دراز قد انسان کے چہرے پر کوئی تحیر نمودار نہیں ہوا۔

    ’’کیا اس بات سے آپ کو اچرج نہیں؟‘‘

    ’’نہیں‘‘ دراز قد انسان کا جواب مختصر تھا۔ ڈاکٹر کو اس جواب کی امید نہیں تھی لیکن اس نے خود کو سنبھالا اور ایک ایک لفظ پر زور دے کر بولا۔

    ’’اب جو بات آپ کو بتاؤں گا اسے سن کر آپ اچھل پڑیں گے۔ روگی کے دل سے سنگیت کی لہریں نکل رہی ہیں جنہیں میں نے کئی بار سنا۔‘‘

    دراز قد انسان دھیمے سے وقار کے ساتھ مسکرایا اور آہستہ سے اثبات میں سر ہلایا۔

    دراز قد انسان کے اطمینان پر ڈاکٹر کو حیرت ہوئی لیکن اس نے سلسلہ کلام جاری رکھا۔

    ’’ہر دے کی چال سے جو دھن پھوٹ رہی تھی اس میں ندی کے بہنے کی کل کل تھی۔ ہوا کی مد بھری سرسراہٹ تھی، پنچھیوں کی چہکار تھی۔۔۔‘‘

    دراز قد انسان نے ہاتھ اٹھا کر اسے روک دیا۔ ڈاکٹر کو محسوس ہوا کہ دراز قد انسان کسی پچھلی بات کو یاد کر کے کہیں کھو گیا ہے۔ دراز قد انسان گویا ہوا۔

    ’’اس آواز میں میدان جنگ میں طبل پر پڑنے والی پہلی ضرب کی آواز کا ارتعاش بھی ہوگا۔ دو محبت کرنے والے بدن جب پہلی بار ملتے ہیں اور ایک دوسرے کو اپنے ہونٹوں سے محسوس کرتے ہیں وہ نرم لذت بھری آواز بھی ہوگی۔ ملا گیری رنگ کی عبا پہنے صوفی کے نعرہ مستانہ کی گونچ بھی ہوگی۔ دربار میں خون بہا کا فیصلہ کرنے والے بادشاہ کی آواز کی گرج بھی شامل ہو گی۔ صحراؤں میں بہار کی آمد سے متشکل ہونے والی زنجیر کی جھنک بھی ہو گی اور بنجر زمین پر پڑنے والے موسم بر شگال کے پہلے قطرے کی کھنک بھی ہو گی۔ بربط، ستار اور طبلے کی۔۔۔‘‘ وہ خاموش ہو گیا۔

    ’’ہاں کچھ اس پرکار کی آوازیں ہیں پر انہیں شبدوں میں بتا پانا بہت کٹھن ہے۔‘‘ ڈاکٹر بولا۔ اچانک برابر کے کمرے سے ایک نوعمر لڑکا نکلا۔

    ’’ڈاکٹر نے لیڈی کو کیا روگ بتایا اندر سے انکوائری کی ہے۔‘‘

    یہ آواز سنتے ہی مریضہ کے چہرے کا رنگ بدل گیا اور سانسیں یکا یک بے ترتیب ہو گئیں۔ دراز قد شخص کے چہرے پر ناگواری کا دھواں پھیل گیا۔

    ’’اندر جاؤ۔ اند ر جاؤ۔ خبردار بلا اجازت یہاں قدم نہ رکھنا۔‘‘ نو عمر بچہ حیرت سے اسے دیکھتا ہوا اندر چلا گیا۔

    ڈاکٹر نے مریضہ کے سنہرے بالوں میں کنگھی کرنے والے انداز سے جڑوں تک انگلیاں لے جاکر کاسہ سر پر ہتھیلی جمادی۔

    ’’فیور بڑھ رہا ہے‘‘ وہ بڑبڑایا۔ پیشانی کی پسینے کے قطروں سے اپنی ہتھیلی کو نم کرتا ہوا وہ آنکھوں تک ہاتھ لے گیا۔ انگوٹھے کے نرم پیٹ سے آنکھ کے پپوٹے کو آہستگی سے اوپر اٹھایا۔ آنکھوں کی سفیدی چمکی۔ رخساروں کی گرمی ہاتھ کی پشت سے محسوس کرتا ہوا وہ دھیمے سے بولا۔

    ’’اصل مرض کا تعلق تنفس سے ہے۔‘‘

    ڈاکٹر نے اس کے چہرے کی طرف دیکھ کر کچھ سوچا اور پھر مریضہ کے ابھرتے ڈوبتے سینے پر آنکھیں جمادیں اور بے ترتیب سانسوں کا معائنہ کرنے لگا۔ ڈاکٹر نے سیدھے کھڑے ہو کر بہت یقین کے ساتھ کہا۔

    ’’اس روگی کے سارے شریر میں جیون ہے۔ کیول سانس کی پرابلم ہے اور یہی سب سے بڑی پرابلم ہے۔ پھیپھڑے کی خرابی کا کوئی علاج نہیں ہے۔‘‘

    ’’کیا آپ کو یقین کامل ہے کہ اعضائے تنفس قطعاً بیکار ہو چکے ہیں؟‘‘ ڈاکٹر نے اس کی طرف دیکھا تو اس نے ڈاکٹر کو آسان زبان میں سوال سمجھایا۔

    ڈاکٹر نے آلہ لگا کر پہلی بار پھیپھڑوں کو دیکھا۔ دیر تک دیکھتا رہا۔ پھر بولا۔

    ’’بڑی و چتر بات ہے۔ پھیپھڑے بالکل ٹھیک ہیں پرپوری سانس نہیں لے پا رہے۔‘‘

    ’’پوری سانس لینے سے بدن کے دیگر اعضا کی قوت کا کیا تعلق ہے‘‘ ؟ دراز قد انسان نے سوال کیا

    ’’بہت بڑا سمبندھ ہے۔ تازہ ہوا جب پھیپھڑوں کے راستے رکت میں ملتی ہے تو جیون کا سروپ بنتا ہے۔ وہ جیون رکت کے ساتھ مل کر شریر کے ہر انگ کو شکتی دیتا ہے۔ پوری ہوا نہ ملے تو رکت۔۔۔ لال رکت تھوڑی دیر بعد نیلا پڑ جاتا ہے اور شریر کے ہر بھاگ میں روگ چھا جاتا ہے۔‘‘

    ’’آپ کا گمان ہے اعضائے تنفس اپنا کام بحسن و خوبی انجام دے رہے ہیں تو پھر بدن میں تازہ ہوا کی کمی کیوں ہے؟‘‘

    ’’شریر میں تازہ ہوا کی کمی اس لئے ہے کہ اس کمرے میں تازہ ہوا نہیں ہے۔‘‘ ڈاکٹر نے اعتماد کے ساتھ جواب دیا۔

    ’’اس کمرے میں کھلنے والے باقی کمروں کے دروازے کھلے ہوئے ہیں ان کمروں میں باہر کی طرف بےشمار کھڑکیاں ہیں‘‘ دراز قد انسان نے تفصیل سے بتایا۔

    ’’پر مجھے لگتا ہے کہ کسی کھڑکی سے تازہ ہوا نہیں آ رہی۔‘‘

    دفعتاً برابر کا ایک کمرا کھلا اور ایک نو عمر فراک اسکرٹ پہنے داخل ہوئی۔

    ’’ماما نے پوچھا کہ لیڈی کا فیورڈاؤن ہوا کہ نہیں؟‘‘

    مریضہ کا بدن ایک لمحے کو تڑپا اور سانس پھر بے ترتیب ہو گئی۔

    ’’دور ہو جاؤ میرے نگاہوں کے سامنے سے۔ ناہنجار۔‘‘ دراز قد انسان شدید طیش کے عالم میں دانت پیستے ہوئے آواز کے آہنگ کو کم کرتے ہوئے بولا۔

    ’’آپ اینگری کیوں ہوتے ہیں۔ میرے کو حال پوچھنے اندر سے ماما بھیجتی ہے۔ میری مسٹیک کدھر ہوتی۔‘‘ لڑکی نے ناک پھلا کر احتجاج کیا۔

    اس لڑکی کے الفاظ، لہجے اور آواز سے دراز قد انسان پر پاگل پن جیسا دورہ پڑ گیا۔ ڈاکٹر نے بمشکل اسے سمجھایا۔ لڑکی کو ہاتھ کے اشارے سے اندر جانے کو کہا۔

    پھر ڈاکٹر بولا۔ ’’میرے پاس ایک ہی دوا ہے۔ اس پرکار کے روگی کے لئے کسی بھی ڈاکٹر کے پاس ایک ہی میڈیسن ہوتی ہے۔ وہ میڈیسن دے کر پھیپھڑوں کی باریک باریک نسوں کو پھلا یا جا سکتا ہے تاکہ ان میں تازہ ہوا بھلی بھانت بھر جائے۔ پر۔۔۔‘‘

    ’’پر کیا؟۔۔۔‘‘ دراز قد انسان نے بے صبری سے پوچھا۔

    ’’پر یہ دوا تبھی کام کرتی ہے جب روگی کو اچھی ماترا میں تازہ ہوا مل سکے۔ تبھی تو پھیپھڑوں کی پھولی ہوئی نسوں میں ہوا جا سکے گی۔ جب تازہ ہوا ہی نہ ہو تو کیول پھیپھڑوں کی نسوں کو پھلا کر کیا کیا جا سکتا ہے۔‘‘

    ’’تب‘‘؟ دراز قد انسان نے متفکر ہو کر پوچھا۔

    ’’اس کا کوئی اپائے نہیں ہے۔‘‘ ڈاکٹر کا لہجہ مایوسانہ تھا۔ پھر کچھ دیر کی خاموشی کے بعد بولا۔

    ’’کیا روگی کا کمرہ بدلا نہیں جا سکتا۔‘‘ ڈاکٹر نے پوچھا۔

    ’’نہیں یہ عزیزہ کا مخصوص کمر ہ ہے۔ زندگی اسی میں گزری ہے۔ باہر پھیلی تمام عمارتوں کے درمیان یہ کمرہ عزیزہ کے علاوہ کسی کو نہیں دیا جا سکتا۔‘‘

    ’’لیکن روگی کو اس کمرے کے علاوہ دوسرا کمرہ تو دے سکتے ہیں۔‘‘

    ’’لیکن بنا تازہ ہوا کے روگی اتنے دن تک جیوت کیسے رہا؟‘‘

    تازہ ہوا کی کمی کا مسئلہ بہت پرانا نہیں ہے۔ اس کمرے کے چاروں طرف مریضہ کے متعلقین کے کمرے ہیں۔ ان میں دریچے اور روشندان ہیں، دروازے ہیں لیکن وہ لوگ ان کو کھولتے نہیں۔‘‘

    ’’کیا ان لوگوں کو دوسروں سے ملنے کے لئے اپنے کمروں سے نکلنا نہیں پڑتا؟‘‘

    ’’نہیں۔ انہوں نے سہولت اور آرام کے پیش نظر دوسروں سے ملنے کے لئے اندر ہی اندر دیواروں میں راستے بنا لئے ہیں۔‘‘

    ’’پھر تو بہت اچنبھے کی بات ہے کہ روگی اب تک جیوت کیسے ہے۔ دن رات اسی پرانی ہوا میں جیوت رہنا بہت کٹھن ہے۔‘‘

    ’’نہیں۔ دراصل اس عمارت کے ایک کمرے میں شام ڈھلے باہر کا دروازہ کھلتا ہے اور تازہ ہوا کی ایک لہر اندر آ جاتی ہے۔ شاید اسی سے کاروبار ہستی قائم ہے۔ یوں بھی عزیزہ بہت سخت جان ہے۔‘‘ وجیہہ مرد نے بستر پر لیٹی خاتون کو محبت سے دیکھتے ہوئے کہا۔

    ڈاکٹر کچھ دیر تک سوچتا رہا پھر بولا۔

    ’’میں نے اس پرکار کا روگی پہلی بار دیکھا ہے۔ کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ ان کے اور ناطے دار بھی ہیں۔ کبھی کبھی بیماری پرکھوں سے بھی مل جاتی ہے۔‘‘

    ’’عزیزہ کی کئی بہنیں ہیں۔ ایک بہن بہت معمر ہے۔ اس کا گھر اس ملک سے باہر ہے۔ وہ نوجوانوں کی طرح ترو تازہ ہے۔ وہ اپنے دیس کے باہر بھی عقیدت و احترام کی نظر سے دیکھی جاتی ہے۔‘‘

    ’’اور؟‘‘

    ’’ایک بہن جو اس سے کچھ بڑی ہیں وہ بھی اس ملک سے باہر رہتی ہیں اور اپنے ملک میں بہت خوش و خرم ہیں۔ تمام تر عیش و لذت کوشی ان کی قسمت میں نوشت کر دی گئی ہے۔ ایک بہن اس ملک میں بھی ہے۔ اور بہت آرام سے ہے۔ اس کے متعلقین عزیزہ کو بھی اس کی روش پر چلانا چاہتے ہیں لیکن مریضہ کے عزیزوں نے انکار کر دیا۔‘‘

    ’’کیا اس بہن کے چال چلن میں کوئی برائی ہے؟‘‘ ڈاکٹر نے آلہ گردن میں لٹکاتے ہوئے پوچھا۔

    ’’نہیں کوئی برائی نہیں لیکن اگر عزیزہ اس کی چال چلتی تو اپنا آپا کھو دیتی۔‘‘

    اچانک دراز قد شخص کو کچھ یاد آیا۔ وہ ہلکے ہلکے جوش کے انداز میں گویا ہوا۔ ’’عزیزہ کے بزرگوں میں ایک ضعیفہ ہے۔ ان کے گھر والے انہیں بہت عزت دیتے ہیں لیکن کبھی گھر سے باہر نکلنے نہیں دیتے۔ مسموع ہوا کہ وہ طاقت در ضعیفہ محبوس ہو کر اب کمزور ہو گئی ہیں۔ ان کے متعلقین احتراماً انہیں سلام تو کر لیتے ہیں لیکن کوئی ان کے پاس دیر تک بیٹھنا گوارا نہیں کرتا۔‘‘

    یکایک کسی پردے کے پیچھے سے دال بھات مانگنے کی آواز آئی۔ یہ ایک شیریں نسوانی آواز تھی۔ وہ آواز تھوڑی دیر بعد رام سیتا، لنکا اور ہنومان کے قصے سنانے لگی۔

    ڈاکٹر نے دراز قد انسان کو حیرت سے دیکھا جیسے اسے اعتبار نہ آیا ہو لیکن دراز قد انسان کے چہرے کے سنجیدہ تیوروں نے ڈاکٹر کا اعتماد اسے واپس کیا۔

    ڈاکٹر نے مریضہ پر نظریں گاڑ دیں۔ اس کی حالت میں کوئی فرق نہیں آیا تھا۔

    ’’آپ بتا رہے تھے کہ شام ڈھلے برابر کے کمرے کی کھڑکی سے تازہ ہوا کا جھونکا اندار آتا ہے؟‘‘

    ’’ہاں! حالاں کہ وہ وقت شام کا وقت ہوتا ہے لیکن وہ ہوا باد صبا کی طرح دل خوش کن ہوتی ہے۔‘‘

    ’’کیا شام ڈھل چکی۔‘‘ دراز قد انسان نے بےچینی سے پوچھا۔

    ’’نہیں ابھی کچھ دیر ہے۔ کیا آپ کو سمے بیتنے کا اندازہ نہیں ہوتا؟‘‘ دراز قد انسان خاموش رہا۔ اس سوال کے اندر ایسا کچھ تھا جس نے اسے مزید بےچین کر دیا۔

    ڈاکٹر اس کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھتا رہا۔ جب یہ نظریں سوئی بن کر دراز قد انسان کے چہرے پر جگہ جگہ کھب گئیں تب اس نے گہری اور مجبور آواز میں کہا۔

    ’’نہیں۔‘‘

    ’’اچرج کی بات ہے۔‘‘ ڈاکٹر اور کچھ نہیں بول سکا۔

    لیکن اس کی نگاہیں مرد کے چہرے پر جمی رہیں۔ مرد ان نگاہوں کی تاب نہ لا سکا۔ دھیمے دھیمے گویا ہوا۔

    ’’بہت دنوں سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہر گھڑی وقت غروب چھایا ہوا ہے۔‘‘

    ’’کیا آپ بھی ہر وقت دیواروں کے بیچ بند رہتے ہیں؟‘‘ ڈاکٹر نے کرید نے والے انداز میں پوچھا۔

    اس مرتبہ مرد کی خاموشی مہیب تھی۔ ڈاکٹر سہم کر رہ گیا۔

    مرد نے ڈاکٹر کی دلی کیفیات کا اندازہ لگا لیا۔ شگفتہ لہجے میں بولا۔

    ’’بہت سی باتیں پراسرار ہوتی ہیں اور کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ میں بھید پر سے پردہ ہٹا بھی دوں تب بھی آپ پوری بات نہیں سمجھ سکیں گے۔‘‘

    دونوں دیر تک خاموش رہے۔ پھر ڈاکٹر نے پہل کی۔

    ’’میں بس یہ جاننا چاہتا ہوں کہ جب تازہ ہوا کا جھونکا اس کمرے میں آتا ہے تو روگی کی حالت میں کس طرح کا فرق آتا ہے؟‘‘

    ’’شام ڈھلے آپ دیکھ لیجئےگا۔‘‘

    ’’شام ڈھلنے میں ابھی دیر ہے۔‘‘

    دونوں پھر خاموش ہو گئے۔ ڈاکٹر کو ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے اس مرد کے علاوہ کسی اور کو خاتون کی زندگی میں کوئی خاص دلچسپی نہیں ہے۔ مریض کی حالت پوچھنے والیوں کو اس نے دیکھا نہیں لیکن اتنا اندازہ تھا کہ وہ بھی مریض کی حالت میں بس اتنی ہی دلچسپی لے رہی ہیں جیسے لوگ موسم کی تبدیلی کے بارے میں ایک دوسرے سے معلوم کرتے ہیں۔ اس کی سمجھ کام نہیں کر رہی تھی کہ اس رعب دار مرد کی اس آبادی میں کیا حیثیت ہے۔ اس عمارت کے دوسرے مکینوں سے اس کا کیا تعلق ہے اور باہر پھیلی ہوئی اس بستی سے مرد کا کیا علاقہ ہے۔ اس کے دل میں رہ رہ کر سوال اٹھ رہے تھے لیکن وہ مرد کے لہجے کی سنجیدگی اور موقع کی نزاکت کے پیش نظر زیادہ سوالات نہیں کرنا چاہ رہا تھا۔ اس نے کچھ گھما کر معلوم کرنا چاہا۔

    ’’یہ باہر کا علاقہ کس کا ہے؟‘‘

    ’’کیا آپ پہلی مرتبہ آئے ہیں؟‘‘

    ’’جی ہاں۔ بس دور سے دیکھتا رہتا تھا۔ دیکھنے میں یہ پوری آبادی بہت اچھی لگتی تھی۔ دور سے ان عمارتوں کی اونچائی، مضبوطی اور پرانا پن من کو کھینچتا تھا۔ آج قریب سے بازار بھی دیکھا۔ رنگا رنگ چیزیں، طرح طرح کی پوشاکیں، الگ الگ نسلوں کے لوگ، پھر ہو حق کرتی سادھو سنتوں کی آوازیں۔ میں زیادہ نہیں دیکھ پاتا تھا۔ لیکن ککیا اینٹ کی باہر کی ایک عمارت کو دیکھ کر من کو بہت شانتی ملی کہ اس آبادی میں ایسی سادگی بھی ہے۔‘‘

    ’’آئیے میں آپ کو آبادی کی ایک جھلک دکھا دوں۔ جب سورج ڈھلنے کا وقت قریب آجائے تب مجھے بتا دیجئے گا۔ ہم لوگ مریضہ کے پاس واپس آ جائیں گے۔‘‘

    ساگوان کے سیاہی مائل اونچے دروازوں کو کھول کر وہ دونوں باہر نکلے۔ غلام گردش میں کئی طرح کے لوگ ملے لیکن کوئی ان دونوں سے مخاطب نہیں ہوا۔ ڈاکٹر نے محسوس کیا کہ مخاطب کوئی نہیں ہوتا لیکن تمام افراد اس با رعب، وجیہہ اور خوش پوش مرد کو عقیدت و محبت کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ غلام گردش کا یہ حصہ چوڑی سیڑھیوں والے ایک زینے کے مقابل تھا۔ دونوں اس پر چڑھے۔ اونچی نیچی چھتوں والی بے شمار عمارتوں کو عبور کرتے ہوئے وہ لوگ زینے پر چڑھتے رہے۔ یہاں تک کہ سب سے اونچی چھت آ گئی۔ چھت پر کنگورے دار حصار تھا۔ مرد نے اس کا ہاتھ پکڑ کر حصار کے پاس لاکر کھڑا کر دیا۔ نیچے پوری بستی پھلیپ ہوئی تھی۔ چھت پر ابھی سورج کی زرد شعاعیں تھیں لیکن نیچے بہت نیچے بستی میں اندھیرا اتر چکا تھا۔

    ڈاکٹر نے محسوس کیا کہ اندھیرا اترنے کے باوجود نیچے ابھی بھی رونق ہے۔ تب اسے محسوس ہوا کہ رونق کا لطف روشنی سے نہیں آبادی سے ہوتا ہے۔ یہ بلند اور مضبوط عمارت چاروں طرف سے بازاروں سے گھری ہوئی تھی اور اس عمارت سے متصل ککیا اینٹ کی وہ عمارت بھی ریشم جیسے اندھیرے میں ڈوبی ہوئی تھی جہاں اس نے ہو حق کی صدائیں سنی تھیں۔

    ’’یہ سب کس کا ہے؟‘‘ اس نے نیچے آبادی پر نگاہ ڈالتے ہوئے پوچھا۔

    یہ عمارتیں، یہ ستون، یہ بالا خانے، یہ حصار، یہ بازار یہ ہو حق کی صدائیں یہ سب میری ہی۔۔۔ ان سب کا مجھ سے ہی علاقہ ہے۔‘‘

    مرد نے متانت کے ساتھ جواب دیا۔

    ککیا اینٹ کی اس سادہ عمارت میں کچھ سفید پوش سائے نظر آئے جن کے چہروں کے خطوط ملگجے اندھیرے کی وجہ سے صاف نظر نہیں آ رہے تھے۔

    وہ۔۔۔ وہ کون لوگ ہیں؟‘‘ ڈاکٹر نے بے صبری سے پوچھا۔

    مرد نے ادب سے ان سایوں کو دیکھا اور تھوڑی دیر بعد بولا۔

    ’’وہ عمارت اور سفید پوش ہو حق کی صدائیں بلند کرنے والے سب اسی بستی کا حصہ ہیں۔ بازار کے تمام افراد بھی اسی بستی کا ایک حصہ ہیں۔ اس عمارت کے سارے مکین بھی اسی بستی کا ایک حصہ ہیں اور یہ سب کے سب اس مریضہ کی بیماری سے آدھے ادھورے رہ گئے ہیں۔‘‘

    ’’مطلب‘‘؟ ڈاکٹر کی آنکھیں پھیل گئیں۔

    ’’سب اسی خاتون کے حوالے سے اپنی زندگی گزارتے تھے۔ شعوری طور سے کسی کو احساس بھی نہیں ہوتا تھا کہ مریضہ ان کے لئے کتنی کار آمد ہے لیکن جب سے وہ بیمار ہوئی ہے، کمزور ہوئی ہے سب خود میں کچھ نہ کچھ کمی پا رہے ہیں۔‘‘

    ’’یہ باتیں تو پہلیونں جیسی ہیں۔‘‘ ڈاکٹر دھیمے سے بولا۔ اب اسے ڈر لگنے لگا تھا لیکن اب اس کی سمجھ میں کچھ کچھ آنے لگا تھا۔ جب سورج کی آخری شعاع ماند ہو کر اندھیرے میں کھو گئی تو اس پھیلی ہوئی آبادی میں استادہ اس عظیم الشان عمارت کی وسیع و عریض چھت کے حصار کے پاس کھڑے ہو کر اس نے خود کو مرعوب پایا۔ لیکن اب اس سے رہا نہیں گیا۔

    ’’روگی کون ہے آپ نے اب تک نہیں بتایا؟ آپ نے اب تک روگی سے اپنے رشتے کے بارے میں کچھ نہیں بتایا۔‘‘ چھت کی کھلی فضا میں ڈاکٹر نے ہمت پاکر سوال کیا۔

    مرد حصار کے نیچے جھانکتا رہا۔ پھر یکایک بولا۔

    ’’آپ خود کچھ نہیں سمجھ سکے؟‘‘ مرد کی آنکھوں میں ایک دکھ بھرا سوال تھا۔

    تب ڈاکٹر کو اچانک ایسا لگا جیسے پردہ ساہٹ گیا ہو۔ اسے یاد آیا جب اس نے مریضہ کے دل کی دھڑکنیں سنی تھیں تو اسے کچھ آوازیں بھی سنائی دی تھیں جنہیں وہ اس سے پہلے بھی بارہا سن کر خوش ہو چکا تھا۔

    اب اس نے بغور اس وجیہہ مرد کو دیکھا اور دیر تک دیکھتا رہا اور سر جھکا کر کھڑا ہو گیا۔

    ’’شام ڈھل گئی ہے۔ آئیے نیچے چلیں۔ روگی کو دیکھ لیں۔‘‘

    وہ دونوں تیزی سے نیچے اترے۔ دروازے میں داخل ہوتے ہی انہیں محسوس ہوا کہ برابر والے کمرے سے ہوا کے تازہ جھونکے آ رہے ہیں۔ مریضہ بستر پر گاؤ تکیے کے سہارے وقار کے ساتھ بیٹھی تھی اور اس کے چہرے پر سرخی چھلک آئی تھی۔ ڈاکٹر کو آتے دیکھ کر اس نے کوئی تکلف نہیں کیا لیکن مرد کو دیکھ کر اس کی آنکھوں میں شکر گزاری کے جذبے لہرائے۔

    ’’کیسی ہو؟‘‘ مرد نے کمال محبت کے ساتھ قریب جا کر دھیرے سے پوچھا۔

    وہ بد قت مسکرائی۔ بڑی بڑی آنکھوں سے مرد کا جائزہ لیا اور ادب سے بولی۔

    ’’اس وقت تو اچھی ہو جاتی ہوں۔‘‘

    ’’ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں کہ تمہارے اعضائے رئیسہ مکمل طور پر تندرست ہیں۔ بس سانس لینے بھر کو تازہ ہوا کی کمی ہے۔‘‘

    مریضہ خاموشی کے ساتھ سر جھکائے بیٹھی رہی۔

    ’’آپ اتنا پریشان کیوں ہوتے ہیں۔‘‘ وہ دیرے کے بعد بولی۔

    ’’تم جانتی ہو کہ اس بستی کا کاروبار ہستی مری وجہ سے قائم ہے۔ تم نصیب دشمناں ختم ہو گئیں تو دھیرے دھیرے سب کچھ خس و خاشاک ہو جائےگا۔‘‘

    ’’کیا‘‘ ڈاکٹر نے انہیں روک کر پوچھا، ’’کیا یہ نہیں ہو سکتا کہ برابر والے کمرے کی کھڑکی ہمیشہ کھلی رہے اور تازہ ہوا آتی رہے۔‘‘

    ’’برابر والے کمروں میں جہاں اور مکین ہیں وہیں کچھ نوجوان بھی ہیں۔ چاروں طرف بنے ان کمروں میں صرف ایک کمرہ ایسا ہے جس کے مکین نے باہر کی کھڑکی کھول رکھی ہے۔ شام کو جب وہ واپس آتا ہے تو دروازکھول دیتا ہے۔ تبھی تازہ ہوا کے جھونکے اندر آپاتے ہیں۔ دن بھر روزی روٹی کے چکر میں مارا مارا پھرتا ہے۔ شام ڈھلے واپس آپا تا ہے۔‘‘

    باقی لوگ بھی اپنی رہائشگاہوں کی کھڑکیاں کھول کر ادھر والے دروازے نہیں کھول سکتے؟‘‘ ڈاکٹر نے پوچھا۔

    ’’غالباً انہیں اب اس خاتون سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔‘‘

    ’’اس نوجوان کو دلچسپی کیوں ہے؟‘‘

    ’’کیوں کہ وہ اس خاتون کو زندہ دیکھنا چاہتا ہے۔‘‘

    ’’وہ کیوں؟‘‘

    ’’کیوں کہ اسے اپنے اجداد سے محبت ہے۔‘‘

    ’’یہ باتیں میری سمجھ میں نہیں آ رہی ہیں۔‘‘ ڈاکٹر نے بہت مایوسی کے عالم میں کہا۔

    ’’میں نے پہلے ہی عرض کیا تھا کہ اگر میں کچھ بتانا بھی چاہوں تب بھی ضروری نہیں کہ ہر بات آپ کی سمجھ میں آ سکے۔‘‘ مرد نے رنجیدہ لہجے میں جواب دیا۔

    ’’کیا میں کچھ کر سکتا ہوں۔‘‘ ڈاکٹر نے جیسے ہتھیار ڈال دیئے ہوں۔

    ’’آپ ڈاکٹر ہیں۔ آپ ہی بہتر بتا سکتے ہیں کہ آپ کیا کر سکتے ہیں؟‘‘

    تب ڈاکٹر نے بہت مضبوط لہجے میں لیکن ادب کے ساتھ کہا۔ میں صرف پھیپھڑوں کو مضبوط کرنے والی دوا دے سکتا ہوں لیکن پھیپھڑوں کی مضبوطی کی اصل دوا دراصل تازہ ہوا ہوتی ہے۔‘‘ اس ماحول میں اتنی دیر تک رہنے کے بعد وہ اب صاف و شفاف زبان میں بات کر سکتا تھا۔ وہ پھر گویا ہوا۔

    ’’اس عمارت کے تمام نوجوان مکینوں سے کہیئے کہ وہ باہرکھلنے و الی تمام کھڑکیاں کھول کر اس کمرے میں کھلنے والے دروازے کھول دیں۔‘‘

    ’’اگر وہ ایسا نہ کریں۔۔۔ تب۔۔۔ تب کیا ہوگا؟‘‘ مریضہ نے بہت بے صبری کے ساتھ پوچھا۔

    ’’تب‘‘ ڈاکٹر نے ایک ایک لفظ پر زور دیتے ہوئے کہا۔ ’’تب یہ ختم ہو جائیں گے‘‘ اس نے دراز قد وجیہہ مرد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا حسین و جمیل مغموم مریضہ اور دراز قد وجہہھ مرد نے ایک دوسرے کو کن نگاہوں سے دیکھا، یہ کوئی نہیں دیکھ سکا کیوں کہ ڈاکٹر دھیرے سے بیگ اٹھاکر خاموشی سے باہر نکل آیا تھا۔

    (مجموعہ باد صبا کا انتظار ازسید محمد اشرف، ص 67)

    مأخذ:

    باد صبا کا انتظار (Pg. 67)

    • مصنف: سید محمد اشرف
      • ناشر: اطہر عزیز
      • سن اشاعت: 2000

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے