Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

بارش میں ایک لڑکی سے بات چیت

مشرف عالم ذوقی

بارش میں ایک لڑکی سے بات چیت

مشرف عالم ذوقی

MORE BYمشرف عالم ذوقی

    تب ڈرامہ کی ریہرسل شروع نہیں ہوئی تھی۔

    ریہرسل سے ایک مہینہ قبل یہ ’’حادثہ‘‘ پیش آیا تھا اگر اسے حقیقت میں ’’حادثہ‘‘ کا نام دیا جائے تو!

    لیکن۔۔۔ اس ’’حادثہ‘‘ سے پہلے بھی وہ کہیں ٹکرائی تھی۔ کہاں؟ سمینار میں۔ بس، ایک سرسری سی ملاقات تھی۔ وہ بھی ایسے خالص ادبی سمیناروں میں بولنے کے لئے ہوتا ہی کیا ہے؟ نہیں، مجھے سوچ لینے دیجئے۔ سمینار کا خاص موضوع تھا۔۔۔ ’’عورت۔۔۔‘‘ ملینیئم یعنی ہزاروں برسوں کے اس سفر میں کہاں کھو گئی ہے عورت؟ پہلے بھی کہیں تھی یا نہیں؟ قدیم گرنتھوں میں دروپدی، کنتی، سیتا، ساوتری، پاروَتی، دمنیتی، شکنتلا، میتری وغیرہ۔۔۔ عزت سے پکارے جانے والی، ملینئیم صدی کے آخر تک لکس کا نیم عریاں اشتہار کیسے بن گئی؟ یا وہ اشتہار نہیں بنی۔ ’’لرل‘‘ اور ’’لکس‘‘ کے اشتہاروں سے آگے نکل کر اور بھی مورچے سنبھالے ہیں اس نے۔ کہا جائے تو ایک پڑاؤ .W.W.F بھی ہے۔ آنے والی ملینیئم صدی میں کہاں ہو گی یہ عورت؟

    مجھے یاد نہیں، میں نے اپنی گفتگو میں کیا کیا جوڑا تھا۔ مگر۔۔۔ شاید! مجھے یاد کرنے دیجئے۔ ہمیشہ کی طرح میں لفظوں کی لہروں میں بہہ گیا تھا۔ میں نے بات عورت کی آئی ڈنٹیٹی (Identity) یا آئی ڈنٹیٹی کرائسیس (Identity Crisis) سے شروع کی تھی۔ میں بڑی بڑی فلسفیانہ قسم کی باتوں میں الجھنا نہیں چاہتا تھا، اس لئے میں نے ٹودی پوائنٹ مختصر میں اپنے نظریات لوگوں کے سامنے رکھے تھے۔ یعنی کیوں ہے عورت میں یہ آئی ڈنٹیٹی کرائسیس۔۔۔؟ پہلے باپ کا گھر، باپ کے نظریوں پر سنبھل سنبھل کر پاؤں رکھنے والی، یہاں سے باہر جب وہ پرائے گھر میں بھیج دی جاتی ہے، یعنی شوہر کا گھر۔ شوہر کے نظریات۔ باپ اور شوہر کے الگ الگ نظریات کو ماننے پر مجبور عورت کی اپنی آئی ڈنٹیٹی کہاں باقی رہتی ہے؟ اگر کبھی وہ اپنی یعنی سیلف آئی ڈنٹیٹی کے لئے لڑنا چاہتی ہے تو۔۔۔ نہیں! اُف، سماج میں انجنا مشرا جیسی ان گنت مثالیں موجود ہیں۔ کیا غلطی پہلی بار وہاں نہیں ہوتی، جب وہ اپنے شوہر کا آدھا نام اوڑھ لیتی ہے، یعنی، اگر وہ سیما ورما ہے اور شادی کسی راجن شری واستو سے ہوتی ہے تو، وہ سیما ورما سے اچانک سیما شری واستو ہو جاتی ہے۔ کیوں؟ وہ صرف اپنی پہچان نہیں بدلتی، شاید انجانے میں بہت کچھ کھو دیتی ہے۔ پھر کھونے اور بدلنے کا ایک لمبا سلسلہ لگاتار چل پڑتا ہے۔‘‘

    مجھے یاد نہیں، میں کب تک بولتا رہا۔۔۔

    مجھے یہ بھی یاد نہیں۔ میں کیا کیا بولتا رہا، کتنی دیر تک ہال تالیوں سے گونجتا رہا، سمینار کب ختم ہوا، کب میں باہر نکلا؟ مگر استقبالیہ ہال سے بس تھوڑی دور پر وہ کھڑی تھی۔

    وہ۔۔۔ وہی ’’حادثہ‘‘ والی لڑکی۔

    اس کی آنکھوں میں عجیب سی چمک تھی۔۔۔

    ’’آپ۔۔۔ آپ کافی اچھا بول لیتے ہیں۔‘‘

    (اس کی آواز سرد تھی۔ اتنی سرد جیسے کسی گہرے کنویں سے، برف کے ڈھیر کو ہٹاتی ہوئی اوپر اٹھ رہی ہو۔ )

    ’’اس سے پہلے بھی آپ کو بہت بار پڑھا تھا۔۔۔ مگر۔۔۔ آج۔۔۔ آپ کو سننے کے بعد۔۔۔ کیا عورت آپ کے لئے سچ مچ وہ نہیں ہے، جو دوسرے مردوں کے لئے ہے۔۔۔‘‘

    (اس کی آواز میں، میں نے کسی ناگن کی پھپھکار محسوس کی۔ مگر۔۔۔ اس کی آواز پر سکون تھی۔ )

    ’’آپ نے اچھی بات اٹھائی ہے۔ آپ سے متفق ہوں میں۔ مگر۔۔۔ سچ مچ کیا آپ ایسے ہی ہیں۔ مثلاً گھر کے دروازے تک جانے والا آدمی آئیڈیالوجی کی سطح پر ایک ہی رہتا ہے نا؟

    اف کسی آتما جیسی آواز۔ میں دھک سے رہ گیا۔ ہو ہنس رہی تھی۔ وہ قد میں عام لڑکیوں سے زیادہ لمبی تھی۔ میں نے چونک کر پوچھا۔۔۔

    ’’میں۔ میں سمجھا نہیں؟‘‘

    وہ پھر ہنسی۔۔۔ ’’سمجھنے کی ضرورت نہیں ہے ابھی، لیکن۔۔۔ اگر میں آپ سے ملنا چاہوں تو؟ کسی۔۔۔ کسی بھی دن۔۔۔؟ کیا کسی دن آپ کے گھر آ سکتی ہوں؟‘‘

    ’’ہاں، ہاں کیوں نہیں۔‘‘

    مجھے یاد ہے، گاڑی میں بیٹھنے تک میرے دانت بج رہے تھے۔ مجھے گھر تک پہنچانے والے میرے میزبان دوست نے پوچھا بھی تھا۔۔۔ ’’بات کیا ہے؟ سردی تو بہت زیادہ نہیں۔ نیا سال شروع ہونے میں تو ابھی ایک ماہ باقی ہے۔‘‘

    میں نے بات بدلتے ہوئے کہا۔۔۔ ’’نیا سال نہیں، سن دو ہزار۔۔۔ ایک نئے ملینیئم کی شروعات، میں نے اپنی گفتگو میں ’’وِٹ‘‘ پیدا کرتے ہوئے کہا تھا۔۔۔ ’’دراصل یہ دانت ملینیئم کے اختتام کے استقبال میں بج رہے ہیں۔‘‘

    (۲)

    تب تک میں نے ڈرامہ لکھا بھی نہیں تھا۔ (ڈرامہ کی ریہرسل شروع ہونا تو دور کی بات۔) ہاں، مجھے اپنے ڈائریکٹر سمیر مہادیون کی طرف سے بار بار غصے کو جھیلنا پڑ رہا تھا۔

    ’’سن دو ہزار کے دوسرے ہفتہ تک ہمیں یہ ڈرامہ کر لینا ہے۔ اُف اور کتنی دیر لگائیں گے آپ؟‘‘

    ’’بس، جلد ہی ناٹک پورا کر لوں گا۔‘‘

    سمیر مہادیون تھیٹر کا آدمی تھا۔ تھیٹر پر دل و جان سے فدا۔ اپنی پائی پائی تھیٹر پر لٹا دینے والا۔ تھیٹر، اس کے لئے صرف تھیٹر نہیں تھا۔ جب وہ کوئی نیا ڈرامہ ہاتھ میں لیتا، یوں ہی ’’بورایا‘‘ سا گھومتا رہتا۔ اس بار ڈرامہ کے لئے اس کا خاص موضوع تھا۔۔۔ ’’عورت‘‘ وہ بار بار میرے کمرے کی میز پر مکا مارتا تھا۔

    ’’لکھو۔ ایسا لکھو کہ ہال تالیوں سے گونج جائے۔ یہ آنے والی نئی صدی میں میرا پہلا ڈرامہ ہوگا۔ یاد، عورت کو کوئی بالکل نیا کردار دو۔ ہزار سال بیت گئے، اب نئے ہزار سال کی شروعات ہوئی ہے۔ مجھے سائنس یا کسی نئی ایجاد سے زیادہ قیمتی کھوج نظر آتی ہے۔۔۔ عورت میں۔ لگاتار آنے والی تبدیلیوں کی کھوج۔۔۔ بس یار۔۔۔ جھٹ پٹ لکھ ڈالو تم۔۔۔ میں جانتا ہوں، اسے تم ہی لکھ سکتے ہو۔ کوئی دوسرا تم سے اچھا نہیں لکھ سکتا۔‘‘

    وہ مجھے مسکہ لگا رہا تھا۔

    میں نے یکایک پوچھا۔۔۔ ’’سمیر مہادیون، تم نے ابھی تک شادی کیوں نہیں کی؟‘‘

    وہ اپنے بال کھجا رہا تھا۔۔۔ ’’کیا کہوں، ہزار برسوں میں کوئی نہیں ملی۔‘‘

    اس رات میں ڈرامہ ہی لکھنے کی تیاری کر رہا تھا، کیوں کہ سمیر مہادیون کو اب ’’نا‘‘ کرنا میرے بس کی بات نہیں رہ گئی تھی۔ اس رات کئی دلچسپ باتیں رونما ہوئی تھیں۔ جیسے میں گیس پر چائے کا پانی چڑھا کر بھول گیا تھا۔ جلنے کی بو آنے پر جب میں بھاگا بھاگا گیا تو چائے دانی بالکل کالی پڑ چکی تھی۔ شاید پانی کا آخر قطرہ تک سوکھ کر کاربن بن چکا تھا اور سارے کمرے میں دھواں پھیل گیا تھا۔۔۔ تین بار ٹیلی فون کی گھنٹی بجی تھی اور ہر بار بلینک کال۔ میرے پاؤس سے ٹکراکر ’’عربی‘‘ شمع دان کی کرچیاں پورے کمرے میں پھیل گئی تھیں، جسے صاف کرنے میں مجھے پورے آدھے گھنٹے لگ گئے تھے۔ تو کیا یہ سب مجھے ڈرامہ شروع کرنے سے روک رہے تھے؟

    نہیں، شاید اس رات ایک اور بھی ’’حادثہ‘‘ دیر سے مجھے پاگل اور پریشان کئے جا رہا تھا۔۔۔

    باہر زور زور سے بارش ہو رہی تھی، پیٹ پیٹ کر۔ آپ نہیں جانتے۔ مجھے بارش کا گیت کتنا پسند ہے۔ مجھے جیسے اکیلے، غیر شادی شدہ آدمی کو بارش کا یہ گیت کس قدر پاگل اور بے چین بنا دیتا ہے۔ کبھی چھت پر۔۔۔ جیسے وائلن کے تاروں کو ہلکی ہتھیلیوں سے لہرا کر چھوڑ دیا گیا ہو۔ کبھی چھّجے سے گرتے ہوئے۔ کبھی یہ احساس کہ آپ کی آنکھیں بند ہیں۔ بدن کسی مونا لیزا کے اندر میں بے جان سا پڑا ہے لیکن اس کی سب سے چمکیلی آنکھیں بند ہیں اور تصور کیجئے۔۔۔ دائیں بائیں چاروں طرف سے بارش کی بوچھاریں گر رہی ہیں۔۔۔ بغیر آپ کو چھوئے، گنگنائے بھگوئے۔ بس! آپ کے ننگے تلووں کو چھوتی پانی کی دھاریں دور تک بہتی جا رہی ہوں۔

    تو میں اسی تصور میں شرابور تھا۔ آگے بڑھ کر میں نے کھڑکی اور شیشوں کے درازوں سے پردے کھینچ دئے تھے۔

    کمرے میں ایک عجب طرح کی ’’ادبی تاریکی‘‘ تھی۔۔۔ ’’ادبی تاریکی‘‘ نہیں، آپ اس کا تجزیہ مت کیجئے۔ مجھے لگتا ہے آپ اس کا تجزیہ کر بھی نہیں سکتے۔ کیسی، بے چین کرنے والی یہ ادبی تاریکی ہوتی ہے، اسے ادب تخلیق کرنے والے ہی بتا سکے ب ہیں۔ وہ بھی ایسے عالم میں، جب وہ کچھ تخلیق کرنے کا ذہن بنا چکے ہوتے ہیں اور وہ بھی ایسی صورت میں جب کہ باہر زوروں کی بارش ہو رہی ہو۔

    تو باہر زوروں کی بارش ہو رہی تھی۔ اور ٹین کے چھجے سے لڑھکتی پانی کی بوندوں کا سنگیت ایک عجب طرح کا سماں پیدا کر رہا تھا۔ ایک طرف میری لمبی خاموشی سے نکلی ادبی تاریکی تھی اور دوسری طرف۔

    کوئی تھا، جو دروازے کا شیشہ تھپتھپا رہا تھا۔

    دوسرے ہی پل مجھے کسی عورت کی کانپتی آواز سنائی دی تھی۔۔۔

    ’’کھولئے، دروازہ کھولئے۔ میں بری طرح بھیگ گئی ہوں۔‘‘

    میں نے گھوم کر دیکھا۔ شیشے پر سفید سی ہتھیلیاں رکھی ہوئی تھیں۔ نہیں، جڑی ہوئی تھیں۔ کوئی پیکر تھا جو ہلکی روشنی اور شیشے کے باوجود، دھند میں کسی کی موجودگی کا احساس دلا رہا تھا۔

    کون۔۔۔؟

    لیکن اس وقت میرا یہ پوچھنا کسی حماقت سے کم نہیں تھا۔ میں تیزی سے آگے بڑھا اور دروازہ کھول دیا۔

    سامنے وہی تھی۔۔۔ وہی سیمینار والی لڑکی۔

    ’’پہچانا آپ نے۔۔۔؟‘‘ وہی جانی پہچانی ہنسی۔۔۔ ’’یا بھول گئے؟‘‘

    ’’نہیں۔ اتنی جلدی۔ نہیں۔

    ’’یعنی۔۔۔ دیر میں بھولنے کے عادی ہیں آپ۔ اف! میں بری طرح سے بھیگ گئی ہوں۔ کیا آپ اندر آنے کو نہیں کہیں گے۔‘‘

    ’’ارے، اندر آ جائیے۔‘‘

    مجھے شرمندگی ہوئی اور میں نے پہلی بار اس کا بغور جائزہ لیا۔ وہ بُری طرح بھیگ گئی تھی۔ اس نے ہلکے گلابی رنگ کی ساڑی پہنے ہوئی تھی۔ جواب اس کے بدن سے پوری طرح چپک گئی تھی۔ اس کی گردن لمبی تھی۔ بالوں کے ’’گچھوں‘‘ سے ہو کر پانی کے قطرے، اس کی لمبی گردن سے ٹکراتے، اس کے بلاؤز کو تر کر رہے تھے۔ لانبی گردن۔ مجھے افسوس ہوا۔ کاش، اس کے پہلے میں نے سندل کے پیڑوں کی طرح ہوتی ہیں۔۔۔ شفاف اور چکنی۔ وہ تھوڑی دبلی پتلی تھی۔ ساڑی سے میچ کرتا ہوا بلاؤز تھا۔۔۔ وہ گوری نہیں تھی۔ رنگ ہلکا سانولہ تھا مگر بارش سے بھیگی ہوئی یہ لڑکی ایک دم سے کمرے کی تاریکی میں ایک دوسرا ہی نقش بھر گئی تھی۔

    یقیناً لڑکیوں کے پورے بدن پر آنکھیں ہوتی ہیں اور انہیں فخر کے ساتھ اس بات کا احساس بھی رہتا ہے کہ انہیں کوئی بغور دیکھ رہا ہے۔ بری طرح پانی سے شرابور ہونے کے باوجود شاید اسے اپنے بھیگے ہونے کا ذرا بھی احساس نہیں تھا۔

    ’’دیکھ چکے۔‘‘

    وہ میری طرف دیکھتے ہوئے ہنسی۔۔۔ میں ایک دم سے گھبرا گیا۔

    وہ ایک بار پھر کھلکھلا کر ہنس پڑی۔

    ’’کیوں۔ تمہیں‘‘ وہ کہتے کہتے ٹھہری۔ ’’آپ کہنا مجھے بوجھل لگتا ہے، تمہیں کہوں تو۔‘‘

    ’’چلےگا۔‘‘

    وہ پھر ہنسی۔ ’’کیوں تمہیں عجیب سا نہیں لگا۔ بارش کی رات ایک جوان لڑکی اس طرح تمہارے کمرے میں آ جاتی ہے۔‘‘

    ’’تمہارے کپڑے بھیگ گئے ہیں۔‘‘

    ’’جانتی ہوں۔ آگے یہ تو نہیں کہو گے کہ ہینگر سے کپڑے نکال کر لے آؤں۔‘‘

    ’’اوہ، مجھے سچ مچ افسوس تھا۔ ابھی آیا۔۔۔ سچ مچ سب سے پہلے تمہیں کپڑوں کی ضرورت ہوگی۔‘‘

    ’’رکو۔ پھر گرما گرم چائے کی۔ تھرمس تمہارے پاس ہے نا؟‘‘

    وہ کھل کھلا کر ہنس پڑی۔

    میں جانے کو مڑا تو اس نے روک دیا۔ ’’ٹھہرو۔۔۔ مت جاؤ میں یوں ہی کہہ رہی تھی۔‘‘

    ’’میرے کپڑے تمہیں۔‘‘

    ’’آ جائیں گے۔۔۔ یہی کہنا چاہتے ہونا۔‘‘ وہ پھر ہنسی۔۔۔ ’’نہیں آئیں گے، ڈھیلے ہوں گے۔ میں تم سے زیادہ دبلی ہوں۔ جسم اور کپڑوں کے ساتھ کچھ بھی سمجھوتہ کرنے کو تیار نہیں ہوں۔‘‘ وہ پھر ہنسی۔

    ’’سنو میں ان لڑکیوں میں نہیں ہوں، جو بھیگ کر پرائے مرد کے کمرے میں گھس کر اس کا وارڈ روب تلاش کر لیتی ہیں۔‘‘

    ’’پھر تم چاہتی کیا ہو؟‘‘

    ’’یہاں بیٹھ جاؤں صوفے پر اجازت ہو تو۔۔۔ صوفہ تھوڑا سا گیلا ہی تو ہوگا۔۔۔‘‘ وہ پھر بےمطلب ہنسی۔ ’’یقیناً ایک گیلی شئے، دوسرے کو گیلا۔ کر دیتی ہے۔‘‘

    ’’کیوں آئی ہو؟‘‘

    ’’ارے تم تو ایسے پوچھ رہے جیسے ڈر رہے ہو۔‘‘

    ’’کیوں ڈروں گا؟‘‘

    ’’میں کیا جانوں، خود سے پوچھو۔۔۔ وہ اچانک سنجیدہ ہو گئی تھی۔ ’’تمہیں یاد ہے، وہ سیمینار۔۔۔‘‘ میں نے پوچھا تھا نہ، میں اگر اچانک، بنا بتائے تمہارے گھر آ جاؤں تو۔ بارش کے اس موسم سے زیادہ مناسب وقت مجھے دوسرا نہیں لگا۔ مجھے لگا، یہی صحیح وقت ہے جب تم سے ملاقات کی جا سکتی ہے۔۔۔ اس کے چہرے پر ذرا سی سختی تھی۔ ’’کبھی کبھی کوئی ایسا آدمی ہونا چاہئے جس سے آپ کچھ شیئر کر سکیں آپ کا پسندیدہ آدمی۔‘‘ اس نے میری طرف گھور کر دیکھا۔ سیمینار والے دن تمہاری باتیں سن کر لگا تھا، تم سے اپنا آپ شیئر کیا جا سکتا ہے اور اپنا آپ شیئر کرنے کے لئے بارش کی رات سے زیادہ خوبصورت وقت کوئی نہیں۔ ’’ادیب ہو نہ تم‘‘ آگے بڑھ کر اس نے کھڑکی کے پردے کھینچ دیے۔ باہر بجلی چمکی تھی۔ وہ خوف سے پیچھے ہٹی۔

    ’’میرے شوہر ہیں لیکن میں نے شوہر کا گھر چھوڑ دیا ہے‘‘ وہ دوبارہ صوفے پر بیٹھ گئی تھی۔ کچھ دیر تک دائیں ہاتھ کے ناخنوں کو چباتی رہی۔ اس دن آپ نے تخلیقی کرائسس، آئیڈنٹیٹی کرائسس کا ذکر نہ چھیڑا ہوتا تو۔ خیر۔ جانے دیجئے۔ آئڈنٹیٹی کرائسس۔‘‘

    وہ ہنس رہی تھی۔ مرد اسے پرایا ہی سمجھ سکتا ہے۔ آئڈنٹیٹی کیا دےگا؟۔ شادی کے کچھ ہی دنوں بعد لگا، اس میں ایک ساتھ بہت سارے جنگلی مرد یا بھیڑئے اکٹھا ہو گئے ہیں۔ ہم شادی کے بعد اس کے، الگ کے فلیٹ میں آ گئے تھے۔ کافی پیسے والا تھا وہ۔ کافی بڑا فلیٹ اور رہنے والے صرف دو آدمی۔ وہ بہت کم باتیں کرتا تھا۔ رومانس کرنا یا رومانٹک باتیں کرنا شاید اسے آتا ہی نہیں تھا اور جلد ہی مجھے اس کے دو شوق کا پتہ لگا، جو بہت ہی مختلف تھا اور۔‘‘

    اس نے چونک کر میری طرف دیکھا۔ ’’وہ کراس ورڈس سے کھیلتا تھا۔ پہلی، معمہ یا Puzzle ’’۔۔۔ سارا دن وہ پنسل لئے خالی خانوں میں کچھ نہ کچھ بھرتا رہتا اور ایسا کرتے ہوئے اسے کسی بات کی فکر نہیں ہوتی تھی۔ یہاں تک کہ اپنی نئی نویلی دلہن کی بھی، جسے یہاں آئے ہوئے ابھی بہت دن نہیں گزرے تھے۔ مجھے پر جو گزر رہی تھی میں جانتی تھی۔ پھر۔ یا تو اس پر پاگل پن کا دورہ پڑنے لگایا پھر اس نے ایک دوسرا شوق پال لیا‘‘

    ’’وہ کیا؟‘‘

    ’’وہ بہت سارے پتھروں کو جیب میں جمع کرنے لگا۔ کراس ورڈس حل کرنے کے درمیان جب پریشان ہو جاتا تو گھر کی چیزوں کو پتھروں سے نشانہ بنانے لگتا۔ چھوٹے چھوٹے بلب، قمقمے، جھاڑ فانوس۔ شیشے کی کھڑکیاں، گلاس۔ اس کی آنکھوں میں بے رحمی ہوتی۔ ایک دن اسی طرح گھر کی چیزوں کو نشانہ بناتے بناتے میرے پاس آ نکلا۔‘‘

    ’’پوچھا۔ تمہیں میں پاگل تو نہیں لگتا‘‘

    ’’نہیں بالکل نہیں‘‘ میں نے جواب دیا میں جانتی ہوں کہ یہ سب تم کیوں کر رہے ہو۔‘‘

    ’’کیوں کر رہا ہوں؟‘‘

    ’’اس لئے کہ تمہارے پاس سے فنٹاسی سرک گئی ہے۔ تم سب کچھ اپنی چھوٹی سی عمر میں ہی کر گزرے ہو۔‘‘

    اس کا چہرہ اچانک سفید پڑ گیا۔

    ’’افسوس اس بات کا ہے کہ گھر کی ساری چیزیں ٹوٹ جائیں گی تو؟‘‘

    اس کی آنکھوں میں ایک خوفناک چمک تھی۔ اس نے جیب میں ہاتھ ڈالا۔ واپس نکالا تو اس کے ہاتھ دو۔ تین نکیلے پتھروں سے بھرے تھے۔

    میں ہنسی تھی۔ ’’مجھے پتہ تھا اس کے بعد تم یہی کرو گے۔ چلاؤ۔ مجھ پر پتھر چلاؤ۔‘‘

    اس نے تین بار باری باری سے پتھر چلایا۔ میں تینوں بار جھک جھکا کر اس کا وار بچاتی رہی۔ جب اس کے ہاتھ خالی ہو گئے۔ میں نے وہیں زمین سے ایک بڑا سا پتھر اٹھا لیا۔

    ’’تو کیا تم نے اسے مار ڈالا؟‘‘

    ’’نہیں۔‘‘ وہ ہنس رہی تھی۔ ’’اتنا پاگل سمجھتے ہو مجھے۔ جو ایسے آدمی کو مار کر اپنی زندگی ختم کر لیتی۔ مجھے پتہ تھا، ایک ایسا دن میری زندگی میں آنے والا ہے اور سچائی یہ ہے کہ اتنی جلد وہ دن میری زندگی میں آ جائےگا، مجھے یقین نہیں تھا اور حقیقت یہ تھی کہ میں اسے ڈرانے میں کامیاب ہو گئی تھی۔‘‘

    ’’پھر؟‘‘

    ’’اس رات وہ غائب رہا۔ دوسرے دن دروازے پر دستک ہوئی۔‘‘ میں نے دروازہ کھولا تو اس کے ساتھ ایک نئی لڑکی تھی اور ایک دو مزدور تھے۔ جو یقیناً گھر کی ٹوٹی ہوئی چیزیں ٹھیک کرنے یا بدلنے آئے تھے اور یقیناً اس کی جیبیں بھاری ہوں گی اور اس میں پتھر پڑے ہوں گے۔ میں چپ چاپ ان کو اندر آنے کا راستہ دے کر باہر نکل گئی۔

    ’’باہر یعنی کہاں؟‘‘

    ’’پاگل۔ کیسے آدمی ہو۔ وہ ہنس رہی تھی۔ تمہارے کمرے میں اور کہاں۔ سنو کپڑے سچ مچ بہت گیلے ہیں اتار دوں۔‘‘

    ’’کیا؟‘‘

    وہ پھر کھلکھلا کر ہنسی۔ ’’سمجھو۔ تمہارا وارڈ روب استعمال کرنا نہیں چاہتی۔ تو کیا تم مجھے دیکھتے رہو گے؟‘‘ وہ زور سے ہنسی۔ بارش میں بھیگی لڑکی کا بھیگا ہوا جسم۔ اگر مان لو۔ اگر میں کپڑے اتاروں؟ پوری طرح عریاں ہو جاؤں تو؟ کیا بغیر دیکھے تم اس طرح مجھ سے باتیں کیوں کر سکتے ہو جیسے اپنے کسی دوست سے کر رہے ہو، اس نے زور دیا۔ اپنے مرد دوست سے۔‘‘

    وہ ہونٹ چبا کر چیخی تھی۔ ’’اپنی آنکھیں ادھر کرو۔ میں سچ مچ۔‘‘

    اور سچ مچ اس نے کپڑے اتار دیئے تھے۔ میں نے اپنی پشت کی آنکھوں سے اس کے پورے جسم کو کپکپا دینے والے احساس کے ساتھ محسوس کیا۔ میرا سارا جسم جل رہا تھا۔ ہونٹوں تک تیز لپٹیں اچانک سامنے آ کر بھڑک گئیں تھیں۔ مجھے کہنا چاہئے۔ اتنا خوبصورت، سڈول جسم آج اور اس سے قبل میں نے کبھی نہیں دیکھا تھا۔

    باہر بجلی کڑک رہی تھی۔

    بارش کی بوندیں تیز رفتار سے برس رہی تھیں۔ میں اس کی طرف مڑا تو وہ بلند آواز سے چیخی۔ ’’یہ۔ ای۔ ای۔‘‘

    لیکن اس کی کمزور آواز پر جیسے بجلی کی کڑک حاوی ہو گئی تھی۔

    بارش کب بند ہوئی، پتہ نہیں چلا۔ میں اس کے جسم سے ہٹا تو وہ بلاؤز کے بٹن بند کر رہی تھی۔ پھر وہ ٹھہری نہیں، میں نے اسے دروازہ کھول کر جاتے ہوئے دیکھا۔

    جاتے وقت بھی اس نے مجھ سے ایک لفظ بھی نہیں کہا تھا۔

    بس۔ وہ ایک چھلاوے کی طرح آئی اور چھلاوے کی طرح چلی گئی۔

    (۳)

    یہ سچ ہے کہ تب تک ناٹک لکھا نہیں گیا تھا۔

    ایک پورے ملینیم کے اختتام میں اب صرف بیس دن باقی رہ گئے تھے۔ ادھر سمیر مہادیون ایک دم سے میرے سر پر سوار تھا۔

    ’’یہ کیا ہو گیا ہے تمہیں۔ قلم بانجھ تو نہیں ہو گیا؟‘‘

    ’’نہیں۔‘‘

    ’’تمہارے لئے شادی کرنا ضروری ہے سمجھ گئے۔ میرا۔ پہلے بھی یہی خیال تھا۔ عورت۔ عورت، جیسے موضوع پر تم سے نہیں لکھا جائےگا۔‘‘

    وہ ہنس رہا تھا۔

    حقیقت میں سمیرمہادیون کو مجھ پر ہنسنے کا حق حاصل تھا۔ اس لئے کہ وہ میری دماغی حالت سے واقف نہیں تھا۔ میں لگاتار ڈرامہ کو اس ’’حادثے‘‘ سے جوڑنے کی کوشش کر رہا تھا۔ اہم بات یہ تھی کہ مجھے اس عورت کی تلاش کرنی تھی جو ویدک عہد میں عزت و احترام کی چیز تھی، ویدک عہد، اُتر ویدک عہد، بھکتی آندولن اور مسلمانوں کی آمد تک جو ہندوستانی کلچر میں کئی روپ بدل چکی تھی اور اس انٹرنیٹ عہد تک آتے آتے اس کے بارے میں کچھ بھی کہنا آسان نہیں رہ گیا تھا۔ ان سب کچھ کے باوجود وہ عورت تھی۔ وجود میں ایک نشہ رکھنے والی۔ سمبھوگ کے وقت ہر بار پراسرار ہو جانے والی۔ پراسرار۔ لیکن عورت بہر حال عورت ہوتی ہے۔ چاہے وہ کتنے ہی ملینیم کیوں نہ اوڑھ لے۔

    موضوع میں نے وہیں سے لیا تھا۔ وہی بارش والی عورت۔ اس پراسرار عورت کی ایک ایک بات مجھے یاد رہ گئی تھی۔ ضروری یہ تھا کہ مجھے اس سارے واقعے کو نئے انداز سے لکھنا تھا۔ لکھتے وقت ’’واقعے‘‘ کچھ کے کچھ ہو جاتے ہیں۔ حقیقی کردار کسی دوسرے کردار میں سما جاتا ہے۔ ملینیم کے خاتمے کی عورت۔ میں نے اس کے شوہر کا کردار، اس عورت میں ڈال دیا تھا۔ مجھے پتھر اچھے نہیں لگے تو میں نے اس کے ہاتھوں میں پستول تھما دیا۔ وہ چست چوکس لباس یعنی جینس، ٹی شرٹ وغیرہ پہنتی تھی۔ بال چھوٹے تھے۔ قد مناسب۔ کمر کی پیٹی میں ہر وقت ایک پستول ہوتی تھی۔ وہ زمانے سے تھکی نہیں تھی، نہ ہی وہ زمانے کو مٹھیوں میں کرنا چاہتی تھی۔ زمانہ اس کے لئے ایسی ہی ایک لاچار سی شئے تھا، جیسے گھر کی کوئی بیکار سی لگنے والی چیز، جس پر بڑے آرام سے، کمر سے پستول نکال کر، وہ گولی چلا دیتی تھی۔ بس۔ ایک ذرا سی ٹھائیں۔ خالی وقت میں وہ کراس ورڈس سے کھیلتی تھی۔ کھیلتے کھیلتے پریشان ہو جاتی تو وہی ’’دوست پستول‘‘ اس کے ہاتھوں میں آ جاتا۔

    ٹھائیں۔ بلب ٹوٹ گیا۔

    ٹھائیں۔ فانوس کے شیشے زمین پر بکھر گئے۔

    ٹھائیں۔ کتابوں کی الماری کے آر پار گولیاں نکل گئیں۔

    اور۔ ٹھائیں۔ ٹھائیں۔ پرندوں کی طرح۔ کبھی آسمان کی طرف۔ کبھی شانت لہروں کی طرف۔ اور کبھی۔ بس پزل (Puzzle)۔ کراس ورڈس۔ دنیا میں اس کے لئے کوئی کشش باقی نہیں تھی۔

    یہ ایک خوبصورت سا کردار تھا۔ ناٹک کے لئے یہ ایک انتہائی نیا کردار تھا۔ مجھے یقین تھا، جب یہ کردار تھیٹر میں زندہ ہو اٹھےگا تو مجھے چاروں طرف سے تالیاں ملیں گی۔ یہ کردار ملینیم کی ہزار سالوں میں بدلتی عورت سے میل کھاتا تھا۔ لیکن مجھے یہیں، ایک کردار کی اور ضرورت تھی۔ ایک ایسا کردار جو اسے سہارا دے سکے۔ یقیناً یہ کردار میرا تھا۔ (اور یہ ناٹک میں بھی مجھے ہی نبھانا یا ادا کرنا تھا)۔ اب میرے لئے اہم تھا، میرے اپنے اس کردار کو سنجانا یا سنوارنا۔ مجھے پتہ تھا کہ یہ عورت آسانی سے قابو میں نہیں آئےگی۔ جس طرح اس کا شوہر قابو میں آگیا تھا (اس نے پتھر پھینکے اور ہر بار بچ گئی اور دوسری صبح، ایک دوسر، پتھر کھانے والی کو راستہ دے کر، موسلا دھار بارش کی ایک رات میرے کمرے تک پہنچ گئی۔ )

    حقیقت میں مجھے ایک نئی سچائی کو پیش کرنا تھا۔ اور میں ’’کہانی‘‘ سے، نئے سرے سے گزر رہا تھا۔

    یہ اور بات ہے کہ میں کمرے میں تیز تیز ٹہل رہا تھا اور لگاتار سگریٹ پیئے جا رہا تھا۔

    (۴)

    خاموش جگہ، خاموش فضا۔ ایک ٹھہری ہوئی ندی۔ ان سب کو اسٹیج پر دکھانا آسان نہیں۔ مگر مجھے یہیں، اپنے ہیرو یعنی اپنے آپ کو لانا تھا۔ فنتاسی سے اکتائی عورت، کراس ورڈس کے بیکار سے کاغذ کو ہوا میں اُچھال کر گولیاں چلاتی ہے۔ ایک، دو، تین۔ ٹھائیں۔ ٹھائیں۔ ٹھائیں۔ اچانک ایک چیخ گونجتی ہے۔ ایک انسانی آواز۔ یہ کسی جانور کی آواز نہیں تھی۔ عورت اس چیخ کی طرف مڑتی ہے۔ چونک جاتی ہے۔ ایک انسانی جسم۔ لہو لہان بازو۔ مرد نظر اٹھاتا ہے۔ عورت کو دیکھتا ہے۔ پھر لہو لہان بازو سے گولیاں نکالنے میں ایسے محو ہو جاتا ہے، جیسے اس سناٹے میں اس کے سامنے کوئی عورت نہیں، بے کشش سی کوئی شئے کھڑی ہو۔ جیسے پتے ّ، جیسے پیڑ، جیسے گھومتے جانور، جیسے آسمان، جیسے ستارے۔

    وہ اپنی گولیاں نکال رہا ہے۔ اس طرح، جیسے اس پر احسان کر کے، کوئی ایک کام دے دیا گیا ہو۔

    عورت اس کے پاس آ کر کھڑی ہو جاتی ہے۔ دیر تک دیکھتی ہے۔ پھر پوچھتی ہے۔

    ’’درد ہو رہا ہے؟‘‘

    ’’درد۔ یہ لفظ کچھ سنا سنا سا ہے۔ پتہ نہیں!‘‘ وہ سر جھٹکا دیتا ہے۔

    ’’کافی خون بہہ گیا ہے چلو۔‘‘

    زندگی کے تمام تجربوں سے گزرنے، انہیں ریجکٹ (Reject) کرنے کے بعد۔ زندگی کے تئیں مایوس ہو جانے والی عورت کے اندر مجھے پھر سے ہمت اور حوصلہ پیدا کرنا تھا۔ یعنی ایک نیا ملینیم۔ پھر سے ایک نئی شروعات۔ کیوں گم ہوئے رشتوں کی پھر سے پہچان۔ ہزاروں برس گزر جانے کے بعد ہم پھر سے نئے کیوں نہیں ہو جاتے؟ جیسے ابھی ابھی جنم ہوا ہو۔ مجھے احساس تھا۔ نئے ملینیم کی شروعات میں تمام طرح کا آڈمبرا تار کر اسے پھر سے ایک لڑکی بن جائے۔ ویسی لڑکی، جیسی نظموں میں ہوتی ہیں۔ چھوئی موئی سی، پتہ نہیں کیوں، میں اس میں سوئے ہوئے جذبات کو جگانا چاہتا تھا اور میرا کردار ایسے پیر، فقیر، سنت یا ایک ایسے ’’بےضرر‘‘ انسان کا تھا، جو اچانک ہی، بوڈم کا شکار ہوئی اس عورت کے رابطے میں آ گیا تھا۔

    ڈرامہ کا ایک فریم یہ بھی تھا۔ کہ لڑکی خون صاف کرتے ہوئے اچانک میرے کپڑوں کو اتارنے کی کوشش کرتی ہے۔ اس کے اندر کہیں گہرائی میں چھپی جنسی خواہشات جاگ جاتی ہے۔ وہ کسی شیرنی کی طرح مجھ پر جھپٹتی ہے اور میں۔ میرے اندر کہیں گہرائی تک چھپا ڈر جاگ جاتا ہے۔

    میں گھبراہٹ میں پیچھے ہٹتا ہوں۔

    لڑکی میرا ہاتھ تھام لیتی ہے۔

    ناٹک کے اگلے منظر میں لڑکی تھکی تھکی سی لیٹی ہے، میں چپ چپ اُسے اکیلا چھوڑ کر بغیر کچھ کہے واپس چلا جاتا ہوں۔

    ڈرامہ میں کچھ اور بھی واقعات تھے۔ ڈرامہ میں سمبھوگ، کائنات اور کائنات سے متعلق نئے احساس اور فلسفے پر باتیں کی گئی تھیں۔ ڈرامہ تیار تھا۔ اور حقیقت ہے کہ سمیر مہادیون اسے بار بار پڑھتا ہوا جھوم رہا تھا۔

    ’’واہ۔ واہ میرے دوست۔ واہ۔ میں اپنی بات واپس لیتا ہوں۔ میں نے کہا تھا۔‘‘

    وہ چونک کر پوچھتا ہے۔ ’’مگر اس ناٹک میں مرد کا کردار تمہیں کچھ اٹ پٹا نہیں لگا۔ یعنی ایک بے حد معصوم، میمنے جیسی عورت۔ وہ زیادہ لاؤڈ ہو گئی ہے۔ میرا مطلب کچھ زیادہ۔‘‘

    ’’مرد۔ اوہ۔ تم سمجھے نہیں سمیر مہادیون۔ مجھے مرد ہمیشہ معصوم لگا ہے عورت کے مقابلے۔ اب ہارٹ اٹیک کو ہی لو۔ کتنی عورتوں کو ہارٹ اٹیک ہوتا ہے۔ ظاہر ہوا، دل تو صدا سے مردوں کے پاس رہا ہے۔ درد کا احساس ہمیشہ مردوں نے ہی کیا ہے۔ وہ سچ مچ معصوم ہے۔ میں نے اس ختم ہوتی ملینیم میں عورت کا حقیقی چہرہ پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔‘‘

    سمیر مہادیون کچھ دیر تک سوچتا رہا پھر بولا۔

    ’’تو چلو دیر کس بات کی۔ ڈرامہ کی ریہرسل شروع کرتے ہیں۔‘‘

    (۵)

    ڈرامہ کی ریہرسل شروع ہو چکی تھی۔ ملینیم کے ختم ہونے میں ابھی کئی دن باقی تھے۔ اس پراسرار عورت کا کردار ایک بنگالن لڑکی ادا کر رہی تھی۔ سومیا چٹرجی۔ سومیا لمبی بھی تھی اور دبلی پتلی۔ حالانکہ چہرے مہرے کے تاثرات قطعی طور سے اس عورت سے میل نہیں کھاتے تھے، اور میل کھا بھی نہیں سکتے تھے۔ سومیا کو لینے کی دو ہی وجہ تھیں۔ ایک اس کا لمبا قد۔ دوسرا وہ تھیٹر کی منجھی ہوئی ایکٹریس مانی جاتی تھی۔

    ریہرسل کو چار پانچ دن گزر چکے تھے۔ مگر سمیر مہادیون سومیا کی ایکٹنگ کو لے کر پریقین نہیں تھا۔ وہ بار بار غصے میں اپنے بالوں کو نوچنے لگتا۔ ’’نو۔ ناٹ ایٹ آئی۔‘‘ سومیا۔ یہ ویسی عورت نہیں ہے۔ آئی مین۔ ہنٹر والی ٹائپ۔ تمہیں اس میں حقیقت کا رنگ بھرنا ہوگا۔ حقیقت کا رنگ۔ یو۔ نو۔ مجھے ریلیٹی چاہئے۔ ریلیٹی۔ ایکٹنگ نہیں چاہئے۔‘‘ سومیا حیران سی اس کی طرف دیکھتی۔ ’’میں سمجھ نہیں پا رہی ہوں سر۔ انفیکٹ۔‘‘

    ’’یہ کردار۔‘‘ سمیر مہادیون غصے سے میر پر مکا مارتا ہے۔ ’’سومیا! سمجھنے کی کوشش کرو۔ ایک پوری صدی، نہیں، ملینیم اس عورت کے پاس سے جا رہا ہے۔ شٹ، گزر چکا ہے۔ کبھی رسم و رواج کی بیڑیاں، کبھی پاک دامانی کی اگنی پرکشا اور کبھی۔ دراصل وہ اداس ہو گئی ہے۔ آئی مین۔ نیوٹرل۔ چیزوں میں اس کے لئے کوئی کشش نہیں ہے۔ رشتوں میں احساس میں۔ جذبات میں۔ اور سومیا دس از فنٹاسٹک رول فاریو۔ یو شُڈ انجائے۔ یہ صرف ایک واقعہ یا کردار نہیں ہے، یہ ایک بدلی ہوئی عورت ہے۔‘‘

    ’’بس سر۔‘‘ جواب میں سومیا کے چہرے پر شکن آ جاتی ہے۔ وہ دوبارہ اسکرپٹ پر جھک جاتی ہے۔ فنٹاسٹک۔‘‘ سمیر مہادیون میری طرف مڑتا۔ تم دیکھنا یہ ناٹک تھیٹر ورلڈ میں ہلچل مچا دےگا۔‘‘

    سچائی یہ ہے کہ میرے اندر اس ڈرامہ کے لئے اتنا جوش نہیں تھا جتنا سمیر مہادیون میں بھرا ہوا تھا۔ حالانکہ بارش کی اس رات والی پوری کہانی اب بھی میرے چہرے پر لکھی ہوئی تھی۔ اور میں ریہرسل کرتے کرتے کتنی بار چونک کر بڑبڑایا تھا۔ اور ہر بار سومیا نے مجھے حیرت زدہ نظروں سے دیکھتے ہوئے پوچھا تھا۔ ’’کیا بات ہے سر! طبیعت کچھ۔‘‘

    ’’نہیں۔ طبیعت ٹھیک ہے۔‘‘ سمیر مہادیون ایک بار پھر ٹھہر کر زور سے چلایا۔ ’’ریڈی۔ ریڈی فار ریہرسل۔ سین نمبر۔ او کے سومیا۔ ریڈی؟۔ گو فار ریہرسل۔ چلیں۔‘‘

    منظر وہی تھا۔ عورت خون دیکھ کر چونک جاتی ہے۔ وہ آگے بڑھ کر میرے کپڑوں کو اتارنے کی کوشش کرتی ہے۔ اچانک وہ جنسی جذبات سے لبریز ہو جاتی ہے۔ اس کا سارا جسم جذبات کی شدت سے لرز رہا ہوتا ہے۔ وہ پاگلوں کی طرح میری طرف بڑھتی ہے۔ ایک اینٹی ویمن کردار۔‘‘ سومیا ریڈی ہے۔

    سمیر مہادیون چلاتا ہے۔

    میں گھبرایا سا پیچھے ہٹتا ہوں اور۔

    ریہرسل روم کا دروازہ اچانک کھلا ہے۔

    ٹھک۔ ٹھاک۔ ہیل والے جوتے بجے ہیں۔ کوئی آ رہا ہے۔ کوئی آ گیا ہے۔ سمیر مہادیون نے چونک کر دیکھا ہے۔ میں ٹھہر گیا ہوں۔

    ’’معاف کیجئےگا۔‘‘ وہی سرد سا لہجہ۔ ’’میں ریہرسل دیکھ سکتی ہوں؟‘‘

    ’’کیوں نہیں۔ کیوں نہیں، بیٹھنے۔‘‘

    ’’شکریہ۔‘‘

    وہ کرسی پر بیٹھ گئی ہے۔ اس کی آنکھیں پتھرائی ہوئی ہیں۔ میرے ماتھے پر پسینہ کی بوندیں جھلملا اٹھتی ہیں۔ یہ وہی ہے۔ کتنے آرام سے کرسی پر بیٹھی ہوئی ہے۔ جیسے۔ مجھ سے شناسائی ہی نہیں ہو۔ مجھے جانتی ہی نہیں۔

    سمیر مہادیون میرے قریب آ گیا ہے۔ ’’کیا بات ہے۔ طبیعت۔ وہ سومیا بھی کہہ رہی تھی۔‘‘ ’’نہیں۔‘‘ ایک بار پھر مسکرانے کی ناکام کوشش۔ ’’نہیں بالکل ٹھیک ہوں۔‘‘

    ’’تو پھر آرام سے ریہرسل کرو نا۔‘‘

    سمیر مہادیون کے چہرے پر شکن ہے۔ وہ پھر چلاّتا ہے۔ ’’گو فار۔ سین نمبر۔

    سومیا میری طرف بڑھتی ہے۔ میں پیچھے ہٹتا ہوں۔ پیچھے دیوار ہے۔ میں دیوار سے لگ گیا۔ میری آنکھیں برابر اس لڑکی میں لگی ہوئی ہیں۔ یہ کیا۔ وہ کھڑی ہو گئی ہے۔ وہ آہستہ آہستہ سمیر مہادیون سے باتیں کر رہی ہے۔ سمیر گردن جھکائے دھیرے دھیرے ہاں، میں گردن ہلا رہا ہے۔ میرے ماتھے پر ایک بار پھر پسینہ کی بوندیں پھیل گئی ہیں۔ وہ دھیرے دھیرے ایڑی زمین سے رگڑتی ہوئی دنوں ہاتھوں سے کچھ سمجھانے کی کوشش کر رہی ہے۔

    ’’اوہ۔ یس۔‘‘

    سمیر مہادیون نے زور سے تالیاں بجائی ہیں۔ اب وہ مجھے بلا رہا ہے

    ’’کیا ہے؟‘‘

    ’’یہ۔ ان سے ملو۔ یار۔ کمال ہے۔ کمال، ابھی انہوں نے جو سین سمجھایا ہے، بس کمال ہے۔

    ’’سین؟‘‘

    ’’ہاں سین، بھائی مجھے تو اس آئیڈیا نے زیادہ متاثر کیا ہے۔ اور ویسے بھی تمہارے چہرے پر وہ تاثرات نہیں آ رہے ہیں، نہ ہی سومیا وہ تاثرات دینے کی کوشش کر رہی ہے۔‘‘

    ’’مطلب۔‘‘

    میں ایک دم سے چونک گیا۔

    ’’مطلب۔ کردار بدل دیئے جائیں گے۔ نو۔ نو۔ یو کانٹ انٹرپٹ۔ سمجھو۔ یہ تھیٹر ہے بھائی۔ تھیٹر۔ یہاں سب کو مل جل کر کام کرنا ہے۔ وہی کرنا ہے جو سب کو اچھا لگے۔ یہی تو فرق ہے تھیٹر اور سنیما میں۔‘‘

    ’’مطلب۔ میرا رول بدل جائےگا۔‘‘

    ’’ہاں، جیسا انہوں نے بتایا۔ دیکھو، برا مت ماننا۔ ان کی بات میں وزن ہے۔ کتنے لوگ ہیں جو تمہارے کردار والی عورت کو پسند کریں گے۔ یعنی وہ ہنٹر والی۔ یار پھر وہی۔ جذباتی ہو رہے ہو تم۔ بھاڑ میں گیا ملینیم۔ بھاڑ میں گئی وہ ملینیم والی عورت۔ عورت ہر بار وہی ہوگی۔ وہی عورت۔ کمزور۔‘‘

    ’’مگر۔‘‘

    ’’مگر وگر۔ کچھ۔ نہیں۔‘‘

    میرا لہجہ کمزور تھا۔۔۔ ’’مگر یہ تو میری اسکرپٹ کے ساتھ ناانصافی ہوگی۔۔۔‘‘

    ’’پھر وہی اسکرپٹ۔ یار۔‘‘ وہ مجھے دونوں ہاتھوں سے ہلا رہا تھا۔ ’’پھر جذباتی ہو رہے ہو تم۔ ارے یار۔ یہ تھیٹر ہے۔ تھیٹر۔ اس میں سب کی مرضی چلتی ہے۔ سب کے کہنے سے چلتا ہے تھیٹر۔ پھر، جس سے سب کو فائدہ ہو۔‘‘ سمیر مہادیون عورت کی طرف گھوما تھا۔ ’’تو آپ لکھ دیں گی۔۔۔ ٹھیک۔۔۔ ایسا کیجئے، یہی سین۔۔۔ سمجھ رہی ہیں نا، آپ۔ یہی سین۔ کل آپ لکھ کر لے آیئے۔ پھر دیکھتے ہیں۔‘‘

    میں نے اب آخری حملہ کیا تھا۔۔۔

    ’’مجھے۔ معاف کرنا۔ شاید میں یہ رول نہ کر پاؤں؟‘‘

    سمیر مہادیون نے اس بار کچھ غصّے کچھ جوش سے میرا ہاتھ تھاما تھا۔۔۔ ’’خالص جذبات، آدرش۔ صرف کردار بدلے ہیں۔ تم ہو۔ اور تم بدلے ہوئے کردار بھی تم ہی کر رہے ہو۔۔۔ دوسری طرح سے کیوں تو۔۔۔ تمہیں کرنا ہی پڑےگا۔ اب بحث کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ سمجھ رہے ہو تم۔

    ’’اچھا، میں چلتی ہوں۔‘‘

    اس نے میری طرف ہاتھ بڑھایا تھا۔

    اُف۔ برف جیسا سرد ہاتھ۔۔۔

    ’’میری کوئی بات لگی ہو تو۔‘‘

    وہ اچانک جانے کے لئے مڑی تھی۔ پھر ایڑیاں بجاتی ہوئی تیزی سے ریہرسل ہال سے باہر نکل گئی۔

    یقیناً، چونکنے کی باری اب میری تھی۔۔۔ یہ کیا ہوا۔ ایسا کیونکر ہوا۔ اس نے مجھے پہچانا کیوں نہیں۔ اور وہ چاہتی کیا ہے؟۔

    سمیر مہادیون مجھے زور زور سے ہلا رہا تھا۔۔۔‘‘ فلموں میں جاؤ گے تب پتہ چلے گا۔ یار وہاں تو پوری کہانی بدل جاتی ہے یہاں تو صرف کردار بدلے گئے ہیں۔

    کردار؟

    لیکن کیا حقیقت میں صرف کردار بدلے گئے تھے۔

    دوسرے دن ریہرسل کامیابی سے گزر گئی۔ معلوم نہیں یہ اتفاق تھا، یہ سومیا چٹرجی اس کردار کے لئے زیادہ فٹ تھی۔۔۔ اب کردار میں میری جگہ وہی آ گیا تھا، اس کا شوہر، ایک بے رحم آدمی۔ سومیا نئی نویلی دلہن تھی، جو مرد کی بے رحمی کی سزا کاٹ رہی تھی۔

    ’’دیکھا۔۔۔‘‘

    سمیر مہادیون پر یقین تھا۔۔۔ میرا پہلے بھی خیال تھا۔۔۔ عورت کو لاؤڈ نہیں ہونا چاہئے۔ لاؤڈ تو۔۔۔ تم۔۔۔

    چلو اچھی بات ہے، تم آج زیادہ گمبھیر نہیں ہو۔‘‘

    لیکن۔۔۔ وہ کتنا جانتا تھا مجھے؟ یہ وہی کردار تھا وہی بارش والی رات۔ جب میں اچانک پاگل ہو کر اس عورت کی طرف جھپٹا تھا۔ وہ چیخی تھی، خوف سے پیچھے ہٹی تھی۔ مگر ایک پرائے مرد کے کمرے میں آ کر بےلباس ہو جانا۔ ادبی اندھیرا، حقیقت کے اندھیرے میں بدل گیا تھا۔ ریہرسل کرتے وقت مجھ میں پورا پورا مجرم اتر آیا تھا۔ ریہرسل ہوتے ہی اس نے زور زور سے تالیاں بجائی تھیں۔۔۔

    پھر میری طرف اپنا سرد ہاتھ بڑھایا تھا۔

    Congratulations

    سمیر مہادیون آگے آگیا تھا۔ میری طرف دیکھ کر۔

    وہ بےرخی سے مڑا، پھر عورت کی طرف گھوما۔۔۔

    ’’آپ آگے۔ آں سمجھ رہی ہیں نہ۔ باقی سین بھی۔ سن دو ہزار کے دوسرے ہفتے میں ہی۔۔۔ آپ سمجھ رہی ہیں نہ۔‘‘

    عورت گھومی تھی۔ ’’انہیں اگر کوئی شکایت نہ ہو تو۔ سمیر مہادیون نے میرا ہاتھ تھاما تھا۔۔۔‘‘ یقین دلاتا ہوں، انہیں۔ انہیں کوئی شکایت نہیں ہوگی۔‘‘

    اور یقیناً۔۔۔ بھلا مجھے کیا شکایت ہو سکتی تھی؟ یہ کہ میرا کردار بدل گیا تھا۔ یہ کہ اسکرپٹ کا پورا نام جھام اس نے سنبھال لیا تھا۔۔۔ پورا کردار۔۔۔ یا پورے ناٹک میں۔۔۔ اب میں وہی غیر شائستہ سا مرد تھا۔ جاہل، جنگلی۔ ریہرسل پورا ہوا۔

    ہم نے ایک نئے ملینیم میں قدم رکھا۔

    ڈرامے کا پہلا شو تالیوں کی گڑگڑاہٹ کے ساتھ ختم ہوا۔۔۔ نہ معلوم کیوں مجھے بار بار لگ رہا تھا۔۔۔ میرے ادب کا مذاق اڑایا گیا ہے۔ یا یہ کہ اپنے ادب یا ادیب ہونے کا مذاق میں نے خود اڑایا ہے۔

    اس رات پہلے شو سے واپسی کے بعد ایک حادثہ اور ہوا تھا۔۔۔ اس نے فون کیا تھا۔۔۔ وہی، برفیلی آواز۔ اس نے مجھے ایک ویران جگہ کا پتہ دے کر بلایا تھا۔۔۔ ملنے کے لئے۔

    (۶)

    وہ سامنے کھڑی تھی۔ اس کا چہرہ سفید ہو رہا تھا۔ بے نشان، روح جیسا۔

    ’’تم۔ جانتے ہو، میں نے تمہیں یہاں کیوں بلایا ہے۔‘‘

    اف، وہی برف کے پگھلنے جیسا لہجہ۔

    ’’نہیں۔۔۔‘‘

    وہ مسکرا رہی تھی۔۔۔ ’’مجھے کبھی برا نہیں لگا، کہ میں۔۔۔ میں جو سوچتی ہوں، وہ حقیقت میں کیوں نہیں ہوتا۔ یعنی آدمی ہونے کے باوجود آدرش واد کی چٹان، جوالا مکھی کی طرح اندر ہی اندر کیوں دھنستی جاتی ہے۔ کسی بڑے دھماکے کے لئے۔۔۔ آئیڈیالوجی۔‘‘

    وہ ہنس رہی تھی۔۔۔

    ’’برا مت ماننا۔ یاد ہے، سیمینار کے روز میں نے پوچھا تھا۔ سیمینار سے گھر اور گھر کے دروازے پر قدم رکھنے والا آدمی آئیڈیالوجی کی سطح پر تو ایک ساہی رہتا ہے نہ۔‘‘

    وہ پھر ہنسی۔۔۔ ’’تم ویسے نہیں نکلے۔ نکل بھی نہیں سکتے تھے۔ اور اسی لئے میں نے تمہیں اس کردار سے نکلوایا۔ جانتے ہو کیوں۔۔۔‘‘

    ’’نہیں۔۔۔‘‘

    ’’تم اس کردار میں فٹ نہیں تھے۔ یعنی پہلے والے کردار میں۔۔۔ اس لئے میں نے پوری کہانی بدل دی۔ تم کہیں سے فٹ نہیں تھے۔‘‘

    اس نے بڑے آرام سے پستول نکال لی تھی۔

    میں نے خوف سے اس کی طرف دیکھا۔

    اُس کی آنکھوں میں ایک زہریلی مسکراہٹ تیر رہی تھی۔۔۔ ’’کیوں، ڈر گئے؟ ڈرو مت؟ ’’تمہیں کیا لگا، میں تم پر ایک گولی برباد کر دوں گی۔‘‘

    وہ مسکرا رہی تھی۔۔۔ اب میں اتنی بھی بےوقوف نہیں ہوں۔۔۔ وہ تو بس۔ ایسے ہی۔ شوقیہ۔ اچھا لگتا ہے نا، تمہارے ناٹک کے پہلے والے کردار سے میل کھاتا ہوا۔‘‘

    اچانک اس کے چہرے سے ہنسی غائب تھی۔۔۔ جاؤ تم!

    وہ زور سے چیخی۔۔۔ سنا نہیں تم نے۔۔۔

    پھر اس نے آنکھیں جھکا لیں۔۔۔ میری فکر کئے بغیر وہ وہیں ایک چٹان نما پتھر پر بیٹھ گئی۔۔۔ اس کے ہاتھ میں پتہ نہیں، کہاں سے ایک میلا سا صفحہ آ گیا تھا، یقیناً یہ کراس ورڈس تھا۔ وہ فاؤنٹین پین لے کر پورے وجود کے ساتھ اُس پر جھک گئی تھی۔

    واپس لوٹتے ہوئے میرے قدم شل تھے اور دماغ سائیں سائیں کر رہا تھا۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے