Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

بدلتے رنگ

شموئل احمد

بدلتے رنگ

شموئل احمد

MORE BYشموئل احمد

    جب کہیں دنگا ہوتا سلیمان رکمنی بائی کا کوٹھا پکڑتا۔ اس کے ساتھ وہسکی پیتا اور دنگائیوں کو گالیاں دیتا۔ رکمنی بائی خود اس سے میٹھی میٹھی باتیں کرتی اور پولیس کو ’’بھڑوی کی جنی‘‘کہتی۔ تب کہیں سلیمان کے دل کی بھڑاس نکلتی اور اس کو یہ جگہ محفوظ نظر آتی۔ یہاں ذات پات کا جھمیلا نہیں تھا اور یہ بات سلیمان کو بھاتی تھی ورنہ اس کے لیے مشکل تھا کہ کہاں جائے اور کس سے باتیں کرے۔۔۔؟

    سلیمان کو مذہب سے دل چسپی نہیں تھی۔ اس کا ایسا ماننا تھا کہ مذہب آدمی کو جوڑتا نہیں ہے اور وہ آدمی کو جوڑنے کی بات کرتا تھا اور اس کے حلقۂ احباب میں بھی زیادہ تر دوسرے مذہب کے لوگ تھے اور وہ ان میں مقبول بھی تھا۔ پھر بھی جب شہر میں فرقہ وارانہ کشیدگی پھیلتی تو وہ ذہنی الجھنوں کا شکار ہو جاتا۔ اس کو اپنے دوستوں کا رویّہ یکسر بدلا ہوا محسوس ہوتا اور سبھی مذہبی جنون میں نظر آتے۔ ان کی باتوں سے فرقہ پرستی کی بو آتی، جس سے سلیمان کی الجھن بڑھ جاتی۔ سب سے زیادہ کوفت توبیوی کی باتوں سے ہوتی۔ اس کے پاس ایک ہی ٹکا سا جواب تھا۔۔۔ مسلمان اپنے دین پر نہیں ہیں اس لیے اللہ یہ دن دکھا رہا ہے۔۔۔ سلیمان کچھ کہنا چاہتا تو یہ کہہ کر اس کو فوراً چپ کرا دیتی کہ آپ کیا بولیں گے؟ آپ تو جمعہ کی نماز تک ادا نہیں کرتے۔!

    اور سلیمان جمعہ کی نماز ادا نہیں کرتا تھا لیکن آدمی کو جوڑنے کی بات کرتا تھا۔ وہ اکثر سوچتا کہ آدم کی کہانی پر یقین کرنے کا مطلب ہے کہ فرقہ پرستی کے بیج آدم سے ہی نسل آدم میں منتقل ہوئے۔ آخر ابلیس آدم کو سجدہ کیوں کرتا۔۔۔؟ وہ آگ سے بنا تھا اور آدم مٹّی سے دونوں الگ الگ فرقے سے تھے۔۔۔ یہ کائنات کی پہلی فرقہ پرستی تھی جو خدا نے آسمان میں رچی۔۔۔ ۔ سلیمان کو لگتا شاید خدا کی طرح فرقہ بھی انسانی سائیکی کی ایک ضرورت ہے ۔کبھی کبھی بیوی کو چھیڑنے کے لیے وہ اس قسم کی باتیں کرتا تو وہ چیخ چیخ کر کہتی:

    ’’حشر میں کیا منہہ لے کر جائیےگا ۔۔۔ کچھ تو خدا کا خوف کیجئے۔۔۔‘‘

    سلیمان کی یہ حسرت تھی کہ کاش ! کوئی تو ایسا ملتا جو آدمی کی بات کرتا ،لیکن سبھی مذہب کا رونا روتے تھے۔ لے دے کر ایک رنڈیاں ہی رہ گئی تھیں جو ذات پات کے جھمیلے سے آزاد نظر آتی تھیں۔۔۔ سلیمان کو کوٹھا راس آ گیا تھا اور جب کہیں دنگا ہوتا تو سلیمان۔۔۔

    اس بار دنگا اس کے آبائی وطن میں ہو گیا اور اخبار میں وہاں کی خبریں پڑھ پڑھ کر وہ جیسے دیوانہ ہو گیا۔ اس کو اخبار بینی سے گرچہ زیادہ دل چسپی نہیں تھی بلکہ اس نے ایک طرح سے اخبار پڑھنا ترک ہی کردیا تھا۔ آئے دن لوٹ مار اور قتل و غارت گری کی خبریں ہی شائع ہوتی تھیں جنہیں پڑھ کر اس کو ہمیشہ الجھن محسوس ہوتی تھی لیکن اس بار خبروں کی نوعیت کچھ اور تھی۔ معاملہ آبائی وطن کا تھا اور وہ ڈھونڈ ڈھونڈ کر وہاں کی خبریں پڑھ رہا تھا اور یہ پتا لگانے کی کوشش کر رہا تھا کہ کون سا علاقہ کس حد تک متأثر ہوا ہے؟

    لوگائی گاؤں کا واقعہ پڑھ کر سلیمان کے دل میں ہول سا اٹھنے لگا۔ اس نے اخبار پھینک دیا اور بےچینی سے کمرے میں ٹہلنے لگا۔

    ’’گاؤں کا گاؤں صاف ہو گیا۔۔۔ گاؤں کا گاؤں۔۔۔!‘‘ اس کے منہ سے ایک آہ نکلی اور اس کو یکایک سعیدہ کی یاد آ گئی۔

    سلیمان کو ترک وطن کیے گرچہ ایک عرصہ گذر گیا تھا اور وہ روزی روٹی کے چکر میں بہت دور آ بسا تھا لیکن وہاں کی یادیں اس کے دل کے نہاں خانوں میں اب بھی محفوظ تھیں۔۔۔وہاں کی گلیاں اور کوچے وہ بھولا نہیں تھا جہاں اس کا بچپن گذرا تھا۔۔۔ خصوصاًگلی کے نکڑ والا وہ کھپر پوش مکان جہاں سعیدہ رہتی تھی۔ سعیدہ جس کے ہونٹوں پر اس نے ایام نوخیزی کا پہلا بوسہ ثبت کیا تھا۔۔۔ اس بوسے کی حلاوت ابھی تک اس کی روح میں گھلی ہوئی تھی۔۔۔ اس کو یاد تھا سعیدہ کس طرح شرمائی تھی اور آنچل میں منہ چھپاتی ہوئی اندر بھاگ گئی تھی۔

    سلیمان کو یاد آ گیا سعیدہ کی شادی لوگائی گاؤں میں ہوئی تھی اور لوگائی گاؤں میں ہی یہ واقعہ پیش آیا تھا۔۔۔ اس کے دل میں پھر ہوک سی اٹھی۔۔۔ وہ سرتھام کر بیٹھ گیا۔۔۔ اس کو یقین نہیں آ رہا تھا کہ آدمی اس حد تک وحشی ہو سکتا ہے اور خود مقامی پولیس بھی۔

    اس کو لگا یہ فساد نہیں نسل کشی ہے۔۔۔ اجتماعی قتل کی خوفناک سازش۔۔۔ اور اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو۔۔۔

    سلیمان کی کیفیت اختلاجی ہو گئی۔ اس کو وہسکی کی طلب ہوئی۔ اس نے الماری سے بوتل نکالی اور کمرے کے نیم تاریک گوشے میں بیٹھ گیا۔ گلاس میں وہسکی انڈیلتے ہوئے اس نے ایک لمحے کے لیے سوچاکہ اچھا ہی تھا اس کی بیوی اس وقت میکے میں تھی ورنہ وہ گھر میں بیٹھ کر اس طرح غم غلط نہیں کر سکتا تھا۔۔۔ وہ یقیناً چیخ چیخ کر آسمان سر پر اٹھا لیتی اور اس کو باہر کا رخ کرنا پڑتا۔

    سلیمان نے وہسکی کا ایک لمبا گھونٹ لیا اور کرسی کی پشت سے سرٹیک کر آنکھیں بند کرلیں۔ وہ کچھ دیر تک آنکھیں بند کیے اسی طرح بیٹھا رہا۔۔۔ نا گہاں اخبار کی رپورٹ اس کے ذہن میں کچوکے لگانے لگی۔

    ’’پہلے لاشیں کنویں میں پھینکیں۔۔۔‘‘

    پھر چیل اور کوّے منڈلانے لگے تو۔۔۔

    ’’اوہ !!!!‘‘۔۔۔ سلیمان نے جھر جھری سی لی۔

    ’’کنویں سے نکال کر کھیتوں میں دفن کر دیا۔۔۔‘‘

    ’’پھر فصل لگا دی۔۔۔‘‘

    ’’ناقابل یقین۔۔۔ ناقابل یقین۔‘‘وہ ہونٹوں ہی ہونٹوں میں بڑبڑایا۔

    سلیمان کو لگا اس کی بے چینی کم ہونے کے بجائے بڑھ رہی ہے۔۔۔ اس کو پھر سعیدہ یاد آ گئی۔ اس نے وہسکی کا ایک اور لمبا گھونٹ لیا۔

    ’’پتا نہیں کس حال میں ہوگی۔۔۔؟‘‘

    گلاس میں بچی ہوئی وہسکی اس نے ایک ہی سانس میں ختم کی۔ پھر کرسی کی پشت سے سر ٹیک کر اسی طرح آنکھیں بند کیں تو کوئی جیسے آہستہ سے اس کے کانوں میں پھسپھسایا۔

    ’’گاجر اور مولی کی طرح۔۔۔‘‘

    سلیمان کو اپنا دَم گھٹتا ہوا محسوس ہوا۔ کرسی سے اٹھ کرکمرے میں ٹہلنے لگا۔ کچھ دیر تک اسی طرح چہل قدمی کرتا رہا۔ پھر اس نے یکایک بیگ اٹھایا۔ وہسکی کی نئی بوتل رکھی، تولیہ اور صابن بھی رکھا اور فلیٹ میں تالا لگاکر باہر آیا۔ وہ اب جلد از جلد رکمنی بائی کے کوٹھے پر پہنچ جانا چاہتا تھا۔

    اس نے رکشہ کے لیے ادھر ادھر نظریں دوڑائیں تو سڑک کی دوسری طرف اپنا پڑوسی دکھائی دیا۔ سلیمان فوراً ایک دکان کی اوٹ میں ہو گیا۔ وہ اس وقت اس سے ہم کلام ہونا نہیں چاہتا تھا لیکن اس کی نظر سلیمان پر پڑ ہی گئی۔۔۔ اس نے ہاتھ سے اشارہ کیا تو سلیمان نے یہ سوچ کر کوفت محسوس کی کہ پتا نہیں کیا کیا بکے گا۔۔۔؟

    قریب آکر پڑوسی نے رازدارانہ لہجہ میں بتایا کہ شہر میں تناؤ پھیل رہا ہے اور بہت ممکن ہے شہر میں کرفیو لگ جائے۔ پھر اس نے سلیمان کے کندھے سے لٹکے بیگ کو دیکھ کر تشویش ظاہر کی کہ اس وقت اس کا باہر جانا۔

    تب سلیمان نے مختصر سا جواب دیا تھا کہ وہ ایک دوست کے گھر جا رہا ہے جہاں وہ یقیناً محفوظ رہےگا۔۔۔ اور اچک کر ایک رکشہ پر بیٹھ گیا۔۔۔ لیکن اس سے پہلے کہ رکشہ آگے بڑھتا اس شخص نے ایک سوال داغ دیا تھا۔

    ’’آپ لوگ جلوس کو راستا کیوں نہیں دیتے۔۔۔؟‘‘

    سلیمان بھنّا گیا۔۔۔ اس سے کوئی جواب نہیں بن پڑا۔ بے حد غصّے میں اس نے رکشہ آگے بڑھانے کا اشارہ کیا۔ رکشہ آگے بڑھا تو سلیمان نے مڑ کر نفرت سے اس آدمی کی طرف دیکھا اور غصہ میں بڑبڑایا۔

    ’’سالا مجھے بھی ان لوگوں میں سمجھتا ہے۔

    بازار سے گذرتے ہوئے سلیمان کو لگا، فضا میں واقعی تناؤ ہے۔ دکانوں کے شٹر گرنے لگے تھے۔ آگے چوک کے قریب کچھ لوگ آہستہ آہستہ سرگوشیاں کر رہے تھے۔ سلیمان کا رکشہ قریب سے گذرا تو ایک نوجوان نے اس کو گھور کر دیکھا۔

    سلیمان کو لگا اس وقت رکشہ پر وہ ایک آدمی کی صورت میں نہیں فرقہ کی صورت میں جا رہا ہے اور لوگوں کی نگاہیں اس میں اس کا فرقہ ڈھونڈ رہی ہیں۔ اس نے ایک سہرن سی محسوس کی۔ کیا ہو اگر ابھی دنگا ہو جائے۔؟ وہ یقیناًمارا جائےگا، وہ کوئی جواز پیش نہیں کر سکتا کہ اس کو فرقے اور مذہب سے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔ وہ اس سے انکار نہیں کر سکتا کہ وہ ایک مخصوص فرقے میں پیدا ہوا ہے۔ آدمی مذہب بدل سکتا ہے فرقہ نہیں۔ مذہب آدمی کا مقدر نہیں ہے۔ فرقہ آدمی کا مقدر ہے جو اس کی پیدائش سے پہلے اس کے لیے طے ہوتا ہے اور پھر سلیما ن کو یہ سوچ کر عجیب لگا کہ آدمی صرف اس لیے مارا جائے کہ دوسرے فرقہ میں پیدا ہوا ہے دوسرے فرقہ میں۔۔۔

    اس کو سگریٹ کی طلب ہوئی۔ اس نے جیب سے ماچس اور سگریٹ کی ڈبیا نکالی۔ ایک سگریٹ ہونٹوں سے دبایا اور ماچس جلانے کی کوشش کی تو تیلی ہوا میں بجھ گئی۔ رکشہ کی چال تیز تھی۔ تب سلیمان نے ماچس کو سگریٹ کے قریب رکھا اور تیلی کو ماچس سے رگڑتے ہی سگریٹ کے گوشے سے سٹا دیا اور زور سے دم کھینچا۔۔۔ تیلی بجھ گئی لیکن سگریٹ کا گوشہ سلگ گیا ۔سلیمان نے جلدی جلدی دوچار کش لگائے۔ سگریٹ اچھی طرح سلگ گئی تو اس نے ایک لمبا کش لگایا اور ناک اور منہ سے دھواں چھوڑتا ہوا ایک بار چاروں طرف طائرانہ سی نظر ڈالی۔سڑک پر لوگ باگ اب کم نظر آ رہے تھے۔ موڑ کے قریب رکشہ والے نے پوچھا کہ کدھر جانا ہے تو سلیمان نے بائیں طرف اشارہ کیا۔ رکشہ بائیں طرف پتھریلی سڑک پر مڑا تو اس نے سگریٹ کا آخری کش لیا۔ کچھ دیر میں رکشہ رکمنی بائی کے کوٹھے کے قریب تھا۔

    رکشہ سے اتر کر اس نے ایک بار ادھر ادھر دیکھا اور یہ محسوس کیے بغیر نہیں رہ سکا کہ یہاں بھی ماحول میں۔۔۔

    کچھ دلال ایک طرف کونے میں کھڑے آپس میں کھسر پھسر کر رہے تھے ۔سلیمان کو دیکھ کر ایک نے دوسرے کو کنکھی ماری اور ہنسنے لگا۔ سلیمان کو اس کی ہنسی تضحیک آمیز لگی۔ وہ ان کوناگوار نظروں سے گھورتا ہوا کوٹھے کی طرف بڑھا تو دلال نے سلیمان کو ٹوکا:

    ’’کوئی فائدہ نہیں صاحب ۔۔۔‘‘

    اور پھر سب کے سب ہنسنے لگے۔ سلیمان کو ان کا رویہ بہت عجیب معلوم ہوا لیکن کچھ کہنا اس نے مناسب نہیں سمجھا۔ وہ چپ چاپ سیڑھیاں چڑھتا کوٹھے پر پہنچا تو رکمنی بائی اس کو دیکھتے ہی دروازے پر تن کر کھڑی ہو گئی۔

    ’’خیر تو ہے۔۔۔‘‘ سلیمان مسکرایا۔

    ’’یہاں نہیں۔۔۔‘‘ رکمنی بائی چمک کر بولی۔

    ’’پھر کہاں میری جان۔۔۔!‘‘سلیمان ہنسنے لگا۔

    ’’اپنی بہن کے پاس جاؤ۔۔۔‘‘

    ’’کیا بکواس ہے؟سلیمان جھلّا گیا۔

    ’’یہاں نہیں۔۔۔‘‘رکمنی بائی نے بدستور ہاتھ چمکایا۔

    ’’میں ہمیشہ تمہارے پاس آتا ہوں۔۔۔‘‘

    ’’اب نہیں۔۔۔‘‘

    ’’دیکھو۔۔۔ یہ ظلم مت کرو۔۔۔ یہ میری جائے اماں ہے۔۔۔ یہاں سے نکال دوگی تو کہاں جاؤں گا۔۔۔؟‘‘

    ’’کہیں بھی جاؤ۔۔۔‘‘ رکمنی بائی اسی طرح اینٹھ کر بولی۔

    ’’یہ تمہیں کیا ہو گیا ہے ؟ شہر میں کرفیو لگنے والا ہے۔یہاں سے نکالا گیا تو مارا جاؤں گا۔‘‘

    ’’میں کچھ نہیں جانتی ۔۔۔‘‘

    ’’رکمنی بائی۔۔۔ پلیز۔۔۔‘‘سلیمان گھگھیانے لگا۔۔۔

    ’’میں کچھ نہیں جانتی۔۔۔‘‘رکمنی بائی اسی طرح چمک کر بولی۔

    ’’آخر کیا ہو گیا ہے تمہیں ۔۔۔؟تم کیا چاہتی ہو۔۔۔؟بلوائی مجھے کاٹ دیں۔۔۔ یا پولیس مجھے گولی مار دے۔۔۔؟؟‘‘

    ’’میں مجبور ہوں۔۔۔‘‘رکمنی بائی اسی طرح تن کر کھڑی تھی۔

    ’’یہ غضب مت کرو۔۔۔میں تمہارے کوٹھے کے علاوہ اور کہیں نہیں جاتا۔۔۔یہ مرا گھر ہے۔۔۔ میں برسوں سے تمہارے پاس آ رہا ہوں۔۔۔‘‘

    رکمنی بائی چپ رہی۔

    سلیمان کو لگا رکمنی بائی پسیج رہی ہے ۔ اس کا لہجہ کچھ اور خوشامدانہ ہو گیا۔

    ’’میری اچھی رکمنی بائی ۔۔۔ پلیز مجھے اندر آنے دو۔‘‘

    رکمنی بائی نے ایک لمحہ توقف کیا اور راستہ چھوڑ کر ہٹ گئی ۔سلیمان اندر پلنگ پر بیٹھ گیا۔

    لیکن اب اس کو ماحول میں پہلے جیسا گھریلوپن محسوس نہیں ہو رہا تھا۔ اس نے ایک بار بےدلی سے چاروں طرف دیکھا۔ سامنے طاق میں بھگوان کی چھوٹی سی مورتی رکھی ہوئی تھی جہاں اگربتّی جل رہی تھی۔ سلیمان کو مورتی کے ماتھے پر سندور کا داغ بہت تازہ معلوم ہوا۔

    بیگ سے وہ وہسکی کی بوتل نکالنے لگا تو رکمنی بائی بولی:

    ’’ٹائم نہیں ہے۔۔۔‘‘

    ’’کیوں۔۔۔؟‘‘

    ’’بس کام کرکے جاؤ۔۔۔‘‘

    سلیمان نے کچھ عجیب نظروں سے اس کی طرف دیکھا۔

    ’’میں اس نیّت سے تمہارے پاس نہیں آتا ہوں۔۔۔ بس دو گھڑی بات کرکے جی ہلکا کر لیتا ہوں۔۔۔ اور کہاں جاؤں۔۔۔؟ کس سے بات کروں۔۔۔؟ آدمی کی بات کوئی نہیں کرتا۔۔۔‘‘

    رکمنی بائی کپڑے اتارنے لگی تو سلیمان نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔

    ’’ذرا بیٹھو تو۔۔۔ بات توکرو۔۔۔ تمہیں کیا بتاؤں کتنا بھیانک دنگا میرے وطن میں ہوا ہے۔ پولیس نے بھی۔

    رکمنی بائی نے ہاتھ چھڑا لیا۔

    ’’باتوں کا ٹائم نہیں ہے۔۔۔‘‘

    سلیمان کو ٹھیس سی لگی۔ اس نے پھیکی سی مسکراہٹ کے ساتھ پوچھا:

    ’’کیا یہاں بھی ذات پات کا فرق شروع ہو گیا۔۔۔؟‘‘

    ’’پنچایت کا فیصلہ ہے۔۔۔‘‘

    ’’کیسا فیصلہ۔۔۔؟‘‘

    رکمنی بائی ہنسنے لگی۔

    سلیمان کو اس کی ہنسی بہت عجیب لگی۔۔۔ وہ ناگوار لہجے میں بولا:

    ’’کچھ بولوگی بھی۔۔۔؟‘‘

    ’’اپنی برادری میں جاؤ۔۔۔‘‘

    ’’آخر کیوں۔۔۔؟‘‘

    ’’تم کٹوا ہو۔۔۔!!!‘‘

    سلیمان سکتے میں آ گیا۔۔۔

    رکمنی بائی بے تحاشا ہنس رہی تھی۔

    اور دفعتاً سلیمان کو محسوس ہوا کہ وہ واقعی کٹوا ہے۔۔۔اپنے مذہب اور فرقے سے کٹا ہوا۔ وہ لاکھ خود کو ان باتوں سے بے نیاز سمجھے لیکن وہ ہے کٹوا۔

    اور سلیمان کو عدم تحفظ کا عجیب سا احساس ہوا۔۔۔ اس نے جلتی ہوئی آنکھوں سے رکمنی بائی کی طرف دیکھا۔ وہ اسی طرح ہنس رہی تھی۔۔۔ اور سلیمان کا دل غم سے بھر گیا۔ وہ یکایک اس کی طرف مڑا اور اس کے بازوؤں میں اپنی انگلیاں گڑائیں۔

    رکمنی بائی درد سے کلبلائی۔۔۔

    سلیمان نے بازوؤں کا شکنجہ اور سخت کیا۔

    رکمنی بائی پھر بلبلائی۔

    دفعتاً اس کو محسوس ہوا، رکمنی بائی طوائف نہیں ایک فرقہ ہے۔۔۔ اور وہ اس سے ہم بستر نہیں ہے۔۔۔ وہ اس کا ریپ کر رہا ہے۔

    سلیمان کے ہونٹوں پر ایک زہر آلود مسکراہٹ رینگ گئی۔

    اور کچھ دیر بعد رکمنی بائی باتھ روم میں گئی تھی تو سلیمان کو اپنا دم گھٹتا ہوا محسوس ہوا تھا۔ وہ بستر سے اٹھ گیا اور اپنے کپڑے درست کرنے لگا۔ ناگہاں اس کی نظر رکمنی بائی کی ساڑی پر پڑی جو سرہانے پڑی ہوئی تھی۔سلیمان کی آنکھیں ایک لمحہ کے لیے چمکیں۔ بھڑوی کی جنی۔۔۔ کٹوا کہتی ہے۔۔۔ اور اس نے جھپٹ کر ساڑی اٹھائی اور جلدی جلدی بیگ میں ٹھونسنے لگا۔۔۔ ایسا کرتے ہوئے اس کے دل کی دھڑکن بڑھ گئی اور چہرے پر پسینے کی بوندیں پھوٹ آئیں۔ پھر اس نے بیگ کو کندھے سے لٹکایا اور تیزی سے سیڑھیاں طے کرتا ہوا نیچے اترا اور گلی پار کرکے سڑک پر آ گیا۔

    سڑک دور تک سنسان تھی۔۔۔ لیکن اتفاق سے ایک رکشہ اس کو جلد ہی مل گیا۔ وہ اچک کر اس پر سوار ہو گیا۔

    رکشہ کچھ آگے بڑھا تو پسینے سے بھیگے ہوئے چہرے پر ٹھنڈی ہواؤں کے لمس سے سلیمان نے راحت محسوس کی۔۔۔ کچھ دور جانے پر اس نے بیگ کے اندر ہاتھ ڈال کر ساڑی کو ایک بار چھوا اور آہستہ سے بڑبڑایا: ’’بھڑوی۔۔۔‘‘ اور اس کے چہرے پر ایک پُر اسرار سی مسکراہٹ رینگ گئی۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے