Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

بغاوت

ارمان یوسف

بغاوت

ارمان یوسف

MORE BYارمان یوسف

    ارض و سما کی حدود و قیود سے کروڑوں میل کے فاصلے پر واقع ایک سیارے کی مخلوق اپنے معمولات چھوڑ کر ٹمٹماتی ہوئی چھوٹی سی ایک مشین کے گرد جمع تھی جو گزشتہ شب انجانی راہوں کی مسافتیں طے کرتی کسی تکنیکی خرابی کے باعث ان کے سیارے پر آن گری تھی۔ وہ بیک وقت خوشگوار حیرت اور نادیدہ خوف کا شکارہونے کے ساتھ ساتھ اس غیرمتوقع مہمان کی جانچ پڑتال میں اپنی سی تگ و دو میں مصروف بھی تھے۔ چند ہی لمحوں میں بادل کا ایک ٹکڑا فضا میں نمودار ہوا اور یکایک مختلف رنگوں میں بٹ کر مشین کے گرد حفاظتی دائرہ سا بنا دیا۔ روشنی کا ایک ہالہ سطح مرتفع کی صورت بلند ہوا۔ مختلف اشکال اور الفاظ ابھر ابھر کے فضا میں معدوم ہونے لگے۔ یہ احکامات ان کے سردار دمدمائی کی طرف سے بھیجے گئے تھے۔ مذکورہ مشین کو اس کے کارندے تحویل میں لے کر فضا میں بلند ہوئے اور بادل کی صورت اختیار کرتے ہی پلک جھپکنے میں یوں معدوم ہو گئے گویا کبھی وجود ہی نہ رکھتے تھے۔

    بادل کا وہی ٹکڑا دَمدَمائی کے فضا میں گردش کرتے محل پر ابھرا۔ اگلے ہی لمحے نئی دریافت شدہ مشین دمدمائی کے سامنے دھری تھی۔ جس کی روشنی آہستہ آہستہ ڈبڈباتی جا رہی تھی۔ دمدمائی نے اپنا دایاں ہاتھ فضا میں بلند کیا، پلک جھپکتے ہی اس کے وزیروں، مشیروں اور کارندوں سے بھراہوا ایک سجا سجایا دربار فضا میں ہی عدم سے وجود میں آ گیا۔ دمدمائی نے ایک نظر حاضرین پر ڈالی اور معنی خیز انداز میں سر کو جنبش دی۔ اس کی آنکھ سے نیلی روشنی کی ایک لہر نکلی اور دئیں طرف موجود ایک مصاحب خاص کے گرد چکر کاٹتے ہوئے واپس اسی کی آنکھ میں آکر سما گئی۔ حکم پاتے ہی اس کا دستِ راست تنتارہ اپنی جگہ سے ہلے بغیر اپنی قامت میں مسلسل اضافہ کرتا چلا گیا یہاں تک کہ اس کا چہرہ دمدمائی کے بالکل سامنے آ رہا جبکہ باقی وجود اپنی جگہ پر رہ گیا۔ تنتارہ نے گردن کو ایک مخصوص جھٹکا دیا اور گویا ہوا:

    ’’ہم نے اپنے سیارے اور ارد گرد کی دیگر مخلوقات کے ذریعے اس مشین کا کھوج لگانے کی کوشش کی ہے مگر کسی نے بھی اس کے بارے میں ہمیں کوئی معلومات نہیں پہنچائی۔ سبھی لاعلمی کا اظہار کر رہے ہیں اور ہم بھی اپنے طورپر بے بس ہو چکے ہیں۔ ہمیں ابھی تک اس بارے کچھ پتا نہیں کہ یہ کہاں سے وارد ہوئی۔۔۔؟‘‘

    وہ لمحہ بھر کو رکا، ایک نظر سامعین پہ ڈالی اورفکر مند انداز میں کہنے لگا:

    ’’ہمیں جلد از جلد اس کا کھوج لگانا اور اس کی آمد کا مقصد معلوم کرنا ہوگا ورنہ یہ نہ صرف ہمارے اور ہمارے ماحول کے لیے بلکہ دیگر سیاروں کے لیے بھی خطرہ ثابت ہو سکتی ہے‘‘

    اس نے ایک بار پھر آسمان کی جانب نظر کی اور دَمدَمائی سے دوبارہ مخاطب ہوا:

    ’’ہم نے طاطون اور آطون کا طلب کر لیا ہے جو کچھ ہی لمحوں میں یہاں پہنچ کر ہمیں اس مشین بارے معلومات فراہم کریں گے‘‘

    چند ہی ثانیوں میں بجلی کڑکی اور فضا گھن گرج سے گونج اٹھی۔ ایک طویل سیاہ اور اس کے ساتھ ہی سفید لکیر ظاہر ہوئی جو سمٹتے سمٹتے ایک نکتے کی ماننددمدمائی کے سامنے ظاہر ہوئیں۔ دمدمائی نے اپنا دایا ہاتھ فضا میں بلند کیا۔ ہاتھ سے نکلنے والی روشنیاں اس کے سامنے موجود دونوں نکتوں تک پہنچ کر معدوم ہونے لگیں۔ اس نے اپنے ذہن میں پیدا ہونے والے تمام سوالات اور خدشات دونوں نکتوں تک پہنچا دیے تھے۔ دونوں نکتے ایک بار چمک اٹھے، ان کی روشنی اس قدر بلند اور تیز تھی کہ کئی سورجوں کا گمان ہوتا تھا۔ یہی روشنی لمحے بھر میں فضا میں پھیل گئی جو دونوں نکتوں کے گرد گھومتی ہوئی چاروں طرف سفر کر رہی تھی۔ یہ منظر کچھ دیر تک رہا اور غائب ہو گیا۔ روشنیاں سمٹ کر ایک بار پھر دونوں نکتوں میں سما گئیں۔ سیاہ نکتہ ٹمٹما تا ہوا دَمدمائی کے سامنے آن رکا۔ روشنیوں کے ہالے اس کے گرد دوبارہ رونما ہوئے جو مختلف اشکال کی صورت فضا میں بلند ہو ہو کے معدوم ہونے لگے، طاطون اپنا مقصد بیان کرنے لگا:

    ’’آپ جانتے ہیں کہ میری نظر سے نہ کوئی زمان و مکاں اوجھل ہے اور نہ اس کائنات میں موجود کوئی مخلوق۔ مجھے ذرے ذرے کا علم ہے اورکسی بھی مخلوق کا کھوج لگانے میں میرا کوئی ثانی نہیں۔ کائنات کی کوئی بھی چیز میری نظر سے اوجھل نہیں خواہ وہ کسی بھی سیارے پر آباد ہو۔ میں آپ کو تمام تر مطلوبہ معلومات بہم پہچانے کو تیار اور آپ کے حکم کا منتظر ہوں‘‘

    یہ کہتے ہی طاطون ایک بار پھر جھلملاتے ہوئے دائرے میں سمٹ گیا۔ لمحوں بعد آطون سامنے آیا اور اس نے بھی اسی انداز سے اپنا تعارف کرایا:

    ’’میں ہوں آطون!’’ اس کائنات میں اگر کوئی چیز وجود میں آئی ہے تو وہ میری نظروں کے سامنے۔۔۔ میں ذرے ذرے کے حال اور ماضی سے آگاہ ہوں۔ مجھے اس بات کی خوشی ہے کہ ہمارے سردار دَمدمائی نے آج مدتوں بعد شرفِ باریابی بخشا ہے۔ اس فخر کے ساتھ حاضر ہوں آپ جو بھی سوال کریں گے، تسلی بخش جواب پائیں گے۔

    دمدمائی نے ایک نظر اپنے سامنے فضا میں تیرتے درباریوں پر ڈالی۔ سب نے روشنی کی ایک لہر فضا بلند کرتے ہوئے اس بات کا عندیہ دیا کہ وہ بھی طاطون اور آطون کی صلاحیتوں کے معترف ہیں اور چاہتے ہیں کہ مذکورہ مشین بارے جلد از جلد معلومات حاصل کریں۔

    طاطون آگے بڑھا اور مشین کے گرد ایک چکر لگاتے ہوئے فضا میں بلند ہوا۔ بادلوں کے ایک وسیع ہالے کو اس نے شیشے جیسی شفاف سطح میں بدل دیا، جس پر قوس قزح جیسے رنگ ابھرنے اور ڈوبنے لگے۔ لمحہ بہ لمحہ منظر واضح ہونے لگا۔ بادلوں کی اس طویل سکرین پر انسانی نظام شمسی ابھرا، مختلف سیارے ایک ایک کر کے منظر سے غائب ہوتے چلے گئے۔ زمینی گلوب اپنی جزئیات اور زندگی کی رعنائیوں سمیت سکرین پر ابھرا۔ مذکورہ مشین کی تخلیق کے مراحل ایک ایک کر کے دَمدَمائی اور اس کے درباریوں کے رو برو تھے۔ آطون نے ان کے سامنے پڑی مشین کی طرف اشارہ کیااور وضاحت کرتے ہوئے کہنے لگا:

    ’’یہ زمین نامی نیلے سیارے سے آئی ہے۔ اس سیارے پر پائے جانے والی سب سے زیادہ بااختیار مخلوق انسان کہلاتی ہے۔ یہ مشین بھی انسان کی ایک ادنیٰ سی تخلیق ہے جو نئی دنیاؤں کی کھوج میں بھیجی گئی ہے‘‘

    دَمدمائی نے دلچسپی سے ایک بار پھر اس مشین پر نظر ڈالی اور کہنے لگا:

    ’’انسان کی اپنی دنیا کیسی ہے۔ موجودہ دور کے انسان نے کہاں تک کا سفر کر لیا ہے؟

    آطون نیلے سیارے کو بادلوں کی سکرین پر مختلف زاویوں سے دکھانے کے ساتھ ساتھ انسانی تاریخ کے مختلف ادوار کا جائزہ بھی لے رہا تھا، اس نے لمحے بھر میں انسان کے ماضی، حال اور مستقبل کی جھلک دیکھ لی تھی۔ دمدمائی کے سوال کے جواب میں وہ بےساختہ پکار اٹھا:

    ’’انسان بڑی کامیابی سے ایک دوسرے کا گلا کاٹنے کا سفر جاری رکھے ہوئے ہے‘‘

    دمدمائی کی آنکھوں میں لمحہ بھر پہلے جو تجسس ابھرا تھا وہ معدوم ہوتا دکھائی دینے لگا۔ اس کے نزدیک اس کائنات میں اگر کوئی مکر وہ ترین عمل ہے تووہ ہے کسی کا ناحق خون بہانا، فساد برپا کرنا، باہمی مفادات کو مدنظر رکھنے کی بجائے ذاتی مفادات کی خاطر دوسروں کے گلے پر چھری چلانا۔ دمدمائی کو خاموش ہوتا دیکھ کر آطون نے مزید وضاحت کی:

    ’’چٹکی بھر پرُزوں پر مشتمل یہ چھوٹی سی مشین تو انسان کی ایک ادنیٰ سی تخلیق ہے۔ خلا کی بے کراں وسعتوں میں محض زمین جیسی اپنی واحد پناہ گاہ کو سینکڑوں بار تباہ کرنے کی صلاحیت کا دعویٰ بھی کل کی بات ہے۔ اب تو انسان خود خدا بن بیٹھا ہے۔ وہ روبوٹ کی صورت اپنے جیسی بلکہ خود سے بھی ذہین تر مخلوق پیدا کرنے جا رہا ہے۔ چونکہ حسبِ سابق اس کا مقصد بھی خدمت خلق کے علاوہ کچھ اور ہی ہوگا، اس لیے ایک روز یہی مخلوق ہی اپنے خالق کی تباہی کا سبب بن جائےگی۔۔۔‘‘

    اس سے پہلے کہ آطون اپنی بات مکمل کرتا، طاطون نے وہاں پہ موجود درباریوں کے گرد ایک چکر کاٹا۔ فضا میں معلق بادلوں کی شفاف سکرین کو بجھا دیا اور کہنے لگا:

    ’’آج جبکہ انسان کی پیدا کردہ مصنوعی ذہانت کی حامل مخلوق کو دنیا بھر کے انسان خود حیرت سے دیکھ رہے ہیں۔ سرکردہ سائنس دان اپنے اپنے تحفظات کا اظہار بھی کر رہے ہیں۔ ہوبہو ایسا ہی عالم تھا جب خود انسان اپنے تخلیقی مراحل میں تھا۔ ستاروں کی خاک سے جب انسانی وجود کو ڈھالا جا رہا تھا توفرشتوں کا تجسس، حیرت اور چہ مگوئیاں قابلِ دید تھیں۔ سرکردہ فرشتوں نے انسانی خصلت، آئندہ زندگی اور مقامِ ارتقا یعنی سیارہ زمین بارے معلومات حاصل کر لی تھی۔ ایک روز وہ خدا کے سامنے پیش ہو کر بالآخر بول اٹھے: ’’ انسان چونکہ فسادی مزاج رکھتا ہے اور یہ یقیناً خون خرابہ کر کے فساد کی بِنا ڈالے گا لہذا اس کی تخلیق مت کر!کیا تیری بندگی کو ہم کافی نہیں؟ ہم سے بھلا کون سی خطا ہوئی ہے جو تونئی مخلوق کو پیدا کر رہا ہے۔۔۔ وہ بھی اپنوں کے خون کی پیاسی‘‘

    ’’جو میں جانتا ہوں وہ تم نہیں جانتے‘‘

    خدا نے فرمان جاری کر دیا۔ اپنے تمام تر خدشات کے باوجود، حکم کے پابند فرشتوں نے بھی خاموشی اختیار کر لی تھی۔

    یہ روداد بیان کرتے ہی طاطون کی طرح آطون بھی ایک چھوٹے سے نکتے میں سمٹا۔ دونوں نے دمدمائی کے محل کے گرد چکر کاٹا اور بجلی کی کڑک کے ساتھ ہی غائب ہو گئے۔

    دمدمائی نے ایک مرتبہ پھر سامنے پڑی مشین پہ نظر ڈالی، جس کی روشنی بجھ چکی تھی۔ وہ دیر تک خاموش بیٹھا سوچتا رہا۔ ’’ انسان ‘‘کی عظمت بھی اس کے روبرو تھی اور’’آدمی‘‘ کے کِشت و خون کی تاریخ بھی۔

    اس نے اپنے دربار میں موجود تمام شرکا پہ ایک نظر ڈالی اور یہ کہتے ہوئے محفل برخواست کر دی:

    ’’اگر فرشتوں میں ذرا سی انسانیت بھی ہوتی تو آدمی کے خلیفہ فی الارض بنائے جانے پر خالقِ کائنات سے بغاوت کر دیتے‘‘

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے