Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

بم بہادر

MORE BYگوربخش سنگھ مضطر

    مہاوت ماتادین نے مہاراج کے پاس شکایت کی کہ ہاتھی بم بہادر کئی دنوں سے ضدی ہوتا جا رہا ہے اور کہنا نہیں مانتا۔ ہتھنی کے بیمار ہونے کی وجہ سے ویدجی نے اسے گھمانا بند کیا ہوا ہے لیکن بم بہادر شام کو بڑا اودھم مچاتا ہے اور جب تک ہتھنی کا اس کے ساتھ ایک چکر نہ لگوائیں، وہ ہاتھی خانہ سر پر اٹھائے رکھتا ہے اور ہتھنی کے ساتھ چکر لگاتے ہوئے بھی اسے بری طرح تنگ کرتا رہتا ہے۔ سونڈ اس کی پیٹھ پر رکھے بغیر ایک قدم نہیں اٹھاتا۔ منع کرو تو آنکھیں نکالتا ہے۔

    ’’کوئی بات نہیں ماتا دین۔‘‘ مہاراج نرمی سے بولے، ’’ہمارا بم بہادر تماش بین ہے تماشہ ہوئے دیر ہو گئی ہے۔ آنے والے بدھ وار کو جب ہم شادی کرکے آئیں تو بم بہادر کو خوب سجا دھجاکر اسٹیشن پر لے آنا۔ مہارانی اور میں اسی پر چڑھ کر محلوں میں آئیں گے۔‘‘

    بم صرف بہادر ہی نہیں، حد درجے کا انکھیلا ہاتھی تھا۔ مہاراج اس کی آنکھ کی قدر کرتے تھے۔ ہر جلسے جلوس کا شنگار اسے ہی بناتے تھے۔ سجے دھجے ہوئے بم کا سلیقہ اچھے سے اچھے سپاہی کو بھی مات کرتا تھا۔ لیکن ہاتھی خانے میں وہ اودھم مچائے رکھتا تھا۔ بڑا سمجھدار ہونے کی وجہ سے ملازموں کی بےقاعدگی یا بے ایمانی پر بڑا خفا رہتا تھا۔ کسی کسی ملازم کے منہ سے یہ نکل بھی جاتا تھا۔ ’’بم خصلت کابرا نہیں۔ مہاوت نے جب سے اس کے راتب میں چوری بڑھا دی ہے، یہ اس کے ساتھ ناراض رہتا ہے اور اودھم مچاتا ہے۔ پہلے تو یہ سب سے اچھے ہاتھی کی شہرت رکھتا تھا۔‘‘

    مہاراج اودے پور سے شادی کرکے آج اپنی ریاست میں لوٹ رہے تھے۔ اسٹیشن کی سجاوٹ بے مثال تھی۔ باہر موٹروں کی قطاریں ایک ساتھ کھڑی ہو گئیں۔ گھڑ سوار طلعی وردیوں میں عربی گھوڑوں پر ٹانگیں اکڑائے بیٹھے تھے۔ بم بہادر کی چھب جھیلی نہیں جاتی تھی۔ وہ سارے کا سارا سونے سے جڑا ہوا جھل مل جھل مل کر رہا تھا۔ سنہری ہودے سے لٹکتی سونے کی جھانجیریں چھن چھن کر رہی تھیں اور سفید دانتوں پر بھی آج سونا چڑھا ہوا تھا۔ اس کے اوپر ماتا دین بیٹھا اپنی بلندی پر فخر کر رہا تھا۔

    مہاراج اور مہارانی دونوں طرف رکھی سیڑھیوں کے سہارے چڑھ کر ہودے پر بیٹھ گئے۔ لوگوں نے جے جے کار بلائی۔ بم بہادر نے سونڈ ہلائی۔ ہاتھی خانے میں اس کے بارے میں ماتادین چاہے کچھ بھی کہے۔ جلوس میں وہ اس کی کوئی غلطی نہ نکال سکا۔ اچھے سے اچھا سپاہی بھی اس سے زیادہ ہوشیار اور چوکنا کیا ہو سکتا تھا۔ جھومتا جھامتا، لٹکتا، مٹکتا، بم اپنے شاہی بوجھ کو محلوں کے دروازے پر لے آیا۔

    اور ملاقاتیں کرانے سے پہلے مہاراج نے نئی مہارانی کی جان پہچان بم بہادر سے کرائی، ’’بم بہادر۔۔۔ تیری مہارانی، جس کا شاید تم مجھ سے بھی زیادہ شوق سے انتظار کر رہے تھے۔‘‘

    مہارانی کا چہرہ ’’دوست، پیار‘‘ کی پیاری سی تصویر تھا۔ مہاراج جیسی لمبی۔۔۔ پوری طرح بھرے ہوئے ہونٹ اور ہنستا ہوا ماتھا، مولی کالی آنکھیں، جو صرف دیکھتی ہی نہیں تھیں بلکہ جس طرف بھی نظر جاتی، کچھ بولتی سی لگتی تھیں۔ کیا کہہ گئیں۔۔۔؟ دیکھنے والے سوچتے رہ جاتے تھے۔ ان آنکھوں میں ہر مہربان اشارے کے لیے جوابی قدروقیمت یوں چمک پڑتی جیسے سر کی ہوئی ستار ہوا کے ہلکے سے تھپیڑے سے جھنجھنا اٹھتی ہے۔

    بم نے سونڈ اٹھاکر مہارانی کو سلامی دی اور مہاراج بولے، ’’یہ میرا ہاتھی نہیں میرا دوست ہے۔ اس کا اور میرا جنم دن بھی ایک ہی ہے۔‘‘

    مہارانی نے بم کی سلامی کے جواب میں دونوں ہاتھ جوڑ دیے۔ کسی انسانی آنکھ میں ایسے نرم اور ملائم حسن کے لیے بم بہادر سے زیادہ وفا اور احترام نہیں ہو سکتا تھا۔ اپنی سونڈ کی انگلی سے بم نے مہارانی کے جڑے ہوئے ہاتھوں کو ایک پل کے لیے چھو لیا اور سدھے ہوئے سپاہی کی طرح وہ ہلے جلے بغیر مہارانی کی طرف دیکھتا کھڑا رہا۔ مہاراج پہچان رہے تھے کہ بم کے دل میں اس وقت کیسا مدوجزر اٹھ رہا تھا۔

    ہمارے بم مہاراج میں کسی حسن پرست کی روح بسی ہوئی ہے۔ یہ خوب پہچانتا ہے لوگوں کو۔۔۔ مہاراج نے مہارنی کی طرف ذرا ترچھی نظر سے دیکھ کر آہستہ سے کہا، ’’خاص کر خوبصورت لوگوں کو۔۔۔‘‘

    سجی سنوری مہارانی نے پلکیں اٹھاکر مہاراج کی طرف دیکھا۔ پھر بم کی طرف دیکھا اور ان دونوں کی آنکھیں اس لمحے جو کچھ اسے کہہ رہی تھیں سمجھتے ہوئے اس نے محسوس کیا کہ وہ زندگی کی سب سے اونچی چوٹی کو چھو رہی ہے۔

    مہاراج نئی شادی کی دعوتوں میں کئی دنوں تک مصروف رہے۔ ہاتھی خانے کی طرف ہر ہفتے جانے والا چکر نہ لگا سکے۔ بم بہادر کی ماتا دین سے ناراضگی بڑھتی جا رہی تھی۔ اب وہ اس کا کہا بالکل ماننا نہیں چاہتا تھا۔ وہ کمزور بھی ہو گیا تھا۔ جو راتب اسے ان دنوں مل رہا تھا وہ پہلے سے بھی کم تھا۔

    ایک دن موقع تاڑ کر ماتادین نے مہاراج کے سامنے بم بہادر کی پھر شکایت کی اور صلاح دی کہ بم اب شاہانہ ذمہ داریوں کو نبھانے کے قابل نہیں۔ کچھ سست ہوتا جا رہا ہے۔ اس لیے اس کو چڑیا گھر بھیج دیا جائے اور چڑیا گھر والے جوان ہو رہے ہاتھی کو شاہی ذمے داریوں کے لیے تربیت دی جائے۔

    مہاراج نے ماتادین کو ٹوک کر اس کی صلاح پوری طرح رد کر دی، ’’نہیں۔ نہیں۔ بم میں کوئی خرابی نہیں ہے۔ میں اس کی طرف پورا دھیان نہیں دے سکا۔۔۔ بم کے جیتے جی اس کی جگہ کون لے سکتا ہے۔‘‘

    ’’رات کو مہاراج نے بم کی وفاداری اور دوستی کی کئی کہانیاں سنائیں اور اپنی بڑھتی ہوئی مصروفیت کی وجہ سے بم کو نہ مل سکنے کا افسوس ظاہر کیا اور ساتھ ہی پوچھا کہ کیا وہ ہفتے میں ایک بار بم کو دیکھ آیا کرےگی؟‘‘

    مہارانی اس تجویز پر بہت خوش ہوئی۔ اس نے دوسرے ہی دن دس سیر بوندی کے لڈو بنوائے اور ہاتھی خانے گئی۔ بم کی غصے سے اندھیری ہو رہی دنیا میں اچانک سورج چڑھ آیا۔ اس کے اتنے بڑے وجود میں بھی خوشی سما نہیں پا رہی تھی اور جب اپنے ہاتھوں سے ایک ایک کرکے مہارانی نے موتی چور کے لڈو بم کے منہ میں ڈالے۔ تو بم کے جسم کا ماس انچ انچ بھر پھڑکنے لگا۔ اس کی پونچھ ہل رہی تھی ٹھپکتے ہوئے کان پھٹ پھٹ کر رہے تھے اور سونڈ کبھی مہارانی کے پاؤں اور کبھی مہارانی کے ہاتھ چھو رہی تھی اور اگر مہاراج اس وقت پاس ہوتے تو بم کے دل کی بات بوجھ کر بتا دیتے کہ وہ اتاؤلا ہوکر کیا مانگ رہا تھا۔ ایک حکم۔ مہارانی کو بڑے پیار اور نرمی سے اٹھاکر اپنے ماتھے پر بٹھا لینے کا حکم مانگ رہا تھا۔

    ’’بم بہادر!‘‘ مہارانی نے پھڑکتی ہوئی سونڈ پر دونوں ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا، ’’مہاراج یہ چاہتے ہیں کہ جس ہفتے وہ تجھے ملنے نہ آ سکیں، تب میں آیا کروں۔ لیکن وہ چاہتے ہیں کہ اب تیری کوئی شکایت ان کے پاس نہ جائے۔‘‘

    بم نے سونڈ اٹھاکر سلامی دی اور مہارانی کے پاؤں کے گرد سونڈ کی انگلی سے ایک چکر بناکر اسے لپیٹ سا لیا۔

    ’’مہارانی صاحبہ۔۔۔ بم آپ کے حکم پر عمل کرنے کا اقرار کر رہا ہے۔‘‘ مہاوت نے سمجھایا۔ مہارانی عجیب اور انوکھی نرمی اور شائستگی کی مالک تھی۔ ہر نمسکار کے جواب میں اس کے ہاتھ خود بخود جڑ جاتے تھے۔ کوئی بڑا ہو یا چھوٹا۔ انسان ہو یا حیوان ہو۔ پہلی بار تو بم نے مہارانی کے جڑے ہوئے ہاتھوں کو صرف چھوا ہی تھا۔ آج وہ خود کو روک نہ سکا۔ ننگی وینیوں کو اپنی سونڈ کی لپیٹ میں لے لیا۔ صرف آنکھ جھپکنے بھر کی دیر کے لیے۔۔۔ اور پھر سونڈھ لٹکاکر سیدھا کھڑا ہو گیا۔

    ماتادین کو اس کی یہ حرکت پسند نہ آئی اور اس نے بم کو ڈانٹ دیا لیکن مہارانی نے ماتا دین کو بڑے صاف اور اونچے لہجے میں کہا، ’’میری موجودگی میں آئندہ بم کو کبھی نہ ڈانٹنا۔‘‘

    اس دن ماتادین کا من مرا مرا سا رہا لیکن بم کے من میں بڑے چاؤ تھے۔ اس نے ایک بار بھی ماتادین کی طرف قہر بھری نظر سے نہ دیکھا لیکن شام کو جب ماتادین نے اس کے راتب میں سے اتنی مقدار اور کم کر دی، جتنے مہارانی لڈو کھلا گئی تھی تو بم کا غصہ آسمان کو چھونے لگا۔ اس نے راتب کو منہ تک نہ لگایا۔ دوسرے دن ماتا دین کو فکر لاحق ہو گئی اور اس نے بم کا راتب پورا کر دیا۔

    مہارانی ہر ساتویں دن بلاناغہ ہاتھی خانے میں آتی رہی اور جیسے انوکھے چاؤ کا اظہار بم اس کی موجودگی میں کرتا تھا۔ اس کے لیے مہارانی کے دل میں ہمیشہ قدر بڑھتی رہی۔ اسے بڑا اچھا لگنے لگا کہ طاقت کاایک پہاڑ سات دن اس کی ننھی سی جان کا راستہ دیکھتا رہتا ہے اور جب یہ ننھی سی جان، جسے وہ سونڈ کے ذرا سے جھٹکے سے توڑ کر ٹکڑے ٹکڑے کر سکتا ہے۔ اس کے سامنے آتی ہے تو طاقت کا یہ پہاڑ سارے کا سارا دل کی طرح دھڑکنے لگ جاتا ہے، اسے پیار کرتا ہے اسے چومتا ہے۔ اس کے ہاتھوں پر اپنی انگلی پھیرتا ہے اور اس کے پاؤں کو چھوتا ہے۔

    مہارانی کا دل اس حیوانی پیار کو حاصل کرکے فخر سے بھرتا چلا گیا۔ مضبوط ستونوں کو ذرا سا چھو کر چکنا چور کر سکنے والا بم اس کے سامنے بچہ بن جاتا ہے۔ بچوں کی طرح اس کے منہ سے رال ٹپکنے لگتی ہے۔ بچوں کی طرح اپنے سے پیار کرنے والے کے ہاتھ چومنے، پیر پکڑنے اور جسم سے چمٹنا چاہتا ہے۔ جب ایک ایک کرکے وہ لڈو یا پراٹھے بم کے منہ میں ڈال کر ختم کر دیتی تو بم اپنی سونڈ اس کے گرد لپیٹ کر اسے کھڑے کھڑے ہی اٹھاکر اپنے ماتھے پر رکھ لیتا۔ کبھی کسی ماں نے اپنے بچے کو اس سے زیادہ نرمی سے نہ اٹھایا ہوگا۔ مہارانی بم کی زنجیریں کھلوا دیتی تو جس طرح کوئی ڈھول بجانے والا مستی کے عالم میں کسی کھاتے پیتے گھر کے بچے کو اٹھاکر ناچنے لگتا ہے۔ اسی طرح بم سارے ہاتھی خانے میں خوش ہوکر جھومتا پھرتا اور اس پر بیٹھی مہارانی کے کنول سے کھلے چہرے کو دیکھ کر کئی لوگوں کے دلوں میں جلن کی درد بھری لہر دوڑ جاتی۔ تھان پر لوٹ کر پہلے وہ سلامی دیتا۔ پھر سونڈ مہارانی کے پاؤں کی طرف لے جاتا۔ مہارانی اپنے ہاتھوں سے اس کی سونڈ کو تھپتھپاتی اور پھر وہ سونڈ مہارانی کی کمر کے گرد لپیٹ کر دوسرے پل اسے زمین پر کھڑا کر دیتا۔ ایسا کرنے سے مہارانی کی ساڑی میں بل تک نہ پڑتے۔

    مہاراج کی مصروفیت اور بڑھ گئی۔ نہ صرف یہ کہ وہ کبھی ہاتھی خانے نہ آ سکے، ان کا اپنے محلوں میں آنا بھی کم ہو گیا۔ مہارانی نے ہفتے میں دو بار ہاتھی خانے جانا شروع کر دیا۔ یہ دو دن ہی نہیں بلکہ سارا ہفتہ ہی اس کے دل میں ایک امنگ سی بھری رہتی۔ ایک دن پہلے ہی وہ اپنی نگرانی میں بدل بدل کر چیزیں تیار کرواتی، دوسرے دن وہ اپنے ہاتھوں سے بم کو کھلاتی اور تیسرے دن وہ اتنے بڑے حیوان کی انسان کے لیے اس نرم سی محبت کو یاد کرتی رہتی۔

    لیکن دوسری طرف اپنے مہاوت کے ساتھ بم کی نفرت اتنی ہی بڑھتی جا رہی تھی۔ ماتادین نے مہاراج سے بخشش میں زمین لے کر اس میں ایک کوٹھری بنائی تھی اور اس کے گرد باغ لگایا تھا۔ اب وہ ہاتھی خانے کے راتب سے زیادہ چوری کر رہا تھا اور جتنا کچھ مہارانی بم کے لیے بناکر لاتی، اتنی کمی وہ اور کر لیتا تھا۔ کل سے بم بڑے غصے میں تھا۔ اس نے نہ راتب کی طرف دیکھا نہ ماتا دین کی طرف۔ جیسے وہ اپنے آپ سے کشتی لڑ رہا ہو۔

    مہاراج کے شکار پر جانے کا اعلان ہوا۔ وہ ہمیشہ بم پر چڑھ کر ہی شیر کا شکار کرتے تھے۔ ایسے بدلے ہوئے تیور میں ماتادین کو بم سے کوئی زیادہ امید نہیں ہو سکتی تھی۔ اس نے بتایا کہ بم دو دن سے بیمار ہے اور شکار کے لیے دوسرا ہاتھی تیار کر دیا۔ ہاتھی خانے کے پاس سے مہاراج کی سواری نکلی۔ بم نے کھلی ہوئی کھڑکیوں میں سے دیکھا۔ دیکھتے ہی وہ فوراً دہاڑا۔۔۔ لیکن شکاری ٹولی نے اس کی طرف دھیان نہ دیا۔ بم خاموش ہوکر بیٹھ گیا۔

    شکاری ٹولی کو بھیج کر ماتادین اپنے باغ کے کام میں لگ گیا۔ اس کی تنخواہ تو زیادہ نہیں تھی، لیکن کچھ دیر سے سب کہہ رہے تھے کہ اس کا گزارہ کافی آرام سے چل رہا ہے۔

    بم سارا دن وش گھولتا رہا۔ اس نے آج بھی کچھ نہ کھایا۔ شام کے وقت اس کی حرکتوں میں پاگل پن سا دیکھ کر ملازموں نے ماتادین کو خبر کی۔ ماتادین نے آتے ہی بم کو ڈانٹا۔ بم نے اس کی طرف نہ دیکھا اور منہ گھماکر کھڑا ہو گیا۔ لیکن وہ موقعے کی تلاش میں تھا۔

    ماتادین نے اس کے پاؤں کی زنجیریں دیکھیں۔ مضبوط تھیں۔ پھر ماتادین نے ایک اور دھمکی دی اور یہ دیکھنا چاہا کہ اس نے راتب کھایا ہے یا نہیں۔ اسی وقت بم کی سونڈ بجلی کے کوندے کی طرح جھپٹی اور اس نے سونڈ کے دھکے سے ماتادین کو اپنے پیرو ں میں کھینچ لیا اور دایاں پاؤں اس کی چھاتی پر رکھ کر اسے یوس مسل دیا جیسے کوئی کھٹمل کو کچل دیتا ہے۔ کہیں سے مدد پہنچنے کے لیے وقت ہی نہیں تھا۔ بم نے پاؤں کی زنجیریں توڑ دیں۔ ملازم گھبراکر ہاتھی خانے سے باہر نکل بھاگے، بم بھی باہر آیا۔ سیدھا ماتا دین کے باغ میں جا گھسا۔ راستے میں اس نے کسی کو نقصان نہیں پہنچایا باغ کے سارے بوٹے اکھاڑ دیے۔ جو کچھ اگا تھا سب تہس نہس کردیا۔ ماتادین کے بال بچے گھر خالی کرکے بھاگ گئے اور بم نے ان کی کوٹھری کو گراکر کھنڈر بنا دیا۔

    ’’بم پاگل ہو گیا ہے۔‘‘ خبر مہارانی کے پاس پہنچی۔ پولیس کپتان نے ساری روداد سن کر حکم مانگا کہ بم کو گولی سے مار دیا جائے۔ نہیں تو وہ کتنے اور لوگوں کو جان سے مار دےگا۔

    ’’لیکن آپ بتا رہے تھے کہ اس نے ماتادین کے علاوہ کسی اور کو کچھ نہیں کہا۔‘‘ مہارانی نے سوچنے کے لیے وقت لیتے ہوئے پوچھا۔

    ’’لیکن کہتے ہیں کہ وہ ماتادین کے گھر کی طرف بھاگا جا رہا ہے۔ اسے بھی وہ چھوڑے گا بالکل نہیں۔‘‘ پولیس کپتان نے جواب دیا۔

    ’’اس کا یہ بھائی کیا کرتا ہے؟‘‘

    ’’گھوڑوں کے اصطبل کی دیکھ بھال کرتا ہے۔‘‘

    ’’یہ بھی ضرور ماتادین جیسا ہی چور ہوگا۔ بم کو مارنے کی ضرورت نہیں۔ آپ مجھے فوراً اس کے راستے میں لے چلو۔‘‘ مہارانی نے اندر جاکر وہی ساڑھی باندھ لی جو اس نے بم سے پچھلی ملاقات کے وقت باندھی ہوئی تھی۔

    ’’لیکن۔۔۔ مہارانی صاحبہ۔۔۔ یہ آپ کا بڑا خطرناک قدم ہے۔‘‘

    ’’نہیں۔ نہیں۔ آپ وہی کرو۔۔۔ جیسا میں کہہ رہی ہوں۔ موٹر تیار کرو اور جو احتیاط تم ضروری سمجھتے ہو، وہ آپ خود لے لو۔۔۔ فوراً کپتان صاحب۔‘‘

    آگے آگے مہارانی کی موٹر۔ پیچھے پیچھے ہتھیاربند رسالہ۔ دور سے بم دوڑا آ رہا تھا۔ وہ ایک جوہڑ کے پاس کھڑا ہو گیا۔ اس نے اپنی سونڈ میں بہت سا پانی بھر لیا۔ جو کوئی اسے اپنی طرف آتا دکھائی دے، اسی کی طرف کیچڑ کی بوچھار کرکے اسے ڈرا دیتا تھا اور کچھ نہیں کہتا تھا۔ اس طرح وہ اپنی راہ پر دوڑا جا رہا تھا۔ اس کے راستے پر چار سو گز کے فاصلے پر عین سامنے موٹر کھڑی ہو گئی۔ مہارنی اس میں سے اتری۔ پولیس کپتان نے مہارانی کے ساتھ جانا چاہا۔

    ’’نہیں کپتان صاحب۔ آپ اپنے دستے کو تیار رکھو۔ اگر میں دونوں ہاتھ اٹھاکر اشارہ کروں، تبھی گولی چلانے کا حکم سمجھا جائے۔ اس سے پہلی کسی بھی صورت میں گولی نہ چلانا۔ میرا دل اندر سے کہہ رہا ہے وہ پاگل نہیں، وہ مجھے پہچان لےگا۔‘‘

    موٹر کو دیکھ کر بم کھڑا ہو گیا لیکن اپنی طرف تنی ہوئی بندوقوں کو دیکھ کر اس نے حملے کا ارادہ کر لیا اور وہ موٹر کی سیدھ میں دوڑا۔ مہارانی سیدھی ہاتھی کی طرف دوڑ پڑی۔ پولیس کپتان نے گھبراکر سپاہیوں کو بالکل تیار رہنے کے لیے کہا لیکن مہارانی پوری آواز میں گرجی، ’’ہرگز گولی نہیں چلانی۔ میرے اشارے کا انتظار کرو۔‘‘

    اور مہارانی پھر بم کی طرف دوڑ پڑی۔ پچاس گز کا فاصلہ رہ گیا۔ کپتان اور سپاہی بھی آگے کی طرف دوڑ پڑے۔ لیکن بم ایک دم کھڑا ہو گیا۔ مہارانی نے کھڑے ہوکر سپاہیوں کو پیچھے ہی رہنے کا حکم دیا۔ خود وہ ایک ایک قدم اٹھاتی بم کے پاس پہنچی۔ بم نے ہوشیار ہوکر سلامی دی۔ مہارانی نے ہاتھ جوڑے۔ لیکن بم نے ہاتھ کو نہ چھوا جیسے وہ ان کو چھوا کرتا تھا۔

    ’’میں دیکھتی ہوں میرے بم بہادر، تمہاری سونڈ آج صاف نہیں۔ چھوئے بغیر ہی میں سمجھتی ہوں، تم نے مجھے چھو لیا۔ لیکن تم مجھے بتاؤ۔ یہ تم نے کیا حال بنا رکھا ہے؟‘‘ بم نے مہارانی کے پاؤں کے گرد ایک نہیں کئی چکر بنائے۔ جیسے وہ ان دائروں میں اپنے اتنے بڑے دل کا درد کھینچ کر، دل کی محرم رانی کی بتانے کی کوشش کر رہا ہو۔

    ’’اوبہادر بم۔۔۔ تمہارے دل کی کوئی بھی بات مجھ سے چھپی نہیں۔ تو پاگل نہیں تو دکھی ہے۔ نفرت کی جلن نے تمہاری خوبصورت روح کو بخار چڑھا دیا ہے۔ میں جانتی ہوں۔۔۔ تمہاری نفرت کو بھی پہچانتی ہوں۔ جلن کو بھی پہچانتی ہوں۔‘‘

    بم نے ایک اور دائرہ اس کے پاؤں کے گرد کھینچا۔ مہارانی نے بم کی آنکھوں میں دیکھا، اسے لگا، جیسے وہ رو رہا تھا۔

    ’’تم کہاں جا رہے تھے بم؟ ماتادین کے بھائی کے گھر؟ اس نے بھی تجھے دکھ دیا ہے۔۔۔؟‘‘ بم نے دایاں پاؤں اٹھاکر زمین پر مارا۔ مہارانی نے دیکھا، اس پاؤں پر لہو کے چھینٹے تھے۔

    ’’کوئی بات نہیں۔ بم بہادر۔ بہادر دلوں میں جلن پیدا کرنے والے موت سے کھیلتے ہیں۔ اب میں دیکھوں گی۔ تجھے کوئی دکھ نہیں دے گا۔ سب چور اور چغل خور تم سے دور ہٹا دیے جائیں گے۔ تیری اجلی حیوانیت کو میں چور انسانیت کی سازشوں سے بچاکر رکھوں گی۔‘‘

    بم خاموش کھڑا تھا۔ اگر اس وقت اسے اپنی گیلی سونڈ کا احساس نہ ہوتا، تو اسے اپنے جذبات سمجھانے کا اچھا سلیقہ آتا تھا۔ وہ مہارانی کو اٹھاکر اپنے سر پر بٹھا لیا کرتا تھا ایسے موقعوں پر۔ اب جب مہارانی چپ کر جاتی تو وہ اپنی سونڈ سے اس کے پاؤں کے گرد ایک دائرہ بنا دیتا تھا۔

    ’’اور میرے اچھے بم۔۔۔ تمہارے اس دکھ کو میں اچھی طرح سمجھتی ہوں۔ جس دکھ نے تمہارے پیار کو بار بار ٹوک کر ضربیں لگاکر بےرحم بننے پر مجبور کر دیا۔ لیکن بم۔۔۔ تجھے ماتادین کے بچوں کا گھر نہیں گرانا چاہیے تھا۔ وہ گھر اب تجھے بناکر دینا پڑےگا۔‘‘ بم نے دو اور دائرے مہارانی کے پاؤں کے گرد کھینچ دیے۔

    ’’مجھے یہی امید تھی۔ پوری امید تھی۔ تجھے سچا پچھتاوا ہے۔ تم بچوں کا گھر گراکر خوش نہیں ہو۔ تم وہ گھر بناکر مجھے خوش کروگے۔ وہ ایسے۔۔۔ کہ اس کی کوٹھری میں تیری طرف سے اپنے خرچ سے بنوا دوں گی۔۔۔ لیکن جب تک اس کی پوری قیمت ادا نہیں ہوتی، تمہیں آدھے راتب پر گزارا کرنا پڑےگا۔۔۔ بتاؤ تم منظور کرتے ہو؟‘‘

    پتہ نہیں، وہ مہارانی کی بات سمجھتا تھا، جیسے کئی ہاتھیوں کے بارے میں کہانیاں مشہور ہیں۔ یا صرف موٹا سا احساس اس کے دل میں تھا کہ مہارانی اس کی دوست ہے۔ جو کہےگی، اس کے فائدے کی کہےگی۔ اگر سزا بھی دےگی تو بھی اس کے فائدے کے لیے ہی ہوگی۔ صرف دائرہ کھینچنا ہی اس کی نرم سی بولی تھی۔ اس نے کئی دائرے کھینچ دیے۔

    ’’اوخوبصورت دل کے مالک میرے بم۔ ’’مہارانی نے دیکھا کہ سونڈ پر لگا ہوا کیچڑ سوکھ گیا تھا۔ اس نے ہاتھ بڑھا کر سونڈھ پکڑ لی۔ پہلے بم اپنی سونڈ سے مہارانی کے لیے اپنا پیار جتلاتا تھا۔ اب اسے لگا کہ مہارانی اس سے پیار کر رہی ہے۔ اس کے بہت بڑے اور بھاری جسم میں کوئی حرکت باقی نہ رہی۔ جیسے کسی کو سوتے جاگتے میں بہت میٹھا سپنہ آ رہا ہو اور وہ ڈرتا ہو کہ اگر ذرا بھی ہلے تو سپنے کی جنت آنکھوں سے اوجھل ہو جائےگی۔

    آگے آگے مہارنی اور پیچھے پیچھے بم اور اس کے پیچھے پولس کا رسالہ، پریم اور پیار کا یہ انوکھا جلوس ہاتھی خانے پہنچا، جس میں کھنچے ہوئے تیروں اور تنی ہوئی بندوقوں اور سنگینوں کی جگہ پیار کے پھول کام کر رہے تھے۔

    دوسرے دن ہاتھی خانے کا سارا انتظام بدلا ہوا تھا۔ سارے جانوروں کا راتب پورا تلا۔۔۔ سوائے بم کے۔ جانوروں اور ملازموں میں پیدا ہوا نیا رشتہ صاف ظاہر ہو رہا تھا۔

    بم ہاتھی خانے کاراجہ دکھائی دیتا تھا۔ نیا مہاوت جب اسے آدھا راتب دیتا تھا۔ اس کے دل میں دکھ ہوتا تھا۔ اس نے مہارانی کے پاس اس کا پورا راتب کر دینے کی سفارش کی۔ مہارانی اپنی مصروفیت بڑھ جانے کی وجہ سے مشکل سے ایک بار ہی ہاتھی خانے میں آتی تھی۔ اگلی ملاقات میں بم کو اچھی طرح دیکھ کر اس کی سونڈھ پر تعریفی نظروں سے تھپکی دیتے ہوئے مہارانی نے کہا، ’’لیکن میرا بم آدھا راتب کھاکر پہلے سے بھی زیادہ خوش اور مضبوط ہے۔ یہ اپنی غلطی کے لیے پوری قیمت چکاکر ہی اپنی زندگی کو کامیاب سمجھےگا۔‘‘

    بم نے اپنی مہارانی کو کمر سے اٹھاکر اپنے سر پر دھر لیا۔ زنجیریں کھول دی گئیں۔۔۔ اور ہاتھی خانے کا راجہ محلوں کی مہارانی کو اپنی سلطنت میں چکر لگوا ارہا تھا۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے