Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

بن باس

جمیلہ ہاشمی

بن باس

جمیلہ ہاشمی

MORE BYجمیلہ ہاشمی

    پرندے تیز تیز پر مارتے اڑتے جاتے ہیں اور دھوپ پیلی ہوکر اچل کے بڑے تالاب کی سیڑھیوں پر اتر آئی ہے۔ گوردوارے کے کلس کا رنگ ڈوبتی کرنوں میں سنہری مائل سفید لگ رہا ہے۔ اور بڑے میدان سے دوسری طرف میلہ بکھرنے لگا ہے۔ اب تھوڑی دیر میں دسہروں کو آگ لگا دی جائے گی۔ لوگ شور کریں گے، ڈر کر دور بھاگیں گے اور شام کے نیلے دھند لکے میں چنگاریاں اترتی ہوئی پھلجھڑیاں لگیں گی۔ دیر تک آگ کے شعلے اٹھیں گے۔ ارد گرد کے لوگوں کے چہرے اس آگ کی روشنی میں بڑے بھیانک لگیں گے۔ جیسے ان میں سے ہر ایک راونؔ کا روپ دھارے سیتا کو جدائی سے ولاپ کرتے دیکھے اور دوسری بار بن باس بھوگتے پاکر خوش ہونے یہاں آیا ہو۔

    بن باس کتنی کٹھن بات ہے۔ پر کسی کے بس میں تو کچھ نہیں۔ کون اپنی خوشی سے دکھ قبول کرتا ہے؟

    بھائی کہا کرتے تھے۔ بی بی تم یہ سارا وقت خواب میں کیوں دیکھتی ہو۔ یہ پیار جو تمہیں اب ملتا ہے، یہ رونق جو ارد گرد نظر آرہی ہے، ہولے کم ہوجائے گی۔ وقت ہر شے میں کمی کردیتا ہے، پر یہ بربادی اتنی آہستہ ہوتی ہے کہ ہم اس کے عادی ہوجاتے ہیں۔ آج بھائی کہاں ہیں۔ اگر جنم بھومی کی باس کو اٹھائے جاسوس کی طرح میرے ساتھ ساتھ چلنے والی ہوا جاسکتی اور انہیں کہیں ڈھونڈھ سکتی تو میں کہتی، ’’جاکر پوچھو تو سہی۔ یہ دکھ میں کمی کیوں نہیں ہوتی۔ برسوں بوجھ اٹھائے اور کٹھن راہوں سے گزرنے پر بھی انسان سپنے کیوں دیکھتا ہے، سکھ کی آس کیوں کرتا ہے، اور روشنی سے اتنا پیار کیوں کرتاہے؟

    سیتا جی نے بن باس بھوگ کر بس یہی دعا کیوں کی تھی کہ وہ رام چندر سے مل سکیں، کیا مصیبت انسان کواتنا کرخت نہیں کردیتی کہ وہ اچھے دنوں کی امید ہی چھوڑ دے۔ اندھیرے سے آخر پیار کیوں نہیں ہوسکتا۔ آخر کیوں؟ ناکھ کے درخت میں اس سال سے پھول آرہے ہیں، جس سال منّی پیدا ہوئی تھی۔ رُت بدلتی ہے تو شاخیں پھولوں سے بھر جاتی ہیں اور پیڑ پھلوں کے بوجھ سے جھک جاتا ہے۔ پیڑ اور دھرتی کا سمبندھ اور گہرا ہوجاتا ہے۔ اس کی جڑیں زمین میں اور گہری گرتی چلی جاتی ہیں۔ اس رشتے کو کوئی نہیں توڑ سکتا۔

    مُنی اب بڑی ہوگئی ہے۔ سال کتنے دبے پاؤں میرے قریب سے نکلتے چلے گئے ہیں۔

    آج بڑی ماں نے گرپال سے کہا تھا، ’’کاکا، بہو اوربچوں کو ذرا دسہرے میں گھما لا۔ کتنے برس سے وہ گاؤں سے باہر ہی نہیں گئی۔‘‘

    گرپال نے بہت تیزی سے کہا تھا، ’’ماں تو نے یہ بھی کہا کب تھا۔ یہ برسوں سے کہیں نہیں گئی تو میرا کیا دوش ہے بھلا۔‘‘ اس میں کس کا دوش ہوسکتا ہے۔ جب کوئی مجھے بہو کہتا ہے تو لگتا ہے گالی دے رہا ہے۔ برسوں سے سُن رہی ہوں، اس رات سے سنتی آئی ہوں جب گرپال نے مجھے آنگن میں ڈھکیلا تھا اور چوکی میں بیٹھی ہوئی بڑی ماں سے کہا تھا،

    ’’ماں دیکھ! تیرے لیے بہو لایا ہوں بانکی اور سندر۔ آج جتنی لڑکیاں ہمارے ہاتھ لگیں، ان میں سے اچھی ہے۔‘‘ اور دیے کی لو اونچی کر کے ماں میری طرف آئی تھی۔ بھوک اور خوف سے میری آنکھیں پھٹی ہوئی تھیں۔ میلوں ننگے پاؤں چل کر مجھ میں انگلی اٹھانے کی ہمت بھی نہ رہی تھی۔ میں ان کے قدموں میں ڈھیر ہوگئی تھی۔ آنگن میں بندھی گائے اور بھینس ٹکر ٹکر مجھے تکتی رہیں تھیں اور چارہ چھوڑ کرکھڑی ہوگئی تھیں۔ ماں نے سر سے پاؤں تک کئی بار مجھے دیکھا تھا اورپھر کہا تھا،

    ’’تو اگر اچھے کام کرتا تو آج یہ حال نہ ہوتا میرا۔ دیکھ چولھا جھونکتے جھونکتے میری آنکھیں اندھی ہوچلی ہیں اور ساری کہاریوں نے فصل پر اناج نہ ملنے کی وجہ سے ہمارے گھر آنا بند کردیا ہے۔ بتا مجھ سے یہ گھر کا بوجھ کیسے سنبھلے گا۔ کھیتی باڑی کرے تو کیا ہی سکھ ہو مجھے۔‘‘

    گرپال نے کہا، ’’دیکھ تو سہی۔ اب مہریوں اورکہاریوں کے نخرے اٹھانے کی کیا ضرورت ہے بھلا۔ یہ جو تیری داسی ہے، بس اس سے چکی پسوا، پانی بھروا، جو مرضی ہوکروا، میرا اس کا کیا علاقہ۔ میں نے تجھے بہو لادی ہے۔‘‘

    مارے سنگراؤں میں بہوئیں آئیں، نہ کوئی باجہ بجا، نہ کسی نے ڈھولک پر لہک لہک کر گیت گائے۔ نہ ناچنے والیوں نے سوانگ بھرے اور نہ کولھے مٹکا کر نقلیں کیں۔ میرے دھول سے اٹے بالوں میں نہ کسی نے تیل ڈالا۔ نہ کسی نائن نے سنگار کیا۔ کورے ہاتھوں اور اجڑی مانگ سے سہاگن بن گئی۔ کسی نے دروازے پر سر سے تیل، ماش نہ وارے اور بڑی ماں نے گرپال کی بات سن کر یوں میری طرف دیکھا، گویا میں مصیبت ہوں جسے اس کا پوتا کہیں سے اٹھالایا ہے۔ پھر دیا اس طرح ہاتھ میں لیے وہ چوکے میں چلی گئی اور مجھ سے کسی نے کچھ نہ پوچھا۔ بہو کا کیسا سواگت ہورہا تھا؟

    تب سے آج تک میں بھی سیتا جی ہوں، میں بن باس بھوگ رہی اور میں سنگراؤں میں قید ہوں۔ جھولے اکھاڑتے، بیڑیاں پیتے جھولوں والے ایک دوسرے سے گالی گلوچ کر رہے ہیں اور گدھوں پر سامان اتنے زور سے پٹختے ہیں جیسے گدھے لکڑی کے ہوں۔ رام لیلا کی رتھیں ایک طرف کھڑی ہیں اور روپ دھارے لڑکے چمکیلے کپڑوں کی پروا کیے بنا ملائی کی قلفیاں اور چٹنی والے پکوڑے کھارہے ہیں۔ دودھ اور چٹنی کے دھبے ان رنگ برنگ پوشاکوں پر کوڑھ کے داغ لگتے ہیں۔ منی کھڑی انہیں تکتی جارہی ہے۔ اسے اس بات کا ہوش نہیں کہ وہ گم ہوجائے گی۔ بے ہوش ہونے سے کیا ہوتا ہے۔ جسے گم ہونا ہو وہ بھر ے گھر سے کھوجاتا ہے۔

    گرپال اسے کھینچ رہا ہے۔ اور دونوں لڑکے تھک کر روتے، ہر بیچنے والے کو دیکھ کر چیز کے لیے ضد کرنے لگتے ہیں۔ یہ میلہ ہے؟

    مائیں بچوں سے بے پروا بھیڑ میں دھکے کھاکر ادھر ادھر ہوجاتی ہیں اورچھوٹے بچے ایک چہرے کو تکتے، زور زور سے روتے، آگے ہی آگے بھاگے جاتے ہیں۔ بھلا میلے میں بچھڑنے والے کہیں پھر ملتے ہیں؟ یہ بجوگ جنم جنم کے لیے چاہنے والوں کے درمیان اوٹ بن جاتا ہے۔ وہ صورتیں جن کوہم ایک بار پھر دیکھ سکیں، کہیں نظر نہیں آتیں۔ راستے لہروں پر تانا بانا بنے والے کپڑوں کے نشانوں کی طرح ہمارے پیچھے مٹ جاتے ہیں۔ ہم جن راہوں سے چل کر آتے ہیں ان سے لوٹ نہیں سکتے۔ کچھ بھی توواپس نہیں آتا۔ اور میلے کی بھیڑ آگے ہی آگے چلتی رہتی ہے۔

    وقت کبھی لوٹ کر نہیں آتا۔ بھیا کہا کرتے تھے۔ بی بی جو لمحہ بیت جاتا ہے وہ مٹ جاتا ہے، دھول بن جاتا ہے۔ جب پڑھنے میں بے دھیانی سے کام لیتی اور گڑیا گھر کو سجانے میں اسکول سے آکر سہیلیوں کے ساتھ لگی رہتی تو بھیا مجھے سمجھایا کرتے۔

    یہ گڑیا گھر مجھے بابا نے لاکر دیا تھا۔ بابا یہ کھلونا میرے لیے کسی نمائش میں سے خرید کر لائے تھے۔ منی دونوں ہاتھوں سے اپنی بڑی سی کپڑے کی گڑیا سنبھالے ہوئے ہے۔ گرپال اوپر بھیڑ کو دیکھ رہا ہے اور منی جھک جھک کر گھڑی گھڑی اپنی گڑیاکو دیکھتی ہے۔ دونوں لڑکے راون کے بت لیے ہوئے ہر چہرے کی طرف حیرت سے دیکھ رہے ہیں۔ منی کی آنکھوں میں اپنی گڑیا کے لیے کتنا پیار ہے۔ کپڑے کے چوڑے سے منہ پربے ڈھنگے ٹانکوں سے ناک اورآنکھیں بنی ہیں۔ ناک میں نتھلی ہے۔ گوٹے کی چنری سر پر رکھے اپنے لہنگے کو سنبھالے یہ کنچنی لگتا ہے۔ ابھی ناچے گی۔

    اچل کے تالاب کے کنارے ہوکر کھیتوں میں سے ہمارا راستہ سنگراؤں کو جاتا ہے۔ زندگی کا کارواں چلتا ہی رہتا ہے۔ سیدھے ٹیڑھے راستوں اور الجھی پگڈنڈیوں سے کسی منزل پر پہنچنے کی تمنا بھی ہو تو بھی سدا چلتے رہنا پڑتا ہے۔ سدا سدا، پاؤں چاہے زخمی ہوں اور دل میں کچھ نہ ہو۔

    شام کا نیلا دھندلکا اور نیچے اتر آیا ہے۔ شامیں نہ جانے کیوں مجھے بے حد اداس کردیتی ہیں۔ آکاش پر اکیلا تارا دھڑکتا کانپتا، دیے کی لو کی طرح تھرتھراتا اور نیلا ہٹ کے خالی سمندر میں اس کی تنہائی مجھے اپنے بن باس کی یاد دلاتی ہے۔ اس ویرانے میں میں اس تنہا پیڑ کی طرح ہوں جس پر نہ پھول آتے ہیں اورنہ پھل۔

    یہ تارا مجھے اس جہاز کی یاد دلاتا ہے جس میں بھائی سمندر پار گئے تھے۔ وہ اپنے ڈھیروں سامان کے ساتھ جب دوسرے دیس کو جانے کے لیے تیار ہورہے تھے تو اماں کی آواز میں آنسوؤں کی رندھن تھی۔ مگر وہ بڑی تسلی سے چیزیں ٹھیک کرتی اور دعائیں پڑھ رہی تھیں۔ باہر باباکئی طرح کے انتظامات میں لگے تھے اوربھیا اداس تھے۔ آپا چپ چاپ گم سم آنگن میں دبے پاؤں چلتی ادھر اُدھر جارہی تھیں۔ میں سارے گھر میں چہکتی پھرتی تھی۔ چوٹ جب تک نہ لگے زخم کی تکلیف کا کیا پتہ چلتا ہے۔

    بندرگاہ تک ہم سب انہیں پہنچانے گئے تھے۔ بھیا بھائی کا سامان رکھوانے، کاغذ ٹھیک کرنے گینگ وے پر اوپر سے ادھر آجارہے تھے۔ اور میں جنگلے پر جھکی مٹیالے سبزی مائل پانی کو دیکھتی بھائی سے پوچھ رہی تھی۔ یہ پانی ایسا کیوں ہے، اس پر تیل کے دھبے کیوں ہیں؟ کشتیاں کیوں ہیں؟ چپّو کیوں ہیں؟ لنگر کیوں ہیں؟ اونچی نیچی لہروں پر کشتیاں ڈولتی ہیں تو ہول نہیں آتا کیا؟ سوالوں سے پریشان ہوکر بھائی کہہ رہے تھے، ‘‘ جب تو بڑی ہوجائے گی تو ساری باتیں آپ سے آپ معلوم ہوجائیں گی بی بی۔‘‘

    اور آج مجھے معلوم ہے، جس کشتی کے چپّو نہ ہوں وہ ڈوب جاتی ہے۔ کشتیاں ساحل پر بھی ڈوب جاتی ہیں۔ پانی کی ایک لہر بھی انہیں ڈبونے کے لیے کافی ہوتی ہے۔ بڑے ہونے پر جب باتوں کا پتہ چلا ہے توبھائی نہیں ہیں۔

    پھر جہاز کی سیٹیاں سنائی دیں اوربابا نے بھائی کو گلے لگاکر سر پر ہاتھ پھیر کر ’’اچھا بھئی سپرد خدا‘‘ کہا تھا۔ بھیا بھائی سے لپٹ گئے تھے۔ آپا بڑے کمزور دل کی بات بات پر رو دینے والی تھی۔ اسے ہچکیوں سے روتے دیکھ کر بھائی نے کہا تھا۔ بی بی کو دیکھو کیسی خوش ہے۔ بھلا اس میں رونے کی کیا بات ہے؟ دو سال میں تو میں لوٹ آؤں گا۔ کوئی میں سدا کے لیے بچھڑ رہا ہوں، پھر مجھے سینے سے لگاکر بولے، ’’بی بی میں تیرے لیے پیرس سے تحفے لاؤں گا۔ بس تو مجھے خط لکھتی رہا کرنا۔‘‘ اور میں نے زور سے سر ہلادیا۔

    پھر جب آخری سیٹی سنائی دی تو وہ بڑے مطمئن سے بہت لاپروائی سے قدم اٹھاتے جیسے کہیں قریب ہی جارہے ہوں، چلے گئے۔ جب تک جہاز نظر آتا رہا، رومال ہلاتے رہے۔ پھر شام کے دھندلکوں میں بندرگاہ کی ساری روشنیوں کا عکس پانی میں ڈوبنے لگا۔ اورجہاز کی بتی اکیلے تارے کی طرح کانپتی رہی اور پھر اوجھل ہوگئی اور اس کے بعد ساری روشنیاں میرے گرد سدا کے لیے ڈوب گئیں۔ لہروں میں سے کبھی کوئی کرن نہیں نکلی۔

    میں اماں سے لپٹ کر کتنی زور سے چیخ پڑی تھی۔ میرے دل میں کوئی کہہ رہا تھا، اب یہ صورت پھر کبھی نظر نہ آئے گی۔ اب تو بھائی کو کبھی دیکھ نہ سکے گی۔ میرا دل زور زور سے کانپ رہا تھا جیسے مغرب میں خالی آکاش پر اکیلا تارا نیلے دھندلکے سے اُوپر تھرتھراتا اور ڈرتا ہے۔

    دور باغوں میں رات کی سیاہی اپنے پر پھیلا رہی ہے۔ گرپال نے دونوں لڑکوں کو کندھوں پر بٹھالیا ہے اور کھیتوں کے درمیان سفید لکیروں کی سی پگڈنڈیوں پر ہم سے آگے آگے جارہے۔ میں اور منی دھیرے دھیرے چل رہی ہیں۔ بالوں کوپھلانگ کر وہ دس کھیت پر ے ہمارا انتظار کرے گا اور دونوں لڑکوں کو راونؔ کی کہانی سنائے گا۔ اسے کیا معلوم سیتا اس کے پیچھے آرہی ہے اور وہ خود راونؔ ہے۔

    منی مجھ سے کہتی ہے، ’’ماں سروپ کے ماما نے اسے دسہرے پر اچھے رنگ والے کپڑے بھیجے ہیں۔ ریشمی ہیں۔ ہاتھ لگانے سے بہت اچھے لگتے ہیں۔ ماں میرے کوئی ماما نہیں ہیں، جومجھے اچھی اچھی چیزیں دے سکیں۔ ماں تم بولتی کیوں نہیں ہو؟ میلہ اچھا نہیں لگا تمہیں۔ تم تھک گئی ہو ماں؟‘‘

    ’’ہاں منی میں تھک گئی ہوں۔ میں بوڑھی ہوگئی ہوں، مجھے بہت چلنا پڑا ہے۔‘‘

    ’’کوئی بھی نہیں بوڑھی ہوگئی۔‘‘ منی بڑے یقین سے میری طرف دیکھ کر کہتی ہے، ’’تم تو دیوی کی مورتی لگتی ہو ماں، بڑی ماں بھی یہی کہتی ہے۔‘‘

    منی کو کیا معلوم مجھے کتنا چلنا پڑا ہے۔ ایک زندگی سے دوسری زندگی کا فاصلہ کتنا بہت ہوتا ہے اورجب انسان اینٹھ جاتا ہے، اس کے من میں کوئی آشا نہیں رہتی، تب وہ پوجنے کے قابل ہوجاتا ہے۔ سنگراؤں کی راہوں اور بچھڑے ہووں کا انتظار کرتے کرتے میری آنکھیں پتھرا گئی ہیں۔ میرا من خالی ہے۔ میں لکشمی ہوں، پھر بھی دکھ کا ناتا کتنا اٹوٹ ہے۔ گہرا اورپکا۔ کبھی ساتھ نہ چھوڑنے والا۔

    منی پھر پوچھ رہی ہے، ’’ماں کیا میرے کوئی ماما نہیں ہیں؟‘‘

    میں اسے کیا کہوں۔ میں اسے کیا جواب دوں۔ دوراہے پر کھڑی سوچ رہی ہوں۔

    بھیا مجھے کتنے پیارے تھے پر میں ان سے ڈرتی بھی بہت تھی۔ وہ گھر میں گھستے تو چُنری خود بہ خود سر پر آجاتی۔ چال میں ٹھہراؤ اورہنسنے کی آواز میں روک کی کوشش ہوتی۔ جب میں ان کے قریب کھڑی ہوتی تو لگتا، دنیا میں ان سے لمبے قد کا کوئی نہیں ہوسکتا۔ سنبھل کر چلتے اور سلیقے سے بات کرنے والے۔ میرے بھیا کتنے اچھا لکھتے تھے۔ صاف سیدھی لکیریں، نہ صفحے گندے کرتے اور نہ ہاتھوں میں سیاہی بھرتے، مجھے کہتے، ’’بی بی!جب تو بڑی ہوجائے تو تو بھی ایسا ہی لکھا کرے گی۔ سیدھی سطریں اور بنا دھبے کے۔‘‘ بھیا آج مجھے دیکھیں تو کیا کہیں۔ میرے نصیب کے لکھے پر اتنی سیاہی ہے کہ سارے صفحے پر ایک بھی تو سیدھی لائین دکھائی نہیں پڑتی۔ مجھے تو کبھی لکھنا نہ آیا۔

    ان دنوں گڑیا گھر سجاکر میں سوچا کرتی تھی۔ ہم اس میں رہ سکتے ہیں۔ اماں اور بابااور بھیا اوربھائی اور آپا بھی بس یہاں رہیں گے۔ زندگی رس بھرا گیت ہے۔ کسی شے کی ضرورت نہیں، کوئی کمی نہیں۔

    بھیا کی شادی ہوئی تو میں نے کہا تھا، ہمارا گھر جنت ہے۔ مکمل اور آسمانی جنت۔ ان دنوں میں اگر دعا مانگنے کے لیے ہاتھ اٹھاتی تو سمجھ ہی نہ سکتی کہ کیا چاہوں۔ آج کی طرح ان دنوں بھی میں نے خدا سے کچھ نہیں مانگا۔ سُکھ اور کھ کی انتہا زندگی کے چکر میں ایک ہی مقام پر ہے۔

    بھائی سمندر پار چلے گئے اور میرے جنت کے خواب چور چور ہوگئے۔ ساری زندگی کی کرچیں نوکیلے کناروں والے کانچ کے ٹکڑوں کی طرح ادھر ادھر پھیل کر گزرنے والوں کو زخمی کر رہی ہیں۔ سب کے پاؤں معذور ہوگئے ہیں۔ راہ کے دوسری طرف جانے والا کوئی بھی تو نہیں رہا۔ راستہ یوں سونا ہے جیسے شمشان میں سے ہوکر گزرتا ہو۔ دور دور تک کوئی نہیں۔ سیتا جی کے الاپ کو اس دیس میں کون سنتا ہے۔ اکیلے پن کا دکھ کتنا کٹھور ہے۔ زندگی کتنی مشکل ہے۔ گرپال دور کھڑا مجھے پکار رہا ہے۔ منی کو پکار رہا ہے۔ ہم دونوں ہولے ہولے چل رہی ہیں۔ کپاس کے کھیتوں میں صرف سوکھی لکڑیاں کھڑی ہیں۔ ہنستے پھول سمیٹ کر لوگ لے جاتے ہیں۔ گندم کے کھیتوں میں ابھی نہ بالیں پھوٹی ہیں اور نہ ان میں دانے پڑے ہیں، ہوا کے جھونکے نرم لچکیلے پودوں کو جھکا لیتے ہیں۔ ہوا کے سامنے جھکنا پڑتا ہے ہر ایک جھکتا ہے۔ ہر ایک جھکتا ہے۔

    بڑی ماں بہت بے چین ہوگی۔ میری طرف سے ایک انجانا خوف نہ جانے کیوں ہر وقت اس کے کلیجے کو دھڑکاتا رہتا ہے۔ جس دیس کا وہ سوچتی ہے، اس کا راستہ کٹھن ہے۔ اور میں گرپال کے ساتھ جتنا راستہ چل کر آئی ہوں، اس سے آگے چلنے کی مجھ میں ہمت نہیں۔ آخر کوئی کہاں تک چلتا جائے اور پھر جب کہیں جانا ہی نہ ہو۔ زخمی دل کو لے کر اُجڑی مانگ کے ساتھ میں بھلا کہاں جاسکتی ہوں۔ منی میری راہ میں کھڑی ہے، منی میرے اور ان کے درمیان اُوٹ ہے۔ کتنے فاصلے میرے اور ان کے درمیان ہیں۔ بھلا میں اس سے پرے کیسے جھانک سکتی ہوں؟

    گانے والوں کی ٹولیاں بھجن گاتی پیچھے آرہی ہیں۔ اچّل کے تالاب کے پاس جما ہوا میلہ اب بٹ کر پھیل کر راہوں میں بکھر آیا ہے۔ بچے روتے جاتے ہیں۔ مزد ور زور سے باتیں کرتے ہوئے میرے اور منی کے پاس سے گزرتے ہیں۔ عورتیں اچھے اچھے کپڑے پہنے دوپٹوں کو سنبھالتی، ذرا ذرا سے گھونگھٹ ماتھوں تک سرکائے میلے میں خریدی مٹھائیوں کی پوٹلیاں ہاتھوں میں پکڑے، بچوں کو کندھے سے چمٹائے، ننگے پاؤں تیز تیز چل رہی ہیں۔ ان کے جوتے دوپٹوں کے پلوؤں میں بندھے ان کے پیچھے جھول رہے ہیں۔ زمین اور جسم کا گہرا رشتہ ہے۔ اس کے اور انسان کے درمیان کوئی پردہ کیوں ہو۔

    دور ہٹتے لوگ سفید دھبے لگ رہے ہیں۔ اکتارہ بجاتا ایک سادھو سنگراؤں جانے والی راہ پر ہمارے پیچھے مڑ گیا ہے۔ اس کی آواز میں کتنا درد ہے۔ ٹھیک ہی تو کہتا ہے۔ جب روشنی کا کوئی وجود نہ ہو، اس کے بعد بھی روشنی کی تمنا باقی رہتی ہے۔ اس کے تاروں کی جھنکار مجھے سنائی نہیں دیتی، صرف گیت کے بول ہوا کے ساتھ کبھی کبھار میرے کانوں میں پڑ جاتے ہیں۔

    ’’ماں! تم چُپ کیوں ہو؟ کوئی بات کرو۔ مجھے ڈر لگتا ہے۔‘‘ منی بڑھتے اندھیرے میں میرے ہاتھ کو اور زور سے پکڑنے کی کوشش میں اپنی گڑیا کو سنبھال نہیں سکتی۔ اس کی آواز آنسوؤں سے بھیگ رہی ہے۔ اسے کسی اور سوال پوچھنے کا ہوش نہیں۔

    منّی کو بھی بڑے ہونے پر آپ سے آپ پتہ چل جائے گا کہ اندھیرے سے ڈرنا بے کار ہے۔ جب اسی کا جادو چل جاتا ہے۔ پھر کچھ کیے نہیں بنتا۔ بھائی کہا کرتے تھے، ’’بی بی پانی میں زور ہے، اپنا راستہ خود بنالیتا ہے۔‘‘ مجھے ان دنوں میں یہ بات کبھی سمجھ میں نہیں آئی کہ پانی میں زور کہاں سے آتا ہے۔ حالات کا دھارا راہی خود پیدا کرلیتا ہے۔ بڑی ماں اب مجھے پکارتی ہیں تو میں پھلکاری کو ماتھے تک سرکائے ہولے سے ’’جی‘‘ کہتی ہوں۔ ہر کام کو اتنی جلد نبٹانے کی کوشش کرتی ہوں کہ مصروف رہوں اوراپنے ساتھ اکیلے ہونے، سوچنے بچارنے کا وقت نہ مل سکے۔

    جب سمے تھا تو سوچ نہ تھی۔ اب سوچ ہے تو سمے نہیں۔ ہر جگہ کچھ نہ کچھ کمی رہ جاتی ہے۔ یہ کمی کہیں بھی پیچھا نہیں چھوڑتی، کبھی کچھ نہیں ہوتا اور کبھی کچھ۔ آج آنکھیں بند کرتی ہوں تو دل کہتا ہے، ’’وہ سب ابھی آئیں گے۔ اور بھیا مجھے دیکھتے ہی کہیں گے، بی بی! یہ کیا بہروپ ہے۔ پھلکاری تمہاری سر پر ذرا اچھی نہیں لگتی۔ اتار اس کو پرے کر، یہ دیکھ میں تیرے لیے کیا لایا ہوں۔ چھوڑ دے سارے کام، ادھر آ ہمارے پاس بیٹھ۔ چھٹیاں کم ہوتی ہیں اور پھر گزر کتنی تیزی سے جاتی ہیں۔ جب ہم گھر آیا کریں تو بس تو کہیں بھی نہ جایا کر۔‘‘

    بڑے کمرے میں صوفوں پر بیٹھے تصویروں کی طرف دیکھتے، باتیں کرتے، چائے پیتے، آتش دان کے سامنے آگ تاپتے۔ جب ہم سب زور زور سے قہقہے لگاتے تو اماں سوئی ہوئی آواز میں کہتیں، ’’صبح بھی اٹھنا ہے۔ اب سوجاؤ بچو۔‘‘ تو بھیا زور سے پکار کر جواب دیتے، ’’اماں گھر سے دور ہی تو رہتے ہیں۔ سارا سال اداس ہوکر سویا کرتے ہیں۔ ایسی بھی کیا جلدی ہے۔ سو ہی جائیں گے اماں۔‘‘ اور میں سوچا کرتی تھی، خوابوں کی طرح یہ ساری باتیں دھول میں مل جائیں گی۔ محبت کے سہارے جو جنت آباد کی ہے، اس پر اس طرح گرد و غبار چھا جائے گا کہ کہیں بھی شادابی نظر نہیں آئے گی۔ ہم تصویروں کی طرح حقیقت کی پرچھائیں ہیں۔ میرا دل تو سدا سے باؤلا تھا۔ الٹی باتیں سوچنے والا اور بڑا ہی مورکھ۔

    دل سدا سے انہونی باتوں کے سپنے دیکھتا اور یوں ہی دھڑکتا ہے۔ جب اس سے بات کرتی ہوں توکہتا ہے، آخر تیرا کیا جاتا ہے بی بی!سپنوں پر تو کسی کا اختیار نہیں اور پھر اس سپنے میں کیا بُرائی ہے کہ کھلے کواڑوں کے اندر کسی دن وہ سب آجائیں جن کا تمھیں انتظار ہے۔

    میں کہتی ہوں، ’’میرے لیے سوائے اندھکار کے کچھ باقی نہیں رہا۔‘‘ دل کہتا ہے، ’’نا امید ہونا بہت بڑا پاپ ہے۔‘‘ پر اُمید آخر کس شئے کی کروں؟

    منّی میرا آنچل پکڑے پوچھ رہی ہے، ’’ماں بتا ہمارے ماما ہمارے گھر کیوں نہیں آتے؟ کیا دیوالی میں ہم ماما کے پاس نہیں جائیں گے ماں۔ ساری لڑکیاں ہی تو جارہی ہیں۔ ماں میرا دل اب اس گاؤں میں نہیں لگتا۔ میرا دل میلے میں بھی نہیں لگا۔ بس میرا جی تو اداس ہے۔ میں ماما کے گھر جاؤں گی۔‘‘ کس سے پوچھوں، اس کے ماما کا گھر کس نگر میں ہے۔ سنگراؤں سے باہر سارے گاؤں مجھے گڑیا گھر لگتے ہیں جن کی کوئی اصلیت نہیں۔ سنگراؤں بھی پرچھائیں ہے۔ سب کچھ پرچھائیں ہے۔

    اور پھر بھی نہ جانے کیوں آتما بھٹکتی ہی رہتی ہے۔ ایسی چیزوں کو ڈھونڈتی پھرتی ہے جو کہیں بھی نہ تھیں۔ ایسی آوازوں کو سننے کی آشا لیے جو پھر کبھی سنائی نہ دیں گی۔ سر پر گوبر کے ٹوکرے اٹھاتے اٹھاتے، دودھ دوہتے، اپلے تاپتے نہ جانے کیوں چند مہینوں سے میرا دل کیوں دھڑکا کرتا تھا۔ ہوا میں اچانک جانی بوجھی خوشبو ہوتی اور مجھے سارے باجوں کے سُر اپنے قریب آتے جان پڑتے۔ مجھے اپنے سے دور لے جاتے ہوئے۔ پر اب مجھے معلوم ہے جہاں وہ سب ہیں۔ وہ دیس میری پہنچ سے باہر ہے۔ سنگراؤں کو جانے والے راستوں کی طرح سارے لہراتے راستے ایک دوسرے کو کاٹتے گزرتے ہیں۔ کہانیوں کے اس شہر کا کھوج لگا کر میں کیا کروں گی۔

    آباد گھروں کے کھلے کواڑوں سے اندر جلتے دیوں کی کانپتی روشنیاں پریوں کے دیس کی تصویر سی جان پڑتی ہیں۔ گرپال اور لڑکے، میں اور منّی اب ساتھ ساتھ چل رہے ہیں۔ سر کنڈوں کی ریشمی بور میرے بالوں سے چھورہے ہیں۔ ہوا اپنی ریشمی آنچل سنبھالے دھیرے دھیرے سونے لگی ہے۔

    اکیلے سے دو ہوں تو راستہ آسان ہوجاتا ہے۔

    منّی کہتی ہے، ’’میں تھک گئی ہوں، مجھ سے اب اور نہیں چلا جاتا۔‘‘ لڑکے رو رہے ہیں اور ان کی آنکھیں نیند سے بند ہوئی ہوتی ہیں۔ راون ان سے سنبھالے نہیں سنبھلتے۔ ہم راہ سے ذرا ہٹ کر ایک کھیت کی اونچی منڈیر پر بیٹھ گئے ہیں۔ منّی نے میری گود میں اپنا سر رکھ لیا ہے۔ گرپال کہہ رہا ہے، دیکھو تو سہی، عورتیں کتنی بے وقوف ہیں، آج کتنے بچے گم ہوگئے ہیں۔ میلے میں انھیں ہوش بھی نہیں رہتا کہ سنبھال سکیں۔ پاگلوں کی طرح رام لیلا کی راس دیکھتے اپنے بچوں سے بچھڑ جاتی ہیں۔‘‘

    ’’میلے کے بنا بھی تو بچے ماؤں سے بچھڑ جاتے ہیں۔‘‘ میں اس کی طرف دیکھے بنا منی کے سر پر ہاتھ پھیر کر کہتی ہوں۔

    ’’تم کبھی بھول بھی سکوگی اس بات کو کہ وہ وقت اور تھا یہ اور ہے۔‘‘ گرپال ہولے سے کہتا ہے۔

    گرپال کو میں کیسے سمجھاؤں کہ وقت کبھی اورنہیں تھا۔ اور انسان کے نصیب میں دُکھ اس لیے ہے کہ وہ بھول نہیں سکتا۔ میری یاد میں وہ نظارہ اُسی طرح زندہ ہے۔ ہر طرف آگ لگی تھی۔ ملک آزاد ہوگیا تھا۔ ملک بٹ گیا تھا۔ اماں اور بابا نے کہا کہ یہ سارے لوگ پاگل ہیں جو ڈر رہے ہیں، دوسرے دیس کو بھاگ جاتے ہیں۔ بھلا اتنے اپنوں کے درمیان بھی کبھی کسی کو کوئی دُکھ چھوسکتا ہے۔ اماں اور بابا کتنے بھولے تھے۔ دکھ تو سدا اپنوں ہی سے ملتے ہیں۔ اس پریشانی کی کیا اصلیت ہے جو بے گانوں کے ہاتھوں ہمیں ملتی ہے۔ ساری ندگی نے اپنی خوبصورتی کھودی اور ہر شیے کا چہرہ خون کے غبار میں چھپ گیا۔

    بھگوان، گرو اور اللہ کے نام پر جانیں دینے والوں نے ایک دوسرے کے گلے پر تلواریں چلائیں۔ بہنوں بیٹیوں کے لیے کٹ مرنے والے عورت کی عزت اور عصمت کو جھوٹا بول سمجھنے لگے۔ بھائی اور بہنوں کے لفظ صدیوں کی بیڑیوں کی طرح اس آزادی اور بٹوارے میں کٹ گئے اور جتھے بناکر گھومنے والوں کے قدموں میں دھول بن کر مل گئے۔ اماں نے بابا سے کہا تھا، ’’ہم بھی لڑکیوں کو لے کر چلتے ہیں۔ میرا جی تو ہول کھاتا ہے۔ اس وقت کسی پر بھروسہ کرنا بے کار ہے۔‘‘

    اور بابا نے اپنی طمانیت سے کہا تھا، ’’بی بی کی اماں!تم بھی عام لوگوں کی طرح ناحق جان گھلاتی ہو۔ بھلا ہمیں بھی کوئی تکلیف ہوسکتی ہے۔ بٹوارے کے بنا چارہ نہ تھا۔ یہ شور تو چند دنوں میں ختم ہوجائے گا۔ گھبراؤ نہیں سب ٹھیک ہوجائے گا۔ سب کچھ۔‘‘

    اماں عام زندگی میں تو ایسے جواب سے مطمئن ہوجایا کرتی تھیں پر اس دن نہ ہوئیں۔ بولیں، ’’جان کے ساتھ عزت کا خطرہ اور جوان لڑکیوں کا ساتھ ہے۔ میری مانو تو ہم سب کو بھیا کے پاس بھیج دو۔‘‘

    بابا بولے، ’’راہوں پر ہر طرف گاؤں کے آوارہ لوگ بھاگتے پھرتے ہیں۔ گاڑیاں کی گاڑیاں کاٹ کر پھینک رہے ہیں۔ ایسے میں جانا اوربھی زیادہ خطرے کی بات ہے۔ بس تم خاموشی سے اپنے گھر میں رہو۔ خدا ہماری حفاظت کرے گا۔‘‘ بابا حالات کی وجہ سے پریشان ہوں گے مگر انھوں نے وقت کے گزرنے پر سوائے خدا کے بھروسے کے اور کسی کی مدد کا واسطہ ہمیں نہیں دیا۔ یوں وقت تو کب کا گزر چکا تھا۔ بابا کی بھول یہی تھی کہ انھوں نے پرانی زندگی اور قدروں کا سہارا لیا تھا اور اسی بھول کے بدلے تو جب گرپال مجھے گھسیٹ کر گھر سے باہر لارہا تھا، میں نے بابا کے سفید سر کو نالی کے کنارے پڑے دیکھا۔ ان کا جسم نالی میں تھا۔ بند آنکھوں اور خون آلود سر کو بھول کر وہ جانے کس طاقت سے پرارتھنا کر رہے تھے۔ دعا کے قبول ہونے کا وقت تھا بھلا؟ اماں کے سینے سے ایک نکلتا ہوا برچھا آر پار ہوگیا تھا اور وہ اسی جگہ گر گئیں جہاں انہوں نے خدا سے اپنی حفاظت اور عزت کے محفوظ رہنے کی دعا مانگی تھی۔

    آپا کی چیخیں آج بھی مجھے آندھی کے شور میں کبھی کبھار سنائی دے جاتی ہیں۔ پر آج کی طرح تب بھی میں کیا کرسکتی تھی۔ گرپال مجھے کھینچے جارہا تھا۔ میرے سر پر چنری نہ تھی، پر مجھے ان راہوں پر بھیا کے ملنے کی آس کب تھی۔ اگر بھیا میرے پاس ہوتے توبھلا کوئی مجھے چھو سکتا؟ کوئی یوں ننگے سر مجھے جنم بھومی کی ان راہوں پر گھیسٹ سکتا تھا، جہاں کا ہر ذرہ ہمیں پیارا تھا۔ ان راہوں پر بابا کا خون گرا ہے۔ اس دھول میں ان کا سفید سر گھسیٹا گیا تھا۔ وہ کون دیس ہے۔ اگر اس دھول کی ایک جھلک دیکھ سکوں تو آج بھی اس کو ماتھے پر چڑھاؤں۔ وہ مٹی مجھ سے تو خوش قسمت ہے۔

    میں نے اپنے بابا سے کتنی باتیں ابھی کرنا تھیں۔ اماں کو میں نے کتنا ستایا تھا اور بھائی کو کتنا تنگ کیا تھا اور جب وجود ڈولی کے بنا سنگراؤں تک کھینچا گیا تو کوئی ماں جایا تھا، جس سے میں رو روکر التجا کرتی کہ بابل کا دیس چھٹ رہا تھا اور کوئی مجھے وداع نہیں کر رہا تھا۔

    دکھ سہنے کے بعد اگر سکھ کی آس ہو اور دور کوئی امید ہو تو دکھ کا بوجھ ہلکا ہوجاتا ہے۔ اورمیرا راستہ کبھی نہ کٹ سکا۔ اور یاد کروں گرپال، تم نے کبھی مجھے پیچھے مڑ کر دیکھنے ہی نہیں دیا۔

    بڑی ماں کی مار، گرپال کی گالیاں، بھوک کی سختیاں میں نے دور ٹمٹماتے دیے کی طرح اس کی طرف دیکھ کر برداشت کرلی تھیں کہ شاید بھائی اور بھیا مجھے کھوجتے ہوئے کسی دن سنگراؤں میں آجائیں۔ پھر میں بڑی ماں کی طرف دیکھ کرمسکرادوں اور گرپال کی طرف دیکھے بنا اپنے بھیا کے ساتھ چلی جاؤں گی۔ اس دن نیم کے پتوں میں کھیلتی ہوا گیت گائے گی اور سارے گاؤں میں خوشیاں ہوں گی۔ انسان اپنے کو ساری کائنات کا مرکز کیوں سمجھتا ہے، نہ جانے کیوں۔ جب تک اندھیرے سے آنکھ مانوس نہیں ہوتی، انسان اُجالے کے لیے آنکھیں جھپکاتا رہتا ہے اور سپنے دیکھتا رہتا ہے۔ امیدیں آوارہ خیالوں کی طرح دل کے گرد چکر لگاتی رہتی ہیں۔ منی پیدا ہوئی ہے تو میرے سینے کی کڑیاں ڈھیلی ہوگئیں۔ دل کے گرد آشاؤں کا گھیرا بکھر گیا، میں نے سپنوں میں جاگنا شروع کیا۔ سنگراؤں کے گیتوں میں کبھی کبھار میرا ایک بول بھی گونج اٹھتا۔

    جب دونوں ملکوں میں صلح ہوئی تو گرپال بہت اداس رہتا۔ سہما سہما اور پریشان، بڑی ماں اور وہ چوکے میں بیٹھے ہولے ہولے جانے کیا باتیں کیا کرتے۔ پر مجھ سے دونوں کچھ نہ کہتے۔ ان دنوں منی پاؤں پاؤں چلتی تھی اور توتلی باتیں کرتی تھی۔ خبریں زور شور سے گھومتی رہیں اور پھر بگولے کی طرح بیٹھ گئیں۔ مجھے کوئی فوج لینے نہ آئی۔

    پھر میں نے سنا پاس کے گاؤں سے دوسرے ملک کے سپاہی لڑکیوں کو ڈھونڈھ کرلیے جارہے ہیں۔ کس کو؟ آخر کہاں؟ کن لوگوں کے درمیان؟ ان دنوں میں نے بھی سوچا تھا، شاید بھیا اوربھائی بھی مجھے ڈھونڈنے آئیں گے۔ شہر کے دروازوں کے باہر وہ کب سے میری راہ دیکھ رہے ہوں گے۔ مجھے جانا چاہیے ضرور۔ میں ہر روز اپنی امیدوں کی گرہیں باندھتی اور آس لگائے گلی کے موڑ کی طرف دیکھتی رہتی۔

    اس سال سردیوں میں ہمارے سنگراؤں میں سپاہی مجھے لینے آئے۔ میں بھیا اوربھائی کی بی بی ہونے کے ساتھ منی کی ماں بھی ہوں اور میں نے سوچا جانے یہ کون لوگ ہیں۔ وہ کون دیس ہو۔ زندگی میں پہلی بار میرا یقین ڈگمگایا۔ شہر کا شہر دھول بن کر میرے سامنے سے ہٹ گیا۔ میری جڑیں سنگراؤں کی زمین میں گہری ہوگئی ہیں۔ سوکھنا، مرجھانا کسے اچھا لگتا ہے۔ ہر کسی لڑکی کو مائکے سے وداع ہوکر سسرال جانا ہوتا ہے۔ ہر دلہن بیاہ کرکہیں نہ کہیں جاتی ہے۔ میرے بیاہ میں بھیا اور بھائی نہ ملے تو کیا ہوا۔ گرپال نے میرے لیے لاشوں کا فرش بچھایا تھا۔ خون سے راہیں سیراب کی تھیں۔ شہروں کے شہرجلاکر روشنیاں کی تھیں۔ لوگ چیختے چلاتے بھاگتے میری شادی کی خوشیاں منارہے تھے۔ ہر طرف فضا میں بدلے رواجوں کے مطابق دھوئیں اور آگ اور خون کی بو تھی۔ مجھے وہ سنگراؤں لایا تھا۔ گندم کے کھیتوں کے درمیان کچے گھر کی کوٹھری میں میری باقی زندگی بیتنے والی تھی۔ اپلے میلے دھوئیں سے بھرے گھر میں۔

    میں کتنی دیر اس کتاب کے حرفوں کو دیکھتی رہی تھی، جو گرپال اتنے برسوں بعدمنّی کو پڑھانے کے لیے لایا تھا۔ اور لفظ میری آنکھوں میں دھڑکن بن گئے تھے۔ مجھے وہ ساری کہانیاں یاد آگئی تھیں جو بھیا اور بھائی نے مجھے سنائی تھیں اور پھر کہا تھا، ’’بی بی اس سے بھی اچھی کہانیاں کتابوں میں ہیں۔ بس ذرا بڑی ہوجا، پھر دیکھنا کتنے مزے کی باتیں پڑھے گی۔‘‘

    کہانیوں کی شہزادی کی طرح جب فوج مجھے چھڑانے آئی ہے تو میں چھپ گئی۔ میں کسی اور کے ساتھ کیوں جاتی بھلا۔ مجھے بلوانے اور وداع کرانے بھیا اور بھائی کیوں نہیں ا ٓئے۔ میں دل ہی دل میں بھیا اوربھائی سے روٹھ گئی۔ میں ان سے آج تک خفا ہوں۔

    منّی جب پاس لیٹتی ہے تو مجھ سے پوچھتی ہے، ’’ماں تم دیوالی میں بھی ماما کے گھر کیوں نہیں جاتیں؟ ماں ہمیں کبھی کوئی مٹھائی کیوں نہیں بھیجتا؟‘‘

    ماما کبھی کھوجنے ہی نہیں نکلتے منی۔ تیرے ماما مجھے کبھی وداع کرانے نہیں آئے۔ بھلا زندگی میں کسے اتنی فرصت ہوتی ہے کہ کسی کو ڈھونڈتا پھرے۔ ہولے ہولے محبتیں، سہارے ڈھونڈ لیتی ہیں۔ بھیا کے بچے اب منی کے برابر بڑے ہوں گے۔ وہ جب اپنی ماں سے ماما کے گھر کی باتیں پوچھتے ہوں گے تو اسے چپ رہ کر یا دھیان ہٹانے کے لیے ان سے ادھرادھر کی باتیں نہیں کرنی پڑتی ہوں گی۔ کبھی کبھار دل میں کہانیاں ہوتی ہیں پر زبان پر ایک لفظ نہیں آتا۔

    گلی کی بہوئیں جب نیم کی چھاؤں میں چرخے کاتتی گیت گاتی ہیں تو میں چپ رہتی ہوں۔ ہمارے آنگن میں کتنی رونق ہوتی ہے۔ مائکے کے گیتوں میں کتنا رس ہے۔ رتیں بدلتی ہیں۔ سال بہ سال کبھی کسی کو ان کے باپ بھائی وداع کرانے آتے ہیں۔ تب آشا، ریکھا، پور اور چندر کے پاؤں زمین پر نہیں ٹکتے۔ وہ ہر ایک کے گلے میں مائکے جاتی ہیں۔ ان کے بول گیت لگتے ہیں۔ رتیں بدلتی رہتی ہیں۔

    لڑکیاں کوّے کوٹھے سے اڑا کر اپنے ویروں کے آنے کا پوچھتی ہیں۔ میرا دل گلے کے قریب یونہی دھڑکنے لگتا ہے اور کلیجے کے قریب ایک نس ایسی پھڑکتی ہے، مانو پھٹ جائے گی۔ میں کوّے کو اڑانے کے لیے ہاتھ اٹھاؤں تو بے جان ہوکر وہ میرے پہلو میں گرجاتا ہے۔

    بڑی ماں کو مجھ سے آس بندھ گئی۔ جب میں نے اپنی پچھلی زندگی سے سارے ناتے توڑ لیے تو میرا اور بڑی ماں کا ناتا اور گہرا ہوگیا۔ میں اس کی لکشمی بہو بن گئی ہوں۔ میرے ہاتھ کا سوت وہ بڑے چاؤ سے لوگوں کو دکھاتی ہے اور دوسری عورتیں جب اس سے اپنی بہو کے گلے کرتی ہیں تو وہ میری باتیں کر کے ان کا دل اور بھی جلاتی ہے۔

    کھیتوں میں گھومتی اناج کی خوشبو اور سبز گندم کی بالوں کی باس دور تک پھیلے نیلے دھوئیں میں مل کر ایک گیت بن جائے، ان پر جھکا اکے دُکے تاروں سے بھرا آکاش اورنہر کا ننھی منی لہروں میں بل کھاتا پانی سب اس کے بول ہوں۔ اگر بیلوں کے لیے سر پر چارے کے گٹھے اٹھائے کسانوں کے پیچھے کسی دن گھوڑے پر سوار ایک جوان میرے کھلے کواڑوں کے سامنے آن کر اُترے اور میں بھیا کہہ کر اس سے لپٹ جاؤں میں دروازے میں کھڑی کھڑی بھلا کس کی راہ تکا کرتی ہوں۔ آشاؤں کے مرنے کے بعد ان کی لاشوں کو اٹھائے مجھے کب تک گھومنا ہوگا؟ ان ایچ پیچ راہوں کو دیکھتے دیکھتے آنسو آپ سے آپ میری آنکھوں میں کیوں آگئے ہیں۔ منّی کے سر پر اگر یہ آنسو گر گئے تو وہ گھبراکر اٹھے گی۔ اور پوچھے گی، ماں!تم روتی کیوں ہو؟ میں اس سے اپنا دکھ کیسے کہوں؟

    منّی اگر پوچھے، ’’ماں تمہاری آنکھیں بھیگی ہوئی کیوں ہیں۔ تم دسہرے کی رات بھی روتی ہو ماں۔ کیا تم تھک گئی ہو؟‘‘

    گرپال نے دونوں بچوں کو کندھے پر اٹھالیا ہے۔ منّی اور میں سنگراؤں جارہے ہیں۔ سیتا جی نے دوسری بار بن باس پر جانے کے بدلے راونؔ کے گھر کو قبول کرلیا ہے۔ مجھ میں اتنی ہمت کہاں سے آئے گی کہ میں دوسری بار کسی بے یقینی کا سہارا لے کر اندھکار سے باہر قدم دھر سکوں۔

    زندگی کی ساری روشنیاں پیچھے شہر کی طرح مجھ سے دور ہٹ گئی ہیں۔ مگر مجھے پھر بھی اس اندھیرے سے پیار نہیں ہوپاتا، نہ جانے کیوں؟

    مجھے چلتے ہی جانا ہے۔ تھکن میرے انگ انگ میں دکھن بن کر پھیلی ہے۔ پھر بھی مجھے چلتے ہی ہی جانا ہے۔ زندگی کے میلے میں باسی اور بن باسی سب قدم بڑھائے چلنے پر مجبور ہیں اور میں قدم بڑھاتی سوچتی ہی رہتی ہوں، کبھی بھائی اوربھیا بھی میرے لیے اداس ہوتے ہوں گے؟

    سب سے زیادہ ڈر تو مجھے منّی سے لگتا ہے۔ وہ پھر کل مجھ سے یہ سوال پوچھے گی۔ اورپھر کوئی بھی اس کی بات کا جواب نہیں دے سکے گا، نہ گرپال اور نہ میں اور نہ شاید بڑی ماں۔

    کئی سوال ایسے کیوں ہوتے ہیں، اتنے کٹھن اور ایسے مشکل، جن کا جواب کوئی بھی نہیں دے سکے۔

    سردیوں کی لمبی راتوں میں دکھ الاؤ جلاکر، بیتے سپنوں کو بلاتا اور کہانیاں سنتا ہے۔ کہانیاں بھلا سچی ہوسکتی ہیں۔ من بڑا ہٹیلا ہے۔ اسے بیتے دن نہ جانے کیوں یاد آتے ہیں؟

    سنگراؤں کے پرے بھی کوئی فکر ہے کیا؟

    گاؤں کی اونچی نیچی گلیوں میں گوبر اور موُت کی باس اناج کے باس کے ساتھ ملی زندگی کے دھارے کی طرح بہتی چلی جاتی ہے۔ آج کا دن بھی ختم ہوگیا۔ ہوا کے جھونکوں کی طرح دن ختم ہوجاتے ہیں۔ جانے ابھی کتنا راستہ باقی ہے۔

    مأخذ:

    کہانیاں (Pg. 440)

      • ناشر: نیشنل فائن پرنٹنگ پریس، حیدر آباد
      • سن اشاعت: 1985

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے