Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

برف کی قید

MORE BYقرۃ العین خرم ہاشمی

    تاحدنگاہ سفیدی ہی سفیدی پھیلی ہوئی تھی۔ مگر یہ سفیدی نہ تو چاند کی ٹھنڈی میٹھی روشنی کی وجہ سے تھی اور نہ ہی روشن، چمکتے دن کی وجہ سے تھی۔ اس سفیدی کی اصل وجہ وہ سفید رنگ کا لباس تھا، جو سب لوگوں نے زیب تن کیا ہوا تھا۔ بڑے سے وسیع میدان میں لوگوں کے جھنڈ جگہ جگہ نظر آ رہے تھے۔ ہلکی ہلکی سرگوشیوں سے، نامانوس سا شور ہر طرف پھیلا ہوا تھا۔ ایک اضطراب اور بے چینی تھی جو اس سفید رنگ میں نمایاں تھی۔ اسی وسیع میدان میں تاحدِ نظر پھیلے لوگوں میں، دور کے کسی کونے میں، بہت سی عورتوں کے درمیان جمالے کی ماں بھی بیٹھی ہوئی تھی۔ نام تو اس کا پروین تھا مگر دنیا جس نام سے اسے جانتی اور پکارتی تھی وہ ہی اس کا حوالہ بن کر ہمیشہ اس کے ساتھ ساتھ رہا۔ یہ حوالہ دنیا میں اس کا فخر،اس کا مان اور غرور تو تھا ہی۔ اس کا کل اثاثہ،اس کی کل ملکیت بھی یہ نام ہی تھا!

    جمالے کی ماں اپنے سر سے سرکتے سفید ڈوپٹے کو بار بار کھینچ کر ماتھے تک لاتی اور بےچینی سے دونوں ہاتھوں کی انگلیاں مروڑتی، بار بار سامنے کی طرف دیکھ رہی تھی۔

    ''ابھی اور کتنا وقت باقی ہے؟'' جمالے کی ماں نے خود کلامی کی مگر اس کی بات کا جواب دینا کسی نے بھی ضروری نہیں سمجھا تھا۔ اس لئے کہ آج سب کو ہی اپنی اپنی پڑی ہوئی تھی، آج کسی کو کسی سے کوئی سروکار نہیں تھا۔ سب کے دل سودوزیاں کے بوجھ تلے دبے تھر تھر کانپ رہے تھے۔

    جمالے کی ماں نے سر جھٹک کر اپنا دھیان بٹانا چاہ تھا۔ اس کے دھیان کا پنچھی گھومتا پھرتا، اس چھوٹے سے قصبے میں پہیچ گیا۔ جہاں اس کا کشادہ سا گھر، بہت سی آسائشوں سے سجا، اس کی مکمل رجدانی کی تصویر تھا۔ وہ اس گھر کی حکمران تھی،بیٹا اور شوہر اس کے محکوم اور رعایا تھے۔ بیٹا تو پھر بھی ماں سے ضد کر لیتا تھا، اپنی بات منوا لیتا تھا مگر اس کا شوہر اللہ رکھا نجانے کس مٹی کا بنا ہوا تھا کہ وہ صرف محبت کی زبان سے ہی واقف تھا۔ محبت کرنا اور دینا ہی جانتا تھا۔

    حالانکہ وہ بہت عام اور معمولی سا شخص تھا مگر وہ قناعت اور صبر کے سب اسباق سے بہت اچھی طرح سے واقف تھا۔۔ ساری زندگی سخت محنت اور مشقت کر کے رزق حلال کمایا اور اپنا گھر بخوبی چلایا۔ اللہ رکھا اس چھوٹے سے قصبے میں برف پیچنے کا کام بہت سالوں سے کر رہا تھا۔ وہ لوگوں کے گھر اور دکانوں میں برف کی سپلائی کرتا تھا۔ شدید گرمیوں میں اس کا کام اور اس کی مانگ بہت بڑھ جاتی تھی جب گھروں میں بجلی کی عدم دستیابی کی وجہ سے فریج کام نہیں کرتے اور شدید گرمی میں ٹھنڈا پانی، آب حیات سے کم نہیں لگتا تھا۔ اللہ رکھا اپنے کام اور نیت میں بہت ایماندار تھا۔ اس لئے اپنے سب ساتھیوں میں نمایاں تھا۔ بہت سے نئے لوگ بھی اس کام میں متخلف طریقوں کو اپناتے ہوئے آگے آئے تھے۔ جو پہلے پہل تو بہت مقبول ہوئے مگر ان لوگوں کی بدنیتی اور زیادہ داموں اور ناقص برف نے بہت جلد ان پر قائم اعتماد کو ختم کر دیا تھا اور پھر سب کو صرف اللہ رکھا ہی نظر آتا تھا۔ اس لئے کہ اللہ رکھا برف کی ٹھنڈک سے اپنے اور اپنے گھر والوں کے لئے رزق حلال کی گرمی کشد کرتا تھا۔

    ''اللہ رکھا تھوڑی عقل سے بھی کام لو! جب تم اس کام میں زیادہ سے زیادہ کما سکتے ہو تو لکیر کے فقیر کیوں بنتے ہو؟ اپنے ساتھ ساتھ دوسرے لوگوں کا کام بھی خراب کر رہے ہو۔’‘ ایک بار ایک ساتھی نے اپنی ناکامی کا سب الزام اس پر ڈالتے ہوئے شکوہ کیا تھا کیونکہ دنیا میں یہ کام سب سے آسان ہے کہ اپنی ذات کا ملبہ دوسروں پر ڈال کر سرخرو ہو جانا۔ اللہ رکھا اس کی بات سن کر ہنس پڑا تھا۔

    ''ٹھیک کہتے ہو بھائی لوگ! میں دنیا کا نفع کمانے میں ہمیشہ بہت پیچھے رہا ہوں۔ کیا کروں بہت بچپن میں ابا نے رزقِ حلال کا درس دیتے ہوئے سمجھایا تھا کہ ''یاد رکھنا بیٹے! رزقِ حلال کمانے والا بالکل ایسے ہی ہے جیسے کوئی قطرہ قطرہ کرکے صاف و شفاف پانی جمع کرتا ہے اور اپنا چھوٹا سا حوض بھر تا ہے۔ اس قطرے کو معمولی کبھی مت سمجھنا کیونکہ یہ خون کی کئی بوندوں کو بہانے کے بعد حاصل ہوتا ہے۔ پھر ایک وقت آتا ہے کہ شفاف،موتیوں کی طرح چمکتے، ان قطروں سے وہ حوض بھرنے لگتا ہے۔ حوض کا پانی اتنا صاف ہوتا ہے کہ اس کے آر پار سب دیکھا جا سکتا ہے اور ذائقے میں اتنا میٹھا کہ دنیا کا کوئی ذائقہ اس کا نعم البدل نہیں ہوتا۔’‘

    اب تم خود ہی سوچو بھائی ساری زندگی کی محنت، مشقت کے بعد جب میرا حوض بھر گیا ہے تو میں دنیا کے تھوڑے سے نفع کے لئے، اس میں حرام کے گندھے نالے کا پانی شامل کر دوں تو مجھ سے بڑا بےوقوف اور بد قسمت کون ہوگا؟

    بھائی سب اپنے اپنے قیمتی اثاتے کی حفاظت خود سے بھی بڑھ کر کرتے ہیں اور میرے لئے بھی میرا رزق حلال کمانا ایسا ہی قیمتی اثاثہ ہے۔’‘

    اللہ رکھا کی ایسی باتیں سب کی سمجھ میں کہاں آتی تھیں اس لئے وہ اسے پاگل، احمق کہہ کر اپنے دل کی بھڑاس نکال کر اپنی راہ لیتے تھے۔

    ''جمالے کی ماں! یہ برف الگ سے رکھ دینا۔ کچھ دیر میں پچھلے پلاٹ والی جھگیوں سے بچے برف لینے آئیں گے تو انھیں دے دینا۔ کسی کام کے سلسلے میں مجھے آج قصبے سے باہر جانا ہے۔ واپسی میں دیر ہو جائےگی۔

    اللہ رکھا نے دوپہر کا کھانا کھاتے ہوئے کہا تھا۔ اس کی بات سن کر جمالے کی ماں ناگواری سے منہ بنا کر بولی تھی۔

    ''ہم کون سے رئیس ہیں جو ایسی فیاضی کا مظاہرہ کریں۔ ہمارا اپنا گزارا بہ مشکل ہوتا ہے، اوپر سے ایسے چو نچلے!''

    ''آللہ کی بندی ایسی نہ شکری کی باتیں نہیں کرتے! یہ توفیق کی بات پوتی ہے، پیسے کے کم یا زیادہ ہونے کی نہیں! اللہ کا بہت کرم ہے، بہت سے لوگوں سے بہتر زندگی گزار رہے ہیں۔ وہ بیچارے ہر طرح کی سہولت سے محروم، کھلے میدان میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ چھوٹے چھوٹے معصوم بچے، ٹھنڈا پانی پی کر ہمیں دعا ہی دیں گے۔ میں چلتا ہوں۔ اگر وہ بچے نہ آئیں تو جمالے سے کہنا، دے آئے گا مگر بھولنا مت۔

    اللہ رکھا یہ کہہ کر چلا گیا تو جمالے کی ماں نے بڑ بڑاتے ہوئے، کھانے کے برتن سمیٹے شروع کئے۔ ایسا نہیں تھا کہ جمالے کی ماں خدمت خلق میں حصہ نہیں لیتی تھی وہ بھی بہت سی ایسی ایسی نیکیاں کر جاتی تھی کہ لوگ حیرت سے دنگ رہ جاتے تھے اور تعویف و تحسین کے ٹوکرے برسانے لگتے تھے!

    اور یہ ہی تو جمالے کی ماں چاہتی تھی کہ لوگ اس کی تعریف کریں، جمالے کی ماں کی خواہش تھی کہ اس کی گئی نیکیوں کا چرچا ہو۔ وہ سوچتی تھی کہ بھلا وہ نیکی بھی کوئی نیکی ہوئی، جس کا گواہ اللہ کے سوا کوئی اور نہ ہو۔ اب اللہ میاں سے کیا پردہ ہے وہ تو سب ہی جانتے ہیں۔ مسئلہ تو ان لوگوں کا ہوتا ہے جو ان نیکیوں سے بےخبر رہتے ہیں اور اس کے خیال میں، لوگ ایسے معاملوں میں بے خبر ہرگز اچھے نہیں لگتے ہیں۔

    ''اماں میں کرکٹ کھیلنے جا رہا ہوں۔ ابانے کہا تھا کہ یاد سے، برف جھگیوں تک پہنچا دوں۔ جلدی سے شاپر میں ڈال دیں۔ مجھے دیر ہو رہی ہے۔''

    اسی وقت جمال عرف جمالے نے ماں کے پاس آکر کہا تھا۔ نہ چاہتے ہوئے بھی پروین نے نے برف شاپر میں ڈال کر اسے تھما دی تھی مگر وہ اس میں سے کچھ برف رکھنا نہیں بھولی تھی۔ بس کسئ طرح ہی سہی مگر اپنے نفس کی تسکین بھی تو کرنی تھی۔ اس طرح بہت سے دن گزر گئے۔ جمالے کی ماں، بچوں کے لئے رکھی برف میں سے اکثر نکال لیتی تھی۔ ایک ایسا ہی گرم ترین دن تھا جب ٹھنڈے کمرے کے پرسکون ماحول میں آرام کرتی، جمالے کی ماں مسلسل ہونے والی دستک پر غصے سے بڑبڑاتی اپنے بستر سے اٹھی تھی۔ جب تک وہ اپنے کمرے سے جمائی لیتئ باہر نکلی، جمال بیرونی دروازہ کھول چکا تھا۔

    ''کون ہے جمالے؟''

    ''اماں۔ بچے برف لینے آئے ہیں۔ آپ آرام کریں میں دے دیتا ہوں۔’‘ جمال نے کہا اور دروازہ کھلا چھوڑ کر اندر کی طرف چلا گیا۔

    ''بھلا یہ بھی کوئی وقت ہے برف مانگے کا؟ ان لوگوں کا تو کام ہی یہ ہوتا ہے گھر گھر جا کر ما نگنا، تیرے باپ نے بھی ہر کسی کو سر چڑھایا پوا ہے۔ کسی کے آرام کا کوئی خیال ہی نہیں ہے۔ بڑی مشکل سے نیند آئی تھی اس منحوس دستک کی آواز سے آنکھ کھل گئی۔’‘ جمالے کی ماں کا پارہ چڑھ چکا تھا اور وہ اونچا اونچا بول رہی تھی۔

    ''اوہو اماں، اب بس بھی کریں۔۔۔! آپ کے غصے کی وجہ سے دونوں بچے ڈر کر چلے گئے ہیں۔ اب مجھے خود ان کے گھر جانا پڑےگا۔ اتنی شدید گرمی میں۔ نہیں تو ابا ناراض ہوں گے۔’‘

    جمال نے دروازہ بند کرتے ہوئے جھنجھلا کر کہا تھا۔

    ''کوئی ضرورت نہیں ہے کہیں بھی جانے کی! ابا کی ناراضگی کا احساس ہے یہ مت بھول جنت ماں کے قدموں تلے ہے۔ ماں کی نافرمانی کرنے والے سے رب بھی راضی نہیں ہوتا ہے۔ چل آکر میرے پیر دبا۔ بہت درد ہے!’‘

    جمالے کی ماں نے بیٹے کو گھیرتے ہوئے کہا تھا۔ جمال بڑبڑاتا ہوا ’‘ابھی آیا اماں’‘ کہہ کر رہ گیا۔ وہ جانتا تھا کہ اماں کتنی ضدی ہیں اگر ایک بار وہ کسی کام سے منع کر دیتی ہیں تو پھر مشکل سے ہی مانتی ہیں۔ رات ڈھلے جب اللہ رکھا گھر آیا تو بہت تھکا ہوا تھا۔ کھانا کھاتے ہی سونے کے لئے لیٹ گیا تھا اور جلد ہی اس کی آنکھ لگ گئی۔ جمالے کی ماں نے بھی سکون کا سانس لیا کہ اللہ رکھا نے جھگیوں میں رہنے والے بچوں کے بارے میں کوئی استفسار نہیں کیا تھا۔ اپنی کامیابی پر خوش ہوتی وہ بھی گہری نیند کی وادی میں اتر گئی تھی۔ رات کا آخری پہر، اس کو جسم کے بندھن سے آزاد کراتا ہوا، اس کی روح کو ہوا میں اڑاتا، اسی بڑے، لوگوں سے بھرے میدان میں لے گیا تھا۔ وہ دن جس کا وعدہ کیا گیا ہے۔ جہاں اس کا نام پکارا جا رہا تھا۔ وہ گھبراتے ہوئے، اپنے خشک ہوتے ہونٹوں پر زبان پھیرتے اپنی جگہ سے اٹھ کھڑی ہوئی۔ اس کے سامنے دور بہت لمبے قد کے سفید گاؤں پہنے، ہاتھ میں فائل پکڑے، دو لوگ کھڑے ہوئے تھے۔ اس کے نام کی مکمل تصدیق کرنے کے بعد وہ اونچی آواز میں ایک دوسرے سے باتیں کرنے لگے۔ آس پاس کھڑے لوگ ان کی طرف متوجہ ہو چکے تھے۔

    ''چالیس سالہ زندگی میں، دو عمرے،ایک حج، نماز، روزے کی پابندی، نفلی عبادات بےحساب اور۔۔۔’‘ وہ تیزی سے صفحے پلٹتے کہہ رہے تھے۔ لوگ رشک بھری نگاہوں سے اس کی طرف دیکھ ریے تھے کچھ لوگ اس کی طرف اشارے کر کے اس کی خوش قسمتی پر رشک کر رہے تھے۔ پروین عرف جمالے کی ماں نے فخر سے اپنے آس پاس کھڑے، رشک بھری نظروں سے اسے دیکھتے لوگوں پر ایک نظر ڈالی اور پورے یقین سے قدم اس راستے کی طرف اٹھانے لگی جو نیکوں کاروں کا تھا، چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی، ابھی وہ کچھ دور ہی گئی تھی جب ایک غیب سے ایک آواز گونجی تھی سب کے دل دہشت سے لرز اٹھے تھے۔ پروین کے قدم بھی تھم گئے۔

    ''سب نیکیاں دنیا کے دیکھاوے کے لئے کی تھی ! خالص کیا تھا؟ جب خالص عمل ہی نہیں کیا تو اس کا حاصل کیسے خالص ہو سکتا ہے۔ جو چیز اپنے لئے پسند کی تھی وہ ہی آج ملےگی !’‘ آواز کی گونج ختم ہوئی تو پروین نے حیرت سے مٹر کر پیچھے کی طرف دیکھا تھا۔ فائل ہاتھ میں پکڑے شخص نے دو سری سمت کی طرف اشارہ کیا تھا اور آگے بڑھ گیا تھا۔

    ''مگر وہ راستہ تو۔۔۔!’‘ لوگ حیرت سے بلند آواز میں باتیں کر رہے تھے۔ ابھی کچھ دیر پہلے سب اسے رشک بھری نگاہوں سے دیکھ رہے تھے اور کچھ لمحوں کے بعد ہی، سب بدل گیا تھا۔ اب سب اس کی قسمت پر افسوس کر رہے تھے۔

    ''میں نہیں جاوں گی اس طرف۔ وہ ظالموں کا راستہ یے۔’‘ جمالے کی ماں نے چیختے ہوئے کہا تھا۔ کالے کپڑوں میں ملبوس خوفناک شکلوں والے دو لوگ آگے بڑھے اور اسے کھینچتے ہوئے لے جانے لگے۔ پروین نے بہت مزاحمت کی،منتیں کیں مگر وہ کچھ بھی نہیں سن رہے تھے۔

    ''یہ رہا تمہارا ٹھکانہ۔۔۔!’‘ بڑے سے دروازے کے سامنے کھڑے ہو کر کوئی بولا تھا اور دروازہ کھول دیا تھا۔ سرد ترین، روح کو جامد کرتی ہوا نے اس کا استقبال کیا۔ تو اس کی کپکپی بندھ گئی۔

    ''مجھے بہت سردئ لگتی ہے!’‘ اس نے آخری کوشش کے طور پر رحم کی بھیک مانگی تھی مگر ان نے کچھ بھی سنے بغیر اسے اندر دھکا دے دیا۔ اندر آکر وہ کانپ کر رہ گئی۔ ہر طرف برف ہی برف تھی اور روح کو چیرتی، ٹھنڈک۔۔۔! اس کا کھانا، اس اک پینا، اس کا اوڑھنا، بچھونا سب برف ہی تھا اور یہ ہی اس کا اپنا انتخاب تھا۔۔۔! برف کی باریک زنجیروں کو تیزی سے اپنی طرف بڑھتے دیکھ کر اس نے بھاگنے کی کوشش کی مگر آج کا دن پکڑ کا تھا۔ وہ بھی ان زنجیروں میں جکڑی گئی تھی اور خوف سے چیخ رہی تھی۔ مگر یہ صرف ایک جھلک تھی۔ اسی وقت اس کے وجود کو،روح واپس لوٹا دی گئی تھی۔

    قریب کی مسجد سے ازان کی آواز آئی تو جمالے کی ماں خوف سے کانپتی اٹھ کر بیٹھ گئی۔ کافی دیر اسی حالت میں بیٹھی۔ اپنے خواب کے بارے میں سوچتی رہی۔ اگر یہ خواب تھا تو وہ ابھی بھی کیوں برف کی ٹھنڈک کو اپنی رگ وپے میں گردش کرتا ہوا محسوس کرکے کانپ رہی تھی؟ ایسے جیسے وہ کسی سرد ترین علاقے میں ہو! جیسے ابھی بھی وہ ان دیکھی باریک، برف کی زنجیروں جکڑی ہوئی ہو۔۔۔!

    جب اس کے حواس بحال ہوئے تو وہ فورا اپنی جگہ سے اٹھی اور کمرے سے باہر نکل آئی۔ صحن کے کونے مییں لگے نلکے سے اللہ رکھا وضو کرکے فارغ ہوا تو اس کا اڑا ہوا رنگ دیکھ کر چونک پڑا۔

    ''جمالے کی ماں۔۔۔ کیا ہوا؟ کوئی برا خواب دیکھ لیا ہے؟ اس نے نرمی سے پوچھا تھا۔

    ''خواب نہیں وہ میرا سچ تھا۔ میں چادر لے کر آتی ہوں۔ پھر برف دینے چلتے ہیں۔ کل سے ٹھنڈا پانی نہیں پیا ہوگا بچوں نے۔’‘

    ''اتنی صبح! میں نماز پڑھ کر خود دے آؤں گا۔ بچے ہیں بھول گئے ہوں گے برف لے جانا، میری غلطی تھی، مجھے کل آتے ہی پوچھنا چائیے تھا۔۔۔!’‘ اللہ رکھا نے افسوس بھرے لہجے میں خود سےکہا تھا ''نہیں جمالے کے ابا! میں ابھی آپ کے ساتھ جاؤں گی! پہلے ان کا حق ادا کر دوں پھر آکر نماز پڑھوں گی!’‘

    اللہ رکھا نے حیرت سے اس کے سفید پڑتے چہرے کی طرف دیکھا تھا۔ اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔ اس وقت پروین کے چہرے کو دیکھتے ہوئے اسے ایسا لگا تھا جیسے وہ بھی برف کی ایک سل ہے۔ سفید پڑتا چہرہ اور اس پر ٹھہرے آنسو، پانی کے قطرے لگ رہے تھے! برف کی شکل میں ڈھلی وہ بہت عجیب لگ رہی تھی مگر نہیں وہ برف کی طرح سرد نہیں تھی اس میں ابھی زندگی کی گرمی باقی تھی۔ اللہ رکھا نے اسے اپنے پیچھے آنے کا اشارہ کیا اور گھر سے باہر نکل گیا اس کے پیچھے تیز تیز قدم اٹھاتی، چادر سے بار بار اپنا آنسوؤں سے بھیگا چہرہ صاف کرتی جمالے کی ماں سوچ رہی تھی کہ ''مردہ جسموں کو سردخانے میں تو رکھتے دیکھا اور سنا ہے مگر مرنے کے بعد اگر روح کو بھی برف کی قید کی سزا مل جائے تو اس سے بڑی بدقسمتی اور سختی کیا ہوگی اور مجھے برف کی قید سے بہت ڈر لگتا ہے!’‘

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے