Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

بےغیرت

فرحین جمال

بےغیرت

فرحین جمال

MORE BYفرحین جمال

    صبح کی سپیدی مشرق سے آہستہ آہستہ نمودار ہو رہی تھی۔ پرندوں کے چہچنے کی آوازیں خاموشی کو چاک کرتی سماعت کے پردوں سے ٹکرا رہی تھیں۔۔۔ ساجدہ نے کسلمندی سے ایک پھر پور انگڑائی لی۔۔۔ اور نیند سے مخمور آنکھیں زبردستی کھول کر اٹھ بیٹھی۔ جوانی کی نیند بھی غصب کی ہوتی ہے۔۔۔ آنکھوں کو ملتی، بستر سے اتری۔۔۔ ٹٹول کر چپل پہنی۔۔۔ اور صحن میں لگے نل کی طرف چل پڑی۔۔۔ ماں کو دیکھ کر پیشانی پر ناگواری سے بل پڑ گئے۔۔۔ پر منہ سے کچھ نا بولی۔۔۔ 'اٹھ گئی تو جنم جلی؟؟۔۔۔ آوازیں دے دے کر تھک گئی تھی۔۔۔ پر تیرے کان پر جوں نہیں رینگتی۔۔۔ کیا روئی دے کر سوتی ہے کلموئی۔۔۔؟؟ پر ساجدہ نے سویرے سویرے ماں کی جلی کٹی باتوں پر کان نہیں دھرا اور منہ دھونے کے لئے صابن اٹھا کر منہ پر پانی کے چھینٹے مارنے لگی۔۔جتنا بھی رگڑ لے صابن منہ پر۔۔۔ جیٹی نہیں ہونی لگی تو ۔۔۔ اس بات پر ساجدہ کے اندر غصے سے ابال سا اٹھا۔۔۔ اور چاہتی تھی کہ ماں کو کوئی سخت جواب دے۔۔۔ مگر سر جھٹک کر 'ہونہہ ہی کہہ پائی۔

    ساجدہ کی شکل اس کے باپ شیدے سے بہت ملتی تھی جس کے ساتھ ریشماں سترہ سال کی عمر میں ہئروئین بننے کے شوق میں گاؤں سے بھاگ کر شہر آ گئی تھی۔ شیدا فلموں میں ایکسٹرا سپلائر تھااس نے ریشماں کو جو سبز باغ دکھائے تھے وہ سب شہر میں آکر اس کی مکار ہنسی مین تحلیل ہو گئے۔ جب ریشماں کو شید ے کے اندروں شہر چھوٹے سے دو کمروں کے بوسیدہ گھر میں رہنا پڑا تو وہ دھیرے دھیرے اس کی اوقات سے واقف ہو گئی۔ مگر واپسی کا راستہ بند ہو چکا تھا۔ فلم کا شوق بھی سر چڑھا ہوا تھا۔ اس لئے شیدے سے کچھ نہ کہا۔ ادھر شیدا بھی کائیاں آدمی تھا ۔ایکسٹرا سپلائر کی آڑمیں وہ ہدایتکاروں اور پروڈیوسروں کی راتیں بھی سجاتا تھا۔ اس لئے اس نے چکنی چپڑی باتوں سے اسے شیشے میں باآسانی اتار لیا ۔جس رات وہ اپنا کنوارپن لٹا کر گھر پہنچی تو اس کے دل میں احساس گناہ کے بجائے اس امید کی شمع روشن تھی کہ بس چند دنوں میں وہ فلم میں ہیروئن کاسٹ کر لی جائےگی۔۔۔ مگر وہ چند دن کبھی ٰختم نہ ہوئے ۔وہ بکتی رہی۔ ایکسٹرا کے طور پر اور کبھی ایکسٹرا ٹائم میں۔ ایک دن جب اس نے تنگ آکر سخت لہجے میں شیدے سے تاخیر کا سبب دریافت کیا تو اس نے کہا۔ ہیروئن بننے کے لیے پہلے پروڈکشن ہاؤس والوں کو پیسہ دینا پڑتا ہے۔ ہدایتکار کی باری تو بعد میں آتی ہے۔ اسی غرض سے ریشماں نے رات کے بیوپار کو دگنا کر دیا اور پیسے جوڑنا شروع کر دیئے۔ لیکن ایک رات جب وہ مجرا کر کے لوٹی تو شیدا اس کی ساری جمع پونچی لے کر رفو ہو چکا تھا۔ صبح اٹھی۔۔۔ پیسے کو تو وہ رو پیٹ کر خاموش ہو گئی۔ مگر وہ کمبخت جاتے جاتے جو اس کی کوکھ میں اپنی نشانی چھوڑ گیا تھا۔ اپنے پیٹ کا دوزخ بھرنا محال تھا اور پھر یہ نومولد ساجدہ۔ اب اس کے لئے دوبارہ اپنی جگہ بنانے میں بہت مشکل پیش آر ہی تھی۔۔۔ ریشماں گھر سے بھاگنے والی ایک بدکار لڑکی، فلم میں تیسرے درجے کی ایکسٹرا، پھر طوائف۔۔۔ اور پھر شیدے کی 'ناجائز' بیٹی کی ماں۔۔۔ یہ طویل سفر اس نے صرف چار سال میں طے کر لیا تھا۔ اس کی خوبصورتی ماند پڑتی جارہی تھی، آنکھوں کے گرد رتجگوں کی وجہ سے حلقے پڑ چکے تھے، جسم ڈھلک چکا تھا اور سب سے بھدے تو اس کے تیور تھے، جو نہ تو کسی گاہک کو پسند آتے نہ ہی اس کے آس پاس رہنے والوں کو۔

    اب بھی اسے لگتا تھا کہ کسی نہ کسی دن وہ فلم کی ہیروئن بننے میں کامیاب ہو جائےگی۔ زندگی جیسے تیسے اپنی ڈگر پر چل پڑی تھی اس نے رات کے بیوپاریوں کے ساتھ مل کر جسم کا دھندہ شروع کر دیا۔ اس کام کے لئے فلم انڈسٹری میں خام مال کی دستیابی کوئی مسلہ نہیں تھی۔ تھی تو وہ ایک ماں ہی۔۔۔ لیکن دھیرے دھیرے حالات اور روزگار کی سختیوں نے اس کے سینے میں ممتا کی بجائے ایک کڑواہٹ کو جگہ دے دی تھی۔ یہ وہ کڑواہٹ تھی، وہ نفرت تھی جو سماج کی ٹھوکروں کا نتیجہ تھی۔۔۔ ممتا جیسے جذبے پر وہ غبار تھا۔ وہ گرد تھی جو اکثر مفلسی کے تابوت میں گھٹ کر آ جایا کرتی ہے۔۔۔ فرق تو یہ تھا، کہ وہ اس گھٹن کا شکار مسلسل رہی اور اس کے رویے کو پختہ کر گئی۔۔۔ اس کی ممتا کہیں گھٹ کر دم توڑ چکی تھی۔۔۔اور ایک زمانہ ساز طوائف نے اس کی جگہ لے لی تھی۔۔۔ ریشماں کے لئے ساجدہ کا وجود ایک ناگوار پوجھ ہی سہی۔۔۔ مگر اس نے اپنی بیٹی پر دو احسان ضرور کئے تھے۔۔۔ ایک تعلیم پر بندش نا لگائی۔ دوسرے دھندے میں نا لے کر آئی۔ اس میں جہاں تھوڑا اس کی ممتا کا دخل تھا تو کہیں یہ خیال بھی کار فرما رہا کہ ساجدہ معمولی شکل وصورت رکھتی تھی۔، مگر اتنی بھی نہیں۔ مناسب نین نقش، سانولا رنگ اور قد بھی بہتر ہی تھا۔ مگر۔۔۔ ریشماں کی نظر میں خوبصورتی کا معیار کچھ اور تھا۔

    وقت گزرتا گیا وہ بچپن سے جوانی تک آتے آتے اپنی ماں کے سارے لچھن سمجھ چکی تھی۔ ساجدہ اپنی ماں کے لہجے میں کڑواہٹ دیکھ کر اکثر سوچتی کہ یہ ’‘کیسی ماں ہے۔۔۔ میری نا کوئی فکر ہے۔۔۔ نا پرواہ۔۔۔ آج تک کبھی کوئی پیار کا بول نہیں سنا اس کے منہ سے۔۔۔ اپنے بناؤ سنگھار میں مگن۔۔۔ بالکل آس پاس سے بےخبر۔۔۔ اس کے دل میں اکثر خیال آتا کہ شاید جو طوائفیں ماں بن جاتی ہیں وہ ایسی ہی ہوتی ہیں۔۔۔ بےحس۔۔۔ کڑوی اور زر کی غلام۔۔۔ اس کا جی چاہتا کہ اس زندگی سے کہیں دور چلی جائے۔۔۔ بہت دور۔۔۔ وہ نہ تو طوائف تھی، نہ ہی بن کر رہنا چاہتی تھی۔ اسے ایک گھر چاہیئے تھا۔ ایک شوہر۔۔۔ اور بچے۔۔۔۔ ایک مکمل گھر۔‘‘

    جب اس نے ایک بار ماں سے اپنی شادی کے بارے میں دبے دبے لفظوں میں کہا تھا تو اس نے کیسے لتاڑ دیا ’‘شادی’‘ اور تیری؟؟ اس کے لہجے میں ایک حقارت تھی’‘ کون کرےگا تجھ سے شادی؟؟؟ ’‘ریشماں نے بیٹی کے سراپے پر ایک ناقدانہ نظر ڈال کر ہونٹوں کو سکیڑا۔۔'' نہ صورت نہ شکل ’‘تیری جیسوں کی شادیاں نہیں ہوتیں‘'۔۔!! تو کان کھول کر سن!! کسی شریف زادے کو کیا پڑی ہے کہ ادھر آکر نام اور عزت کو بٹا لگاے اور تجھ سے شادی کرے، بتا مجھے!! ریشماں ناک سکیڑ کر یہ سب کہہ گئی اور ساجدہ خاموشی سے سنتی چلی گئی۔۔۔ وہ کہتی بھی تو کیا۔۔۔؟ اس کی زبان جیسے کنگ ہو کر رہی گئی تھی۔۔۔ مگر آنکھیں تھیں کہ جل تھل کرتی جاتی تھیں۔۔۔ اور نمکین پانی کی زبان میں اپنی بات اس کے چہرے پر لکھتی رہتیں وہ دلگرفتہ ساتھ والے کمرے کی کھڑکی سے دائین کاندھے کے سہارے ٹیک لگائے، معملولی سی دڑار میں سے گلی کے آتے جاتے لوگوں کو خالی خالی نظروں سے دیکھتی رہتی۔ ایک دن اچانک اس کی خالی نظروں میں باہر کی ہوا کا ایک جھونکا تازہ احساس بھر گیا۔۔۔ وہ احساس جو جوانی کی ضرورت ہوا کرتا ہے، جو اکیلے پن کی تڑپ کو اور شدت بخشتا ہے۔۔۔ وہی احساس۔۔۔ اس کے لیے یہ احساس ایک بہار کی مانند تھا۔ وہ نہیں جانتی تھی کہ اس کی زندگی کی پہلی بہار کچھ ہی روز پہلے اس کے گلی کی نکڑ پر انور کی شکل میں آکر بسنے لگی تھی۔۔۔ ایک سرشاری کی دھیمی دھیمی بارش اس کے پور پور کو اپنی پھوار سے بھگو رہی تھی۔۔۔ اسی احساس کے تابع جب جسم پگلنے لگتے ہیں تو اپنے گھر سے محبوب کے گھر تک کے راستے نکل ہی آتے ہیں۔۔۔ یہ احساس بارشوں کا خیال نہیں کرتے، آندھیوں میں نظر نہیں دھندھلاتے، گرج سے سہم نہیں جاتے۔۔۔ پانیوں میں ڈوب نہیں جاتے۔۔۔ بس ان کی منزل تک کے راستے ان کے قدم بھانپ جاتے ہیں۔۔۔ اور اس ڈگر پر چلتے یی چلے جاتے ہیں۔

    اس نکڑ والے مکان میں جو نیا کرایہ دار آیا تھا، انور اچھا اونچا لمبا ،کسرتی بدن کا مالک عمر بھی بچیس۔۔۔ تیس کے درمیان رہی ہوگی، ہر وقت تہبند اور بنیان میں کھڑکی میں لٹکا رہتا اور ہر آتی جاتی عورت کو تاڑتا آوازیں کستا۔۔۔ تھا تو اتنہائی کمینہ۔۔۔!! مگر ساجدہ کو اس کی بولتی ہوئی بڑی بڑی آنکھیں، دل میں اترتی ہوئی محسوس ہوتیں اور وہ سر جھکا کر، اس کے سامنے سے روز گزر جاتی۔

    ایک دن جب وہ اپنی ہمسائی سے مل کر گھر واپس آئی تو انور کو گھر میں ماں سے باتیں کرتے دیکھا۔۔۔ وہ محلے میں نیا نیا آیا تھا اسلئے سب سے دعا۔ سلام رکھتا تھا۔۔۔ اس میں ضرور کوئی ایسی بات تھی کہ وہ اس کی طرف جھکتی ہی جا رہی تھی، معلوم نہیں یہ کیسا احساس تھا۔۔۔؟؟ یا پھر اس کی اپنی محرومی کہ وہ انور کی طرف مائل ہو گئی تھی۔۔۔ بہانے بہانے اس کی گھر کے چکر لگانے لگی۔۔۔ کبھی کچھ پکا کر لے جاتی کہ ماں نے بھیجا ہے بس یوں ہی دونو ں کی ملاقاتیں بڑھتی گیں۔۔۔ اکثر شامیں اس کے گھر پر گزرنے لگیں۔۔۔ وہ اکیلا رہتا تھا اسلئے اس کے گھر کے چھوٹے موٹے کام ساجدہ ہی کرنے لگی تھی انور کے کام کرنے اسے بہت پسند تھے ۔ اس کی قمیضوں کو بہت پیار سے گال سے لگاکر اس کی خوشبو کو سونگھتی، گھنٹوں اس کی چیزوں کو سمیٹ سمیٹ کر رکھتی۔ وہ جب گھر نا ہوتا تو اس کے بستر پر لیٹ کر پہروں سہانے سپنے دیکھتی۔ آیئنے میں اپنا سراپا دیکھتی تو اس سے انور کی شکایتیں کرتی، وہ جو برسوں سے ترسی ہوئی تھی محبت کو، انور کا پیار پانے کے لئے ہزاروں جتن کرتی۔

    مگر انور کا رویہ اس کے ساتھ عجیب سا تھا۔ اسے ساجدہ کا ساتھ تو چاہیئے تھا مگر وہ کوئی ذمہ داریاں پوری کرنے کی یقین دہانی یا عہدو پیمان کرنے کو بالکل بھی تیار نہیں تھا۔ اور یہ بات ساجدہ کو بہت کھلتی تھی۔ اکثر اس بات پر ان کی 'ان بن' ہو جاتی اور وہ کئی دن اس کے گھر نہ جاتی۔ پھر خود ہی کسی دن وہ راستے میں آن کھڑا ہوتا اور کہتا ’‘میرا گھر بہت گندہ ہو رہا ہے آج شام آکر صاف کر دینا’‘۔ اس کے لہجے میں رعونت ہوتی جیسے کوئی احسان کر رہا ہو، پر ساجدہ کو وہ بھی اپنائیت ہی لگتی۔ آج بھی جب وہ آئی تو کپڑے بکھرے پڑے تھے۔ اس نے کوئی تین چار گھنٹے لگا کر سب کو قرینے سے رکھا، جھاڑو لگائی اور چاے بنا کر انور کے لئے صحن میں آ گئی۔۔۔ ساجدہ کے دل میں یہ حسرت ہی رہتی کہ وہ اس کی تعریف کرے۔ چاے کی پیالی دیتے ہوے اس نے انور سے شکوہ کیا تو وہ ہتھے سے ہی اکھڑ گیا۔ نا تو میں تیرے قدموں میں بیٹھ جاؤ ں’‘۔ تو جو یہ سب کرتی ہے اپنی مرضی سے کرتی ہے’‘میں نے تجھے کبھی مجبور نہیں کیا ہاں’‘ انور کا لہجہ تلخ ہو گیا۔ لیکن۔۔۔لیکن میں تو تیری محبت میں‘' ساجدہ نے تمہید باندھنی چاہی۔ ’’محبت’‘ دوں گا نا ایک رکھ کے تجھے ’‘انور نے ہاتھ اٹھا کر سجدہ کو دھمکایا اور وہ سہم کر ذرا پرے ہو گئی’‘۔ کیا تجھے مجھ سے ذرا سی بھی محبت نہیں’‘ ساجدہ نے پھر پوچھا’‘، ‘‘ہو نہہ۔ تیرا میرا ایک ہی رشتہ ہے اور کام ختم ہوتے ہی تو کون میں کون!!‘‘ میری ماں نے شادی نہیں کی، تیری ماں نے نہیں کی، پھر ہم کیوں شادی کریں۔۔۔؟ ہونہہ۔۔۔ یہ کہہ کر اس نے ایک طنزیہ قہقہہ لگایا۔ اتنے خواب نہ دیکھا کر یہ کوئی محبتوں والی فلم نہیں ہے۔ سمجھی تیری میری زندگی ہے، میں تجھ سے کوئی شادی وادی نہیں کرنے والا۔ میں ایک عورت کے گھٹنے کے ساتھ جڑ کے نہیں بیٹھ سکتا,جا اب چلتی بن۔’‘ کام ختم ہو گیا تو اپنے گھر کی راہ لے۔ انورکے لہجے میں بہت کڑواہٹ تھی۔ وہ انتہائی سفاکی سے اس کے جذبات کا خون کر دیتا تھا ساجدہ افسردہ ہو گئی اور دل میں ایک چھبتی ہوئی خلش لئے لوٹ آئی اس کی آنکھیں بھیگ گئی تھیں۔ وہ اکثر سوچتی کہ اس کی زندگی ایسی کیوں ہے؟؟ وہ کیوں انور کی کڑوی باتوں کو برداشت کرتی آ رہی ہے۔

    وہ سوچتی تھی کہ یہ جو دو عورتیں ایک چھت کے نیچے رہتی ہیں۔ اس کی ماں جو اس عمر میں بھی آنکھ مٹکے سے باز نہیں آتی ,یا وہ خود جو شادی نہ ہونے کی وجہ سے ایسے مرد کے ساتھ رشتہ استوار کر بیٹھی ہے جسے اس کی کوئی پرواہ نہیں۔۔۔ اس کی حمیت اور خوداری کو جیسے دیمک چاٹ گئی تھی۔ اس کی ماں اسے کہتی ’‘یہ انور کے چکر میں نہ آ، بڑا ہی کمینہ ہے وہ، اس کی آنکھ میں تل ہے ،ایسے مرد ذلیل اور دھوکے باز ہوتے ہیں موقع ملتے ہی دھوکہ دے جاتے ہیں۔۔۔ سن ساجدہ!!!، تیری اتنی تعلیم کا کیا فائدہ تو ایک نمبر کی بیوقوف ہے،’‘ تو کیوں جانتے بوجھتے دھوکہ کھاتی ہے۔ ’‘مجھے دیکھ میں نے ایک دفعہ ہی دھوکہ کھایا تھا جو شیدے کے ساتھ گاؤں سے بھاگ آئی تھی۔ پر توبار بار مردوں سے بیوقوف بنتی ہے، دھوکہ کھاتی ہے۔’‘، اور تو انور سے کیوں ملتی ہے۔۔۔ ساجدہ نے چڑ کر ماں سے پوچھا۔۔۔ لو ۔۔۔ اور سنو۔۔۔! میں کیوں ملوں گی؟ وہ تو راستے میں آتے جاتے، سلام د عا ہو جاتی ہے۔ ریشماں نے ایک ادا سے جواب دیا اور ساجدہ جل بھن کر رہ گی۔

    کچھ دنوں سے ساجدہ دیکھ رہی تھی کہ ماں کے پاس نئے نئے زیور اور کپڑے ہوتے ھیں، آج اسنے ریشماں کے ہاتھ میں چمکتی دمکتی بالیاں دیکھیں تو حیران رہ گئی۔ ’'یہ کب خریدیں تو نے’‘ ساجدہ نے ماں سے پوچھا یہ تو میں نے اپنی پرانی بیچ کر نئی بنوائی ہیں!!’’ ہیں نا خوبصورت ۔۔!! ’’دیکھ تو ’‘ریشماں نے کہا’‘ ہاں۔۔۔!! ’’مجھے پتا ہے تیرے پاس یہ نئی نئی چیزیں کہاں سے آ رہی ہے، کل گامے کو گھر سے نکلتے دیکھا تھا میں نے’‘ تجھے کیا ہے؟؟ یہاں تو روز ہی گاہک آتے جاتے ہیں! ریشماں نے مسکراتے ہوے جواب دیا۔۔ساجدہ ماں کی بات پر دل ہی دل میں تلملا کر رہ گئی۔ کیا کرتی ، ماں بدل تو نہیں سکتی تھی۔

    وہ آج شام پھر انور کے گھر کی طرف چل پڑی تھی۔ راستہ بھر یہ ہی سوچتی رہی کہ آج انور سے شادی کی بات کرےگی اگر اب بھی انکار کیا تو زہر کھا لوں گی۔ نہیں جینا۔ مر جاؤں گی۔ محبت کرتا ہے مجھ سے۔ میرے بغیر ایک دن نہیں نکلتا اس کا۔ شادی سے کیوں گھبراتا ہے، بس اسکا اڑیل پن ہے۔اور کچھ نہیں محبت تو۔ اسے مجھ سے ہے۔

    انور صحن میں ہی بیٹھا تھا۔ ساجدہ کو دیکھ کر اس کے ھونٹوں پر ہلکی سی مسکراہٹ دوڑ گئی آ گئی تو۔۔۔ اس نے پوچھا ہاں۔۔! کیا کروں۔۔! تیرے بغیر دل نہیں لگتا میرا۔۔۔ ساجدہ نے سر جھکا دیا آج رات رکے گی یہاں۔۔۔؟؟ ہاں، اچھا چل ذرا جا کر میرا کمرہ صاف کر دے۔۔۔ بستر کی چادر بھی بدل دینا۔۔۔ وہ اٹھی اور کمرے میں گئی۔۔۔ بستر کو جھاڑتے ھوے ایک چمکتی ہوئی بالی اس کے قدموں میں آ گری۔۔۔ بالی کا ہلتا ہوا موتی ہنس ہنس کر اس کا مذاق اڑا رہا تھا۔۔۔ وہ بہت دیر خاموشی سے کھڑی اس کو دیکھتی رہی، آنکھوں سے آنسو بہتے رہے۔ اتنے میں انور کی آواز آئی۔۔۔ کہاں رہ گئی ہے؟ اس نے چونک کر باہر کی طرف دیکھا اور صحن کے دروازے سے باہر نکل گئی۔۔۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے