Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

بےزبان

رفیق حسین

بےزبان

رفیق حسین

MORE BYرفیق حسین

    کہانی کی کہانی

    ’’یہ کہانی سرکس کی ایک گھوڑی اور اس پر سوار ہونے والی نوعمر گونگی لڑکی کے آپسی رشتے اور محبت کی داستان بیان کرتی ہے۔ گھوڑی پر سوار ہونے والی لڑکی کی خوبصورتی کے قصے سن کر ایک نواب اسے خرید لیتا ہے اور گھوڑی کو اس کا مالک ایک تانگے والے کو بیچ دیتا ہے۔ پندرہ سال بعد اتفاق سے وہ لڑکی اور گھوڑی پھر ملتے ہیں اور دونوں ایک ساتھ جان دے دیتے ہیں۔‘‘

    پانچ سو روپے کے انعام کا اعلان سن کر باری باری سب ہی نے کوشش کی۔ ہندوستانی چابک سوار، کابلی پٹھان، توپ خانے کے گورے اور سپاہی ایک کے بعد ایک کتنے ہی گھوڑی پر سوار ہونے کے واسطے سرکس کے دائرے میں داخل ہوئے اور طرح طرح سے کوششیں کیں، لیکن گھوڑی پر سوار ہونا تو درکنار اس کی راس تک چھونا نصیب نہ ہوئی جو بھی آگے بڑھا دونوں کان پیچھے سکیڑ، دانت نکال ہنہنا کے گھوڑی ایسی کاٹنے کو دوڑی کہ بہت سے توجب ہی گرتے پڑتے سرکس کی دیوار پھاند باہر بھاگے اور اگر ایک آدھ ڈھیٹ بیت یا چابک گھماتا کھڑا بھی رہ گیا تو پھر گھوڑی نے گھوم گھوم کے ایسی دولتیاں چلائیں کہ آخر مجبور ہو کر اس کو بھی پشیمان اور شرمندہ باہر آنا پڑا۔

    سرکس کے منیجر نے جو نیچی سی دیوار کے باہر کھڑا تھا چاروں طرف سر گھما گھما کے تماشا دیکھنے والوں کو مخاطب کرکے پھر اعلان کیا، ’’اتنا جنٹلمین سپاہی اور جوان چاروں طرف ہے۔ کوئی اور آئے، آئے، آئے! جس کا ہمت ہو، جو کوئی اس گھوڑی پر بیٹھےگا اور چار کدم چلائےگا ،سرکس کمپنی اس کو پانچ سو روپیہ انعام دیگا۔‘‘

    چاروں طرف کوچوں، کرسیوں اور پھر چھت تک پہنچ جانے والی بنچوں پر ہزاروں آدمی بیٹھے تھے۔ سرکس کھچا کھچ بھرا ہوا تھا لیکن اب کسی کی ہمت نہ پڑتی تھی کہ کوئی آئے۔ ہر طرف سب خاموش شرمندہ سے بیٹھے تھے اور ان کے سامنے تماشے کے چھوٹے سے گول چکر کے بیچ میں چمکدار، سیاہ چکنی چپڑی، تندرست، نوجوان، پھرتیلی، چلبلی گھوڑی، گردن کو محرابی خم دیئے، ہنہناتے ہوئے سر کو جھٹکے دے دے کر اور دم کی چوری جھپکا جھپکا کر اگلے پیروں سے زمین پر ٹاپیں مار رہی تھی۔ اس کی اس حرکت میں فتح کی مسرت، حسن کا غرور اور شباب کی پھڑک عیاں تھی اور اس وقت جبکہ دنیا بھر کی نگاہیں اس سیاہ گھوڑی پر جمی ہوئی تھیں سرکس کا چور دروازہ آہستہ سے کھلا، سن سے بھاگتی ہوئی ایک لڑکی ہوا کی طرح آئی۔ بجلی کی طرح اس کا ہنٹر کوندا، گھوڑی اچھلی، پھڑکی اور بھاگی، ہنٹر کوندا اور پھر کوندا۔ گھوڑی جان توڑ، سرکس میں چکر لگانے لگی، اب سب کی نگاہیں۔۔۔ اس سفید انسانی بچھڑی پر جم گئیں۔

    بوٹا سا قد، دوہرا جسم، سیاہ بال کھال سے چمٹا ،جست سرکس کا لباس ،حسن تھا، جادو تھا، قہر تھا کہ سحر تھا۔ اس کے ہاتھ اس کے پیر، اس کا سینہ، اس کی گردن، اس کا سر، اس کی آنکھیں ہر ایک کشش دل کا مرکز تھا اور کیوں؟ اس لئے کہ وہ ایک مجسمۂ شباب تھی۔ اس کی ہر بات میں شوخی تھی۔ شرارت تھی۔ ہاتھوں میں پھڑک تھی۔ پیروں میں تھرک تھی۔ گردن میں لچک تھی، آنکھوں میں چمک تھی، دنیا اس کو تکتی تھی اور وہ بے خبر تھی، ہنٹر گھماتے گھماتے ایک دفعہ وہ لپکی۔۔۔ سپاٹے بھرتی گھوڑی پر ہاتھ لگاتے ہی بجلی کی پھرتی سے سوار ہو گئی۔ دونوں ہاتھوں سے کھلے ہوئے بالوں کو سنوارا اور پھر بھاگتی ہوئی گھوڑی کی ننگی پیٹھ پر کھڑی ہو گئی، گھوڑی نے چکر پر چکر اور تیزی سے لگانا شروع کر دیئے۔ اس وقت اس کے کھلے ہوئے سیاہ بال گلابی ربن کی بندش سے آدھے آزاد پیچھے پیچھے پھر پھراتے۔ اس کی چست پاجامہ میں ملغوف گول گول ٹانگیں۔ ہلکے ہلکے لچکتی تھیں۔ دونوں ہاتھ ہوا میں لہراتے تھے۔ سرپٹ بھاگتی ہوئی گھوڑی پر وہ ایک رقص سا کر رہی تھی، سب کی نگاہیں ادھر ہی لگی ہوئی تھیں وہاں چور دروازا آہستہ سے پھر کھل چکا تھا۔ چکر لگاتے لگاتے ایک دفعہ ادھر گھوم گھوڑی مع سوار اس کے اندر غائب ہو گئی۔ کئی سکنڈ تک تماش بین سکتے کی سی حالت میں خاموش رہے اور پھر تالیوں کے شور سے آسمان سر پر اٹھا لیا۔

    سرکس کے لکھنؤ آنے کے چند ہی دن بعد سارے شہر میں گھوڑی اور لڑکی کا شہرہ ہو گیا۔ ان دونوں کے حسن، خوبصورتی، شرارت اور شہ سواری پر طرح طرح کے اظہارِ خیال ہونے لگے اور بیسیوں روایتیں، افواہیں پھیلتی چلی گئیں۔ کسی کا خیال تھا کہ لڑکی آوارہ ہے۔ کوئی کہتا تھا کہ سرکس والوں کی سخت نگرانی کرنا اور کسی کی ہوا تک نہ لگنے دینا مصلحت سے خالی نہیں۔ بعض کا شبہ تھا کہ لڑکی اور مالک سرکس کے گہرے تعلقات ہیں اور بعض کو یقین تھا کہ لڑکی مالک کی بیٹی ہے۔ مگر اصل میں یہ سب عقلیہ گدے ہی تھے کیونکہ سرکس کے کارکنوں اور اداکاروں سے ملاکات یا واقفیت کسی کو بھی حاصل نہ تھی۔ سرکس کے چھوٹے بڑے جانور ان کے پنجرے اور کام کرنے والوں کی چھولداریاں اور سب کی چاروں طرف اونچی اونچی قناتیں کھڑی کر کے ان کو عوام کی نظروں سے پوشیدہ کر دیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ سرکس کے مالک یا منیجر کی اپنے لوگوں پر سخت ہدایت تھی کہ کسی سے نہ ملیں جلیں اور نہ باہر جائیں۔ ایسی حالت میں لکھنؤ کی مخصوص خلقت یعنی شوقین آوارہ منش اور مفلس شرفا، قناتوں کے چاروں طرف اور بھی زیادہ چکر لگانے لگے۔ کوئی قناتوں کے نیچے سے جھک کر دیکھتا تھا کوئی دروازہ میں جھانکتا تھا اور اس طرح سے اگر کسی کو ہاتھی کے پیروں، شیر کے کھرے یا ایک آدھ آدمی کی جھلک نصیب ہو جاتی تو پھر وہ طرح طرح کے چشم دید افسانے بیان کرتا تھا۔ ان باتوں کا آخر نتیجہ یہ ہوا کہ یہ شہرت نواب محمود علی خان تعلقہ دارڈلیاباد تک پہنچی اور ایک دن وہ خود ہی سرکس کا تماشہ دیکھنے آئے جہاں ان کے واسطے نشستیں محصوص کرکے آراستہ کر دی گئی تھیں۔

    نواب نے سب کرتب حیرت سے دیکھے اور پسند کئے لیکن سب سے زیادہ اس لڑکی اور گھوڑی کا کھیل پسند کیا۔ تماشا ختم ہونے پر انھوں نے منیجر سرکس کو اپنی نشست پر طلب کیا اور بڑی دیر تک ان کے سرکس کی تعریفیں کیں۔ خاص کر اس لڑکی کی، یہاں تک کہ انھوں نے انعام دینے کے واسطے لڑکی کو بھی اپنے پاس بلانا چاہا مگر جب منیجر سے یہ معلوم ہوا کہ لڑکی کا تماشہ کرنے کے علاوہ باہر آنا ممکن نہیں ہے تو منیجر کے لئے اپنی رسٹواچ اور پچاس روپیہ لڑکی کے واسطے انعام بھیجوا دیئے۔ نہ صرف یہی بلکہ دوسرے روز پھر تماشے میں بہت پہلے سے آ گئے۔ منیجر کو بلوایا، دنیا بھر کی باتیں اور ہر پھر کے لڑکی کے متعلق اور گھوڑی کی باتیں کرتے رہے لیکن اس وقت منیجر اپنا زیادہ وقت نواب صاحب کو نہ دے سکا۔ اسے تماشے کی جلدی تھی۔ اس لئے چلا گیا۔

    تماشا ختم ہونے پر وہ خود ہی پھر آ گیا نواب صاحب نے سَو سَو کے پانچ نوٹ سرکس کو انعام میں دیے، بڑی دیر تک باتیں کیں اتنی کہ رات گئے واپس ہوئے۔

    دوسرے دن نواب صاحب نے منیجر کو اپنے محل پر صبح کھانے پر دعوت دی۔ نواب صاحب کی اس خاص توجہ اور مہربانی کا مطلب منیجر سرکس بھی پوری طرح سمجھ گیا تھا۔ سوسے اوپر محل، پیسنٹھ برس کی عمر، نواب صاحب کی دولت اور اس کے استعمال سے کون ایسا تھا جو واقف نہ تھا۔ جہاں دیدہ جہاں گشت منیجر نے بھی سمجھ لیا تھا کہ یہی موقعہ ہے جو کچھ بھی کمایا جا سکے لیا جائے۔ اس لئے اس نے بڑی تدبیر اور دور اندیشی سے کام لیا۔

    کھانے کے بعد جب اصل معاملے کی باتیں شروع ہوئیں تو اس نے پہلے تو بڑی ہی پریشانی اور گھبراہٹ ظاہر کی۔ اس معاملہ میں کچھ سننا ہی نہ چاہتا تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ لڑکی کا باپ اور بڑا بھائی دونوں ساتھ ہیں۔ سخت نگرانی کی جاتی ہے کچھ کیا ہی نہیں جا سکتا۔ لیکن پھر بعد میں جب اس کو بہت کچھ لالچ دیا گیا تو بہت ہچکچاہٹ کے بعد ایک تجویز اس طرح پیش کی۔۔۔

    ’’نواب صاحب آپ کے اخلاق اور مہربانی نے مجھ کو مجبور کر دیا۔ لیکن حضور دیکھیں کہ میں کس قدر خطرناک کام کرنے پر آمادہ ہو گیا ہوں۔ اگر کچھ بھی گڑبڑ ہو گئی تو دس بارہ برس جیل میں چکی پیسنا پڑےگی۔ بہر حال اب جو کچھ بھی ہو آپ کا کام تو پورا ہی کروں گا۔ کل اتوار کا تماشہ ختم کر کے ہم لوگ پرسوں یہاں سے کانپور جانے والے ہیں، آپ پیر کی صبح کو اپنا موٹر خود ہی لیکر ہم لوگوں کی قناتوں کے گرد دروازے پر آئیں اور انتظار کریں۔ لڑکی کی طبیعت کچھ خراب رہتی ہے میں اس سے کہوں گا کہ ڈاکٹر کے پاس جانے واسطے موٹر ہے اور اس دھوکے سے لاکر اس میں سوار کروں گا اس کو شبہ بھی نہ ہوگا کہ کیا ہو رہا ہے۔ آپ اس سے کوئی بات نہ کریں خاموشی سے بٹھائے لئے چلے جائیں۔ محل میں جاکر پھر جو کچھ بھی ہو سکے ذمہ دار آپ ہیں۔ جو کچھ بھی انتظام کرنا ہو کر لیں۔ رہا میرا اور میرے آدمیوں کا معاملہ تو اب جو بھی قسمت میں بدا ہو۔ لڑکی کے غائب ہوتے ہی اس کے باپ اور بھائی میری بوٹیاں نوچ ڈالیں گے۔ نہ معلوم کن کن مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑے۔ تاہم اتنا تو مجھے ضرور ہی کرنا ہوگا کہ لڑکی کے چلے جانے کے بعد پولیس میں باقاعدہ اطلاع کروں گا۔ ورنہ میں کسی طرح نہیں بچ سکتا۔ اس کے باپ اور بھائی کی زبان بند کرنے کے واسطے بھی ہر ممکن طریقہ اختیار کرنا ہوگا اور لئے میں حضور سے صاف صاف کہے دیتا ہوں کہ دس ہزار سے کم میں یہ کام کرنے پر میں ہر گز تیار نہیں ہوں۔ اس میں مجھے کیا ملے گا۔ یہ خدا ہی بہتر جانتا ہے۔ پولیس اور اس کے رشتہ داروں کو دے دلا کر کچھ مل گیا تو مل ہی گیا۔ ورنہ گھاٹے میں چکی پیسنا تو بدی ہے۔ نواب صاحب میں تو پھر آپ سے التجا کروں گا کہ اس لڑکی کا خیال چھوڑ دیں۔ وہ آپ کے بس کی چیز نہیں ہے۔‘‘

    سرکس بیس دن لال باغ میں ٹھہرا۔ اتوار کی شام آخری مرتبہ تماشا کر کے پیر کی صبح کو یہاں سے کوچ کا سامان ہونے لگا۔ صبح اندھیرے ہی سائیس گھوڑوں کو لیکر پیدل روانہ ہو گئے تھے۔ باقی جانوروں کے پنجرے چھکڑوں پر لادے جا رہے تھے۔ لوگوں کی چھولداریاں گراگرا کر تہہ کی جا رہی تھیں، ہر آدمی کسی نہ کسی کام میں مشغول تھا۔

    ایک طرف ایک ہاتھی بیٹھا تھا جس پر بہت سا سامان لدا ہوا تھا اور اس پر چند بندر بندھے ہوئے تھے۔ اب یہ بھی روانہ ہونے کے واسطے تیار ہو گیا تھا۔ باقی ہاتھی ابھی یوں ہی کھڑے جھوم رہے تھے۔ منیجر کا چھوٹا سا خیمہ بھی لگا ہوا تھا اور وہ اس کے سامنے آرام کرسی پر لیٹا نواب صاحب کی آمد کا منتظر تھا۔ ایک آدھ آدمی اِدھر ادھر سے آکر اس سے کچھ پوچھ گچھ جاتا تھا۔ جس پر وہ ان کو معمولی ہدایتیں بھی دیتا تھا اور پھر گھڑی کو دیکھ کر انتظار میں لیٹ جاتا تھا۔ نو بجے کے قریب نواب صاحب کے موٹر کا ہارن بجا ،منیجر فوراً اٹھ کر قناتوں سے باہر گیا۔ وہاں ایک بہت بڑے موٹر میں جس پر پردے لگے ہوئے تھے، نواب صاحب خود کرتہ پیجامہ پہنے ڈرائیور کی جگہ بیٹھے تھے، منیجر نے پاس جاکر سلام کیا۔ نواب صاحب کی آنکھیں چمک رہی تھیں۔ چہرہ استعجاب سے سرخ تھا۔ مسکرا کر گھبرائی ہوئی آوازمیں پوچھا، ’’کہیئے!‘‘

    منیجر، (اطمینان سے) ’’سب انتظام ٹھیک ہے۔‘‘

    نواب صاحب، (جلدی سے) ’’بہتر ہے۔ پھر جائے جلدی کیجئے۔‘‘

    منیجر، (نہایت اطمینان سے) ’’میری طرف سے مطمئن رہیں۔ اب آپ بھی تو مجھے اطمینان دلائیں۔ دیکھئے نواب صاحب اس واقعہ کے بعد میرا ٓپ کے محل پر جانا کسی طرح ٹھیک نہ ہوگا اور نہ آپ کا یا آپ کے کسی آدمی کا ہی آنا ٹھیک ہوگا۔ دوسرے کسی اور شخص کا بیچ بھی پسند نہیں کرتا۔‘‘

    نواب صاحب، (جلدی سے گدی کے نیچے سے نوٹوں کا بنڈل گھسیٹ کر اور ان کو کھولتے اور بند کرتے ہوئے) ’’آپ کی رقم آپ کے اطمینان کے واسطے موجود ہے ایک ہاتھ سے لڑکی کو سوار کیجئے۔ دوسرے ہاتھ سے اپنا معاوضہ لیجئے۔ جائیے جلدی کیجئےمیرا یہاں اس طرح سے زیادہ دیر ٹھہرنا نازیبا ہے۔‘‘

    منیجر نے ایک دفعہ نوٹوں پر نظر ڈالی، مسکراتا ہوا قناتوں کے گھیر کے اندر گیا اپنے ڈیرے کے پاس جاکر اس میں جھانکا اور ہاتھ سے اشارہ کیا۔ اندر سے وہی لڑکی۔ وہی تماشا کرنے کا چست لباس پہنے مسکراتی ہوئی نکلی اور منیجر کے پیچھے پیچھے چل دی۔ باہر موٹر کا انجن پہلے سے گھنگھنا رہا تھا۔ نواب صاحب اسٹیرنگ گیر دونوں ہاتھوں سے تھامے بالکل تیار بیٹھے تھے۔ جوں ہی یہ دونوں پاس آئے نواب صاحب نے للچائی ہوئی ایک نگاہ جلدی سے لڑکی پر ڈالی۔ اس کے گال سرخ تھے۔ ہونٹوں پر لالی تھی، ماتھے پر سے ہوتا ہوا گدی کے چاروں طرف ایک ربن بندھا ہوا تھا، اس کے نیچے سیاہ بال کھلے شانوں پر پڑے تھے۔ وہ نواب صاحب پر ایک نگاہ ڈالتی ہوئی مسکراتی موٹر کے پاس آئی منیجر نے دروازہ کھول دیا اور وہ اس میں بیٹھ گئی۔

    منیجر دروازہ بند کر کے نواب صاحب کے پاس آیا انھوں نے کھسکتے ہوئے موٹر میں سے نوٹوں کو بنڈل منیجر کو دے دیا اور رفتار بڑھا دی۔ لمحہ بھر میں موٹر سامنے کے موڑ پر گھوم کر نظروں سے غائب ہو گیا۔ قناتوں سے باہر فٹ پاتھ پر منیجر صاحب تنہا مسکراتے ہوئے نوٹوں کے گڈے میں سے پرتیں ہٹا ہٹا کر کچھ دیکھتے رہے اور پھر ان کو پتلون کی جیب میں ٹھونستے ہوئے اندر روانہ ہوئے۔

    موٹر سڑک پر غیں غیں، ادھر گھوم، یہ جاوہ جا، نکلا چلا گیا۔ یہاں تک کہ شہر کا کنارہ آ گیا اور اب وہ سیدھا ڈلیاباد کی طرف روانہ ہو گیا۔ جہاں پوری پختگی اور احتیاط کے ساتھ سب انتظام ہو چکے تھے۔ محل کے زنانے پھاٹک میں جونہی موٹر داخل ہوا ،بڑا پھاٹک بند کر لیا گیا۔ اس کے اندر صحن میں دو چار کیاریاں، چند درخت اور پودے تھے ایک طرف تین چار ملازم بیٹھے تھے، ایک لمبے دالان کے سامنے اونچا سا چبوترہ تھا، موٹر اس کے سامنے رکا۔ موٹی سی ادھیڑ عمر کی ایک ماما چاندی کا منوں زیور پہنے موٹر کے پاس آئی دروازہ کھولا، بڑے ٹھسے سے بولی، ’’اترئیے آئیے میرے ساتھ چلی آئیے۔‘‘

    لڑکی اب بھی اسی طرح خاموش مسکراتی ہوئی خوش خوش پھرتی سے اتری اور اس کے پیچھے پیچھے تیزی سے چل دی۔ ماما نے برآمدے کے کونے پر ایک اور دروازہ کھولا، یہ زینا تھا۔ دونوں اوپر چڑھے۔ ایک اور چھوٹا سا صحن ملا۔ اس کے دوسری طرف ایک بڑاآ راستہ کمرہ تھا جس میں زمین پر فرش، قالین، گاؤ تکئے تھے، دیواروں پر بھدّی رنگین تصویریں اور بڑے بڑے آئینے تھے۔ ایک طرف ایک بہت بڑی مہری مچھردانی سے دھکی ہوئی تھی۔ دوسری طرف تختوں کا چھوٹا سا تختہ تھا۔ اس پر بھی چاندنی کے قالین گاؤ تکئے وغیرہ لگے جابجا چاندی کے اگالدان رکھے تھے۔ قالینوں کے کونوں پر اگر ہتیاں جل جل کر خوشبودار دھوئیں سے کمرہ کو معطر کر رہی تھیں۔ ایک چوکی پر لوٹا، صراحی، صابندانی، بیسن دانی سب چاندی کے رکھے تھے، فرش پر گاؤ تکئے کے برابر قالین پر ایک گنگا جمنی پاندان، دوسری طرف آبنوسی عطردان رکھے ہوئے تھے۔ ایک کونے میں ایک چھوٹی سی میز پر سبز سرخ رنگ کے پٹاخےدار خوان پوش سے ڈھکی ایک سینی رکھی تھی۔ کمرے کے چھت اور دیواریں طرح طرح کے رنگوں سے بنے ہوئے پھولوں اور پتیوں سے نظروں کو گھائل کئے دیتی تھیں۔ چھت میں رنگین شیشے کے دو جھالر لٹک رہے تھے۔ ماما لڑکی کو لئے ہوئے اس کمرے میں داخل ہوئی۔ تختوں کی طرف بیٹھنے کا اشارہ کیا اور الٹے پیروں واپس لوٹ گئی۔

    لڑکی نے خوشی سے مسکراتے ہوئے کمرے میں چاروں طرف نگاہ ڈالی، ہر چیز کو حیرت سے دیکھا۔ تختوں کے پاس گئی۔ پیر لٹکا کر بیٹھی لیکن فوراً ہی جھک کر آبنوسی عطردان کو چھوا اور پھر سیدھی ہوگئی۔ چاروں طرف دیکھا کہ کوئی دیکھتا تو نہیں ہے۔ پھر جھک کر عطردان کے نفوش پر ہاتھ پھیرا۔ نواب صاحب انگنائی کی دوسری سمت کے ایک کمرے میں سے جھانک رہے تھے۔ باہر آکر ہنستے ہوئے اس کمرہ میں داخل ہوئے، ’’ہاں ہاں عطر لگاؤ۔ عطر لگاؤ، یہ تمہارے ہی واسطے ہے۔‘‘ ان کے آنے پر لڑکی سیدھی ہو بیٹھی اور ان کی طرف دیکھ کر زیر لب مسکرائی۔

    نواب صاحب نے اور آگے بڑھتے ہوئے کہا، ’’ کس غضب کی تمہاری مسکراہٹ ہے۔‘‘ اور آگے بڑھے، دونوں ہاتھ لڑکی کی طرف بڑھائے۔ آناً فاناً میں لڑکی کے مسکرانے میں تغیر پیدا ہوا۔ ہنسی غائب ہو کر متانت پیدا ہوئی۔ معاً متانت سے پریشانی اور پریشانی سے غصہ کے آثار اس کے چہرے پر آئے۔ اب وہ ساکت کھڑی اس سفید بوڑھے کو غصے سے تک رہی تھی۔ نواب صاحب نے یہ کہتے ہوئے کہ ’’دنیا کا ہر عیش یہاں تمہارے واسطے مہیا کروں گا۔ اب تم کو میرا ہی ہو کر رہنا ہوگا۔‘‘ پھر اپنا ہاتھ لڑکی طرف بڑھایا۔ لڑکی پھرتی سے ایک قدم پیچھے ہٹی، دونوں ہاتھ اٹھا کر اپنے چہرے کو رگڑ ڈالا۔ پھر کندھوں پر بڑھے ہوئے گیسو سر سے نوچ نواب صاحب کے سامنے زمین پر دے مارے اور اس کے بعد اس نے پہلی مرتبہ اپنی آواز نکالی، ’’ آواوآا، آواوآ۔‘‘

    نواب صاحب مجسمہ حیرت بنے ساکت کھڑے دیکھ رہے تھے۔ ان کے سامنے چودہ برس کی بدہئیت گونگی لڑکی غصہ میں بھری بے ہنگم آواز یں نکال رہی تھی۔ زور زور سے ہاتھ رگڑنے سے اس کے چہرے کا غازہ جابجا سے اڑ چکا تھا۔ جس سے اس کا اصلی سیا رنگ چتکبرا ہو گیا تھا۔ چہرے پر زخم کا ایک بدنما داغ دائیں گال سے لیکر کنپٹی تک چلا گیا تھا۔ دوسرا داغ خش خشی بالوں سے آراستہ سر کے بیچوں بیچ نمایاں چمک رہا تھا۔

    وہاں نہ باپ تھا نہ بھائی۔ مکروہ صورت لاوارث لڑکی کی فکر کون کرتا۔ البتہ گھوڑی کی فکر میں سب ہی پڑ گئے۔ کانپور پہنچ کر اب ہر ایک کی یہ کوشش ہونے لگی کہ لڑکی کی جگہ وہ لے لے، انھوں نے ہر طرح سے اسے رام کرنے کی کوشش کی لیکن پیار، دلاسہ، مار پھٹکار کچھ بھی کارگر نہ ہوا۔ کیونکہ بچپنے سے انھیں لوگوں نے روزانہ اس کے ہزاروں سوئیاں چبھو چبھو کر اسے دنیا بھر کے انسانوں سے خائف کر دیا تھا۔ یہ لوگ سرکس کے گھیرے میں لاکر طرح طرح کے لباس بدل کر اس کے پاس آتے تھے اس کے سوئیاں چبھوتے تھے۔ اسے معلوم تھا کہ جب تک وہ تھان پر بندھی ہے خیریت ہے اور جہاں اس جگہ سے ہٹی یا آزاد ہوئی سوائے اس لڑکی کے جو بھی پاس آئےگا کسی نہ کسی طرح سوئی ضرور چبھوئےگا۔

    اس کو ہر انسان سے دلی نفرت اور عداوت ہو گئی تھی۔ اس کی قدرتی محبت کا رجحان دنیا بھر سے سمٹ کر اس لڑکی پر قایم ہو چکا تھا۔ وہ نو عمر بےزبان جانور عاشق کی طرح محبت کرنے کو بیقرار۔ معشوق کی طرح محبت کئے جانے کا منتظر۔ صرف ایک ہی ہستی اس گونگی لڑکی کی منتظر، کالی گھوڑی خاموش کھڑی سر کو جھٹکے دیتی اور دم سے مکھیاں جھلتی تھی۔ نہ آنکھوں میں اشک، نہ لب پر فریاد۔ اگاڑی پچھاڑی بندھی کھڑی ہے۔ کبھی دو ایک منہ گھاس کھالی اور کھڑی ہے۔ کان آگے کئے پیچھے سے سر کو جھٹکے دیئے۔ دم کی چوری چل رہی ہے۔ خاموش کھڑی ہے۔ اس میں انتظار ہے۔ غم ہے اور پھر انتظار ہے۔

    اس پر طرح طرح کے ظلم ہوئے۔ طرح طرح کی مار پڑی ہر ہر طرح سے اس پر سوار ہونے کی کوشش کی گئی۔ مگر اس نے ہمت نہ ہاری۔ اس کو لڑکی کا انتظار تھا۔ وہی اس پر سوار ہو سکتی تھی۔ دوسرے کو کیسے پاس آنے دیتی۔ یہاں تک کہ جب پیروں میں سندے ڈال کر اور منہ پر مہرا باندھ کر اس کو چلنے، دولتی چلانے اور کاٹنے سے بھی بالکل ناکارہ کر دیا گیا تو پھر اس نے دھڑادھڑ اپنے تئیں کھڑے قد سے گرا گرا دیا لیکن کسی کو سوار نہ ہونے دیا۔

    اسی طرح دن دن بھر اس پر سختیاں ہوئیں اور جب لوگوں نے ہار کے جھک مار کے پھر اسے تھان پر لاکر باندھا۔ وہ خاموش کھڑی ہو گئی۔ نہ آنسو نہ آواز نہ سرد آہیں نہ فریاد۔ خاموش بےزبان کی ایک ہی زبان خاموشی۔ سر کو دو ایک جھٹکے دئیے دم ہلائی، خاموش کھڑی ہے۔ گھنٹوں کھڑی ہے دو جھٹکے سر کو دئے، دم ہلائی اور کھڑی ہے۔ سرکس والوں میں ادھر یہ ہو رہا تھا کہ ’’اچھا اب سالی کو جلاب اور فاقے دئیے جائیں۔‘‘ ادھر اس نے خود دانہ اور گھاس چھوڑ دیا، بانسوں کی مار سے اور کھڑے قد سے گر گر پڑنے سے بدن پھوڑا ہو رہا تھا۔ لڑکی کی یاد میں دل بےقرار تھا۔ ہر طرف آنکھیں اسی کو ڈھونڈھتی تھیں۔ نہ بھوک تھی نہ پیاس۔ اوپری چوٹیں اندرونی غم۔

    چند دن اور جوگذرے تو گھوڑی کی صورت ہی اور ہو گئی۔ بھڑکتی، تھرکتی ہوئی ہوئی موٹی تازہ سیاہ چمکتی بچھڑی کے بجائے سست، مریل ہیلی، سیاہ نچی کھچی، گھڑیا سر جھکائے اونگھتی ہوئی سی کھڑی ہے۔ ٹانگوں پر مکھیاں آنکھوں پر بھنگے چمٹے ہوئے ہیں۔ کبھی دم ہلاتی تو ہلاتی، ورنہ سر نیچا ہے، کھڑی ہے۔ عجیب حالت ہو گئی۔ آخری دن جب سرکس کانپور سے بھی کوچ کرنے لگا تو اس کا نیلام بول دیا۔ پینتیس روپئیے اور مالک سرکس کی جیب میں آئے اور گھڑیا بھی یہاں سے رخصت ہو گئی۔ قصہ ختم ہوا، چار دن بعد بھولے سے بھی کوئی کیوں ان کو یاد کرتا، کیسی لڑکی کس کی گھوڑی، گھاس کوڑا، اس کا پڑا ہے تو پڑا ہے۔ نہیں تو آندھی آئی اڑ گیا، پانی آیا بہہ گیا۔ یہ دونوں بھی دنیا کے سمندر میں تھپیڑے کھاتے بہتے چل دئیے۔ ایک مشرق اڑ گیا، دوسرا مغرب بہا، پتھر کی سلیں دل کے عارضہ سے آزاد بےحس، صدیوں پہاڑوں بیٹھی جیتی ہیں۔

    جاڑے جاتے ہیں، بہاریں آتی ہیں، جگ پر جگ صدیاں آتی اور جاتی ہیں۔ قوموں پر قومیں آتی ہیں۔ نسلوں پر نسلیں جاتی ہیں۔ پر یہ بیٹھی بیٹھی تکتی ہیں اور ہم آندھی کے تنکے اب اڑے جب گرے پل بھر ہی اڑتے ہیں۔ پھر بھی قسمت کے مارے الفت! محبت، یاس وحسرت، آرزو اور تمنا کا گھر وندا یعنی لپ لپ کرتا دل پہلومیں لئے پھرتے ہیں۔ اتفاق نے اکٹھا کر دیا۔ مل گئے حادثات نے جدا کر دیا الگ ہو گئے۔ نہ اس کا کوئی گھر نہ دوارا۔

    سر کس کی زندگی کیا تھی صبح کا خواب تھا۔ چونکتے تو کچھ نہ تھا۔ گھوڑی کے لئے یکہ تھا، یکہ والا تھا۔ کانپور کی سڑکیں گلیاں تھیں۔ ادھر لڑکی کے لئے چولھا تھا برتن تھے سل تھی اور بٹہ تھا اور دو بی بیوں کی خدمت تھی۔ مصالحہ پیسنا، برتن مانجھنا، کھانا پکانا، گھر بھر کو کھلانا، بچا کھچا خود کھانا اور پھر اسی کو دہرانا۔ یہی زندگی تھی برس پر برس گذرے گونگی لڑکی، بےزبان، سل پر ہلدی دھنیا، مرچیں، دونوں ہاتھو ں میں بٹہ اکڑوں بیٹھی، آگے پیچھے آگے پیچھے ہل ہل ہل، جسمِ مجسم مصالحہ پیسنے میں لگا ہے اور دل کمبخت دل! سرکس، سیاہ گھوڑی۔ گھوڑی کی محبت بھری نگاہیں۔ اس کی خمیدہ گردن اس کا خوشنما ماتھا۔ اس کا سر گھما کے دیکھنا، اس کا اس سے ملنا، اس کو گھاس دانہ دینا۔ اس کی دوڑ، اس کی سواری، اس پر کرتب، ہزاروں آدمیوں کا حیرت سے دیکھنا ،وہ تالیاں۔ وہ تالیاں۔

    جب دنیا تکتی تھی، دنیا حیرت کرتی تھی، یہی وہ زندگی یہی زندگی کا معراج تھا۔ لیکن یہ سب نہ آنکھیں دیکھ سکیں نہ کان سن سکے، لوگوں سے نہاں، دنیا سے پنہاں، گیلی گادہ لکڑیوں کے دھوئیں میں پھوکرتے ہوئے کالی چکنی ہنڈیوں کو سرسراتے جاڑوں کی راتوں میں مانجھتے ہوئے نہ مٹنے والی اور نہ ہٹنے والی یاد، بےزبان کو ستاتی تھی۔ جاڑوں میں کٹ کٹ کا نپتے ہوئے۔ گرمی میں پسینے سے شرا بور رہا نپتے ہوئے برسوں بعد گونگی نے وہی گذرے ہوئے دن یاد کئے، پر قسمت نے کسی پہلو کوئی پلٹا نہ کھایا اور زمانہ پلٹا بھی تو کیا پلٹا۔ نہ ماں نہ باپ تھے نہ بھائی بہن نہ رشتہ دار تھے، نہ ملنے والے، شوہر نہیں، اولاد نہیں، اس کی زندگی میں کوئی تغیر ہوہی کیسے سکتا تھا، امید بھی کیا ہوتی، تمنا کیا ہوتی، بے آسرا، بےآرزو دن کٹتے گئے۔

    نواب محمود علی خاں نے چیخ چلاّ کے ندامت اور خجالت کا غصہ نوکروں پر اتار کے لڑکی کو کالے خاں باورچی کے سپرد کر دیا تھا اور ہدایت کر دی تھی کہ گھر سے باہر نہ نکلنے دیں۔ نواب صاحب کے ملازم بقدر حیثیت خود بھی آقا کے قدم بہ قدم چلتے تھے، زیادہ نہیں تو گھر میں دو ہی بیویاں تھیں، لڑکی تھی کم عمر، ان دونوں نے اس خیال سے کہ کہیں سوتن بن کر نہ کھڑی ہو خوب ہی درگت بنائی۔ چڑھے شباب میں لڑکی ان کے حوالے کی گئی تھی۔ سھگڑ بیویوں نے سلیقہ سے شباب کو بڑھاپےمیں بدلنا شروع کر دیا۔ چند سال میں لڑکی سے بڑھیا ہو گئی۔ جوتے کھاتے خدمت کرتے پندرہ برس گذر گئے۔

    ہم روز دیکھتے ہیں کہ صبح کو ہلکی روشنی میں ہر چیز خوشحال تروتازہ شاداب ہوتی ہے، بھیگی بھیگی ٹھنڈی ہوا کے جھونکے چلتے ہیں، چڑیاں چہچہاتی ہیں، پھول مسکراتے ہیں۔ سبزہ لہلہاتا ہے اور پھر چند ہی گھنٹے بعد چوندھیاتی دھوپ میں ہر چیز دمکتی ہے، جھلستی ہے، ہوائیں گرم اور خاک آلودہ ہو جاتی ہیں۔ چڑیاں ادھر ادھر چھپ جاتی ہیں۔ پھول نڈھال ہوکر کمھلاتے اور گرتے ہیں، ہر یا دل پر دھوپ پڑتی ہے، خاک چھاتی ہے، دن رات یہی قدرت کے پلٹے ہیں، پھر کون سی حیرت کی بات ہے۔

    سرکس کی وہ تندرست، سیاہ چکنی شوخ گھوڑی، کانپور میں نیلان ہونے کے چند دن بعد یکہ میں جتنے والی گھڑیا ہو گئی۔ اپنی پیٹھ پر کسی کو نہ بیٹھنے دیا تو کیا؟ کھڑکھڑاتا بھاری یکہ دم کے پیچھے لگ گیا۔ اب ٹخ ٹخ گھڑیا سٹاسٹ چابک، دن بھر شہر کی گلیاں اور اسٹیشن کے پھیرے ہونے لگے۔ دن بھر کی تھکی شام کو گھر آئی، ڈھیر سی ملائی ہوئی تھوڑا دانہ تھوڑی گھاس ملی۔ رات بھر مچھروں نے کاٹا۔ صبح ہوئی پھر چل دی۔ شہر بھر کی خاک چھاننے، نہ شباب رکا، نہ جوانی ہی آئی۔ اس مار اور محنت سے دونوں ہی بھاگ گئے۔

    بچھری سے یکہ کی گھڑیا ہو گئی۔ اسٹیشن پر جتی کسی کھڑی اونگھ رہی ہے۔ مزدوری مل گئی۔ سامان رکھا گیا سواری بیٹھ گئیں تو یکہ والے نے راس کو دو جھٹکے دیے، چابک چلایا۔ ٹخ ٹخ کی گھڑیا نے دم ہلائی۔ سر اوپر نیچے اوپر نیچے ہلایا اور پھر منڈیا نیچے۔ غوطہ میں کھڑی ہو گئی، ’’ او گھوڑی، اوگھوڑی تیرا ستیاناس ہو چل، ٹخ ٹخ۔ ٹخ ٹخ۔‘‘ سٹ چابک۔ سٹ چابک گھڑیا نے پھر دم ہلائی سر ہلایا۔ دم ہلائی۔ سر ہلایا اور کھڑی ہے۔ پھر راس کو کرارے جھٹکے دئے گئے، ’’او گھوڑی او گھوڑی چل تیرا ستیاناس لگے، ٹخ ٹخ، ٹخ ٹخ‘‘ اب پیروں سے زیادہ سر کو اوپر نیچے ہلاتی ٹھمک ٹھمک گھوڑی چل پڑی تو اور سٹاسٹ چابک پڑنے لگے، ’’ چل اوگھوڑی چل چل چل۔ او گھوڑی۔ او گھوڑی تیرا ناس ہو۔ ٹخ ٹخ ٹخ ٹخ۔‘‘

    اسی ٹخ ٹخ میں گھوڑی کی عمر کٹ گئی۔ پندرہ برس ہو گئے، بوڑھی ہو گئی۔ پیر کانپنے لگے۔ راستہ چلنا دشوار ہو گیا۔ ایک روز حسبِ معمول گھڑیا یکہ کھینچتی ٹھمک چلی جا رہی تھی۔ بازار میں ایک جگہ اسے روکا گیا۔ رک گئی ،منڈیا نیچی کر کھڑی ہو گئی۔ یکہ پر پردے پڑے تھے۔ اس میں دوزنانی سواریاں تھیں۔ ایک مرد ساتھ تھا مرد وہی کالے خاں باورچی تھے، سواریوں میں ایک بیوی، دوسری گونگی ماما تھی۔ کالے خاں نے ایک دوکان پر سے زنانے گرگابی جوتے لا کر پردے کے اندر سر ڈال کر بیوی کو دکھائے، ان میں سے دو پسند آئے پہن کر دیکھے، پھر ان دو میں سے ایک لینے کو بتا دیا، جوتے لیکر پھر دوکان کی طرف چلے، بیوی کی نیت اس جوڑے سے اس جوڑے پر ڈانواڈول ہوئی۔ اب کیا کرتی۔ گونگی کو اشارہ کیا۔ بلا میاں کو بلا۔ وہ بچاری اپنی زبان میں چلاتی ’’آواوا۔وا۔آوا‘‘ پژمردہ دل بوڑھی گھوڑی نے برسہا برس کے بعد پھر وہی آواز سنی۔ وہی آواز جو محبت کا پیغام تھی۔ وہ آواز جس سے زندگی کی پرمسرت گذری ہوئی گھڑیاں وابستہ تھیں۔ یکایک یہ آواز جو آئی گھوڑی چونک دونوں کان پیچھے دبا خاموش کھڑی ہو گئی، بازارکی چیخ وپکار میں میاں نے آواز نہ سنی اس لئے گونگی نے پھر وہی آواز نکالی۔ گھوڑی نے کان آگے پیچھے ہلاتے ہوئے پھر اس آواز کو سنا۔۔۔

    دنیا کی تمام آوازوں میں یہی ایک آواز تھی جو اس سے تعلق رکھتی تھی۔ برسوں برسوں سے اس کے لئے کان ترس رہے تھے، برسوں برسوں سے اس آواز کے سننے کی ناامیدی ہو چکی تھی۔ ’’یہ آواز، یہ آواز۔ لڑکی آ گئی۔ مل گئی۔ کہاں ہے؟ چلی جائیگی۔ پھر نہ ملے گی۔ کیا کروں۔‘‘ غالباً کچھ اسی قسم کے خیال گھوڑی کے دماغ میں آئے ہوں گے۔ یاجو کچھ بھی لیکن یہ واقعہ ہے کہ دوسرا کے جو گھوڑی نے اس آواز کو سنا تو پھر یہ معلوم ہوا کہ اس مریل گھوڑی میں کسی نے بجلی بھر دی۔ اس نے ایک دفعہ ہنہنانے کی تڑپ ماری جال میں پھنسے ہوئے جنگی ہرن کی طرح وہ تڑپی اور پھڑکی۔

    دیکھتے دیکھتے ساز کے ٹکڑے ٹکڑے ہو گئے۔ گھوڑی آزاد بموں سے نکل یکے کے چاروں طرف پھرنے لگی۔ وہ رکتی بھاگتی کبھی الف ہوتی کبھی دو لتیاں چلانے لگتی، کان سکیڑے، دانت نکالے یکہ کے گرد گھومنے لگی۔ چاروں طرف سیکڑوں آدمی جمع ہو گئے تھے لیکن خوفزدہ بھاگنے کے واسطے تیار، دور ہی سے تماشہ دیکھ رہے تھے۔ ان ہی میں یکہ والا اور میاں کالے خاں باورچی بھی شامل تھے جو کہ فاصلے ہی سے نمایاں اچھل کود اور بلند ترچیخوں سے اپنی وابستگی اس غلاف پوش یکہ سے ظاہر کر رہے تھے جو کہ اب ٹیڑھا بموں کو لٹکائے رکوع کی حالت میں خاموش کھڑا تھا اور اس کے ارد گرد خوفناک وحشی کالی گھوڑی اس ارادہ سے طواف کر رہی تھی کہ اگر کوئی پاس آیا تو جان ہی لے لوں گی اور سفید پردے کا یکہ بیچ میں عجیب مظلومیت سے ساکت ٹیڑھا جھکا کھڑا تھا۔

    دراصل یہ معلوم ہو رہا تھا کہ دعا مانگ رہا ہے۔ اس کے پردوں کے اندر بھی بالکل خاموشی تھی۔ بیوی ڈرکے مارے بےہوش ہو چکی تھی۔ گونگی پردہ کا ایک کونا ہٹاکے یکہ کے ڈنڈے پکڑے خاموش بیٹھی باہر دیکھ رہی تھی۔ آنکھوں سے آنسوں جاری تھے۔ جو برابر ایک کے بعد ایک گالوں پر سے بہہ بہہ کر ٹپ ٹپ گر رہے تھے۔ اس کے چاروں طرف دو ہزار آدمیوں کا ہیجان تھا اور ارد گرد گھوڑی کے وحشیانہ کرتب تھے۔ اس نے اس وقت پھر اپنی پرانی دنیا کو زندہ ہوتے دیکھا۔ اس کے مردہ پیروں میں ایک روح سی دوڑی۔ وہ پردے ہٹا یکے سے کود سڑک پر لمحہ بھر کھڑی ہوئی اور پھر ہزاروں ششدر آدمیوں کے سامنے وہ بدصورت لاغر ادھیڑ عمر کی عورت گھوڑی کی طرف لپکی اور اچھل کر اس کی ننگی پیٹ پر بیٹھ گئی۔ اس کے ساتھ ہی گھوڑی بھی جدھر اسکا منہ تھا ادھر ہی سیدھی سرپٹ دوڑی۔ لوگوں کی بھیڑ کائی کی طرح پھٹتی چلی گئی اور گھوڑی تیر کی طرح نکل یہ جاوہ جا نکلی چلی گئی۔

    بوڑھی عورت کو لئے بوڑھی گھوڑی بے تحاشا بھاگی۔ چوراہوں پر ہوتی جگہ جگہ گھومتی، بازاروں میں کتراتی بھاگتی چلی گئی۔ محلوں پر محلے گذر گئے اور وہ بھاگتی ہی چلتی چلی گئی۔ یہاں تک کہ شہر کا کنارہ بھی آیا اور نکل گیا۔ اب لمبی سیدھی کالپی روڈ تھی۔ اس پر بھی وہ دونوں میلوں چلے گئے۔ پانچ اور دس اور پھر پندرہ میل ہو گئے۔ تو پھر دونوں وہ مسکین بےزبان مسافر اصلی منزل مقصود کو پہنچ گئے۔ جدھر ہم سب دنیا کے مسافر بڑھے چلے جا رہے ہیں۔ پندرہ میل کے بعد بڈھی گھوڑی کے پیر لڑکھڑائے۔ سرپٹ بھاگتے میں ٹھوکر کھائی۔ منہ کے بل زمین پر گری۔ اس کا سر پاش پاش ہوگیا۔ گونگی عورت کی بھی ہڈی مڈی ٹوٹ گئی۔ جس نے کہ گھوڑی سے بھی دس گز آگے پکی سڑک پر پٹخنی کھائی تھی۔

    اے دوست! نہ رنجیدہ ہو یہی وہ آخری منزل مقصود ہے جس کے حاصل کرنے کے واسطے یہ دونوں جدا جدا جی رہے تھے۔ ورنہ اور کیا تھا۔ کس کا آسرا تھا کس حصول کی تمنا تھی۔ شباب لٹ چکا تھا۔ جوانی اجڑ چکی تھی۔ بڑھاپے میں ایک کہیں دوسرا کہیں۔ کسی نہ کسی طرح راہی ملکِ عدم ہوئے۔ چند منٹ کی ہی سہی آخر یکجائی پھر ہوئی پھر وہی شباب کا مشغلہ چندے نصیب ہوا اور یہ ختم بھی نہ ہوا تھا کہ ڈراپ سین ہوا۔

    مأخذ:

    گوری ہو گوری (Pg. 177)

    • مصنف: رفیق حسین
      • ناشر: اردو اکیڈمی سندھ، کراچی
      • سن اشاعت: 1952

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے