Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

بے چاری

ہاجرہ  مسرور

بے چاری

ہاجرہ مسرور

MORE BYہاجرہ مسرور

    کہانی کی کہانی

    میاں بیوی کی ازدواجی زندگی کی نوک جھونک پر مبنی کہانی ہے۔ شوہر اور بیوی دونوں کو ایک دوسرے سے محبت ہوتی ہے لیکن مالی حالات کمزور ہونے کے باعث بعض ضرورتیں وقت پر پوری نہ ہونے سے ایک دوسرے پر الزام تراشی کرتے ہیں۔ اس کہانی میں چھوٹے بچے کے لئے گاڑی لانے کے سلسلہ میں ہونے والی نوک جھونک مزاحیہ انداز میں بیان کی گئی ہے۔

    ابھی ابھی جناب گڈو صاحب گھر میں گھسے۔ گھر سے دفتر تک نہ ہوگی تو دو میل کی مسافت تو ضرور ہوگی۔ اچھی خاصی گرمی کا زمانہ، اس پر سے سائیکل چلانے کی ورزش، گھر پہنچتے پہنچتے سانس بگڑ جاتی۔ جن دنوں یہ حضرت شادی کے ارمان میں سوکھ رہے تھے تو ایک دوست نے نہایت محبت سے مشورہ دیا تھا کہ شادی کے بجائے فی الحال تو موٹر خرید لو۔ موٹر نہیں تو کم از کم ایک بھینس پالو۔ تمہاری پوزیشن کو دیکھتے موٹر ضروری ہے، ورنہ سائیکل چلانے کے لیے خالص دودھ پینا تو اشد ضروری۔

    لیکن ان مشوروں کا حشر معلوم، گھرمیں نہ موٹر تھی، نہ بھینس، بیوی ضرور تھی! وہ بھی اس وقت غائب تھی۔ ملازم نے بڑھ کر سائیکل تھامی تو گڈو نے مزید سانس لینے کے بجائے ملازم سےپوچھا، ’’بیگم صاحبہ کہاں ہیں؟‘‘

    ’’ڈاکٹر صاحب کے پاس گئی ہیں۔ کہہ گئی تھیں صاحب کے آنےسے پہلے آجاؤں گی۔‘‘ ملازم نے جواب دیا۔ اور گڈو کو واقعی اس وقت تھکن معلوم ہونے لگی۔ فی البدیہہ چائے کو جی چاہا، پھر سوچا شاید وہ آرہی ہوں۔ دفتر سےآکر اپنے گھر میں اکیلے بیٹھ کر چائے پینا ایسا ہی ہے جیسے کوئی لالہ جی چاندنی رات میں تن تنہا اپنی نہایت بدصورت قسم کی بید کے ساتھ انتہائی زور شور کی ’’واک‘‘ فرما رہے ہوں۔ سوچا اتنی دیر میں نہا لیا جائے۔ نل سے پانی گرنے کے شورمیں کئی بارمحسوس ہوا کہ کسی نے اترا کر پکارا ہے۔ گڈو! نل بند کرکے سننے کی کوشش کی تو معلوم ہوا محض وہم تھا۔

    نہاکر نکلے تو چائے تپائی پر موجود تھی۔ کپڑے بدل کر ایوننگ ان پیرس میں مہک کر بیٹھے تو سوچا کہ چائے ابھی بہت گرم ہے۔ ذرا رک کر پئیں گے۔ سو بے چارے صبح کے اخبارات کا پلندہ اٹھاکر مسہری پر دراز ہوگئے۔ ابھی دوچار چیزیں ہی پڑھیں تھیں کہ نظر ایک عجیب الخلقت بچے کی سرخی پر پڑی۔ گڈو کے لیے ایسی خبریں عموماً غیر اہم ہوتی تھیں مگر اس وقت تو رقیق القلبی طاری تھی۔ اس لیے ذہن فوراً بھٹک گیا۔ ’’افوہ! ایک ہی بچے میں ان کی صحت کتنی خراب ہوگئی۔ شاید یہ سب آپریشن ہونے کی وجہ سے ہوا ہے۔ یہ بچے آخر انہیں پیدا ہونے پر کون مجبور کرتا ہے جو پیدا ہونےکے لیے بے تاب رہتے ہیں، کالے، پیلے، بکری کے سر والے، کتے کے منہ والے، لعنت ہو۔ شادی کرو تو یہ سب ضرور بھگتو۔ اوہ بے چاری بیگم!

    اور گڈو صاحب کی آنکھوں کےسامنے ہسپتال کا وہ کمرہ گھوم گیا، جہاں پر وہ پڑی کئی دن تک روتی چیختی رہی تھیں۔ اور پھر آخر کار آپریشن کی نوبت آئی تھی، اس کا چہرہ کتنا بھیانک ہوگیا تھا، اس نے اپنےہونٹ کاٹ کاٹ کر سجا لیے تھے۔ اور آنکھیں پھٹ کر رہ گئی تھیں۔ بالکل اپنا بھوت بن گئی تھی۔ اف توبہ بچہ پیداکرنے کا قدرتی عمل کتنا غیر قدرتی نظر آ رہا تھا۔ اگر وہ مرجاتی تو؟ اور گڈو کی آنکھیں بھیگ گئیں۔

    پتہ نہیں ڈاکٹر کے پاس اتنی دیر کیوں لگ گئی۔ کہیں تانگے میں جانے سے طبیعت زیادہ تو نہیں بگڑ گئی۔ کتنی دفعہ کہا ہے کہ ان دنوں ٹیکسی پر آؤ جاؤ۔۔۔ یہ عورتیں ویسے بے تکے پن سےخرچ کرنےمیں تو حاتم ہوتی ہیں مگر جہاں کچھ بننےکا معاملہ ہو تو پھر کفایت شعاری دکھانے کی حد کردیتی ہیں۔۔۔ اس وقت آئے تو سہی اچھی طرح نہ ڈانٹا تو۔۔۔ مگر جب کافی دیر بعد وہ اندر آئی تو گڈو اس کی اتری تھکی صورت دیکھ کر سب بھول بیٹھے۔۔۔ باہر بے بی کی چیاؤں میاؤں زورشورسےسنی جاسکتی تھی۔ گڈو نےنہایت مہذب شوہروں کی طرح جلدی سے اسے سہارا دے کر مسہری پر لٹانا چاہا، مگر وہ خود کو ذرا بیزاری سے چھڑا کر آرام کرسی پر ٹک گئی۔۔۔ اس کی سانس پھولی ہوئ تھی اور زرد چہرے پر پسینہ تھا۔

    خوبصورت تو وہ خیر قطعی نہ تھی، مگر اسے کیا کیجیے کہ وہ گڈو کو اکثر بڑی خوبصورت نظر آتی، خصوصاً جب وہ ذرا تک کے کپڑے پہنے ہوتی، لیکن اس وقت تو بس وہ حور پری لگی۔۔۔ اس لیے گڈو نے قریب بیٹھ کر اس کا ہاتھ نرمی سے پکڑ کر سہلایا۔ مگر اس نےاپنا ہاتھ چھڑا لیا۔۔۔ گڈو نے برا نہیں مانا، بے چارے اس کی اس ادا کے عادی ہوتے جا رہے تھے۔۔۔ بات ہی ایسی تھی۔ گڈو چائے بنانے لگے، چائے تقریباً ٹھنڈی ہوگئی تھی۔

    ’’لو جلدی سے پی لو، ٹھنڈی ہوئی جا رہی ہے۔‘‘

    ’’نہیں!‘‘

    ’’کیوں؟‘‘ گڈو نےاپنی پیالی بھی ٹرے میں رکھ دی۔

    ’’جی خراب ہو رہا ہے۔‘‘

    ’’اچھا تو ذرا سی پی لو، دو گھونٹ۔‘‘ اس نے دو تین گھونٹ لیے۔۔۔

    ’’ڈاکٹر نے کیا کہا؟‘‘

    ’’کہتا ہے ابھی تک خون نہیں بنتا!‘‘

    گڈو کا جی جل گیا، ’’خون کہاں سے بنے، جتنے ٹانک آتے ہیں، یوں ہی سڑ سڑ کر پھنکتے ہیں، نہ انڈے کھاؤ، نہ دودھ پیو، سبزیاں تو تمہیں کاٹنے کو دوڑتی ہیں۔ ٹہلنے چلنے پھرنے کو کہتا ہوں تو تم چلتی نہیں۔۔۔ در اصل تم خود مرنا چاہتی ہو۔‘‘ سچ تو یہ ہے کہ بات کہنے کی ہوگی تو کہی جائے گی، دوا بدمزہ ہوتی ہے، انڈوں سے اس زمانے سے بو آتی تھی جب بے بی پیٹ میں اودھم مچائے رکھتا تھا۔ مگر اب تو نارمل معاملہ ہے۔۔۔ بھئی اب مرد ذات کا یہی کام تو نہیں رہ گیا کہ بس کھانا اور دو الیے بیگم صاحب کے پیچھے پیچھے گھومتا رہے۔ گڈو کی اماں کیا غلط کہتی ہیں کہ ’’ایک تو لڑکا یوں ہی فکروں کے مارے گھلا جارہا ہے، اس پر سے بہو بیگم کے نخرے! توبہ بیوی ایسا بھی کیا۔۔۔ پہلے زمانے میں تو مردوں کو بھلا اتنی فرصت کہا ں، بچہ جنونہ جنو، تمہارا معاملہ۔ دوا پیو، کھانا کھاؤ، یہ بھی تمہارا ذاتی فعل، لو بھئی اس حالت میں درجن ڈیڑھ درجن کا اوسط بیٹھ جاتا تھا۔ آج کل تو بیوی ایک چھیچھڑا جنے تو بس میاں صدقے واری جارہے ہیں۔ نوج بیوی مردوں ہی نے تو عورتوں کے مزاج بگاڑے ہیں ورنہ مجال تھی۔۔۔‘‘

    واقعی، ورنہ مجال تھی کہ گڈو کی اتنی سی بات پر وہ ہونٹ لٹکا کر چائے کی پیالی ٹرے میں رکھ دیتی، اور فوراً رونے پر آمادہ ہوجاتی؟

    ’’اس میں برا ماننے کی کیا بات ہے۔ تم سے تمہارے برے بھلے کو کہا جاتا ہے تو پھر یہ ہوتا ہے۔ کم از کم تمہیں تو عام عورتوں کی طرح۔۔۔‘‘

    ’’ہاں مجھے برا نہیں ماننا چاہیے، میں عام عورت تھوڑی ہی ہوں۔ گائے بھینس ہوں، ارے گائے بھینس کو بھی ماروگے تو سینگ تو لے گی ہاں۔‘‘

    ’’تو میں نےتمہیں مارا، خوب بھئی، کمال ہے۔‘‘ گڈو اس بے مار کی توبہ پر بوکھلا گئے۔

    ’’تمہاری باتیں مار سے کچھ کم ہیں، ساس نندوں کی طرح بیٹھ کر طعنے دیتے ہو۔‘‘ اس کی پلکیں بھیگ گئیں۔

    ’’اچھا بھئی اگر غلطی ہوگئی تو معاف کردو۔۔۔ مگر یہ تو بتاؤ کہ ہر ذراسی بات میں بس تم مظلوم بن جاتی ہو، یہ جذبہ تم میں۔۔۔؟‘‘

    ’’بڑے آئے ماہر نفسیات بننے۔ میری تو جان نکل رہی ہے، اور تمہیں تجزیہ سوجھا ہے۔‘‘ اب وہ واقعی دلجمعی سے رونےلگی۔

    ’’ارےجان، میری گڑیا، بس بس۔۔۔ افوہ بھئی، معاف بھی کر دو، میرا یہ مطلب تھوڑی تھا۔۔۔‘‘ گڈو بڑے گھبرائے، بہت کسمسائے، بے چارے جب بھی ہمدردی کرنا چاہتے تو نتیجہ اس سے بہتر برآمد نہ ہوتا۔ وہ روئے چلی گئی۔

    ’’مجھے اس وقت سچے دل سے تم سے نفرت ہوگئی۔ ہاں نہیں تو۔۔۔ میری تکلیف کا تمہیں ذرا سا احساس نہیں۔۔۔ اندر سے میرا جی جانے کیسا ہوتا رہتا ہے، بس خودکشی کر لینے کو طبیعت چاہتی ہے۔‘‘

    ’’ارے میری گڑیا جبھی تو کہتا ہوں صحت ٹھیک کرو، صحت ٹھیک ہو تو زندگی سے محبت ہوجاتی ہے۔۔۔ وہ نہیں سنا، تندرستی ہزار نعمت ہے۔‘‘

    ’’نہیں مجھے کچھ نہیں سننا، مجھے ہر چیز سے نفرت ہے، مجھے زندگی نہیں چاہیے۔ اتنی تکلیف دہ زندگی۔۔۔ میں ہسپتال کا وہ کمرہ کیسے بھول جاؤں۔۔۔ ابھی تک وہی تو بھگت رہی ہوں۔۔۔ لعنت ہے ہزار بار تھو ہے ایسی زندگی پر۔۔۔‘‘ گڈو اس کی اس روانی طبع کے آگے تنکے کی طرح بہنے لگے، بڑے ہولائے۔ سہارے کے لیے اسے گھسیٹ کر اپنے پاس بٹھانا چاہا، ’’ہائے گھسیٹو نہ۔۔۔، درد ہوتا ہے۔۔۔ بے درد کہیں کے۔۔۔‘‘ اس نے سچ مچ نفرت اور غصے سے گڈو کو گھورا۔

    ’’اوہ معاف کرنا۔۔۔ اچھا آؤ یہاں میرے پاس آرام سےبیٹھ جاؤ۔۔۔ لاؤ میں تمہارا سر دبا دوں۔۔۔‘‘

    ’’نہیں تم مجھے نہ چھوا کرو، ورنہ میں دیوانی ہوجاؤں گی۔۔۔ خودغرض ہو تم، تمہارا کیا جائے گا اور مجھے پھر موت کے منہ میں گھسنا پڑے گا۔‘‘

    ’’اب دیکھو تم زیادتی کر رہی ہو جان۔۔۔ میں کب اتنی جلدی بچے کے لیے مر رہا تھا۔ تم ہی کو تو مامتا پھڑکا رہی تھی۔۔۔ اللہ سے مانگا تھا مل گیا۔۔۔‘‘ اب گڈو کہاں تک ہرمعاملے میں اپنے سر الزام لیتے؟

    ’’اچھا جاؤ میں نے ہی چاہا تھا، ہر عورت بچہ چاہتی ہے تو اس میں گناہ کیا ہے؟ مگر اب نہیں چاہیے، کان پکڑے، توبہ کی، خوب سزامل گئی۔‘‘

    ’’تو میں کب چاہتا ہوں، میری تم سےزیادہ توبہ۔‘‘ گڈو نےمسخرے پن سے اپنے کان پکڑ کر توبہ کی۔۔۔ مگر وہ تو بس ماش کے آٹے کی طرح اینٹھی رہی۔

    ’’واہ کسی کی جان پر بنی ہوئی ہے اور تمہیں مذاق سوجھا ہے۔ مجھے تو ڈر کے مارے رات رات بھر نیند نہیں آتی۔‘‘ اس نے چہکوں پہکوں رونا شروع کردیا۔ لو اب بھلا کیا ہو، سوائے اس کے کہ انسان دیوانہ ہوجائے، اس پر بھی گڈو نے اسے سینے سے لگا کر تسلی دینا چاہی۔

    ’’ہائے۔۔۔ میرے اللہ! میں نے کہہ دیا کہ بس مجھے نہ چھوؤ۔۔۔ تمہارے ہاتھ مجھے کانٹوں کی طرح چبھتے ہیں۔۔۔ اگر تمہیں میرا ذرا ساخیال ہو تو بس یہ سمجھ لو کہ۔۔۔ بس تم مجھے چھوا نہ کرو۔۔۔‘‘

    ’’انہہ ہوں، کیا باتیں کر رہی ہو، خواہ مخواہ۔۔۔ شرمندہ کر کے رکھ دیتی ہو، مجھے بالکل جانور سمجھتی ہو۔۔۔ ارے بھئی میری دلی خواہش ہے کہ بس تم اچھی رہو۔‘‘ گڈو نے صمیم قلب سے اعتراف کیا۔

    ’’خاک۔۔۔ میں خوب سمجھتی ہوں، ابھی میں ذرا ڈھیل دوں تو بس۔۔۔ تمہارا کیا جائے گا میں تو مر رہوں گی۔۔۔ میری رگوں میں خون نہیں رہا، اٹھتے بیٹھتے چکر آتے ہیں، ابھی تک سیدھا ہوکر چلا نہیں جاتا۔‘‘ اس نے پھر رو روکر بین شروع کر دیا۔ اسی وقت دوسرے کمرے میں بے بی بلک بلک کر رونے لگا۔

    ’’آیا، بے بی کو لے آؤ۔‘‘ وہ غصے سے چیخی۔

    ’’آیا، بے بی کو نہ لاؤ۔‘‘ گڈو اس سےبھی زیادہ زور سے چیخے۔

    ’’کیوں طنطنہ کس بات کا دکھا رہے ہو؟ اے دودھ نہ پلاؤں، بھوکا ماردوں، کیا مرضی ہے تمہاری؟ ایک تو اس بدنصیب کو دودھ ہی کون سا منوں نصیب ہو رہا ہے۔‘‘ اس نے آنسو پونچھ کر دھیمی مگر فیصلہ کن آواز میں پوچھا۔

    ’’مر جائے اچھا ہے، ایسی کمزوری میں اپنا دودھ دینا کچھ فرض ہے، جب ڈاکٹر نے کہہ دیا کہ ڈبے کا دودھ پلاؤ تو۔۔۔‘‘

    ’’اے گڈو زرا زبان سنبھالو۔ وہ کیوں مر جائے، اس کا برا چاہنے والے مریں۔ آخر وہ تمہیں کون سی تکلیف دیتا ہے جو آنکھوں میں کھٹک رہا ہے؟‘‘

    ’’تمہیں راتوں کو رو رو کر جگاتا ہے بدتمیز! اسی لیے تو تم اور بھی چڑچڑی ہو گئی ہو۔ سوکھ کر بلی جیسی ہوئی جا رہی ہو۔‘‘

    ’’رہنے دو مجھ سے ہمدردی جتانے کو۔۔۔ واہ اچھی دشمنی ہے۔۔۔ نو مہینے لے کر اپنے پیٹ میں رکھا ہوتا اور پھر چار دن چیخ کر۔۔۔ پھر پوچھتے کہ اب گلا گھوٹنے کے بارے میں کیا خیال ہے۔۔۔! بڑے آئے۔۔۔‘‘

    ’’اسی لیے تو اس نالائق پر مجھے اور بھی غصہ آتا ہے کہ یہ ماں کے پیٹ میں رہنے کی بجائے باپ کے پیٹ میں کیوں نہیں رہا۔‘‘ گڈو اپنی ہنسی نہ روک سکے۔ مگر ادھر غصے کو لگام نہ ملی۔۔۔ بولیں، ’’واہ غصہ کرو، کوسو کاٹو اپنے پیاروں کو، میرا یہی تو ایک بچہ ہے، یہی میری زندگی کا آسرا ہے۔ میری آنکھوں کا نور۔۔۔ میرا یہی سلامت رہے، اب مجھے موت بلانے کو اور بچے نہیں چاہئیں۔ میں تو اپنے اس لال کے لیے اپنی زندگی کی بھوکی ہوں، اسی طرح کبھی ہسپتال میں چیخ چیخ کر مرگئی تو تمہارا کیا جائے گا، تم دوسری کر لاؤگے۔ اور وہ تمہارے لیے بچوں کی فوج تیار کردے گی۔۔۔‘‘ اب اس نے ہچکیاں لے لے کر رونا شروع کر دیا۔

    گڈو کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ اس وقت کس طرح ہمدردی کریں۔ انہیں اس مچلی ہوئی عورت کے جذبات کے الجھاؤ کا پورا پورا احساس تھا۔ معاملہ کافی سنجیدہ تھا، اور وہ خود ایک ڈاکٹر کی طرح اس معاملے کو سمجھ رہے تھے مگر پھر بھی وہ حیران تھے کہ اپنی تائیدی رائے اس وقت کیونکر اس کے دماغ میں ٹھونسیں۔ جو بات کرتے الٹی پڑتی، چمکارنا، سہلانا چاہا تو محترمہ کے احساس کی کڑیاں ایک اور بچے کی پیدائش سے جا کر ملنے لگیں۔۔۔ بچے سے نفرت کا اظہار کیا تو اور بھی غضب ہوگیا۔ پھر کیا اب سر کےبل کھڑا ہوا جائے۔ چائے ٹھنڈی برف ہو چکی تھی۔ گڈو نے سہارے کے لیے ایک سگریٹ سلگایا، اور جلدی جلدی کش لگانے لگے۔۔۔ دفتر سے کیا کیا ارمان لے کر چلے تھے کہ شام اس طرح گزاریں گے۔ اس طرح گزاریں گے۔۔۔ مگر یہاں کوئی تک نہیں۔۔۔ گڈو نے ایک طویل ٹھنڈی سانس لی اور نرم نرم گھنگھریالے بالوں میں انگلیاں پھنسا لیں۔

    ’’ہاں اب منہ بنا کر بیٹھ گئے۔ میں تمہیں مجبور نہیں کرتی۔ میں جانتی ہوں کہ تم میرے ساتھ موجودہ صورت حال میں خوش نہیں رہ سکتے۔ تم کیا کوئی مرد بھی نہیں رہ سکتا۔ میری بدنصیبی! تم دوسری شادی کر لو۔ میں تمہارے گھر کے ایک کمرے میں اپنے ننھے کے ساتھ رہ کر جی لوں گی۔۔۔ تمہیں خوش دیکھ کر میں خوش ہو جایا کروں گی۔‘‘ اس کے تھکے ہوئے بیمار چہرے پر صدیوں پرانی عورت کا روایتی ایثار نور بن کر جھماجھم برس رہا تھا۔

    ’’افوہ بھئی، تم کتنی عجیب ہو، تمہیں خود کو تکلیف پہنچا کر کیا مزا آتا ہے۔ اب اس وقت دوسری شادی کا کیا سوال اٹھ بیٹھا؟‘‘

    ’’اب صورت حال تبدیل ہونے سے رہی، بیوی صرف کھانے پہننے بھر کی تو نہیں ہوتی، اب بنو نہیں! ایک نہ ایک دن یہ سوال اٹھے گا، مرد ذات۔‘‘

    ’’جہنم میں ڈالو، دو سال پہلے بھی شادی کے بغیر جیا تھا۔‘‘

    ’’ہنھ! جب کی اور بات تھی۔‘‘

    ’’اب میں تمہیں کیسے سمجھاؤں۔ بابا ان چیزوں کے بارے میں مت سوچا کرو۔ تم رات دن یہی فضول باتیں سوچ کر کڑھتی ہو، اسی لیے تو خون نہیں بنتا۔‘‘

    ’’کڑھوں کیسے نہ، جو مجھ پر گزر رہی ہے بس میں ہی جانتی ہوں۔ ایک طرف گھریلو جنت ہے۔ جس کے پیچھے بچے کی صورت میں موت چھپی بیٹھی ہے۔ دوسری طرف۔‘‘

    ’’جہنم میں جائے یہ شاعری۔۔۔ ارے بابا ضروری تو نہیں کہ درجنوں بچوں کے بغیر میاں بیوی کی نہ بنے۔۔۔ میں کہہ چکامجھے اور بچے نہیں چاہئیں۔‘‘

    ’’تم نہ چاہو جب بھی بچہ ہوسکتا ہے، اور میری موت آجائے گی۔ یقینی بات تو کچھ نہیں۔‘‘

    ’’ہے کیوں نہیں، میڈیکل سائنس۔۔۔‘‘

    ’’بالکل نہیں۔ تم مجھے بے وقوف نہ بناؤ۔‘‘

    ’’اچھا سب باتوں کو جانے دو، آؤ ہم عہد کرلیں کہ ہم دونوں دوستوں کی طرح زندگی گزاریں گے۔ بس اب مطمئن ہو جاؤ۔‘‘ گڈو نے نہایت آسمانی قسم کے لہجے میں کہا، اور اپنی گڑیا کا ہاتھ زور سے دبایا۔۔۔!

    ’’پھر۔۔۔ ہائے اللہ ابھی کہا تھا دوستوں کی طرح۔۔۔؟‘‘

    ’’تو کیا دوست ایک دوسرے کو چھوتے نہیں؟‘‘

    ’’ہمیں ایسا ہی دوست ہونا چاہیے۔۔۔ مجھے ڈر لگتا ہے اگر کہیں؟‘‘

    ’’نہیں اس کی شرط نہیں۔ اب ایام جاہلیت کی باتیں نہ کرو۔ پھر تم کہوگی کہ ہم الگ الگ گھر میں رہیں۔ پھر کہو گی میں تم سے پردہ کروں گی۔ بھئی مجھ پر بھروسہ کرو۔‘‘

    ’’وعدہ ہے، پکی بات، دیکھو پھر نہ جانا۔‘‘

    ’’تمہیں بھی ایک وعدہ کرنا پڑے گا!‘‘

    ’’کیا؟‘‘

    ’’دوا وقت پر پیوگی، خوب کھاؤگی، میرے ساتھ سیر کو جایا کروگی اور کچھ سوچا نہ کروگی۔۔۔ تاکہ تم جلد از جلد نارمل ہو جاؤ۔‘‘

    ’’ہوں اب دیکھو، تم سمجھتے ہو کہ میں ان دنوں پاگل ہوں۔۔۔ جلدی سے دماغ درست ہو جائے تاکہ۔۔۔ آں؟‘‘

    ’’نہیں ہرگز نہیں! اب دوسری بات سنو، بے بی کی زیادہ فکر نہ کیا کرو، ابھی سے اس کے اتنے لاڈ کروگی تو بالکل بگڑ کر رہ جائے گا۔ ایسے بچے بڑھ کر دو کوڑی کے نہیں رہتے۔‘‘

    ’’واہ، اب تم نے ماں بچے کے تعلقات میں دخل اندازی شروع کردی، میرا ایک ہی بچہ ہے۔ میں خوب جانتی ہوں اس کی بہتری کے لیے مجھے کیا کرنا ہے۔‘‘

    ’’تو اس کا مطلب یہ ہے کہ باپ کو محبت نہیں ہوتی اپنے بچے سے؟‘‘

    ’’کیا معلوم ہوتی ہے یا نہیں؟ ماں کے برابر نہیں ہوتی۔ کبھی نو مہینے جھیل کر جنم دو تو پھر پوچھیں۔۔۔ ابھی تم نے اسے کوسا تھا، میرا کلیجہ پھٹ گیا تم سے۔‘‘

    ’’اے لو، پھر وہی باتیں۔ اچھا بابا، خوب لاڈ پیار کر کے ستیاناس کرو اس کا۔ چونکہ میں نے اسے نو مہینے پیٹ میں نہیں رکھا، اس لئے مجھے محبت کرنے کا کیا حق ہے؟‘‘ گڈو نے اب سنجیدگی سے منہ پھلایا۔

    ’’ہاں اگر محبت ہوتی تو اس کے لئے کچھ کرتے نا۔۔۔ کہا تھا ایک بچہ گاڑی خرید دو، اسے لٹا کر سیر کو بھیجا کریں گے، گود میں لدے لدے بچے کی عادت بگڑ جاتی ہے، تو جناب نے نوٹس تک نہ لیا۔ تمہیں تکلیف تھوڑی ہوگی، اگر آیا کبھی چلی گئی تومجھے ہی کندھے پر لادے پھرنا پڑے گا۔‘‘

    ’’نوٹس کیوں نہیں لیا تھا۔۔۔ میں نے کہا تھا کہ بجٹ ذرا گڑبڑ ہے، دو ایک مہینے میں لے لیں گے، مگر اب تم نے جھوٹ بولنا بھی سیکھ لیا ہے۔ اور پھر میں پوچھتا ہوں کہ تمہیں ایسا ہی چاؤ تھا تو خود جا کر گاڑی خرید لاتیں۔ دیکھو جان۔۔۔ تمہیں معلوم ہے کہ دفتر سے آ کر میں تھک جاتا ہوں، وقت بھی اتنا نہیں ہوتا کہ۔۔۔‘‘

    ’’ہاں اگر محبت ہوتی تو وقت نکل سکتا تھا۔۔۔ میں بیمار ہوں، اس حالت میں بازار میں گھومتی پھروں۔۔۔ جھک مار کر میں ہی گئی آج۔۔۔ پھر کہتے ہو مجھے مظلوم بننے کی عادت ہے۔‘‘ اس کی پلکیں پھر بھیگیں۔

    ’’اچھا جبھی تو میں کہوں کہ آج میری گڑیا کیوں اس قدر چڑچڑا رہی ہے۔ بازار گئی تھیں۔۔۔ گاڑیاں دیکھیں۔۔۔ کوئی پسند آئی؟ پہلی تاریخ کو چل کر لے آئیں گے۔‘‘

    ’’ہر کام پہلی پر ٹالو۔۔۔‘‘ وہ بدبدائی۔

    ’’آیا! بے بی کو لے آؤ۔‘‘ اب وہ گویا ہر طرف سے بے تعلق ہو گئی۔ آیا صاحبہ خوشی سے نہایت فراخ قسم کی ہنسی ہنستے ایک بچہ گاڑی اندر دھکیلتے اندر تشریف لائیں۔

    ’’اوہو۔۔۔ تو یہ کہو تم گاڑی لے بھی آئیں۔‘‘ گڈو حیران ہو کر کھڑے ہو گئے۔ ’’خوب بھئی! ایسی بیویاں سب کی ہوں تو گھر جنت لگنے لگے۔‘‘

    وہ کچھ نہ بولی۔ اس نے بچے کے لیے ہاتھ پھیلادیے۔ بچے نے گاڑی سے اٹھائے جانے پر شدید احتجاج کیا، مگر ماں کی گود سونگھ کر کوں کوں کرنےلگا۔ گڈو نے ہر طرف سے گھوم پھر کر گاڑی کو دیکھا۔ انگلی سے چھوا، ہتھیلی پھیری، پھر اس پر زور دے کر اسپرنگ کی مضبوطی آزمائی۔

    ’’بڑی خوبصورت ہے، کیوں کتنے کی ملی؟‘‘ اس کے بجائے آیا نے جواب دیا، ’’ایک سو چالیس کی جی!‘‘

    ’’میں تو کہوں تھی جی، چھوٹی گاڑی لے لو، پچاس روپے کی تھی، بالکل کرسی لگے تھی۔ پھر بھی میم صاحب بولیں چھوٹی گاڑی میں ایک بچہ بیٹھ سکے گا۔ فر میں کہا جی یہ بات تو ہے۔ ہمارا بے بی چاہے پاؤں چلے، پرجی جب چھوٹا بے بی گاڑی میں بیٹھے گا تو ہمارا یہ بے بی جد کرے گا۔ اس واسطے جی بیگم صاحب بولیں بڑی گاڑی لینا چہیے۔ دیکھو جی صاحب بہت بڑا گاڑی ہے، دو تین بے بی تو بیٹھ جائے گا۔۔۔ کیوں جی صاحب!‘‘ آیا نے داد طلب نظروں سے گڈو کو دیکھنا شروع کیا۔ گڈو پہلے تو حیران ہوئے، پھر سٹپٹاکر مسکرانے کی کوشش کی، اور پھر اچانک قہقہوں پر قہقہے کر ہنسنے لگے۔

    وہ بے بی کو دوپٹے میں چھپائے کرسی پر آلتی پالتی مارے سنجیدگی سے بیٹھی تھی۔ گڈو کو اس کا یہ روپ پہلی بار اتنا نیا، اتنا پیارا، اتنا خالص اور اتنا نکھرا ستھرا لگا جیسے نیلے طوفانی سمندروں کا جھاگ۔ وہ جھاگ جو لہروں کے اترنے پر کسی چٹان پر پڑا مزے سے سارا تماشا دیکھ رہا ہو۔

    مأخذ:

    سب افسانے میرے (Pg. 298)

    • مصنف: ہاجرہ مسرور
      • ناشر: مقبول اکیڈمی، لاہور
      • سن اشاعت: 1991

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے