Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

بھاگوتی

بلراج مینرا

بھاگوتی

بلراج مینرا

MORE BYبلراج مینرا

    کہانی کی کہانی

    بھاگوتی غربت سے پیدا ہونے والے مسا ئل پر مبنی افسانہ ہے۔ بیوہ بھاگوتی کے پاس کوئی ذریعہ معاش نہیں ،اپنی بیٹی کی پرورش اور زندگی گزرانے کے لیے اسقاط حمل کروانے کا پیشہ اختیار کر لیتی ہے۔ اس طرح لوگوں کے گناہوں کی بھی وہ رازدار ہے۔ اس لیے لوگ اس سے بڑی خوش دلی سے پیش آتے ہیں۔ اپنے پیشے کےسارے گر وہ اپنی بیٹی کو سکھا دیتی ہے۔ اس کے اس پیشے میں بنواری نام کا لڑکا اس کی مدد کرتا ہے۔ بھاگوتی اسے اپنے بیٹے کی طرح عزیز رکھتی ہے۔ ایک دن اس کی بیٹی کونین کی گولیاں بڑی بےصبری سے تلاش کرتی ہے۔ بھاگوتی کے پوچھنے پر معلوم ہوتا ہے کہ وہ خود اپنے لیے تلاش کر رہی ہے بنواری کا نطفہ اس کی کوکھ میں پل رہا ہے۔

    بھاگوتی تھکی ماندی گھر پہنچی اور دھڑام سے چارپائی پر گر پڑی۔

    دھن پتی دروازے کی جانب پشت کئے الماری میں سے کونین نکال رہی تھی۔ وہ غیر متوقع دھماکے کی آواز سن کر سہم گئی۔ گھبراہٹ میں اس کے ہاتھ میں سے کونین کی شیشی پھسل کر فرش پر جا پڑی اور چکنا چور ہو گئی۔

    شیشی کے ٹوٹنے کی آواز سن کر بھاگوتی نے ہانپتے ہوئے کروٹ لی اور الماری کی طرف دیکھا جہاں دھن پتی کھڑی تھی اور اس کی جانب سہمی ہوئی نظروں سے دیکھ رہی تھی۔

    بھاگوتی نے نگاہوں سے دلاسہ دیتے ہوئے دھن پتی سے پوچھا،

    ’’کون ہے بیٹا! کونین کس کو دے رہی ہو۔ لاجو کو؟ لاجو تو صبح مجھ سے لے گئی تھی۔‘‘

    دھن پتی ماں کی بات سن کر کانپ گئی جیسے سرد ہوا کا تیز جھونکا اس کے ننگے بدن کو چھو گیا ہو۔

    ’’ارے ہوا کیا، شیشی ہی تو ٹوٹی ہے نا۔ وہ سامنے جو صندوق رکھا ہوا ہے اس میں ایک اور شیشی رکھی ہوئی ہے۔ اسے نکال کر گولیاں دے دو۔ پھر ٹوٹی ہوئی شیشی کو سمیٹ لینا۔ ہاں مگر یہ گولیاں کس کو دے رہی ہو۔‘‘ بھاگوتی نے بیٹی کو بڑے لاڈ سے دلاسہ دیا۔

    دھن پتی نے ماں کی جانب دیکھا۔ بھاگوتی کی آنکھیں جھیل کے پانی کی طرح ٹھہری ہوئی تھیں۔ وہ اوندھی لیٹی ہوئی اس کی طرف دیکھ رہی تھی۔ اس نے متزلزل آواز میں جواب دیا، ’’ماں۔۔۔ وہ۔۔۔ وہ ہے نا۔۔۔ وہ۔‘‘ دھن پتی کی آواز ڈوب گئی۔ اس کے جسم میں کپکپی کی لہر دوڑ گئی۔ وہ ماں کی نگاہوں کی تاب نہ لاسکی اور فرش پر جھک کر کونین کی گولیاں اور شیشے کے ٹکڑے اکٹھے کرنے لگی۔

    بھاگوتی نے دھن پتی کی طرف غور سے دیکھا۔ گولیاں اکٹھی کرتے ہوئے اس کے ہاتھ لرز رہے تھے۔ اس کا سر حد درجہ جھکا ہوا تھا جیسے اس کے سر پر بوجھ ہو۔ دھن پتی کی یہ حالت دیکھ کر بھاگوتی یکایک بڑے زور سے چونکی۔ چونکنے کے ساتھ ہی اس کی ٹھہری ہوئی آنکھیں ابلنے لگیں۔ اس نے عقاب کی سی نظروں کے ساتھ دھن پتی کا سر سے پاؤں تک جائزہ لیا۔ اسے دھن پتی کا کھلا ہوا رنگ زرد دکھائی دینے لگا اور وہ جان گئی۔ دھن پتی کو نین کی گولیاں کسی اور کے لئے نہیں، خود اپنے لیے نکال رہی تھی۔

    بھاگوتی کا سارا جسم غصے کے مارے کانپنے لگا۔ وہ اچھے ڈیل ڈول کی عورت تھی۔ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ وہ فوراً دھن پتی کا خون کر دےگی۔ وہ تھکی ماندی تو تھی ہی، اب اسے ایک اور جھٹکا لگا تھا۔ اسے تمام جسم میں ٹیس اٹھتی محسوس ہونے لگی۔ اس کی تمام قوتیں منتشر ہو رہی تھیں۔ وہ ایک جھٹکے کے ساتھ چارپائی سے اٹھ کھڑی ہوئی۔ بڑی مشکل سے اس نے خود پر قابو پایا اور اس نے اپنی تمام منتشر قوتوں کو یکجا کر کے دھن پتی سے کہا، ’’دھن پتی، تیرے پیٹ میں بچہ ہے!‘‘

    دھن پتی ماں کو چارپائی سے اٹھتا دیکھ کر ٹھٹک گئی تھی۔ اس کے ہاتھ سے کونین کی جمع کی ہوئی گولیاں چھوٹ گئیں۔ ماں کی بات سن کر وہ نادانستہ طور پر کھڑی ہو گئی۔ اس وقت اسے ذلت سے زیادہ ڈر محسوس ہو رہا تھا۔ اس کا دل بڑے زور سے دھک دھک کر رہا تھا۔ اس کی ہڈیوں میں تھکن بھر گئی تھی۔ وہ گھبراکر اپنی انگلیاں چٹخانے لگی۔

    بھاگوتی کو دھن پتی کی گھبراہٹ پر غصہ آ رہا تھا۔ وہ بڑے زور سے چلائی، ’’دھن پتی بول، تیرے پیٹ میں کس کا بچہ ہے؟‘‘

    بھاگوتی غصے سے تھر تھر کانپ رہی تھی۔ دھن پتی خاموش رہی۔

    بھاگوتی غصے کی حدود کو تجاوز کر چکی تھی۔ اس کا تھکا ہارا جسم ستار کے تاروں کی طرح تن گیا تھا۔ اس کے بازو اکڑ گئے تھے، مٹھیاں بھنچ گئی تھیں۔ بھاگوتی نے چاہا کہ وہ بڑھ کر دھن پتی کا منہ نوچ لے مگر وہ اپنی جگہ سے ہل نہ سکی۔ اس کے پاؤں سن ہو گئے تھے۔ بھاگوتی نے کرب کی شدت سے چلا کر کہا، ’’کس کا بچہ ہے؟‘‘

    بھاگوتی کی چیخ سن کر دھن پتی کا دم سا نکل گیا۔ اس نے مری ہوئی آواز میں جواب دیا، ’’بنواری کا۔‘‘

    بھاگوتی دوسرے لمحے ہی بےجان ہو گئی۔ اس کا کمان کی طرح تنا ہوا جسم ڈھیلا ہو گیا جیسے کمان کی ڈوری ٹوٹ گئی ہو۔ وہ چارپائی پر بے دم سی ہوکر گر پڑی اور اس کے منھ سے ’’ذلیل، کمینی، ذلیل، کمینی‘‘ کی آوازیں جھاگ کی طرح نکلنے لگیں۔ تھوڑی دیر بعد بھاگوتی کو محسوس ہوا کہ اس کے کان پھٹ رہے ہیں۔ وہ شدت جذبات سے دھاڑیں مارنے لگی۔ اس کا سر چکرا گیا اور اس کی آنکھوں میں دھند سی چھا گئی جس کے پیچھے اسے محلے والے منھ پھلائے ہوئے اس پر تھوکنے کے لئے آتے دکھائی دیے۔ جب اس کا ذہنی کرب اسے جھنجھوڑ چکا تو وہ پسینے میں شرابور ٹانگیں پھیلا کر چارپائی پر دراز ہو گئی اور دنیا کے آئینے میں اپنا عکس دیکھنے لگی۔

    بھاگوتی کو اس محلے میں رہتے ہوئے سات سال ہوگئے تھے۔ اس مدت میں اس کی خاموش طبیعت نے محلے والوں پر اچھا اثر ڈالا تھا۔ اس کے متعلق سب یہی جانتے تھے کہ بیوہ عورت ہے، اکلوتی بچی کے ساتھ خوشگوار زندگی گزار رہی ہے۔ دائی کا کام کرنے سے واجبی پیسے مل جاتے ہیں۔ مختصراً یہی کہا جا سکتا ہے کہ وہ محلے والوں کے نزدیک قابل رشک زندگی گزار رہی تھی۔ محلے والوں کی نظر میں اس کی عزت اس لیے بھی تھی کہ سات سال کے عرصے کے دوران تقریباً ہر گھر میں بچے کی پیدائش بھاگوتی کے ہاتھوں ہوئی تھی۔ اس کے ہاتھوں کتنے ہی ننھے منے گل گوتھنے پھلے پھولے تھے۔ اس نے اپنی محنت کا معاوضہ محلے والوں سے کبھی نہیں لیا تھا۔ حالانکہ محلے والے زچہ کے بستر سے اٹھنے کے بعد اسے کپڑوں یا حیثیت کے مطابق زیورات کی صورت میں فرض کی ادائیگی کر دیا کرتے تھے۔

    جب بھاگوتی اس محلے میں آئی تھی اس کی عمر تیس کے لگ بھگ تھی۔ اس کا رنگ سانولا تھا، مگر نکھرا ہوا تھا۔ جسم بھرا بھرا اور تنا ہوا تھا۔ بول چال، چہرے کے اتار چڑھاؤ اور اس کے ہاتھ دیکھ کر محسوس ہوتا تھا کہ بڑی سخت جان او رمضبوط ارادے کی عورت ہے۔ دھن پتی اس وقت دس سال کی تھی۔ اس کی صحت بھی قابل رشک تھی۔ سرخی مائل گورا رنگ، لمبے لمبے سیاہ بال، اور آنکھوں میں شرارتوں کے لیے ان تھک عزم۔ دھن پتی جب ہنستی تھی، اس کے جسم کا ہر رنگ اس کی ہنسی میں شریک ہوتا تھا۔ دھن پتی خوبصورتی اور معصومیت کا مجسمہ تھی۔ وہ بھاگوتی کی بیوگی کے لئے سب سے بڑا ذہنی سکون تھا۔

    بھاگوتی نے جب خود ہوش سنبھالا تھا، اس وقت اس نے اپنے آپ کو نالے کے پاس غلیظ سی جھونپڑیوں کی بستی میں پایا تھا جہاں وہ ایک غلیظ، کریہہ المنظر اور زوال پذیر صحت کی عورت کے ساتھ رہتی تھی جو ٹونے ٹوٹکے کیا کرتی تھی۔۔۔ عمر کے ساتھ ساتھ اس گندی جھونپڑیوں کی بستی میں اس نے اسقاط حمل کے طریقے سیکھے تھے۔ بڑھیا کی موت کے بعد بھاگوتی کو مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ مالی مشکلات سے بچنے کے لئے اس نے اسی بستی کے ایک شخص سے شادی کری۔ دادا گیری اس کے خاوند کا شعار تھی۔ کبھی وہ پیسے لے کر جلد گھر آجاتا اور کبھی اس کی صورت دیکھے بھاگوتی کو ہفتے گزر جاتے۔

    ابھی وہ حاملہ ہی تھی کہ اس کا خاوند ایک بلوے میں مارا گیا۔ خاوند کی زندگی ہی میں اسے پیٹ بھر کے روٹی نصیب نہیں ہوئی تھی، اب خاوند کی موت کے بعد اسے روکھی سوکھی روٹیوں کے لالے پڑ گئے۔ اس کے سامنے مالی مشکلات کا پہاڑ کھڑا تھا۔ حمل کے ایام میں اس نے لوگوں کے برتن صاف کر کے پیٹ بھرا۔ دھن پتی کی پیدائش کے بعد اس نے کئی جگہ نوکری کی، مزدوری کی مگر اس نے خود کو کسی جگہ محفوظ نہ پایا۔ اس کی جوانی دیکھ کر بڑے بڑے لوگ عرش سے فرش پر اتر آتے تھے۔

    آخر بھاگوتی کے لئے اس کے سوا اور کوئی چارہ نہ رہا کہ وہ بستی میں سیکھے ہوئے طریقوں سے اسقاط حمل کا کام شروع کر دے۔ اس کام میں اسے اپنی حفاظت دکھائی دیتی تھی۔ وہ سوچتی تھی کہ بدنامی، ذلت اور شرم کے مارے ہوئے لوگ اس کے پاس آیا کریں گے۔ انہیں اس پر نظر اٹھانے کی ہمت ہی نہ ہوگی بلکہ وہ خود اس کے رحم و کرم پر ہوں گے کیوں کہ ان کے راز اس کے پاس رہن ہوں گے۔ آخر اس نے اسقاط حمل کا کام شروع کر دیا۔

    چند ہی دنوں میں اسے ایک دنیا جاننے لگی۔ ہر طبقے کی لغزشوں کے نشانات اس کے ہاتھوں مٹنے لگے۔ اس کے ہاتھوں پر سختیوں کے نشانات جم گئے۔ اس کے ہاتھوں میں مزدور کی سی توانائی آ گئی۔ وہ مزدور ہی کی طرح ان تھک محنت کرتی تھی کیونکہ اس کے سامنے زندگی کے پہاڑ جیسے ان گنت سال کھڑے تھے اور اس کے ساتھ ایک اور معصوم جان بندھی ہوئی تھی۔

    حمل کے اسقاط کا عمل شروع کرنے سے پہلے وہ مریض کو کہہ دیا کرتی تھی کہ جان بحق ہونے کی صورت میں وہ ذمہ دار ہرگز نہیں ہوگی۔ مگر لوگوں کو اس پر اتنا یقین تھا کہ وہ اسقاط کے دوران عمل تمام تکالیف بھول جایا کرتے تھے۔ لوگ اس لئے اس کے پاس آیا کرتے تھے کیوں کہ اس کی باتیں اور دلاسے ان کے لیے مرہم کی حیثیت رکھتے تھے۔ وہ لوگوں کے گھروں میں بھی جا کر اسقاط کیا کرتی تھی اور اگر کسی قسمت کی ماری عورت کے پاس اپنے گناہ کا بوجھ اترنے تک جگہ نہیں ہوتی تھی، بھاگوتی اسے اپنے گھر لے آتی تھی اور اسے دنیا بھر کی رسوائیوں سے نجات دلا کر واپس بھیج دیا کرتی تھی۔ اس کے علاوہ زیادہ تر لوگ اس کے پاس لیے آتے تھے کیوں کہ ان کی لغزشوں کے راز بھاگوتی کے پاس محفوظ رہتے تھے۔

    بھاگوتی کو کبھی اپنے دھندے پر شرمندگی کا احساس نہیں ہوا تھا۔ کبھی کبھی اسے افسوس ہوتا تھا جب وہ خون کے لوتھڑے کو دیکھا کرتی تھی۔ اس وقت اس کے کانوں میں کٹی پھٹی چیلوں کی چائیں جیسی آوازیں گونجا کرتی تھیں اور اس کے بدن میں ایک جھرجھری سی دوڑ جایا کرتی تھی۔ در اصل اسے لوگوں کی کم ہمتی پر افسوس ہوتا تھا۔ جو گناہ کے گڑھوں میں گرنے کے بعد ان گڑھوں میں سے باہر نکلنے کا یہی ذریعہ سمجھتے تھے کہ وہ گناہ کے نقوش کو مٹا دیں۔ وہ نقوش تو بھاگوتی کے نزدیک پھول تھے جو گناہ کی بدبو پر فتح پانے کے لئے پھوٹتے تھے مگر جنہیں وقت سے پہلے ہی مسل دیا جاتا تھا۔ مگر وہ پھر بھی اپنا دھندا کئے جاتی تھی۔ جب وہ کسی زرد سی عورت کو سر جھکائے، پیٹ میں بوجھ لیے دیکھتی تھی تو فوراً اس کی مدد کرنے پر تیار ہو جاتی تھی۔

    نئے محلے میں آنے کے بعد اس نے دائی کا کام شروع کر دیا۔ جب اس کے ہاتھوں کسی کے حمل کا اسقاط ہوتا تھا، اس کی الجھن اس وقت دور ہو جاتی تھی جب اس کے ہاتھوں کسی بچے کی پیدائش ہوتی تھی۔ ویسے اس کے نزدیک دونوں حالتیں ایک بوجھ تھیں اور وہ اس بوجھ سے چھٹکارا دلانے میں لوگوں کی خاطر خواہ مدد کیا کرتی تھی۔ وہ سمجھتی تھی کہ سماجی بندھنوں کی وجہ سے ایک حالت میں بوجھ سے جلد جھٹکارا حاصل کر لیا جاتا ہے اور دوسری حالت میں مقررہ وقت پر۔ ہاں اگر کوئی جی والا ہو تو پہلی حالت بھی دوسری بن سکتی ہے۔

    چند ہی سالوں میں بھاگوتی کا کام بہت بڑھ گیا۔ انہی دنوں اس کے پاس بنواری آنے لگا۔ سیاہ رنگ اور واجبی سے خدو خال کا چغد سا نوجوان۔ وہ لوگوں کو بھاگوتی کے پاس لایا کرتا تھا۔ بھاگوتی نے زندگی میں کبھی کسی کو ناپسند نہیں کیا تھا۔ وہ اسے گھر کا ایک فرد ہی سمجھتی تھی اور اس سے اتنی ہی محبت اور شفقت سے پیش آتی تھی جیسے دھن پتی کی طرح وہ بھی اس کی کوکھ سے پیدا ہوا ہو۔ اسے بنواری سے کبھی کسی قسم کے نقصان پہنچنے کا احتمال نہ تھا۔

    وقت کی اڑان کے ساتھ ساتھ بھاگوتی کو دھن پتی کی سوجھ بوجھ کا احساس ہوتا چلا گیا۔ وہ دھن پتی کی ہر بات، ہر حرکت کا خیال رکھتی اور اس کے ذرا اور بالغ نظر ہونے کا انتظار کرنے لگتی۔ دھن پتی جب سولہ سال کی ہوئی تو بھاگوتی نے اسے آہستہ آہستہ اسقاط کے گر بتانے شروع کئے اور اسے اپنے کام میں شریک کرنے لگی۔

    اسقاط کے سارے گر دھن پتی کو یاد ہو گئے تھے۔ اس نے ماں کی نگرانی میں آزادانہ طور پر کام شروع کر دیا تھا۔ اب ان کے مریضوں کی تعداد کہیں زیادہ تھی۔ بنواری بہت زیادہ لوگوں کو لانے لگا تھا۔ بھاگوتی جب دھن پتی کو تند ہی سے کام کرتے دیکھتی تو خوش ہوتی اور سوچتی کہ کچھ مدت بعد اس کے آرام کے دن شروع ہوں گے۔۔۔ کچھ مدت بعد اس کے خیال کے مطابق دھن پتی سارا کام سنبھالنے کی اہل ہو جائےگی۔ مگر آرام اس کی قسمت میں نہیں تھا۔

    دنیا کے آئینے میں اسے اپنا تمام جسم رستے ہوئے پھوڑوں سے بھرا دکھائی دیا جن کی کوئی شکل نہیں تھی۔ بالکل خون کے لوتھڑوں کی طرح۔ اسے محسوس ہوا کہ سب پھوڑے خون کے لوتھڑے ہیں جن کی وہ واحد ذمہ دار ہے۔ اسے جھرجھری سی آ گئی اور اس نے ڈرتے ڈرتے بڑی مشکل سے آنکھیں کھولیں، جیسے محلے کے لوگوں کا ہجوم باہر کھڑا ہو اوراس کوڑھ کی ماری کو محلے سے باہر نکالنے پر بضد ہو۔

    صبح کی دھندلی روشنی کمرے میں پھیلی ہوئی تھی۔ بھاگوتی نے الماری کی طرف یاس بھری نظروں سے دیکھا جہاں دھن پتی کے ہاتھ سے کونین کی شیشی پھسل کر ٹوٹ گئی تھی، وہاں دھن پتی ایک ہاتھ میں پانی کا گلاس تھامے اور دوسرے ہاتھ میں کونین کی گولیاں لیے، انہیں پھانکنے کو تیار تھی۔

    بھاگوتی رات بھر میں آدھی رہ گئی تھی، مگر کسی برقی قوت کی مدد سے وہ عقاب کی مانند جھپٹی اور دھن پتی سے کونین چھین لی۔ دھن پتی کے لئے یہ سب غیر متوقع تھا۔ اس نے حیرت سے ماں کے چہرے کی جانب دیکھا ہی تھا کہ اس کے منہ پر بھرپور طمانچہ پڑا، ’’کمینی جانتی نہیں کہ حمل گرانا کتنا بڑا پاپ ہے۔‘‘

    دھن پتی کے کانوں میں طمانچے کی سیٹی گونج رہی تھی اور اب بھاگوتی کے الفاظ بھی اس کے کانوں میں زور زور سے چیخنے لگے۔

    مأخذ:

    سرخ و سیاہ (Pg. 145)

    • مصنف: بلراج مینرا
      • ناشر: ایجو کیشنل پبلشنگ ہاؤس، نئی دہلی
      • سن اشاعت: 2004

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے