Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

بھابی جان

محمد امین الدین

بھابی جان

محمد امین الدین

MORE BYمحمد امین الدین

    جنازے کے دہلیز پار کرتے ہی بھابی جان کی آنکھوں میں حیرت سے برف ہوئے آنسو چھلک پڑے۔ وہ غم سے چیخیں نہ درد سے چلائیں، بس ٹک ٹک اپنے محبوب شاعر اور چالیس سال کے رفیق کو جاتے ہوئے دیکھتی رہیں۔ دل و دماغ تو ساری طنابیں رات ہی کو توڑ چکے تھے جب چاروں بیٹے بیٹیوں اور ان کے بچوں کے سامنے اثر بھائی نے کچھ کہے سُنے بغیر آخری ہچکی لی اور سرہانے رکھے قرآن مجید، دیوان غالب اور اپنے پہلے شعری مجموعے کی طرف سر ڈھلکا دیا۔ کمرے میں بکھری ڈھیروں کتابوں میں سے یہی تین کتابیں ہمیشہ ان کے سرہانے رکھی رہا کرتی تھیں۔

    بھابی جان کو برسوں کی دھوپ چھاؤں نے آ گھیرا۔ اپنے محبوب شاعر سے پرانی شکایت ان کے لبوں پر مچل گئی۔

    ’’بغیر بتائے چلے جانے کی عادت تم نے آج بھی نہ چھوڑی‘‘۔

    مگر وہ کہہ نہ سکیں اور زندگی کی اس چلچلاتی دوپہر میں بے سائبان ہوئی یادوں کی کتاب الٹتی پلٹتی رہیں۔ دیر تک لوگ آتے جاتے اور انہیں دلاسہ دیتے رہے۔ مگر وہ کتاب کے کسی خالی صفحے کی طرح بے حرف و بےاحساس ہوکر رہ گئی تھیں۔ وہ تب چونکیں جب دونوں بیٹے اپنے بابا کو دفنا کر لوٹے اور ماں کے پہلو سے لگ کر بیٹھ گئے۔

    بھابی جان نے دونوں کو گلے سے لگا لیا تو سامنے بیٹھی تسبیح کے دانوں پر اللہ کے نام کا ورد کرتی ہوئی دونوں بیٹیاں بھی یکایک ماں سے آکر لپٹ گئیں۔ گھر کی فضا پر اداسی کی ایک اور مہین سی چادر تن گئی۔ بچوں کو سینے سے بھینچے اور اداس آنکھوں سے موتی رولتے وہ فہمید سے مخاطب ہوئیں۔

    ’’بیٹا باہر لوگ بیٹھے ہوں گے۔ تم انہیں جا کر دیکھو‘‘۔

    ’’گھر کے لوگ ہیں، باہر والے تو تمام جا چکے‘‘۔

    ’’کیوں؟ تمہارے بابا کے دوست نہیں آئے تھے؟‘‘

    ’’آئے تھے‘‘۔

    ’’کون کون آئے تھے؟‘‘

    ’’امی میں سب کو کہاں پہچانتا ہوں۔بہت سارے لوگ تھے‘‘۔

    ’’پھر بھی۔۔۔ رضی تھا؟‘‘

    ’’جی ہاں۔۔۔ رضی چچاتھے‘‘۔

    ’’اور عالی جی، یوسفی صاحب، صدیقی صاحب، جمیل بھائی؟‘‘

    ’’جی ہاں! یہ سب آئے تھے‘‘۔

    ’’بہت محبت کرنے والے لوگ ہیں، یہ سب تمہارے بابا کے دوستوں میں سے ہیں۔ بعض دوستیاں تو پچاس پچاس برس پرانی ہیں۔ تمہارے بابا نے شاعری کے علاوہ جو کام کیا، وہ یہی تھا۔ کیا نئے کیا پرانے۔ ان کے نواسوں کی عمر کے شعراء بھی انہیں اثر بھائی اثر بھائی کہا کرتے تھے۔ آئے تو ہوں گے سب؟‘‘

    ’’امی! پچھلے دس برسوں کے دوران بننے والے دوستوں کو میں کہاں پہچان سکتا ہوں۔ ہاں فرداً فرداً سب ہی لوگ مل رہے تھے۔ دانش کا معاملہ تو مجھ سے بھی گیا گزرا ہے۔ یہ ہوسٹل میں رہا ہے۔ لوگ اسے ذرا نہیں پہچانتے اور نہ ہی یہ لوگوں کو جانتا ہے۔ بہرحال! لوگ سوئم کا پوچھ رہے تھے‘‘۔

    ’’تم بتا دیتے‘‘۔

    ’’جی ہاں! میں نے بتا دیا کہ بابا نے بہت پہلے یہ سب کرنے کے لیے منع کر دیا تھا‘‘۔

    ماں بیٹے دیر تک اِدھر ادھر کی مگر اثر بھائی سے جڑی ہوئی باتیں کرکے دل کا بوجھ ہلکا کرتے رہے۔ دانش، کیف اور ثروت بھی دلجوئی کے لیے ساتھ ہی بیٹھے ہوئے تھے۔ دوپہر تک تیموری اور اس کی دونوں بچیوں کے علاوہ باہر کے تمام لوگ چلے گئے۔ جوں ہی گھر میں سناٹا گھسا، اثر بھائی پیچھے سے چلے آئے۔ بھابی جان چونک اٹھیں اور پھر منظر بدلتے چلے گئے۔

    نوجوان بانکے سجیلے اثر بھائی سامنے کھڑے ہوئے تھے۔

    ’’عشرت! میکش صاحب کچھ دن ہمارے ہاں رہیں گے‘‘۔

    ’’یہاں تو پہلے ہی جگہ کم ہے‘‘۔

    ’’کچھ دن کے لیے ہم اپنا کمرا انہیں دے دیں گے۔ جب اپنا ٹھکانہ ڈھونڈ لیں گے تو دونوں میاں بیوی یہاں سے چلے جائیں گے‘‘۔

    ’’یا اللہ خیر! یہ بیوی کہاں سے آ گئیں؟‘‘

    ’’اسی بات پر تو ان کے ابا نے انہیں گھر سے نکال دیا ہے۔ یہ ٹِک کر کوئی کام کرتے نہیں ہیں اور شادی کر بیٹھے ہیں۔ بہرحال ہمارے دوست ہیں، خیال تو کرنا پڑےگا‘‘۔

    ’’آپ تو بس۔۔۔‘‘

    ’’عشرت! بھئی آج دوست احباب دیر تک بیٹھیں گے۔ چائے کا انتظام کرلیجئےگا‘‘۔

    ’’سارا دن گھر جھاڑتے جھاڑتے تھک گئی ہوں‘‘۔

    ’’تمہیں رات والی غزل کی قسم‘‘۔

    ’’آپ تو بس۔۔۔‘‘

    ’’عشرت! یہ لو میرے پہلے مجموعے کا پہلا نسخہ تمہارے نام‘‘۔

    ’’بہت بہت مبارک ہو۔ خدا کرے آپ کا یہ مجموعہ آسمان ادب پر کہکشاں کی طرح چمکے‘‘۔

    ’’آج میرے سارے دکھ، سارے غم، ساری کلفتیں دور ہو گئیں۔ یہ میری پہلی معنوی اولاد ہے۔ اس کا انتساب تمہارے نام ہے‘‘۔

    ’’آپ تو بس۔۔۔‘‘

    ’’عشرت! میری وہ غزل کہاں ہے، جو مجھے ریڈیو پر پڑھنی ہے؟‘‘

    ’’دیوانِ غالب کے بیچ میں ہے۔ ایسے ہی اِدھر سے ادھر اڑتی پھر رہی تھی۔ آپ کو اور آپ کی چیزوں کو مجھے بچوں کی طرح سنبھالنا پڑتا ہے‘‘۔

    ’’بھئی میں نے اپنے رب سے دعا مانگی تھی کہ میرے رب! جتنا میں غیر منظم ہوں مجھے اتنی ہی منظم بیوی عطا کر۔ دیکھ لو خدا نے میری سن لی‘‘۔

    ’’آپ تو بس۔۔۔‘‘

    ’’عشرت! فلاں۔۔۔‘‘

    ’’آپ تو بس۔۔۔‘‘

    ’’عشرت!یہ۔۔۔‘‘

    ’’آپ تو بس۔۔۔‘‘

    منظر روشنی کی رفتار سے بدلنے لگے۔ بانکے سجیلے اثر بھائی بوڑھے اور بھابی جان اپنے محبوب شاعر سے قریب سے قریب تر ہوتی چلی گئیں۔ حتیٰ کہ وہ اثر بھائی کے ساتھ شاعری کے تمام پہلوؤں پر خوب گفتگو کیا کرتیں۔ فہمید، دانش، کیف اور ثروت بڑے ہوگئے۔ فہمید نے زمین میں چھپے ہوئے خزانوں کا علم حاصل کیا اور وزارتِ معدنیات میں ریسرچ آفیسر مقرر ہوکر بلوچستان میں تعینات ہو گیا۔ دانش نے کیڈٹ کالج سے تعلیم حاصل کی اور پھر وہیں سے ایئرفورس میں چلا گیا۔ کیف اور ثروت بھائیوں سے چھوٹی تھیں، لیکن شادی کے بندھن میں پہلے بندھیں۔ تب گھر میں سُونے پن نے ڈیرے ڈال دیئے۔ اثر بھائی اور بھابی جان ایک دوسرے کا دل بہلانے کی کوشش کرتے۔ ہفتے کی رات گھر میں شاعروں کی محفل جم جاتی اور رات گئے تک گھر میں قہقہے بکھرتے۔ بھابی جان آنے والے شعراء کو چائے بسکٹ اور گھر کے لگے ہوئے پان کھلاتیں۔ ان ہی دنوں ٹیسٹ رپورٹوں سے پتا چلا کہ دونوں شوگر کے مرض میں مبتلا ہیں۔ دونوں تنہائی کے مارے اور احتیاط پسندی سے دور تھے، لہذا آگاہی کے باوجود زندگی میں کوئی تبدیلی لانے کو تیار نہ ہوئے۔ تب دونوں بیٹوں نے شادی کے لیے رضامندی ظاہر کر دی اور کچھ ہی مہینوں میں گھر میں بہویں آ گئیں۔ بھابی جان کی تنہائی دور اور کام کاج کا بوجھ کم ہوا۔ مگر تب بھی وہ اپنے محبوب شاعر کے دوستوں کی دلجوئی کا سامان خود ہی کیا کرتیں۔ چائے بنانے کے لیے دیر تک جاگا کرتیں۔ تب محفل کے سب سے کم عمر شاعر رضی بھابی جان سے کہا کرتے۔

    ’’بھابی جان! آپ کچن میں چائے کی پتی، دودھ، شکر اور برتن نکال کر رکھ دیا کریں۔ جب ہمیں چائے کی طلب ہوگی ،تو ہم خود بنالیں گے‘‘۔

    رفتہ رفتہ بھابی جان یہی کرنے لگیں۔ ایک روز اثر بھائی نے ان سے پوچھا۔

    ’’یہ فہمید کب آرہا ہے؟‘‘

    ’’اگلے ہفتے آئےگا‘‘۔

    ’’اب آئے تو کہنا کہ بیوی کو ساتھ لے کر جائے۔ وہ معصوم یہاں اکیلی انتظار کرتی رہتی ہے‘‘۔

    ’’دونوں بہویں امید سے ہیں، فارغ ہو جائیں تو میں دونوں ہی سے کہوں گی کہ بیوی بچوں کو اپنے ساتھ رکھو‘‘۔

    چند ماہ بعد بڑی بہو بلوچستان اور چھوٹی مسرور بیس منتقل ہو گئیں۔ اثر بھائی اور بھابی جان ایک بار پھر اکیلے رہ گئے۔تنہائی اب کی بار شدت سے اتری۔ دونوں چاہتے تو بہوؤں کو اپنے ساتھ رکھ سکتے تھے۔ بیٹے گاہے بہ گاہے آتے رہتے، لیکن انہیں تو بچوں کی خوشیاں عزیز تھیں۔ دونوں خودکبھی ایک دوسرے سے دور نہیں رہے لہذا گوارا نہ تھا کہ بیٹے بہویں دور دور رہیں۔ یہ تو بچوں کو خوش دیکھ کر خوش ہونا چاہتے تھے۔ اثر بھائی تو پھر بھی ریڈیو، ٹی وی کا چکر لگالیتے، دوست احباب اور شاعروں کی محفل سجالیتے۔ مسئلہ تو بھابی جان کا تھا۔ مگر وہ بھی اپنے محبوب شاعر کے مزاج میں رچی بسی تھیں۔

    ایک دن اثر بھائی کی غزلوں، نظموں کا مطالعہ کرتے ہوئے انہیں ایک خیال سوجھا اور پھر تقسیم سے پہلے پڑھی ہوئی انگریزی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انہوں نے اثر بھائی کی غزلوں، نظموں کا انگریزی میں ترجمہ کرنا شروع کر دیا۔ اثر بھائی نے دیکھا تو خوش ہوئے۔ پھر نشست میں بھابی جان سے انگریزی نظمیں، غزلیں سنیں۔ بہت تعریف ہوئی، اس حوصلہ افزائی نے بھابی جان کو یکایک مصروف کر دیا۔

    وہ اثر بھائی کی شاعری کو تیس برسوں سے پڑھتی چلی آ رہی تھیں اور اس کی روح، لب و لہجہ اور اثر آفرینی سے خوب آگاہ تھیں، جس کا فائدہ انہیں ترجمہ کرتے ہوئے ہو رہا تھا۔ اثر بھائی اکثر ان کے ترجمے کی تعریف کرتے اور پوچھتے۔

    ’’عشرت! یہ اردو زبان کا رچاؤ تم انگریزی میں کیسے لے آتی ہو؟‘‘

    وہ کہتیں۔

    ’’اگر آپ کو جاننے کا دعویٰ کوئی کر سکتا ہے تو وہ صرف میں ہوں۔ مجھے معلوم ہے کہ آپ کون سی غزل اور کون سی نظم کہتے ہوئے کس کیفیت سے گزرے ہیں۔ بس میں اس شعر کا ترجمہ کرتے ہوئے خود پر وہی کیفیت طاری کر لیتی ہوں‘‘۔

    ’’عشرت! میں تمہاری محبت کی شدت کو دیکھتا ہوں تو ڈر جاتا ہوں۔ جانتی ہو علیم اس موقع پر کیا کہتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ اب اس قدر بھی نہ چاہو کہ دم نکل جائے‘‘۔

    ’’عزیز اتنا ہی رکھو کہ جی سنبھل جائے‘‘۔

    بھابی جان نے مسکراتے ہوئے پہلا مصرعہ پڑھا۔ یہی وہ گھڑی تھی جب اثر بھائی کو لگا کہ جیسے کوئی باریک سی سلاخ ان کے دل میں اتار دی گئی ہو۔ یکایک سلاخ سے بھونکا ہوا درد پورے جسم میں پھیل گیا اور وہ پسینے پسینے ہو گئے۔ آنکھوں میں درد بادلوں کی طرح اترا۔ سامنے بیٹھی ہوئی بھابی جان پہلے لہرائیں اور پھر دُھندلانے لگیں۔ انہیں لگا جیسے فرش کاغذ کی کشتی کی طرح پانی پر ہچکولے لے رہا ہو۔ اثر بھائی نے قریب ہی پڑی کرسی کی پشت کو تھامنے کی کوشش کی تو ہاتھ فضا میں لہرا کر رہ گیا اور وہ چکراکر گر پڑے۔

    خزاں رسیدہ موسم میں ساری نظمیں، غزلیں کہی ان کہی رہ گئیں۔ شاخوں سے سوکھے پتے ٹوٹنے کے اس زرد آلود موسم میں اثر بھائی کے جانے کے بعد سب سے پہلے دوست احباب رخصت ہوئے۔ چند روز بعد کیف اور ثروت اپنے سُسرال لوٹ گئیں۔ ہفتے بھر بعدفہمید اپنے بچوں کے ہمراہ بلوچستان چلا گیا۔ بھابی جان کی چھوٹی بہن تیموری کی دونوں بیٹیاں یہیں تھیں، چنانچہ دانش بھی اپنے بیوی بچوں کو لے کر مسرور بیس لوٹ گیا۔ جانے سے پہلے فہمید اور دانش نے بہت چاہا کہ امی کسی ایک بیٹے کے ساتھ ہی چلیں، مگر بھابی جان نے صاف لفظوں میں کہہ دیا کہ یہاں سے کہیں نہیں جاؤں گی۔

    دونوں بیٹوں نے اس لمحے سخت بیزاری کا اظہار کیا۔ تب گھر کی دیواروں پر ٹنگی ہوئی اثر بھائی کی تصویریں دھندلانے لگیں۔

    ’’امی ہماری کچھ مجبوریاں ہیں۔ پہلے صرف نوکری تھی، اب تو بچوں کے اسکول اور نہ جانے کیا کیا مصروفیات رہتی ہیں‘‘۔

    ’’میں کب مجبور کر رہی ہوں کہ یہاں رہو‘‘۔

    ’’آپ اکیلی بھی تو نہیں رہ سکتیں‘‘۔

    ’’رہ سکتی ہوں۔ میں تمہارے بابا کے تمام دوستوں سے کہوں گی کہ جیسے پہلے نشستیں سجاتے تھے، اب بھی اسی طرح سجائیں‘‘۔

    ’’امی! آپ کس دنیا میں رہتی ہیں۔ وہ سارا ہنگامہ بابا کے دم سے تھا۔ ان کے بغیر اب یہاں کوئی محفل برپا نہیں ہوگی۔ آپ یہ بات سمجھنے کی کوشش کیجئے‘‘۔

    ’’میں ان لوگوں سے درخواست کروں گی۔ وہ سب میری بہت عزت کرتے ہیں‘‘۔

    ’’بلاشبہ! آئندہ بھی عزت کریں گے۔ لیکن کچھ لوگ مجمع اکھٹا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ وہ نہیں ہوتے تو لوگ بکھر جاتے ہیں‘‘۔

    ’’اب تو میں خود بھی تمہارے بابا کی شاعری کا ترجمہ کرنے لگی ہوں۔ یہ بات تو اب بڑے حلقے میں جانی جاتی ہے‘‘۔

    ’’امی! آپ سمجھنے کی کوشش کیوں نہیں کرتیں۔ آپ بابا کا سایہ ہیں، بابا نہیں۔ اصل شے اپنی جگہ سے ہٹ جائے تو اس کا سایہ بھی ہٹ جاتا ہے اور بالخصوص تب جب وہ ہستی صاحب محفل بھی رہی ہو‘‘۔

    بھابی جان نہ مانیں اور بچے ناکام لوٹ گئے۔ بھابی جان نے اسی شام اثر بھائی کے ان تمام دوستوں کو فون کرنا شروع کر دیئے جو ہر ہفتے ان کی نشست میں آیا کرتے تھے۔ مگر ہفتے کی رات فہمید کا کہا سچ ہو گیا۔

    بھابی جان بار بار پورچ کی طرف جاتیں۔ گیٹ سے دائیں بائیں جھانکتیں اور مایوس لوٹ آتیں۔ اثر بھائی کے چاہنے والوں میں سے کوئی نہ آیا۔ تب ہی کارپورچ کے سنگی فرش پر وہ بھی اسی طرح لہرا کر گریں، جیسے اثر بھائی گرے تھے۔ انہیں بھی اثر بھائی کی طرح فرش کاغذ کی کشتی کی طرح پانی پر ہچکولے کھاتا ہوا محسوس ہوا۔ سنگی فرش سوکھے پتوں سے اَٹا پڑا تھا۔ خزاں رسیدہ موسم گزرنے میں ابھی کچھ دن باقی تھے۔ رات کو ڈرائنگ روم میں بچھائی گئی چاندنی پر شعری نشست نہ ہو سکی، البتہ صبح اس پر آس پڑوس کے لوگ قرآنی پارے پڑھتے ہوئے پائے گئے۔

    (۲۰۰۶ء)

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے