Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

بھٹی

MORE BYخالدہ حسین

    اس نے وہ اونچا دروازہ کھولا اور باہر کچی سڑک پر نکل آئی۔ ایک چھوٹا سا اٹیچی کیس اس کے دائیں ہاتھ میں جھولتا تھا۔ اس میں راستے کا پورا نقشہ موجود تھا۔ نقشہ جو اب بےکار ہو چکا تھا۔ اس نے طے کیا تھا کہ وہ اس نقشہ پر نگاہ نہ ڈالے گی۔ بس ایک سمت کا احساس صحیح ہونا چاہیے۔ راستوں کا کیا ہے، وہ خود چلنے والوں کے قدم بنا لیا کرتے ہیں۔ اصل چیز تو سمت ہے۔ چنانچہ اس نے وہ بہت سی سمتوں والا نقشہ اٹیچی کیس میں ڈال دیا تھا۔

    اس کچی سڑک کی باریک، نفیس مٹی اس کے پاؤں میں گھستی چلی گئی۔ ایک وہ وقت تھا جب اس کو مٹی سے سخت وحشت ہوتی تھی۔ کبھی مجبوراً بھی ننگا پاؤں فرش پر رکھنا پڑتا تو اسے سخت کوفت ہوتی۔ مگر آج یہ نفیس سوندھی سنہری مٹی پاؤں کی انگلیوں میں سرسراتی اسے بھلی معلوم ہوتی تھی۔ جیسے اپنے کسی بہت پیارے کا لمس۔

    اس نے نظر اٹھا کے سامنے دور دور دیکھا۔ اونچے گھنے درختوں کا حاشیہ آسمان سے جا ملا تھا اور آسمان کا شفاف نیلا گنبد ایک حد سے دوسری تک تنا تھا۔ اس نے آج سے پہلے کبھی اتنا صاف آسمان نہ دیکھا تھا۔ یا شاید اس نے کبھی آج تک یوں نگاہ اٹھا کے سامنے حد نظر تک نہ دیکھا تھا۔ ایک نرم شادابی آنکھوں کے راستے داخل ہو کر اس کے اندر پھیل رہی تھی، بڑھ رہی تھی۔ اسے اپنے آپ سے بھر رہی تھی۔ جیسےوہ ابھی پرندوں کی طرح بازو پھڑپھڑا کے اس نیلے گنبد کے کنارے کنارے اڑتی پھرےگی۔ آج اسے معلوم ہوا کہ پرندے کس طرح اپنی اڑان سے بھرے ہوتے ہوں گے۔ لبالب بھرے ہوتے ہوں گے اور خود بخود پرواز کرتے ہوں گے۔ بغیر کسی ارادے کے۔ بغیر کسی ارادے اور حوالے کے اور بغیر کسی ارادے اور حوالے کے کچھ کرنا کتنی بڑی آزادی تھی۔ وہ جو خود بخود ہو جائے، اصل ہونا وہی ہے۔

    اٹیچی کیس دائیں سے بائیں ہاتھ میں کرتے ہوئے اسے اس صد چہرہ کا خیال آیا جو اس دروازے کے پیچھے رہ گیا تھا، جس نے اس کو بتایا تھا کہ ہر احساس حوالے کا اسیر ہے اور حیرت تھی کہ آج بھی ان چند ہی قدموں میں وہ اس سے کتنی صدیوں کے فاصلے پر نکل آئی تھی اور اب وہ اسے یوں نگاہ اٹھا کے حد نظر تک دیکھ سکتی تھی۔ اس کے پورے کے پورے وجود کو۔ شروع سے آخر تک۔ ایک سرے سے دوسرے سرے تک۔ جیسا کہ وہ آج سے پہلے کبھی نہ کر سکی تھی۔ وہ بےچارہ، صد چہرہ! وہ دل ہی دل میں خوش ہوئی اور بہت سی کچی سڑک پار کر کے اب کھیتوں کھیت ایک پگڈنڈی پر ہو چلی۔ کیونکہ ان کھیتوں کے پار بجلی کے کھمبوں کی قطار چلی جاتی نظر آتی تھی اور یقینا یہ راستہ شہر کو جاتا تھا۔ شہر جس میں ریلوے اسٹیشن تھا، بسوں کے اڈے تھے اور ہر سمت کو گاڑیاں سواریاں آتی جاتی تھیں۔

    اگر ان سب صد چہرہ مخلوق نے بند کمرے میں بیٹھ کر اس کے ساتھ ہفتوں مغزماری کی تھی کہ اس سڑک سے اس طرف کو اور ادھر سے ادھر کو اور فلاں مقام سے فلاں تک جانا تو اب اس لمحے اس سے کوئی فرق نہ پڑتا تھا۔ قطعاً کوئی فرق نہ پڑتا تھا۔ کیونکہ وہ ان کا دیا ہوا نقشہ ایک بے جان کاغذ اس نے اٹیچی کیس میں پھینک رکھا تھا اور اس خیال ہی سے اس کو بڑی طمانیت ہو رہی تھی کہ اب وہاں اس اونچے دروازے کے پیچھے اس کمرے میں بیٹھے وہ سوچ رہے ہوں گے کہ اب وہ اس سڑک کے فلاں موڑ پر اور وہاں سے بس سٹاپ تک پہنچ چکی ہوگی۔ جب کہ وہ بالکل مخالف سمت میں چلی جا رہی تھی اور ان کی نظروں کے حصار سے باہر تھی۔ جب کہ وہ پورا گروہ اپنی دھیمی، گہری آواز میں سرگوشیاں، گونجتی، پھیلتی، دھوئیں کی طرح آسمان کو لپیٹتی سرگوشیاں کرنے میں ہمہ وقت مصروف ہے۔ ہم جانتے ہیں تمہیں کیا چاہیے۔۔۔ تمہیں کیا کرنا چاہیے۔۔۔ تم نہیں جانتیں؟

    ان سب کی آنکھوں میں ایک سیاہ ریشمیں جال کی لہلہاہٹ سمندر کی لہروں کی طرح پھیلتی، بڑھتی، تمہارا دامن بھگوتی، یلغار کرتی چلی آتی ہے اور تمہیں یقین آ جاتا ہے کہ بےمعنی شور اور دبیز سناٹوں میں کروٹیں بدلتی اس وسیع وسیع بے کراں دنیا میں مصروف یہ ایک سرگوشی سچ ہے۔ لہٰذا تم پوچھنے پرمجبور ہو جاتی ہو۔ تو مجھے بتاؤ۔ وہ کیا ہے۔ بتاؤ؟ اس پر وہ تمام چہرے ایک ہی بدن پر کے ان گنت چہرے اپنی طلسمی بھید بھری مسکراہٹ سے تمہاری طرف دیکھتے ہیں، ’’وقت آنے پر۔۔۔ وقت آنے پر۔ ابھی وقت نہیں آیا۔‘‘

    ہاں ابھی وقت نہیں آیا۔ وہ دل ہی دل میں ہنس دی اور اب پکی سڑک پر نکل آئی۔ ہاں، ابھی جاننے، جان چکنے اور دیکھنے اور دیکھ چکنے کا وقت نہیں آیا۔ ابھی تو محض یہ وقت ہے کہ تم ان سب صد ہزار چہرہ مخلوق کی آنکھوں سے دیکھو، ان کی سماعت سے سنو۔ مگر یہ احساس کتنا نیا، کتنا کورا تھا کہ وہ صد چہرہ جھوٹ بھی بولتا ہے۔ ہماری زندگی فریب دینے اور فریب کھانے، شکست دینے اور شکست کھانے کا ایک لامتناہی سلسلہ ہے۔ ایک حلقہ در حلقہ زنجیر اور اس نے کہا تھا۔ یہی اس کی رونق اس کی دل بستگی ہے اور میں تم کو خبردار کرتا ہوں۔۔۔ میں کہ ہزار آنکھ رکھتا ہوں۔۔۔ قطعی طور پر خبردار کرتا ہوں کہ اس سلسلے کو توڑ کر کچھ دیکھنے۔۔۔ دیکھ کر جاننے۔۔۔ جان کر سمجھنے کی کوشش ہرگز نہ کرنا، کیونکہ وقت آنے پر سب کچھ خود ہی تم پر کھل جائےگا۔

    چنانچہ وہ وقت آنے کا انتظار کرتی رہی۔ مگر وقت کو آنا کہاں سے تھا۔ وقت تو ہر دم موجود تھا، موجود ہے۔ ہماری مٹھیوں میں سے پانی کی طرح قطرہ قطرہ گر کر ریت میں جذب ہو رہا ہے۔ پھر ہم کس وقت کے انتظار میں ہیں؟ کس لمحے کے منتظر؟ جب کہ جو لمحہ ازل سے شروع ہو چکا ہے کبھی ختم نہ ہوگا۔ کبھی ختم نہیں ہوا۔

    اس نے اٹیچی کیس دم بھر کے لیے سڑک کے کنارے رکھا اور پھر اپنے سامنے دور دور حد نظر تک دیکھا، سورج ڈوبنے کو تھا۔ گھنے درختوں کے اونچے نیچے کٹاؤ دار حاشیہ کے اوپر اوپر نارنجی روشنی پھیلی تھی۔ اب آسمان کا نیلا شفاف کانچ دھندلانےکو تھا۔ اس نے دیکھا سامنے ریلوے کراسنگ تھی اور اس پر پھاٹک بند۔ کچھ سائیکل سوار، ایک ٹوٹا پھوٹا تانگہ جس کے پائیدان تک پرزرد رو بچے لدے تھے، ایک مسافر بس، پھاٹک کھلنے کے منتظر کھڑے تھے۔ اب وہ اٹیچی کیس پر بیٹھ گئی۔ اس کے پاؤں سے خون رس رہا تھا۔ اسے لگا اس نے پہلی بار اپنے جسم میں رواں دواں، اس موت اور زندگی کے مابین حدفاصل کھینچنے والے مادے کو دیکھا ہو۔ اسے حیرت ہوتی کہ یہی اس کی سوچ، اس کی سماعت اور بصارت ہے!

    اس کے زخم پر دھوپ پڑ رہی تھی۔ ٹیٹنس۔ معلوم نہیں بچپن میں اس کے ٹیٹنس کا ٹیکہ لگوایا گیا تھا یا نہیں۔ اس نے جان بوجھ کر سڑک کی مٹی میں اپنے پاؤں رولے۔ مٹی کا زہر جب لہو میں داخل ہو جائے تو دل مر جاتا ہے۔ مگر ایک مٹی وہ ہے کہ خاک اکسیر کہلاتی ہے۔۔۔ اور وہ صرف آنکھ رکھنے والے دیکھ پہچان سکتے ہیں۔

    اس نے دیکھا دور سے ٹرین کی روشنی نظر آ رہی تھی اور گڑگڑاہٹ ہولے ہولے زمین کی رگوں میں پھیلتی جا رہی تھی۔ کبھی ٹرین دیکھنے کا کتنا چسکا تھا اس کو۔ ان سب کو۔۔۔ جب وہاں شہر کے مضافات میں ان کا گھر تھا۔ صبح سویرے اسکول کے وقت پر ایک ٹرین گزرتی تھی، وہ بستے گلوں میں لٹکائے باغ کی منڈیر پر جا بیٹھتے اور اس لمبی حلقہ در حلقہ زنجیر سی ٹرین کو رینگتے دیکھتے۔ دیکھتے کہ اس کے اندر مسافر کھچا کھچ بھرے ہیں۔ کچھ ڈبے احساس برتری سے سر اٹھائے ایک دو مسافر لیے ہوئے، باقیوں سے بہت سے مسافر کھڑکیوں سے باہر جھانکتے ہوئے اور وہ سوچتی کیا انہوں نے دیکھا، ان مسافروں نے کہ ہم یہاں اس منڈیر پر بیٹھے ان کو دیکھتے ہیں اور یہ بھی ہو سکتا تھا کہ ہم ٹرین میں ہوتے اور وہ ہم کو اس منڈیر پر سے دیکھ رہے ہوتے اور کیا معلوم اس وقت بھی ایسا ہی ہو۔ پس وہ بھول جاتی کہ دراصل ٹرین میں کون سوار ہے۔۔۔ وہ، یا دوسرے۔۔۔ کون کس کو دیکھ رہا ہے اور حیران رہ جاتی کہ ایک ہی دیکھنا کتنے قسم کا ہو سکتا ہے اور یہ دیکھنا ایسا ہے کہ شروع شروع سے۔۔۔ ازل سے چلا آ رہا ہے اور آخر آخر تک ہمارے بعد اور اس کے بعد تک رہےگا۔ تو پھر ہم کس لمحے کے منتظر ہیں؟

    اب اس ٹرین کا طلسم بھی ٹوٹ چکا تھا۔ اس نے دیکھا کہ وہ جیسے ماچس کی خالی ڈبیوں کا ایک سلسلہ ہے۔ باہم مربوط، حلقہ در حلقہ۔ تیرتا۔ رینگتا۔ سرسراتا۔ ایک خواب۔ جو شروع سے تھا، آخر تک رہےگا۔ اسی لیے ہر شے شروع سے تھی آخر تک رہےگی۔ تھکن کے مارے اس کا سر دھواں دھواں ہو رہا تھا۔ بےشک یہاں کچھ بھی عبث نہیں۔ کچھ بھی عبث نہیں اور پھر ہم نہیں جانتے کہ وہ کیوں ہے۔ کیا ہے؟ معلوم نہیں اسٹیشن یہاں سے کتنی دور ہے اور اس راستے پر کوئی اسٹیشن ہے بھی یا نہیں۔ اگر یہ سمت صحیح ہے تو کوئی بات نہیں۔ پھر تو کچھ پرواہ نہیں۔ اب اسے وہ تمام پند و نصائح یاد آئے جو بند کمرے میں اسے سکوں دیتے گئے تھے۔ اٹھتے بیٹھتے، دن چڑھتے، دن اترتے، ہر وقت، ہرلمحے، ہر آن۔ لفظوں سے، آنکھوں سے، سرگوشیوں میں۔ بند آنکھوں سے۔ وہ صد چہرہ اسکول ازل سے کہتا چلا آیا تھا۔

    ’’اب تم پھر غلطی نہ کرنا۔۔۔ اچھا دیکھو یہ نقشہ ہے۔ اس کے مطابق تمہیں چلنا ہے۔ ادھر پانچ فرلانگ پر سنگ میل کے ساتھ ساتھ ایک موڑ ہے۔ وہاں سائیکل مرمت کی ایک دوکان ہے۔ وہاں سے گھوم کر پھر سیدھے تقریباً ایک کلومیٹر کے بعد۔۔۔ بہتر ہے کوئی آتی جاتی بس پکڑ لینا۔ مگر نہیں۔ وہ راستے میں کہاں رکےگی۔ صرف اپنے بس سٹاپ پر رکےگی۔ ہاں رک سکتی ہے اگر کوئی دور سے اسے آتا دیکھ لے اور بروقت اشارا کر دے، مگر تم تو پہلے ہی مایوپک ہو۔ سنو، غور سے سنو۔۔۔، باقی سب آوازیں فراموش کر دو۔ صرف یہ یاد رکھو کہ تمہیں اس طرح۔۔۔ اس لکیر کے ساتھ ساتھ چلنا ہے۔ یہاں سے یہاں تک۔۔۔‘‘ اس نے وہ لفظ سنے تھے اور اس طرح۔۔۔ اس حد تک کہ پھر وہی لفظ تمام فضا میں، ہر طرف، ہرسمت رہ گئے اور پھر ہر چیز سیال بن کر ان لفظوں کے سانچوں میں ڈھلنے لگی۔

    مگر ایک روز اس نے ایک بھٹی پر دیکھا کہ میلے کچیلے ہاتھوں سے ایک آدمی روٹی اور کیک کا سیال مادہ تیار کرتا ہے۔ اس کو ہاتھوں، انگلیوں سے، طرح طرح سے یک جان کر کے خمیر کرتا ہے۔ پھینٹتا ہے، دھنکتا ہے اور پھر اس کو اس سیال مادہ کو جس کی اپنی کوئی صورت نہیں، خود اپنی مرضی سے، رضا سے، جس طرح جی چاہے، چھوٹے، بڑے، چوکور، تکون، لمبوترے سانچوں میں ڈالتا ہے۔ چنانچہ وہ سیال جو اپنی کوئی صورت نہ رکھتا تھا، ان سانچوں میں آکر انہیں کی صورت پختہ ہونے کو ہے۔ بھٹی میں گر کر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے پتھر کی صورت، جامد ہونے کو ہے۔ اس سیال کو منجمد ہوتے دیکھ کر خوف کی ایک لہر اس کے جسم میں تھرتھرائی۔ اس نے اپنی جانب نظر دوڑائی۔ ایک سیال مادہ جس کو صد چہرہ جاندار کسی ایک ان دیکھے سانچے میں ڈھالنے کو بے قرار ہیں اور اس سانچے کا نقشہ اس کے ہاتھ میں جھولتا تھا۔ وہ خوفزدہ ہو کر وہاں سے بھاگ نکلی تھی۔ ان سب کو خبر کیے بنا۔ وہ اٹیچی کیس اٹھائے چلی آئی۔

    وہ ان دیکھا سانچہ اس کے ہاتھوں میں تھا جس میں اس کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے منجمد ہونا تھا، شاید پتھر بننا تھا۔ نہ معلوم کس ڈھب، کس رنگ کا۔ شاید اس کو بھی وہ صد چہرہ بننا تھا۔ سرگوشیاں کرتا، مسلسل بھنبھناتا، وضاحتیں اگلنے والا صد چہرہ، دوسروں کی روحوں کو ہیپنو ٹائیز کرنے والا، صدہا ہاتھوں، آنکھوں والا چہرہ۔۔۔ اور اس سے پیشتر کہ یہ سب کچھ ہوتا، وہ وہاں سے بھاگ نکلی۔ بھاگ نکلی، جب کہ وہ سب کے سب وہاں اندر بند کمرے میں بیٹھے رہے۔ سگرٹوں کے دھوئیں میں ایک دوسرے کے ہیپنوٹائز اور برین واش کرتے رہے۔ بند کمرہ ان کے لفظوں اور خیالوں کے دھوئیں سے بھرا تھا۔ ان کے سامنے کائنات کامحض ایک ہی مسئلہ تھا۔ انسانوں کا باہمی ایک ہی رشتہ۔ کون کس کا عامل یا معمول بنتا ہے۔ بس یہاں ایک سے دوسرے تک کی پکار محض اسی قدر۔۔۔ میں کون؟ تو عامل۔۔۔ اور تو؟ میں معمو۔۔۔ جو پوچھوں گا بتلائے گا۔۔۔ بتلاؤں گا۔ کبھی اس طرح اور کبھی اس سے الٹ اور کبھی کوئی ہٹ دھرم، مرتد معمول جواب ہی نہ دے۔ چپ سادھ لے۔ وہ حلقہ در حلقہ زنجیر کھٹ سے ٹوٹ گرتی ہے۔

    اب آس پاس کے کچے مکانوں میں دیے جل اٹھے تھے۔ ذرا فاصلے پر کچھ گھروں میں بتیاں روشن تھیں، پھاٹک کھل چکا تھا اور سب ریلوے لائن پار کر رہے تھے۔ اس نے کشادگی سے سانس لیا اور اٹھ کھڑی ہوئی۔ وہ اٹیچی کیس اس نے ریلوے کراسنگ پر رکھ دیا اور آگے بڑھ گئی۔ آسمان پر نرم اندھیرا اتر رہا تھا۔ ایسا شفاف اندھیرا اس نے پہلے کبھی نہ دیکھا تھا۔۔۔ اور ایسے روشن صاف باتیں کرتے ستارے بھی کبھی نظر نہ آتے تھے۔ شاید آج بہروپ کی پرت جل گئی تھی۔ ہر شے آسمانوں اور زمینوں کے کناروں سے نیچے اتر آئی تھی۔ اس کے قریب۔ بالکل قریب۔ آج ہم نے تمہاری آنکھوں کی تاریکی کھول دی اور بےشک تمہاری نگاہ خوب تیز ہے۔ مگر اسے یک دم یاد آیا۔۔۔ میں تو مایوپک ہوں۔ میرے وید کی شہادت کون دےگا۔۔۔؟

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے