Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

بھیڑیے

ذکیہ مشہدی

بھیڑیے

ذکیہ مشہدی

MORE BYذکیہ مشہدی

    کہانی کی کہانی

    ’’مشترکہ خاندان میں ظلم اور استحصال کا شکار ہوتی ایک عورت کی کہانی۔ وہ ایک زمیندار برہمن خاندان کی بہو تھی۔ اس خاندان نے علاقے میں اپنا رسوخ بنائے رکھنے کے لیے ہر طرح کے ہتھکنڈے اپنا رکھے تھے۔ اسی کے زور پر اس کا امیدوار آسانی سے چناؤ جیت جاتا تھا۔ گھر چلانے کے لیے اپنے گونگے بہرے بیٹے کی ایک ہنرمند گھریلو خاتون سے شادی کرا دی تھی۔ بیٹا شہر میں رہتا تھا اور بہو گاؤں میں۔ بہو بار بار شہر جانے کی ضد کرتی ، لیکن اسے جانے نہیں دیا جاتا۔ پھر ایک روز اسے پتہ چلا کہ اس کے شوہر نے دوسری شادی کر لی ہے۔ یہ سنتے ہی وہ گھر چھوڑکر جانے کی پوری تیاری کر لیتی ہے، مگر تبھی اسے احساس ہوتا ہے کہ وہ شہر جانے کے لیےجس راستے سے بھی گزرے گی، ہر اس راستے پر اسے ایک بھیڑیا بیٹھا ملے گا۔‘‘

    گودام سےبھینسوں کی سانی کے لیے سرسوں کی کھلی نکالتے وقت انجورانی نے کھڑکی کے دونوں پٹ کھول دیے تھے اور امرائی میں کھڑے بور سے لدے آم کے درخت کسی تصویر کی طرح فریم میں جڑ اٹھے تھے۔ دور کہیں کھیت مزدوروں کے چیتی گانے کی آوازآرہی تھی۔ ایسی صاف، دلکش اور واضح جیسے وہ سرخ پھول جنہیں انجورانی نے اپنے شوہر کی چچازاد بہن کے جہیز میں دی جانے والی سفید چادر پر کاڑھ کر کل ہی مکمل کیا تھا۔ بوری بھر کر انجو نے کھڑکی کے پٹ بند کرنے کو ہاتھ بڑھایا ہی تھا کہ یکایک امرائی کے درمیان سے گزرتی پگ ڈنڈی پر لمبے لمبے ڈگ بھرتی کر ملی نمودار ہوئی۔ اس کی رفتار غیرمعمولی طور پرتیز تھی اور چہرہ راکھ جیسا ہو رہاتھا۔

    گھر کی دیواروں سے ایک بار پھر خون کی بو آنے لگی تھی اور بارود کی اور سازشوں کی۔ چاروں طرف سرگوشیوں کے ناگ سرسراتے پھرتے تھے۔ کوئی بھی آدمی اپنی عام آواز میں بات نہیں کر رہاتھا۔ کوئی بھی کسی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کرنہیں دیکھتا تھا۔ چاچا کےآگے پیچھے چلنےوالے لٹھیت اور بندوق بردار پھر گھر میں درآئے تھے۔ انجو پر ایک شدید گھبراہٹ طاری رہنے لگی تھی۔

    کرملی گھر کے قریب آگئی تھی۔ چوکنی آنکھوں سے اس نے ادھر ادھر دیکھا۔ ’’میاں ٹولے میں بم پھوٹا ہے۔ پانچ ٹھومیاں لوگ مارے گئے۔‘‘ اس نے پھولتی سانسیں سنبھالتے ہوئے مزید بتایا۔ ’’جبار کی ماں نے سرپٹک پٹک کے ماتھا پھوڑلیا۔‘‘

    ’’جبار کی ماں نے کیوں ماتھا پھوڑا؟ ارے رام رام رام۔ جبار مارا گیاکیا؟ وہ بدھو اکا اکیلا بیٹا؟‘‘

    ’’ہاں۔ بھاگ کی بات۔ جہاں بم پھوٹا وہاں وہ بھی کھڑا ہوا تھا۔۔۔ چٹھی دینی ہے کیا؟‘‘

    ’’نہیں ابھی نہیں۔ پرسوں آنا۔ لکھ کر رکھو ں گی۔‘‘انجو نے ادھر ادھر دیکھ کر دھیرے سے کہا۔

    ’’برج کشور بابو گھر نہیں آئے۔ یہ مہینہ بھی خالی گیا۔‘‘

    کرملی کا جملہ پورا ہونے سے پہلے چاچی کی کرخت آواز کھلے آنگن میں یوں پھیلی چلی آئی جیسے تالاب میں پھینکے گئے پتھر سے اٹھتے پھیلے پانی کے دائرے۔ ’’بہو۔ او۔ او۔‘‘

    کرملی تیر کی طرح وہاں سے بھاگی اور انجو کسی روبوٹ کی طرح۔

    انجورانی کو چھوڑ کر باقی چودھری خاندان کے ہرفرد کی صورت دیکھ کر بلکہ آواز سن کر ہی کرملی کی جان نکلتی تھی۔ کرملی گاؤں کی نہیں تھی۔ وہ ایک آٹھواں درجہ پاس، خانماں برباد آدی باسی عورت تھی جسے تعلیم بالغان والے اپنا سنٹر کھول کر اس دور افتادہ اندھیرے گاؤں میں چھوڑ گئے تھے۔ اس کی پھونس کی جھونپڑی میں ایک پوٹلی میں اس کے دوجوڑ کپڑے تھے اور مٹی کے چند برتنوں میں آٹا، دال، چاول۔ یہی اس کی کل کائنات تھی۔ سٹرپٹر سارے گاؤں میں گھومتی لوگوں کو سنٹر آنے کی ترغیب دیتی پھرتی تھی۔ مہینے دو مہینے میں ایک مرتبہ بلاک آفس جاکر پروجیکٹ افسر کو سینٹر کیرپورٹ دےآتی تھی۔

    تب ہی انجورانی کا چپکے سے پکڑایا ہوا خط جو اس کے شوہر کے نام ہواکرتا تھا، پوسٹ کر آتی تھی۔ ہر خط میں ایک ہی بات ہوتی تھی۔ ’’ہمیں شہر کب بلاؤگے۔‘‘ یہاں ہمیں ڈر لگتاہے۔ برج کشور کبھی خط کا جواب نہیں دیتا تھا۔ مہینے دو مہینے میں خود ہی چلا آتا۔ دوچار روز رہتا اور محبت کے بے پناہ اظہار کے ساتھ تلی‘ دے جاتا کہ اگلی مرتبہ۔۔۔ بس اگلی مرتبہ دہ چاچا سے یہ کہنے کی ہمت ضرور کرے گا کہ وہ انجو کو اس کے ساتھ جانے کی اجازت دے دیں۔ لیکن اس بار تو چھ ماہ کی غیرمعمولی طویل مدت گزرگئی تھی اور وہ گاؤں آیا ہی نہیں تھا۔ انجو کو ایسا محسوس ہو رہا تھاجیسے وہ بپھری ہوئی ندی کی اندھیری گہرائیوں میں ہاتھ پاؤں مار رہی ہےاور پانی ہے کہ چٹان کی صورت اس کی چھاتی پر چڑھا چلاآرہا ہے۔

    چاچی کی آواز کی بازگشت فضا میں تحلیل ہونے سے پہلے انجورانی نے آنگن پار کرلیا تھا۔ مرد آگئے تھے۔ مرد یعنی چاچا، ان کا بیٹا نندکشور اور چارگھنی، چڑھی ہوئی مونچھوں والے لٹھیت جن کے پاس رائفلیں بھی تھیں۔ انجو نےآٹے کی پرات سرکائی، ارہر کے راٹھے جوڑ کر آگ تیز کی اور مشین کی سی تیزی سے روٹیاں ڈالنی شروع کیں۔ گھر کے کھیتوں میں اگے سنہری گیہوں کی گرم گرم روٹیاں۔ گدبدی، گداز، لذت اور توانائی سے بھرپور روٹیاں۔ نندکشور سوچ رہاتھا کہ انہیں پکانے والی بھی شاید ان روٹیوں جیسی ہی تھی۔ اس کی اپنی دھان پان، چمرخ سی بیوی حسب دستور قدیم، زچگی کے لیے میکے بھاگی ہوئی تھی۔ پرنچی مریل مرغی۔ چھوؤ تو ہڈیاں گڑتی تھیں۔ گٹھیا کے مارے گھٹنے اور تھتھلا جسم سنبھالتی، کانکھتی، کراہتی چاچی وہیں آکر بیٹھ گئی تھیں۔

    ’’سنا کہ جبار مارا گیا نندکشور کے بابو؟‘‘ انہوں نے پھولتی سانسوں کے درمیان دریافت کیا۔

    ’’ہم جبار کابرا نہیں چاہتے تھے۔ سسرا نہ جانے کہاں سے وہاں پہنچ گیا تھا۔‘‘ چاچا نے بے پروائی سے نوالہ توڑتے ہوئے کہا۔ ’’برا تو ہم میاں ٹولے کے کسی آدمی کا نہیں چاہ رہے تھے لیکن ستیارتھی جی کے بل پرکچھ زیادہ ہی کودنے لگے تھے وہ لوگ۔ کھانے کو ہے نہیں چلے راج نیتی کرنے۔‘‘

    ’’راج پاڑہ سے ستیارتھی جی جیتیں گے ہمارے جیتے جی؟ میاں تو میاں آدی واسی، ہریجن سب کو ورغلا رکھا ہے۔ وہ بھی ان کے ساتھ ہوگیا ہے۔ کہتا ہے مندر بننا ضروری نہیں ہے۔ ہم کو روٹی چاہیے، پوچھو سالے روٹی کیا مرکے کھاؤگے؟ کھاؤگے تو تب ہی جب زندہ رہوگے۔‘‘ نندکشور کی آواز غصے کی شدت سے کالے ناگ کی پھنکار جیسی ہوگئی تھی۔ آواز تو آواز اس کاتو چہرہ بھی کالے ناگ کے پھن جیسا ہی لگنےلگا تھا۔

    عرصہ ہوا کہ چاچی نے جوان بیٹے کے مونہہ لگنا بند کردیا تھا۔ اس لیے وہ شوہر سے مخاطب ہوئیں، ’’ہریجن کا پورا بوتھ تو پچھلے چناؤ میں بھی تم ہی نے چھاپا تھا نندکشور کے بابو۔ بے کار خون خرابے میں کاہے کو پڑتے ہو۔ بہت ہوا پچھلی بار بھی۔‘‘

    ’’پانچ سات آدمیوں کی کوئی ہستی ہے۔ یہ تو نمونہ تھا۔ پولنگ کے دن گھر سے ایک آدمی بھی باہر نکلا تو ٹولے کا ٹولہ صاف کرادیں گے۔‘‘ نندکشور کی غراہٹ اس بار کسی بھیڑیے سے مشابہہ تھی۔

    ’’موت کا سناٹا چھایا ہوا ہے۔ کل تک تو نادر میاں کی جورو بھی بھاڑ میں بھنتے چنوں کی طرح پھٹر پھٹر کر رہی تھی۔ چمک کر بولی تھی، کیسےنہیں جائیں گے پرچی گرانے؟ دیکھیں گے کون روکتا ہے، آج مزاج ٹھنڈا ہوگیا ہوگا۔‘‘ایک لٹھیت نے کہا۔

    ’’اٹھالائیں کیا؟ اور ٹھنڈا ہوجائے گا؟‘‘ دوسرا شخص ہنس کر بھرے مونہہ سے بولا۔

    نندکشور کی تھالی میں گرم روٹی ڈالتی انجو نے جھرجھری لی۔ اب کیا عورتیں بھی اٹھائی جائیں گی۔ اس کا ذہن ابھی جبار کی موت کے دھچکے سے اوپر نہیں اٹھ سکا تھا۔ جبار تو فصل پر اپنے ہی کھیتوں میں کام کرتا تھا۔ بڑا ہنس مکھ کڑیل جوان تھا۔ دھان کے کھیتوں میں روپنی کے وقت پھٹا بنیان پہنے دن دن بھر پانی میں کھڑا رہتا۔ سب سے زیادہ کام کرتا اور دوسرے مزدوروں پر بھی نظر رکھتا۔ وہ رہتا تھا تو انجو کو اپنی ذمہ داری ہلکی ہوتی محسوس ہوتی تھی۔ پانچ لوگ جو اور مارے گئے وہ بھی تو اپنے اپنے گھروالوں کے پیارے ہوں گے۔ مرنا کون چاہتا تھا۔ لنگرا، لولا، بیمار، بوڑھا بھی نہیں چاہتا کہ اس کے سر پر بم پھوٹے او روہ مرجائے۔ انجو کو محسوس ہوا آج وہ کھانا نہیں کھاسکے گی۔ اس کا کلیجہ منہ کو آرہا تھا۔

    ’’پولیس تو ابھی نہ آئی ہوگی؟‘‘ایک شخص نے پوچھا۔

    ’’پولیس سسری کل دوپہر تک بھی آجائے تو جلدی جانو۔‘‘

    ’’آنے دو سالوں کو۔ ہمارا کیا لے جائیں گے۔‘‘چاچا نے کھاناختم کرتے ہوئے کہا۔

    چاچا کبھی کسی سے نہیں ڈرا تھا۔ اس کے پاس طاقت تھی۔ روپے کی اور لٹھیتوں کی اور اونچی ذات کی اور بہت تیز چلنے والے، جوڑتوڑ لگانے والے دماغ کی جو اس کے بیٹے کے قبضے میں تھا۔ یہ اور ان کی بادشاہ گر جماعت مظلوم، کمزور، غریب لوگوں سے بھرے اس گاؤں میں جب چاہے آفت برپاکرسکتی تھی، کسی بھی دل کو دہشت سےبھرسکتی تھی، کسی بھی جسم کو پارہ پارہ کرسکتی تھی۔

    زندگی کی ایک طویل جدوجہد سے گزرتی کرملی اب ایسے مقام پر پہنچی ہوئی تھی جہاں اسے کوئی ڈر نہیں ہونا چاہیے تھا۔ عورت کو خوف ہوتاہے اپنے جسم کا۔ وہ راکھ ہوچکا تھا۔ پھر ڈر ہوتا ہے شوہر اور بچوں کا۔ وہ سب اسے چھوڑ کر تتر بتر ہوچکے تھے۔ اس کے بعد ڈر ہوتا ہے مال اسباب کا۔ یہ جنس اس کے پاس تھی ہی نہیں۔ لیکن اس کے باوجود ڈر دوبارہ اس کی زندگی میں پنجے گاڑنے لگا تھا۔ راہ چلتے کبھی چاچا کا سامنا ہوجاتا کبھی نند کشور کا۔ کبھی ان کے حواریوں مواریوں میں سے کسی کا۔ وہ سب اسے خوفناک نظروں سے گھورتے۔ اس کی لاکھ کوششوں کے باوجود موسہر ٹولے اور میاں ٹولے کے لڑکے بالے اور عورتیں سنٹر آنے کو تیار نہ ہوتے۔ بڑی منت سماجت اور پکڑ دھکڑ کے بعد جو دوچار ہاتھ آتے وہ ہفتہ دس دن میں بھاگ کھڑے ہوتے۔ پروجیکٹ افسر کو جو رپورٹ وہ دے کر آتی اس میں نئی بھرتی کے مقابلے میں ’’ڈراپ آؤٹ‘’ کا کالم کہیں زیادہ بھرا ہوا ہوتا تھا۔

    چاچا اور نندکشور کے اندر کتنی بارود بھری ہوئی ہے یہ کرملی کو نہیں معلوم تھا۔ شروع شروع میں گاؤں آئی تو گاؤں کے سربرآوردہ لوگوں کاتعاون حاصل کرنے کی غرض سے سب سے پہلے اسی ڈیوڑھی پر آئی تھی۔ انجورانی کی میٹھی زبان اور ملنسار طبیعت نے اسے گرویدہ بنالیا تھا۔ اسی نے انجو سے کہا تھا کہ اگر وہ اس کے ساتھ بستی میں چل کر لوگوں کو سمجھائے تو لوگ سنٹر پر آنے لگیں گے۔ انجو نے دبی زبان سے گھونگھٹ کی اوٹ سے چاچا سے اجازت چاہی تھی۔

    ’’عقل گھاس چرنے چلی گئی ہے۔‘‘ چاچا غرایا تھا۔ ’’ ہمارے یہاں کی بہو بیٹیاں چپل سٹکاتی، مردوں سے دیدے لڑاتی کرملی کی طرح جہاں تہاں گھومتی نہیں پھرتیں۔‘‘

    ’’کرملی تو بہت نیک عورت ہے چاچا۔ پھر یہ کہ وہ بزرگ ہے۔ تو وہ سرکار کی طرف سے کھولے گئے۔۔۔‘‘ بہو کا لحاظ کیے بغیر چاچا نے سرکار کو موٹی سی گالی دی تھی۔ ’’ کیا کرے گی سرکار ان کو پڑھاکے، نوکری دے گی؟ کس کس کو دے گی؟‘‘

    ’’چاچا، پڑھنا لکھنا صرف نوکری کے لیے تو نہیں ہوتا۔‘‘انجورانی اس دن بڑی ہمت بٹور کر آئی تھی۔

    ’’پھر کاہے کے لیے ہوتا ہے۔ ذرا ہم بھی سنیں۔‘‘

    ’’کہتی تھی گاؤں میں گندگی بہت ہے۔ پڑھ لکھ کر لوگ صفائی سیکھیں گے۔ دھوکا دھڑی سے بچیں گے۔ اپنا بھلا برا سوچ سکیں گے۔‘‘

    چاچا اس بار پوری طرح ہتھے سے اکھڑ گیا۔ آنگن میں گھوم گھوم کر اس نے تعلیم بالغان کی مہم، سرکار، کرملی اور سارے سرکاری عہدیداروں کو بے نقط سنانی شروع کیں۔ لانبے گھونگھٹ کے باوجود انجو شرم سے پانی پانی ہوگئی۔ کرملی گھر کی بہو کو ورغلارہی ہے، کہہ کر ان لوگوں نے گاؤں میں اس کا رہنا دوبھر کرنے کی مہم تیز کردی تھی۔

    نندکشور نے ایک دن کرملی کو مکھیا کے کھیتوں کی منڈیر پر پکڑا۔ ’’کیوں ری بڈھی۔ گاؤں چھوڑ کے جاتی ہے یا زندہ جلوادوں تجھے۔‘‘ایک لمبے تڑنگے لٹھیت نے اس کی کمر میں لاٹھی چبھوئی۔ ’’کہو تو نندکشور بابو گردن داب کے کھیتوں میں توپ دیا جائے۔ پورے گاؤں میں کوئی مائی کا لال پوچھنے کی ہمت نہیں کرے گا کہ بڈھی کہاں گئی۔‘‘

    ’’ہاہاہا۔۔۔ اس کے جسم کی کھاد بنی تو فصل لہلہا اٹھے گی۔‘‘

    کرملی تھر تھر کانپنے لگی۔ ’’بابو لوگ ہمارا قصور تو بتائیں۔ دواچھر پڑھادینا تو پن کا کام ہے۔‘‘

    ’’ارے بڈھی۔ پن کمانا ہے تو رام کا نام جپ۔ زیادہ پن کمانا چاہتی ہے تو چلی جا کرسیوا کے لیے اجودھیا۔ موسہر چماروں کو ورغلاکے ہی پن کمائے گی کیا؟‘‘

    کرملی گھگھیانے لگی، ’’ہم راج نیتی کیا جانیں بابو۔ ہم تو سیوا بھاؤ سے پڑھانے آئے ہیں۔‘‘

    ’’اری او پنڈتانی۔ ہمارے کھیت مجور توڑ رہی ہے۔ موسہر چمار پڑھیں گے تو کھیت مجوری کون کرے گا۔ تیرا باپ کہ ہم؟ ویسے بھی پنچ، کمین سب آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے لگے ہیں۔ اوپر سےانہیں پڑھایا بھی جائے گا؟‘‘

    ’’اور میاں لوگوں کو بھی؟ اور جنانیوں کو بھی؟ یہ تو حد ہے۔‘‘

    ’’برج کی عورت کی چٹھی لے جالے جا کے ڈالتی ہے۔ کس کے نام لکھتی ہے وہ، سوتو یہی جانے۔ اب گاؤں کی کنواریوں کو بھی لکھنا سکھائے گی۔ پھر خود ہی لے جاکے ان کے یاروں کو چٹھیاں پہنچائے گی۔‘‘

    ’’رام کانام لو بابو۔ اپنی بہو پر بھی دوش لگا رہے ہو۔‘‘کرملی کی ٹانگیں جواب دے گئیں۔ وہ دھپ سے وہیں گیلی مٹی پر بیٹھ گئی۔

    ’’بحث کیے جائے گی۔ چپ نہیں ہوگی۔‘‘ ایک نے اس کے روکھے کھچڑی بالوں کی پتلی سی چٹیا کو پکڑ کر جھٹکا دیا۔

    تب سے کرملی ان کے سائے سے بھی بچ کر چلتی تھی۔ جو دوچار لوگ خود سے سینٹر پر آجائیں ان کو الٹے سیدھے دو حرف سکھاکر اپنی ڈیوٹی پوری کرلیا کرتی تھی۔ مگر سارے خوف کے باوجود چوری چھپے پچھواڑے والے دروازے سے ہفتہ دس دن میں انجورانی سے ضرور مل لیا کرتی تھی۔ انجو نوجوان تھی، خوبصورت تھی، اعلیٰ ذات تھی اور کھاتے پیتے زمین جائداد والے گھرانے کی بہو۔ بظاہر کچھ بھی تو مشترک نہیں تھا اس کے اور کرملی کے بیچ لیکن کرملی کو معلوم تھا انجو اس جیسی ہی تھی۔ اکیلی اور خوف زدہ اور دل گرفتہ۔

    انجو، برج کشور کی بیوی تھی جو چاچا کے مرحوم چھوٹے بھائی کا اکلوتا لڑکا تھا۔ گونگا اور بہرا۔ اس کی دو بہنیں تھیں۔ چاچا نے دونوں کا بیاہ کرایا تھا۔ برج کشور کو گونگوں بہروں کے اسکول میں داخلہ دلواکر پڑھایا تھا۔ علاقے کے ایم۔ ایل اے کی سفارش پر اسے سرکاری نوکری سے بھی لگوادیا تھا۔ رہنے کو چھوٹا موٹا کوارٹر بھی ملا ہوا تھا۔ برج کشور کی ماں کا رواں رواں جیٹھ کے احسانوں تلے دبا ہوا تھا۔ ان کی مجال نہیں تھی کہ وہ جائداد کے بٹوارے کی بات کریں۔ وہ تو اپنی ہر بات کاآغاز اس جملے سے کرتی تھیں ’’بھائی جی نہ ہوتے تو۔۔۔‘‘ برج کشور کو نوکری ملنےکے بعد وہ ویسے بھی گھر سے الگ تھلگ اس کے ساتھ شہر جاکر رہنے لگی تھیں۔ جیٹھ اور ان کے لڑکے کے سیاست میں قدم رکھنے کے بعد گھر میں جو فضا بنی تھی وہ انہیں پسند نہیں تھی۔ پھر برج ان کا اکلوتا بیٹا تھا جو جسمانی معذوری کا شکار بھی تھا۔ شہر میں انہوں نے اس کے لیے پہلے ایک لڑکی پسند کی تھی جو خود بھی گونگی بہری تھی۔ وہ بھائی جی سے اجازت لینے اور چل کربات پکی کردینے کے لیے کہنے کو آئیں تو بھائی جی بانس بانس بھر اچھلنے لگے۔

    ’’گونگی بہری؟ برج کشور کے لیے؟‘‘

    ’’برج کشور کے لیے نہیں تو کیا کسی درست آدمی کے لیے؟ کون دے گا برج کو لڑکی؟‘‘ انہوں نے دل میں سوچا پھر ہمت کرکے بولیں ’’برج کی دیکھی بھالی ہے۔ اسے پسند ہے۔‘‘

    ’’ہوا کرے۔‘‘چاچا نے بڑے اطمینان سےکہا، ’’ہم اپنے بھتیجے کے لیے بولتی سنتی لڑکی لائیں گے۔ برج کو پسند ہے۔ ہونہہ۔‘‘ وہ مونہہ ٹیڑھا کرکے چڑانے والے انداز میں بولاتھا۔

    ’’بولتی سنتی ہوگی تو لنگڑی لولی ہوگی۔ ورنہ بہت ہی بدصورت ہوگی۔ گورا چٹا، لانبے قد کاخوبصورت جوان بیٹا۔‘‘ برج کشور کی ماں ایسی کسی بہو کے تصور سے اداس ہوگئیں۔

    ’’جنانی کی عقل پاؤں میں ہوتی ہے۔‘‘چاچا زور سے بولتا ہوا اٹھ گیا۔ ’’ارے ہم لائیں گے ڈنگے کی چوٹ۔ گاؤں کی صحت مند، سگھڑ بہو۔ دوچار درجہ پڑھی بھی ہے۔ بی۔ اے۔ ، ایم۔ اے کاہمیں کیا کام۔ وہ بھی شہر کی لڑکی۔ ہمارا لڑکا گونگا ہے تو ہم لڑکی بھی گونگی لائیں۔ کون سے شاستر میں لکھا ہے؟‘‘چاچا دیر تک بڑبڑاتا رہا۔ اس نے انجو رانی کاگھرانہ کافی عرصے سے تاک رکھا تھا۔ ان کی برداری میں اتنے غریب لوگ مشکل سے ملتے تھے۔ اوپر سے لڑکی ماما کے گھر رہ کر پلی تھی۔ ماں مرچکی تھی۔ باپ دوسری شادی کرکے بیوی بچوں میں مگن تھا۔ کبھی الٹ کر بھی پہلی بیوی کی اس اکلوتی اولاد کو نہیں پوچھا۔ چاچا نے تلک جہیز کچھ نہیں مانگا۔ لوگ نہال ہوگئے۔ لڑکی گھر بار کی ہوگئی اور وہ بھی ایسے کھاتے پیتے بارسوخ گھرانے کی بہو بنی۔ غریب ماما کے گھر رہ کر پلی، بن ماں کی بچی۔ خدمت گزار اور نیک۔ وہ ایسا پرزہ ثابت ہوئی جس کی کمی لمبی چوڑی گرہستی کی گاڑی میں بہت دن سے کھٹک رہی تھی۔

    چوبیس گھنٹے چلنے والے سیاسی چولہے سے لے کر چاچی کی ساری بیماریاں، بھینسال کی بھینوں سے لے کر ہالی اور ہل بیل، مزدوروں سے لے کر لٹھیت، سب اس نے سنبھال لیے تھے۔ اس کا دن اٹھارہ گھنٹے کا ہواکرتا تھا۔ وہ کب سونے گئی اور کب سوکر اٹھی، یہ کسی کو پتہ ہی نہ چلتا۔ ہمیشہ جاگتی اور کچھ نہ کچھ کرتی ہوئی ہی ملتی۔ برج کشور کی ماں آتیں تو بڑی دعائیں دیتیں اور پھر حسرت بھری نظریں بہو پر ڈال کر رخصت ہوجاتیں۔ یہ چھن چھن پائل بجاتی، محنتی، سگھڑ بہو کب ان کے بیٹے کا گھر آباد کرے گی۔ لیکن کس منہ سے مانگیں۔ کیسے مانگیں۔ برج کی تعلیم، نوکری، شادی سب چاچا کی مرہون منت تھی۔ بہو پر پہلا حق تو انہیں کا ہوا نا۔ پھر برج کشور آتا جاتا تو رہتا ہی تھا۔ وہ ٹھنڈی سانس بھر کر اٹھ جاتیں۔

    اس طرح چار برس گزرگئے۔ گھونگھٹ کے اندر خاموش آگ میں جلتی رہی انجو۔ اس کے یہاں کوئی اولاد بھی نہیں ہوئی کہ اس کے بہانے جانے کے لیے کہتی۔ گھر کی اصل مالکن بھی نندکشور کی بہو تھی۔ جب چاہتی میکے جاتی۔ جوچاہتی کرتی۔ کئی بیٹے پیدا کیے تھے اس نے۔ انجو کا کیا تھا یہاں۔ جس گھر پر اس کا مکمل حق تھا وہاں تو بس ایک بار چنددن کے لیے پاؤں پڑے تھے اس کے۔

    وہ رات انجو رانی کو بہت بھاری لگ رہی تھی۔ روز سارے دن بیل کی طرح کام کرنے کے بعد اسے مردوں کو مات دینے والی نیند آیا کرتی تھی لیکن آج نیند آآکر واپس لوٹ رہی تھی۔ آتی بھی تھی تو اچٹتی ہوئی۔ اگلے دن پولنگ تھی اور گاؤں میں موت کا سناٹا چھایا ہوا تھا۔ کل نہ جانے کتنے لوگ اور مریں گے۔ شاید ان میں کسی اور بیوہ کا بیٹا ہوگا، کسی نوجوان سہاگن کامرد ہوگا، کسی کنبے کااکیلا پالن ہار ہوگا۔ اور ان میں سے کسی کو کسی سے کوئی دشمنی بھی نہیں ہو رہی ہوگی۔ جیسے کل مرنے والے جبار کو نہیں تھی۔ اور پچھلے الیکشن میں جومرے تھے بیس پچیس کڑیل جوان۔۔۔

    پھر نیند کی ابھرتی لہروں میں انجو کو ایسا لگا جیسے وہ چرخ چوں، چرخ چوں کرتی بیل گاڑی میں بیٹھی شہر کی طرف روانہ ہے۔ گاڑی چلتی چلی جارہی ہے۔ سوکھی گیلی ندیاں پار کرتی، کھیت کھلیانوں سے گزرتی، میدان اور پہاڑ لانگتی۔ اچانک ایک ریگستان آتا ہے۔ جہاں ریت کے بگولے اڑ رہے ہیں اور ان بگولوں کے پیچھے سے نندکشور کا چہرہ برآمد ہوتا ہے۔

    ہڑبڑاکر وہ اٹھ بیٹھی۔ نندکشور تو سچ مچ دروازے میں کھڑا ہوا تھا۔ اس نے جلدی سے گھٹنوں تک چڑھ آئی ساڑی برابر کی، سرپر آنچل لیا اور پلنگ سے اترگئی۔ ’’بھائی جی آپ؟ کیا بات ہے؟‘‘

    ’’ہمارے چار آدمی بلاک آفس گئے تھے۔ ابھی لوٹے ہیں۔ روٹی دینی ہوگی۔‘‘

    ’’جی بھائی جی ابھی بناتی ہوں۔‘‘اس نے چپلوں میں پیرڈالے۔

    ’’برج نے دوسرا بیاہ کرلیا ہے۔‘‘نندکشور نے یوں کہا جیسے کوئی پرسکون، اچھا بھلا آدمی کھڑے کھڑے اچانک پتھر پھینک مارے۔

    ’’کیا۔۔۔ ؟‘‘ انجو کا ایک پیر جیسے ہوامیں معلق ہوگیا۔

    ’’ہاں۔ اس گونگی بہری لڑکی سے۔۔۔ پہلی پسند تھی نا۔‘‘

    انجو کی سمجھ میں کچھ نہیں آیا۔ کون گونگی۔ کس کی پسند۔ ٹکر ٹکر جیٹھ کا منہ تاکتی رہی۔

    ’’فکر کی کوئی بات نہیں۔ ہم ہیں نا۔ اس نامراد کی پروا کیوں کرو تم؟ آج تک ایک چوہیا کا بچہ بھی نہ پیدا کرسکا۔ ایک ہماری والی ہے۔ سال میں نومہینے تو میکے بھاگی رہتی ہے۔ اصل بہو تو تم ہو۔ سارا گھر تمہارے حوالے ہے۔ تمہارا حق کہیں نہیں جائے گا۔‘‘ نند کشور کے تنومند جسم نے جیسے جھرجھری سی لی۔ ’’چلو اٹھو شاباش۔ پھٹاپھٹ روٹیاں ڈال دو۔‘‘ کہتا ہوا وہ پیٹھ موڑ کر چلا گیا۔

    تو اسی لیے۔ جوان جہاں شادی شدہ لڑکا، پھر بھی عورت سے دور۔ سامنے ایسی لڑکی موجود تھی جس کے لیے دل میں نرم گوشے موجود تھے۔ گونگی بہری ہونے کی وجہ سے اس میں کسی قسم کا احساس کمتری بھی بیدار نہیں کرتی تھی۔ بیاہ رچالیا ہو تو تعجب کیا ہے۔ انجو کے ذہن سے اسی وقت جبار، اور وہ سب جو پہلے مرے تھے یا کل مرنے والے تھے، محو ہوگئے۔

    ۔۔۔ الیکشن منصوبہ بند دھاندلیوں کے ساتھ ہوا۔ ستیارتھی جی بری طرح ہارے اور چاچا کی پارٹی جیت گئی۔ اگلی مرتبہ چاچا خود الیکشن میں کھڑا ہوگا۔ جشن کے اس ماحول میں ایک بم، گائے جیسی بے زبان انجو نے پھوڑا۔ اپنی شکستہ تحریر میں اس نے شوہر کو لکھا کہ اب وہ یہاں ایک پل بھی اور نہیں رہے گی۔ وہ اس کی بیاہتا ہے اس لیے وہ سیدھے سبھاؤ آکر اسے رخصت کرالے جائے ورنہ وہ پنچایت بلائے گی۔ اس نے یہ بھی لکھا کہ اس کے جیٹھ کی نیت میں کھوٹ معلوم ہوتا ہے، اس لیے وہ اس طرح کا الٹی میٹم دینے کو مجبور ہے۔ وہ پلو میں اس خط کو چھپائے کرملی کے یہاں گھر کے پچھواڑے سے تیز تیز قدم اٹھاتی چلی جارہی تھی کہ نند کشور کی عقابی نظروں کی گرفت میں آگئی اور خط پکڑا گیا۔

    ’’پنچایت کا فیصلہ تو بعد میں ہوگا۔ بات ہمارے گھر کی ہے اس لیے پہلے فیصلہ ہم کریں گے۔‘‘چاچا آنگن میں گھوم گھوم کر دہاڑنے لگا۔

    ’’بہو کو یوں گھر سے نہ نکالو۔‘‘چاچی نے منت کی۔ ’’اس نے میری بڑی خدمت کی ہے۔ پھر ویسا کون ملے گاجو سارا گھر سنبھال لے۔ نوکروں چاکروں کا بس چلے تو ہمیں کنگال بنادیں۔ کھیت کھلیان تک سرپر اٹھالے جائیں۔ کام کم حرام خوری زیادہ۔ ہم سے تو اب کچھ ہوتا نہیں نندکشور کے بابو۔‘‘

    ’’جنانی کی عقل پاؤں میں۔ اے نکال کون رہا ہے۔ بس ذرا مزا چکھانا ہے۔ جائے گی کہاں؟ اس کا بھکڑ ماما تو دوسرے دن ہی یہاں لاکر ڈال جائے گا۔ اور برج کی ماں کی بھی مجال نہیں ہے کہ ہماری مرضی کے بغیر بہو کو لے جائے۔ دیکھتی جاؤ تماشہ۔‘‘ پھر وہ انجو کی کوٹھری کی طرف منہ اٹھاکر دہاڑا، ’’اس کے سسر نےتو برج کشور کو بس پیدا کیا تھا۔ پالاپوسا، پڑھایا لکھایا تو ہم نے، نوکری دلائی ہم نے۔ اس کلچھنی کو بیاہ کے لائے ہم۔ اور یہ یہاں رہنا نہیں چاہتی۔ دیوتا جیسے جیٹھ پر الزام لگاتی ہے۔ گھر کی عزت پنچایت میں نیلام کرنے کو کہتی ہے۔ جانکل جا یہاں سے۔ ابھی چلی جا۔ بہو کا گزارا ہے اس گھر میں۔ رنڈی پتریا کا نہیں۔‘‘چاچا جھاگ اگلنے لگا۔

    کوٹھری میں کھڑی انجو رانی تھر تھر کانپا کی۔ چاچا اتنا ناراض تو کبھی کسی سےنہیں ہوا تھا۔ شاید میاں ٹولے میں بھی نہیں جہاں وہ اسی طرح چلایا تھا۔ ’’یہاں تم کو رہنے کا ادھیکار دیا ہم نے۔ مسجد بنانے دی ہم نے۔ ووٹ کاادھیکار دیا ہم نے۔ زمین میں ہل چلانے دیا ہم نے۔ اب تم ووٹ دوگے ستیارتھی جی کو۔ یاد رکھو ہم جب چاہیں گے گیہوں کی فصل کی طرح تمہیں درانتی سے کاٹ کر پھینک دیں گے۔ مسجد کی ایک ایک اینٹ اکھاڑلے جائیں گے۔ جب ہم سرکار کی ناک کے نیچے سے اکھاڑ لے گئے تو تم یہاں کس گنتی میں ہو؟‘‘ پورے میاں ٹولے کو سانپ سونگھ گیا تھا۔ چھاتی ٹھونکتے چاچا کے گرگے پگڈنڈیوں پر دندمچاتے گزر گئے تھے۔

    تازہ ہوا ذرا کی۔ ذرا سانس لینے کو انجو کوٹھری سے باہر اوسارے میں اور اوسارے سے بھی باہر کھلی زمین پر آگئی۔

    گیہوں کٹ چکاتھا۔ کھیتوں کی ننگی بھوکی زمین آنکھوں کے آگے سرسرکر رہی تھی۔ اوپر چاند پوری آب و تاب کے ساتھ چمک رہا تھا۔ انجو کو ایسا لگا کہ وہ ننگی کھڑی ہے۔ چاندنی میں نہائی ہوئی۔ جسم پر ایک تار نہیں اور قریب کی امرائیوں میں بھوکے بھیڑیوں کا جھنڈ اس کا منتظر ہے۔ بھیڑیے جو طاقت ہیں۔ طاقت جو روپیہ ہے۔ طاقت جو ہتھیار ہے۔ طاقت جو ریگستانوں کے کنوؤں میں تیل بن کر بہتی ہے۔ طاقت جو سیاسی بازی گروں کی ٹیڑھی عقل ہے۔ طاقت جو پنچائت کے پنچوں کو خریدلینے کی صلاحیت ہے۔ طاقت جو مرد کی جنسی برتری ہے۔ طاقت جو قتل کو خودکشی اور نسل کشی کو فساد کہلوانے کی قدرت ہے۔

    انجو نے نظریں اٹھاکر چمکتے چاند کو دیکھا۔ خاموشی کی زبان میں اس سے پوچھا۔ اے خدا کی قدرت کے مظہر کیا تم نے خدا کو دیکھا ہے؟ کیا خدا کہیں ہے؟ ملے تو پوچھوں کہ جنہیں تم طاقت سے نوازتے ہو ان کا ضمیر کیوں چھین لیتے ہو؟ ان کے دلوں سے درد کیوں ختم کردیتے ہو؟

    امرائی میں کوئی لکڑبگھا زور سے ہنسا۔

    انجو دیر تک کسی ٹنڈمنڈ پتے جھڑے خزاں رسیدہ درخت کی طرح اگی کھڑی رہی۔ پھر سرجھکائے کوٹھری میں واپس آگئی کہ کمزوروں کےلیے کال چکر سے باہر نکلنے کی تمام راہوں پر بھیڑیے پہرہ دیتے رہتے ہیں۔

    مأخذ:

    صدائے باز گشت (Pg. 33)

    • مصنف: ذکیہ مشہدی
      • ناشر: ایجو کیشنل پبلشنگ ہاؤس، نئی دہلی
      • سن اشاعت: 2003

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے