Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

بھولی

MORE BYخواجہ احمد عباس

    کہانی کی کہانی

    تعلیم کی بدولت خواتین میں خود اعتمادی پیدا ہونے کی کہانی ہے۔ نمبردار کی سب سے چھوٹی بیٹی بھولی پیدائشی طور پر ہکلاتی ہے۔ گاؤں میں جب اسکول کھلتا ہے تو تحصیلدار کے حکم پر وہ بھولی کو اسکول میں داخل کرا دیتا ہے، حالانکہ اسے اس کی تعلیم کی مطلق پروا نہیں ہوتی۔ اسکول کی استانی کی شفقت اور توجہ کے نتیجہ میں بھولی کی جھجک دور ہو جاتی ہے۔ استانی اسے دلاسہ دیتی ہے کہ ایک دن تم بولنا سیکھ جاؤگی۔ اس طرح سات سال گزر جاتے ہیں۔ بھولی کی طرف سے اب بھی سب غافل ہیں اور اسے ہکلی، کم عقل اور گائے ہی سمجھتے ہیں۔ جس کے چیچک کے داغ ہیں اور جس سے کوئی شادی کرنے کے لئے تیار نہیں ہوگا۔ نمبردار ایک بوڑھے اور لنگڑے آدمی سے بھولی کی شادی طے کر دیتا ہے لیکن وہ ہار ڈالنے سے پہلے جب بھولی کے چہرے پر چیچک کے داغ دیکھتا ہے تو پانچ ہزار روپے کا مطالبہ کر دیتا ہے۔ نمبردار عزت بچانے کی خاطر پانچ ہزار روپے لا کر اس کے قدموں میں ڈال دیتا ہے لیکن بھولی شادی کرنے سے انکار کر دیتی ہے اور برات واپس چلی جاتی ہے۔ بھولی کی اس قوت گویائی کو دیکھ کر گاؤں والے حیران اور استانی مسرور ہوتی ہے۔

    اس کا نام تو سلیکھا تھا مگر بچپن ہی سے اس کے گھر والے ہی نہیں سارے گاؤں والے اسے بھولی کہتے تھے۔ ان کے پڑوس کے رہنے والوں کا کہنا تھا کہ نمبردار رام لال کی چوتھی بیٹی سلیکھا جب دس مہینے کی تھی تو گھاٹ پر سے سر کے بل گرپڑی تھی۔ وہ تو خیریت ہوئی کہ زمین کچی مٹی کی تھی، اس لیے ننھی جان تو بچ گئی، مگر بھیجے کی کوئی نازک رگ شدید پچک گئی۔ اس کے دوسرے بچوں کے مقابلے میں اس کی عقل کم ہی رہی۔

    مگر برادری کی بڑی بوڑھیوں کا کچھ اور ہی کہنا تھا۔ نمبردار کی چوتھی بیٹی جب پیدا ہوئی تو اتنی خوبصورت تھی کہ بالکل میم کی بچی معلوم ہوتی تھی۔ گوری چٹی لال لال بھولے بھولے گال۔ ریشمی کالے بال اور بڑی بڑی آنکھیں جو کاجل لگانے سے اور بھی بڑی بڑی لگتی تھیں۔ سارے گاؤں میں شاید ہی کوئی ہوگا جو اسے دیکھنے نہیں آیا۔ بس ان ہی آنے جانے والوں میں سے کسی ہونسنے والے کی نظر لگ گئی۔ ابھی دو سال کی نہیں ہوئی تھی کہ چیچک نکل آئی۔ وہ تو اللہ کا کرم ہوا کہ آنکھیں بچ گئیں۔ مگر سارے منہ اور بدن پر ہمیشہ کے لیے یہ چیچک کے کالے کالے داغ پڑ گئے اور بخار کی گرمی سے بھیجا کمزور ہو گیا اور زبان ہکلانے لگی۔

    کسی کا کہنا یہ بھی تھا کہ سارا قصور اصل میں لاڈو دائی کا تھا۔ اس کے ہاتھوں گاؤں کا ہر بچہ جنم لیتا تھا۔ پیدا ہوئے بچے کی نال وہی کاٹتی تھی۔ وہی نہلاتی دھلاتی تھی اور وہی بچے کے منہ میں انگلی ڈال کر گلے کے سوراخ کو بڑا کرتی تھی۔ جب ہی تو لاڈو کے ہاتھوں پیدا ہونے سے بچے اتنے زور سے روتے تھے کہ سارے گاؤں کو پتہ چل جاتا تھا کہ کسی کے گھر ایک اور بچے نے جنم لیا ہے۔ ہاں تو کہنا یہ تھا کہ نمبردار کی چوتھی بیٹی جس وقت پیدا ہوئی، لاڈو دائی جلدی میں تھی کیونکہ اسے نائب تحصیلدار کے ہاں بھی جانا تھا جس کی بیوی کو سویرے سے درد ہو رہا تھا اور وہاں سے اسے کم سے کم پانچ روپے فیس ملنے کی امید تھی اور اگر اللہ کے کرم سے بیٹا ہوا تو دس روپے انعام بھی۔ سو اس نے جلدی جلدی نال کاٹی، پھر بچی کو نہلایا بھی لیکن منہ میں انگلی ڈال کر گلے کا سوراخ بڑا کرنا بھول گئی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اس بچی کے منہ سے کبھی کسی نے اونچی آواز نہیں سنی اور جب پانچ برس کی عمر میں بولنا شروع کیا تو نہ صرف تتلا کر، بلکہ ہکلاکر اور جب دوسرے بچوں اور بچیوں نے اس کا مذاق اڑایا اور اس کے ہکلا کر بولنے کی نقل کر کے ہنستے تو اس نے منہ پر گویا تالا ہی لگا لیا۔ بس کوئی بہت ہی ضروری بات ہوتی تو رک رک کر دوچار لفظ بولتی اور پھر چپ ہو جاتی اور کبھی بات کرتی بھی تو وہ اتنی سیدھی اور بچکانہ ہوتی کہ سننے والے بےاختیار ہنس پڑتے اور کہتے۔۔۔ بڑی بھولی ہے بچاری۔

    نمبردار کے سات بچے تھے۔ تین لڑکے اور چار لڑکیاں، جن میں سب سے چھوٹی بھولی تھی۔ گھر میں کھانے پینے کو کافی تھا۔ دودھ، دہی، مکھن کسی چیز کی کمی نہیں تھی۔ سب کی صحت بڑی اچھی تھی۔ بڑا لڑکا سریندر چودہ برس کی عمر میں بھی باپ کے برابر لمبا اور صحت مند تھا۔ اس سے چھوٹی رادھا تیرہ برس کی عمر میں اچھی خاصی خوبصورت عورت لگتی تھی۔ نمبردار نے رادھا کی شادی بڑی دھوم دھام سے کی۔ لڑکے کا باپ بھی پاس کے گاؤں کا نمبردار تھا اور لڑکا شہر میں میٹرک پاس کر کے کالج میں داخل ہوا تھا۔ رادھا کی سسرال کی دیکھا دیکھی نمبردار نےاپنے بیٹوں کو بھی آگے پڑھنے کے لیے شہر میں بھیج دیا۔ اب گھر میں صرف لڑکیاں رہ گئیں۔ منگلا جو بارہ برس کی تھی اور جس کی شادی کی بات چیت بھی ہو رہی تھی۔ چمپا دس برس کی تھی۔ مگر نمبردار کی بیوی کا ارادہ تھا کہ منگلا کے ہاتھ پیلے کرتے ہی چمپا کی سگائی بھی کہیں کر دی جائے۔

    مگر رات کو جب کھانے کے بعد آنگن میں نمبردار کھاٹ پر بیٹھ کر حقہ گڑگڑاتا تو اکثر اپنی بیوی سے کہتا، ’’ سریندر کی ماں! اور سب بچے تو ٹھکانے لگ جائیں گے، مگر اس کمبخت بھولی کا کیا ہوگا۔ اس کو کون بیاہے گا۔‘‘ وہ ٹھنڈی سانس لے کر کہتی، ’’جو بھگوان کو منظور ہوگا، وہی ہوگا۔‘‘ اور اپنی چھوٹی سی پلنگڑی پر لیٹی ہوئی پانچ سال کی بچی سوچتی، ’’یہ بیاہ کیا ہوتا ہے؟ اور بھگوان کہاں رہتا ہے؟‘‘

    بھولی سات برس کی تھی کہ منگلا کا بیاہ بھی ہو گیا اور وہ اپنی سسرال چلی گئی۔ اسی برس ان کے گاؤں میں لڑکیوں کا ایک پرائمری اسکول بھی کھل گیا۔ تحصیلدار صاحب اسکول کا افتتاح کرنے آئے تو انہوں نے نمبردار سے کہا تم کو اپنی لڑکیوں کو بھی اسکول میں داخل کرانا چاہیے تاکہ دوسرے گاؤں والوں کے سامنے اچھی مثال قائم ہو۔ اس رات نمبردار نے اس معاملے میں بیوی سے صلاح کی۔ اس نے کہا، ’’پاگل ہوئے ہو، لڑکیاں اسکول میں پڑھنے جائیں گی تو بدنام ہو جائیں گی، پھر ان کو بیاہے گا کون؟ پھر چمپا کی تو اب سگائی ہو گئی ہے۔ کون جانے اس بات پر وہ لوگ انکار ہی نہ کر دیں۔‘‘

    پھر نمبردار نے اسے سمجھایا، ’’یہ سرکاری معاملہ ہے، تحصیلدار صاحب کو معلوم ہوا تو خفا ہوں گے۔ کون جانے مجھے برخاست ہی کر دیں۔ یہ سرکار نہ جانے لڑکیوں کو پڑھانے کے پیچھے کیوں پڑی ہے۔ پھر یہ نمبردار، ذیلدار، پٹیل اور پٹواری کو حکم دیا جاتا ہے کہ دوسرے گاؤں والوں کے لیے مثال قائم کرو۔ میں تو بڑی مشکل میں پڑ گیا ہوں۔‘‘ نمبردار کی بیوی سمجھدار تھی۔ بولی، ’’میں بتاؤں، بھولی کو اسکول میں داخل کر دو۔ ویسے بھی اس بےچاری کو کون بیاہنے والا ہے۔ نہ صورت نہ شکل ہے، نہ بھیجے میں عقل ہی ہے۔‘‘

    نمبردار نے بیوی کی رائے سے اتفاق کیا اور اگلے دن بھولی کو اسکول میں داخل کرانے لے گیا۔ اس بےچاری کو تو یہ بھی نہیں معلوم تھا کہ اسکول کیا ہوتا ہے۔ جب باپ نے کہا کہ چل میرے ساتھ تو وہ سمجھی کہ اسے گھر سے نکال رہے ہیں، جیسے لکشمی کو نکال دیا تھا۔ لکشمی ان کی ایک بوڑھی گائے تھی جس سے بھولی بہت پیار کرتی تھی۔ اس لیے کہ یہ گائے کبھی اس کا مذاق نہیں اڑاتی تھی، نہ اس سے اوندھے سیدھے سوال کرتی تھی، جن سے بھولی کو اپنی جہالت اور کمتری کا احساس ہو۔ باپ کی طرح ڈانٹتی بھی نہیں تھی اور ماں کی طرح اسے کوستی بھی نہیں تھی۔ صرف اپنی موٹی موٹی آنکھوں سے بھولی کی طرف دیکھتی تھی اور کبھی کبھی اپنی گرم گرم گلابی زبان سے بچی کے گالوں کو چاٹتی تھی۔

    لکشمی بوڑھی ہو گئی تھی۔ اب وہ دودھ نہیں دیتی تھی۔ اب وہ کبھی بچھڑا بھی نہیں دے سکتی تھی۔ بس کھڑی کھڑی تکا کرتی تھی۔ سو نمبردار نے چپکے سے ایک قصائی کے ہاتھ سے پچیس روپے لے کر لکشمی کو گھر سے نکال دیا تھا اور قصائی لکشمی کو رسی سے کھینچ کر لے گیا تھا۔ اس وقت گلی میں کوئی نہیں تھا۔ سوائے بھولی کے، جو لکشمی کے ڈکرانے کی آواز سن کر گھر سے نکل آئی تھی۔ اس نےقصائی کے ہاتھ سےرسی چھڑانے کی کوشش کی مگر قصائی نے جھٹکا مار کر رسی چھڑا لی اور بھولی دور جا گری۔ وہ چلانا چاہتی تھی میری لکشمی کو مت لے جاؤ۔ میری لکشمی کو مت لے جاؤ۔ مگر غم اور غصے سے اس کی ہکلاہٹ اور بھی بڑھ گئی۔ اور اس کی زبان سے سوائے ہے۔۔۔ ہے۔۔۔ ہے۔۔۔ ہے کے اور کچھ نہیں نکلا۔ غریب لکشمی پیچھے مڑ مڑ کر اپنی بڑی بڑی آنکھوں سے بھولی کی طرف دیکھتی رہی مگر قصائی اسے گھسیٹتا ہوا لے گیا اور بھولی وہیں زمین پر پڑی روتی رہی۔

    سو جب اس کے باپ نے بھولی کا ہاتھ پکڑ کر اٹھایا اور کہا، ’’ چل میرے ساتھ، تجھے اسکول میں چھوڑ کر آؤں۔‘‘ تو وہ سمجھی کہ لکشمی کی طرح مجھے بھی کسی قصائی کے حوالے کیا جا رہا ہے اور وہ زمین پر پچھاڑیں کھا کر رونے لگی۔

    ’’اری مری کیوں جا رہی ہے؟ اسکول ہی تو لے جا رہا ہوں ماسٹرنی کے پاس۔ کسی قصائی کے حوالے تو نہیں کر رہا۔‘‘ نمبردار نے ڈانٹ کر کہا اور بیوی کو حکم دیا، ’’ذرا اسے کوئی ڈھنگ کے کپڑے تو پہنا دو۔ اسکول میں دوسری بچیاں کیا کہیں گی۔‘‘ بھولی کے لیے کبھی نئے کپڑے بنے ہی نہیں تھے۔ چمپا کے جو کپڑے چھوٹے ہو جائیں یا پھٹ جائیں وہی بھولی کو مل جاتے تھے۔ پھر ان کو کبھی نہ دھویا جاتا تھا نہ ان کی مرمت ہوتی۔ میلے چیکٹ ہو جاتے، پھٹ پھٹ کر چیتھڑے ہو جاتے، تب بھی اس کو دوسرا جوڑا نصیب نہ ہوتا مگر آج ماں نےاسے چمپا کا ایک پرانا مگر اچھا صاف جوڑا پہنایا۔ سر میں کڑوا تیل ڈال کر چوٹی گوندھی۔ تب بھولی کو اطمینان ہوا کہ اسے قصائی کے حوالے نہیں کیا جا رہا ہے بلکہ شاید کسی اچھی جگہ لے جایا جا رہا ہے۔

    بھولی جب اسکول پہنچی تو پڑھائی شروع ہو گئی تھی۔ نمبردار تو بڑی استانی کے سپرد کرکے چلا آیا اور بھولی گھبرا گھبرا کر پھٹی پھٹی آنکھوں سے ادھر ادھر دیکھنے لگی۔ کئی کمرے تھے اور ہر کمرے میں اس جیسی کتنی ہی لڑکیاں چٹائی پر بیٹھی پڑھ رہی تھیں۔ بڑی استانی نے اسے ایک کمرے کے کونے میں سب سے پیچھے بٹھا دیا۔ ابھی تک بھولی کے یہ سمجھ میں نہیں آیا تھا کہ اسکول کیا ہوتا ہے اور وہاں بچے کیوں آتے ہیں۔ مگر اتنی بہت سی بچیوں کو دیکھ کر اسے اطمینان سا ہو گیا۔ اس کی بہنیں تو اس سے سیدھے منہ بات بھی نہ کرتی تھیں۔ شاید ان لڑکیوں میں سے کوئی اس کی سہلی بن جائے، جیسے لکشمی اس کی سہیلی تھی۔ اور گائے کو یاد کر کے وہ پھر اداس ہو گئی۔

    استانی اور بچیوں کی کچھ غیرمتعلق آوازیں کمرے میں گونج رہی تھیں، مگر نہ تو بھولی کے سمجھ میں آ رہا تھا کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں اور نہ ہی اسے ان کی باتوں میں کوئی خاص دلچسپی تھی۔ اسے تو دیوار پر لٹکی ہوئی تصویروں میں دلچسپی تھی۔ ارے واہ واہ کتنی اچھی اچھی رنگین تصویریں ہیں۔ بالکل جیسے سچ مچ کی ہوں۔ لال لال گھوڑا جیسے گھوڑے پرتحصیلدار صاحب بیٹھ کر گاؤں میں آتے تھے۔ اور کالی کالی بکری جیسے اس کے پڑوسی تیلی کی بکری ہے۔ اور لال لال چونچ کا ہرا ہرا طوطا جیسا اس نے آموں کے باغ میں دیکھا تھا اور کالی کالی چتیوں والی گائے۔ بالکل لکشمی جیسی۔۔۔ دفعتاً بھولی نے دیکھا کہ استانی اس کے پاس کھڑی ہے اور اس سے سوال کر رہی ہے۔ بھو۔۔۔ بھو۔۔۔ بھو۔۔۔ اور ہکلاہٹ کے مارے وہ اپنا نام بھی نہ بتا سکی۔

    ایک لڑکی بولی، ’’بہن اس کا نام بھولی ہے۔ بھولی۔‘‘ اور ساری کلاس کی لڑکیاں اس کی طرف دیکھ کر ہنس پڑیں، اور بھولی کو ایسا لگا جیسے ان کی ہنسی کے طمانچے اس کے گالوں پر پڑ رہے ہیں اور شرم اور غصے سے وہ لال ہو گئی اور دانت کچکچا کر اس نے اپنا نام ادا کرنا چاہا، ’’بھو۔۔۔ بھو۔۔۔ بھو۔۔۔‘‘ اور پھر وہ رونے لگی۔۔۔ زور زور سے۔۔۔ دھاڑیں مارمار کر، یہاں تک کہ ہچکیاں بندھ گئیں اور وہ کونے میں منہ چھپا کر بیٹھ گئی۔ جب اسکول ختم ہونے کی گھنٹی بجی اور سب لڑکیاں کلاس چھوڑ کر بھاگیں، تب بھی بھولی وہیں بیٹھی رہی۔ سر جھکائے سسکیاں لیتی رہی!

    ’’بھولی!‘‘ تو اسے سب ہی کہتے تھے۔ حقارت سے۔ نفرت سے۔ مذاق سے۔ مگر استانی کی آواز میں ایسی نرمی تھی کہ بھولی کو ایسا لگا جیسے اس کے دل کے زخموں پر کسی نے مرہم رکھ دیا ہو۔ اس نے آنکھیں اٹھا کر دیکھا کہ استانی اس کے پاس کھڑی ہے۔

    ’’اٹھو۔‘‘ استانی نے کہا اور وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔

    ’’اب اپنا نام بتاؤ۔‘‘ بھولی کو اس ڈر سے پسینہ آ گیا کہ پھر اسے اپنی ہکلاہٹ کے مارے ذلیل ہونا پڑےگا۔ پھر بھی اس مہربان استانی کی خاطر اس نے کوشش کی، ’’بھو۔۔۔ بھو۔۔۔ بھو۔۔۔‘‘

    ’’شاباش۔ شاباش۔ پورا نام بتاؤ۔‘‘

    ’’بھو۔۔۔ بھو۔۔۔ بھولی۔‘‘ آخر کار نام پورا ہو ہی گیا اور بھولی کو یوں محسوس ہوا جیسے اس نے بہت بڑا کام کیا ہو۔

    ’’شاباش۔‘‘ استانی نے اسے پیار سے تھپکتے ہوئے کہا۔

    ’’جب تمہارے دل سے ڈر نکل جائےگا تو تم اور سب کی طرح بولنے لگوگی۔‘‘

    بھولی کی آنکھوں نے استانی سے پوچھا، ’’سچ؟‘‘

    ’’ہاں۔ ہاں۔ یہ کوئی ناممکن بات نہیں ہے۔ بس تم روز اسکول آیا کرو۔ آؤگی نا؟‘‘

    بھولی نے سر ہلا کر ’’ہاں“ کہا۔

    ’’یوں نہیں۔ زبان سے ہاں کہہ کر کہو۔ اگر تم سچ مچ یہاں آنا چاہتی ہو تو ہاں تمہاری زبان سے فوراً نکل آئےگا۔‘‘

    ’’ھ۔۔۔ ھ۔۔۔ ہاں!‘‘ اور بھولی حیران رہ گئی کہ یہ کیسے ہوا۔

    ’’دیکھا تم نے؟ یہ لو کتاب۔‘‘

    کتاب رنگین تھی اور اس میں بڑی اچھی اچھی تصویریں تھیں۔ کتا، بلی اور بکرا اور گھوڑا اور طوطا اور شیر اور گائے، لکشمی جیسی گائے۔ ساتھ میں اردو کے کچھ لفظ بھی لکھے تھے۔

    ’’یہ کتاب پڑھنا تو تمہیں ایک مہینہ میں آ جائےگا بھولی۔۔۔ پھر تم اس سے بڑی کتاب پڑھوگی۔ پھر اس سے بڑی۔۔۔ اور پھر تم سب گاؤں والوں سے زیادہ پڑھ جاؤگی۔ پھر تمہارا کوئی مذاق نہیں اڑائےگا۔ ہر کوئی تمہاری عزت کرےگا۔ اور جو بات بھی تمہارے دل میں آئے گی تم اس کا اظہار کر سکوگی۔ سمجھیں تم؟ شاباش! اب جاؤ۔ کل سویرے آنا۔‘‘ بھولی کو ایسا لگا جیسے مندر کے گھنٹے ایک دم بج پڑے ہوں۔ جیسے اسکول کے سامنے اگے ہوئے کیکر کے پیڑ پر ایک دم سے لال لال پھول نکل آئے ہوں، جیسے وہ اپنی ہکلاہٹ کو دور کر کے وہ سارے گیت گانے لگی ہو جو اس کی بہنیں گایا کرتی تھیں اور جنہیں آج تک وہ نہ گا سکی تھی۔

    اس نے سوچا جب میں گھر جاؤں گی اور باپو اور ماں اور چمپا مجھ سے پوچھیں گے کہ اسکول کیسا لگا تو میں انہیں بتادوں گی کہ اسکول کتنا بڑا ہے اور استانی کتنی اچھی ہے اور انہیں یہ خوبصورت کتاب دکھا دوں گی اور اس میں بنی ہوئی رنگین تصویریں۔ اور ان سے بات کرتے ہوئے میں ایک بار بھی نہیں ہکلاؤں گی۔ مگر جب وہ گھر پہنچی تو اس کے باپ نے کچھ نہیں پوچھا۔ اس کی ماں نے بھی کچھ نہیں پوچھا۔ صرف اتنا کہا ڈانٹ کر، ’’چل یہ کپڑے اتار کر سنبھال کر رکھ۔ گھر میں دھول مٹی میں خراب کرے گی تو پھر خوب ہی درگت بنا دوں گی تیری۔‘‘ اور چمپا نے بھی کچھ نہیں پوچھا۔ اور وہ اپنی ریشمی شلوار سیتی رہی جو اس کے جہیز کے لیے بن رہی تھی۔

    سو بھولی کسی کو کچھ نہ بتا سکی۔ کاش لکشمی ہی ہوتی تو وہ اسے ہی اپنے اسکول اور اپنی استانی اور اپنی کتاب کے بارے میں بتاتی اور کہتی، دیکھ لکشمی کسی کو کہنا نہیں مگر میں ایک دن سب کی طرح سے فر فر باتیں کروں گی۔ استانی جھوٹ تھوڑی بولتی ہے۔ مگر لکشمی تو کب کی قصائی کی چھری تلے آچکی تھی۔ سو بھولی چپ چاپ اپنے کونے میں بیٹھی رہی اور اس نے اپنی کتاب کو اناج کی کوٹھی میں چھپا دیا مگر اس کا دل دھڑک دھڑک کر اعلان کر رہا تھا، ’’بھولی بولے گی۔ بھولی بولےگی۔‘‘

    اور یوں سات برس گزر گئے۔ بھولی اسکول جاتی رہی۔ اس لیے کہ نمبردار کو اپنی ایک بیٹی کو تو پڑھاکر گاؤں کے لیے مثال قائم کرنی چاہیے۔ چمپا کا بیاہ ہو گیا۔ سریندر بی اے کر کے شہر کے ایک دفتر میں ملازم ہو گیا۔ نمبردار نے اپنا کچے مکان پختہ کروا لیا۔ گاؤں کی آبادی اتنی بڑھی کہ وہاں اسکول کے علاوہ ایک تنبو والا سینما بھی قائم ہو گیا اور ایک کپاس کو صاف کرنے کا کارخانہ اور اب تو ڈاک گاڑیاں بھی ان کے اسٹیشن پر رکنے لگیں اور تحصیلدار تو کیا، اب تو کبھی کبھی کلکٹر صاحب اور ایک بار تو منسٹر بھی وہاں کا دورہ کرنے لگے۔ ایک رات کو اپنے پکے نئے مکان کی چھت پر پلنگ پر بیٹھ کر حقہ گڑگڑاتے ہوئے نمبردار نے بیوی سے کہا، ’’تو پھر بشمبر کو ہاں کہہ دوں؟‘‘

    ’’ہاں تو اور کیا۔ اس سے اچھا بر بھلا اس نگوڑی کو کہاں ملےگا۔ اچھی بڑی دکان ہے۔ اپنا مکان ہے۔ آٹھ دس ہزار روپے نقد بھی ہیں۔ پھر بےچارہ جہیز دان کچھ نہیں مانگتا۔‘‘

    ’’وہ ٹھیک ہے، مگر عمر ذرا زیادہ ہے نا؟ پہلی بیوی کے بچے بھی بڑے بڑے ہیں۔‘‘

    ’’تو پھر کیا ہوا؟ چالیس پچاس کی عمر بھی کوئی عمر ہووے ہے کیا۔ اب اس کلموہی کے لیے کوئی راج کمار آئےگا کیا؟ وہ تو اچھا ہوا کہ بشمبر دوسرے قصبے کا ہے۔ نہیں تو کاہے کو کوئی پیغام دیتا۔ یہ رشتہ نہ ہوا تو پھر عمر بھر کنواری رہےگی اور ہماری چھاتی پر مونگ دلےگی۔‘‘

    نمبردار نے کہا، ’’پھر بھی ڈرتا ہوں نہ جانے لڑکی کیا کہےگی۔‘‘

    ’’ارے وہ پگلی کیا کہےگی۔ بھیجے میں عقل نہیں۔ منہ میں زبان نہیں۔ وہ تو بے چاری گائے ہے گائے۔ لکشمی کو تم نے قصائی کے حوالے کر دیا تھا، وہ کچھ بولی تھی کیا؟‘‘

    ’’تم بھی ٹھیک ہی کہتی ہو۔‘‘ اور پھر وہ حقہ گڑگڑانے لگا۔ اور بھولی جو ابھی سوئی نہیں تھی اور یہ سب سن رہی تھی، بڑی دیر تک آسمان کو تکتی رہی، جہاں لاکھوں ستارے جھلملا کر نہ جانے اس سے کیا کہہ رہے تھے۔ بشمبر ناتھ، جس کی دوسرے قصبے میں پنساری کی دکان تھی۔ جہاں پر وہ ہلدی، دھنیا، نمک، گھی بیچتا تھا، بڑی بھاری برات لے کر آیا۔ نمبردار رام لال کی تو خوشی کے مارے باچھیں کھل گئیں۔ اسے کیا معلوم تھا کہ اس کی چوتھی بیٹی کی قسمت یوں چمکےگی۔ رادھا، منگلا، چمپا جو اپنی سسرال سے بھولی کے بیاہ میں شرکت کرنے آئی تھیں، برات کے ٹھاٹ باٹ کو دیکھ کر جل ہی تو گئیں۔

    ’’اس پگلی ہکلی مردار کی یہ قسمت؟‘‘ منگلا نے کہا۔ پھر رادھا نے کہا، ’’اری اس کے دولہا کو بھی دیکھا ہے۔ مونچھوں میں خضاب لگاتا ہے۔‘‘ اور چمپا بولی، ’’میں نے سنا ہے لنگڑاتا بھی ہے۔‘‘

    ’’ہاں۔ اور یہ بڑے بڑے تو لڑکے ہیں اس کے۔‘‘ اور یہ سب سوچ کر ان کو تھوڑی بہت تسلی ہوگئی کہ برات شاندار سہی، مگر بھولی کا دولہا تو لنگڑا ہے، بڈھا ہے۔ براتیوں کو ہار پان تقسیم ہو رہے تھے۔ بینڈ باجا ایک فلمی دھن بجا رہا تھا، ’’دلہنیا چھما چھم چھما چھم چلی۔‘‘ پروہت نے کہا، ’’مہورت کا وقت ہوگیا۔ اب کنیادان ہونا ہی چاہئے۔‘‘ بشمبر ناتھ تو بےتابی سے خود ہی سہرا ہلاتا ہوا ہو کنڈ کے پاس آکر بیٹھ گیا۔

    ’’لڑکی کو لاؤ۔ لڑکی کو لاؤ۔‘‘ آوازیں باہر سے اندر کی طرف گئیں۔ ماں نے بھولی کو سہارا دے کر اٹھایا، ’’آ بھولی! تو بڑی قسمت والی ہے۔‘‘ بھولی نظریں جھکائے باہر آئی۔ زیور اور بھاری کپڑوں کے بوجھ سے دبی ہوئی۔ ہون کنڈ کے پاس اسے دولہا کے برابر پیڑے پر بٹھا دیا گیا۔ بشمبر ناتھ کے ایک دوست نےکہا، ’’چل بھئی بشمبر۔ کنیا کو ہار پہنا۔‘‘ اس نے ہار پہنانے کو اٹھایا، پاس کھڑی ہوئی ایک عورت نے گھونگھٹ سرکا دیا۔ ہار بشمبر کے جھری پڑے ہاتھوں ہی میں لرزتا رہا۔

    ’’ٹھہرو!‘‘ اس نے اپنے دوست سے دبی ہوئی آواز میں کہا، مگر آس پاس والوں نے سن ہی لیا۔ دلہن کے منہ پر گھونگھٹ پھر آ گیا۔

    ’’ارے اس کے منہ پر تو چیچک کے داغ ہیں۔‘‘ بشمبر نے کہا۔

    ’’تو اب کیا ہو سکتا ہے، تو بھی کون سا جوان پٹھا ہے۔‘‘ اس کے دوست نے سمجھایا۔

    ’’ارے یہ ایسی تھی تو ہمیں کم سے کم پانچ ہزار مانگنا چاہیے تھا۔‘‘

    ’’یہ پہلے سوچنا چاہئے تھا۔ اب کیا برات واپس لے کر جائیں گے؟‘‘

    ’’نہیں نمبردار سے کہو پانچ ہزار لائے۔‘‘

    نمبردار رام لال کے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے۔ اتنی ذلت اس کی کبھی نہیں ہوئی تھی۔ آج اس کمبخت بھولی کے ہاتھوں اس کی عزت کو یوں لٹنا تھا اور پھر ایک نہ دو، پورے پانچ ہزار۔ اتنی بڑی رقم وہ کیسے دےدے۔ مشکل سے عمر بھر جوڑ کر رشوتیں لے لے کر چھ سات ہزار روپیے تو اس نے جمع کیے تھے۔ اس نے بشمبر کے پاؤں میں اپنی پگڑی ڈال دی۔

    ’’میری عزت کا سوال ہے بیٹا۔ دو ہزار دیتا ہوں ابھی۔‘‘

    ’’نہیں پانچ ہزار۔ ورنہ ہم جاتے ہیں۔‘‘

    ’’کچھ تو خیال کرو، تو برات واپس لے گیا تو میں کسی کو منہ نہیں دکھا سکوں گا۔‘‘

    ’’تو پھر نکالو پانچ ہزار۔‘‘

    روتا ہوا نمبر دار اندر گیا۔ کانپتے ہوئے ہاتھوں سے الماری کھولی۔ نوٹ گنے اور پورے پانچ ہزار دولہا کے آگے ڈال دیے۔ بشمبر کے چہرے پر ایک فاتحانہ مسکراہٹ تھی، ’’لاؤ جی۔ اب ہار دو۔‘‘ ایک بار پھر دلہن کا گھونگھٹ سرکایا گیا، مگر اس بار اس کی نظریں جھکی ہوئی نہ تھیں۔ وہ اپنے ہونے والے شوہر کو گھور رہی تھی اور آنکھوں میں نفرت نہیں، غصہ نہیں، صرف حقارت تھی۔ بشمبر کا ہاتھ اٹھا کہ ہار بھولی کے گلے میں ڈال دے مگر اس سے پہلے بھولی کا ہاتھ بجلی کی طرح کوندا اور اس نے ہار چھین کر پھینک دیا۔ اسی لمحے پیڑے سے اٹھ کر کھڑی ہو گئی۔ سارے مجمع میں کھلبلی مچ گئی۔ جتنے منہ اتنی باتیں۔ کمبخت بدصورت بھی ہے اور بے شرم بھی۔ کیا زمانہ آیا جی۔ اسے تو سب بھولی سمجھتے تھے۔۔۔

    ’’پتا جی!‘‘ بھولی کی آواز گونجی اور اس بار اس میں ہکلاہٹ کا شائبہ بھی نہ تھا۔ اس کا باپ، اس کی ماں، اس کے بھائی اور بہنیں اور گاؤں کے لوگ یہ سن کر حیران رہ گئے۔

    ’’پتا جی اٹھائیے اپنے پانچ ہزار۔ مجھے اس سے بیاہ کرنا منظور نہیں ہے۔‘‘

    ’’بھولی! اری بھولی کمبخت کیا کر رہی ہے۔ ماں باپ کی ناک کاٹنا چاہتی ہے کیا۔ کچھ تو ہماری عزت کا خیال کر۔‘‘

    ’’تمہاری عزت کی خاطر میں اس بڈھے لنگڑے سے بیاہ کرنے کو تیار تھی، مگر اس لالچی کمینے سے شادی ہرگز نہیں کروں گی۔ نہیں کروں گی۔ نہیں کروں گی۔‘‘ یہ لفظ دہرائے جا رہی تھی جیسے اس پر ہسٹریا کا دورہ پڑ گیا ہو۔

    ’’ارے ہم تو اسے گائے سمجھتے تھے، گائے۔‘‘ بھولی یہ کہنے والے کی طرف تیزی سے گھومی، ’’ہاں خالہ! مجھے سب گائے سمجھتے تھے۔ تبھی اس قصائی کے حوالے کیے دے رہے تھے۔ پر اب ہکلی بول رہی ہے اور بھولی اتنی بھولی نہیں رہی کہ جان کر اس دوزخ میں گر پڑے۔‘‘

    بشمبر ناتھ گالیاں بکتا ہوا برات کو واپس لے جا رہا تھا۔ اس کے ساتھی خوفناک انتقام کی دھمکیاں دے رہے تھے۔ نمبردار رام لال سر جھکائے کھڑا تھا۔ اس کی بیوی دھاڑیں مار مار کر رو رہی تھی۔ جب سب باہر والے چلے گئے اور ہون کنڈ کی آگ ٹھنڈی ہوگئی۔ تب رام لال نے بیٹی کی طرف دیکھا اور بولا، ’’جو ہوا سو ہوا۔ مگر اب تیرا ہوگا کیا؟‘‘

    اور وہ جو بھولی تھی اور جو ہکلی تھی اور وہ جسے سب بے وقوف اور پاگل سمجھتے تھے بولی، ’’گھبراؤ نہ پتاجی۔ بڑھاپے میں تمہاری اور ماں کی خدمت کروں گی اور جہاں میں نے پڑھا ہے اس اسکول میں بچوں کو پڑھاؤں گی۔ کیوں آپا جی ٹھیک ہے نا؟‘‘ استانی جو ایک کونے میں کھڑی تھی بولی، ’’ہاں۔ بھولی۔ ضرور۔‘‘ اور اس کی مسکراتی ہوئی آنکھوں میں وہ روشنی تھی جو ایک مصنف کی آنکھوں میں ہوتی ہے جب وہ اپنے شاہکار کی آخری سطر لکھتا ہے، جو ایک مصور کی آنکھوں میں ہوتی ہے، جب وہ اپنی تخلیق کی ہوئی تصویر کو مکمل دیکھتا ہے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے