Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

بھوک

MORE BYخواجہ احمد عباس

    کہانی کی کہانی

    کہانی ایک مجسمہ کے گرد گھومتی ہے جس کا نام اس کے تخلیق کار نے 'بھوک' رکھا ہے۔ ایک روز وہ مجسمہ چوری ہو جاتا ہے۔ پولس اس کی تلاش میں ہر اس جگہ جاتی ہے جہاں انھیں شبہ ہوتا ہے۔ مجسمہ ساز بھی پولس کے ساتھ ساتھ ہوتا ہے جو 'بھوک' کی تلاش میں اپنی بھوک کو مٹاتا جاتا ہے۔

    ڈائننگ ٹیبل پر تین قسم کے انڈے رکھے ہوئے تھے۔ ابلے ہوئے انڈے، فرائڈ انڈے، چھ انڈوں کا آملیٹ ایک کانچ کی قاب میں رکھا تھا۔ تین قسم کے سیریل پیکٹوں میں رکھے تھے۔ کویکر اوٹس، کورن فلیکس اور کرسپیز۔ دودھ کا ایک جگ بیچ میں رکھا تھا۔ الیکٹرک ٹوسٹر میں ٹوسٹ رکھے تھے اور اچھل کر باہر آنے کا انتظار کر رہے تھے۔ کافی پاٹ میں کافی تھی۔ چائے دانی میں چائے تھی۔ چاندی کے شگر پاٹ میں شکر تھی۔ یہ سب تھا اور سامنے ’’بھوک‘‘ کھڑی تھی۔

    ڈائنگ ٹیبل کے عین سامنے ’’بھوک‘‘ کو رکھ چھوڑا تھا۔ رانی نے مسکراکر سوچا۔

    ’’کم سے کم بچوں کو تو بھوک لگنی چاہیے۔ اب وہ دودھ پینے اور انڈا کھانے سے انکار تو نہیں کریں گے۔‘‘ اس کے تین بچے تھے۔

    سب سے بڑا تو راجکمار تھا۔

    اس کے بعد شہزادی تھی۔

    اور سب سے چھوٹا بلو تھا جس کا اصل نام بکرم تھا۔

    اس کا شوہر (اور ان سب بچوں کا باپ) ٹوٹو ٹیکم چند بزنس کے سلسلے میں سال کے آٹھ مہینے غیرملکوں میں گزارتا تھا۔ وقت گزارنے کے لیے رانی نے اسکچنگ، پینٹنگ اور اب مورتیاں بنانے کے آرٹ کو اپنا لیا تھا۔ اب ٹوٹو جب تک جی چاہے بدیش میں رہے اور وہاں کی لڑکیوں سے اپنا دل بہلائے۔ رانی کو اس کی یاد کبھی نہ ستاتی تھی۔ اور اگر کبھی یاد آئی بھی تو اس کے پاس ’’بھوک‘‘ جو تھی۔ جو اس کا شاہکار تصور کیا جاتا تھا۔

    ’’بھوک‘‘ ایک قد آدم مورتی تھی جس کو اس نے اسکریپ میٹل (یعنی پرانی دھات کے ٹکڑوں ) سے بنایا تھا۔ یہ دھات اسے اپنے شوہر کے پیکنگ ڈپارٹمنٹ سے مفت مل گئی تھی۔ دھات کی پتیاں جو لکڑی کے کریٹ پر لگائی جاتی تھیں وہ ایک کونے میں پڑی ہوئی تھیں، ان کو ہی وہ اٹھا لائی تھیں اور لوہے کی سلاخوں کی مدد سے اس نے ’’بھوک‘‘کا ڈھانچہ کھڑا کر لیا تھا۔ باقی مورتی کی سب لائینیں، سب خد و خال اس نے دھات کی پتیوں کو توڑ مروڑ کر بنا لیے تھے۔ ’’آرٹسٹ ہونا چاہیے، وہ کچرے سے بھی آرٹ تخلیق کر سکتا ہے‘‘ یہ سب فن کے نقادوں نے اس کی نمایش میں رکھی ہوئی مورتی ’’بھوک‘‘ کے بارے میں لکھا تھا اور یہ پڑھ کر رانی فخر سے پھولی نہ سمائی تھی۔

    ایک نقاد نے لکھا تھا، ’’جس طرح بھوک انسان کی ایک بنیادی حس ہے، اسی طرح مسز رانی ٹیکم چند کی مورتی ’’بھوک‘‘آرٹ کا ایک لافانی شاہکار ہے۔ ’’بھوک‘‘ واقعی امر ہے۔

    رانی نے ’’بھوک‘‘ کی مورتی بناتے وقت ان سب بھوکے بھکاریوں اور بھکارنوں کا خیال کیا تھا، جنھوں نے اس سے کبھی بھیک مانگی تھی۔ ایک آدمی تو اسے یاد تھا جو اپنے اندر کچلے ہوئے پیٹ کو بجا بجاکر بھیک مانگ رہا تھا۔ اس لیے رانی نے اپنی مورتی کا بھی پچکا ہوا پیٹ بنایا تھا۔ جو مشکل کام نہیں تھا۔ صرف دھات کی پتلی پتیوں کو اندر کی طرف دھکا دے کر پیٹ کو کھوکھلا کر دیا تھا اور مورتی کے ہاتھوں کو جو بالکل پنجر معلوم ہوتے تھے، پیٹ کے اوپر رکھ دیا تھا۔ معلوم ہوتا تھا کہ پیٹ بجا رہے ہیں۔ مورتی واقعی اتنی اصل معلوم ہوتی تھی جیسے اب بولی اب بولی، ’’میں بھوکا ہوں۔ تین دن سے کھانا نہیں کھایا۔ مجھے بھیک دو۔‘‘ یہ آوازیں اپنے تخیل میں رانی نے مورتی کو تخلیق کرتے ہوئے سنی تھیں اور ان آوازوں کو بھی اس نے اپنے آرٹ سے اس مورتی کی آواز سے نہیں، بلکہ اس کے انداز سے آشکار کیا تھا۔ مگر ایک دفعہ اسے بناکر وہ بھول گئی تھی کہ وہ کیا کہہ رہی ہے یا وہ کیا کہہ رہا ہے۔ اب تو اس کی مورتی مکمل ہو گئی تھی۔ تخیل کا کام آرٹ کو تخلیق دینا ہی تو ہے۔ بس جب آرٹ کی تخلیق ہوگئی تو پھر اس سلسلے کو بھولنا ہی بہتر ہے جس کی مدد سے آرٹ کی تخلیق ہوئی۔

    سو آج جب وہ اپنے تین بچوں سمیت کھانے کی میز پر بیٹھی فرنچ دریچوں سے اپنے پائیں باغ میں کھلے ہوئے گلاب کے پھولوں کو دیکھ رہی تھی اور اس کے اور گلاب کے پھولوں کے درمیان وہ ’’بھوک‘‘ کی مورتی حائل تھی تو اس کو مورتی کی یہ جگہ بھونڈی لگی۔ اس لیے ’’بھوک‘‘ کو تین فٹ پرے سرکا دیا گیا۔ اب وہ کونے میں کھڑی کھڑکی کے باہر دیکھ رہی تھی۔ اب رانی اپنے لال پھولوں کو بھی دیکھ سکتی تھی اور اپنے شاہکار ’’بھوک‘‘ کو بھی۔

    باہر سے بھی اب راستہ صاف تھا۔ گھر سے باہر کھڑا ہوا آدمی سڑک سے کھانے سے لدی پھندی ڈائننگ ٹیبل کو بھی دیکھ سکتا تھا، کونے میں کھڑی ہوئی ’’بھوک‘‘ کو بھی اور باغ میں لگے ہوئے پھولوں کو بھی۔ رانی کو پھولوں کے پس منظر میں اپنی ’’بھوک‘‘ نظر آتی تھی۔ باہر کھڑے ہوئے فقیر کی نگاہ پھولوں کو پھلانگتی ہوئی صرف ڈائننگ ٹیبل پر جاتی تھی۔ ہر ایک کی نگاہ کو وہی ملتا تھا جس کی اسے تلاش تھی۔ رانی کو حسن کی تلاش تھی۔ باہر کھڑے ہوئے بھکاری کو کھانے کی۔ چاہے کچھ بھی کھانے کو مل جائے۔ کونے میں کھڑی ہوئی ’’بھوک‘‘ پر تو اس کی نگاہ ٹھہرتی ہی نہیں تھی۔ ایک دن جب ڈائننگ ٹیبل خالی ہوچکی تھی صرف اس پر ایک پھول دان رکھا ہوا تھا، بھکاری کی نگاہ ’’بھوک‘‘ پر پڑی مگر وہ آرٹ کا ماہر تھوڑا ہی تھا۔ وہ حسن کا بھوکا نہیں تھا وہ تو ایک روٹی چاہتا تھا۔ ’’بھوک‘‘ اس کی سمجھ میں نہ آئی۔ اسے تو مڑی تڑی ہوئی دھات کا ایک ڈھیر نظر آیا جس کا کوئی مطلب نہیں تھا، سوائے اس کے کہ اسے چند روپے کے عوض بیچا جا سکتا تھا۔

    اور پھر ایک دن ’’بھوک‘‘ وہاں سے غائب ہوگئی۔ چرالی گئی یا اٹھالی گئی۔ یا بھگالی گئی۔

    رانی نے پولیس میں رپورٹ کی۔

    تھانے دار نے پوچھا، ’’آپ کو کس کس پر شبہ ہے؟‘‘

    رانی نے پہلے اپنی رقیب اور سہیلی پرمیلا پونم چند کا نام بتایا جو اس کی ’’بھوک‘‘ کی جو تعریفیں ہوئی تھیں، ان سے بہت جلتی تھی۔

    پرمیلا پونم چند کے گھر کی تلاشی لی گئی تو وہاں ’’بھوک‘‘ نہ ملی۔ جب پرمیلا سے ’’بھوک‘‘ کے بارے میں پوچھا گیا تو اس نے کہا کہ ’’وہ مورتی جو رانی ٹیکم چند کی سیلف پورٹریٹ معلوم ہوتی ہے؟ مجھے نہیں معلوم وہ کہاں گئی؟ اسے کون اٹھاکر لے جائےگا۔ لے جائے گا تو عمر بھر پچھتائےگا کیونکہ زنگ لگی ہوئی دھات کے ڈھیر کا تو کوئی خریدار نہیں۔ چور بازار میں بھی۔‘‘

    اس کے بعد رانی نے ایک اخبار کے آرٹ کریٹک کا نام بتایا۔ کلاکاری اس کا نام تھا اور ’’کلا‘‘ نامی میگزین کا وہ آرٹ اڈیٹر تھا۔ اس نے ’’بھوک‘‘ کی ذرا بھی تو تعریف نہیں کی تھی۔ اس کے بارے میں لکھا تھا، ’’لگتا ہے کلاکار کا عمر بھر میں ایک بار بھی ’’بھوک‘‘ سے سابقہ نہیں پڑا ورنہ اس ڈھانچے کو ’’بھوک‘‘ کا نام نہ دیتیں۔ اس کو ’’عورت‘‘ کہتیں۔ عورت نہیں تو مرد کہتیں۔ حقیقت یہ ہے کہ عورت ہے یا مرد، اس کا پتا ہی نہیں چلتا؟

    جب پولیس نے کلاکاری صاحب کے گھر کی تلاشی لی تو ان کی میز کی دراز سے دو تصویریں ’’بھوک‘‘ کی ملیں جو انھیں رانی ٹیکم چند نے اپنے میگزین میں چھاپنے کے لیے بھیجی تھیں۔ ان تصویروں کے پیچے آرٹ کریٹک نے اپنے دھوبی کے کپڑوں کی فہرست لکھ رکھی تھی۔ ’’اس سے زیادہ مجھے کوئی دلچسیت نہیں ہے۔ رانی ٹیکم چند کی کلا میں!‘‘ اس نے پولیس سے صاف کہا۔

    اب تو ایک ہی شبہ رہ گیا۔ جب نمایش ہو رہی تھی تو رانی کے ایک پرانے عاشق پیلو نے اس سے چپکے سے کہا تھا، ’’مجھے بھی بھوک بہت لگتی ہے۔ ڈارلنگ تمہاری بھوک دیکھ کر میری بھوک بھی جاگ اٹھی ہے۔‘‘

    ’’ہٹو۔ مجھے تمہارا بھونڈا مذاق اچھا نہیں لگتا۔‘‘ اس نے ہلکے سے کہا تھا اور ادھر ادھر دیکھ کر اس کے گال پر اپنے نرم نرم ریشمی ہاتھوں سے چپت رسید کی تھی! اب اس کو شبہہ ہوا کہ کہیں یہ حرکت پیلو نے نہ کی ہو۔ اس لیے اخیر میں اس نے وہ نام بھی پولیس کو مشتبہ لوگوں کی فہرست میں بتا دیا۔

    پیلو ایک اسکائی اسکریرر کی اٹھائیسویں منزل پر رہتا تھا۔ جب پولیس وہاں پہنچی تو وہ اپنا ریشمی ڈریسنگ گاؤن پہنے اپنے ٹریس گارڈن میں بیٹھا تھا۔ جب پولیس والوں نے اس کے فلیٹ کی تلاشی لے کر اس سے رانی کی ’’بھوک‘‘ کے بارے میں پوچھا تو اس نے ہنس کر جواب دیا، ’’رانی سے کہیے گا کہ اس کا خیال ہے کہ اس کی بھوک میرے پاس ہے، تو اس کے لیے اس کو خود چل کر میرے گھر آنا پڑےگا۔‘‘

    پیلو سے رانی کی پرانی ملاقات، دوستی اور ایک قسم کی محبت تھی۔ بات یہ تھی کہ وہ کرکٹ کا مشہور کھلاڑی تھا اور رانی اپنی طالب علمی کے زمانے میں کرکٹ فین ہوا کرتی تھی۔ جب ہی سے میل ملاقات تھی۔ ایک زمانے میں شاید رانی کو پیلو سے محبت بھی تھی۔ وہ بھی ایک امیر بزنس مین کا بیٹا تھا۔ خوش پوشاک تھا۔ امیرانہ ٹھاٹ سے رہتا تھا۔ اس کے علاوہ مردانہ کسرتی جسم کا مالک تھا۔۔۔ اس کے باوجود اپنے باپ کے ساتھ رانی ایک دفعہ یورپ کی سیر کو گئی ہوئی تھی۔ وہاں سوئٹزرلینڈ میں ٹوٹو ٹیکم چند سے ملاقات ہو گئی۔ دوستی بے تکلفی میں تبدیل ہو گئی۔ ٹوٹو کی دولت نے چکاچوند پیدا کر دی۔ لہٰذا چٹ منگنی اور پٹ بیاہ۔ منگنی سوئٹزرلینڈ میں ہوئی اور بیاہ لندن میں۔ لوٹی تو یہ دونوں مسٹر اور مسز بن چکے تھے۔ پہلے بچے کا حمل بھی ٹھہر چکا تھا۔ پیلو نے کبھی اپنی مایوسی کا اظہار نہیں کیا۔ صرف ایک چاندی کے کرکٹ کا بلا شادی کے تحفے کی صورت میں پریزنٹ کر دیا اور جب سے رانی سے ملنا چھوڑ دیا۔ مگر رانی کا دل ٹوٹو اور اس کی دولت سے جلد ہی بھر گیا۔ ٹوٹو کو نہ لٹریچرمیں دلچسپی تھی نہ آرٹ میں۔ صرف دولت اور دولت جمع کرنے میں۔ اپنی بزنس میں مصروف رہنے میں۔ وہ بھی رانی کے جسم سے تھوڑے دنوں کے بعد اکتا گیا۔ اسے خوبصورت جسموں کی پرکھ پر بڑا ناز تھا۔ ہر بڑے شہر میں۔ لندن میں، نیویارک میں، ٹوکیو میں اور ہانگ کانگ میں۔ جسم تو ہر جگہ بکاؤ ہیں اور ان کا ایک خریدارٹوٹو تھا اور اب تو شادی کے دس سال بعد اس کا جسم بھی ڈھیلا پڑتا جا رہا تھا۔ کچھ توند نکل آئی تھی۔ جو رانی سے اس کے تعلقات میں حارج ہوتی تھی۔ سو اب وہ سال میں دو ایک بار ہی ایک بیڈ روم میں سوتے تھے۔ وہ بھی رانی کے چتر اور چالاکی سے۔ نتیجہ یہ تھا کہ بڑے لڑکے کے بال اور آنکھیں کالی تھیں۔ مگر چھوٹے بچوں کے بال بھورے اور آنکھیں سبزی مائل تھیں۔۔۔ بالکل پیلو کی طرح! مگر یہ ایک ایسا راز تھا جو آج تک کسی نے رانی سے کھول کر نہ کہا تھا۔ ہائی سوسائٹی میں اس قسم کے ’’حادثات‘‘ اور ’’تعلقات‘‘ تو ہوتے ہی رہتے ہیں۔ پیلو کو بھی ان ’’حادثات‘‘ کاعلم نہیں تھا اور ٹوٹو کو تو فرصت نہیں تھی اپنے بچوں کی آنکھوں یا ان کے بالوں کے رنگ کے بارے میں سوچنے اور ان کے بارے میں شبہہ کرنے کے لیے۔

    سورانی کو جب پیلو کاپیغام سب انسپکٹر کی معرفت ملا کہ ’’اپنی بھوک کا اتنا خیال ہے تو رانی صاحبہ سے کہیے گا کہ انھیں خود یہاں آنا پڑےگا۔‘‘ تو رانی نے سوچا چلو چل کر دیکھتی ہوں۔ شاید میری ’’بھوک‘‘ کا کچھ پتا چل جائے۔ حالانکہ اس کو خوب معلوم تھا کہ پیلو کا مطلب ’’بھوک‘‘ سے اس کی مورتی نہیں تھا!

    وہ اپنی بھوک مٹاکر پیلو کے گھر سے واپس آئی تو اگلے دن ایک بار پھر سب انسپکٹر سے ملاقات ہو گئی۔ اس بار وہ اس سے کہنے آیا تھا کہ چور بازار میں ایک دھات فروش کے ہاں اس نے مخبر چھوڑے ہیں۔ یقین ہے کہ اس بار مورتی کا پتا ضرور مل جائےگا۔

    اس بار سب انسپکٹر کو غور سے دیکھا تو رانی نے محسوس کیا کہ وہ نوجوان ہے اور دیکھنے میں بھی اتنا برا نہیں ہے۔ رنگ ضرور کالا ہے مگر اس کا جسم کچھ کسرتی اور چست ہے۔ جس قسم کا جسم کسی زمانے میں پیلو کا ہوا کرتا تھا۔

    ’’مسز ٹیکم چند‘‘ پولیس والے نے مسکراتے ہوئے کہا، ’’اگر آپ کی مورتی آپ کو واپس مل گئی تو مجھے کیا انعام ملےگا؟‘‘

    ’’جو آپ چاہیں!‘‘

    ’’جو میں چاہوں؟‘‘ سب انسپکٹر نے تعجب سے دہرایا۔ ’’یہ جانتے ہوئے بھی کہ میرا نام کامبلے ہے؟‘‘

    رانی جانتی تھی کہ کامبلے دلت ہوتے ہیں جن کو اچھوت سمجھا جاتا ہے۔ مگر وہ چھوت چھات کو نہیں مانتی تھی۔ اس نے جواب دیا۔

    ’’آپ کا نام کامبلے ہے تو کیا ہوا؟ مجھے تو آپ کا نام بہت اچھا لگتا ہے۔ کامبلے۔ یعنی کام کا آدمی۔ آپ اتنا بڑا کام کر دیں گے۔ میری مورتی ڈھونڈ نکالیں گے۔ آپ جو چاہیں مانگ سکتے ہیں۔‘‘

    رانی نے ادھر ادھر دیکھا۔ بچے اسکول اور کنڈر گارٹن گئے ہوئے تھے۔ نوکر سب کچن میں جمع تھے۔ باہر گلاب کے پھول کھلے ہوئے تھے۔

    اس نے ایک بار پھر انسپکٹر کامبلے کو دیکھا۔ اس کے کالے چہرے پر پسینہ آ رہا تھا۔ اس کی چمکیلی کالی آنکھوں میں ایک چمک تھی جس کا مطلب وہ خوب سمجھتی تھی۔

    اس نے سوچا، ’’بیچارے کو اور انتظار کرانا اچھا نہیں ہے۔ جو کام کل کرنا ہے وہ آج ہی۔۔۔ ابھی کیوں نہ ہو جائے۔‘‘

    ’’ملائیے ہاتھ۔‘‘

    ہاتھ ملاتے ہوئے کامبلے نے کہا، ’’تھینک یو، مسز ٹیکم چند۔‘‘

    ’’پہلی شرط یہ ہے کہ آیندہ سے مجھے مسز ٹیکم چند نہیں کہو گے۔ میرا نام رانی ہے صرف رانی۔‘‘

    ’’مجھے منظور ہے رانی۔‘‘

    اور رانی اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنے بیڈروم میں لے گئی۔

    جب ’’بھوک‘‘ ملی تو اس کا حلیہ ہی بدل چکا تھا۔ چور بازار کے دکان دار نے بتایا کہ ایک آدمی نے جو کوئی فقیر معلوم ہوتا تھا اس کے ہاتھ دو روپے میں اس مورتی کو بیچا تھا اور بیچتے ہی سامنے والے ڈھابے کی طرف بھاگا تھا۔ ’’بیچارہ کئی وقت کا بھوکا معلوم ہوتا تھا!‘‘

    دکان دار نے آرٹ کو پھر اس کی اصل شکل پر پہنچا دیا تھا۔ کوٹ پیٹ کر پھر اس کو دھات کا ایک ڈھیر بنا دیا تھا جس کی قیمت اب دس روپے تھی۔ مگر اس کے کوٹنے پیٹنے سے اس کی ایک شکل بن گئی تھی جس کا مطلب رانی جیسی مہا کالا کارہی جان سکتی تھی۔

    بھنگار والے کو دس روپے انعام دے کر رانی نے دھات کے اس ڈھیر کو اپنی موٹر میں رکھوا لیا اور کامبلے کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اس نے کہا، ’’تھینک یو انسپکٹر کامبلے۔‘‘

    ’’مگر آپ کی مورتی تو ضائع ہو گئی؟‘‘ کامبلے نے کہا۔

    اس سنسار میں کوئی چیز ضائع نہیں ہوتی صرف شکل بدل جاتی ہے۔ پہلے یہ مورتی ’’بھوک‘‘ تھی۔ اب اس کا نام ہوگا ’’دنیا کا گورکھ دھندا۔‘‘

    اگلے سال کی نمایش میں مسز رانی ٹیکم چند نے اپنا نیا شاہکار ’’دنیا کا گورکھ دھندا‘‘ رکھا۔ وہی دھات کا ڈھیر تھا۔ ایک پالش کی ہوئی صندل کی لکڑی کی چوکی پر ٹکایا ہوا تھا۔ اس بار اس کو ایک شیشے کے صندوق میں بند کرکے قفل لگا دیا گیا تھا۔

    ’’دنیا کے گورکھ دھندے‘‘ کو ماڈرن آرٹ کی نمایش میں Sculpture Section میں اول انعام ملا اور سوائے ’’کلا‘‘ کے ’’کلاکاری‘‘ کے سب ماڈرن آرٹ کے نقادوں نے اس کی تعریف میں لمبے لمبے مضمون لکھے۔

    اب اس واقعے کو دس برس گزرچکے ہیں۔ مسز رانی ٹیکم چند اب سوسائٹی اور آرٹ کی دنیا کی ایک خوبصورت اور بھاری بھرکم ستون مانی جاتی ہیں اور اب وہ بوڑھی عورتوں کے غمناک چہروں کی پینٹنگ کرتی ہیں۔ کہتے ہیں کہ انھیں انسانوں— خصوصاً بوڑھی عورتوں کی آتمامیں، ان کی تھکی ہوئی آنکھوں میں جھانک کر دیکھنے میں بڑا فنکارانہ احساسِ تسکین ملتا ہے۔ اگرچہ وہ خود جب بیوٹی سیلون سے نکلتی ہیں تو اب تک خوبصورت اور جوان لگتی ہیں!

    مأخذ:

    نیلی ساری (Pg. 50)

    • مصنف: خواجہ احمد عباس
      • ناشر: مکتبہ جامعہ لمیٹیڈ، نئی دہلی
      • سن اشاعت: 1982

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے