Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

بھوک

MORE BYسہیل عظیم آبادی

    بھوک نے جب کروٹ لی تو آنتوں کے ساتھ ہی راؔمو کے دل و دماغ میں بھی ہلچل مچ گئی۔ وہ سوچنے لگا اب کیا کرنا چاہئے۔ بھوکے رہنے کی بھی کوئی حد ہوتی ہے، ”فاقہ‘‘ کو چار شام تو ہو چکے، صبح ہوگی تو پانچواں ہوگا۔ تین دن سے کام ڈھونڈتا پھر رہا ہوں لیکن کام نہیں ملتا۔ اب صبح ہوتے ہی کام کہاں سے مل جائےگا اور کام ملا بھی تو کس کے بدن میں اتنا بوتا ہے کہ جو کر سکے، کام ہوگا کیسے؟ وہ بھوک سے تلملا رہا تھا۔ اس کے دماغ میں صرف ایک بات تھی، کھانا کہاں سے ملےگا؟

    اس کے دل میں صرف ایک خواہش تھی، کچھ بھی ہو مگر بھر پیٹ کھانا ملے، اس نے سوچا اگر صبح بھی کوئی کام نہ ملا، تو وہ کہیں سے کوئی چیز اٹھا کر بھی کھالےگا، یا بھیک ہی مانگ کر مل جائے یا میونسپلٹی کے ٹین ہی کے اندر ملے۔۔۔ مگر یکایک اس کے دل میں امید کی روشنی پھیل گئی، اسے یقین ہو گیا کہ کل اسے کوئی کام ضرور مل جائےگا۔ اس خیال کے آتے ہی معلوم ہوا کہ جیسے اس کے بدن میں کھوئی ہوئی طاقت واپس آ رہی ہے، وہ دوسرے دن کے بارے میں سوچنے لگا۔ سورج نکلنے کے پہلے ہی وہ ہاٹ جائےگا، وہاں بہت سی عورتیں ترکاریاں خریدنے آتی ہیں، ان میں سے کوئی نہ کوئی اپنا بوجھ پہنچانے کے لئے ضرور کہےگا، پھر وہاں سے مارکیٹ جائےگا، وہاں بہت سے بابو لوگ اور میم صاحب پھل یا ترکاریاں خریدنے آتے ہیں۔ ان سے کچھ مزدوری مل جائےگی، یا اور کوئی دوسرا کام، کچھ ہی کیوں نہ ہوں، مگر اس کو کوئی کام ضرور مل ہی جائےگا اور اتنی مزدوری بھی مل جائےگی جس سے پیٹ بھر کھانا کھا سکےگا۔ اس خیال ہی سے وہ خوش ہو گیا، معلوم ہوا کہ جیسے اس کا پیٹ بھر گیا۔ اس نے دل ہی دل میں کہا، ’’ایشور بڑا انصاف ور ہے، وہ کسی پر ظلم نہیں کرتا، پھر میں بھوکا کیوں رہوں گا؟‘‘

    تھوڑی ہی دیر میں اس کی بھوک پھر جاگ اٹھی اور وہ تلملا گیا۔ دوسرے دن کے بارے میں اس کی جتنی امیدیں بندھی تھیں، وہ آہستہ آہستہ مٹنے لگیں جیسے نیند ٹوٹنے کے بعد خواب فراموش ہونے لگتا ہے۔ وہ سوچنے لگا، روز ہی اسی طرح امید بندھتی ہے مگر پوری کبھی نہیں ہوتی، دن بھر پائپ سے پانی پی پی کر پیٹ کی آگ بجھانی پڑتی ہے۔ لیکن آخر کیا کیا جائے، اس روز کے اپاس سے چھٹکارا کیسے ملےگا؟ میں نے پرماتما کا کون سا اتنا بڑا قصور کیا ہے جو یہ سزا ہے، دنیا میں سب ہی آدمی کچھ نہ کچھ گناہ کرتے ہیں، لیکن سب تو بھوکے نہیں، مجھی پر عذاب کیوں؟ گناہ تو سبھی آدمی کرتے ہیں، مگر کسی کو تکلیف اور کسی کو آرام وہ کیوں دیتا ہے؟ مگر اس کا دماغ الجھ کر رہ گیا۔ اس نے دل ہی دل میں کہا، ایشور بڑا انصاف ور ہے، وہ کسی پر ظلم نہیں کرتا۔ باقی دنیا میں آدمی تو ہر طرح کے ہوتے ہیں۔

    یہی تو دنیا کی شوبھا ہے۔۔۔ مگر اس کی سمجھ میں کوئی بات نہ آئی، اس نے دل ہی دل میں کہا، نراش ہونے کی کوئی وجہ نہیں، صبح ہوگی تو دیکھا جائےگا، وہ اپنی جگہ سے اٹھا اور پانی کے نل کی طرف بڑھا کہ چل کر پانی پئے، مگر جب نل کے پاس پہنچا تو معلوم ہوا کہ پانی آنا بند ہو چکا ہے، اس کا جی سن سے ہو گیا، سر چکرا گیا، وہ نل کو پکڑے کھڑا رہا۔ آخر رامو تھوڑی دیر کے بعد سر جھکائے اور کچھ سوچتا ہوا نل کو چھوڑ کر ہٹا، اس کا ہر قدم ڈھیلا پڑ رہا تھا، مگر دماغ میں ہلچل مچی تھی، شاید اس کے دل میں ایسی ہلچل کبھی نہ مچی تھی۔

    وہ سوچ رہا تھا کہ اس کی مصیبت سے کس طرح بچے؟ فٹ پاتھ پر سونے سے کس طرح چھٹکارا پائے، اس نے دل ہی دل میں فیصلہ کے طور پر کہا، اب اس زندگی سے نکلنا ضرور ہے اور۔۔۔ کل ہی صبح اٹھ کر زندگی بالکل بدلی ہوئی ہوگی۔ وہ یہی باتیں سوچتا اور اپنے آپ کو سمجھاتا آگے بڑھتا گیا۔۔۔ اس کا ارادہ پکا ہو چکا، اس نے یہاں تک سوچ لیا کہ اگر کل بھی اسے بھوکا رہنا پڑے تو پھر وہ ’’جے ماں‘‘ کہہ کر گنگا میں کود پڑے گا، اس فیصلہ کے بعد وہ سوچنے لگا کہ ترکیب کیا کی جائے؟ نوکری۔۔۔ نوکری کہاں ملتی ہے۔ مزدوری۔۔۔ مزدوری تو ہر روز ہی ڈھونڈتا پھرتا ہے پھر۔۔۔؟

    اس نے بہت سی باتیں سوچ لیں، بہت سی ترکیبیں اس کے دماغ میں ایک ہی وقت آ گئیں، جیسے زمین پر دانہ دیکھ کر کبوتر اتر پڑتے ہیں، مگر پھر ایک ہی بار سب کی سب غائب بھی ہو گئیں، صرف ایک ترکیب اس کے دماغ میں جم کر رہ گئی اور یہی آخری ترکیب تھی۔ خوشی سے نہیں بالکل مجبور ہو کر دیر تک وہ ایک عجیب عالم میں رہا۔ دل کہتا یہ بڑی بری بات ہے، اس دنیا میں سزا، بدنامی اور مرنے پر بھی سزا، دماغ کا جواب ہوتا، ہزار برا سہی مگر اب اس کے سوا کوئی چارہ بھی نہیں، آخر دل کی ہار ہوئی، دماغ جیت گیا، اس نے فیصلہ کیا کہ وہ چوری کرےگا۔

    پھر دل و دماغ میں کھینچ تان شروع ہوئی، مگر وہ اس نتیجے پر پہنچا کہ چوری کر کے اگر بچ نکلا تو کچھ دنوں کھانے اور رہنے کا بھی سامان ہو جائےگا اور اگر پکڑا گیا تو بھی گھاٹے میں نہیں رہےگا، پولس کے لپڑ تھپڑ کے بعد کھانے کو مل ہی جائےگا، رہنے کو حوالات، پھر جیل کی کوٹھری، کمبل اور کپڑے، واہ سب کچھ مل جائےگا، وہ مسکرا دیا، مگر دل نے پھر ایک بار کروٹ لی اور اس نے آپ ہی آپ سوال کرنا شروع کیا۔ ٹھیک ہے کھانا تو مل ہی جائےگا مگر پکڑا گیا تو بڑی بے عزتی ہوگی اور جیل گیا تو واپس آکر لوگوں کو کیا منہ دکھائےگا؟ مگر آج چوری نہ کرنے پر کون بڑی عزت ہے، جس میں بٹہ لگ جائے، جیل میں یہ شہر، یہ بازار کہاں؟ مگر باہر رہ کر تو اس کا موقعہ نہیں۔۔۔ کچھ بھی ہو کسی طرح سہی، لیکن وہاں پیٹ بھر کھانا تو ملےگا، اس کا ارادہ اور بھی مضبوط ہو گیا۔

    وہ چوری کرنے کا پکا ارادہ کرچکا تھا اور بدن میں طاقت بھی محسوس کرنے لگا، وو بھوک کو بالکل بھول گیا۔ اسے ذرا احساس نہ رہا کہ وہ کس حال میں تھا، اس کی نگاہوں میں روپیوں کا ڈھیر تھا، کانوں میں روپیوں کی ”کھنک“ گونج رہی تھی، وہ تیزی کے ساتھ قدم بڑھانے لگا اور بغیر کسی ارادہ کے ایک طرف تیزی سے چلنے لگا۔ اس کے دماغ سے تھوڑی دیر کے لئے چوری کرنے کا خیال بھی نکل گیا اور شیخ چلی کی طرح خیالی قلعے بنانے لگا، چوری کرنے کے بعد وہ مالدار آدمی ہو جائےگا، بوڑھی ماں کو آرام پہنچائےگا، اسی چوری کے روپے سے وہ کاروبار شروع کرےگا اور لوگ اسے اچھی نظروں سے دیکھنے لگیں گے۔

    پھر وہ بیاہ کرےگا، اچھی سی عورت مل جائےگی، اب تک صرف غریبی کی وجہ سے اس کا بیاہ نہیں ہو سکا، جب وہ روپیہ ہوگا، تو پچیسوں آدمی بیٹی دینے کو تیار ہو جائیں گے، بیاہ کے خیال سے رامو کو بڑی خوشی ہوئی، وہ طرح طرح کی باتیں سوچنے لگا، اس کی آنکھوں میں ایک خوبصورت عورت کی تصویر پھر گئی، جسے شام کے وقت اس نے موٹر میں جاتے دیکھا تھا۔ سوچنے لگا وہ کام کرکے واپس جائےگا تھکا ماندہ، عورت ضد کرکے اچھی اچھی چیزیں کھلائےگی، کھانے کا تصور آتے ہی سارا خیالی قلعہ چکنا چور ہوگیا، آنتیں اینٹھنے لگیں، اور وہ بےچین ہو گیا، وہ چوری کے فیصلے کو بھول چکا تھا، پھر وہ ارادے کو مضبوط کرنے لگا، اب اس کے حوصلے میں نئی طاقت تھی۔ اس نے چاروں طرف نظر گھما کر دیکھا۔ ہر طرف اونچے اونچے مکانات تھے اور بجلی کی تیز روشنی۔۔۔ کسی مکان میں گھسنے کا موقعہ ہی نہ تھا، پھر وہ سوچنے لگا کہ آخر چوری کہاں کی جائے؟

    کچھ دیر سوچنے کے بعد اسے خیال آیا، شہر کے آخری حصے میں چھوٹے چھوٹے بنگلے ہیں، چار دیواری بھی نیچی ہے، سڑک پر دونوں طرف گھنے پیڑ بھی ہیں، وہاں آسانی کے ساتھ چوری کی جا سکتی ہے، وہاں کافی اندھیرا رہتا ہے۔ خوب اچھی طرح سوچنے کے بعد وہ اسی طرف چلا، دور سے گھنٹہ گھر سے ٹن ٹن دو بجنے کی آواز آئی، اس نے دل ہی دل میں کہا، وقت اچھا ہے۔۔۔ اب وہ تیزی کے ساتھ قدم بڑھا رہا تھا۔۔۔ مگر یکایک اس کو خیال آیا، ان بنگلوں میں کتے پلے ہوئے ہیں۔۔۔ یہ خیال آتے ہی وہ سہم گیا۔ ہمت ٹوٹ گئی، اس کو یقین ہو گیا کہ بنگلے کے اندر قدم رکھتے ہی کتے اسے نوچ ڈالیں گے۔۔۔ اس کا ارادہ ڈانوا ڈول ہو گیا۔

    بھوک نے پھر کروٹ لی اور وہ سوچنے لگا سب سے پہلے اسے کچھ کھانے کو ملنا چاہئے۔ اگر بنگلے میں گیا بھی تو اس وقت کھانے کی کوئی چیز نہیں مل سکتی، سب کچھ ختم ہو چکا ہوگا، وہ سوچنے لگا کہ اس وقت کھانے کی چیز نہیں مل سکتی، سب کچھ ختم ہو چکا ہوگا، وہ سوچنے لگا کہ اس وقت کھانے کی چیز کہاں مل سکتی ہے۔ آخر اس کے دماغ میں بات آ گئی کہ اس وقت کھانے کی کوئی چیز صرف حلوائی کی دوکان میں مل سکتی ہے، یہ خیال آتے ہی معلوم ہوا کہ جیسے اسے سب کچھ مل گیا، پھر وہ سوچنے لگا کہ چوری کرنے کے لئے حلوائی کی کون سی دوکان مناسب ہے۔

    تھوڑی دیر سوچنے کے بعد اسے ایک حلوائی کی دوکان یاد آئی، یہ دوکان شہر کے آخری حصے میں تھی، وہاں پر کی آبادی بھی کم تھی، رامو کو چوری کرنے کی یہ جگہ ہر طرح مناسب معلوم ہوئی، وہ اسی طرف چلا، اب وہ سوچ رہا تھا کس طرح دبے پاؤں دوکان میں گھسےگا، کس طرح الماری کھولےگا؟ کس طرح کھانے کی چیزوں پر ہاتھ مارےگا اور کس طرح روپیہ نکالےگا؟ مگر وہ کبھی کبھی ڈرکر چونک سا جاتا تھا۔ اس کو خیال ہوتا تھا کہ شاید چوری نہ کر سکے یا پکڑ لیا جائے، مگر چوری کرنے کا وہ پکا ارادہ کر چکا تھا۔

    کبھی کبھی وہ سوچتا کاش اسے کوئی منتر معلوم ہوتا، یا مسان کی راکھ مل جاتی کہ تھوڑی دیر کے لئے جسے چاہتا بے ہوش کر دیتا، پھر وہ اطمینان کے ساتھ جاتے ہی منتر پڑھتا یا مسان کی راکھ کو سوئے ہوئے آدمیوں پر چھڑک کر اطمینان سے چوری کرتا، اسے ایک پل کے لئے ایسا معلوم ہوا جیسے اسے سب کچھ آتا ہے۔ اور اس نے حلوائی کو بے ہوش بھی کر لیا ہے، مگر اس کا یہ خیال فوراً ہی مٹ گیا، پھر اس نے سوچا کہ کبھی کسی چور سے مل کر وہ ضرور پوچھےگا، مگر تھوڑی دور جا کر اس کا خیال یکایک اچٹ گیا۔ دو کتے اسے دیکھ کر بھونکنے لگے، اس نے سوچا کتے چور کو دیکھ کر بھونکتے ہیں، یہ سچ ہے۔۔۔ چار قدم پر آگے چل کر بجلی کا کھمبا تھا، سڑک پر کی روشنی جل رہی تھی، چار پانچ آدمی فٹ پاتھ پر ٹاٹ بچھائے تاش کھیل رہے تھے، رامو ان لوگوں کے پاس سے ہوکر گزرا، لیکن کسی نے دھیان نہیں دیا، ایک آدمی جلدی جلدی اپنے پتوں کو دیکھ رہا تھا۔ دوسرا آدمی ٹاٹ پر پڑے ہوئے پتوں کو، تیسرا سردار انگلی ہلا ہلا کر کچھ سوچ رہا تھا، چوتھا اس شان سے جیسے سب کو اس نے ایک چال میں مات دے دی ہے۔ ایک اور آدمی کسی دوسرے کے پتوں کو دیکھ رہا تھا۔

    ایک نے بیڑی جلائی اور لمبا دم لگایا، دوسرے نے پان کی لمبی پیک پاس ہی پھینک کر کہا، ’’یہ بازی ہماری ہے چھٹو بھیا۔‘‘ چھوٹے نے جواب دیا، ’’دیکھا جائےگا۔‘‘ رامو اور آگے بڑھا، تھوڑی دور پر ایک آدمی فٹ پاتھ پر بیٹھا گا رہا تھا، ’’مرے دل کی لگی تو بجھی ہی نہیں، ارے ہاں ہاں رے، ارے ہاں ہاں رے۔۔۔‘‘ رامو جب پاس پہنچا تو اس نے پلٹ کر دیکھا، رامو ڈر گیا، مگر وہ پھر گانے لگا، ’’تری آنکھ میں مدھرا بھری ہے مگر، مرے دل کی لگی تو بجھی ہی نہیں، ارے ہاں ہاں۔۔۔‘‘

    پروائی تیزی سے چل رہی تھی، جیٹھ کا مہینہ تھا، رامو کا دل بھی گانے کو چاہا، اس نے گانا چاہا، ’’جانی جو بناپہ نہ۔۔۔‘‘ مگر وہ نہیں گا سکا، کچھ گنگنا کر رہ گیا۔ حلق سوکھا تھا، آواز نکل ہی نہ سکی، اسے معلوم ہوا جیسے کلیجے میں طاقت ہی نہیں، اس نے ہونٹوں پر زبان پھیری، اور گلا صاف کر کے کھنکھارتا ہوا آگے بڑھا۔ یکایک اسےکسی چیز سے ٹھوکر لگی، وہ گرتے گرتے بچا، ساتھ ہی دوسرا آدمی اٹھ کر بیٹھ گیا۔ وہ غریب فٹ پاتھ پر سویا ہوا تھا، رامو کو اسی سے ٹھوکر لگی تھی، رامو نے بڑی عاجزی کے ساتھ اس سے معافی مانگ لی، دونوں نے ایک دوسرے سے پوچھا، ’’تم کون ہو؟‘‘ اور میل جول ہو گیا۔ اس نے رامو کو اپنے ٹاٹ پر بٹھا لیا اور بیڑی پینے کو دی، رامو کا دل بھی چاہ گیا، اس نے بیڑی پی، مگر سر چکرا گیا، اس نے بیڑی پھینک دی اور سر تھام کر بیٹھ گیا، دیرتک وہیں بیٹھا رہا، اٹھنے کی ہمت ہی نہ ہوئی۔

    جب اس کی طبعیت سنبھلی تو وہ پھر آگے بڑھا، حلوائی کی دوکان اب بھی اس کی نگاہوں میں پھر رہی تھی، اس کا دل چاہا کہ ”امرتی اور بیسن کا لڈو‘‘ کھائے، اس خیال کے آتے ہی اس کے منہ میں پانی بھر آیا، اب وہ ایک تین منزلہ مکان کے پاس سے ہوکر گزر رہا تھا، یکایک کسی نے اس پر مکان پر سے تیز روشنی ڈالی۔ اس نے نظر اٹھا کر اوپر دیکھا، مکان کی دوسری منزل پر ایک کھڑکی سے دو آدمی نیچے دیکھ رہے تھے، کمرے میں بجلی کی روشنی تھی، ان دونوں پر بھی روشنی پڑ رہی تھی، لیکن چہرہ نظر نہیں آ رہا تھا، مگر رامو نے اتنا سمجھ لیا کہ ان میں ایک مرد تھا اور ایک عورت تھی۔ عورت بولی، ’’کوئی غریب آدمی ہے، چور نہیں ہے۔‘‘ مرد بولا، ’’تمہارا خیال ٹھیک ہے۔‘‘

    رامو آگے بڑھتا گیا، عورت نہ جانے کسی بات پر ہنسی، رامو سمجھا کہ وہ اس پر ہنس رہی ہے، اس کے دل پر چوٹ لگی، اس نے دل ہی دل میں کہا، ’’اگر میرے پاس بھی دو منزلہ مکان‘‘ ہوتا، روپیہ اور عورت ہوتی تو زندگی مزے سے کٹتی، کوئی مجھ پر ہنستا بھی نہیں۔ اس کا دل مچل کر رہ گیا۔ وہ اور آگے بڑھا، کچھ دور آگے جا کر ایک اندھیری گلی سے دوچار آدمیوں کی کانا پھوسی کی آواز آئی، وہ رک گیا، لیکن اس کے رکتے ہی آوازآنی بند ہو گئی، رامو بغیر کچھ سوچے سمجھےآگے بڑھ گیا۔ اور اس راستہ پر ہو لیا جو حلوائی کی دوکان کی طرف جاتا تھا۔ تھوڑی دور جاکر وہ ایک نکڑ سے جیسے ہی مڑا، ایک موٹر کھڑی نظر آئی، ایک بابو صاحب موٹر کو دھکا دے رہے تھے، اور ایک عورت کھڑی تھی، رامو بھوک سے نڈھال تھا، اس کا ایک ایک قدم رک رک کر اٹھ رہا تھا، وہ جیسے ہی قریب پہنچا، بابو صاحب بولے، ’’اے سنو، تم پیچھے سے موٹر کو دھکا دو، ہم تم کو انعام دےگا۔‘‘

    رامو نے اس عورت کو دیکھا، دیکھتے ہی اسے خیال آیا کہ اس عورت کو پہلے کہیں دیکھ چکا ہے، وہ سوچنے لگا کہ آخر اسے کہاں دیکھا ہے؟ بابو صاحب بولے، ’’اے! سنتا نہیں ہے، تم موٹر کو دھکا دو، ہم انعام دےگا۔‘‘ رامو نے انعام کا لفظ سنا تو اس کے دل میں خوشی کی لہر دوڑ گئی اور اس کے منہ سے نکل گیا، ’’کتنا؟‘‘

    ’’حرام زادہ سور۔۔۔ دو رپیہ لےگا۔‘‘

    رامو کا خون‘‘ کھول گیا، جی چاہا کہ جو بھی ہو، مگر ان کی ساری بابوائی نکال دے۔ مگر غم کھا کر رہ گیا، انعام کے لالچ میں موٹر کو دھکا دینے کو آگے بڑھا۔ زور لگایا مگر موٹر بڑا تھا، اور بدن میں طاقت کم، موٹر بال برابر بھی نہ سرکا اور رامو ہانپنے لگا، تھک کر الگ کھڑا ہو گیا، بابو صاحب بولے، ’’بس سالے! اسی پر کتنا انعام دیں گے؟‘‘ دونوں نے مل کر دھکا دینا شروع کیا اور کچھ دور لے گئے، رامو کھڑا کا کھڑا رہ گیا۔ ان دونوں کے جانے کے بعد رامو کو یاد آیا، گاؤں کے زمیندار نے بیٹے کے بیاہ میں اس عورت کو بلایا تھا، وہ گانے کے لئے گئی تھی۔۔۔ رامو کو اس وقت کی شیخی پر غصہ آیا اور بولا، پتریا سالی! تھوڑی دیر میں موٹرنظروں سے اوجھل ہو گیا۔

    رامو پھر آگے چلتا گیا، آخر اس حلوائی کی دوکان پر پہنچا جس کو اس نے تاکا تھا۔۔۔ دوکان بند تھی، حلوائی دوکان کے سامنے ایک لمبے بنچ پر چاروں شانے چت پڑا تھا، اس کا ہاتھ زمین سے چھو رہا تھا، پروائی تیزی سے چل رہی تھی۔ ہر طرف اندھیرا تھا، حلوائی کے حلق سے خراٹے کی ہلکی ہلکی آواز نکل رہی تھی۔۔۔۔ رامو کی ہمت ٹوٹ گئی، اس کا ارادہ بدل گیا، اس نے سوچا چوری کرنا برا کام ہے چاہے کیسی ہی مجبوری کیوں نہ ہو، اس سے بہتر تو یہ ہے کہ حلوائی کو اٹھا کر اس سے کچھ مانگ لیا جائے۔ یہ بھی معمولی آدمی نہیں ہے جو دھتکار دے گا۔۔۔ اٹھا کر مانگنے سے کچھ دے دےگا۔۔۔ مگر کہیں چوری کی اور جاگ گیا تو پھر خیریت نہیں۔

    یہ سوچ کر رامو حلوائی کے پاس گیا، چاہتا تھا کہ اٹھائے، حلوائی کے منہ سے بھک سے دیسی شراب کی بو آئی، رامو سمجھ گیا کہ یہ نشے میں چور ہے، اگر اس حال میں اٹھائےگا تو وہ ضرور خفا ہوگا، تعجب نہیں کہ مار پیٹ بھی کرے۔۔۔ پھر اس کو چوری کرنے کا خیال ہوا۔ اب حلوائی کی طرف سے اسے اطمینان تھا، اس کو یقین تھا کہ اس کو چوری کی خبر بھی نہ ہوگی، نشے میں انٹاچت ہے۔ رامو ہمت کر کے دوکان کے اوپر چڑھ گیا، ایک دوبار وہ اس دوکان پر بیٹھ کر کچھ کھا بھی چکا تھا، اسے ہلکا سا اندازہ بھی تھا، کہ کون سی چیز کہاں دھری ہے۔ اس لئے ہر طرف اندھیرا ہونے پر بھی الماری تک پہنچ گیا، اس نے جیسے ہی الماری کو ہاتھ لگایا، کھٹ سے آواز پیدا ہوئی اس کے ساتھ ہی اندر کا کواڑ کھلا اور دھیمی آواز آئی، ’’دروازہ اِدھر ہے جگن!‘‘

    رامو کے سارے بدن کا خون سوکھ گیا، وہ بالکل چپ کھڑا رہ گیا تھا، ویسی ہی دھیمی آواز آئی، ’’جگن تمہاری عادت بہت خراب ہے۔ اتنی دیر کر دیتے ہو، دو بجے بہت دیر ہوئی اور تم بھٹی سے اب آ رہے ہو۔‘‘ مگر رامو ہلا تک نہیں، ڈر سے سارے بدن میں کپکپی پھیل گئی، پھر وہی دھیمی آواز آئی، ’’ارے آتے کیوں نہیں، اب ہم تم کو پیسہ نہیں دیں گے۔‘‘ اتنا کہہ کر ایک عورت دروازے سے نکل آئی اور اس کا ہاتھ پکڑ کر کمرے کی طرف بڑھتی ہوئی بولی، ’’اب تم بہت راہ دکھاتے ہو۔‘‘

    رامو کے دماغ میں ساری باتیں آ گئیں وہ سمجھ گیا کہ عورت کسی کے انتظار میں تھی۔۔۔ اور اسے دھوکہ ہوا ہے۔۔۔ وہ بوڑھا حلوائی اور یہ کڑیل جوان عورت! توندومل کیسا بےپرواہ پاؤں پھیلائے پڑا ہے، وہ کمرے میں چلا تو گیا، مگر ڈر رہا تھا، کہیں پہچان نہ لے، عورت اسے کمرے میں لے جا کر ایک پلنگ پر بٹھاتی ہوئی بولی، ’’اب تم کو پیسہ نہیں دیں گے جگن! تم پی کر پگلے ہو جاتے ہو۔‘‘ اتنا کہہ کر اس نے رامو کے گلے میں باہیں ڈال دیں اور پیار سے اسے اپنی طرف کھینچا، رامو نے اس کی محبت کا جواب ایک چپ میں دیا۔ عورت نے رامو کے مونڈھے پر سر رکھتے ہوئے کہا، ’’پیسہ کم تھا اس لئے خفا ہو؟ جانتے بھی ہو ہمیں زیادہ پیسہ نہیں ملتا۔‘‘

    رامو بہت سی باتیں سمجھ گیا، بوڑھا کنجوس بھی ہے، گھر میں روشنی بھی نہ تھی۔ وہ خوش تھا۔ بوڑھے کی کنجوسی اس کے لئے فائدے کی بات ثابت ہوئی، رامو نے سوچا آج تو خوب جاترا بنا، کھانے کو تو ملےگا ہی۔ عورت بھی ’’پھاؤ‘‘ میں ملی۔۔۔ عورت کا خیال آتے ہی اس کے سارے بدن میں سنسنی پھیل گئی، دل گدگدانے لگا، مگر اس کا دل الماری میں لگا ہوا تھا، بھوک نے بہت جلد ہی اس کے خیالات کو دوسری طرف لگا دیا، وہ اندھیرے میں آنکھ پھاڑ پھاڑ کر کمرے میں چاروں طرف دیکھنے لگا، کہیں کھانے کی کوئی چیز تو رکھی نہیں ہے، مگر اندھیرے میں کچھ بھی نظر نہ آیا۔۔۔ عورت نے سمجھا کہ وہ نشے میں ہے بولی، ’’اسی لئے زیادہ پیتے ہو، ہزار بار منع کیا‘‘ تم ”مانتے ہی نہیں ہو۔‘‘

    اتنا کہہ کر عورت نے پھر رامو کو اپنی طرف کھینچا، رامو نے مزے میں آکر اپنا سر اس کی گود میں ڈال دیا۔ اس میں اس کو بڑا مزہ آیا، سارے بدن میں گدگدی سی ہونے لگی۔ سانس زور زور سے چلنے لگی اور عورت کی سانس کی گرمی اسے اپنے گالوں میں محسوس ہوئی، اس گرمی میں لطف بہت زیادہ تھا، اس کا دل چاہا کہ عورت کو کھینچ کر اپنی گودی میں لے لے، مگر وہ اسی طرح اس کی گود میں پڑا رہا۔۔۔ آخر وہ عورت اس پر جھکنے لگی، رامو نے اٹھ کر اس کو اپنی گودی میں کھینچ لیا، عورت اس کی گودی میں تھی۔ اس کا بدن بالکل ڈھیلا پڑ گیا تھا، اس نے اپنا ڈھیلا ڈھیلا ہاتھ رامو کی گردن میں ڈال دیا، رامو کا دل مچل گیا، اس نے چاہا کہ اس کو اسی طرح لئے ہوئے سو جائے، مگر بھوک نے پیٹ میں مچل کر اسے بےچین کر دیا، آنتیں اینٹھنے لگیں، بھوک نے سارا مزہ کرکرا کر دیا، وہ عورت کو چھوڑنا نہ چاہتا تھا، مگر یہ بھی چاہتا تھا کہ پہلے کچھ کھا نے کو مل جائے، وہ عورت کو پلنگ پر چھوڑ کر دیوانوں کی طرح اٹھ کھڑا ہوا۔ عورت بولی، ’’آج تم بالکل بدلے ہوئے معلوم ہوتے ہو جگن!‘‘

    مگر رامو کچھ نہ بولا، بھوک سے بدحواس دیوار کے چاروں طرف ٹٹولنے لگا، شاید طاق پر کھانے کی کوئی چیز مل جائے، ایک تھالی میں لڈو دھرے ملے، اس نے اٹھا کر کھانا شروع کیا، ایک دو۔ عورت یکایک اٹھ کھڑی ہوئی، تھالی اس سے چھین کر الگ رکھ دی اور بولی، ’’جانتے ہو جگن! لڈو وہ گن کر رکھتے ہیں۔‘‘ رامو کو پھر وہ پلنگ پر بٹھا کر پیار سے اس کی طرف بڑھی، مگر دو لڈو پیٹ میں پڑ چکے تھے، سوئی ہوئی بھوک جاگ چکی تھی، اس نے عورت پر ذرا دھیان نہ دیا، وہ پھر لڈو کی تھالی کی طرف بڑھا، دو لڈو اس کے ہاتھ آئے، عورت تھالی لے کر دوسرے کمرے میں چلی گئی، رامو کو بڑا غصہ آیا، اس کا جی چاہا کہ اسے قتل ہی کر دے۔‘‘ مگر وہ لڈو کھانے لگا، یکایک اس کو کچھ خیال آیا، اور وہ ادھر ادھر ٹٹولنے لگا، ایک کونے میں پانی کا بھرا لوٹا رکھا تھا، اس نے اٹھا کر پینا شروع کیا۔ اتنے میں عورت واپس آئی اور دوسری تھالی لے کر چلی، رامو نے جھپٹ کر تھالی پر ہاتھ مارا، عورت بولی، ’’ارے کل دس ہیں، مت لو۔‘‘

    عورت نے پلٹ کر اسے چھیننا چاہا، لیکن رامو نے اسے زور کا دھکا دیا اور کمرے سے نکل کر بھاگ گیا۔

    مأخذ:

    الاؤ (Pg. 155)

    • مصنف: سہیل عظیم آبادی
      • ناشر: مکتبہ اردو، لاہور
      • سن اشاعت: 1942

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے