Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

بھرکس کہانیوں کا اندوختہ آدمی

محمد حمید شاہد

بھرکس کہانیوں کا اندوختہ آدمی

محمد حمید شاہد

MORE BYمحمد حمید شاہد

    ادھر ‘یہاں میں ایک ایسے ریٹائرڈ شخص کے بارے میں گمان باندھنا چاہوں جسے اپنے بیوی بچوں سے محبت ہو‘ جسے وہ بھی چاہتے ہوں مگر وہ ان سے اس خیال سے الگ ر ہے کہ یوں زیادہ سہولت سے رہا جا سکتا ہے اور خوش بھی۔ یقین جانیے ‘مجھ سے ایسا گمان باندھنا ممکن نہیں رہتا۔ جس ماحول میں‘ میں پلا بڑھا ہوں اور جس ماحول میں میری نفسیات مرتب ہوئی ہیں ‘ان میں بس ایسے گھر کا ہی تصور موجود ہے؛ جو محبت بھری آوازوں اور چہکار سے لبالب بھرا رہتا ہے۔ جس میں خوب کھینچا تانی اور توتکار ممکن ہے۔ جس میں دوسروں پر اپنا اپنا حق جتلایا جاتا ہے‘ حق دیا جاتا ہے اور لیا جاتا ہے۔ میرے گمان میں ایک کام یاب ریٹائرڈ آدمی وہی ہے جو بعد میں ایک بادشاہ کی طرح گھر کا سربراہ رہے ‘چاہے علامتی طور پر سہی۔

    اور جو ایک ہی شہر میں رہتے ہوے بھی بیوی سے اور بچوں سے الگ ہو رہتا ہے‘ اس خیال سے کہ یوں خوش رہا جا سکتا ہے ‘اسے میری نفسیات کی کجی کہیے کہ میں ایسے بوڑھے شخص کو خبطی سمجھنے لگتا ہوں۔ سترا بہترا۔ یا اس کے بیوی بچوں میں نافرمانی اور ناخلفی کے آثار تلاش کرکے انہیں دوزخ کا ایندھن باندھنے والاگرداننے لگتا ہوں۔

    مگر یوں ہے کہ چالیس‘ بیالیس سال پہلے ‘ادھرسات سمندر پا رجانے والا ایک شخص ایسا بھی ہے جس نے اسی چلن کو وتیرہ کرلیا ہے اور میری نفسیات کو تہ و بالا کرکے مجھے یقین بھی دلا دیا ہے کہ یوں خوش رہا جا سکتا ہے۔

    جی‘ میں کسی اور شخص کی بات نہیں کر رہا ‘اس کی بات کر رہا ہوں جو کہیں اب آکر مجھ پر رفتہ رفتہ کھل رہا ہے‘ یوں جیسے آپ ایک ایسی خوب صورت مجلد کتاب کو دیکھتے ہوں جس کے سارے ہی اوراق سادہ رہ گئے تھے یا اس میں کہیں کوئی تحریر ہے بھی تو اتنی بے ضرر کہ آپ اسے پڑھتے ہیں تو آپ کے اندرکوئی اتھّل پتھل نہیں ہوتی۔ دل جہاں ہوتا ہے ‘عین وہیں رہتا ہے۔ نگاہیں سطروں کے عقب میں جھانکنے کو بے قابو نہیں ہوتیں کہ جو کچھ ہے سامنے دھرا ہے‘ اس منظر کی طرح جسے آپ روز دیکھتے ہیں۔

    یہ سچ ہے کہ کل رات تک میں اسے یوں ہی بےضرر اور سیدھا سادا آدمی دیکھتا اور سمجھتا رہا ہوں۔ کچھ سال پہلے اس نے جب مجھے یہ بتایا تھا کہ و ہ ادھر باہراکیلا رہتا ہے ‘اور خوش رہتا ہے۔ نہ صرف مطمئن ہے‘ اس کی بیوی اور بچے بھی یوں رہنے پر خوش ہیں ‘تو یوں ہے کہ پہلے پہل میں بوکھلاہی گیا تھا۔ مگر جب وہ اپنی بات کہ کر اٹھا تھا اور میں نے پلٹ کر صوفے کے اس خالی حصے کو دیکھا تھا‘ جہاں کچھ دیر پہلے وہ بیٹھا ہوا تھا تو مجھے وہاں سے ایک مستغنی اور مطمئن شخص کی مہکار اٹھتی ہوئی محسوس ہوئی تھی۔

    وہ اس عرصے میں لکھنے لگا تھا۔ جاتے جاتے مجھے اپنی دو نئی کتابیں تھماتا گیا۔ ایک میں بقول اس کے کہانیاں تھیں اور دوسری میں ہائیڈ پارک کی دنیا بسی ہوئی تھی۔

    پہلے میں نے اس کی یادداشتوں کی کتاب پڑھی اور پھر دوسری کتاب کی چند ابتدائی کہانیاں۔ مجھے دونوں کا ذائقہ ایک سا لگا۔ یادداشتوں کو کہانی کی طرح بنادیا گیا تھا جب کہ کہانیوں کے متن سے یادداشتیں جھلک دے رہی تھیں۔ میں نے ان تحریروں سے اسے سمجھنا چاہا تو وہ ویسے کا ویسا ہی رہا ‘جیسا کہ وہ پہلے تھا۔ ائیر پورٹ کے قریب‘ اپنی بیوی سے الگ اور اپنے بیٹے اور بیٹی سے دور ‘چھوٹے سے گھر میں اکیلا‘ مگر خوش رہنے والا۔ اپنی کتابوں کے ساتھ ‘بل کہ ان کے نشے اور ترنگ میںیا پھر چیزوں پر‘ دیواروں اور دروازوں پر یہاں وہاں سے گرد کے ذرّے ڈھونڈ ڈھونڈکر انہیں جھاڑنے اور اس مصروفیت سے اوب کر کچن میں گھس جانے والا اور وہاں پہروں وہیں گزار دینے والا۔

    پہلی کتاب میں دوسری کتاب کا متن ملانے کے بعد میں جان گیا ہوں کہ وہ ہیز مڈل سیکس سے ہائیڈ پارک کی طرف تواترسے نکلتا رہتا ہے۔ وہ لگ بھگ ڈیڑھ گھنٹے کا سفر‘کچھ بس میں اور کچھ ٹیوب میں کرتا ہے۔ اور یہ سفر محض اس لیے کرتا ہے کہ اسے وہاں سرپن ٹائن جھیل تک جانا ہوتا ہے۔ اپنی مخصوص جگہ ڈیک چیئر پر اپنے طریقے سے بیٹھنے کے لیے۔ وہ ادھر ادھر چائے کے تھرمس اور کھانے پینے کی اشیا کو سلیقے سے رکھ کر اپنے بیگ سے رائٹنگ پیڈ‘ قلم اور کیمرے کو نکال کر یوں بیٹھ جاتا ہے جیسے مچھلیوں کا کوئی شکاری پانی میں کانٹا ڈال کر بیٹھ جایا کرتا ہے۔

    یہ جو میں نے کانٹا لگاکر بیٹھنے کی بات کی ہے تو یوں ہے کہ اسے وہاں اجنبی اور سیاح لوگوں سے باتیں کرنا اچھا لگتا ہے۔ بل کہ مجھے صاف صاف کہنا چاہیے کہ فی الاصل اسے بات نوجوان سیاح لڑکیوں ہی سے کرنا ہوتی ہے۔ افریقی لڑکیاں ہوں یافلپینو ‘ایرانی ہوں یاچینی‘ سویڈیش ‘پولش‘ عراقی ‘اٹالین یا کویتی لڑکیاں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا‘ کہ وہ سب سے ملتاہے۔ کوئی دبلی پتلی اور اونچے قدوالی ہوتی ہے تو کوئی بھرے ہوے جسم اور چمکتی تنی ہوئی جلد والی ‘کسی کو انگریزی نہیں آتی‘ کسی کو ملازمت نہیں مل رہی ‘کسی کو اس کا چاہنے والا چھوڑ گیا ہے؛ وہ سب سے ملتا۔ لگ بھگ ہر بار یوں ہوتا کہ اسے ہی بات کو آغاز دینا ہوتاہے۔

    اس معاملے میں عمر بھر کا تجربہ اس کے پاس ہے۔ وہ یہ گر بھی سیکھ چکا ہے کہ اسے کسی کی توجہ کیسے حاصل کرناہوتی ہے۔ ایک بار بات شروع ہو جاتی تو وہ چاہتا ہے کہ اس ملاقات میں سے ایک اور ملاقات کو نکالا جائے۔ اس کا حیلہ اس نے پہلے سے کر رکھا ہوتا ہے۔ اس کے پاس ایک کیمرہ ہوتا ہے‘ بقول اس کے ڈسپوزایبل کیمرہ۔ وہ چاہتا ہے کہ دوسرا زوم لینز والا اور اعلیٰ کوالٹی کا کیمرہ رکھے مگراس نے اس سستے کیمرہ کو اس لیے ترجیح دی ہے کہ کوئی تصویر بنانے پر برہم ہوجائے اور کیمرہ چھین لے تو نقصان پی جانے کی حد میں رہے۔

    جب اتنے جتن سے ایک بار بات شروع ہو جاتی ہے تو وہ ہمت کرکے ان کی تصویریں بھی لے ہی لیتا ہے۔ جو اسے پتا لکھوا دیتی ہیں انہیں ان کی تصویریں پوسٹ کر دی جاتیں اور جس سے یہ ایک بار پھر ملنا چاہتا ہے ‘اسے ٹیلی فون کرکے بتاتا ہے؛ وہ اس کی تصویریں لے کر فلاں دن اور فلاں وقت پر ہائیڈپارک پہنچےگا۔ آؤ‘ ملو اور لے جاؤ۔

    یہ لڑکیاں ‘یہ جوان لڑکیاں‘ یہ یہودی ‘عیسائی‘ لادین لڑکیاں سب تھوڑا تھوڑا کرکے اس کا وقت بانٹ لیتی ہیں۔

    ان میں سے ایک تو ایسی ہے جس نے لگتا ہے اس کا دل ہی اچک لیا ہے۔

    اگر میں اس کی تحریر وں کو اس کے کیمرے سے لی گئی تصویروں سے جوڑنے میں کوئی غلطی نہیں کر رہا تو دل مٹھی میں لینے والی ہائیڈ پارک میں اسے ملنے والی یہ وہی چینی شہزای ہے جس کی تصویر دکھاتے ہوے اس کے گالوں میں تھرتھری سی دوڑ گئی تھی۔ اس نے اس تصویر کو اپنی کتاب کے فلیپ کی زینت بھی بنا دیا ہے۔

    جب تک تصویر میرے ہاتھ میں رہی ‘وہ ایک الگ سی کیفیت میں رہا۔ ایک لطف کے احساس کے ساتھ وہ مجھے اطلاع دے رہا تھا کہ اسے ڈھنگ سے انگریزی نہیں آتی تھی۔ یہ کوئی اچھی خبر نہیں تھی اور نہ ہی اس خبر میں اس لطف کو تلاش کر پایا تھا جس کے مطابق ناقص انگریزی کی وجہ سے اسے وہاں نوکری نہیں مل رہی تھی۔ جس لڑکی کا قصہ سنایا جا رہا تھا وہ دل برداشتہ تھی مگر کہانی سنانے والا اس کے دکھ سے کہیں زیادہ ایک لڑکی کی تصویر سے اٹھتی اس عجب سی مہک سے جڑا ہوا تھا‘ جس کا بہ ظاہر کوئی وجود نہ تھا مگر وہ وہاں سارے میں تھی ۔ کچھ اس طرح جیسے وہاں اس لڑکی کی تصویر نہ تھی اس کا زندہ وجود تھا ‘مہکتا ہوا۔

    مجھے اس لڑکی سے ایک دلچسپی سی ہو چلی تھی۔ اس کے چلے جانے کے بعد میں نے اس کی کتاب میں اس لڑکی کا ذکر تلاش کر لیا۔ اور ایسا جملہ بھی جس کے مطابق وہ دنیا کی حسین ترین لڑکی تھی۔ میں نے کتاب کے فلیپ والی تصویر کو ایک بار پھر دیکھا۔ پھینی ناک‘ قدرے چوڑی پیشانی ‘ابھرے ہوے گال‘ جو آنکھوں تک اچھل کر انہیں دبا رہے تھے۔ یقیناً اس لڑکی کا رنگ گورا ہوگا مگر کیا اسے حسین لڑکی کہا جا سکتا تھا؟

    میں بہت دیر تصویر دیکھتا رہا حتّٰی کہ مخمصے میں پڑ گیا۔

    میں نے اوپر کہا ہے کہ اس کی کہانیاں اور یادداشتیں ایک دوسرے میں گڈمڈ ہو جاتی ہیں اور دونوں اسے ایک بےضرر انسان کی صورت دیتی ہیں ‘سوائے اس مقام کے‘ جہاں وہ پھینی ناک اور اچھلتے گالوں والی دنیا کی حسین ترین لڑکی بن جاتی ہے۔

    میں نے اس کی چند ابتدائی کہانیوں کو پڑھ کر کتاب ایک طرف رکھ دی تھی۔ پھر ایک روز یوں ہوا کہ میری بیوی کہانیوں کی یہ کتاب اٹھائے اٹھائے میرے پاس آئی اور ایک شوخ سی ہنسی کے فوارے کوبہ مشکل ہونٹوں پر روکتے ہوے کتاب کے دو تہائی اوراق دائیں ہاتھ پر الٹاتے ہوے پوچھا:

    ’’کیا تم نے یہ کہانی پڑھی ہے؟‘‘

    میں نے کتاب کی طرف دیکھے بغیر اس سے پوچھا:

    ’’کون سی کہانی؟‘‘

    ’’ارے بابایہ۔‘‘

    اس نے کتاب میری آنکھوں کے سامنے اچھال کر سامنے رکھ دی۔ میرے سامنے اس کا افسانہ ’’سہاگ رات‘‘ پڑا ہوا تھا۔ اس افسانے تک پہنچنے سے پہلے ہی میں نے اوب کر کتاب بند کر دی تھی۔ میں نے اس کی جتنی بھی کہانیاں پڑھیں‘لگ بھگ ہر کہانی میں وہ واقعات کو ایک شریف آدمی کی طرح ایک عام سی ترتیب میں بیان کرتا نظر آیا۔ میں نے اس کہانی پر پہنچنے سے پہلے ہی اسے انتہائی بےضرر آدمی قرار دے ڈالا تھا۔ ایسا بے ضررآدمی‘ جو واقعات تو لکھ سکتا تھا اور شریفانہ کہانیاں بھی ‘مگر وہ انہیں تخلیق پارے نہیں بنا سکتا تھا۔ شریفانہ کہانیوں میں ایک خرابی یہ ہوتی ہے کہ وہ پڑھتے ہی کھل جاتی ہیں۔ اس قبیل کی ایک سی کہانیوں کو پڑھتے چلے جانا ‘بتاشوں کے بعد کھانڈ کھانے کے مترادف تھا۔ تاہم میری بیوی کے پیٹ سے ہنسی کا فوارا چھوٹا تو میں اس کہانی کو پڑھنے کی طرف مائل ہو گیا۔

    کہانی کے آغاز ہی میں بتادیا گیا کہ یہ ایک ایسے خان کی کہانی ہے جو اب اس دنیا میں نہیں ہے۔ جو بہت شریف تھا اتنا کہ اس کے مرنے کے بعد بھی اسے اچھے ناموں سے یاد کیا جاتا ہے۔ اسے میری محسوسات کا شاخسانہ سمجھئے یا پھر کہانی کے اسلوب کا معاملہ کہ میں کہانی کے خان کو کہانی کے مصنّف کے وجود کا حصہ سمجھنے لگا تھا۔ اس افسانے میں خان کی جوانی کا قصہ ایک راوی کی زبانی بیان کیا گیا تھا۔ کہانی کے آغاز میں بتایا گیا ہے کہ راوی نے خان کو طیش اور ترنگ میں لا کر یہ قصہ کہ ڈالنے پر مجبور کر دیا تھا تاہم خان نے اپنی کہانی سنانے سے پہلے یہ وضاحت بھی کر دی ہے کہ لوگ اگرچہ یہ سمجھتے رہے ہیں کہ وہ اپنی مردانہ کمزوری کی وجہ سے شادی نہیں کر رہا مگر حقیقت میں ایسا نہیں تھا۔ لوگ غلط قیاس لگاتے تھے۔ مصنف نے یہ جملہ اس اہتمام اور ایسے ڈھنگ سے لکھا تھا کہ پڑھتے ہوئے ذہن نشین رہتا تھا۔

    اس کے بعد کہانی طوائف کے کوٹھے تک پہنچنے میں دو دن لگاتی ہے۔ وہاں پہنچ کر رکتی نہیں کہ اسے خان جی کو مرد ثابت کرنے کے لیے بقول افسانہ نگار’’وہ کام‘‘ بھی کرنا پڑتا ہے۔ کہانی میں کئی ایسے موڑ آئے جن کو اختصار کے پردے میں چھپایا جا سکتا تھا مگر طول نویسی کی ہوس میں مبتلا یہ لکھنے والا سب کچھ کھول کھول کر بیان کرتا چلا گیا ہے۔

    اب مجھے اپنی بیوی کے ہنسے چلے جانے کی وجہ سمجھ آ گئی ہے۔

    جب یہ کہانی لکھنے والا مجھے ملنے آیا تھا تو وہ بھی میرے ساتھ بیٹھ کر اس سے اس کی زندگی کے دل چسپ قصے سنتی رہی تھی۔ اسی نشست میں اس نے یہ بھی بتایا تھا کہ اس کی پہلی شادی یہاں اپنے وطن میں ہوئی تھی۔ جب دلہن کو لے کر بارات واپس آرہی تھی تو اسے برقعے میں سر سے ٹخنوں تک لپٹی دلہن کی سرخ جوتیوں سے جھلکتے گورے گورے پاؤں دیکھ کر یہ فکر کھائے جارہی تھی کہ باقی لوگ بھی اس کے پاؤں دیکھ رہے ہوں گے۔ میری بیوی نے یہ سنا تو ہنس کر کہا تھا:

    ’’ہماری مائیں بھی کچھ اسی طرح دلہن بنی تھیں۔‘‘

    میری بیوی کی بات سن کر وہ ہنس پڑا تھا اور بتایا:

    ’’اب میری دوسری بیوی جاب کرتی ہے۔ میری بیٹی بھی خود کفیل ہے۔ پہلے پہل وہ رات دیر سے آیا کرتی تھی تو میں پریشان ہو جایا کرتا تھا ‘مگر اب ایسا نہیں ہوتا۔ ان کی اپنی زندگی ہے اور میری اپنی۔‘‘

    لگتا ہے میری بیوی بھی میری طرح اسے بے ضرر آدمی سمجھتی رہی ہے۔ تبدیل ہوتی دنیا کے ساتھ بدل جانے والاآدمی۔ بدل جانے والے اپنوں کے لیے اپنی محبت اور اپنے جذبے سرنڈر کرنے والا۔ تو یوں ہے کہ اس کوٹھے والی کہانی کے بعد ہم دونوں کے لیے وہ آدمی جو بے ضرر تھا‘ بے ضرر اور ٹھس نہ رہا تھا۔

    اسے میری محسوسات کا شاخسانہ کہیے کہ اس میں موجود تبدیل ہو چکے آدمی کے ساتھ ہی اس کی کہانیوں اور یادداشتوں نے بھی اپنی جون بدل لی ہے۔ اب ہائیڈ پارک کی لڑکیاں صرف وقت گزاری کا حیلہ نہیں ہیں۔ اس کی ایک کہانی ‘جس کا عنوان ’’رانی‘‘ رکھا گیا ہے‘ مجھے بتا رہی ہے کہ میاں بیوی کی محبت کا تقاضا کیا ہوتا ہے۔ یہی کہ وہ ایک دوسرے کو محسوس کریں اور پاس پاس رہیں۔ ایک اور کہانی میں بیٹی کو ایسی زنجیر بنی رہنے کا مشورہ دیا گیا ہے جو ماں باپ کو جوڑنے کا کام سرانجام دیتی رہے۔ کچھ کہانیاں چھوڑ کر ایک ایسی کہانی آتی ہے جس میں منھ پھٹ اور تلخ لڑکیوں کو سمجھایا گیا ہے کہ کوئی بزرگ اپنی تنہائی بانٹنے کے لیے ان کے پاس آئے تو انہیں اپنی تلخیوں کو ایک طرف رکھ دینا چاہیے۔ خاندانی ڈھانچے ‘نامی کہانی میں اس خاندانی نظام کا نقشہ کھینچا گیا ہے جس میں ایک دوسرے کو خوش رکھنے کے لیے قربانیاں دے چلے جانے کی روایت ملتی ہے۔

    لیجیے‘ میری بیوی نے مجھے ایک ایسی کہانی پڑھا دی ہے کہ اپنی بیوی بچوں کی خوشی کے لیے ان سے الگ رہنے والا آدمی کہیں پیچھے رہ گیا ہے اور ایک ایسا شخص میرے سامنے آ کھڑا ہوا ہے جو زندگی اور اپنوں سے مل بیٹھنے کی تاہنگ سے لبالب بھرا ہوا ہے۔ بالکل ویسا ہی ‘جیسا کہ‘ میری اپنی حسی تربیت نے بالعموم رشتوں میں بہت اندر تک جڑے ہوے تہذیبی آدمی کا ہیولا بنا رکھا ہے۔

    تو پھر وہ بااعتماد اور آزاد آدمی کہاں ہے جو ادھر ہائیڈ پارک میں تھا۔ رنگ رنگ کی جواں سال لڑکیوں سے چہلیں کرنے والا اور ان کے بدنوں کی خوشبو سے اپنی سانسوں میں مہکار بھرنے والا۔ اس پر تو وہ آدمی حاوی ہو گیا ہے جس کی برقعے میں لپٹی دلہن کی جویتوں سے جھلکتی جلد اسے بے چین کرتی تھی۔ قدم قدم پر رشتے تلاش کرنے والا قدیم اور متروک آدمی۔ لگتا ہی نہیں ہے کہ یہ آدمی ایک مدّت سے وہاں تھا۔ چوں کہ یہ کوئی کہانی نہیں ہے لہذا اس میں قباحت نہیں ہے کہ آخر میں ایک سوال رکھ دیا جائے اور وہ سوال یہ ہے کہ اگر آج کا آدمی مکمل طور پر ان رشتوں سے اندر سے بھی کٹ گیا جنہیں وہ باہر تلاش کرتا پھر رہا ہے تو پھر کہانی کاچلن کیسا ہو جائےگا؟

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے