Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

بکھرے ہوئے سپنے

رتن سنگھ

بکھرے ہوئے سپنے

رتن سنگھ

MORE BYرتن سنگھ

    کہانی کی کہانی

    کہانی تقسیم ملک کے سائے میں دو دوستوں کے اسکول کے دنوں میں دیکھے گئے خواب اور پھر اس کے بکھر جانے کی داستان ہے۔ اسکول کے دنوں میں انہوں نے بکری پالنے کا سپنا دیکھا تھا۔ اسے بکری مل جاتی ہے اور وہ سوچتا ہے کہ جب بکری بڑی ہو جائیگی تو وہ اس کا دودھ دادی اور کچے گھر میں رہنے والی کم عمر کی ماں کو پلائے گا۔ مگر اسے بہت افسوس ہوتا ہے جب پتہ چلتا ہے کہ بکری اتنا کم دودھ دیتی ہے کہ وہ اس کے بچوں کے لیے بھی کم پڑ جاتا ہے۔ پھر اسے اس بکری کو حامد کو دکھانے کا خیال آتا ہے مگر تب تک حامد اس سے اتنی دور چلا جاتا ہے کہ اسے اس کی کوئی خبر بھی نہیں ملتی۔

    میرے لیے بکری کی ننھی سی چھیلی کو حاصل کرنا مشکل تو تھا ہی، لیکن اسے کھلا پلاکر پال پوس کر بڑا کرنا اس سے بھی مشکل کام تھا۔پہلے تو اسے حاصل کرنےکے لیے مجھے کیا کیا پاپڑ نہیں بیلنے پڑے۔ رویا، دھویا، مارکھائی، لیکن اپنی ضد پر اڑا رہا۔ بھوک ہڑتال کی اور ’’بکری لوں گا ،بکری لے کے رہوں گا۔‘‘ کی رٹ لگائے رہا۔

    بات دراصل یہ تھی کہ بچپن میں میرا ایک دوست تھا حمید۔ اب اس حمید سے میری دوستی بھی تھی اور رقابت بھی۔ دوستی اس لیے کہ وہ پڑھنے میں بہت تیزتھا اور کسی بھی مشکل کے وقت اس سے مدد لی جاسکتی تھی۔ اور رقابت؟ ہاں رقابت بھی اسی لیے تھی کہ وہ پڑھنے میں بڑا تیز تھا اور اس لیے اس کی وجہ سے میں جماعت میں اول نہیں آپاتا تھا۔ ایک یا دو مضامین میں مجھے ضرور اس سے زیادہ نمبر مل جاتے تھے لیکن کل ملاکر وہی پالا مارلے جاتا تھا۔

    اسی دوستی اور رقابت میں ہم دونوں ایک ساتھ کھیلتے تھے ایک ساتھ پڑھتے تھے۔ میری دیکھا دیکھی اس نے گلی ڈنڈا کھیلنا شروع کردیا تھا۔ حالانکہ اسے گلی ڈنڈے میں ذرا بھی دلچسپی نہیں تھی اور اسے کھیلنا بھی نہیں آتا تھا۔ اس کی دیکھا دیکھی میں نے کبڈی کھیلنی شروع کی تھی حالانکہ کبڈی کھیلتے ہوئے جب ننگے جسم پر ہر جگہ مٹی پت جاتی تو مجھے اپنے آپ سے بڑی شرم آتی تھی۔

    زندگی کے اسی دور میں پتہ نہیں کیسے ہم دونوں کو یہ دھن سوار ہوگئی کہ صاحب ہم ایک ایک بکری ضرور پالیں گے۔ ممکن ہے ان دنوں کسی نے ہمیں بتایا ہو کہ گاندھی جی بکری کا دودھ پیا کرتے ہیں اس لیے۔۔۔ یا پھر ہوسکتا ہے کہ ہم نے کہیں پڑھ لیا ہو کہ بکری کا دودھ دل و دماغ کو انتہائی تازگی اور فرحت بخشتا ہے۔۔۔ خیر بات جو بھی ہو۔ ہم لوگوں کو بکری پالنے کی دھن سوار ہوگئی تھی اور ایک ایک بکری ہم ہر قیمت پر حاصل کرنا چاہتے تھے۔

    مجھے یاد ہے۔ بکری ملنے سے پہلے ہم نے کئی خواب دیکھ ڈالے تھے۔ حمید کہا کرتا تھا، ’’میں اپنی بکری کو اسلامی طور طریقے اور آداب سکھاؤں گا۔ دیکھ لینا جب مسجد سے اذان کی آواز آیا کرے گی تو میری بکری ادب سے اٹھ کر کھڑی ہوجایا کرے گی۔ کہیں قرآن خوانی ہوگی تو میری بکری وجد میں آکر سردھنا کرے گی، اور یہ کہ میری بکری روزے بھی رکھا کرے گی اور۔۔۔‘‘

    ’’اور بقرعید کے دن اس کی قربانی بھی دے دینا۔‘‘ میں نے حمید کے منصوبوں کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا تھا۔

    رہے میرے خواب تو میں سوچا کرتا تھا کہ میں اس بکری کا دودھ نہ صرف خود پیوں گا بلکہ اپنی بوڑھی دادی کو بھی پلایا کرو ں گا۔ بات دراصل یہ ہے کہ بچپن میں، میں اپنی دادی سے عشق کرنے کی حد تک محبت کیا کرتا تھا اور ایسی ترکیبیں سوچا کرتا تھا کہ اگر ہوسکے تو وہ ہمیشہ زندہ رہیں اور اگر ایسا ممکن نہ ہو تو کم از کم ان کی عمر بہت لمبی ہوجائے۔ اور ان کی لمبی عمر کا واحد طریقہ ان دنوں میرے ذہن میں صرف اس بکری کا دودھ تھا جو ابھی مجھے ملی نہیں تھی۔ اور پھر یہ کہ میں سوچا کرتا تھا کہ میں اپنی بکری کا دودھ اپنے گاؤں کے ساتھ ہی لگے ہوئے کچے پنڈ میں، ایک کچے گھر میں رہتی ہوئی، ایک کچی عمر کی اس ماں کو پلایا کروں گا، جس کی ننگی چھاتیوں سے چمٹا ہوا ایک پیلا سا لاغر بچہ میں نے دیکھا تھا۔

    ہم اسکول کے سارے بچے اپنے ماسٹر کے ساتھ اس کچے پنڈ کی گلیوں سے کوڑا سمیٹنے گئے تھے تو اس پیلی سی عورت کی چھاتیوں سے چمٹے ہوئے اس پیلے سے بچے کو دیکھ کر میرے سرپر رکھی ہوئی کوڑے کی ٹوکری اور بھی بھاری ہوگئی تھی۔ اس لیے بکری کے دودھ کی جب بھی میں تصور ہی تصور میں تقسیم کرتا تھا تو وہ عورت اور وہ بچہ میری آنکھوں کے سامنے آکر اپنا حق یا حصہ لینے کھڑے ہوجایا کرتے تھے۔

    توخیر صاحب۔ ہمارے بھاگوں چھینکا ٹوٹا اور ایک چھیلی مجھے مل گئی اور ایک حمید کو۔ ہوا یہ کہ مویشیوں کے بیوپاریو ں کی ایک ٹولی جو ہمارے گاؤں سے باہر کچھ دنوں سے ڈیرہ ڈالے تھی، ان کی ایک بکری کو اپھارے کی بیماری ہوگئی۔ اپھارے کی وجہ سے بکری کو ایک پل چین نہیں پڑرہا تھا۔ وہ میں میں کرتی ہوئی چلارہی تھی۔ تبھی ان بیوپاریوں نے سوچا کہ کہیں یہ اپھارے کی بیماری سارے ریوڑ میں نہ پھیل جائے۔ اس لیے انہوں نے بکری کو ذبح کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ بکری ویسے بھی پورے دنوں پر تھی اور کسی بھی دن بیانے والی تھی۔ اس لیے ان کے شاطر ہاتھوں نے بکری کو ذبح کرنے سے پہلے اس کے پیٹ سے دو زندہ چھیلیاں نکال لیں۔ وہ بیوپاری تو اپنے ریوڑ کی دوسری بکریوں کو بچانے کی فکر میں اسی دن کوچ کر گئے اور وہ چھیلیاں ہمیں مل گئیں۔ ایک مجھے اور دوسری حمید کو۔

    چھیلی تو مل گئی۔ لیکن اب اصل مسئلہ درپیش تھا۔ یعنی اس کے پالن پوسن کا۔ میں چاہتا تھا کہ اس بکری کو پال پوس کر اس طرح تیار کروں کہ اس کے سامنے مہاتما گاندھی کی بکری بھی مات پڑجائے اور اس کا دودھ اتنا کافی اور اتنا صحت بخش ہو کہ۔۔۔

    میرے خوابوں کو چھوڑیے۔ پہلے تو میں نے اس بکری کو بوتل سے دودھ پلایا۔ خالص دودھ گائے کا۔ میرے اپنے ہی گھر میں ایک کالی گائے تھی نورتنی۔ نورتنی کامطلب یہ کہ گایوں میں سب سے اتم۔ اس میں سارے وصف تھے۔ سندر تھی۔اصیل تھی، صحت مند تھی۔ دودھ بہت دیتی تھی اور پھر یہ کہ گائے تو متبرک ہوتی ہے۔ ایسی گائے کے بارے میں تو لوگ کہتے ہیں کہ اگر اس کا دودھ مردہ پی لے تو زندہ ہوجائے اور پھر میری چھیلی تو زندہ تھی۔ کچھ ہی دنوں میں اس نے گھر بھر میں ایسی کلیلیس بھرنی شروع کیں کہ لگتا تھا جیسے وہ کسی بکری کی بچی نہ ہو کر کسی جنگلی ہرنی کی بچی ہو۔ جنگل کی آزاد فضاؤں میں پلی ہوئی اٹکھیلیاں کرتی ہوئی آزاد ہرنی۔ اور پھر دودھ سے ہٹ کر جب اسے ہرے پتے کھلانے کا سوال آیا تو آپ تعجب کریں گے کہ میں اور میرے محلے کے ساتھی، جنہیں میری بکری اچھی لگنے لگی تھی اور جنہیں امید تھی کہ کسی دن انہیں بھی اس بکری کا دودھ پینے کو ملے گا، ہم سب مل کر ایسی ایسی نرم پتیاں توڑ کر لاتے تھے کہ پھولوں کی پتیاں بھی کیا نازک ہوتی ہوں گی۔

    آپ یہ تو جانتےہی ہیں کہ پیڑوں کی نرم پتیاں ہمیشہ نرم شاخوں کے آخری سرے پر ہوتی ہیں۔ اس لیے ان کا توڑنا بھی جان جوکھوں میں ڈال کر ہی ممکن ہوتا تھا۔ بھری دوپہر میں جب ساری دنیا سورج کی تپش سے بچنے کے لیے ٹھنڈے سایوں تلے آرام کرتی ہے، میں پیڑوں کی اونچی ٹہنیوں پر پہنچ کر ہوا میں معلق رہ کر اپنی چھیلی کے لیے نرم پتیاں توڑا کرتا تھا۔ گرا تو خیرکبھی نہیں۔ لیکن خطرناک موقعوں پر ایک سانس نیچے اور ایک سانس اوپر کی نوبت جب آتی تھی تو دل کانپ کانپ جاتا تھا۔ اور پھر یہ تو آپ جانتے ہی ہیں کہ بکری کو ببول کی پتیاں بڑی مرغوب ہوتی ہیں۔ اور ببول کی ٹہنیاں توڑتے ہوئے میرے ہاتھ ہی نہیں میرے بازو ۔میرا سارا جسم کانٹوں کی چبھن سے کراہ اٹھتا تھا۔ لیکن ببول کی پتیاں میں اپنی بکری کو کھلاتا ضرور تھا۔

    یہاں تک تو خیر غنیمت تھی ۔ لیکن ایک مرتبہ تو صاحب یہ ہوا کہ میری بکری کو خارش ہوگئی۔ اب ہمارے گاؤں میں مویشیوں کا ڈاکٹر تو کوئی تھا نہیں۔ اس لیے پہلے تو گھر کا ہی اوڑھ پوڑھ لیا۔ یعنی بکری کو دومرتبہ نمک ملے پانی سے نہلایا۔ اس سے کوئی افاقہ نہیں ہوا تو نمک اور پھٹکری گھول کر اس سے نہلایا۔ یہ سب جب میں کرتا تو گھر والے بگڑتے تھے۔ کیوں اس بکری کے پیچھے حیران ہو رہے ہو۔ ہر آدمی کے مذاق کانشانہ بنا ہواتھا۔ لیکن مجھے لوگوں کے مذاق کی نہیں اپنی بکری کی فکر تھی۔ اتنے میں مجھے کسی نے بتایا کہ حقے کے پانی سے اگر اسے نہلاؤ تو خارش دور ہوجائے گی۔ اب آپ جانتے ہیں کہ حقے کا پانی کتنا بدبودار ہوتا ہے۔ حقہ پینے والا نے کو منہ میں دباکر جب کش لیتا ہے تو چلم کا دھواں حقے کی گڑگڑی میں پڑے ہوئے پانی سے ہوکر گزرتا ہے۔ آخر اس پانی سے بھی بکری کو نہلایا۔ اور بھی کئی دوا دارو کیے۔ مطلب یہ کہ عورتیں جس طرح اپنے آپ کو ختم کرکے چھوٹے بچوں کو پالتی ہیں، کچھ اسی طرح کی محنت میں نے اس چھیلی پرکی۔ تب کہیں جاکر وہ بکری جوان ہوئی۔

    اور جو بکری جوان ہوئی ہے تو اس کا حسن دیکھنے والا تھا۔ جو لوگ میرا مذاق اڑاتے تھے وہ اب چل کر میری بکری دیکھنے آتے تھے۔ سارے علاقے میں اس کی دھوم تھی۔ دوسرے گاؤں کے لوگ بھی آتے اور کہتے۔ بھئی واہ۔ بکری دیکھی تو یہ۔ میں بھی اس بکری کے لیے پھولا نہیں سماتا تھا۔ مجھے لگتا تھاجیسے اس بکری کو پالنے کے مقابلے میں، میں نے حمید کو مات دے دی ہے۔ میں چاہتا تھا جہاں اور لوگ میری بکری دیکھنے آتے ہیں، اس طرح حمید بھی آئے اور میری بکری دیکھے۔ لیکن وہ کہاں چلا گیا۔ کچھ پتہ نہیں چلا۔

    میں اپنی بکری کو ساتھ لے کر ایک دن اپنے گاؤں کے پاس بسے ہوئے کچے پنڈگیا تھا۔ وہاں کچے مکان میں رہ رہی کچی عمر کی ماں کو بھی میں نے اپنے بکری دکھائی تھی جس کی چھاتیوں سے چمٹا ہوا کمزور سا بچہ اب بھی دودھ چوس رہا تھا۔ اس کو میں نے آنکھوں ہی آنکھوں میں یہ اشارہ کیا تھا کہ اس بکری کو بیانے دو۔ اس کا دودھ میں تیرے بچے کو بھی دوں گا اور تجھے بھی اور پھر تیرے اندر میری نورتنی گائے کے سارے وصف آجائیں گے۔ تم خوبصورت ہو جاؤگی اور تمہارا بچہ تندرست۔

    جس دن میری بکری بیاہی اس دن۔۔۔ اس دن مجھ پر اداسی طاری ہوگئی۔ حالانکہ اس دن مجھے خوش ہونا چاہیے تھا۔ میری بیکری بیاہی تھی۔

    اس نے دو ننھی ننھی چھیلیوں کو جنم دیا تھا۔

    وہ چھیلیاں ٹھیک ویسی ہی تیں جیسی مجھے اور حمید کو ملی تھیں۔

    لیکن پھر بھی مجھ پر اداسی چھاگئی تھی۔

    لوگ گھر آکر مجھے مبارک باد دے رہے تھے۔

    میں ہر ایک کی مبارک باد قبول کر رہا تھا۔ لیکن پھر بھی بات یہ ہے کہ مور ہر بادل کو دیکھ کر نہیں ناچتا۔ مور تو کالی گھٹا کو دیکھ کر ہی ناچتا ہے۔

    کالی گھٹا۔

    کالی گھٹا جو سارے افق، سارے آسمان پر چھاجاتی ہے۔ اور پھر برستی ہے تو ٹوٹ کر برستی ہے۔

    جب کالی گھٹا برستی ہے تو ساری دھرتی شرابور ہوجاتی ہے۔

    ساری کائنات کی پیاس مٹ جاتی ہے۔

    آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ بکری کے بیاہنے پر میں کیوں اداس ہوگیا تھا۔

    میری بکری کے نیچے دودھ بہت کم تھا۔

    اتنا کم کہ شاید وہ اپنی دونوں چھیلیوں کو بھی نہیں پال سکتی تھی۔

    اس لیےبکری کے بیاہنے کے بعد میرے لیے ایک ایک دن، ایک ایک سال، ایک ایک صدی، ایک ایک یگ بن گیا۔ اس بیچ میری دادی مرگئی۔ اور میں اسے اپنی بکری کادودھ نہ پلا پایا۔ اسی شرمندگی کے باعث کچے پنڈ کی طرف جانے کی ہمت نہیں پڑتی۔ وہاں کچے گھر میں رہتی ہوئی اس بیمار بچے کی خاموش آنکھوں نے کوئی سوال پوچھ لیا تو اسے کیا جواب دوں گا؟

    اس عورت کی بات تو چھوڑیے صاحب۔ میری تو اتنی ہمت بھی نہیں پڑتی کہ اپنی نورتنی گائے سے بھی آنکھیں ملاسکوں۔ نورتنی گائے جس کا پاک پوتر دودھ میں نے اس بکری کو پلایا ہے۔

    کتنی محنت سے میں نے اس بکری کو پالا تھا۔

    اب سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ بکری کیسے اتنا ڈھیر سا دودھ دے کہ کچے پنڈکے کچے گھر میں رہ رہی اس کچی عمر کی ماں سے اور اس کے بیمار بچے سے مجھے شرمندہ نہ ہونا پڑے۔

    یہی سوچ کر اداس ہوجاتا ہوں۔

    اداسی کے اس عالم میں اکثر خیال آتا ہے کہ وہ میرے بچپن کا دوست حمید مل جاتا تو اس سے بات کرکے اپنے دکھ کو ہلکا کرتا، اور اس سے پوچھتا کہ اس کی بکری کا کیا حال ہے؟

    وہ کتنے روزے رکھتی ہے؟

    وہ قرآن خوانی ہونے پر سردھنتی ہے یا نہیں؟

    اور سب سے بڑی بات یہ کہ۔۔۔

    وہ دودھ کتنا دیتی ہے؟

    اور اس کے گھر کے پاس جو کچا پنڈ ہے اور اس کچے پنڈ میں جو کچی عمر کی پیلے چہرے والی ماں رہتی ہے، اس کے بیمار بچے کو دودھ ملا ہے یا نہیں؟

    لیکن پوچھوں تو کس سے؟

    حمید تو ایسا بچھڑا ہے کہ پھر ملنے کی نوبت ہی نہیں آئی۔

    مأخذ:

    کاٹھ کا گھوڑا (Pg. 36)

    • مصنف: رتن سنگھ
      • ناشر: رگھبیر پبلیشر، لکھنؤ
      • سن اشاعت: 1993

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے