Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

بنت زلیخا

شفیع مشہدی

بنت زلیخا

شفیع مشہدی

MORE BYشفیع مشہدی

    ’’سمسو کی ماں کو معلوم کہ ہم کھیریت سے ہیں اور تم لوگوں کا کھیریت نیک چاہتا ہوں۔‘‘

    ابا کی طرف سے سمسو کو بہت بہت دعا۔ اور ضروری بات یہ ہے کہ سجان میاں کا بیٹا اسلام کے ہاتھ چالیس روپیہ بھیج دیا ہے، جو ملا ہوگا۔ باڑی والا کا کرایہ دے دو اور منّی کو ڈاگدر کو دکھا کے دوا کھلاؤ۔ اس کا بیماری کا حال سن کر ہم پریشان ہیں۔ کم لکھنے کو جاستی (زیادہ) سمجھو۔ ہم کوسس کر رہے ہیں کہ انتجام کر کے اور روپیہ بھیج دیں۔

    ہمرا بکھار اتر گیا ہے، مگر کھانسی پریسان کیے ہے۔ ابا کے طرف سے چھوٹی اور منّی کو بہت بہت دعا۔ باڑی والا کو سلام، محلہ والن کو بھی سلام کہہ دو۔

    جلدی سے جواب دو۔ سلام دعا کے ساتھ!

    محمد کلیم عرف کلوٹ میاں

    کلکتہ سے

    ’’لکھنے والے کی طرف سے پڑھنے والے کو سلام‘‘۔

    میں نے ہنستے ہوئے وعلیکم السلام کہا اور خط پڑھ کر پوسٹ کارڈ زلیخا کی طرف بڑھا دیا جو غور سے خط کے ایک ایک لفظ کو سن رہی تھی۔ اچانک خط کا مضمون ختم ہونے پر جیسے اسے یقین نہیں آیا۔ اُس کی پرامید آنکھیں مایوسی سے بھر آئیں۔

    ’’اور کا لکھا ہے بابو‘‘؟ آنے کے بارے میں کا لکھا ہے‘‘؟ اس کی مایوسی زبان پر آ گئی۔ زلیخا نے اس طرح پوچھا تھا جیسے میں نے جان بوجھ کر خط کا کچھ حصہ دانستہ پڑھنا چھوڑ دیا تھا۔ میں جھنجھلا سا گیا۔

    ’’اور کچھ نہیں لکھا ہے، جو لکھا تھا پڑھ دیا۔ اب جاؤ‘‘۔ میں نے درشت لہجے میں کہا۔ روز روز محلے والوں کے خط پڑھنے اور جواب لکھنے سے میں اکتا سا گیا تھا۔ مگر اماں کے اصرار سے مجبور تھا۔ جہاں میں نے انکار کیا اور ان کی نصیحت شروع ہو جاتی۔

    ’’بیٹے، ایسے انکار نہیں کرتے۔ غریب لوگ ہیں، جاہل ہیں۔ آخر کہاں جائیں گے۔ اللہ نے تمھیں علم دیا ہے۔ تبھی تو تمھارے پاس لوگ آتے ہیں‘‘۔

    اب انھیں کون جواب دیتا کہ اللہ میاں نے مجھے اس لیے تھوڑا ہی علم دیا ہے کہ ان بکواس قسم کے خطوط میں جن کا مضمون ایک ہی سا رہتا تھا اور جواب بھی ایک ہی سا ہوتا ہے سر کھپاتا پھروں۔ مگر اماں کے حکم سے سرتابی بھی ممکن نہیں تھی۔ اور یہ زلیخا تو ہر دس دنوں بعد ہاتھ میں خط لیے موجود ہوتی اور پھر ایک سادہ پوسٹ کارڈ آگے بڑھاتے ہوئے لجاجت سے کہتی۔ ’’جرا جواب لکھ دیجیے بابو‘‘۔

    دراصل اس محلے میں زیادہ تر جاہل اور غریب لوگ ہی رہتے تھے۔ حویلی کے پیچھے ایک پتلی سی گلی تھی، جس کے دونوں کناروں پر مٹی کے کھپریل پوش مکانوں کا ایک سلسلہ تھا۔ گلی اتنی پتلی تھی کہ دو رویہ مکانوں کے چھپروں کی اولتیاں گلے ملتی تھیں اور گلی میں دھوپ تک نہیں آتی تھی۔ گلی کے بیچوں بیچ ایک نالی بنی ہوئی تھی جو گہری بھی ہوگی، مگر غلاظت سے بھر کر اب پانی اس سے اوپر گلی میں بہتا تھا اور مرغیاں اس میں پھدک پھدک کر نقش و نگار بناتی رہتی تھیں۔ یہ نالیاں بچوں کے لیے ٹائیلٹ اور بڑوں کے لیے پیشاب خانے کا بھی کام کرتی تھیں۔

    حویلی کے ٹھیک پیچھے گلی کے سرے پر، صاحب جان میاں کے مکان کے سامنے میونسپلٹی کا نل تھا۔ جس میں صبح اور شام کو کچھ دیر کے لیے پانی آتا تھا۔ یہ نل محلے والوں کو پانی کتنا دیتا تھا، یہ کہنا تو مشکل تھا، مگر محلے کی رونق اسی نل کے دم سے تھی۔ یہ ممکن نہ تھا کہ عورتوں میں لڑائی نہ ہو۔ ایسا لگتا تھا کہ یہ نل لگایا ہی اس لیے گیا تھا کہ لڑائی جھگڑا ہو سکے۔ اور یہ نہ ہوتا تو واقعی سناٹا ان بوسیدہ مکانوں کو پی جاتا .... اکثر تو گلی میں ایسی مہابھارت ہوتی اور گالیوں کے ایسے مبالغہ آمیز فوارے چھوٹتے، کوسنوں کی ایسی دھاردار بارش ہوتی کہ نوبت ہاتھا پائی پر آ جاتی اور عورتوں کا یہ مقابلہ قابل دید اور قابل عبرت بھی ہوتا۔ مگر یہ لڑائیاں قطعاً عارضی ہوتی تھیں۔ صبح کو گھمسان کی لڑائی ہوتی اور شام کو وہی عورتیں ایک ساتھ بیٹھی خوش گپی میں مشغول ہوتیں۔ یہ لڑائیاں زیادہ تر عورتوں ہی میں ہوتی تھیں۔ اس لیے کہ اکثر مرد تو کلکتہ، جھریا یا دوسرے شہروں میں کام کرتے تھے اور جو یہاں تھے بھی، وہ عموماً لڑائی کے اوقات میں گھر سے باہر ہوتے تھے۔ کام کر کے لوٹنے پر وہ اکثر اپنی بیویوں کی زبانی لڑائی کی داستان ہی سنتے تھے۔ یہ داستان اقوامِ متحدہ کی رپورٹ کی طرح عموماً جانبداری سے بھرپور ہوتی۔ مرد اس قدر عادی ہو چکے تھے کہ محاورۃً ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے اڑا دیتے اور اگر کوئی بیوی کچھ زیادہ دیر تک اس کے کان کھاتی یا مشتعل کرنے کی کوشش کرتی تو ’’چپ رہ سسری، حرام جادی، دماگ کھراب کر رہی ہے۔ ہم تھکے تھکائے آئے ہیں، ایہی سب سننے کو‘‘کے بعد خاموشی ہو جاتی۔

    درزی، راج مستری اور بیڑی بنانے والوں کا یہ محلہ اپنے آپ میں ایک مکمل خاندان تھا جس کے بیشتر مرد کلکتہ میں کام کرتے رہتے تھے اور عورتیں بچے مٹی کی کوٹھریوں میں رہتے تھے۔ عید اور محرم کے موقعوں پر جب یہ لوگ گھر آتے تو گلیوں میں جیسے بہار آ جاتی۔ نئے نئے کپڑے، پلاسٹک کی چپلیں اور بالوں میں تیل چپوڑے، رنگ برنگ کے رِبن لگائے لڑکیاں اور رنگ برنگ کے چارخانے کی لنگیاں پہنے مرد ہر دروازے پر نظر آتے۔ ان مردوں کو عرفِ عام میں کلکتیا کہا جاتا تھا۔ ان کی زبان بھی عام لوگوں سے مختلف ہو گئی تھی۔ بنگلہ، مگہی اور کھڑی بولی کے امتزاج نے ایک شہری زبان کو جنم دے دیا تھا، جس کا کوئی نام تو نہ تھا مگر تھی بے حد دلچسپ یہ زبان۔ اکثر برآمدے میں ہم کھڑے ہوتے تو سامنے سے جاتا ہوا کوئی کلکتیا رک جاتا۔

    ’’سلام بابو‘‘ .....سب کھیریت ہے نا‘‘۔

    ’’ہاں،سب خیریت ہے‘‘۔ ’’کب آئے کلکتہ سے‘‘۔ میں پوچھتا۔

    ’’میں کل آئے بابو۔ بچوا بیمار ہے، ڈاگدر کے یہاں جاتاہوں۔ یہاں سب بیکار مافک ہے۔ کھالی پیسہ لیتا ہے۔ دوائی ایک دم کھراب دیتا ہے۔ کلکتہ میں تو بہت بڑا ڈاگدر لوگ ہے بابو۔ اپنا ملوک بہت کھراب ہو گیا‘‘۔

    کلکتہ میں کام کرنے والے لوگ اپنے شہر کو ’’ملوک‘‘ یعنی ملک بولتے تھے اور بات بات پر کلکتہ کی بڑائی کرنے سے باز نہیں آتے تھے بلکہ ان پڑوسیوں کو بھی حقیر سمجھتے تھے جو کلکتہ سے محروم تھے۔ ویسے یہ اور بات تھی کہ چھٹی ختم ہونے پر جب واپسی کا کرایہ نہیں ہوتا تو یہ اپنے پڑوسیوں کو کلکتہ سے لائی ہوئی چیزیں آدھے داموں پر بیچ کر جاتے تھے بلکہ اکثر محلے والے تو اسی انتظار میں رہتے تھے کہ کلکتیا آئے تو آدھے داموں پر چھاتا، لنگی اور جوتے خریدے جائیں۔

    مجھے ان کلکتیا لوگوں سے بے حد دلچسپی تھی، مگر ان کے خطوط پڑھنے اور جواب لکھنے سے مجھے ابکائی سی آنے لگی تھی۔ ایسا لگتا تھا کہ سارے خطوط کلکتہ کا ایک ہی منشی لکھتا تھا۔ اس لیے کہ سب کا مضمون بالکل ایک سا ہوتا۔ صرف نام بدل جاتے تھے۔ خاص کر ’’لکھنے والے کی طرف سے پڑھنے والے کو سلام‘‘ پڑھ کر پہلے تو مجھے ہنسی آتی تھی، مگر اب غصہ بھی آنے لگا تھا۔ لکھنے والا منشی خوب جانتا تھا کہ جسے خط لکھا جا رہا ہے وہ پڑھ نہیں سکتا، اس لیے وہ ہمیں بھی ا پنا ہم پیشہ سمجھ کر ہمیشہ سلام لکھتا تھا اور غیرارادی طور پر میں بھی جواب میں سلام لکھ دیتا تھا۔ اس طرح اس منشی سے جسے میں نے کبھی دیکھا بھی نہیں تھا، ایک عجیب سا رشتہ قائم ہو گیا تھا ....یہ رشتے بھی کتنے عجیب ہوتے ہیں۔

    مجھے فٹ بال کھیلنے کو جانے کی جلدی تھی اور اس زلیخا کی بچی کو خط پڑھوانے اورجواب لکھنے کی پڑی تھی۔ میں انکار کر کے جا ہی رہا تھا کہ پھر اس نے گڑگڑا کر کہا۔

    ’’بہت دعا دیں گے بابو۔ جیتے رہیے۔ بڑا افسر بنئے۔ جرا سا جواب لکھ دو بابو‘‘۔

    ’’چھوٹے! کیا بات ہے۔ زلیخوا اتنا گڑگڑا رہی ہے۔ کیوں نہیں لکھ دیتے۔ آخر کہاں جائے گی وہ خط لکھوانے‘‘؟ اماں کی آواز گونجی۔

    ’’اماں مجھے دیر ہو رہی ہے‘‘۔ ’’پانچ منٹ کا کام ہے۔ خط لکھ دو‘‘۔ اماں نے فیصلہ سنا دیا۔

    ’’لاؤ۔ بتاؤ کیا لکھنا ہے۔ مگر ایک شرط ہے۔ میں پھر سناؤں گا نہیں‘‘۔

    زلیخانے میری شرط کو نظر انداز کرتے ہوئے پوسٹ کارڈ آگے بڑھا دیا۔

    ’’بولو بھی کیا لکھنا ہے‘‘۔ میں نے جھنجھلائے ہوئے لہجے میں کہا اور زلیخا بڑی یکسوئی سے بولنے لگی جیسے خط نہ لکھوا رہی ہو بلکہ کلوٹ میاں سے باتیں کر رہی ہو۔

    سمسو کے ابا کو معلوم ہو کہ کھت مل گیا تم اپنا کھانسی ڈاگدر کو دکھا کر دوا کھاؤ۔ ای ٹھیک بات نہیں ہے۔ کھانسی بکھار پرانا ہو جاتا ہے۔ تم کو معلوم ہے کہ جو چالیس روپیہ بھیجے تھے او سب کھرچ ہو گیا دوا دارو میں۔ باڑی والا کا کرایہ دینا ہے۔ مُنیا اور چھٹکی دونوں بیمار ہے۔ ہمرا بھی جی ٹھیک نہیں ہے۔ سر میں، کمر میں درد رہتا ہے۔ کھانسی ہے۔ تلوا جلتا ہے۔ کھانے کو جی نہیں چاہتا...‘‘

    میرے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا۔ میں برس پڑا ....’’تم خط لکھوا رہی ہو یا ڈاکٹر کو حالت بتا رہی ہو۔ جلد بولو، کیا لکھنا ہے ....؟

    ’’لکھ دو بابو کہ جلدی سے روپیہ بھیجو، نہیں تو ہم بھوکے مر جائیں گے۔ کھت کو تار سمجھو۔ چھوٹی کی طرف سے ابا کو سلام۔ رشید کی طرف سے ابا کو سلام۔ منیا کی طرف سے ابا کو سلام اور ...

    ’’اور اب کچھ نہیں ہے۔ جگہ نہیں ہے۔ پورا شجرہ لکھنے کی ضرورت نہیں‘‘۔ یہ کہتے ہوئے میں نے فقط والسلام۔سمسو کی ماں زلیخا‘‘... لکھ کر خط مکمل کر دیا اور پوسٹ کارڈ اس کی طرف پھینک کر قبل اس کے کہ وہ خط سنانے کی فرمائش کرتی، بھاگ کھڑا ہوا۔

    خط لکھنا اور خط پڑھنا، ایک معمول سا ہو گیا تھا۔ زلیخا، زبیدہ، جنوا بوا، ہامو بوا اور نہ جانے کتنی بوائیں۔ ہر دوسرے تیسرے دن میرے پیچھے پڑی رہتیں۔ بھیا وغیرہ بڑے ہوگئے تھے اس لیے گھاس نہیں ڈالتے تھے اور میں چھوٹے ہونے کی سزا بھگت رہا تھا۔ حالانکہ خط لکھوانے سے پہلے اور بعد میں وہ اس قدر مبالغہ آمیز دعائیں دیتی تھیں کہ اگر اللہ میاں اس کا دو فی صد بھی قبول کر لیتے تو میرے کئی جنم سپھل ہو جاتے .....

    کئی سال بیت چکے تھے اور اسکول کی تعلیم مکمل کر کے میں دوسرے شہر میں کالج میں چلا گیا تھا۔ اور ہوسٹل میں رہتا تھا ....ہوسٹل کی زندگی میں اکثر گھر کی یاد آتی تو اماں کے ساتھ ساتھ خط لکھوانے والیوں، نل پر لڑائیوں اور کلکتیا لوگوں کی تصویریں نگاہوں میں گھوم جاتی تھیں۔ گرمی کی چھٹیوں میں گھر آیا تو اندر داخل ہوتے ہی میں نے دیکھا کہ آنگن میں بیٹھی زلیخا سِل پر مسالہ پیس رہی تھی۔ وہ کافی بوڑھی نظر آ رہی تھی اور خاموش بھی۔

    اماں کو سلام کر کے میں نے زلیخا کو بھی ’’سلام بوا‘‘ کہا اور ہنس کر پوچھ بیٹھا۔

    ’’بوا خط نہیں لکھوانا ہے‘‘؟ میرے اتنا کہنے پر اس کا چہرہ دھواں دھواں ہو گیا۔ اور اس کی آنکھوں میں بے پناہ درد امنڈ آیا۔ اس کی آواز جیسے اندھے کنویں سے آرہی تھی۔

    ’’اب کس کو کھت لکھوائیں گے بابو ....‘‘میں نے حیرت سے اماں کی طرف دیکھا اور وہ بول اٹھیں۔

    ’’کلوٹ بے چارا مر گیا۔ بیڑی گودام میں کام کرتا تھا۔ ٹی بی ہو گئی تھی۔ کلکتہ ہی میں مر گیا۔ بس ایک پوسٹ کارڈ آیا تھا گودام کے مالک کا ... بے چاری زلیخا.... پانچ پانچ بچے ہیں۔ سب چھوٹے ہیں۔ بس ایک لڑکا ہے بارہ سال کا جو بیڑی بناتا ہے۔ دو تین روپے کما لیتا ہے اسی لیے زلیخا کو ہم نے رکھ لیا ہے۔ یہاں کام کرتی ہے‘‘۔

    اماں نے ایک ہی سانس میں سب کچھ کہہ دیا اور مجھے کلوٹ کے وہ خطوط یاد آ گئے جن میں ہمیشہ ہی کھانسی اور بخار کا ذکر ہوتا تھا ....بےچارہ کلوٹ نہیں بلکہ بےچاری زلیخا ! مرنے والے تو عذاب سے نجات پا جاتے ہیں اور زندہ رہنے والوں کو زندگی کا عذاب جھیلنا پڑتا ہے۔

    وقت گزرتا گیا اور کالج کی تعلیم مکمل کر کے میں ملازمت کے سلسلے میں گھر سے کافی دور چلا گیا تھا۔ اکثر گھر آتا بھی تو صرف دوچار دنوں کے لیے۔ دھیرے دھیرے محلے اور اس کے لوگوں کی تصویریں مدّھم ہو گئی تھیں .....کافی عرصے بعد جب میں اماں کی علالت کی خبر سن کر اچانک گھر پہنچا تو اماں بستر پر پڑی تھیں اور سرہانے بیٹھی ہوئی ایک عورت اُن کے سر میں تیل لگا رہی تھی۔ میں نے اماں کو سلام کیا تو وہ گھبرا سی گئی اور اس نے جلدی سے اپنا آنچل درست کیا۔ پائنتی بیٹھ کر میں نے اماں کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا۔ وہ بول پڑیں۔

    ’’ارے، اسے تم نہیں پہچانتے۔ یہ زلیخوا کی بہو ہے جُبّی۔ رشید کی بیوی‘‘۔

    زلیخا کی شبیہ میری نگاہوں میں گھوم گئی‘‘۔ زلیخا بوا کہاں ہے‘‘؟ میں نے پوچھا۔

    ’’وہ بےچاری تو کب کی مر گئی ....ٹی بی ہو گئی تھی۔ غریب کو۔ رشید کی شادی کی ہی تھی کہ چل بسی۔ یہ رشید کی بیوی ہے جُبّی۔ رشید کلکتہ میں ہے۔ بیڑی گودام میں کام کرتا ہے‘‘۔ اماں نے پورا قصہ سنا دیا۔

    دراصل محلے کے تمام لوگوں کے دکھ سکھ کے حالات انھیں معلوم تھے۔ میں نے پھر جبّی کی طرف دیکھا۔ اس کی عمر سترہ اٹھارہ سال سے زیادہ نہیں رہی ہوگی۔ مگر وہ مکمل عورت بن چکی تھی.... اس کی جوانی جیسے ڈھل چکی تھی۔ آنکھوں کے گرد حلقے پڑ گئے تھے اور چہرہ بیمار نظر آتا تھا۔ اماں نے مجھے بڑے غور سے جُبّی کی طرف دیکھتے ہوئے دیکھا تو کہہ اٹھیں۔

    ’’تم اسے نہیں پہچانتے۔ ارے یہ کلوٹ کی بہن بلقنی کی بیٹی ہے۔ بچپن میں یہاں کام بھی کرتی تھی۔ اور اچانک مجھے پھٹی فراک اور اونچا پاجامہ پہنے وہ گندی سی لڑکی یاد آ گئی، جو اکثر گھر میں جھاڑو دیتی یا مرغیوں کا ڈربہ صاف کرتی دکھائی دیتی تھی۔

    ’’ارے یہ وہ جبّی ہے۔ اتنی بڑی ہو گئی۔ اس کی شادی بھی ہو گئی۔ میں نے حیرت سے پوچھا اور جبّی نے ہنستے ہوئے شرما کر آنچل میں منہ چھپا لیا۔

    ’’لو سنو، اس کے دو بچے ہیں ماشاء اللہ‘‘۔ اماں نے ہنستے ہوئے کہا اور پھر تاسف کے ساتھ بولیں۔

    ’’ان کم بختوں کے یہاں ایسا ہی ہوتا ہے۔ بارہ سال میں شادی کر دیتے ہیں اور اٹھارہ سال ہوتے ہوتے پانچ چھہ بچے اور بس... بچپن سے سیدھے بڑھاپے میں چھلانگ لگا دیتی ہیں اور مٹی کی طرح ڈھے جاتی ہیں۔ کم بختی کی ماری...‘‘۔

    اماں کے لہجے میں جھنجھلاہٹ تھی مگر بے پناہ اپنائیت اور درد بھی تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ ان کا بس چلتا تو وہ جبّی کا بچپن واپس لوٹا دیتیں۔ نہیں تو کم از کم اس کو جوانی ضرور عطا کر دیتیں۔ کم بختی کی ماری۔ اماں کا مخصوص جملہ تھا جو وہ اپنی زلیخاؤں کے لیے اور جبّیوں کے لیے استعمال کرتی تھیں۔ اس کم بختی کی ماری کی بلاغت کا اندازہ وہی لگا سکتا ہے جس نے ان کم بختی کی ماریوں کو دیکھا ہے ... اماں کا سارا خلوص، ان کی ساری اپنائیت ان لفظوں میں نہاں تھی۔ وہ کچھ اس انداز سے کم بختی کی ماری کہتی تھیں جیسے پیار سے دعائیں دے رہی ہوں۔

    دو تین دنوں کے اندر ہی جبّی کی جھجھک ختم ہو گئی اور مجھے معلوم ہو گیا کہ اس کا شوہر رشید جو زلیخا بوا کا بیٹا تھا کلکتہ میں بیڑی گودام میں کام کرتا ہے اور گودام کے مالک نے کلوٹ میاں کی جگہ رشید کو ملازم رکھ لیا تھا۔

    اماں کے ساتھ بیٹھا میں اِدھر اُدھر کی باتوں میں مشغول تھا کہ سامنے سے جبّی آتی نظر آئی۔ اس کے ہاتھ میں پوسٹ کارڈ دیکھ کر میں سمجھ گیا کہ رشید کا خط آیا ہے جسے وہ پڑھوانا چاہتی ہے۔ مگر اس کی ہمت نہیں تھی کہ مجھ سے کچھ کہہ سکے۔ مجھے بےحد ترس آیا۔

    ’’رشید کا خط ہے؟ لاؤ پڑھ دیں‘‘۔ میں نے ہنستے ہوئے کہا اور اس نے شرماتے ہوئے کارڈ میری طرف بڑھا دیا۔

    میں نے خط کو غور سے دیکھا۔ وہی پوسٹ کارڈ تھا اور وہی تحریر جو کلوٹ میاں کا منشی لکھتا تھا۔ مضمون بھی تقریباً وہی ... میں نے زور سے پڑھنا شروع کر دیا۔

    ’’حسینہ کی ماں کو معلوم ہو کہ ہم کھیریت سے ہیں اور تم سب کا کھیریت چاہتا ہوں۔ حسینہ اور مبینہ کو ابا کی طرف سے دعا۔ حسینہ کی ماں کو معلوم ہو کہ اسلام کے بیٹا احمد کے ہاتھ ساٹھ روپیہ بھیج دیے ہیں۔ باڑی والا کو کرایہ دے دو۔ حسینہ کو ڈاگدر کو دکھاؤ۔ بیماری کا حال سن کر پریشانی ہے۔ انتجام کر کے روپیہ بھیج دیں گے۔ ہمرا بکھار اتر گیا ہے۔ مگر کھانسی جاستی (زیادہ) ہے۔ مبینہ بیٹی کو ابا کی طرف سے پیار اور باڑی والا کو سلام کہہ دو۔ کم لکھنے کو جادہ (زیادہ) سمجھو اور کھت کا جواب ترت دو۔

    سلام دعا کے ساتھ

    خورشید میاں کلکتہ والے

    لکھنے والے کے طرف سے پڑھنے والے کو سلام

    خط پڑھ کر مجھے ہنسی نہیں آئی۔ خط لکھنے والے کا نام بدل گیا تھا۔ مگر مضمون وہی تھا۔ فرق صرف اتنا تھا کہ کلوٹ میاں کے چالیس روپے کی جگہ رشید میاں کے ساٹھ روپیوں نے لے لی تھی۔ دو نسلوں کے درمیان فرق صرف اتنا ہی تھا۔ صرف بیس روپیوں کا... بقیہ دُکھ، کھانسی، بخار سب وہی تھے۔

    میں نے جبّی کی طرف دیکھا۔ اداسی اس کی شخصیت کا جزو بن چکی تھی۔ ایسا لگتا تھا جیسے کلی کھلنے سے پہلے جھلس گئی ہو ... میں نے غیر ارادی طور پر ہاتھ بڑھا دیا۔

    ’’لاؤ جواب لکھ دوں‘‘۔ جبّی کو شاید اس ہمدردی کی امید نہیں تھی۔ خوشی سے اس کا چہرہ کھل اٹھا اور جلدی سے اس نے آنچل میں چھپایا ہوا کارڈ آگے بڑھا دیا۔

    ’’بولو کیا لکھنا ہے... ‘‘؟میں نے پوچھا۔ اس نے شرما کر آنچل میں منہ چھپا لیا۔ اماں ہنسنے لگیں۔

    ’’ارے پگلی بول نا۔ شرمانے کی کیا بات ہے۔ یہ کوئی غیر تھوڑے ہی ہے اور اماں کی شہ پا کر نگاہیں نیچی کیے جبّی ایک مشین کی طرح بولنے لگی۔

    ’’حسینہ کے ابا کو سلام کے بعد معلوم ہو کہ کھت ملا۔ تم اپنا کھانسی ڈاگدر کو دکھاؤ۔ کھانسی بکھار پرانا ہو جاتا ہے۔ دِکّت (دقّت) ہوگا۔ معلوم کہ جو روپیہ تم بھیجے تھے، او سب کھرچ ہو گیا۔ باڑی والا کا کرایہ دینا ہے....حسینہ اور مبینہ کو ڈاگدر کو دکھانا ہے۔جلدی کھرچہ بھیج دو۔ ہمرا بھی جی ٹھیک نہیں رہتا ہے۔ کھانسی ہے۔ تلوا جلتا ہے۔ سر میں کمر میں درد رہتا ہے۔ کھانے کو جی نہیں چاہتا...

    مجھے ایسا محسوس ہوا کہ جبّی کی بجائے زلیخا بوا سامنے بیٹھی کلوٹ میاں کو خط لکھوا رہی تھی... میں نے جبّی کی طرف دیکھا تو اس کی شکل زلیخا سے مل رہی تھی اور وہ مزید بوڑھی بھی ہو چکی تھی... اس کو گھبراتے دیکھ کر میں نے پوچھا۔

    ’’بتاؤ اور کیا لکھنا ہے ....‘‘؟

    ’’حسینہ کے ابا کو معلوم کہ کھت کو تار سمجھو اور جلدی روپیہ بھیج دو۔ نہیں تو ہم سب بھوکے مر جائیں گے... اور حسینہ کی طرف سے ابا کو سلام۔ مبینہ کی طرف سے ابا کو سلام اور ... ‘‘

    میں نے خط مکمل کر دیا۔

    فقط والسلام

    غیر ارادی طور پر میں نے ’’لکھنے والے کی طرف سے پڑھنے کو سلام‘‘۔ زلیخا لکھ کر پوسٹ کارڈ جبّی کی طرف بڑھا دیا ....پوسٹ کارڈ دیتے ہوئے اچانک مجھے اپنی غلطی کا احساس ہوا۔ میں نے خط کے اخیر میں جبّی کی جگہ ’’زلیخا‘‘ لکھ دیا تھا ....کارڈ واپس لیتے ہوئے میں نے اسے درست کر دینا چاہا، مگر میں زلیخا کا نام نہیں کاٹ سکا ....میں نے زلیخا کے اوپر جبّی کا نام لکھ کر اسے جبّی بنت زلیخا لکھ دیا تھا... میں نے جس کے ہاتھوں میں پوسٹ کارڈ دیا، وہ تو زلیخا بوا ہی تھی ....

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے