Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

چابی

MORE BYراجندر سوزان

    یہ سن کر وہ بہت خوش ہوا۔ ایک زمانے بعد یہ موقع ملا تھا۔ چابی کے بغیر تالا کھول لینا اپنے آپ میں ایک فن ہے۔ ایک دلچسپ مشغلہ بھی۔ ہوسٹل کے زمانے میں اس نے ایک دوست کا تالا اسی طرح کھولا تھا۔ لیکن ایسا بار بار ہوتا کہاں ہے کہ تالا بند ہو اور چابی گم ہو جائے۔

    ’’تم نے اسے گم کیسے کیا؟‘‘ اس نے ہنس کر پوچھا۔

    ’’گم نہیں کیا۔ بس بھول گئی۔ چابی بکس میں اندر رکھی تھی۔ باہر سے تالا بند کر دیا۔‘‘

    آفس سے آ کر وہ منھ اور پیر دھویا کرتا تھا۔ لیکن آج بکس سنبھال لیا۔

    ’’لیمپ لے کے آؤ۔‘‘

    وہ لیمپ لے آئی۔

    اس نے غور سے بکس کا معائنہ کیا اور کنڈے کا بھی جس سے تالا لٹک رہا تھا۔ یوں تو وہ اسے روز ہی دیکھتا تھا لیکن آج باریکی سے دیکھنے کی ضرورت تھی۔ تالے کی بناوٹ، چابی کا سوراخ، اس کا پورا سسٹم اور سارا کچھ۔

    تالا دراصل اس طرح کا تھا جسے آپ زور سے دبائیں تو وہ بند ہو جاتا ہے۔ سفید رنگ کا بڑا مضبوط تالا تھا۔ اس طرح کے کئی تالے اس نے کھولے تھے۔ اس میں ایک چھوٹی سی کیل ڈالیں، اسے داہنے ہاتھ کی طرف قدرے ترچھا کریں اور ہلکے ہاتھ سے گھمائیں۔ بس یوں سمجھیں کہ کام ہو گیا۔ کلک کی آواز کے ساتھ تالا کھل جائےگا۔ نہایت چابک دستی سے کیا جانے والا یہ دلچسپ کام اس کا منتظر تھا۔

    ’’ایک چھوٹی سی کیل لے آؤ۔‘‘

    ’’چھوٹی سی!‘‘ وہ قدرے جھجکتی ہوئی، آہستہ خرامی کے ساتھ آگے بڑھی۔

    ’’ہاں کوئی ایسی چیز جو اس سوراخ میں سما سکے۔‘‘اس نے کہا اور خود بھی تلاش میں جٹ گیا۔

    بیوی نے بیڈروم کی روشنی کی مدد سے تلاش جاری رکھی جب کہ اس نے لالٹین کا استعمال کیا۔ ایک پرانا لکڑی کا بکس، انگڑکھنگڑ، لوہے کی پرانی چھڑیں، کچھ اور کباڑ، ٹین کا بکس ۔۔۔ اس نے سب کچھ کھنگال کے رکھ دیا لیکن ایک چھوٹی سی کیل نہ ملنا تھی، نہیں ملی۔ شاید دیوار پر کسی کیل سے کچھ ٹنگا ہوا ہو۔

    اس نے دیواروں کا معائنہ کیا۔ کوٹ کے لیے کھونٹی، کپڑے کا جھولا، شیلف، اناج پھٹکنے کا سوپ، تار جس میں پرو کر خط لٹکے رہتے تھے۔ لالٹین ٹانگنے کی جگہ۔۔۔ ساری کی ساری کیلیں بہت بڑی تھیں۔ دراصل وہ میخیں تھیں۔ کچھ جھنجھلاکر اس نے وہ سب جگہیں دوبارہ دیکھنی شروع کیں جہاں وہ پہلے ہی کیل تلاش کر چکا تھا۔ چھی!اس گھر میں ایک چھوٹی سی کیل بھی نہیں ہے۔

    بیوی ہاتھ میں ٹین کی ایک ننھی سی کتر لے کر آئی، ’’اسے دیکھئے۔‘‘

    اس نے اسے دیکھا پھر بیوی پر نظر دوڑائی، ’’یہ سمائے گی اس میں؟ تمہاری کھوپڑی میں ذرا بھی عقل ہے کہ نہیں؟ چھوٹے بڑے کا کچھ اندازہ ہی نہیں ہے۔‘‘

    وہ کبیدہ خاطر ہوکر الگ ہٹ گئی۔

    اس نے بار بار ادھر ادھر نظریں دوڑائیں۔ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کیا کیا جائے۔ وہ گہری سوچ میں ڈوب گیا۔ بس ایک کیل مل جاتی۔ ایک بار پھر اس نے سبھی کیلوں کی جانچ کی۔ کوئی بھی ایسی کیل نہیں تھی جو اس تالے میں فٹ ہوسکتی۔ اس نے سوچا کہ یہ کام اب کل صبح کے لیے اٹھا رکھا جائے۔ پھر خیال آیا کہ یہ ایسا بڑا کام تو ہے نہیں کہ دوسرے دن کا انتظار کیا جائے۔ ابھی کیوں نہ ختم کر لوں۔

    اس نے پھر اس کاٹھ کباڑ کو ٹٹولا جس میں لوہے کی چیزیں تھیں۔ اگر کوئی چھوٹی کیل نہیں ملی تو کوئی تار کا ٹکڑا بھی کام آ سکتا ہے۔ زنگ لگے ہوئے ٹین کے ٹکڑے، بیکار اسٹوو، سائیکل کے بیکار تالے اور کنڈیاں، بڑی بڑی سی کیلیں، بےڈھنگے پن سے ایک دوسرے پر ڈھیر تھے۔ جھنجھلاتے ہوئے اس نے ان سب کو کریدا۔ دوسری طرف وہ بھی کچھ چیزوں کو الٹ پلٹ کرنے میں مشغول تھی۔

    ’’کیا نہیں ملا کچھ؟ ابھی ڈھونڈ ہی رہی ہو کیا؟‘‘

    ’’دیکھو۔ یہ فٹ ہوگی کیا؟‘‘وہ پرانے چھاتے کی ایک تیلی دکھاتے ہوئے کہہ رہی تھی۔ اس نے اسے لیا اور اٹھا کر دور پھینکا۔

    ’’کچھ عقل ہے کہ نہیں۔ یہ کہیں سے اس تالے میں فٹ ہوتی نظر آ رہی ہے؟ اگر تالا گودریج کا ہوتا تو اسے کیلنڈر کی چھڑ سے کھولا جا سکتا تھا۔ یہ بے ہودہ تو ٹائیگر تالا ہے۔۔۔ ایک چھوٹی کیل۔۔۔‘‘

    اس نے لکڑی کا بکس کھولا اور ساری چیزیں الٹ پلٹ کر دیکھیں۔ ’’آخر تم نے ساری چیزیں یوں بے ترتیب طریقے سے ڈھیر کیوں کر رکھی ہیں۔ کتنی بار کہا ہے۔ تم سب کو سلیقے سے نہیں رکھ سکتیں؟ چھی! یہ کوئی بکسا ہے۔ سارا کاٹھ کباڑیوں خلط ملط۔۔۔ پھوہڑپن کا نمونہ۔‘‘

    خوش قسمتی سے ایک پتلی سی سَلائی دکھائی دی جو بکس کے بالکل کنارے گھسی ہوئی تھی۔ شاید سائیکل کے پہئے کی تھی۔ اس نے اطمینان کی سانس لے کر اسے اٹھایا۔ پھر چاروں طرف سے گھماگھماکر روشنی میں دیکھا۔ اس کے دونوں سرے ایک جیسے تھے۔ اگر ایک طرف سے اسے چپٹاکر دیا جائے تو شاید کام بنے۔

    اس نے بیوی کو پکارا۔ آواز میں جوش تھا۔ ذرا لالٹین پکڑو اور اسے ادھر لاؤ۔ پھر اس نے لکڑی کے بکس سے چھوٹی سی ہتھوڑی نکالی، ’’اسے اس طرح نیچے کرو تو۔‘‘

    اس نے فرش کے سیاہ پتھر پر تیلی کو رکھا اور ہتھوڑی کی ضرب سے چپٹا کیا۔ ایک دوبار اسے اٹھا اٹھاکر دیکھا اور پھر ضرب لگائی۔ پھر تبھی اٹھا جب اسے پوری تسلی ہو گئی۔

    ’’اب اسے یہاں لے آؤ۔‘‘

    بیوی لالٹین لیے ہوئے قریب آئی۔ پھر وہ یوں اکڑوں ہو بیٹھی کہ روشنی پوری طرح اس تالے پر پڑتی رہے جس نے سارا مسئلہ کھڑا کر رکھا تھا۔ اب شوہر نے تالا کھولنے کی کوشش شروع کی۔

    بڑی ہوشیاری سے اس نے سلائی کو اندر ڈالا۔ پھر قدرے داہنی طرف کو لاکر دھیرے سے اوپر کی سمت سرکایا۔ بڑی ہنرمندی سے اسے گھمانا شروع کیا۔ اس طرف اس طرف، اس طرف سے اس طرف لیکن تالا ٹس سے مس نہیں ہوا۔ ’’ارے اور اوپر کرو۔ اب یہ بھی سکھانا پڑےگا کہ لالٹین کیسے پکڑی جائے۔‘‘

    بڑے صبر اور ہوشیاری کے ساتھ اس نے تالا کھولنے کی کوشش جاری رکھی۔ یہ بھی یاد کرتا رہاکہ پہلے جو تالے کھولے تھے ان کے لیے کیا گر استعمال کیا تھا۔ وہ رکا، تالے کو غور سے دیکھا۔ ایک بار پھر سلائی کو اندر ڈالا اور اوپر کی طرف گھمایا۔

    ’’چھی۔ لالٹین کو پکڑنے کا یہ طریقہ نہیں ہے۔ ایک طرف کو رکھنے کی بجائے کبھی ادھر کر رہی ہو، کبھی ادھر۔‘‘ اس نے اپنی کوشش جاری رکھی۔ پھر رکا، دوسری طرف گھوما اور اس کو گھور کر دیکھا۔

    ’’تمہاری سمجھ میں نہیں آتاکہ میں کس طرف گھوم رہا ہوں اور تمہیں کس طرف روشنی ڈالنی ہے؟ تم بچی ہو کیا؟‘‘ اس نے پوچھا۔

    اس نے دوبارہ کوشش کی اور پھر اس کی طرف دیکھا۔

    ’’تم مت اٹھاؤ لالٹین۔ یہاں چھوڑ دو اور جاؤ۔‘‘اس نے چلاکر کہا۔ صبر کا دامن ہاتھ سے چھوٹ رہا تھا۔ اب اس نےالل ٹپ ہاتھ مارنے شروع کیے۔ کبھی ادھر کبھی ادھر سلائی گھماتا رہا۔ تالا کھڑکھڑایا لیکن کھلنے سے صاف انکار کر دیا۔

    کیا غضب کا بھولنا ہے۔ کیا کہا جائے۔ کیا تمہیں تالا بند کرنے سے پہلے کچھ سوچنا نہیں چاہیے۔۔۔ چابی کہاں ہے وغیرہ۔ چہرے پر تیوریاں لے کر وہ نہایت غصے کے عالم میں تالے کے ساتھ جدوجہد کرتا رہا۔

    ’’چھی۔ سارے دن گھر سے باہر رہ کر، ادھر ادھر کی بھاگ دوڑ کے بعد جب گھر آؤ تو ذرا سا چین ملنا چاہیے۔ کاہے کو ملےگا۔ یہاں تو جیسے ہی گھر میں داخل ہو کبھی کوئی مسئلہ کبھی کوئی۔ تمہیں بھی کچھ ذمہ داری لینی چاہیے۔ نہیں؟ تم تو ہرچند گھنٹے بعد اطمینان سے کھانا ٹھونستی ہو اور پھر کوئی قصے کہانی کی کتاب لے کر پڑ جاتی ہو۔ یہ نہیں تو پھر کوئی سکھی سہیلی گپ مارنے کو آ جاتی ہے۔‘‘ وہ چٹخا۔ اس نے تالے کو بےہنگم طریقے سے جھٹکا۔ اسے یوں جھٹکے دیے کہ تیلی کی موجودگی کی وجہ سے کھڑکھڑاہٹ پیدا ہوئی۔ پتہ نہیں کب یہ خریدا گیا تھا۔ کتنے سال پہلے ذرا سا تیل ٹپکانے کی ضرورت تھی لیکن نہیں۔ اس کے لیے کوئی وقت تھوڑے ہی ملتا ہوگا۔ خوب اچھی طرح زنگ لگا ہے، اسی لیے نہیں کھل رہا۔

    اس نے لوہے کی تیلی کو اٹھا کر پھینک دیا اور تالے کو یوں نفرت بھری نگاہوں سے گھورا جیسے ابھی اس کو کوٹ کر رکھ دےگا۔ لالٹین اس کے قریب رکھی رہی۔ ’’اچھا تو تم غائب ہو گئیں۔ بس میرے کہنے کی دیر تھی۔ جیسے بھاگنے کا انتظار ہی تو کر رہی تھیں کہ ادھر اشارہ ملا، ادھر بھاگیں۔ جاؤ وہ ناریل کے تیل کی شیشی لے کر آؤ۔‘‘

    ’’تیل ہے کہاں۔ آج ہی تو تم نے سارا کا سارا بچا ہوا تیل اپنے سر پر انڈیل لیا تھا۔ اب اگر صبح ہم خرید کر لائیں تو۔۔۔‘‘

    ’’تو یہ پہلے نہیں بتا سکتی تھیں۔ یہ عادت ہی نہیں ہے کہ جیسے ہی کچھ ختم ہو تو اس کے بارے میں بتادو۔ کیا خوب طریقہ ہے گھر گرہستی چلانے کا۔ اوکے، تم نے چابی اندر بند کر دی۔ آخر اس بکس میں ایسی کون سی بیش قیمت چیزیں ہیں کہ تم اسے بار بار تالا لگاتی رہو۔ کوئی آکے ڈاکہ ڈال کے لے جائےگا؟ جاؤکم از کم تل کا تیل ہی لے آؤ۔‘‘

    ’’نہیں اب رہنے ہی دو۔ چھوڑو۔ صبح میں خود ہی کھولوں گی اسے۔ تم اٹھ جاؤ۔‘‘

    اس نے پسینے میں بھیگا بنیان اتارکر الگنی پر ڈالا اور بڑبڑایا،’’ہاں ہاں، اس طرح کی خالی خولی ڈینگیں ہانکنا تو خوب آتا ہے تمہیں۔‘‘

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے