aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

چاکر

MORE BYاسد محمد خاں

    کہانی کی کہانی

    قحط سالی کے زمانے میں لوگوں کی بےبسی، ظلم، غیر انسانی حرکات اور روحانیت کی بلندی تک پہنچنے کے احوال پیش کیے گئے ہیں۔ فضل علی قحط کے زمانے میں وڈیروں کے ظلم و جبر اور انجام کی پروا کیے بغیر حصول علم کے لیے نکل جاتا ہے اور وہاں سے واپس آکر خود کو پوری طرح اپنے استاد کی تعلیمات کے لیے وقف کر دیتا ہے۔

    خاکستری رنگ کے گاڑھے کا پیوند لگا لمبا کرتا پسینے سے بھیگ کر بدن سے چپک گیا تھا۔ گھنٹوں کی مشقت کے بعد کھردری ہتھیلیوں کی مضبوط گرفت میں پھاؤڑے کا دستہ پسینے سے پھسلنے لگا تو کرتے کی آستینوں سے ہتھیلیاں پونچھیں، رکوع کے انداز میں جھکے جھکے پھاؤڑا چلاتے رہنے سے کمر کی ہڈیاں اور پٹھے اکڑ گئے تھے تو جوان بازوؤں کو میناروں کی طرح بلند کیا اور پورے قامت سے تن کر انگڑائی لی۔ دھول میں اٹے اپنے پیروں کے درمیان زمین پرنظریں گاڑے سر جھکائے لمحے بھر کو ساکت کھڑے رہے۔ پھر دونوں گھٹنے خم کیے اور دو زانو کھیت کی مینڈ پر بیٹھ گئے۔ مشقت سے سنولائے ہوئے ہاتھوں کی دسوں انگلیاں بھربھری مٹی میں گڑا دیں پھر آہستہ آہستہ کہنے لگے،

    ’’مٹی، اومٹی۔ اگر یہ امر الٰہی ہے کہ میں اور میرے ہمسائے اپنے اس ختم نہ ہونے والے روزے میں ہی اپنے خالق سے جا ملیں تو بےشک ہم رضائے الٰہی میں راضی ہیں، شکوہ تو الگ رہا، ہم تو لفظ کیوں بھی اپنی زبانوں پر نہیں لائیں گے۔ اور اگر میری کسی کوتاہی سے، میرے تساہل، میری ناسمجھی سے تونے وہ رزق ابھی ہمیں سونپنا شروع نہیں کیا جو ہمارے نام کا تیری تحویل میں ہے تو اے مٹی لے، فضل علی اپنے رب کے نام کےساتھ پھر سے اپنے کام کا آغاز کرتا ہے۔ پھر سے تجھے سنوارتا ہے، پھر سے تیری خدمت کرتا ہے۔‘‘

    یہ کہا اور جھٹکے سے اٹھ کھڑے ہوئے، پھاؤڑا سنبھالا اور اسی طرح جھکے جھکے پھاؤڑا چلاتے قدم قدم بڑھنے لگے۔ وہ پھاؤڑے کی ہر ضرب پر منھ ہی منھ میں اللہ اللہ کہتے جاتے تھے۔ جمی ہوئی مٹی کی بےمروت چھاتی کو نئے اکھووں کے لیے نرم کرنے کا یہ کام کئی گھنٹے جاری رہا۔ یہ کام گھنٹوں سے۔۔۔دنوں سے جاری تھا اور جب تہجد کا وقت ہو گیا تو اسی مٹی سے تیمم کیا اور اسی مٹی پر سجدہ زیر ہو گئے۔ دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے تو بےرنگ دھواں دھواں آسمان کچھ اور نیچے اتر آیا۔ دن بھر کی تپش کے بعد چند گھنٹوں پہلے تانبے ساتپنے والا آسمان اس وقت ایک خفیف سی ٹھنڈک اتار رہا تھا مگر خشک سالی کی ماری ہوئی سوکھی لکڑ زمین اس ٹھنڈک کو اترتے ہی اچک لیتی، ان دیکھے بخارات میں تبدیل کرتی اور پھر لوٹا دیتی تھی۔

    یہ سال ۱۸۹۶ء تھا، بارش سے ترسی ہوئی زمین جیسے کچھ بھی پیدا کرنے سے انکاری تھی۔ میانوالی قحط کی لپیٹ میں تھا۔ جانوروں کے لیے چارا نہیں رہا تھا۔ انسانوں کے چہرے پر گرد اڑ رہی تھی۔ ایک وقت کا کھانے والے اب دو دو تین تین دن بھوک سے نڈھال پڑے رہتے۔ پہلے جانور دبلے ہوئے پھر ایک ایک کر کے مرنے لگے۔ فضل علی کے بیلوں کی جوڑی ٹوٹ گئی۔ ایک بیل کافی چارا نہ ملنے کے سبب مر گیا تو فضل علی نے دوسرے بیل کو ذبح کیا اور اپنے ہمسایوں کے دروازوں پر دستک دے دے کر سب گوشت بانٹ آئے۔ تین بکریاں اور ایک ڈاچی جو دودھ سے خالی تھیں، اسی طرح قریب و دور کے ہمسایوں کو کھلائی جا چکی تھیں۔ دودھ دینے والی چند بکریاں رہ گئی تھیں، جن کے لیے فضل علی سارا سارا دن چارے کی تلاش میں سرگرداں رہتے اور شام کو جتنا کچھ دودھ حاصل کر پاتے، ان گھروں میں بانٹ آتے جہاں شیرخوار بچے تھے اور مریض اور جاں بلب بوڑھے کچے فرش پر چٹائیاں ڈالے پڑے دن گن رہے تھے۔

    رات فضل علی کے لیے سخت تر مشقت کی خبر لے کر آتی تھی۔ ان کے چھوٹے سے کھیت میں دوبار بیج ڈالا جا چکا تھا اور دھول کے ساتھ مل کر دھول ہو چکا تھا۔ کیونکہ زمین اپنا قیمتی نم کھو چکی تھی۔ بارشیں ہوئی نہیں تھیں۔ کنوئیں خشک تھے اور دریا دور تھا۔ اتنی دور سے گاڑیوں میں اور جانوروں پر اور آدمی اپنے سروں پر ڈھو ڈھو کر جو پانی لاتے وہ انسانوں اور جانوروں کے لیے ہی نا کافی ہوتا تھا تو زمین کے حصے میں کیا آتا۔ ایسا لگتا تھا کہ جان کی طرح جو قیمتی بیج اور پانی زمین کو دے دیا، بس دے دیا۔ وہ ضائع ہوا۔ زمین لوٹاتی کچھ نہیں تھی۔ کھیتوں میں اناج کے اکھوے نہیں پھوٹے، دھول کے جھکڑ اور ریت کے بھنور بنتے رہے اور آگ کی لپٹوں کی طرح زمین سے بخارات اٹھتے رہے۔

    یہ سب تھا مگر فضل علی کے معمولات میں فرق نہ آیا۔ وہ عشاء کی نماز کے بعد اللہ کا نام لے کر اپنے کھیت پر پہنچ جاتے اور فجر تک پھاؤڑا چلاتے رہتے۔ بیلوں کی جوڑی گھڑی دو گھڑی میں جتنا ہل پھیر لیتی ہے اتنا کام فضل علی سے ساری رات میں ہو پاتا۔ مگر ایسا تھا کہ زمین کی تحویل میں خلق اللہ کے نام کا جو رزق تھا وہ اللہ کی مخلوق کے لیے اس سے حاصل کرنا ہی تھا۔

    میانوالی کا یہ شہر کالا باغ ضلعے بھر کے شہروں، دیہاتوں میں سب سے کم قحط سے متاثر ہوا تھا۔ دوسری بستیاں تو اس سے کہیں زیادہ سختی جھیل رہی تھیں۔ پہاڑی پر بسے کالا باغ کے چھوٹے چھوٹے مکان گڑیوں کے گھروندوں کی طرح بے ترتیبی سے بکھرے ہوئے اوپر تک چڑھتے چلے گئے تھے۔ نیچے سندھ دریا بہہ رہا تھا۔ یہاں پانی ہی پانی تھا۔ پانی میں انسانوں کے لیے خوراک تھی اور دریا سے ملے ہوئے کھیت کچھ پیداوار بھی دے رہے تھے۔

    مگر یہ کھیت طرے والوں کے تھے اور دریا پر مچھلی پکڑنے کا ٹھیکا ڈاڈے ملک کا تھا جو کبھی کبھار خیر خیرات کی طور پر گھنٹے دو گھنٹے کے لیے یا گھر، باڑے اور زمین کے چھوٹے ٹکڑوں کے عوض دو دو چار چار دن کے لیے مچھلی پکڑنے کی اجازت دے دیتا تھا۔ جب اس کے آدمی کاغذ پر انگوٹھے لگوا کر گھروں اور باڑوں سے گزر جاتے تب ہارے ہوئے جواریوں کی طرح مرے مرے قدموں سے گھر یا زمین کے سابقہ مالک اپنے جال اور مچھلی کے شکار کی چھڑیاں اٹھائے دریا کے کنارے پہنچتے اور دوچار دن تقدیر آزماتے۔ ان کے نصیب کا جو کچھ ملتا دریا سے حاصل کر لیتے۔ بغیر اجازت مچھلی پکڑنے والوں کا حشر چوروں سے بدتر کر دیا جاتا تھا۔ ڈاڈا ملک اور اس کے آدمی اپنے حق کی حفاظت کرنا جانتے تھے۔ اچھے دنوں میں خدا کے نام پر خیرات نکالنے والے ملکوں نے قحط کی بھیانک شکل دیکھ کر اپنی اناج کی کوٹھیوں کے منھ بند کر دیے تھے۔ پھر ان سے اپنے ہمسایوں کی بھوک نہ دیکھی گئی تو اکثر نےاناج کی حفاظت کے لے کوٹھیوں اور کھیتوں پر اپنے لٹھ بند بٹھا دیے اور علاقے سے چلے گئے۔

    کھیت، کھلیان اور گلیارے ویران ہو چکے تھے۔ بھوکے جانور جہاں گر جاتے پھر اٹھ نہ پاتے۔ موت خاموشی کے ساتھ انہیں زندہ رہنے کے مشکل کام سے نجات دلا دیتی تھی۔ اب تو انسان بھی موت کا بھیانک ہاتھ اپنی طرف بڑھتے دیکھ رہے تھے۔ دوستیاں، محبتیں، جان پہچان، ہمسایگی اور مروت جیسے پورے ضلعے سے اٹھتی جا رہی تھی جس کے پاس ایک دو وقت کے کھانے کو ہوتا وہ گھر میں بند ہو جاتا کہ کہیں پڑوس کی بھوک سوال بن کر سامنے نہ آ کھڑی ہو۔ کیسی شرمندگی تھی کہ ہمسائے سے ہمسایہ آنکھ ملانے کی ہمت نہیں کرتا تھا۔ منھ چھپائے چھپائے پھرتا تھا۔ جنہیں وسائل میسر تھے، جن کے پیروں میں اتنا دم تھا کہ انہیں عذاب جھیلتے ہوئے ان علاقوں سے کھینچ کر لے جا سکتے، وہ جا چکے تھے۔ دریا سے دور پانی سے ترسی ہوئی زمینیں یوں لگتی تھیں جیسے ان کے مالک مدتیں ہوئیں، مر چکے ہوں اور اب ان زمینوں کا وارث کوئی نہ ہو۔ جس زمین کے ایک ایک بالشت کے لیے کچہریوں میں برسوں مقدمے چلتے، لاٹھیاں کھنچ جاتیں اور سر پھوٹتے تھے وہ اب بے دعویٰ خشک سالی کے حوالے کر دی گئی تھی۔

    دریا سے دور ایک فضل علی کا قطعہ زمین تھا کہ انسان کی محنت کے آثار لیے سارا سارا دن سفاک سورج کی بے رحم لپٹوں میں مٹیالے کپڑے کے بہت بڑے تھان کی طرح کھلا ہلتا رہتا۔ شام ہو جاتی، رات آتی تو پھر وہی ہوتا کہ ایک کشیدہ قامت سایہ جو جوانی کی چلت پھرت کے ساتھ اللہ اللہ کے آہنگ پر پھاؤڑا چلاتا، کھیت میں بیتابانہ گشت کرتا اور ناممکن کو ممکن بنانے کی سعی میں رات سے صبح کر دیتا۔ فضل علی گھڑی بھر کو دم لینے بیٹھتے تو مشقت سے دکھتے ہوئے بدن کو آرام تو کیا ملتا تھکن کچھ اور گہری ہو جاتی اور طرح طرح کے وہم دل کو گھیر لیتے۔ یہ آخری دانے بھی اکھوے نہ لائے تو سب کا کیا ہوگا۔ مگر توکل کا مہربان ہاتھ دل پر اپنا ٹھنڈا سایہ ڈالتا، یاد آتا کہ رزاق فضل علی تو نہیں ہے، پھر فکر کس بات کی، فضل علی کا کام تو محنت کرنا ہے سو وہ کیے جاتا ہے اور فضل علی کا کام تو اپنے رب سے گڑگڑاکر اپنے ہمسایوں کے لیے اور اپنے لیے مانگنا ہے۔ سو مانگے جاتا ہے۔ وہ وسوسوں پر توبہ و استغفار کرتے اور پھاؤڑے کا دستہ پکڑ اٹھ کھڑے ہوتے۔

    مگر یہ بے رحم حقیقت کشت جاں پر گردوغبار کے بھورے بادلوں کی طرح مسلط تھی کہ یہ دانے جو بکھیرے جاتے ہیں آخری ہیں اور آدمی کے بس میں جتنا کچھ تھا وہ کیا جا چکا اور اب صرف دریا سے ڈھو ڈھوکر پانی لانا اور دعا کرنا ہی رہ گیا ہے۔ بھوک اور مایوسی کے ہاتھوں کیا بوڑھے کیا جوان سب ہی ندھال تھے مگر گنتی کے وہ جوان جو علاقہ چھوڑ کر نہ جا سکے تھے اور فضل علی کے کٹمب قبیلے سے تعلق رکھتے تھے یا ساتھ کے کھیلے ہوئے تھے یا ان کی ثابت قدمی اور جذبۂ خدمت سے متاثر تھے کبھی کبھی ان کا ہاتھ بٹانے آ موجود ہوتے۔ مگر ایسا کبھی کبھی ہوتا تھا۔ دوسرے چوتھے کبھی کچھ پیٹ کو مل گیا تو نوجوانی کی غیرت نے جوش مارا اور اپنے اپنے پھاؤڑے، مشکیزے، چھاگلیں اور برتن لے کر آ گئے اور پتھر سی زمین سے کچھ دیر جھوجھ لیے۔ کبھی تو یہ تعداد بارہ پندرہ تک پہنچ جاتی اور کبھی کبھی تایوں، چچوں، پھوپیوں کے دو تین بیٹوں کے سواکوئی اور نہ ہوتا۔

    بڑی جماعت دریا سے پانی لانے چلی جاتی جو بجائے خود پہاڑ سر کرنے کے برابر تھا۔ ایک دو نوجوان فضل علی کے ساتھ زمین توڑنے بنانے میں لگ جاتے۔ مگر یہ کام نسبتاً زیادہ تھکا دینے والا، زیادہ ہمت شکن اور صبر آزما تھا۔ فضل تنہا ہوتے تو خاموشی سے سر جھکائے ذکر کرتے رہتے۔ سانسوں کی آون جاون کے ساتھ اللہ اللہ کا ورد جاری رہتا۔ کوئی ایک بھی جوان ساتھ ہوتا تو فضل لہک لہک کر قرآن سناتے، ساتھ ساتھ اپنے علاقے کی زبان، اپنے محاورے میں ترجمہ بھی کرتے جاتے۔ ان کی سادہ پر اثر آواز سناٹے میں دور تک تیرتی چلی جاتی۔ ہاتھ پھاؤڑے کے دستے پر جمے اپنا صبر آزما کام جاری رکھتے اور ادھ کھلی آنکھیں جیسے مٹی پر پھیلتی تاروں کی ہلکی چمک میں اپنے رب کی نشانیاں ٹھونڈتی رہتیں۔

    ایک رات اسی طرح تلاوت اور ترجمہ جاری تھا۔ فضل سورہ رحمٰن پڑھ رہے تھے کہ دریا سےآتے ہوئے پانی لانے والی جماعت میں ایک جوان پانی کے چھلکتے برتنوں سے بھری گاڑی دھکیلتے دھکیلتے ذرا کمر سیدھی کرنے کو رکا، دور سے فضل علی کا پرسوز لحن سن کر نیم دلی سے ہنسا اور بجھی ہوئی آواز میں ایک تھوڑی سی چمک شامل کرکے بولا، ’’بھائی فضل علی، رب کو اس کا وعدہ یاد دلا رہے ہیں۔‘‘ دو ایک نے خوش مزاجی سے اتفاق کیا اور یہ سب گاڑی کھینچتے پھر چل پڑے۔ کھیت پر پہنچے تو فضل اور ان کے ساتھیوں کو خاموشی سے کام کرتے ہوئے پایا۔ فضل علی ایک رکوع پڑھنے کے بعد خاموش ہو گئے تھے۔ بس پھاؤڑوں کی کھسر کھسر سنائی دے رہی تھی یا مشقت کرنے والوں کی گہری گہری سانسیں۔

    ٹیڑھی میڑھی ٹاہلی کے پاس پہنچ کر پانی لانے والوں نے گاڑی سےبرتن اتار اتار کر رکھنا شروع کر دیے۔ ایک ایک کرکے برتنوں کے پاس آ گئے اور آبخورے بھر بھر خالی پیٹ کو ٹھنڈے پانی سے بہلانے لگے۔ کچھ نے چلو میں پانی لے کر منھ پر چھینٹے مارے اور امکان بھر تازہ دم ہونے کی کوشش کی۔ آخر میں فضل علی اپنا پھاؤڑا کاندھے پر رکھے سر جھکائے سب کے پاس آکھڑے ہوئے۔ کسی نے چھلکتا ہوا آبخورہ ان کی طرف بھی بڑھا دیا۔ گھٹنوں سے پھاؤڑے کا دستہ ٹکاکر دونوں ہاتھوں سے آبخورہ سنبھالا، بیٹھ گئے، ایک چھوٹا سا گھونٹ بھرا اور پانی لانے والے اس نوجوان کی طرف دیکھ کر کہ جس نے رب کو وعدہ یاد دلانے والا فقرہ کہا تھا آہستہ سے بولے، ’’بیبے۔۔۔ابھی ابھی اپنے رحمن والی سورۃ پڑھتے ہوئے میں نے ایک بات سوچی تھی اور رب معاف کرے تھوڑے سے شکوے کے ساتھ سوچی تھی کہ میں جو یہ نعمتوں والی آیتیں پڑھ رہا ہوں اور جو میرا نعمتوں والا رب ہے تو اس میووں، پھلوں، اناجوں والے نے میانوالی کو کہیں بھلا تو نہیں دیا اور میں کیڑا فضل علی کہیں اس خزانوں، بھنڈاروں والے کو رحمن والی سورۃ پڑھ پڑھ کر یاد تو نہیں دلانے لگا۔‘‘

    پھر زخمی پرندے کی طرح چیخ ماری اور کانپتی ہوئی آواز میں پکارے، ’’او میری یہ مجال کہ میں اس رزقوں والے کو اس کی رزاقی یاد دلاؤں۔۔۔اور میری یہ مجال، میری یہ مجال۔‘‘ پھر وہ آہستہ آہستہ کچھ پڑھنے لگے۔ دونوں ہاتھوں میں آبخورہ اسی طرح سنبھالا ہوا تھا۔ پسینے میں تر اپنی پیشانی کو آبخورے کی ٹھنڈی سطح سے مس کیا اور دھیرے سے بولے، ’’پر بیبے، مجھے سمجھ آ گئی، پڑھتے پڑھتے بھول تو میں گیا تھا، بھولنے والا تو فضل علی ہے، بھولنے والا تو فضل علی ہے، بھولنے والے تو ہم سب ہیں۔ اس کی رحمتوں والی ہوا تو بہہ رہی ہے۔ اس کا نعمتوں والا دریا تو اچھل رہا ہے۔۔۔‘‘

    پھر انہوں نے اپنی کھردری ہتھیلی کا پیالہ سا بناکر اس الٹے پیالے سے مٹی کو تھپکی دی،’’او یارو، اس کے نعمتوں والے اناج تو یہ سوئے پڑے ہیں۔‘‘ دوسروں کی طرح وہ نوجوان بھی جسے فضل علی نے بیبے کہہ کر پکارا تھا، سناٹے میں کھڑا ان کی بات سن رہا تھا۔ خاموش رہنے والے بھائی فضل آج اتنے جذبے اتنے جوش سے اتنی بہت سی باتیں کہہ گئے اور یہ کیسے ہوا کہ جو بات میل آدھا میل دور بیبے نے چلتے چلتے سوچی اور خوش مزاجی سے اپنے ساتھیوں سے کہہ دی، وہی بات بھائی فضل بھی سوچتے تھے اور اس کا اپنا حساب کرتے تھے۔

    بیبے نے فضل علی کو اس حال میں کبھی نہیں دیکھا تھا۔ یہ سیدھا سادہ خاموش طبیعت جوان، پورا بچپن جس کے ساتھ کھیل کود میں بسر کیا، لڑکپن دریا کنارے دوڑیں لگاتے، پہاڑی ٹیلوں پر چڑھتے اترتے گزارا، آج اتنی گہری باتیں کر رہا ہے۔ خدا مست لوگوں کی کچھ دن کی صحبت نے اس پر یہ کیسا جادو کر دیا ہے کہ سیانوں کی طرح اپنے اور دوسروں کے اندر اترکر گتھیاں سلجھانے لگا ہے۔ کیا مسلسل فاقوں نے اور دن رات کی جان توڑ محنت نے اس میں چھپی ہوئی کوئی قوت بیدار کر دی ہے جو یہ دلوں میں جھانکنے لگا، خیالوں کو پڑھنے لگا، پڑھانے لگا۔

    بیبے کو اپنے لڑکپن کا وہ فضل یاد آیا جو اس کے ساتھ صرف اس لیے صبح تڑکے گھر سے نکل جاتا اور شام تک کالا باغ کی پہاڑیوں کے ایک ایک درخت پر چڑھتا اترتا کہ کہیں اس کو طوطے کا گھونسلا مل جائے۔ وہ طوطے کا بچہ پالنا چاہتا تھا۔ کہتا تھا میں اسے بولنا سکھاؤں گا۔ بیبا گھونسلے کی تلاش میں تھک چکا تھا، ایک ہی کھیل آخر کتنے دن تک کھیلا جاتا، اس نے جھلا کر کہہ دیا، ’’او فضل پہلے خود تو بولنا سیکھ لے طوطے کو کیا پڑھائےگا۔ پہلے خود تو پڑھ لے۔‘‘ فضل خاموش ہو گیا۔ دونوں نے اس دن سے درختوں پر چڑھنا اترنا، کالا باغ کی پہاڑیوں کا گشت لگانا چھوڑ دیا۔ بیبے کو بعد میں افسوس بھی ہوا کہ فضل کا اتنے مزے کا کھیل اس نے ختم کرا دیا۔ اس نے ایک دن فضل علی کو پھر سے آمادہ کرنےکی کوشش بھی کی۔ اس سے کہا بھی کہ یارا ہنسی کی بات کا تو نے اتنا اثر لیا ہے۔ چل درختوں میں طوطے بولنے لگے ہیں۔ ہری ہری ٹکڑیاں دریا کے پار سے آ آکر کالا باغ کے جھنڈوں میں اترنے لگی ہیں۔ ایک ہی چکر میں تیرے مطلب کا بچہ مل جائےگا مگر فضل ہنس کر ٹال گیا۔ بیبے نے بہت پیچھا لیا تو کہنے لگا، ’’بیبے تو نے ٹھیک کہا تھا، طوطا پڑھانے میں کوئی مزا نہیں۔‘‘

    پھر اس نے کئی روز فضل کو بستی میں نہیں دیکھا۔ دریا کنارے کبڈی کے مقابلوں میں، بازاروں باڑوں میں فضل کہیں نظر نہ آیا تو گھر والوں سے اس کی خیر خیریت پوچھنے نکلا۔ دیکھا کہ گھر والے تو کہیں گئے ہوئے ہیں۔ فضل کی کوٹھری سے اس کے زور روز سے قرآن پڑھنے کی آواز آ رہی ہے۔ بیبا باہر کھاٹ پر جا بیٹھا اور انتظار کرنے لگا۔ کچھ دیر میں فضل کی رشتے دار ایک ضعیفہ ادھر سے گزری تو اسے خاموشی سے کھاٹ پر بیٹھے دیکھا، پوچھنے لگی یہاں کیسے بیٹھا ہے، اندر کیوں نہیں جاتا۔ بیبے نے کہا کہ بھائی فضل تلاوت کر رہا ہے۔ وہ پڑھ لے تو پھر اندر جاؤں۔ ’’اس کا پڑھنا نہیں ختم ہوتا۔ تو اندر چلا جا، بات کرلے۔‘‘ بیبا اندر گیا تو دیکھا کوٹھری کی واحد چھوٹی سی ’کھڑکیا‘ کے پٹ بند ہیں۔ کھلے دروازے سے آتی ہلکی روشنی میں فضل اپنے بستر پر بیٹھا، تکیوں پر قرآن مجید رکھے ایک سرشاری کے عالم میں تلاوت کر رہا ہے۔ بیبا دروازے پر رکا اور پھر وہیں کھڑا رہ گیا۔

    چند روز میں اس کا دوست فضل علی کوئی دوسرا ہی فضل ہو گیا تھا۔ چہرہ ستا ہوا تھا جیسے کسی گہری فکر نے اس کے لڑکپن کے بھرے بھرے چہرے کو نچوڑ لیا ہو۔ مگر یہ کسی بیمار چہرے کے نقوش نہیں تھے۔ یوں لگتا تھا جیسے مشقت سے خوب تپے ہوئے چہرے پر کسی ان دیکھی آنچ کا عکس پڑ رہا ہو۔ دروازے سے آتی روشنی اور تکیوں پر رکھے مصحف کے درمیان ایک سایہ آ کھڑا ہوا تو فضل علی نے نظر اٹھائی۔ بیبے نے اس کی آنکھوں سے آنکھیں ملائیں تو دیکھا کہ ایک عجب طرح کا سویا سویاپن اور دوری ان آنکھوں میں تھی۔ لمحے بھر کو بیبے نے محسوس کیا کہ وہ کسی اجنبی کے سامنے کھڑا ہے اور خود اس کے لیے اجنبی ہے۔ پھر پہچان کی ایک تیز لہر ان آنکھوں میں دوڑ گئی۔ فضل علی نے زیر لب ’’صدق اللہ العظیم‘‘ کہہ کر مصحف کو بند کیا، بوسہ دیا اور آہستگی کے ساتھ بستر سے اتر آیا۔

    ’’آاو بیبے، کدھر رہ گیا تھا یارا!‘‘ یہ آواز اس کے بچپن کے دوست فضل علی کی تھی، وہی کھلنڈرے پن کی چمک، وہی بےتکلفی، وہی لڑکپن۔ بیبے نے اس کے بڑھتے ہوئے ہاتھوں کو اپنے ہاتھ میں لیا اور وہ دونوں کوٹھری سے باہر آ گئے۔

    ’’میں کدھر ہی رہ گیا تھا کہ تو آپ گھر میں گھسا بیٹھا ہے؟‘‘

    وہ دونوں فضل کے باڑے میں آ گئے۔ باتیں کرنے لگے۔ بیبے نے فضل کی غیرحاضری میں ہونےوالے واقعات، کھیل، لڑائی بھڑائی کے قصے تفصیل کے ساتھ بیان کیے۔ کئی بار اس کا جی چاہا کہ فضل سے اس کے اچانک گھر بیٹھ جانے کے بارے میں پوچھے مگر ہر بار اسے نیم روشن کوٹھری میں بستر پر بیٹھے ہوئے اس دوسرے فضل علی کا اجنبی چہرہ یاد آ جاتا اور وہ کچھ اور باتیں شروع کر دیتا۔ ان کھلنڈری باتوں کے درمیان وہ اس نئے فضل علی کو بھول جانا چاہتا تھا۔ پتہ نہیں وہ کس بات سے خوفزدہ تھا۔ آخر رخصت ہوتے ہوئے بیبے نے ہمت کر کے پوچھ ہی لیا کہ کل طوطے کا گھونسلا تلاش کرنے فضل اس کے ساتھ چلےگا کہ نہیں۔ فضل نے ہنستے ہنستے ایک لفظ میں جواب دیا، ’’نہیں۔‘‘

    اب جو بات کہہ دی تھی تو بیبا اسے ادھوری نہیں چھوڑنا چاہتا تھا۔ ’’اویار۔ ابھی تک تجھے غصہ ہے؟‘‘

    ’’کیسا غصہ؟‘‘ فضل علی نے واقعی حیران ہوکر پوچھا۔

    ’’یہی جو میں نے تجھے طعنہ دیا تھا کہ پہلے خود بولنا سیکھ لے، پہلے خود پڑھ لے۔‘‘

    ’’اچھا۔۔۔ وہ۔‘‘ فضل علی بہت دیر تک خاموش کھڑا رہا، پھر آہستہ سے کہنے لگا، ’’تو نے طعنہ نہیں دیا تھا یارا، ٹھیک کہا تھا۔ وہ طوطا پڑھانے میں کچھ مزا نہیں۔‘‘ پھر دھیرے سے اپنے سینے کو تھپتھپاکر بولا، ’’اب تو یہ طوطا پڑھاؤں گا۔‘‘ بیبے کی سمجھ میں کچھ آیا کچھ نہ آیا۔ وہ جو کبڈی کے مقابلوں کی بات کرتا تھا اور کیلے کے تنے سے چمٹ کر دریا کے ساتھ ساتھ بہنے کے کھیل کی سوچتا تھا اور پہاڑیوں پر دوڑ کر چڑھنے اترنے کا قصہ سناتا تھا تو سب باتیں بیبے کی سمجھ میں آتی تھیں لیکن بڑی عمر کے لوگوں کی طرح گہری گہری باتیں کرنا اس کی سمجھ میں نہ آیا۔ پھر بھی کوشش کر کے اس نے ایک سوال سوچا اور فضل علی سے پوچھ لیا۔

    ’’فضل، تو نے مولوی بخشے جی سے کلام مجید تو پڑھ لیا تھا۔ تو تو پہلے ہی فرفر پڑھنے لگا تھا اب اور کیا پڑھےگا؟‘‘ فضل جواب دینے سے پہلے کچھ دیر رکا پھر بولا، ’’فضل علی کی زبان نے بے شک کلام پڑھ لیا۔ اب فضل علی کلام پڑھےگا۔ مولوی بخشے جی نے حکم دیا ہے۔ میں بابا دامانی کی حاضری میں جا رہا ہوں۔۔۔ کل۔‘‘

    حضرت خواجہ عثمان دامانی اللہ لوک تھے۔ بیبے نے ان کا نام سنا تو ادب سے اپنے سرپر ٹوپی ٹھیک کی۔ وہ ایک بار اپنے تایا کے ساتھ حضرت بابا دامانی کے ڈیرے پر حاضری دے چکا تھا۔ ایک سفید براق بزرگ صاف اور سادہ موٹے کھردرے کپڑوں میں مصلے پر بیٹھے ہوئے، مسکراتے ہوئے، نرمی اور پیار سے لوگوں کی باتیں سن سن کر ان سے اچھی اچھی باتیں کہتے ہوئے، یا خاموش آنکھیں بند کیے تسبیح پھیرتے ہوئے، اللہ اللہ کرتے ہوئے۔ یہ بابا دامانی تھے۔ بیبا ڈاڈے ملک کو بھی دیکھ چکا تھا۔ رعب دار گھنی کالی مونچھوں والا سرخ و سفید چہرہ تھا ملک کا، دیکھے سے دہشت ہوتی تھی مگر بابا دامانی کے رعب سے دہشت نہیں ہوتی تھی، بڑا اچھا ٹھنڈا ٹھنڈا لگتا تھا۔ وہ آنکھیں کھولے ہوتے تو ان کی آنکھیں ڈاڈے ملک سے دسیوں گنا خوبصورت اور چمکدار لگتی تھیں۔ پھر بھی زیادہ دیر تک بیبا ان آنکھوں کی طرف نہیں دیکھ سکا تھا۔ بیبے کو ایسا لگا تھا جیسے بابا کی طرف ایک دم اس طرح دیکھ کر وہ کوئی گستاخی کر رہا ہے۔

    فضل علی۔۔۔سے یہ سن کر کہ وہ بابا عثمان دامانی کی حاضری میں جا رہا ہے بیبا سوچتا رہ گیا۔ یہ فضل میرا دوست اتنے بڑے بابا کی حاضری میں جا رہا ہے۔ یہ ان سے کلام مجید پڑھےگا۔ یہ تو بہت بڑی بات ہے۔ مولوی بخشے کہتے ہیں کہ حضرت خواجہ عثمان دامانی تو اس علاقے میں اللہ کی رحمت کی طرح ہیں۔ جس نے دل لگاکر ان کی دوباتیں سن لیں، وہ سمجھو پار اتر گیا، تو یہ فضل علی میرا یار کون سے دریا پار اترےگا۔ یہ جو اتنے ڈاڈے اللہ لوک کی حاضری میں جا رہا ہے تو یہ بے شک بڑی بات ہے لیکن بیبے کا ایک یار تو اس سے دور چلا جائےگا۔ جوڑی تو ٹوٹ جائےگی۔ اس بات سے وہ کچھ اداس ہو گیا اور دوسرے دن آنے کا وعدہ کر کے بوجھل دل کے ساتھ اپنے گھر آ گیا۔

    اگلا دن بیبے کے لیے بہت اداس کرنے والا دن تھا۔ فضل علی اس کا یار آج کالا باغ سے جا رہا تھا۔ اللہ لوک درویشوں کے وہاں آدمی کیوں جاتا ہے، بیبے کو معلوم نہیں تھا۔ اسے یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ پھر آدمی وہ نہیں رہتا جو جانے سے پہلے ہوتا ہے۔ تو فضل علی اور بیبے کی جوڑی ٹوٹ گئی۔ اب دریا میں تیرنے، درختوں پر چڑھنے اور دوڑیں لگانے کا زمانہ ختم ہوگیا۔ فضل علی کے لیے بھی اور بیبے کے لیے بھی۔ یہ بات اس نے تیز تیز قدموں سے مولوی بخشے جی کے ڈیرے کی طرف بڑھتے ہوئے فضل علی کے انداز میں دیکھ لی تھی۔

    اسے یاد تھا، فضل علی گلے میں کلام مجید ڈالے، ہاتھ میں کپڑوں اور بھنی مکئی کے دانوں کی پوٹلی سنبھالے چھوٹے چھوٹے ٹیلوں پر آگے آگے یوں چڑھتا اترتا چلا جا رہا تھا کہ جیسے سفر کے آخر میں اسے کوئی انعام ملنے والا ہو۔ مولوی بخشے جی کے مکتب میں یہ دونوں ساتھ ساتھ جاتے رہے تھے مگر آج کا جانا عجیب طرح کا تھا۔ دونوں خاموش تھے۔ ایک دوبار بیبے نے فضل سے بات کرنے کی کوشش کی مگر وہ منہ ہی منہ میں کچھ پڑھتا ہوا اس کی طرف دیکھ کر مسکرایا تھا اور بس۔ بیبے کو یقین تھا فضل علی نےاس کی بات ہی نہیں سنی تھی، جواب کیا دیتا۔ آخر چھوٹے ٹبے کے پاس پہنچ کر فضل علی رکا۔ اپنی پوٹلی ایک پتھر پر رکھ دی اور دونوں ہاتھ پھیلاکر بیبے سے معانقہ کیا۔ کہنیوں سے اوپر اس کے بازو تھام کر ہلکا سا جھٹکا دیا اور بس ایک فقرہ کہا ،’’بیبے یارا میرے لیے دعا کرنا۔‘‘

    بیبے نے سر ہلا کر وعدہ کر لیا۔ یہ لوگ نماز کے بعد تو دعا کرتے ہی تھے اور رب سے اچھی صحت، روزی رزق کے لیے اور اپنے ماں باپ کے لیے دعا مانگتے تھے مگر یاروں دوستوں کے لئے دعا کرنے والی بات بیبے نے کبھی نہیں سوچی تھی۔ ٹھیک ہے یار دوست بھی تو ماں باپ کی طرح پیارے ہوتے ہیں۔ ان کے لیے بھی دعا کرنی چاہئے۔ بیبے نے ٹبے سے اترتے ہوئے سوچا۔ گھوم کر دیکھا تو فضل علی جا چکا تھا۔

    وہ فضل علی جسے بیبے نے ٹبے سے رخصت کیا تھا لوٹ کر پھر نہ آیا۔ دنوں بعد، بہت دنوں بعد بھائی فضل علی ضرور آیا، جس کے گالوں پر چھوٹی سی نرم ریشمی داڑھی تھی،جس کے بال لہراتے ہوئے کاندھوں تک آتے تھے، جو سر جھکاکر آہستگی سے کبھی ایک آدھ فقرہ کہہ دیتا تھا ورنہ ہر وقت منہ ہی منہ میں کچھ پڑھتا رہا تھا۔ جو کالا باغ کے غریبوں، مفلسوں کے لئے ہر وقت مستعد رہتا تھا، جسے خالی فضل یا فضل علی کہتے ہوئے اب جھجھک محسوس ہوتی تھی۔ یہ تو بھا فضل یا بھائی فضل علی تھا جسے بڑے بوڑھے بھی کھڑے ہو کر تعظیم دیتے تھے۔ جو بےآسرا بوڑھوں، اپاہجوں کے کپڑے اٹھا کر دریا پر چلا جاتا اور انہیں دھو سکھا کر لے آتا۔ بیماروں، بے گھروں، مسافروں کے لئے اپنے گھر باڑے سے مکئی کی روٹی اور دودھ لے کر سب سے پہلے آ موجود ہوتا اور جب سے رب میانوالی پر غصہ ہوا تھا اور بارشیں ادھر آنا بھول گئی تھیں اور بھوک اور قحط کے بد صورت گدھ کالا باغ کے ٹیلوں ٹبوں پر آن بیٹھے تھے؛ بھائی فضل علی کسی جلالی درویش کی طرح زمین کی چھاتی سے چمٹ گیا تھا، ہلکان ہو ہو کے اس سے اللہ کے بندوں کا حق طلب کر رہا تھا۔

    اول اول تو اس نے ملکوں، معتبروں کو اللہ اور رسول کا حکم سنایا، ہمسایوں کے حق کا واسطہ دیا تھا اور خیر خیرات کے طور پر انسانوں کے لئے تھوڑا کچھ اناج اور جانوروں کے لئے گاڑی دو گاڑی چارا حاصل کرنے میں کامیاب بھی ہو گیا تھا، مگر جیسے جیسے عذاب کے دن لمبے ہوتے گئے، ملکوں، معتبروں کی آنکھوں میں خود غرضی کے گدھ آ آکر بیٹھنے لگے۔ لالچ نے سرداروں کو عامیوں کا محافظ نہ رہنے دیا۔ معتبروں کو نا معتبر بنا دیا اور کالا باغ کے غریبوں، مسکینوں کے لئے ان کی ڈیوڑھیوں سے ملنے والے دانے کم سے کم ہوتے گئے۔ پھر وہ دن آئے کہ ملکوں نے میانوالی کو خیرباد کہا اور اپنی دوسری ہری بھری زمینوں پر آرام کرنے چلے گئے۔

    لوگوں نے سنا کہ ڈاڈا ملک کسی باہر والے کو دریا پر ماہی گیری کا ٹھیکا دے کر خود کہیں جانے والا ہے تو انہوں نے بھائی فضل سے درخواست کی کہ وہ بات کریں۔ آخر کالا باغ سے گزرنے والےدریا پر کالا باغ کے لوگوں کا حق نہیں ہوگا تو اور کس کا ہوگا۔ بڑے بوڑھوں نے ڈاڈے ملک کے کارندوں سے گھگھیا کر کہا کہ ملک کی روبکاری میں بھائی فضل کی پیشی کرا دو، اسے کچھ عرض کرنا ہے تو انہوں نے مونچھیں مروڑتے ہوئے جواب دیا، ’’قریشیوں کے بڑے بوڑھے کدھر گئے، جو ان کے بچے ڈاڈے ملک کے سامنے درخواست گزارنا چاہتے ہیں؟ اپنے بھا فضل سے کہو اسے اپنے کٹمب کے لیے بوری دوبوری دانے چاہئیں یا مال مویشی کے لیے گاڑی بھر چارا درکار ہے تو ہم سے بات کرے۔ یہ سب چھوڑے جو کر رہا ہے۔ جمعہ جمعہ آٹھ دن کی پیدائش، یہ جو خدائی فوجدار اور درویش بنا پھرتا ہے تو بات ابھی ڈاڈے ملک تک نہیں پہنچی ہے۔ اس سے کہو دوسروں کی طرح بندہ بن کے رہے۔ ہم اس کے لیے مہینے دومہینے کا بندوبست کرائے دیتے ہیں۔ باقی پورے میانوالی کا ٹھیکا نہیں لیا ہے کسی نے۔ مصیبتیں سب پر آئی ہوئی ہیں۔۔۔ہاں۔‘‘ اور وہ مونچھیں مروڑتے ہوئے چلے گئے۔

    دنیوی وسیلوں میں اب صرف یہ قطعہ زمین ہی تھا جس سے بھائی فضل تن تنہا جھوجھنے پر کمر باندھ چکے تھے، ان کے ساتھ گنتی کے یہ چند جوان تھے۔ یہ لوگ دوبار بیج ڈال چکے تھے۔ اب تیسری بار بیج بکھیرا جا رہا تھا۔ پرانے کسانوں نے مایوسی سے سر ہلائے۔ ’’بھائی فضل کو سمجھاؤ کہیں ایسے فصلیں اپجتی ہیں۔ دانے مٹی میں ملانے سے فائدہ؟‘‘ مگر قطرہ قطرہ پانی اکٹھا کیا جا رہا تھا، اس امید پر کہ اللہ کے کرم کے اکھوے اس زمین میں پھوٹیں گے تو آنے والے دنوں میں شاید پیٹ بھر کر کھانے کو ملے۔

    تو یہ مشقت کے اس مرحلے کی آخری رات تھی اور بھائی فضل نے کھیت کے بیچ بیٹھ کر اس کی بے مروت مٹی کو یوں تھپکی دی تھی جیسے وہ ان کی سدھائی ہوئی گھوڑی ہو اور بیبے سے، اپنے ہم عمر جوانوں سے بڑے جذبے، بڑے جوش کے ساتھ کہا تھا کہ رزقوں والے رزاق کے نعمتوں والے اناج تو یہ سوئے پڑے ہیں۔ بیبے نے ایک عجیب سے بھروسے کے ساتھ تاروں کی دھندلی چمک میں پڑے ہوئے کھیت کی طرف دیکھا۔ کیا پتہ بھائی فضل کی تھپکی ان سوتے ہوئے اناجوں کو جگاہی دے۔ اللہ کے لاڈلوں، اس کے مستی والے درویشوں کے پارس سے چھو کر اب جو بھائی فضل کندن ہو آیا ہے تو شاید مولا کریم اس کی لاج رکھ لیں گے۔

    صبح ہوتے ہوتے درویشوں کے پارس سے چھوکر کندن بن جانے والے فضل علی نے کام ختم کیا اور باجماعت نماز فجر ادا کی۔ اپنی محنت میں برکت کے لیے دعا مانگی اور ٹاہلی کے ٹیڑھے درخت کی ایک موٹی جڑ پر سر ٹکاکر لیٹ گئے اور بے بادل آسمان کو گھورتے رہے۔ پتہ نہیں اندر کندن بنا کہ رانگے کا رانگا ہی رہا۔ پتہ نہیں طوطے نے پڑھ کے دیا کہ گونگے کا گونگا ہی رہا۔ کالا باغ سے پہلی بار نکلنا انہیں یاد تھا۔

    حضرت خواجہ عثمان دامانی کی حاضری میں جب انہیں پیش کیا گیا تو ان سے زیادہ مولوی بخشے جی کی حالت غیر تھی۔ ہکلا ہکلا کر مولوی جی نے کہا کہ حضور خواجہ سائیں یہ بچہ اللہ کے کلام سے محبت کرتا ہے۔ تجوید اس حقیر کو جتنی آتی تھی، سکھلا دی۔ ترجمہ اور تفسیر اس دربار میں سیکھ لےگا اور خواجہ سائیں سرکار کی نظر ہو گئی تو راہِ سلوک پرچل پڑےگا۔ آگے اس کے نصیب۔ بندگان خدا کے کام آنا اس نے اپنے کٹمب قبیلے سے سیکھا ہے۔۔۔کالا باغ کے سجل قریشیوں کا پتر ہے ویسے ان گھڑ کسان بچہ ہے۔۔۔اجازت ہو جائے تو حاضری میں موجود رہے۔

    سفید براق خواجہ سائیں کے مسکراتے ہوئے چہرے پر جیسے خاص فضل علی کے لیے پیار کی ایک لہر آئی۔ وہ کچھ دیر فضل علی کے چہرے پر آتے جاتے رنگ دیکھتے رہے۔ اشارے سے قریب بلایا، شانے پر ہاتھ رکھا اور میٹھی آواز میں بولے، ’’ان گھڑ ہے مگر اصیل ہے۔ مولوی جی، بوڑھے عثمان کو اب اتنی مہلت نہیں ملےگی کہ اس بچے کی خدمت کر سکے۔ چھوڑ جاؤ۔ دندے والے سید سے بات ہوگی۔ آگے جو صاحب کی مرضی۔‘‘ اور یہ صاحب ہی کی مرضی تھی کہ فضل علی، حضرت خواجہ عثمان دامانی کے دامان عاطفت کی پناہ میں زیادہ دن نہ رہ سکے۔ خواجہ سائیں نے ان کا ہاتھ اپنے خلیفہ اول سید لعل شاہ دندانی سکیسری کے ہاتھ میں دے دیا اور مسکرا کر فرمایا، ’’دندے والے سید کے ساتھ چلے جاؤ، یہاں سے آگے راستے نکلیں گے۔‘‘

    اور دندہ وہ بستی تھی جہاں فضل علی پر اللہ کا کرم خاص شروع ہوا۔ سید لعل شادہ دندانی نے تربیت کا آغاز کیا اور مدارج سلوک طے کروانے شروع کیے۔ نا تراشیدہ ہیرے کو تراشا جا رہا تھا۔ آب دی جا رہی تھی۔ مگر فضل علی ابھی لاتعین کے دائرے تک بھی نہیں پہنچائے جا سکے تھے کہ صاحب کی طرف سے سید لعل شاہ کا بلاوا آ گیا۔

    ’’سیدی! مرشدی! سیدی! مولائی!‘‘ جھٹکے سے فضل علی اٹھ کر بیٹھ گئے۔ نئے سورج کی ہلکی روشنی میں، صبح کی ہلکی خنکی میں ایک تاریک رات کی یاد اپنا گہرا سایہ ڈالتی ہوئی گزر گئی تھی، پسینے میں جیسے نہائے ہوئے وہ ٹاہلی کے نیچے سے اٹھے اور تازہ بوائی کیے ہوئے کھیت کی مینڈ پر ٹہلنےلگے۔ پیرومرشد کی مفارقت کا زخم پھر کیوں رسنے لگا۔ سید لعل شاہ کے بعد بھی اللہ نے انہیں بےآسرا تو نہیں چھوڑا تھا۔ ہاں اگر حضرت خواجہ عثمان دامانی کے فرزند خواجہ سراج الدین نہ سنبھال لیتے تو فضل علی تو دندے ہی میں مر گئے ہوتے۔ یہ صاحب کی مرضی تھی کہ سید لعل شاہ دندانی کے وصال کی خبر سن کر خواجہ سراج تعزیت کے لیے دندے تشریف لائے اور فضل علی کو اس حال میں دیکھا کہ مرشد کے بعد جینے کی امنگ جیسے ختم ہی ہو گئی ہے اور گریہ و زاری ہے کہ رکنے کا نام نہیں لیتی۔ خواجہ سراج الدین کہ ان کے دادا پیر کے صاحبزادے تھے۔ مرشدی سید لعل شاہ کو حقیقی بھائی کے مثل اور باپ کے بعد رہنما جانتے تھے اور خود صاحب حال تھے۔۔۔سو وہ سایہ دار بادل کی طرح آئے اور فضل علی کو نہال کر گئے۔

    انہوں نے کالا باغ والے فضل علی کو غم واندوہ سے پچھاڑیں کھاتے دیکھا تو اپنے درویش باپ کے سے میٹھے لہجے میں پوچھا، ’’فضل علی، کیا مرنے والے کا سوگ منارہے ہو؟‘‘لہجے کی مٹھاس اور آواز کی کھنک حضرت خواجہ سائیں کی تھی۔ فضل علی نے آنکھیں کھولیں اور دوزانو ہو بیٹھے، سرجھکا لیا مگر آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔ خواجہ سراج نے پھر سوال کیا، ’’فضل علی، بیٹے، کیا مرنے والے کا سوگ منا رہے ہو؟‘‘

    ’’اپنی قسمت کو روتا ہوں خواجہ سائیں۔ میں بدنصیب ان گھڑ کا اَن گھڑ ہی رہا۔۔۔مرشد وصال کر گئے۔‘‘ خواجہ سراج نے اسی طرح مہربان لہجے میں پوچھا، ’’کیا پدر محترم نے ہاتھ پکڑ کر یہ نہیں کہا تھا کہ سید لعل شاہ کے ساتھ چلے جاؤ۔ یہاں سے آگے راستے نکلیں گے؟‘‘

    ’’بےشک، حضرت خواجہ سائیں درویش نے یہی فرمایا تھا۔‘‘

    ’’تو اللہ کی ذات پر بھروسا کرو، رستے نکلیں گے، جو نعمتیں واپس لیتا ہے، وہی نعمتیں دینا بھی جانتا ہے۔ کیا پتہ ہمارے نصیب میں ہی تمہاری کچھ خدمت کرنی لکھی ہو۔‘‘

    یہ بہت واضح حکم تھا۔ فضل علی نے اپنے کانپتے ہاتھوں سے خواجہ سراج الدین کا دایاں ہاتھ تھام لیا، اسے بوسہ دیا پھر اللہ اللہ کے نعرے مارتے ہوئے والہانہ رقص شروع کر دیا۔ حضرت خواجہ عثمان دامانی کی نسبت راست جو دندہ شریف پہنچ کر بالواسطہ ہو گئی تھی اب بلا واسطہ جاری ہو گئی کیونکہ خواجہ سائیں واصل باللہ کے فرزند خوش خصال خواجہ سراج الدین نے فضل علی کو تکمیل سلوک کے آخری مراحل طے کرانے کی خود سے پیش کش کی تھی اور اس ہیرے کو تراشنے، آب دینے کا ذمہ لے لیا تھا۔ سو اس کے بعد موسیٰ خیل کا دربار فضل علی کی تربیت گاہ قرار پایا اور وقت جو خالق زماں کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے۔ وہ گزرتا ہے تو لگتا ہے ایک سبک سیر دریا ہے کہ بہتا چلا جاتا ہے تو کتنی ہی کنکریوں کو توڑ پھوڑ کر ریزہ ریزہ کرتا ہے، تو کتنے ہی سنگ ریزوں کو جلا دے کر آبدار موتی بناتا ہے۔

    خواجہ سراج الدین موسی خیل سے بغرض علاج دہلی تشریف لے گئے اور چتلی قبر محلے میں حضرت میرزا مظہر جانجاناں اور حضرت شاہ غلام علی کے مزارات کے سجادہ نشیں حضرت شاہ ابوالخیر کے وہاں قیام کیا تو ایک گوہر آبدار کو تربیت صدف سے باہر آنے کا اذن ہوا۔ فضل علی کو بائیس خواجہ کی چوکھٹ سے طلب کیا گیا تھا۔ ارشاد شیخ تھا کہ فوراً دہلی پہنچو۔ دھڑکتے دل کے ساتھ فضل علی، موسیٰ خیل سے روانہ ہوئے، دہلی پہنچ کر شیخ کی قدم بوسی کی۔ خواجہ سراج نےحکم دیا کہ دستار خلافت لائی جائے۔ فضل علی لرزتے وجود کے ساتھ سرجھکائے گویا ایک خواب کے عالم میں دو زانو بیٹھے تھے۔ برستی آنکھیں جیسے راہ سلوک کی تمام مسافتوں کی کہانی سنا رہی تھیں۔ حکم ہوا آگے آؤ۔ جو ان صالح ارشاد کی تعمیل میں شیخ کے قدموں میں جھکتا چلا گیا۔

    خواجہ سراج الدین نے اپنے ہاتھوں سے دستار باندھی، سند خلافت عطا کی تو ایک مستی کے عالم میں شیخ کے سجا دے کو بوسہ دیا۔ سند خلافت کو اپنی عرق آلود پیشانی پر چسپاں کر لیا اور اللہ کا نعرہ مار ایسی سرخوشی کے عالم میں رقص شروع کر دیا کہ مجلس میں موجود صاحبان حال وجد میں آ گئے۔ دور دراز کی مسافتیں جھیلتا کالا باغ کے قریشیوں کا جوہر قابل جسےمولوی بخشے جی نےان گھڑ کسان بچہ کہہ کر حضرت دامانی کے دربار میں پیش کیا تھا۔ بائیس خواجہ کی چوکھٹ پر رقص کناں اور نعرہ زناں طلوع ہو رہا تھا کہ اللہ اللہ اللہ۔

    اور اللہ اللہ اللہ کہ تازہ بوائی کیے ہوئے کھیت کی مینڈ پر کالا باغ کے روشن آسمان کے نیچے خاکستری رنگ کے گاڑھے کا پیوند لگا کرتا پہنے یہ خواجہ فضل علی قریشی تھے کہ رقص کرتے تھے۔ یہ اپنے بچپن کے دوستوں کے لئے بھا فضل تھے اور کالا باغ کے جوانوں، بوڑھوں، بچوں کے بھائی فضل علی تھے اور اب ہفتوں کی مشقت کے بعد تیسری بار، دریا سے دور پڑی اپنی ضدی زین میں بیج بکھیرنے کے بعد کسی باطنی اشارے سے خبر پاکر شکرگزاری میں رقص کرتےتھے کہ لگتا تھا، انہوں نےابھی ابھی مٹی کی خاکستری چادر اوڑھ کر سوئے ہوئے بیج کو اکھوے نکالتے دیکھا ہے۔

    فضل علی کی مرادوں کی فصل بھی تو تیسرے اشارے پر بارور ہوئی تھی، پہلے خواجہ عثمان دامانی نے پھر سید لعل شاہ دندانی نے ان کی دستگیری کی تھی۔ پھر خواجہ سراج الدین نے رستے پر ڈال خلافت کی سند و دستار دے انہیں با مراد کیا تھا۔ تو اللہ کے کرم سے یہ تیسری بوائی مشکور ہوئی تھی اور طریقت و سلوک کے اکھوے پھوٹنا شروع ہوئے تھے۔

    تو شاید یہی کچھ اس کھیت کے ساتھ بھی ہونا ہے اور امر الٰہی بھی یہی ہے کہ مشقت کی جائے اور مشقت اور مجاہدے اور ریاضت کے بغیر کیوں کسی کو کچھ ملے۔ تو کیا محبوب خدا سے بڑھ کر کہیں کوئی ہوا ہے، تو کیا ایک پہاڑی کی کھوہ میں بیٹھے سرکار دوعالمؐ امر الہی کی تکمیل میں ریاضت نہیں فرماتے تھے، تو اللہ اللہ اللہ محبوب پاکؐ کے صدقے میں میرے دوستوں کی، میری اس حقیر ریاضت کو قبول فرما کہ اللہ اللہ اللہ کہ زمین تیری اور موسم تیرے اور آسمانوں سےاترنے والا پانی تیرا اور اگتی فصلوں کے چٹختے اکھوے تیرے کہ اس خاکستری چادر کو چیر کر تیرے سورج سے آنکھ ملاتے ہیں کہ تیری مٹی سے رس لیتے ہیں کہ تیری ہوا کے ساتھ لہلہاتے ہیں کہ اللہ اللہ اللہ اور اللہ اللہ اللہ اور اللہ اللہ اللہ۔

    خواجہ فضل علی تین شب و روز کھیت کی مینڈ پراگی ٹیڑھی میڑھی ٹاہلی کے نیچے بخار میں پڑے بھنتے رہے۔ کالا باغ کے جوان ضد کر کے انہیں بستی میں لے آئے تو بستی کی طرف آتے ہوئے بار بار ان سے وعدہ لیتے جاتے تھے کہ یارو، دریا سے پانی لانے میں کوتاہی تو نہیں کروگے، دیکھو اکھوے چل پڑے ہیں۔ دیکھو رب کی رحمت جوش میں ہے، اس کی پذیرائی میں کمی نہ ہونے پائے۔ بیبے نے خواجہ فضل علی کی جلتی ہوئی پیشانی پر ہاتھ رکھ کر وعدہ کیا کہ یارا درویشا فکر نہ کر۔ ہم کالا باغ کے کنکر ہیں پر کسان بچے ہیں۔ درویش کی کھیتی کو سوکھنے نہیں دیں گے۔

    پھر ایسا ہی ہوا کہ خواجہ فضل علی کے کھیت نے اکھوے نکالے اور جب پودے بالشت بالشت بھر کے ہوئے تو پورا کالا باغ دیکھنے کو امڈ آیا اور لوگوں نے ایک آواز ہوکر کہا کہ کالا باغ نے دنیا کو ایک درویش دیا اور خواجہ فضل علی اللہ لوک ہے اور قریشیوں کا سجل پتر تو بابا دامانی کا سچا جانشین ہے۔ اس کے فیض سے تو میانوالی سے قحط اور بھوک مری دفع ہوگی اور یہ تو ابر رحمت ہے بارش لے کر آئےگا اور لوگ اب خواجہ فضل علی قریشی کے حوالے سے بارشوں کی راہ دیکھنے لگے۔

    اللہ اللہ کے آہنگ پر رقص کرنے والوں کا دائرہ بڑھنے لگا۔ بات ملکوں تک پہنچی تو تپک برداروں کی معیت میں مشکی گھوڑے پر چڑھ کر ڈاڈ ملک تک فضل علی قریشی کا کھیت دیکھنے آیا اور وہ بہت مرعوب ہوا۔ اس نے اپنے آدمیوں کو اشارہ کیا کہ خواجہ فضل علی کے لیے زندگی آسان کر دی جائے اور علاقے میں خیر خیرات کے کام بڑھا دیے جائیں۔ شاید کہ یہ جوان اللہ لوک ہے۔

    اور ایک رات میں کسی وقت خواجہ کی آنکھ کھل گئی تو کسی آواز نے کہا کہ اب تو خلق اللہ کی خدمت میں بڑا مزا ہے کہ فضل علی قریشی کے رستے آسان ہوئے ہیں۔ بڑی بڑی ناموریاں ملتی ہیں اور اب تو وہ رب جی کے چٹیوں چٹے نام کی، اس کے نوروں نور نام کی مشعل اٹھائے ہوئے دوڑا دوڑا جائےگا اور یہ تو دیکھو اس کے نصیب واہ واہ ہوئے کہ رب جی نے طوطے کو نام رٹایا اور اپنے مٹھو طوطے کو خوبوں خوب اڑایا کہ دوروں دور پہنچایا کہ فضل علی قریشی اب تو دوڑا دوڑا جائےگا کہ جگہ جگہ جا جا کے حق حق اللہ اللہ حق اللہ اللہ کہ اللہ اللہ اللہ کہ اللہ کا نام پہنچائےگا اور یہ تو دیکھو کہ فضل علی خواجہ کے پرکھوں کے باڑے وسیع ہوئے اور گھر ان کے اونچے ہوئے کہ قریشیوں کے ناموں کے تھمبے بلند ہوئے۔ انہیں تو میرے کاموں سے بڑی بڑی عزتیں، بڑی بڑی ناموریاں ملیں اور یہ قحط سالی تو میرے لیے ناموری لے کر آئی۔ تو اب میں دلجمعی کے ساتھ اللہ کا نام میاں والی میں اور پھر پنجاب بھر میں پھیلاؤں گا اور لوگ تو اب میری سنیں گے کہ واہ درویش۔ واہ درویش۔ واہ درویش۔

    اچانک ایک چمک کے ساتھ زانو پر دو ہتڑ مار خواجہ فضل علی قریشی کھڑے ہو گئے۔ گریبان میں ہاتھ ڈال خاکستری جامہ چاک کر ڈالا اور رات کے سناٹےمیں بےآواز چیخے کہ او فضل! اوان گھڑے! اوان گھڑے! تو کالا باغ کے ٹبوں ٹیلوں پر بیٹھے ہوئے گدھوں سےکچھ بہتر تو نہیں ہے۔ وہ بھی قحط سالی سے مسرور ہیں کہ شکم سیری کے لیے کھیتوں، گڑھیوں، گلیاروں میں مردار جانوروں کا منوں گوشت موجود ہے اور خلق اللہ کی مصیبتوں پر ان کے بدنما شکم پھولتے جاتے ہیں۔ ارے تو تو کندن بننےنکلا تھا پر رانگے کا رانگا ہی رہا۔ او طوطے، او گونگے اور انگے، اوکچے رانگے تو نے تو مجھے ہلاکت میں ڈال دیا۔

    پھر سکون کی گہری نیند سوتے ہوئے عقیدت مندوں کے درمیان سے فضل علی سائے کی طرح نکلے اور باڑے کے باہر آ کھڑےہوئے۔ کسی نے بیرونی کچی دیوار پر گیرو گھول کر ٹیڑھے میڑھے حروف میں ’’ڈیرہ درویش حضرت خواجہ فضل علی قریشی روشن ضمیر، خلیفہ ارشد حضرت بابا خواجہ سائیں سراج الدین دامانی‘‘ لکھ دیا تھا۔ شیخ کا نام نامی پڑھا، تڑپ کر دیوار سے جا لپٹے اور بابا سراج کے نام پر پیشانی ٹکا کر ہچکیاں لے لے کر اس طرح روئے کہ لگتا تھا سینہ شق ہو جائےگا۔

    طبیعت کو کچھ قرار آیا تو دیوار کا لکھا ایک بار پھر پڑھا، ایک ٹھنڈے بےرحم طیش کے عالم میں ’’حضرت خواجہ فضل علی قریشی روشن ضمیر، خلیفہ ارشد‘‘ کے الفاظ پر دونوں ہتھیلیاں تیمم کے انداز میں ماریں اور چہرے پر مل لیں۔ دوہتڑ مارتے تو دیوار کا کچا گیرو ہتھیلیوں پر چھوٹ آتا، پھر اسے اپنےچہرے پر مل لیتے اور زیر لب کہتے جاتے، ’’لے خواجے لے۔۔۔لے درویشے لے۔۔۔لے روشن ضمیرے لے۔۔۔لے خلیفے لے۔‘‘ تو اس طرح اللہ نے ایک قیامت کی گھڑی میں انہیں سرخ رو کیا۔

    خواجہ فضل علی دیوار سے ہٹے تو اب وہاں چمکیلے گیرو سے بس اتنا لکھا رہ گیا تھا کہ ’’ڈیرہ درویش حضرت بابا خواجہ سائیں سراج الدین دامانی۔‘‘ اور خواجہ فضل علی باڑے کی دیوار سے ہٹے تو سیلاب سے ڈھے جانے والی دیوار کی طرح گھٹنوں پر ہتھیلیاں ٹکا کر بیچ گلیارے میں بیٹھ گئے۔اندر باڑے میں قریب و دور سے آنے والے ارادت مند اور کٹمب قبیلے والےاور بچپن لڑکپن کے دوست خشک سالی اور قحط کی سختیاں بھولے ہوئے چین کی نیند سوتے تھے اس لیے کہ ان کے حسابوں ایک رحمت باری خواجہ فضل علی درویش کی صورت میں جاگ رہی تھی۔ ان کی فصلوں، ان کے رزقوں پر ابر باراں کی طرح سایہ فگن تھی۔

    تب خواجہ فضل نے باڑے کی طرف اور اپنی طرف دیکھا اور اونچی آواز میں بولے، ’’لے طوطے پڑھ اور پڑھا کہ تمام موجودات پر سایہ رحمت تو وہی ہے اور رحمت بھی وہی اور رحیم بھی وہی ہے کہ ارحم الراحمین بھی وہی ہے کہ سائے تو اس کے نور میں، اس کے نوروں اجلے نور میں ایسے معدوم ہوئے جاتے ہیں کہ اللہ اللہ۔‘‘ پھر خواجہ فضل علی آہستہ آہستہ باڑے کے دروازے کی طرف بڑھے، سادہ دل ضرورت مندوں کی بےچارگی ایک بچکانہ حیرت کے ساتھ خواجہ فضل کا منھ تکتی تھی کہ دیہاتی چمرودھے جوتوں کا ایک بے ترتیب ڈھیر دروازے پر پڑا تھا۔ ان میں کہیں کہیں شہروں سے خریدے ہوئے نئے طرز کے جوتے بھی تھے۔ کیونکہ روزگار اور کام دھندے کے لیے انگریز کی عملداری میں دور دورتک جانے والے نئے طرز کی زندگی کودھیرے دھیرے چھوکر دیکھ بھی رہے تھے۔

    کھیتوں، کھلیانوں، بیڑوں کی مٹی جوتوں سے لپٹی ہوئی، میلوں سے چل کر آنے والوں کے ساتھ اڑتی ہوئی دھول جو تڑخے ہوئے چمڑے کی دراڑوں میں جمی ہوئی، گھسے ہوئے پرانے چمڑے کے ریشوں اور پسینے سے تہہ بہ تہہ جمی ہوئی پپڑیوں سے بھاری کھسے اور طلے کے کام کی نوکدار شوقین مزاجوں والے نوجوان زمینداروں کی نویلی جوتیاں اور لکڑی کی کھڑاویں اور مونچھ سے بٹی ہوئی کھیڑیاں اور چپکیاں۔۔۔سو خواجہ فضل علی ان کے درمیان دوزانو بیٹھ گئے اور گریباں دریدہ کرتے سے ایک ٹکڑا پھاڑکر محبت، نرمی اور توجہ کے ساتھ ایک ایک جوتے کو جھٹک جھاڑ پونچھ کر مٹی چھڑا چھڑا کر اپنے دامن کی اس دھجی سے مقدور بھر چمکاکر اور جوڑیاں بنا بنا کر قطاروں میں رکھتے گئے۔

    ایک میٹھی آسودگی کا دریا سینے سے بہتا ہوا بازوؤں میں اور ہتھیلیوں میں اور پور پور میں اور انگلیوں کے سروں سے گزر رہا تھا۔ تو کالا باغ کے ٹبوں، ٹیلوں، کنجوں، پتنوں سے یہ رات اسی طرح گزری۔

    مأخذ:

    برج خموشاں (Pg. 56)

    • مصنف: اسد محمد خاں
      • ناشر: سیفورٹین، کراچی

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے