Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

چاند پر موت

بلند اقبال

چاند پر موت

بلند اقبال

MORE BYبلند اقبال

    ’’۔۔۔بس تھوڑی ہی دیر کے لیے زمین کا دل کانپا تھا اور پھر اس کا سینہ چھلنی ہوتا چلا گیا۔ فضاء بےبسی سے زمین کو کٹتے دیکھنے لگی۔ آگ اور دھویں کا ایک طوفان تھا جو اس کے چٹان جیسے سینے سے نکل کر اردگرد کی فضاء کا دم گھونٹ رہا تھا۔ آگ کی لپٹیں زمین کو تہہ در تہہ جلا رہی تھیں۔ اس کی کوکھ جو کھربوں اربوں سالوں سے سکون و آشتی کا سمندر چھپائے بیٹھی تھی لمحے بھر میں ایک ان دیکھے عذاب کا نشانہ بن گئی اور اب ایک ایسی بانجھ کوکھ کی شکل میں ڈھل گئی تھی جسے جنم جنم سکون کی خواہش میں جلنا تھا۔’’ زندگی موت کی بھی تو ہوتی ہے ’’روتی ہوئی فضاء نے زمین کو بلکتے دیکھ کر دلاسہ دیا اور پھر ہوا کی شکل میں بکھرنے لگی۔ زمین نے پہلی بار وقت کا مزا چکھا اور لامتناہی سے متناہی ہونے لگی، پھر دیکھتے ہی دیکھتے اس کے دامن میں صدیاں سمٹنے لگی۔‘‘

    یہ کہہ کر دادا نے ایک گہری سانس لی اور بادلوں کو تکنے لگا پھر کچھ ہی لمحوں بعد اپنی ڈبڈبا ئی آنکھوں سے آسمان پر چاند کو ڈھونڈنے لگا مگر بادل کچھ اس طرح تہہ در تہہ ایک دوسرے پر چڑھے ہوئے تھے جیسے وہ چاند رات نہیں بلکہ اماوس کی رات ہو۔ چاند کو نہ پاکر دادا نے مایوسی سے ا پنی آنکھیں بند کر لیں اور ایک بار پھر کھوئے ہوئے منظر سے خود کو جوڑنے کی کوشش کرنے لگا۔ چارپائی کے بان بوڑھے داداکے بوجھ سے پل بھر کے لیے چرچرائے اور اپنی کھوئی ہوئی نیند ڈھونڈنے لگے مگر چارپائی کے بانوں کی آواز سن کر دادا کا پوتا کسمسا سا گیا اور پھر دادا کا دامن کھینچ کر پوچھنے لگا۔۔۔ ’’دادا پھر زمین کا کیا بنا؟’‘

    ’’۔۔۔ فضاء ہوا میں ڈھلی، پہلے پہل تو بہت ہی بھڑکی اور اپنی آگ میں خوب ہی جلی مگر پھر زمین کے کرب میں اشکبار ہوتی چلی گئی اور بالاخر پانی پانی ہو نے لگی۔ آگ جو ٹھنڈی ہوئی، زمین کی کوکھ پھر سے ہری ہونے لگی۔ ہر طرف سبزہ اگنے لگا پھر اس میں مور بھی ناچنے لگے۔ چپکے چپکے زمین کا سینہ دودھ سے بھرنے لگا۔ ممتا کی ماری اپنا کرب بھول کر سانپوں کو دودھ پلانے لگی۔’’ بانجھ کوکھ سے، کرب پیدا ہوتا ہے، امن و سکون نہیں ’‘فضاء نے زمین کی تنبیہ کی مگر جیسے شکاری کے جال میں کسی بےبس پرندے کی طرح، وہ تخلیق اور ممتا کے درمیان محض پھڑ پھڑا کر رہ گئی۔ دوسری طرف زمین آستینوں کے سانپ پیدا کرنے لگی جو انسانوں کی شکل میں تھے اور اپنے پوٹوں میں زہر چھپائے بیٹھے تھے۔’‘

    یہ سن کر پوتے نے اپنی دونوں آستنیوں سے ہاتھ نکال لیے اور دادا کے دامن کو اپنی مٹھیوں میں بھینچ لیا۔ دادا نے پیار سے پوتے کو سہلایا اور دھیمے سے دلاسا دیا۔۔۔ ’’جیسے تم مجھ سے جڑے ہو میرے پوتے، گزرے اور آنے والے وقتوں کی طرح دامن بھی آستیوں سے سلے ہوتے ہیں۔۔۔’’ ایک لمحے کے لیے امید کی کوئی انجانی کرن پوتے کی خوابیدہ آنکھوں میں چمکی مگر پھر اماوس کے گہرے اندھیرے میں ڈوبتی چلی گئی کیونکہ دادا کی پلکوں کا آنسو جو چاند کی طرح چمک رہا تھا وہ اصل میں چاند نہیں تھا۔ چاند تو واقعی تہہ در تہہ ادلوں تلے چھپا ہوا تھا۔ پوتے نے غمناک آواز میں دادا سے پوچھا۔۔۔ ’’اچھا پھر زمین کا کیا بنا ؟‘‘

    ’’۔۔۔فضاء زہریلی ہواؤں سے بھرنے لگی۔ زمین کے آستین کے سانپ اسے ڈسنے لگے اور اس کی کوکھ کو سانپوں سے بھرنے لگے۔ان کے زہر سے فضاء ایسی آلودہ ہوئی کہ خود اس کے لیے بھی سانس لینا مشکل ہوتا چلا گیا۔اِن آستین کے سانپوں نے زمین کے جگر کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور پھر وہ ایک دوسرے کے بچوں کو کھانے کے لیے اپنے قد سے بڑے ناگ اور اژدھے بنانے لگے جو اپنے منہ سے ہر رنگ کی آگ پھینکتے تھے اور لمحے بھر میں کھربوں اربوں ز ند گیوں کو موت سے بدل دیتے تھے۔ زمین کے سینے کو آگ سے بھر دیتے تھے اور اس کی کوکھ سے وہ نفرت پیدا کرتے کہ زمین بانجھ کو کھ کی خواہش میں رونے لگتی تھی۔‘‘

    بوڑھا دادا یہ کہ کر بلک بلک کر رونے لگا اور پھر آسمان کی طرف دیکھ کر سسکیاں بھرنے لگا۔ اچانک پوتے کو لگا جسے دادا کے آنسووں میں چاند چمک رہاہو۔ پوتے نے بیتابی سے دادا کا دامن کھینچا اور کہا۔۔۔ ’’دادا چاند نکل آیا۔’’ بوڈھے دادا نے سر اٹھا کر چاند کو دیکھا تو اس کا چہرہ خوف سے فق ہو گیا۔۔۔ زمین کا ایک ناگ چاند کے سینے کو چیر رہا تھا۔

    لمحے بھر کے لیے چاند کا دل کانپا اور پھر اس کا سینہ بھی چھلنی ہوتا چلا گیا۔

    چاند پر کے بادل ایک کے پیچھے ایک چھپ رہے تھے۔ آگ اور دھویں کا ایک طوفان تھا جو اس کے چٹان جیسے سینے سے نکل کر آس پاس کے بادلوں کا دم گھونٹ رہا تھا۔ آگ کی لپٹیں اس کو تہہ در تہہ کو جلا رہی تھی۔۔۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے