aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

چاند تاروں کا لہو

اختر جمال

چاند تاروں کا لہو

اختر جمال

MORE BYاختر جمال

    کہانی کی کہانی

    یہ یوروپی ملک بوسنیا کے خانگی جنگ پر مبنی افسانہ ہے۔ اس کے مرکز میں ایک ایسا مسلم خاندان ہے جو اپنے ملک کی تہذیب اور تمدن کو برقرار رکھنے کے لیے ایک کے بعد ایک اپنے عزیزوں کی قربانی دیتا ہے۔ ساتھ ہی افسانے میں دنیا کے طاقتور ممالک اور اقوام متحدہ جیسی بین الاقوامی تنظیموں کو بھی نشانہ بنایا گیا ہے کہ وہ کیسے اپنے مفاد کے لیے غریب اور جنگ سے پریشان ممالک کی مد د کے بہانے انہیں تباہ کر دیتے ہیں اور اس کے شہریوں کی زندگی عذاب کر دیتے ہیں۔

    جب تم اپنا جام اسکاچ سے بھرتے ہو یا جب تم جوتے کے تلے سے کیڑا مکوڑا کچل کر چلتے ہو یا پھر جب تم اپنی گھڑی دیکھتے ہو یا پھر جب تم اپنی ٹائی درست کرتے ہو اس لمحہ

    لوگ مر رہے ہیں۔

    شہروں میں جن کے عجیب نام ہیں گولیوں کی بوچھاڑ ہے آگ

    کے شعلوں میں گھرے ہوئے لوگ جنہیں یہ نہیں معلوم کہ آخر کیوں؟

    لوگ مر رہے ہیں

    چھوٹے چھوٹے دیہاتوں اور شہر وں میں جنہیں تم نہیں جانتے نہ وہاں

    چیخ و پکار کا وقت ہے اور نہ خدا حافظ کہنے کا موقعہ ہے

    لوگ مر رہے ہیں

    جب تم چناؤ کر رہے ہو ان لیڈروں کا جو باتیں کرکے بھول جاتے ہیں

    اب خوف و نفرت ہے پڑوسی بھائی بھاگ رہا ہے ہابیل کا دیا ہوا

    سبق تاریخ دھرا رہی ہے

    لوگ مر رہے ہیں

    جب تم سامنے لگے ہوئے سکور بورڈ کو پڑھ رہے ہو یا پھر

    جب ہر بار نیا سکور دیکھتے ہو یا پھر جب تم تالی بجاتے ہو

    یا اپنے بچے کو لوری سناتے ہو

    لوگ مر رہے ہیں

    وقت ایک خونی درندہ بن گیا ہے جس کے جبڑے کھلے ہوئے ہیں

    اور جو مر گئے ہیں اور جو مارے جا رہے ہیں وقت انہیں

    بتائےگا کہ کون سا قبیلہ باقی ہے اور وہ جو باقی ہے

    کیا وہ تمہارے جیسا ہے؟

    لوگ مر رہے ہیں

    نوبل انعام یافتہ شاعر بروڈسکی کا یہ نثری ترجمہ اس نظم کا ہے جو اس نے بوسنیا کی تباہی سے متاثر ہو کر لکھی ہے۔

    بوسنیا۔۔۔ ہماری دنیا کی وہ حد جہاں مشرق اور مغرب ملتے ہیں۔ اونچے سرسبز پہاڑ اور نیچے بستیاں جن کے فن تعمیر میں مشرق اور مغرب سرجوڑے دکھائی دیتے ہیں۔

    یہاں کی تہذیب، تمدن، موسیقی، علم و ادب ہر شعبہ زندگی میں مشرق اور مغرب کا یہ ملاپ نظر آتا ہے اور سب سے زیادہ یہاں کے خوبصورت لوگوں میں! یہ معلوم ہوتا ہے کہ عرب، مصر، یونان اور روم کاسارا حسن، اسی خطہ میں سمٹ آیا ہے۔ انسانی چہرے نہیں زمین پر چاند ستارے اتر آئے ہیں۔ مذاہب مختلف ہوتے ہوئے بھی مذہبیوں کی اقدار تو ایک ہی ہیں یہ بات کبھی یہاں کے لوگوں کے میل جول کو دیکھ کر سمجھ میں آتی تھی۔ لوگ علم و ادب اور موسیقی کے شیدائی تھے۔ ان میں سے ہر ایک اپنے گھر کا راجہ تھا اور راجہ کہلانے پر فخر کرتا تھا اور راجہ کا مطلب بادشاہ نہیں بلکہ شریف آدمی سمجھا جاتا تھا وہ بھی ایک ایساہی راجہ تھا۔

    اس کا نام حامد پاسک تھا۔ اس کا کنبہ ان لوگوں کی اولاد میں سے تھا جو فردانند اور اس کی ملکہ کے ظلم سے تنگ آکر سپین چھوڑ کر اس سرزمین میں آباد ہو گئے تھے۔ خلافت عثمانیہ کے زمانے سے ہر مذہب کے لوگ میل جول اور محبت سے یہاں رہ رہے تھے وہ سب لوگ جو ظلم وستم کا شکار ہوتے یورپ سے ہجرت کرکے اس جگہ آباد ہو جاتے۔ یہ بستی ایک پناہ گاہ تھی۔ مارشل ٹیٹو کے عہد تک یہ فضا قائم تھی یا کمیونزم کا آہنی پنجہ یوگو سلاویہ کو جوڑے ہوئے تھا۔

    جب اولمپک کے کھیل اس بستی میں ہوئے تو دنیا نے اس خوبصورت بستی کا نام سنا اورٹی وی پر اس کی جھلکیاں دیکھیں۔ دور دراز جگہوں کے کھلاڑی سونے کے تمغوں سے زیادہ خوبصورت یادیں اپنے ساتھ لے گئے۔

    پھر ایک دن اچانک بستی میں شور اٹھا کہ ’’پاپک ‘‘آ گئے ’’پاپک‘‘ آ گئے۔ پاپک وحشی، ظالم اور شیطان صفت لوگوں کو کہا جاتا ہے۔ حامد پاسک اپنے گھر سے یونیورسٹی جانے کے لیے نکلے تو انہوں نے اچانک دو پہاڑیوں پر سے مشین گنوں کی آواز سنی اور بستی پر گولیوں کی بوچھاڑ ہونے لگی۔ مرد عورتیں بچے سب ہی ان گولیوں کی زدمیں تھے۔ تھوڑی دیر میں لاشوں کے ڈھیر لگ گئے۔ یہ سب اتنے اچانک طریقے سے اتنے بڑے پیمانے پر ہوا کہ کسی کی سمجھ میں نہیں آیا کہ کیا ہو رہا ہے۔ بستی کی فوج اور نوجوان مقابلے کو نکلے۔ مگر پاپک جدید ترین ہتھیاروں سے لیس تھے اور فوج کے پاس ان کے مقابلے کا سامان نہ تھا۔ نوجوان نہتے تھے اور پھر وہ اتنی اونچی جگہوں سے پستی پرحملے کر رہے تھے کہ سر اٹھا کر ان کی طرف دیکھنے کی مہلت سے پہلے لاشوں کے ڈھیر لگ جاتے تھے۔ بموں کی بارش کے بعد جلتے ہوئے مکانوں سے آگ کے شعلے اٹھ رہے تھے اور شعلوں میں گھرے ہوئے لوگ مرد عورتیں، بچے بوڑھے بےبسی سے بھاگ رہے تھے۔ نہ اندر پناہ نہ باہر پناہ۔۔۔! جو آگ کے شعلوں سے بچ جاتے وہ سڑک پر جاکر گولیوں کی بوچھاڑ سے ڈھیر ہو جاتے۔۔۔!

    حامد پاسک اپنے ہی محلہ میں بے بسی سے گھومتے رہے اور سوچتے رہے کہ ان حالات کا کس طرح مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔

    حامد پاسک نے اپنی عمر کا ایک بڑا حصہ امریکہ میں گزارا تھا۔ وہ ایک یونیورسٹی میں پڑھا رہے تھے۔ ان کے چھوٹے بھائی ساجد ایک مشہور ڈاکٹر تھے۔ جب وہ ایک لمبے عرصہ بعد وطن آئے تو مٹی کی مہک نے انہیں روک لیا اور دونوں بھائیوں نے فیصلہ کرلیا کہ وہ وطن واپس آکر کم آمدنی میں ہی خوشی اور اطمینان کی زندگی بسر کریں گے۔

    حامد پاسک کا ایک بیٹا ڈاکٹر تھا اور بیٹی سائنس دان بننے کا خواب دیکھ رہی تھی۔ سب سے چھوٹی بیٹی آرٹسٹ تھی۔ چھوٹے بھائی کے دونوں بیٹے فوج میں چلے گئے۔ وہ بہت اچھے کھلاڑی بھی تھے۔دونوں بھائیوں نے قریب قریب ہی گھر بنائے تھے اور یہ کنبہ محلہ بھر میں ہر دلعزیز تھا۔ ان کے رشتہ دار دور دراز دیہاتوں میں تھے اور جب وہ شہر آتے تو یہ محسوس کرتے کہ حامد پاسک کا گھر انکے خاندان کا مرکز اور نشان ہے۔

    مگر اب جب سارے بوسنیا میں آسمان آگ برسا رہا تھا انہیں اپنے رشتہ داروں کی کوئی خبر نہ ملتی تھی۔ بس جب وہ کار کی بیٹری سے ریڈیو سنتے تو ٹمٹماتی ہوئی شمعوں کی مدھم روشنی میں یہ خبر سنتے کہ بوسنیا میں تہذیبی صفائی ہو رہی ہے۔ اس قتل عام کو دنیا Ethnic Clearing کا نام دے رہی ہے اور ٹی وی اور ریڈیو یہ خبریں سنا رہے ہیں کہ سرب کروٹ اور مسلمان لڑ رہے ہیں۔ یا پھر بار بار یہ سنتے کہ مسلمان مررہے ہیں۔حامد پاسک اکثر سوچتے کہ سائنس کی اتنی ترقی کے باوجود انسانی ذہن اور سوچ کیوں نہ آگے بڑھ سکی۔ وہ جو اپنے آپ کو تہذیب کی معراج پر سمجھ رہے ہیں یہ کیوں نہیں کہتے کہ انسان مر رہے ہیں جو کروٹ سرب اور زیادہ تر بوسنیا کے رہنے والے ہیں۔ انہوں نے پہاڑوں سے برسنے والے آتشیں گولوں سے اپنے ان پڑوسیوں کو بھی مرتے دیکھا تھا جو سرب اور کروٹ تھے۔۔۔ وہ جو ایک تہذیبی وحدت اور مضبوط رشتہ میں بندھے ہوئے تھے۔ مسلمان عیسائی اور یہودی سب مل جل کر رہ رہے تھے۔ ایک دوسرے کے تہوار اور غمی خوشی میں شریک ہوتے تھے۔ یکایک ایک دوسرے کے جانی دشمن کیوں بن گئے؟ وہ اور ان کے ساتھی ایک دوسرے سے یہ سوال کرتے جس کا جواب ان میں سے کسی کے پاس نہ تھا۔ ہٹلر نے جب عظیم تر سرب ریاست بنانے کا خواب دیکھا تھا تو جرمنوں کو اپنے علاوہ دوسرے لوگ کم تر نظر آتے تھے اور اب عظیم سرب ریاست بنانے کا خواب دیکھنے والے اور عظیم کروشیا کی بنیاد رکھنے والے اس اکائی کو توڑنا چاہتے تھے جس کا نام بوسنیا تھا۔۔۔ اور اسی لیے انہوں نے یوگوسلاویہ کے ٹکڑے کئے تھے اور اب بڑا ٹکڑ ا کس کے پاس آتا ہے۔۔۔ اس کی جنگ تھی اور مہذب دنیا اس کو تہذیبی صفائی کہہ کر آسانی سے در گز ر کر رہی تھی۔ یہ بات حامد پاسک اور ان کے ساتھیوں کو سمجھا رہی تھی کہ بڑی طاقتیں کمزور کی مدد کے نا م پر بھی اپنے مفاد کے لیے جنگ کرتی ہیں۔ اگر تیل کے بادشاہوں کی لڑائی ہو تو یو این او کسی شہر کی اینٹ سے اینٹ بجا سکتی ہے اور سارے اتحادی لڑاکا طیارے جمع کر سکتی ہے مگر جہاں مظلوموں کا خون بہہ رہا ہو نہتے لوگ مر رہے ہوں انہیں ہتھیار فراہم نہیں کر سکتی۔ اقوام عالم اپنے ضمیر کی لعنت سے مجبور ہو کر روٹی کے ٹکڑے البتہ پھینک سکتی ہیں۔ وہ جھوٹے وعدوں پر کہ بڑی طاقت کی مدد آنے والی ہے ایک عرصہ تک تکیہ کیے رہے۔۔۔ پھر بھیانک سچائی کا سامنا کرنے کی ہمت ان سب میں آ گئی۔

    ’’گولی لگنے سے پہلے روٹی کھالو‘‘۔۔۔ روٹی کے ٹکڑوں پرجھپٹنے اور اٹھانے والے اور زیادہ گولیوں کا نشانہ بنے جیسے قصائی ذبح کرنے سے پہلے پانی پلاتا ہے اسی طرح اقوام متحدہ مرنے سے پہلے روٹی دینا چاہتی ہے۔ معصوم بچے بموں کی بارش میں اسکول بس میں سوار ہو کر جا رہے تھے اقوام متحدہ کو بچوں پر ترس آیا تھا کہ انہیں کسی محفوظ مقام پر پہنچا دیا جائے۔ مگر راستہ میں بس پر بمباری ہوئی اور کئی بچے دم توڑ گئے۔ زخمیوں کو بڑی مشکل سے وہاں سے ہٹایا جا سکا۔۔۔ حامد پاسک اور ساجد نے اپنے سارے گھر کو ہسپتال کی شکل دے دی تھی مگر دوائیں ختم ہو گئی تھیں اور شہر کی دکانیں جو کھنڈر بن گئی تھیں ان میں کھانے پینے کی چیزیں تھیں اور نہ دوائیں تھیں۔ پھر بھی امدادی مراکز قائم کرکے لوگ کام کر رہے تھے۔ مٹی کا تیل تک نہ ملتا تھا۔ بجلی کٹ چکی تھی اور اب لوگ اپنے گھروں کا فرنیچر جلا کر چولہا جلا رہے تھے اور روشنی کر رہے تھے۔سخت سردی طوفانی بارش کے بعد جب برف بار ی کا سلسلہ شروع ہوا تو ٹوٹی ہوئی کھڑکیوں اور دروازوں میں ڈالی گئی پلاسٹک کی چادروں نے کام دینا چھوڑ دیا۔ ان سب تکلیف دہ حالات کے باوجود گھر سے باہر قدم رکھتے ہوئے کتنے بچے گولیوں کی زد میں آکر ہلاک ہو چکے تھے اور ان کے ننھے بستے خون آلودہ پڑے تھے اور ٹیٹو اسٹریٹ پر چلنے والے لوگ جب پہاڑوں سے آنے والی گولیوں کی زد سے بچنے کے لیے سر اور کمر کو جھکا کر چلتے تو وہ مارشل ٹیٹو کو یاد کرتے۔ شاید وہ اس آزادی کے اہل نہ تھے۔انہیں ابھی ایک لمبا سفر کرکے جمہوریت کا اہل بننا تھا۔۔۔ کمیونزم کے آہنی پنجہ نے انہیں جوڑ کر تو رکھا تھا۔۔۔! لکھنے پڑھنے اور بولنے کی آزادی! یہ سب باتیں بہت خوبصورت ہیں مگر اس وقت تک جب انسان کو جان کا خوف نہ ہو! لاشوں کے ڈھیر جلی ہوئی دکانیں اور مکان ساری بستی انسانوں کا نہیں بھوتوں کا مسکن ہوتی تھی۔بوڑھی عورتیں۔۔۔ جوان عورتیں۔۔۔ مرد اور بچے سب کے زخم پکار رہے تھے ہمیں روٹی نہیں ہتھیار دو۔۔۔ ہم مقابلہ کرنا چاہتے ہیں۔ ہمارے جوانوں کو ہتھیار دو کہ ہماری عزت کی حفاظت کریں۔ وہ نہتے نوجوان جو بغیر ہتھیاروں کے مقابلہ کرنے کو نکلے تھے ہزاروں کی تعداد میں قیدی بنا لیے گئے تھے۔ یو این او کے امن کے رکھوالے اکثر جب روٹی لے کر جاتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ بھوکے بھوک پیاس سے آزاد ہو چکے ہیں۔ مگر مہذب دنیا کا ضمیر روٹی کے ٹکڑے دے کر مطمئن ہے۔

    حامد پاسک اور ان کے بیٹے سعید پاسک اپنے آبائی گاؤں جاکر اپنے لوگوں کی مدد کرنا چاہتے تھے۔ حالانکہ جب انکے بچے کتابوں کے اوراق سے آگ تاپ رہے ہیں تووہ کسی کی کیا مدد کر سکتے تھے۔ جب انہوں نے ٹرانسٹر پر نشیب میں بسنے والوں کا حال سنا تھا ان کی پریشانی اور بےچینی حد سے بڑھ گئی تھی۔ ان کے گاؤں کی سب عورتیں سرب فوجیوں کے کیمپوں میں پہنچا دی گئی تھیں اور ان کے تار تار لباس اور برہنہ زخمی جسم اور لاشیں دنیا کے ٹی وی دکھارہے تھے اور یہ سب درندگی تہذیبی صفائی کے نام پر دکھائی جا رہی تھی۔ وہ سب بے بسی سے سوچتے اگر مہذب دنیا انہیں مقابلہ کرنے کے لیے ہتھیار دے دیتی تو ان کی بے بسی کا یہ تماشا دنیا کیسے دیکھتی۔۔۔!

    انہیں یہ معلوم تھا کہ دور دراز علاقوں سے لوگوں کو اپنے گھروں سے نکال نکال کر محفوظ مقام پر پہنچانا ظالموں کے لیے علاقہ خالی کرنے کا منصوبہ ہے۔۔۔ وہ سب نشیبی دیہاتوں کے لوگ جو ظلم و ستم کا نشانہ بن رہے تھے ٹرکوں اور بسوں میں سوار ہو کر ’’محفوظ آسمان‘‘ کے نام پر قائم کئے گئے علاقے میں لے جائے جا رہے تھے۔ جانتے ہوئے بھی گولیوں کی بوچھاڑ تھی اور آسمان اور زمین کا کوئی کونہ انہیں ایسا نظر نہ آتا تھا جسے محفوظ کہا جا سکتا۔۔۔!

    ایک صبح جب ڈاکٹر ساجد اپنے ہسپتال کے لیے دوائیں تلاش کرنے گھر سے نکلے تو یو این او کے امدادی مرکز تک پہنچنے سے پہلے ہی ایک سرب سپاہی کی گولی کا نشانہ بن گئے۔ فوجی بوٹوں کی آواز سنائی دے رہی تھی اور دکانوں کا سامان لوٹا جا چکا تھا۔ سرب فوجی کھاپی رہے تھے ٹوٹے ہوئے دروازے اور کھڑکیوں کے شیشوں کی کرچیاں سڑک پر دور دور تک بکھری ہوئی تھیں۔ ڈاکٹر ساجد کی لاش کچھ دیر تک سڑک پر پڑی رہی۔ مگر جب ان کے کنبہ کے لوگ ان کی تلاش کر رہے تھے تو ڈاکٹر کے پرانے مریض اور جان پہچان کے لوگ ان کی لاش لے کر گھر پہنچ چکے تھے۔ بھائی کی موت سے حامد پاسک اور ان دونوں کے کنبوں پر قیامت ٹوٹ پڑی۔ بڑی مشکل سے رات کے کسی حصہ میں عزیزوں اور دوستوں نے ان کا جنازہ قبرستان لے جانے کا انتظام کیا اور جب نماز جنازہ پڑھی جا رہی تھی تو دو پہاڑوں پر سے مسلسل گولیوں کی بوچھاڑ جاری تھی۔

    حامد پاسک جب اپنے بھائی کو مٹی میں سلا کر لوٹے تو انہوں نے راستہ میں جابجا لاشیں دیکھیں جن میں سے بہت سوں کو اٹھانے والے بھی شاید ختم ہو چکے ہوں گے اور ان پر کوئی رونے والا باقی نہ ہوگا اور انہوں نے سوچا ڈاکٹر ساجد کی بے لوث خدمت کا خدا نے انہیں شاید یہ اجر دیا ہے کہ گولیوں کی بوچھاڑ میں بھی ان کے لیے کچھ لوگ دعا مانگ رہے تھے۔۔۔!

    حامد پاسک کے بیٹے نے اپنے چچا کے ہسپتال کی ذمہ داریاں سنبھال لی تھیں اور تازہ ترین حالات میں جو بھی طبی مدد لوگوں کو پہنچائی جا سکتی تھی وہ انہیں دی جا رہی تھی۔ جو بیٹی آرٹسٹ تھی وہ اب اپنے رنگوں کو چھوڑ کر لوگوں کی مرہم پٹی میں لگی ہوئی تھی اور اس نے اپنی ہم عمر لڑکیوں کی ایک ٹولی بنا لی تھی جو اس کے ساتھ مل کر نرسنگ کا کام کر رہی تھیں۔ ڈاکٹر ساجد نے ان سب کو جس راستے پر لگا دیا تھا اس دن کے بعد وہ اورزیادہ محنت سے ان کے مشن کو جاری رکھے ہوئے تھے۔

    ایک دن حامد پاسک نے یہ روح فرسا خبر سنی کے ان کا قصبہ پنر اور تباہ ہو گیا اور پندرہ ہزار مسلمان شہید ہوئے اور ان کی عورتیں اور لڑکیاں سرب کیمپوں میں پہنچا دی گئی ہیں۔ انہوں نے یہ خبر بھی سنی کہ لوگ اپنے گھروں سے نکل کر مشکل ترین راستوں سے محفوظ مقامات پر پہنچنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ امدادی ٹوکریاں اور سامان جو یو این او پہنچا رہی تھی پہلے ہی روکا جا چکا تھا اور بھوکے پیاسے لوگ جنگلوں میں پھر رہے ہیں۔ یہاں تک کہ سیوریج کے جو پائپ کھلے ہوئے تھے ان میں سے بھی راہ نکال کر لوگ جا رہے تھے۔۔۔ اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر نہتے مقابلہ کرنے والوں کی بھی کمی نہ تھی جو پھر قیدی بنا کر لے جائے جا رہے تھے۔

    حامد پاسک کو اپنے ہی قریبی شہروں اور قصبوں کا حال دور دراز بی بی سی کی خبروں سے معلوم ہوتا جو وہ کار کی بیٹری سے اپنے ریڈیو کو چلاکر سنا کرتے تھے۔۔۔ اور تباہی منہ کھولے ہر طرف راستہ چلتے دکھائی دیتی تھی۔

    وہ گھر جو ان کے دوستوں اور عزیزوں کے تھے جن میں لکڑی کی خوبصورت نقاشی کئے ہوئے طغرے آویزاں تھے۔۔۔ پیانو کی آواز سنائی دیتی تھی۔۔۔ اور گھر جن کی چمنیوں میں سے اٹھتا ہوا دھواں بھی مکینوں کی راحت سکون اور خوشی کی خوشبو میں بسا ہوا ہوتا تھا اب ان گھروں کی چھتیں چھلنی تھیں۔۔۔ سامان لوٹا چا چکا تھا۔ ٹوٹے ہوئے دروازوں اور کھڑکیوں میں پلاسٹک کے پردے جھول رہے تھے اور جو کوئی مکین باقی تھاوہ اس طرح رہتا تھا جیسے اپنے گھرمیں نہیں بھوتوں کے ڈیرے میں آ گیا ہو۔ یو این او اور مہذب اقوام کے باضمیر لوگ چلا رہے تھے کہ یہ تو ان لوگوں کو جڑ سے صاف کرنے اور ختم کرنے کی کاروائی ہے۔ محض جنگ نہیں ہے۔ سرب اور کروٹ اپنے اپنے حصے کی جنگ لڑ رہے تھے اور بوسنیا کے نہتے لوگوں کو مقابلہ کرنے کے لیے ہتھیار نہ دے سکتے تھے۔

    حامد پاسک یہ سوچا کرتے تھے کہ یواین او نے مرتے ہوئے لوگوں کو روٹی دینے کی ذمہ داری بھی نہ لی ہوتی تو اچھا تھا مگر ہر طرف سے بےآسرا لوگوں کو خدا کے آسرے پرچھوڑ دینے سے شاید دنیا کا ضمیر مطمئن نہ ہوتا۔ اب انہیں یہ سکون ہے کہ وہ مشکل حالات میں روٹی اور دواؤں کا انتظام کرتے ہیں اور کبھی کبھی سرب جب گولیوں کی بوچھاڑ کرتے ہیں تو یو این او کا کوئی امن کا رکھوالا بھی زخمی ہو جاتا ہے۔۔۔ لیکن امن کہاں ہے جو کوئی رکھوالی کرےگا ان سب کو جنگ کی رکھوالی کرنے والا کہنا چاہیے کیونکہ دو سال سے یو این او جنگ کی تباہی کی رکھوالی کر رہی ہے۔ امن کی رکھوالی کرنی ہوتی تو مظلوموں کے ساتھ ظالموں کا مقابلہ کرنے والی فوج بھیجتی۔ حامد پاسک اپنے دوستوں سے اکثر کہتے کہ بڑی طاقتیں صرف اپنے مفادات کی رکھوالی کرتی ہیں۔ پھر بھی وہ دیکھتے کہ اکثر بھولے بھالے لوگ یہ آس لگائے تھے کہ امریکہ اپنے بمبار بھیج کر مدد کرےگا اور پھر لڑائی بند ہو جائےگی۔

    وقت نے سب کی خوش فہمیاں دور کر دیں بھیانک اور تلخ حقیقت کہ قیامت میں اپنے سوا کسی کا کوئی نہ ہوگا سامنے آ چکی تھی۔

    حامد پاسک کو اپنے بھائی کے دونوں بیٹوں کی فکر تھی۔ ایک سربوں کی قید میں تھا اور دوسرے کی انہیں کوئی خبر نہ تھی۔ وہ نوجوانوں کی امدادی ٹولی بنا کر فوج کو رسد پہنچانے کی کوشش کر رہا تھا۔ پھر ایک دن حامد پاسک کے ایک سرب شاگرد نے انہیں خبر دی کہ ان کے عزیزوں کا پنراور میں کوئی پتہ نہ چل سکا لیکن ان کے بھتیجے کی منگیتر کو ان عورتوں میں دیکھا گیا تھا جن کو سرب قیدی بنا کر لے گئے ہیں اس خبر سے گھرانے کی بےچینی اور دکھ بڑھ گیا۔ ان کے سرب شاگرد نے یہ وعدہ بھی کیا تھا کہ وہ نوجا کو کیمپ سے نکالنے کی پوری کوشش کرےگا اس کا بڑا بھائی فوج میں اچھے عہدے پر تھا۔ حامد پاسک دکھ سے سوچتے رہے اور وہ جن کا خدا کے سوا کوئی نہیں، کوئی بچانے والا نکالنے والا نہ ہوگا وہ سب عورتیں ان کا کیا ہوگا۔ ان کی آنکھیں آنسوؤں سے تر ہو گئیں اورانہوں نے سب کے لیے دعا کی۔ ’’خدایا انہیں عزت کی زندگی یا عزت کی موت دینا؟‘‘

    حامد پاسک اور ان کے بھائی ڈاکٹر ساجد کو ملنے والوں میں ہر مذہب اور ملت کے لوگ تھے اور خصوصاً بوسنیا اور سارایاگو کی تہذیبی زندگی میں یہ رنگا رنگی اس زندگی کا ایک مزاج اور حصہ تھی۔ ان کے ادارے اسکول، تہوار، محفلیں، دفاتر سب اس رنگارنگ تہذیب کا ثبوت تھے۔ مذہب ان کی نجی زندگی کا خدا سے ایک رشتہ تھا جو ایک دوسرے سے محبت کرنا سکھاتا تھا اور ایک مسلمان کی حیثیت سے حامد پاسک اور ان کے کنبہ نے یہی سیکھا تھا کہ اللہ آسمانوں اور زمینوں کا نور ہے اور تمام پیغمبر صاحب نور تھے جن کو مانے بغیر مسلمان کا ایمان بھی کامل نہیں ہوتا اور وہ اپنے بچوں کو قرآن شریف کا ترجمہ سناتے تو سمجھاتے کہ قرآن پاک میں ہے کہ ہر سرزمین میں خدا نے اپنے رسول بھیجے ہیں بہت سوں کا ذکر قرآن میں کیا ہے اور بہت سوں کا ذکر نہیں کیا! حامد پاسک کے دل میں عجیب سا درد اٹھ کھڑا ہوتا جب وہ یہ سوچتے کہ تمام مذاہب نیکی بھلائی اور خیر کی تعلیم دیتے ہیں۔ سچ اور جھوٹ، نیکی اور بدی میں تمیز سکھاتے ہیں اور عجیب بات ہے کہ مذاہب کا نام لے کر ہی لوگ ایک دوسرے کا گلا کاٹتے ہیں۔

    حامد پاسک نے دیکھا تھا کہ ہزاروں کی تعداد میں سرب لڑائی سے پہلے بوسنیا سے جانے لگے تھے۔ شایدان کو عظیم سرب مملکت کے خواب کی تعمیر سمجھائی گئی تھی مگر وہ یہ بھی جانتے تھے کہ بہت سے سرب اور کروٹ ایسے بھی ہیں جو اب تک بوسنیا چھوڑنا نہیں چاہتے اور بوسنیا اور سارایاگو کے اداروں اور اخباروں میں کام کر رہے ہیں اور سرب گولیوں کی زد میں آکر مر رہے ہیں، وہ سب اپنے ملک کو ایک وحدت دیکھنا چاہتے ہیں مگر عجیب بات ہے جب یو این او یا کوئی مصالحت کرانے والی بڑی طاقت بات چیت کرتی ہے تو مسئلہ کے حل کے لیے صرف ان کی رائے معلوم کرتی ہے جو لڑ رہے ہیں جو امن سے رہنا چاہتے ہیں ان کی بات کوئی نہیں سنتا! کوئی ان سے نہیں پوچھتا کہ وہ سالہا سال سے اکٹھے رہ رہے ہیں کیا اسی طرح اکٹھے رہنا چاہتے ہیں؟ پچاس لاکھ سے زیادہ لوگ بوسنیا میں ہلاک کر دئیے گئے اور لاکھوں گھر بار چھوڑ کر دربدر ٹھوکریں کھارہے ہیں۔ ’’محفوظ آسمان‘‘ کی اسکیم بھی ایک ایسا پناہ گزین کیمپ بن جائےگی جس کے زخم وقت کے ساتھ ساتھ ناسور بن جائیں گے۔ یواین او جہاں بھی امن قائم کرنے گئی۔ زمین پر بسنے والوں کو اپنی زمین سے جلاوطن کرکے اس نے پناہ گزین کیمپ بنا دئیے۔ فسلطین، کشمیر، افغانستان اور اب بوسنیا کے لوگوں کے پناہ گزین کیمپ! اور یواین او کی فوج سالہا سال ان پناہ گزین کیمپوں کی کیسے نگرانی کرےگی۔جب کہ وہ طاقتیں جو اپنے آپ کو عظیم مہذب طاقتیں کہتی ہیں ان کے ہاں بھی غربت اپنی انتہا پر ہے۔ بدامنی اور لوٹ مار عام ہے۔ نسلی اور مذہبی منافرت بھی پردوں کے پیچھے سے جھانکتی رہتی ہے۔

    کبھی کبھی حامد پاسک سوچتے تھے کہ وہ زمانہ اچھا تھا جب ذرائع ابلاغ نے دنیا کو ایک گھر کی طرح نہیں بنایا تھا اور ہر آدمی کا گاؤں ہی اس کا گھر ہوتا تھا۔ اسے بس اپنے گاؤں کی خبر ہوتی تھی اور اپنے گاؤں کی ذمہ داری سب گاؤں والوں کی ہوتی تھی اور جھگڑوں کا فیصلہ گاؤں کی پنچایت کرتی تھی۔ یواین او سب کی پنچایت نہ بن سکی۔ وہ تو بڑی طاقتوں کے مفادات کی باندی بن گئی ہے حالانکہ چاند پر قدم رکھنے والے نے دنیا کو ایک گاؤں بنا دیا ہے!

    حامد پاسک جب اپنے دوستوں کی محفل میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے تو سب کو متفق پاتے تھے اور وہ سوچتے تھے کہ جنگ کی ہولناکیوں نے انہیں حقیقت پسند بنا دیا ہے۔ وہ اب کسی طرف نہیں دیکھنا چاہتے اور وہ آسمان کی طرف دیکھتے اور خدا کو پکارتے۔۔۔!

    وہ رات قیامت کی رات تھی جب نوجا سرب قیدیوں کے کیمپ سے فرار ہونے میں کامیاب ہوئی۔ اس کا لباس تارتار تھا اور کمزوری اور نقاہت کی وجہ سے اس کے لیے چلنا مشکل تھا۔ مارپیٹ سے اس کا حلیہ بگڑ چکا تھا۔ اس کا چہر ہ بھی زخم لیے ہوئے تھا اور اس کی بڑی بڑی خوبصورت آنکھوں میں خوف و ہراس تھا اس کے سرب شاگرد نے اپنا بڑا ساکوٹ اس کے اردگرد اس طرح لپیٹ دیا تھا کہ اس کی برہنگی چھپ سکے اور اسے سردی نہ لگے۔ وہ بات کرنے کے قابل نہ تھی۔ ان کے شاگرد نے بتایا کہ اسے جس حالت میں پایا وہ لے آیا ہے۔

    نوجا کا منگیتر یوسف دور دراز جنگلوں میں بوسنیا کی نہتی فوج میں کہیں لڑ رہا ہوگا۔ اسے کوئی خبر نہ ہوگی کہ اس کی منگیتر کس حال میں ہے مگر اسے یہ معلوم ہے کہ بوسنیا کی عورتوں اور لڑکیوں پر قیامت ٹوٹی ہے اور معصوم بچے کس ظلم کا شکار ہوئے ہیں۔ ان سب کو یہی غم تھا کہ ہمارے پاس ہتھیار ہوتے تو ہم اپنی عزت کی حفاظت کر سکتے۔

    حامد پاسک اور ان کے کنبہ کے لو گ اپنی ہونے والی بہو کی حالت دیکھ کر تڑپ اٹھے وہ کتنی آرزوؤں سے اسے بیاہ کر گھر لانے کا سوچا کرتے تھے۔ ڈاکٹر ساجد اور حامد پاسک کا منگنی کی تقریب میں کنبہ کی عورتوں اور بچوں کے ساتھ ہر روز جانا اور وہاں عزیزوں میں چند دن گزارنا سب کو یاد تھا۔ ڈاکٹر ساجد اور حامد پاسک کی بیوی باہم بیٹھ کر دلہن کے لباس کے متعلق سوچا کرتی تھیں کہ وہ اپنی خاندانی روایات کے مطابق بہت اچھے اچھے تحائف اور چیزیں لے کر دلہن کو بیاہنے جائیں گی۔ سب کے کتنے ارمان تھے اور اب نوجا تارتار خون آلود لباس میں زخموں سے چور خود ان کے گھر تک چل آئی ہے!

    اس رات شدید سردی اور برف باری تھی۔ حامد پاسک کے کنبہ کے لوگ گھر کو گرم رکھنے کے لیے اپنا قیمتی فرنیچر باری باری جلا چکے تھے۔ اکثر آگ میں جلتے ہوئے نقاشی کے کام کو وہ سب حسرت سے دیکھتے اور سوچتے کہ کاش وہ اس کو جلائے بغیر سردی کا مقابلہ کر سکتے اور اب کتابیں باقی تھیں حامد پاسک روسی اور فرانسیسی ادب کے شیدائی تھے مگر اب انہوں نے ٹالسٹائی اور دوستو وسکی اور سب انگریزی اور فرانسیسی ادیبوں کی کتابیں نکال کر دے دیں اور کہا ان کو پھاڑو اور آگ جلاؤ۔۔۔ اور انکے پسندیدہ ادیب جل کر ان سب کو راحت دے رہے تھے۔ وہ زندہ رہ کر بھی تو لوگوں کو اسی طرح راحت دیتے رہے تھے!

    پڑوس کی کچھ عورتیں گولیوں کی بوچھاڑ کے باوجود اپنے اپنے گھروں سے آ گئی تھیں اور کچھ نہ کچھ ان کے ہاتھ میں تھا۔ نوجا کے لیے دودھ بڑی مشکل سے فراہم کیا جا سکا۔ حامد پاسک کی بیوی اس کا سر اپنی گود میں لے کر اسے چمچے سے بمشکل دودھ پلا رہی تھیں اور اپنے آنسو پی رہی تھیں۔ مرہم پٹی کے بعد کپڑے پہن کر جب اس نے اپنے اردگرد محبت کی اتنی گرمی محسوس کی تو آنکھیں کھول کر سب کو دیکھا اور پھر عجیب طرح کے کرب کو محسوس کر کے آنکھیں بند کر لیں۔ اس روز جو بھی آتی وہ ڈاکٹر ساجد کی بیوی اور گھر کی دوسری عورتوں کے گلے لگ کر روتی حالانکہ میکے والے بیٹی کو رخصت کرکے روتے ہیں، سسرال والے بہو کے آنے پر نہیں روتے۔ مگر یہ عجیب سماں تھا کہ نہ آنے والوں کے آنسو تھمتے تھے، نہ سسرال کے لوگ سنبھلتے تھے۔ عورتیں، مرد، بچے سب ہی تو روچکے تھے۔ مگر جب نوجا کو ہوش آیا تو وہ سب آنسو پی کر خاموش ہو چکے تھے اور اس کے اردگرد اس طرح بیٹھے تھے کہ جیسے کوئی بھی خاص بات نہیں ہوئی ہے۔ نوجا ابھی بات کرنے کے قابل نہ تھی۔ چند دن بعد بات کر سکےگی، ابھی تو اسے یہ بھی نہیں یاد کہ اس کی منگنی کی انگوٹھی اس کی انگلی سے کس درندے نے نوچی تھی۔ شاید انگلی کا گہرا زخم ہی کچھ بتا سکے اور زخم کے ہونٹوں پر پٹی بندھی ہوئی تھی۔

    یوسف کو اپنے ایک ساتھی سے یہ خبر ملی کہ اس کی محبت اور زندگی نوجا کس حالت میں اس کے گھر پہنچی ہے تو وہ بےچین ہو گیا اسکے ساتھیوں نے کہا کہ سارایاگو سے رسد کا انتظام پہاڑی راستوں سے کوفے کے لیے جو لوگ آتے جاتے ہیں اچھا ہے کہ وہ بھی رسد لانے والوں کے اس قافلہ میں شامل ہوکر جائے اور نوجا کو دیکھ آئے۔ اس طرح اسے تھوڑی سی چھٹی مل گئی اور وہ گھر آ گیا۔

    راستہ بھر یوسف یہ یاد کرتا رہا کہ وہ پنر اور جاکر پہلی بارجب نوجا سے ملا تھا اور دور دراز خاندان کی یہ خوبصورت اور ہنس مکھ لڑکی پہلی ہی نظر میں اسے بہت اچھی لگی تھی۔ وہ اس کے ساتھ گھومنے پھرنے بھی گئی مگر ایک رکھ رکھاؤ اور وقار کے ساتھ وہ اس کے ساتھ رہی۔ اس کے انداز میں اس کے کردار کی عظمت ہمیشہ جھلکتی رہی۔ بوسنیا کی بوڑھی عورتیں ہمیشہ سروں پر اسکارف لپیٹے رہتی تھیں مگر لڑکیاں اسکارف کم ہی لیتی تھیں۔ نوجا سے مل کر یوسف کو یہ احساس ہوا کہ شریف اور باحیا لڑکیوں کے خوبصورت ریشم جیسے بال بھی شاید اسکارف کا کام کرتے ہیں، انہیں چھونے کی اس میں ہمت نہ ہوئی وہ اپنی نظروں سے ہی ان کی خوبصورتی اور نرمی کو محسوس کرتا رہا اور اس کی نیلی آنکھیں وہ جھیلیں نظر آئیں جن میں وہ اترتا چلا گیا۔ ان کے درمیان جو ایک فاصلہ رہا شاید وہ فاصلہ ان کی محبت کو اور بڑھاتا رہا اور پھر جب ماں نے اس سے نوجا کے بارے میں پوچھا تو اس نے کہا ’’ اب تک کوئی لڑکی اسے نوجا سے زیادہ اچھی نہیں معلوم ہوئی‘‘ اور اس کی ماں نے یہ بات خوشی خوشی اس کے باپ کو بتائی اور رشتہ ہو جانے کے بعد کنبہ کے سب ہی افراد منگنی کے لیے پنر اور گئے تھے۔اس نے دکھ سے نوجا کے گھر کا خوبصورت باغ اور اس کے کنبہ کے لوگوں کو یاد کیا اور سوچا جانے وہ سب مارے گئے یا ان میں سے کوئی زندہ بھی ہے۔ ان سوالوں کا جواب کسی کے پاس نہ تھا کیونکہ پورا قصبہ ہی تہذیبی صفائی کی نظر ہو چکا تھا اور آہستہ آہستہ وہ تہذیبی صفائی کے نام پر تمام انسانی قدروں پر جھاڑو پھیر رہے ہیں اور پورے بوسنیا میں بہ عمل جاری ہے!

    جب وہ نوجا کے سامنے گیا تو نوجا نے دکھ اور شرم سے اپنا چہرہ چھپا لیا اور اس سے کہا کہ ’’اب وہ اس کے لائق نہیں رہی۔ وہ تو اپنی زندگی کو ختم کرنا چاہتی تھی اس کے پیٹ میں سرب کا بچہ پل رہا ہے اور حرام کو جنم دینے سے پہلے اس کی آرزو ہے کہ وہ مر جائے‘‘۔ یوسف نے سب کچھ سن کر اس کا ہاتھ مضبوطی سے تھام لیا اور کہا ’’اب کوئی یہ ہاتھ نہ چھڑا سکےگا‘‘ اور وہ جو ا س کے قریب بھی نہ آئی تھی سب کے سامنے اس کی گود میں سر رکھ کر روتی رہی۔

    چند روز بعد حامد پاسک نے چند قریبی عزیزوں اور دوستوں کی موجودگی میں ان دونوں کا نکاح پڑھا دیا۔ کنبہ کی عورتوں نے کھجور ملا کر سادہ سے کیک بنا لیے اور مہمانوں کی خاطر کی اور گھر کے وہ خوبصورت قالین جن پر جگہ جگہ پانی کے ٹپکے کے نشان پڑ گئے تھے ان پر گھرانے اور پڑوس کی لڑکیاں بیٹھی ہوئی تھیں۔ گھر کا بڑا سا پیانو ابھی تک سلامت تھا اور حامد پاسک کی بیٹی ہلکے سروں میں کوئی ایسی دھن بجارہی تھی جس میں غم اور خوشی دونوں مل گئے تھے۔

    بیاہ کے دوسرے دن جب یوسف اپنے گھر سے رخصت ہوا کہ سامان رسد کے ساتھ جاکر ان بھیڑیوں کا مقابلہ کرے جو تہذیبی صفائی کے نام پر بوسنیا کی عورتوں کی عزت لوٹ رہے ہیں اور انسانوں کو تباہ کر رہے ہیں۔ وہ بچے عورتیں اور مرد جن کو وہ سفر میں جگہ جگہ زخموں سے چور موت سے بدتر حالت میں زندہ رہتے ہوئے دیکھ آیا تھا اس کی نظروں کے سامنے تھے اور اپنا فرض ادا کرنا اسے عبادت معلوم ہوا۔وہ سب سے رخصت ہوکر جلد ازجلد محاذ پر جانا چاہتا تھا۔

    یوسف نے رخصت ہوتے وقت نوجا سے کہا کہ ’’تمہارے پیٹ میں جو بچہ پل رہا ہے اس کا نام میرے مرحوم باپ کے نام پر ساجد رکھنا۔ اس سے ایک سرب سمجھ کر نفرت نہ کرنا وہ جو تمہارے وجود میں پل رہا ہے وہ تمہار ا بچہ بھی ہے اور اس لیے وہ میرا ہے۔ وہ ہماری محبت کی نشانی بنےگا‘‘۔

    نوجا کے زخم تو بھر چلے تھے مگر دل کا زخم بہت گہرا تھا وہ سرب کیمپ میں جو کچھ اپنے اور دوسری عورتوں کے ساتھ ظلم دیکھ آئی تھی وہ اسے بھلا نہ سکتی تھی۔ مگر وہ چند لمحے جو انہوں نے اکٹھے بسر کیے تھے ان لمحوں نے اسے اتنی مضبوطی اور ہمت دے دی کہ وہ اپنا سر سیدھا کرکے کھڑی ہو گئی۔ محبت انسان کی سب سے بڑی طاقت ہے اور زندگی کی ضامن ہے اور نفرت تباہی اور موت ہے۔ نوجا نے سوچا کہ وہ تباہی اور موت کے منہ میں سے نکل کر دوبارہ زندگی کی طرف لوٹ آئی ہے مگر اس کا گھر۔۔۔ سارا یاگو۔۔۔ کیا یہ سب اس آگ سے محفوظ رہ سکیں گے جو چاروں طرف لگی ہوئی ہے؟

    اس نے ہمت اور حوصلہ کو یکجا کر کے سوچا کہ وہ مقابلہ کرے گی اور اس زندگی کو بچا لےگی جو اس کے اندر پل رہی ہے اس لیے کہ سرد اور اندھیری زمین میں کوئی بیج نہیں پنپ سکتا جب تک کہ سورج کی نرمی اور گرمی اس تک نہ پہنچے اور اس نے سوچا سورج اس سے دور جا رہا ہے مگر اس کی محبت اس کے وجود میں پل رہی ہے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے