Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

چیخیں

شوکت حیات

چیخیں

شوکت حیات

MORE BYشوکت حیات

    کہانی کی کہانی

    یہ کہانی سماج میں پنپ رہے تعلیمی مافیاؤں کو بے نقاب کرتی ہے۔ پرائیویٹ اسکولوں نے کس طرح انگلش میڈیم کا لالچ دیکر اپنا جال بچھایا ہوا ہے اور بہتر ایجوکیشن کے نام پر وہ بچوں اور ان کے والدین کا استحصال کر رہے ہیں۔ اس جال میں پھنسے متوسط طبقہ کے گارجین اپنے بچوں کے اچھے رزلٹ ہونے کے باوجود ان اسکولوں میں ان کا داخلہ نہیں کرا پاتے، کیونکہ ان کی جیب انہیں اس کی اجازت نہیں دیتی۔

    اسکول کی گوری چٹّی پرنسپل لوگوں کی بھیڑ دیکھ کر مسکرا رہی تھی۔

    اچانک ایک چیخ ابھری۔

    سمجھ میں نہیں آیا کہ کس سمت سے بلند ہوئی۔ تمام لوگ سراسیمگی کے عالم میں ایک دوسرے کو دیکھنے لگے۔ چیخ کے بعد مکمل سنّاٹا اور خموشی تھی۔ لوگ اپنے خیالوں میں گُم ہوگئے۔

    کچھ دیر بعد چیخ پھربلند ہوئی۔ بھیانک اور درد انگیز۔ لوگوں کی سمجھ میں نہیں آیا کہ دن کے وقت لوگوں کی اس بھیڑ بھاڑ میں چیخوں کا سبب کیا تھا۔ سب کی پیشانیوں پر شکنیں تھیں۔ سب لوگ ڈرے سہمے ہوئے تھے۔

    اسکول کے وسیع احاطے کے ایک کونے میں نوٹس بورڈ پر داخلے کے امتحان میں کامیاب ہونے والوں کی فہرست چسپاں تھی۔ کافی بھیڑ تھی وہاں پر۔ تل دھرنے کی جگہ نہ تھی۔ لوگ اپنے بچوں کے نام ڈھونڈ رہے تھے۔

    اس اسکول میں پڑھانے کو لوگوں نے اسٹیٹس سمبل سمجھ لیا تھا۔ انگلش میڈیم کے بچے جب انگریزی گیت ایکشن کے ساتھ سناتے تو ان کے والدین کے چہرے خوشی سے سرخ ہوجاتے۔ سینہ فخر سے پھول جاتا۔

    ٹونکل ٹونکل لٹل اسٹار

    ہاؤ آئی ونڈر وہاٹ یو آر

    اپ اے بودی ورلڈ سو ہائی

    لائک اے ڈائمنڈ ان دی سکائی۔

    گھر آئے مہمانوں کے سامنے بچوں کو اہتمام کے ساتھ پیش کیا جاتا۔ بچے حوصلہ افزائی پاکر شروع ہوجاتے اور پھر کمرے میں ہزاروں تتلیاں اڑنے لگتیں۔ پھولوں کی بارش ہونے لگتی۔ کمرہ خوشبوؤں سے معطر ہوجاتا۔ چاروں طرف روشنیوں کے قمقمے جلنے بجھنے لگتے۔ سب کچھ جیسے ہواؤں کے دوش پر اڑنے لگا ہو۔

    لوگوں کی بھیڑ ریزلٹ دیکھ کر آپس میں بات چیت کرتے ہوئے واپس ہورہی تھی۔ کچھ لوگ ایسے تھے جو بالکل گُم صم تھے۔ ان کے بچوں کے نام کامیاب ہونے والوں کی فہرست میں شامل نہیں تھے۔ کسی نے کہا، ’’میرے بچے نے ہر سوال کا جواب دیا۔‘‘

    ’’سو تک کاؤنٹنگ۔۔۔ الفا بیٹس بھی لکھ دیے تھے۔ پھر۔۔۔؟‘‘

    ’’شاید عمر کو لے کر چھانٹ دیا ہو۔‘‘

    ’’عمر۔۔۔ بچے تو آخر بچے ہیں۔۔۔ یہ سب بات نہیں۔۔۔ یہ لوگ پیروی پر لڑکوں کا انتخاب کرتے ہیں۔‘‘

    کسی نے مذاق اڑانے اور مزہ لینے کے لئے کہا، ’’ممکن ہے فیملی بیک گراؤنڈ اور انکم گروپ دیکھا ہو۔‘‘

    ’’کیا کہا؟‘‘ وہ آدمی تنک گیا۔

    ’’ذرا اپنی فیملی بیک گراؤنڈ بتائے گا۔۔۔ اشوک دی گریٹ کے خاندان سے ہیں یا اکبر دی گریٹ کے خاندان سے۔۔۔؟‘‘

    شوشہ چھوڑنے والے نے سٹپٹا کر بھیڑ میں اپنا چہرہ چھپا لیا اور وہاں سے کھسک گیا۔ ایک آدمی کچھ لوگوں کے بیچ میں کہہ رہا تھا، ’’دیکھئے صاحب! ہم نے بغل کے ایک ہوسٹل میں سات سو روپے مہینے پر بچے کو داخل کر رکھا تھا۔ ان لوگوں نے گارنٹی لی تھی، لیکن۔۔۔‘‘

    ’’چھوڑئے بھائی، آج ایجوکیشن کے نام پر جتنے بڑے مافیا پیدا ہوگئے ہیں اتنے۔۔۔ سب کچھ کھانے کمانے کا دھندا بن گیا ہے۔ کسی میں جذبہ خدمت نہیں ہے۔۔۔ سب کو گولی۔۔۔‘‘

    ’’خدمت کی بات کرتے ہیں اس زمانے میں۔‘‘ ایک نوجوان نے قہقہہ لگایا۔

    ’’معلوم ہے ایڈمیشن میں کتنا لگے گا؟ ایڈمیشن فیس دو سو پچاس۔ ٹیوشن فیس دو مہینے کا دو ستّر۔ کوشن منی پانچ سو۔ ٹرم فیس ایک سو پچاس۔ اسٹیب لشمنٹ فیس ایک سو پچاس۔ یعنی کل ملاکر تیرہ سو ستّر روپے کا نسخہ۔‘‘

    ’’اس کے علاوہ ڈاکٹری جانچ اور ایگریمنٹ کا خرچ الگ۔‘‘

    ’’اور جناب اتنا دینے کے بعدبھی آپ کے بچے کی صلاحیت میں فرق نہیں آئے گا۔ اگر کچھ ہونا ہے تو انہیں لمحات کے وسیلے سے جو آپ اپنی مصروف زندگی نکال کر اس بچے پر صرف کریں گے۔‘‘

    ’’والدین کا انٹرویو اسی لیے لیتے ہیں کہ بچے کے سارے ہوم ورک۔۔۔‘‘

    ’’اب عام اور پرائیویٹ میں کوئی فرق نہیں رہا۔ ایک جگہ کے ٹیچراپنی کرنی سے بدنام ہوگئے ہیں۔۔۔ دوسری جگہ کے بدتو ہیں لیکن بدنام نہیں ہیں۔‘‘

    اچانک پھر چیخ بلند ہوئی اور پھر متواتر کئی چیخیں۔ اسکول سے ملحق شاہراہ پر چلنے والے مسافروں کے قدم رک گئے۔ آس پاس کی عمارتوں کے مکیں وہاں پر آکر اکٹھا ہوگئے۔ اورا یک دوسرے سے استفسار کرنے لگے، ’’آپ نے کوئی چیخ سنی بھائی؟‘‘

    ’’ہاں! ہم لوگوں نے بھیانک چیخ سنی ہے۔‘‘

    ’’ایسا لگا جیسے کوئی سنگین ہتھیار لے کر کسی کے سینے پر سوار ہو۔‘‘

    ’’ہاتھ پاؤں باندھ کر بھوترے چھرے سے اسے ذبح کر رہا ہو۔‘‘

    ’’جیسے ابھیمنیو چکرویو میں پھنس گیا ہو اور ایک ساتھ اس پر کئی بان چل رہے ہوں۔‘‘

    ’’بدن کی ساری قوت سلب ہوگئی ہو۔ اور اب اس آخری چیخ کے علاوہ کوئی سہارا نہیں رہ گیا ہو۔‘‘

    جتنے لوگ اتنے طرح کے تاثرات۔ لیکن آس پاس چاروں طرف نظر دوڑنے پر بھی چیخنے والے افراد کا پتا نہیں چل رہا تھا۔ لوگوں کا دھیان پھر اپنے اپنے مسائل کی طرف لوٹ آیا۔

    ہر آدمی اپنے آپ میں کھوگیا۔ جن کے نام فہرست میں نہیں تھے وہ تو پریشان تھے ہی جن کے بچوں کا سلیکشن ہوچکا تھا وہ بھی کوئی خاص خوش نہیں تھے۔ سب اپنے بچوں کے تاریک مستقبل کے خوف میں مبتلا تھے۔

    ’’کیا ہوگا اس وقت جب ابھی یہ حال ہے۔‘‘

    ’’ابھی لوگ آدمی سے جانور بنے ہیں۔۔۔ اس وقت سب درندے بن چکے ہوں گے۔۔۔ کیا ہوگا ان درندوں کے درمیان ہمارے خرگوشوں کا۔۔۔‘‘

    ’’ہمارے پھول سے بچے اس طوفان کا کیسے مقابلہ کریں گے۔۔۔ آندھیوں کا زور تو بڑھتا ہی جارہا ہے۔۔۔ خود ہم لوگوں کے پاؤں اکھڑنے لگے ہیں۔۔۔ ان ننھے منے مخملی پیروں کا کیا ہوگا۔۔۔‘‘

    ’’کیا یہ خرگوش بھی درندے بن جائیں گے۔۔۔ پھر۔۔۔‘‘

    سب کے سبب اندیشوں اور دہشت کی اپنی اپنی دنیاؤں میں گم تھے کہ اچانک پھر ایک سات متواتر چیخیں بلند ہوئیں۔ سب کے سب چونک پڑے۔ سب نے نگاہیں دوڑائیں لیکن اس بار بھی سب کے سب بے نتیجہ رہے۔

    اسی درمیان ادھیڑ عمر کا ایک آدمی اپنے چھوٹے سے بچے کا ہاتھ پکڑے ہوئے اسکول کے گیٹ میں داخل ہوا۔ گیٹ پر پہنچتے ہی لڑکا رک گیا۔ باپ کے بہت کہنے پر بھی وہ اپنی جگہ سے آگے بڑھنے کا نام نہیں لے رہا تھا۔

    ’’چلو بیٹے، آگے بڑھو۔۔۔ اس طرح کے اسکولوں کے جہنم سے گزرنا ضروری ہے بیٹے۔۔۔‘‘

    ’’نہیں۔۔۔ ہم اس اسکول میں نہیں پڑھیں گے۔۔۔ یہاں کوئی میدا ن نہیں۔۔۔ جھولا نہیں۔۔۔‘‘

    ’’بیٹا جہاں کچھ نہیں ہے وہاں اتنی بھیڑ ہے۔۔۔ جہاں ساری چیزیں ہوں گی وہاں تمہیں کھڑے ہونے کی بھی جگہ ملے گی میرے منّا؟ چلو اپنا ریزلٹ دیکھ لو۔۔۔ میرا بیٹا فرسٹ ہوا ہوگا۔۔۔ لسٹ میں سب سے پہلا نام۔۔۔‘‘

    منت سماجت کے باوجود بیٹا ٹس سے مس نہیں ہوا۔ باپ کا جی چاہا کہ ایک زبردست طمانچہ اس کے گال پر جڑ دے، لیکن کچھ سوچ کر وہ رک گیا۔ ضبط سے کام لیتے ہوئے اس نے بچے کو پچکار کر کہا، ’’جاؤ ہم بھی نہیں جاتے۔۔۔ چلو واپس چلا جائے۔۔۔ پڑھنے کا کیا حاصل۔۔۔ سڑک پر آئس کریم کھاتے ہیں۔۔۔‘‘

    بچہ خوش ہوگیا، ’’ہاں پا پا! چلئے آئس کریم کھاتے ہیں۔‘‘

    ’’آئس کریم کھلا دوں گا، لیکن اس کے بعد اسکول چلنا ہوگا۔‘‘

    باپ کے اس طرح لالچ دینے پر بچے نے اسکول جانے کے لئے ہامی بھر دی۔ کچھ دیر بعد باپ بیٹے اسکول کے احاطے میں داخل ہوئے۔۔۔ ایسا لگا دو چھوٹے بڑے درخت ا پنی جگہوں سے اکھڑ کر گھسٹتے ہوئے اسکول کیمپس میں داخل ہورہے ہوں۔

    نوٹس بورڈ کے قریب پہنچ کر باپ نے نگاہیں اوپر کیں۔ فہرست بہت اونچائی پر چسپاں تھی۔ باپ کی آنکھ کی بینائی کم تھی ، آنکھوں کا پاور بدل گیا تھا اور اسے چشمے کا نمبر ٹھیک کرانے کی مہلت نہیں ملی تھی، اس نے اونچاہوکر دیکھنے کی کوشش کی، لیکن ناکام ہوا۔ تھک ہار کر اس نے بغل میں کھڑے ہوئے آدمی سے اپنے بچے کا نام دیکھنے کی گزارش کی۔ اجنبی نے بچے کا نام جاننے کے بعد فہرست کی طرف نظر دوڑانے سے پہلے بچے کے باپ کی آنکھوں میں جھانکا۔ گہری اداسی اور تکان دیکھ کر وہ ڈر گیا۔ اتنی اداس آنکھیں اس نے کم دیکھی تھیں۔ نام نہیں پائے جانے کے خوف سے باپ پر عجیب لرزہ طاری تھا۔

    ’’کیا بابا! مارئے گولی! ان اسکولوں میں ایڈمیشن نہیں ہو تو کیا فرق پڑتا ہے۔ آپ تو سمجھ دار آدمی ہیں۔ خود پڑھائیے اور پرائیویٹ سے بورڈ کا امتحان دلوائیے۔ کچھ نہیں رکھا ان ا داروں میں،‘‘ اس نے ڈھارس دی۔

    ’’بیٹے ذرا دیکھ لو۔۔۔ تسلی ہوجائے گی۔ میرا بچہ تیز ہے۔۔۔ ضرور کا میاب ہوا ہوگا۔‘‘

    اس اجننی نے فہرست پر نظر دوڑائی ایک بار اوپر سے نیچے تک دیکھ لیا۔ پہلی نظر میں ایک سو بیس بچوں کی فہرست میں اس کا نام دکھائی نہیں دیا۔ اس نے دوبارہ نگاہ دوڑائی۔ بار بار ایک ایک نام کو غور سے پڑھنا شروع کیا۔

    ’’دیکھا بیٹے؟‘‘ اس نے سوال کیا۔

    ’’ہاں دیکھ رہا ہوں! لگتا ہے کہیں کوئی گڑبڑی ہے۔۔۔‘‘

    ’’کیا میرے بچے کا نام نہیں ہے۔‘‘

    ’’لگتا تو یہی ہے۔‘‘

    اچانک کیفیتوں کی ایک شدید لہر نے باپ کو اپنی گرفت میں لے لیا۔ بیوی کے الفاظ ہتھوڑے بن کر برسنے لگے، ’’دیر رات تک پڑھا کر بچے کو پاگل بنادوگے۔۔۔‘‘

    ’’تم کیا جانو کتنا کڑا وقت ہے۔۔۔ سوئے گا ملعون۔۔۔‘‘ بچے کے گال پر ایک زبردست طمانچہ پڑا۔

    سہمی سہمی نیند بھری آنکھوں سے بچہ اس کی طرف نہیں دیکھنے کی طرح دیکھ رہا ہے۔ طمانچے کی ضرب نے اس میں کوئی رد ِعمل پیدا نہیں کیا۔۔۔ اس کی پلکیں نیند کے بوجھ سے بھاری ہورہی ہیں۔

    ’’اب نہیں۔۔۔ اب نہیں بابا۔۔۔ صبح اٹھ کر۔۔۔‘‘ اس کی آنکھوں میں خون اتر آیا۔

    ’’میں نے بھی اپنے باپ کو۔۔۔ اف۔۔۔ آئی ہیٹ دس نان سنس۔۔۔ بلڈی کمپٹی ٹیو۔۔۔‘‘ وہ زور سے چیخا اور اپنا ہی بال نوچنے لگا۔

    ’’انگل۔۔۔ آپ اپنا بال کیوں نوچ رہے ہیں؟‘‘

    ’’ہاں!‘‘ وہ چونکا۔ جیسے خواب دیکھتے دیکھتے اس کی نیند ٹوٹ گئی ہو۔

    ’’میں دراصل ۔۔۔اچھا۔۔۔ شکریہ بیٹے۔۔۔ تم نے بہت زحمت کی۔۔۔‘‘ ادھیڑ عمر آدمی نے ممنون نگاہوں سے نوجوان کو گھوتے ہوئے اپنے بچے کو کندھے پر اٹھالیا۔

    ’’تم خود یکھو۔۔۔‘‘

    بیٹا لسٹ دیکھنے لگا۔ دھیرے دھیرے اس کا ہلکا پھلکا بیٹا بھاری ہونے لگا۔ ادھیڑ عمر کے باپ کے کندھے دکھنے لگے۔

    ’’ارے بیٹا! تم اچانک اتنے بھاری کیسے ہوگئے۔ جلدی اترو۔۔۔ میرے کندھے ٹوٹ جائیں گے۔۔۔‘‘ ا س نے گھبراہٹ میں اپنے بچے کو لگ بھگ پٹک دیا۔ بچہ گرا تو اینٹ سے ٹکراکر اسے شدید چوٹ آئی۔ باپ نے بیٹے کی طرف دیکھا۔

    ’’بیٹا تمہیں چوٹ تو نہیں آئی؟‘‘ اس نے سہارا دے کر بچے کو اٹھایا۔ اس کی آنکھوں میں آنسو تھے۔

    بچہ اٹھا۔ باپ نے دیکھا کہ اس کے بیٹے کا قد اس کے برابر ہوچکا تھا۔ باپ نے رونا شروع کردیا۔

    ’’دیکھو لوگو۔۔۔ میرا بچہ بوڑھا ہوگیا۔ اس پر جوانی نہیں آئی۔۔۔ ٹھیک سے اپنا بچپن نہیں گزار سکا۔ ابھی تو اس نے بورڈ کا امتحان۔۔۔ داخلہ بھی نہیں ہوا اور خارج ہوگیا۔۔۔ اے لوگو! تم پر اتنا بڑا سانحہ نہ گزرا ہوگا۔۔۔ اے لوگو۔۔۔ میری طرف دیکھو۔۔۔‘‘

    باپ عجیب درد انگیز آواز میں رورہا تھا۔ لوگ سمجھا رہے تھے کہ اس کا بچہ تو ویسے ہی بچے کی صورت میں اپنی جگہ پر موجود تھا۔۔۔ خواہ مخواہ وہ اندیشے میں مبتلا ہوگیا، لیکن باپ کو لوگوں کی بات پر یقین نہیں ہوا۔ وہ اپنے بچے کے سر پر ہاتھ پھیرتا ہوا مستقل روتا جارہا تھا۔ زندگی میں پہلی بار اس نے باپ کو اس طرح روتے ہوئے دیکھا تھا۔

    اچانک آس پاس ہر جگہ سے پھر چیخیں بلند ہونی شروع ہوئیں۔ اس بار چیخیں تھمنے کا نام نہیں لے رہی تھیں۔ اب تک چیخوں کا سبب جاننے کے لئے ادھرادھر نگاہیں دوڑانے والے لوگ خود اپنی طرف متوجہ ہوکر اپنے آپ کو ٹٹولنے لگے تھے۔

    گوری چٹّی میم اسکول کی چھت پر کھڑی ہوئی ان سب مناظر سے بے نیاز مستقل مسکرائے جارہے تھی۔

    مأخذ:

    گنبد کے کبوتر (Pg. 276)

    • مصنف: شوکت حیات
      • ناشر: شوکت حیات
      • سن اشاعت: 2010

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے