Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

چہرو مانجھی

علی سردار جعفری

چہرو مانجھی

علی سردار جعفری

MORE BYعلی سردار جعفری

    کہانی کی کہانی

    اس کہانی میں غربت و افلاس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے حالات کی عکاسی کی گئی ہے۔ بنگال کے ساحلی علاقے کی پروردہ چہرو تیرہ دن کے فاقے کے بعد ایک سیر چاول کے لئے اپنا جسم بیچ دیتی ہے اور پھر یہ سلسلہ چل نکلتا ہے اور وہ اپنے جسم کا سودا کرتی ہی رہتی ہے۔ حالات ایسے بن جاتے ہیں کہ اسے سفید پوشوں پر رعب جمانے اور اپنا غصہ نکالنے کا موقع ملتا رہتا ہے لیکن ان تمام باتوں کے باوجود اس کے دل میں اپنی اصل کی طرف مراجعت کی خواہش بیدار رہتی ہے۔ اسی لئے وہ گنیش مچھوارے کی محبت کو اپنے دل میں زندہ رکھتی ہے۔

     

    ہوا بہت دھیمے سروں میں گا رہی تھی، دریا کا پانی آہستہ آہستہ گنگنا رہا تھا۔ تھوڑی دیر پہلے یہ نغمہ بڑا پرشور تھا لیکن اب اس کی تانیں مدھم پڑ چکی تھیں اور ایک نرم و لطیف گنگناہٹ باقی رہ گئی تھی۔ وہ لہریں جو پہلے ساحل سے جاکر ٹکرا رہی تھیں، اب اپنے سیال ہاتھوں سے تھکے ہوئے ساحل کا جسم سہلا رہی تھی۔ ہماری کشتی بڑی نرمی کے ساتھ بہہ رہی تھی۔ کنارے سے دور آکر بیچ دریا میں ماہی گیروں نے اپنے چپو چھوڑ دیے تھے اور بادبان کھول دیے تھے اور سمندر کی طرف دوڑتی ہوئی موجیں کشتی کو بہائے لیے جا رہی تھیں۔ 

    بادبان میں ہوا بھری ہوئی تھی اور اس کاسینہ غرور سے پھولا ہواتھا۔ ہماری کشتی لمبی لمبی نازک اور پتلی سمپانوں کو، ان میں بیٹھے ہوئے مانجھیوں کے گیتوں کو، بڑے سے سیاہ فام جہاز کو، اس ساحل کے پاس شہر کی جھکتی ہوئی زمین کو، پیچھے چھوڑ کر آگے بڑھتی جا رہی تھی۔ سمپانیں موجوں میں، ساحل اندھیرے میں اور روشنیاں ننھے ننھے ستاروں میں تبدیل ہوتی جا رہی تھیں۔ بوڑھے ماہی گیر نے آسمان کی طرف دیکھ کر کہا، ’’رات اچھی ہے۔ آج طوفان کا خطرہ نہیں ہے۔ ایک گھنٹے میں چاند نکل آئے گا۔‘‘ نوجوان ماہی گیر نے، جو اس کا بیٹا تھا، کہا کہ ’’اتنی دیر میں ہم کھلے سمندر میں پہنچ جائیں گے۔‘‘

    یہ وہ جگہ تھی جہاں دریائے کرنا فلی خلیج بنگال میں جاکر ملتا ہے، جس کے کنارے چٹ گاؤں کاشہر آباد ہے۔ سبز اور نیلی پہاڑیوں کے دامن میں بہار کے خوب صورت اور چھریرے بدن کی دوشیزاؤں کی طرح نازک درختوں کے سائے ہیں۔ جب سمندر میں پانی چڑھتا ہے تو دریا کا دھارا الٹا بہنے لگتا ہے اور ماہی گیر اپنے جال پانی میں ڈال دیتے ہیں۔ جب سمندر کا پانی اترتا ہے تو دریا پھر سمندر کی پھیلی ہوئی آغوش کی طرف لپکتا ہے اور ماہی گیر اپنی کشتیاں اور جال لے کر کھلے سمندر میں چلے جاتے ہیں اور ساحل کے کنارے کنارے کو کس بازار تک مچھلیاں پکڑتے ہیں۔ گھروں پر ان کی بیویاں اور محبوبائیں ان کا انتظار کرتی ہیں اور سمندر میں ان کے گیت تیرتے ہیں، جنہیں سننے کے لیے دور دور کی مچھلیاں سمٹ آتی ہیں اور ان کے جال بھر جاتے ہیں اور کشتیاں بھاری ہو جاتی ہیں اور وہ اپنے مضبوط بازوؤں کی قوت سے چپو چلاتے ہیں۔

    ان کی سانس پھول جاتی ہے، گیتوں کی تان وزنی ہو جاتی ہے۔ گلے کی رگیں ابھرآتی ہیں۔ بازوؤں کی مچھلیاں تڑپنے لگتی ہیں، ہتھیلیاں لال ہو جاتی ہیں اور جب وہ اپنے گاؤں کے کنارے آکر شکار سے بھری کشتیوں کو خالی کرتے ہیں تو ان کی بیویوں اور محبوباؤں کی آنکھیں رنگ برنگی مچھلیوں کو دیکھ کر چمک اٹھتی ہیں اور وہ اپنا دل ہمیشہ کے لیے اپنے بہادر ماہی گیر کو دے دیتی ہیں اور رات کو جب تیل کی کمی سے چراغ کی مدھم لوٹمٹمانے لگتی ہے اور ہوا کی ہلکی سی پھونک اسے بجھا دیتی ہے تو یہ تھکن سے چور ماہی گیر ان کے نیلگوں سینوں پر، جن میں مچھلیوں کی بو آتی ہے، اپنا سر رکھ کر سو جاتے ہیں۔

    لیکن جب سے لڑائی شرع ہوئی تھی اور جاپان نے ہندوستان پر حملہ کر دیا تھا، تب سے ماہی گیروں کو عام طور سے سمندر میں جانے کی اجازت نہیں تھی۔ کھلے سمندر میں جانے کے لیے انہیں فوجی افسروں سے اجازت نامہ حاصل کرنا پڑتا تھا، جو صرف چند امیر ماہی گیروں کو ملتا تھا۔ کیوں کہ دوسرے ماہی گیر رشوت دینے کی اہلیت نہیں رکھتے تھے۔ کوکس بازار میں جانے کے تمام راستے بند ہو گئے تھے۔ کیوں کہ وہ بندرگاہ بہت بڑی چھاؤنی میں تبدیل ہو گئی تھی۔ سڑک سے صرف فوجی لاریاں گزرتی تھیں اور سمندر سے صرف جنگی جہاز۔ مجھے اخباری نمائندے کی حیثیت سے خاص اجازت نامہ ملا تھا، جس پر فوجی افسروں کے علاوہ چٹ گاؤں کے ڈپٹی کمشنر کی بھی مہر لگی ہوئی تھی۔

    بوڑھے ماہی گیر نے اپنی چلم سلگائی، نوجوان ماہی گیر مانجھیوں کا گیت گانے لگا۔ میں کشتی میں لیٹ کر خواب دیکھنے لگا۔ میری نگاہیں دور تک سر پر سے گزرنے والے ہوائی جہازوں کی سرخ اور سبز روشنیوں کا تعاقب کرتیں اور پھر آسمان پر بکھرے ہوئے ستاروں میں کھو جاتیں جو نیلے آسمان کی گود میں دریا کی موجوں کی طرح بہہ رہے تھے۔ بوڑھا ماہی گیر میرے پاس سرک آیا اور چلم میری طرف بڑھا دی۔ میں نے ایک لمبا سا کش لے کر پوچھا، ’’تم اپنا جال ساتھ لائے ہو؟‘‘

    ’’نہیں۔ جال کیا ہوگا۔ جب سے لڑائی شروع ہوئی ہے، سمندر میں جال ڈالنے کی اجازت نہیں ہے۔‘‘

    ’’کیوں نہیں ہے؟‘‘

    ’’کہتے ہیں پانی میں بڑے بڑے بم ڈال دیے گئے ہیں تاکہ دشمن کے جہاز نہ آ سکیں اور میں سوچتا ہوں کہ سرکار کے جہاز کیسے چلتے ہیں؟‘‘

    ’’بم تو سرکار ہی نے ڈالے ہیں۔‘‘ بیٹے نے اپنا گیت بند کرکے جواب دیا، ’’انہیں معلوم ہے کہ بم کہاں کہاں پڑے ہیں اور وہ اپنے جہازوں کو بچاکر نکال لے جاتے ہیں۔‘‘

    ’’ہم تو تباہ ہو گئے۔‘‘ بوڑھے نے اپنی داستان شروع کی۔ رات کے اندھیرے میں اس کا جھریوں پڑا چہرہ بڑا پروقار معلوم ہو رہا تھا، جس پر پچاس برس کے صعوبتوں کے نشان تھے۔

    ’’پچاس برس سے دریامیں جال ڈال رہا ہوں، اس کے ایک ایک چپے کو جانتا ہوں۔ بہتی ہوئی موجوں کو دیکھ کر بتا سکتا ہوں کہ ان کے نیچے کتنی مچھلیاں ہیں۔ سمندر کی مچھلیاں اور دریا کی مچھلیاں دو طرح کی ہوتی ہیں۔ جب وہ چلتی ہیں تو موجوں کی رفتار میں فرق آ جاتا ہے اور میں ایک نظر میں بھانپ لیتا ہوں کہ کون سی مچھلی جا رہی ہے۔ آسمان کو دیکھ کر بتا سکتا ہوں کہ موسم کتنی دیر میں بدل جائےگا۔ سمندر میں طوفان کب آئےگا اور دریا کا پانی الٹا کب بہے گا۔ پچاس برس سے یہی کام کر رہا ہوں، کچھ نہیں تو لاکھوں ہی مچھلیاں پکڑ ڈالی ہوں گی۔ لیکن آج تک یہ پتہ نہ چلا کہ ہم جو محنت کرتے ہیں، وہ دولت کہاں جاتی ہے۔ ہم دریا میں خالی جال ڈالتے ہیں۔ جب اسے کھینچتے ہیں تو اس میں چاندی بھری ہوتی ہے۔ تڑپتی ہوئی چاندی جو جھلمل جھلمل چمکتی ہے۔ عورتیں اس چاندی کو اپنی ٹوکریوں میں بھر کر بازار لے جاتی ہیں اور اس کے بدلے تانبے کے پیسے، گلٹ کے روپے اور کاغذ کے ٹکڑے لے آتی ہیں۔

     ہم پھر دریا میں جال ڈالتے ہیں اور پھر اس میں سے تڑپتی ہوئی چاندی باہر نکالتے ہیں اور یہ چاندی پھر تانبے، گلٹ اور کاغذ میں تبدیل ہو جاتی ہے اور ہمارے جسم سوکھتے چلے جاتے ہیں اور آنکھیں دھنستی چلی جاتی ہیں اور ہاتھ پاؤں لکڑی کی طرح خشک ہوتے جاتے ہیں۔ میں پچاس برس سے چٹ گاؤں کے بازاروں کے لیے دریا سے چاندی نکال رہا ہوں۔ لیکن مجھے تانبے اور گلٹ کے ٹکڑوں اور کاغذ کے میلے پرزوں کے سوا کچھ نہ ملا اور وہ بھی میرے پاس نہیں رہے۔ جیسے زندہ مچھلیاں ہاتھوں سے تڑپ کر نکل جاتی ہیں، یہ ٹکڑے بھی ہماری ہتھیلیوں سے پھسل جاتے ہیں اور ہماری مفلسی پہلے سے بھی زیادہ بھیانک ہو جاتی ہے۔‘‘

    نوجوان ماہی گیر باپ کی داستان غم سے بےنیاز کشتی کے اگلے سرے پر بیٹھا ہوا ایک عشقیہ گیت گا رہا تھا۔ بوڑھے نے اپنا سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے کہا، ’’تم پڑھے لکھے ہو، بہت سے دیس دیکھے ہوں گے۔ تم جانتے ہو کہ ہماری دولت کہاں جاتی ہے؟‘‘ میں کچھ کہنا چاہتا تھا لیکن بوڑھے ماہی گیر نے تو اس کا موقع نہیں دیا اور بہتی ہوئی موجوں کی طرف دیکھ کر اپنے سوال کا جواب دینے لگا، جیسے وہ سب کچھ جانتا ہے۔

    ’’یہ دریا ہزاربرس سے بہہ رہاہے اور اس کا پانی سمندر میں گر رہا ہے۔ میری عمر ساٹھ برس کی ہونے کو آئی لیکن میں نے ایک دن بھی نہیں دیکھا کہ اس کی موجوں کا بہاؤ رک گیا ہو۔ ایک کے پیچھے دوسری موج دیوانہ وار سمندر کی طرف چلی جا رہی ہے۔ سمندر جس کی تہہ کا کچھ پتہ نہیں، جو آکاش کی طرح پھیلا ہوا ہے، ہماری محنت بھی اسی طرح بہتی ہوئی کسی بڑے سمندر کی طرف چلی جا رہی ہے۔ کوئی اندھا سمندر جو ہماری چاندی کی طرح چمکتی محنت کو نگلے لے رہا ہے۔ چاندی ہی تو ہے جو بہہ رہی ہے۔ دیکھو یہ موجیں چاندی کی طرح چمک رہی ہیں۔ دریا کا رنگ سفید ہے اور سمندر کا رنگ نیلا اور یہ سفید چاندی نیلے سمندر میں جاکر کھو جاتی ہے۔‘‘

    میں نے موجوں کی طرف دیکھا تو واقعی بہتی ہوئی چاندی کی طرح چمک رہی تھیں۔ ہمارے بائیں طرف دور افق پر مہینے کی آخری راتوں کا چاند ابھر رہا تھا، جس کی نرم کرنیں فضا سے گزر کر دریا کے جسم پر پھیل گئی تھیں اور مٹیالے پانی کو سیال چاندی میں تبدیل کر رہی تھیں۔ بوڑھے کا سیاہی مائل چہرہ چاند کی ہلکی سی سرخی مائل روشنی میں چمک اٹھا تھا اور سفید بادبان بادل کا ایک خوبصورت ٹکڑا معلوم ہوتا تھا، جو کہیں چاندی کے دریا میں بہائے لیے جا رہا تھا۔ بوڑھے ماہی گیر نے نظر اٹھاکر چاند کی طرف دیکھا، پھر بادبان کی طرف۔ بادبان کچھ ٹیڑھا ہو گیا تھا، یا شاید ہوا کا رخ بدل گیا تھا اور اس لیے بادبان کا بھی رخ بدلنا ضروری تھا۔ اس نے اپنے بیٹے کو آواز دی۔ دونوں نے لپٹی ہوئی رسیاں کھولیں اور بادبان کا رخ بدل کر میرے پاس آ بیٹھے۔

    ’’جب سے لڑائی شروع ہوئی، مفلسی اور بڑھ گئی ہے۔ پہلے قحط پڑا۔ پھر وبائیں پھیلیں۔ ایسا قحط اور ایسی وبائیں تو میں نے دیکھی نہیں تھیں۔ ہیضہ اور پھر کالا آزار، پھر بدچلنی، ہمارے گاؤں کے گاؤں اجڑ گئے، بوڑھے اور بچے مر گئے۔ لڑکے آوارہ ہو گئے اور لڑکیاں گھر بار چھوڑ کر چلی گئیں۔ پھر یہاں فوج آ گئی اور ہمارے لڑکے اور لڑکیاں ماہی گیری چھوڑکر فوج میں مزدوری کرنے لگے۔ ماہی گیری کیسے کرتے۔ نہ جال تھے نہ کشتیاں، سرچھپانے کے لیے گھر بھی نہیں تھا۔ یہ سب چیزیں تو قحط ہی کے زمانے میں بک چکی تھیں۔ اب لڑکے بےحیا ہو گئے ہیں۔ لڑکیاں اور بھی زیادہ بےشرم ہو گئی ہیں، سپاہی انہیں روپے دیتے ہیں اور وہ سپاہیوں کو اب کیا کہوں کیا دیتی ہیں۔

    پہلے انہیں جال کی مرمت کرنی پڑتی تھی۔ سر پر مچھلیوں کی ٹوکری رکھ کر بازار جانا پڑتا تھا۔ پیٹ بھر کر کھانا نہیں ملتا تھا تو کیا، محنت سے جسم تندرست رہتے تھے۔ چہرے پر ایمانداری کی چمک ہوتی تھی اور اب؟ اب کیا ہے ذرا سی آنکھیں مٹکائیں، ذراسا کولہا چلایا اور کام بن گیا۔ مجھی کو دیکھو، میرے گاؤں میں تین سو گھر تھے، اب صر ف آٹھ گھر رہ گئے ہیں، باقی سب اجڑ گئے۔ اب ان کھنڈروں میں بیٹھ کر کتے روتے ہیں۔ میری بیوی قحط میں مر گئی۔ دو بیٹیاں تھیں وہ گھر سے بھاگ گئیں۔ اب سنا ہے کہ وہ اراکان روڈ پر مزدوری کر رہی ہیں۔ مزدوری تو کیا کر رہی ہوں گی، یہ تو بہانہ ہے۔ ایک کا نام رادھا ہے اور دوسری کا ساوتری۔ یہ نام تمہیں اس لیے بتا رہا ہوں کہ تم گھومنے پھرنے والے آدمی ہو۔ شاید تمہیں اراکان روڈ پر وہ لڑکیاں مل جائیں تو ان سے کہہ دینا کہ تمہارا باپ زندہ ہے، اپنا جھونپڑا ڈال لیا ہے، جال بھی ہے اور کشتی بھی اور دریا میں بہت سی مچھلیاں ہیں، رادھا اور ساوتری آجائیں تو ہم خوب مچھلیاں پکڑیں گے۔ یہاں ایک جال بھی ٹوٹا پڑا ہے، اس کی مرمت ان کے بغیر کیسے ہوگی۔‘‘

    بوڑھے کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ وہ چپ ہو گیا اور بہتے ہوئے پانی کی موجیں گننے لگا، جیسے وہ ان موجوں کے آئینے میں اپنی ساری گزری ہوئی زندگی کا عکس ڈھونڈ رہا ہو۔ اس کی ایک جھلک دیکھنا چاہتا ہو۔ اس کااجڑا ہوا گاؤں، مرے ہوئے ساتھی، بیوی جو داغ مفارقت دے گئی، گھر چھوڑ کر بھاگ جانے والی بیٹیاں، جو اسے اب بھی اتنی ہی پیاری تھیں۔ وہ سب ان موجوں میں تیر رہی تھیں۔ میں نے دیکھا کہ بوڑھے ماہی گیر کی انگلیاں کانپ رہی ہیں اور آنکھوں سے بہہ کر آنسو اس کی جھریوں میں بھر گئے ہیں۔

    تھوڑی دیر بعد اس نے ایک ٹھنڈی سانس لی اور کہنے لگا، ’’رادھااور ساوتری ہی کو کیوں براکہوں، آج کل سب لڑکیاں ایسی ہی ہو گئی ہیں۔ ہمارے یہاں کالے گورے ہزاروں سپاہی آ گئے ہیں۔ وہ لڑکیوں کے لیے موزے لاتے ہیں، سفیداور لال رنگ سے بھرے ہوئے ڈبے لاتے ہیں، چھوٹے چھوٹے آئینے لاتے ہیں اور لڑکیاں دیوانی ہو جاتی ہیں اور اپنا منہ رنگ کر ان کے پیچھے دوڑتی ہیں۔ سپاہی دریا میں اور تالابوں میں ننگے نہاتے ہیں اور لڑکیاں کنارے کھڑی ہوکر ان کا تماشا دیکھتی ہیں۔ میں نے اپنی آنکھوں سے یہ سب کچھ دیکھا ہے اور کئی بار سوچا کہ یہ سب لڑکیا ں قحط اور وبا میں مر کیوں نہ گئیں۔

    مچھلیاں پکڑنا، کھیت جوتنا اچھاپیشہ ہے، مانا کہ اس میں غریبی دور نہیں ہوتی لیکن عزت تو باقی رہتی ہے۔ گھر بار تو ہوتا ہے۔ لیکن یہ منہ پر رنگ پوت کے دیسی بدیسی سپاہیوں سے آنکھیں لڑانا کہاں کا پیشہ ہے، لیکن اب جسے دیکھو یہی کر رہی ہے۔ سپاہی اپنی موٹروں پر گزرتے ہیں تو سڑک کے کنارے کھڑی ہوئی لڑکیوں کو اپنے ساتھ بٹھا لیتے ہیں اور دو تین میل آگے جاکر چھوڑ دیتے ہیں۔ وہاں سے دوسرے سپاہی انہیں اٹھالے جاتے ہیں۔ چٹ گاؤں سے پتنکا اور پتنکا سے رامو اور رامو سے کو کس بازار تک یہی سلسلہ ہے۔ سب لڑکیاں خراب ہو گئی ہیں۔ کوئی اچھی نہیں رہ گئی۔ میں سوچتا ہوں ہم پر جاپانی بم کیوں نہیں گراتے۔‘‘

    پچھم کے ساحل پر ایک گاؤں آباد تھا اور اس کے سرسبز درختوں کا جھنڈ چاندنی میں آہستہ آہستہ پیچھے سرک رہا تھا۔ بوڑھے ماہی گیر نے اپنی انگلی کا اشارہ کرکے کہا، ’’وہ گاؤں دیکھتے ہو۔ قحط کے زمانے میں وہاں کے تمام آدمی مر گئے۔ ان کی لاشیں گیدڑوں اور کتوں نے کھائیں۔ اس سال درخت میں پھل نہیں آئے بلکہ شاخوں میں میں گدھ پھلے تھے۔ گدھ ہی گدھ جو اکثر زندہ آدمیوں پر بھی جھپٹ پڑتے تھے۔ کوئی آدمی اس طرف آنے کی ہمت نہیں کرتا تھا۔ ایک رات کیا ہوا کہ ٹھیک بارہ بجے کے وقت دوسرے گاؤں سے ایک شعلہ بلند ہوا اور اس گاؤں کی طرف چلا۔ تھوڑی دیر میں پھچم کی طرف سے ایک شعلہ اٹھا اور وہ بھی اس گاؤں کی طرف چلا اور پھر دونوں شعلے مل گئے۔

    اس کی خبر چاروں طرف پھیل گئی۔ اب روزرات کے بارہ بجے آگ کے دوشعلے ناچتے ہوئے چلتے تھے، ایک پورب سے دوسرا پچھم سے اور دونوں اس گاؤں میں آکر مل جاتے تھے۔ کسی نے کہا بھوت ہیں، کسی نے کہا پریت ہیں اور تم تو جانتے ہو کہ مرنے کے بعد انسان بھوت پریت بن جاتے ہیں اور یہاں تو ہزاروں آدمی مرے پڑے تھے۔ جب میں نے پہلی بار ان بھوتوں کو دیکھا تو میرا دل کانپ اٹھا۔ میں ڈرپوک آدمی نہیں ہوں، لیکن بھوت پریت سے تو سبھی ڈرتے ہیں۔‘‘

    بیٹے نے باپ کو ٹوک دیا، ’’یوں نہیں ہوا تھا۔ میں سناتاہوں، میں نے ان شعلوں کو پکڑا تھا۔‘‘

    ’’سچ؟ تم نے ان شعلوں کو پکڑ لیا؟‘‘ میں نے حیرت سے پوچھا۔ بوڑھے نے خوش ہوکر کہا، ’’میرا بیٹا بڑا بہادر ہے۔‘‘ اور نوجوان ماہی گیر کاسینہ اور چوڑا ہو گیا اور بازوؤں کی مچھلیاں پھڑک اٹھیں۔ اس نے بہت گمبھیر لہجے میں کہا کہ ’’کسی کی ہمت نہیں پڑتی تھی کہ ان بھوتوں کو پکڑے۔ اردگرد کے تمام گاؤں تھر تھر کانپتے تھے۔ کوئی کہتا تھا بھوت ہیں، کوئی کہتا تھا پریت ہیں۔ کوئی کہتا تھا کہ انگریزوں نے ایسے بم بنائے ہیں جو رات بھر خودبخود پہرہ دیتے رہتے ہیں اور دشمن کو پہچان کر اس پر جھپٹ پڑتے ہیں۔ بات ہی ایسی تھی۔ اس سے پہلے چٹ گاؤں کے کسی آدمی نے شعلوں کو چلتے نہیں دیکھا تھا۔ میرے دل میں کچھ اور ہی آئی۔ میں نے کہا جان رہے یا جائے، میں ضرور پتہ لگاؤں گا کہ یہ شعلے کیا ہیں۔ کہاں سے آتے ہیں اور کہاں جاتے ہیں۔‘‘

    چاند اتنی دیر میں کافی اونچا ہو گیا تھا اور اس کی کرنوں کی پھوار ہوا کے جھونکوں کے ساتھ زمین پر گر رہی تھی۔ رات ٹھنڈی ہو چلی تھی۔ دونوں ماہی گیروں نے ایک چلم اور بھری اور باری باری اس کا کش لے کرمیرے طرف بڑھا دی۔

    ’’میں کئی دن تک منصوبے باندھتا رہا لیکن ہمت نہیں پڑتی تھی۔ آخر ایک دن جی کڑاکرکے میں تیار ہو گیا۔ میں نے اپنی لنگوٹ کس کر باندھ لی اور ہاتھ میں ایک بلم لے لیا اور رات کے گیارہ ہی بجے سے ہی جاکر اس راستے پر بیٹھ گیا، جہاں سے وہ دونوں شعلے گزرتے تھے۔ میرا دل میرے سینے سے نکل کر میرے کانوں میں آ گیا تھا اور اس کی دھڑکن سے کان کے پردے پھٹے جا رہے تھے۔ میں جس پیڑ کے نیچے بیٹھا تھا، اس کی شاخیں میرے سر پر چڑھتی چلی آ رہی تھیں اور مجھے ایسا معلوم ہو رہا تھا جیسے یہ اب مجھے کچل دیں گی۔ چاروں طرف سناٹا تھا۔ صرف گھاس میں دبکے ہوئے کیڑوں مکوڑوں کے بولنے کی آوازیں آ رہی تھیں۔ یا کبھی کبھی کتے رونے لگتے تھے، یا پیڑوں پر بیٹھے ہوئے گدھ اپنے پر پھڑپھڑاتے تھے۔ گیارہ بجے، سوا گیارہ بجے، پونے بارہ بجے، بس اب بارہ بجنے ہی والے تھے اور میرے ہاتھ پاؤں سنسنا رہے تھے اور خون معلوم ہو رہا تھا رگوں کو پھاڑ کر باہر نکل آئے گا۔

    ٹھیک اس وقت جب شہر کے گھنٹے نے بارہ بجائے تو میں نے دیکھا کہ دور میرے سامنے زمین سے ایک شعلہ اٹھا اور میری طرف چلنے لگا۔ دیکھتے دیکھتے دوسری طرف سے ایک اور شعلہ اٹھا اور وہ بھی میری طرف بڑھنے لگا۔ میرے دل کی دھڑکنیں اور تیز ہو گئیں۔ دونوں ہی میرے قریب آتے جارہے تھے اور میں آنکھیں پھاڑے ہوئے اپنے سامنے سے آتے ہوئے شعلے کو دیکھ رہا تھا۔ رات کے اندھیرے میں اس کی چمک بہت تیز تھی۔ تھوڑی دیر کے بعد میں نے محسوس کیا کہ وہ شعلہ زمین پر نہیں چل رہا ہے بلکہ ہوا میں اڑ رہا ہے۔ آہستہ آہستہ ہوا میں معلق شعلہ میرے قریب آتا گیا۔ میرا بدن سن ہو گیا۔ زبان منہ میں اینٹھ گئی۔

    بلم کو چھوا تو وہ کئی من کا معلوم ہوا۔ میرے پیر زمین نے پکڑ لیے تھے اور اب مجھ میں ہلنے کی بھی سکت نہیں تھی۔ میں نے عمر میں پہلی بار یہ محسوس کیا کہ میں بزدل ہوں۔ مگر اب کیا ہوتا تھا۔ موت میرے سر پر آ گئی تھی اور وہ شعلہ مجھ سے دوتین گز کے فاصلے پر تھا اور میں اس کے راستے میں بیٹھا ہو اتھا۔ یکایک میرے سارے جسم میں اک آگ سی لگ گئی۔ خون جو رگوں میں جم گیا تھا پھر تیزی سے دوڑنے لگا اور کسی نے مجھے زمین سے اوپر اچھال دیا اور میرے منہ سے بے ساختہ نکلا، ’’کون ہے؟‘‘

    نوجوان ماہی گیر چپ ہو گیا اور بوڑھا ماہی گیر اپنی پھٹی ہوئی قمیص پر ایک پھٹی ہوئی صدری پہننے لگا۔ رات کی خنکی بڑھ رہی تھی۔ ہم شاید سمندر کے قریب پہنچ رہے تھے کیوں کہ بوڑھا ماہی گیر کشتی میں لیٹے ہوئے چپوؤں کو نکال کر ادھر ادھر لگا رہا تھا۔ ہوا کے جھونکے بھی بھیگے ہوئے تھے اور ان میں ہلکے سے نمک کا ذائقہ تھا۔

    میں نے حیرت، استعجاب اور شوق سے پوچھا، ’’پھر کیا ہوا؟‘‘ نوجوان ماہی گیر نے اپنی چلم سے دوتین لمبے لمبے کش اور لیے اور پھر دریا میں چلم الٹ دی۔

    ’’ہاں تو میرے منہ سے بے ساختہ نکلا، کون ہے۔ اسی کے ساتھ فضا میں ایک چیخ بلند ہوئی اور زمین پر بہت سارے شعلے بکھر گئے۔ میرے سامنے ایک ننگ دھڑنگ عورت کھڑی ہوئی تھی، جس کا جسم تھر تھر کانپ رہا تھا۔‘‘

    ’’عورت؟‘‘ میں نے پوچھا۔ جیسے مجھے یقین نہ آیا ہو۔

    ’’ہاں عورت۔۔۔ جوان عورت۔ ایسی ہی کوئی بیس برس کی اور سر سے پاؤں تک ننگی۔ میں نے لپک کراسے پکڑ لیا۔ اس نے اپنے کو چھڑانے کی بالکل کوشش نہیں کی۔ بلکہ میرے کندھے پر سر رکھ کر ہچکیاں لینے لگی اور میرا سینہ اس کے آنسوؤں سے بھیگ گیا۔ کوئی دس گز کے فاصلے پر انگاروں کا ایک ڈھیر اور پڑا ہوا تھا اور اندھیرے میں ایک پرچھائیں سی بھاگتی ہوئی نظر آ رہی تھی۔ میں نے پوچھا، ’’تو کون ہے؟‘‘ لیکن ہچکیوں اور سسکیوں کے سوا کوئی جواب نہیں ملا۔ میں نے پھر پوچھا۔ تو کون ہے، تو کون ہے۔ لیکن وہ مسلسل رونے لگی تھی۔ آخر میں نے اس کا سر اپنے کندھے سے اٹھایا اور اسے غور سے دیکھا۔ ارے یہ تو چہرو تھی۔ عبداللہ چاچا کی لڑکی۔ میں نے کہا، چہرو کیا ہو گیا ہے۔ یہ رو کیوں رہی ہے۔ منہ سے بولتی کیوں نہیں۔ میں بھلا تیرا کچھ بگاڑوں گا۔ میں گنیش ہوں، گنیش مچھیرا۔‘‘

    ’’ہاں۔‘‘ اس نے سسکی لیتے ہوئے کہا۔ مجھے بڑی شرم آرہی تھی کہ ایک ننگی عورت میری گود میں ہے۔ میں نے بہت کوشش کی لیکن آنکھیں بند نہیں کر سکا۔ ستاروں کی روشنی میں، میں نے اسے سر سے پاؤں تک دیکھا۔ وہ بےحد خوبصورت تھی، جیسے کوئی اپسرا۔ وہ اپنے گاؤں کی سب سے خوبصورت لڑکی تھی۔ عمر بیس برس کی ہو گئی تھی، لیکن اب تک بیاہ نہیں ہوا تھا۔ اس کے باپ کے پاس بیاہ کرنے کے لیے روپیہ تھا ہی نہیں۔ گاؤں کے تمام لڑکوں کی رال اس پر ٹپکتی تھی اور وہ جس کی طرف نظر اٹھاکر دیکھ لیتی تھی، یا ذرا سا مسکرادیتی تھی، اس کا دل کئی دن تک دھڑکتا رہتا تھا۔

    میں نے بھی اسے کئی بار دیکھا تھا اور دل میں یہ سوچا تھا، کاش وہ مچھیری ہوتی یا میں مسلمان ہوتا، میں اس سے ضرو رشادی کر لیتا لیکن مشکل یہ تھی کہ میں مچھیرا تھا اور وہ مسلمان۔ لیکن آج رات کو بارہ بجے گاؤں کی یہ سب سے زیادہ خوبصورت لڑکی، جس پر ہر جوان لڑکا اپنی جان چھڑکتا تھا، اکیلی اور ننگی میری گود میں تھی۔ چاروں طرف سے سڑی ہوئی لاشوں کی بو آ رہی تھی۔ درختوں پر گدھ اپنے پروں کو پھڑپھڑا رہے تھے۔ کتے رو رہے تھے اور چہرو میرے سینے پر سر رکھے ہوئے رو رہی تھی۔ میں چہرو کو لے کر کھیت کی مینڈھ پر بیٹھ گیا۔ میں نے سوچا اسے جی بھر کے رو لینے دو، جب اس کے دل کے سارے آنسو بہہ جائیں گے تب بات کروں گا۔

    بوڑھے ماہی گیر نے آواز دی، ’’سمندر آ گیا۔ چپو سنبھال لو۔‘‘ گنیش پیچھے اور اس کاباپ آگے بیٹھ گیا اور چار چپو چپاچپ لگنے لگے۔ میں بھی اٹھ کر بیٹھ گیا۔ دریا کی انفرادیت غائب ہو چکی تھی اور اب ہمارے چاروں طرف پانی ہی پانی تھا۔ سمندر پر ایک غنودگی طاری تھی۔ لہریں آہستہ آہستہ سانس لے رہی تھیں۔ ہوا کے جھونکے بڑے ہلکے تھے۔ ہماری کشتی پورب کی طرف مڑ گئی اور چاند ہمارے سر پر چمک رہا تھا، ایک خوبصورت چہرے کی طرح، جو مکان کی سب سے اونچی منزل کی کھڑکی سے جھانک رہا ہو اور راہ گیروں پر اپنے حسن کی بارش کر رہا ہو۔ دونوں ماہی گیر بڑی پھرتی اور صفائی سے چپو چلا رہے تھے۔ ان کے جسم ایک ساتھ آگے جھکتے تھے اور پھر سیدھے ہوجاتے تھے۔ سیدھے ہوتے وقت ان کے کندھے بلند ہوتے تھے اور سینے تن جاتے تھے۔ چپو بھی ان کے ہاتھ معلوم ہوتے تھے، جو سمندر تک پھیلے ہوئے تھے اور موجوں کو اس طرح کاٹ رہے تھے جیسے ہنسیا دھان کے پکے کھیتوں کو کاٹتا ہے۔ ان کے بازوؤں کی جنبش میں ایک خاموش ہم آہنگی اور ترنم تھا، جو سمندر کی موجوں کے ترنم سے مل گیا تھا۔

    وہ دونوں بڑی دیر تک کشتی کھیتے رہے، یہاں تک کہ چاند پچھم کی طرف ڈھل گیا اور ایک گول ٹکیا سمندر کی سطح کے قریب لرزنے لگی۔ باپ اور بیٹا دونوں تھک کر چور ہو گئے اور سستانے کے لیے انہوں نے پھر چپو نکال کر کشتی میں لٹا دیے۔ گنیش نے اپنی ہتھیلیاں ملیں۔ بوڑھے ماہی گیر نے پھر چلم بھری اور کشتی کی ایک دیوار سے سہارا لے کر لیٹ گیا۔ بادبان میں بھری ہوئی ہوا کشتی کو آہستہ آہستہ چلا رہی تھی۔ میں نے گنیش کو آواز دی۔ وہ مسکرانے لگا، ’’تم چہرو کے بارے میں سوچ رہے ہوگے؟‘‘

    ’’ہاں!‘‘

    ’’میرے دل میں بھی چہرو ہی بیٹھی ہوئی ہے۔ اس کا نام گل چہر تھا اور وہ ایک بہت غریب کسان کی لڑکی تھی۔ سب لوگ اسے چہرو کہتے تھے۔ قحط میں اس کے ماں باپ، بھائی بہن سب مر گئے۔ وہ اکیلی رہ گئی۔ اس زمانے میں تو بھیک بھی نہیں ملتی تھی۔ فاقے کرنے اور ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مر جانے کے سوا چارہ ہی کیا تھا۔ لیکن چہرو خوب صورت تھی اور اس کی ایک سپاہی سے آشنائی ہو گئی۔ کوئی پنجابی سپاہی تھا۔ وہ دونوں چھپ چھپ کر ملنے لگے۔ ملنے کی یہ انوکھی ترکیب نکالی کہ رات کو بارہ بجے دونوں ننگے ہو جاتے تھے اور اپنے سروں پر آگ کی تھالی بھر کر رکھ لیتے تھے اور اس گاؤں میں چلے جاتے تھے جہاں کسانوں کی لاشیں سڑ رہی تھیں۔‘‘

    ’’لیکن وہ اس طرح کیوں ملتے تھے؟‘‘

    ’’میں نے بھی چہرو سے یہی سوال کیا کہ تونے یہ کیا تماشا کیا ہے۔ رات کے بارہ بجے ننگی ہوکر چڑیلوں کی طرح کیوں نکلتی ہے۔ اس نے جواب دیا، تاکہ لوگ سچ مچ مجھے چڑیل اور میرے سپاہی کو بھوت سمجھیں! میں نے کہا تو اس کے ساتھ نکاح کیوں نہیں کر لیتی تو اس نے بتایا کہ وہ ایک بار اپنے سپاہی کے ساتھ کیمپ میں گئی تھی، تو فوجی افسروں نے اسے دیکھ لیا اور سپاہی کو سزا دی۔ پھر فوجی ٹھیکیداروں نے اس کے پاس آدمی بھیجے کہ چل تجھے بڑے افسروں کے پاس لے چلیں گے۔ لیکن وہ بڑے افسروں کے پاس نہیں جانا چاہتی تھی۔ وہ کوئی بیسوا تھوڑی تھی۔ اسے سچ مچ اپنے سپاہی سے محبت تھی۔ اس لیے رات کے بارہ بجے جب تمام گاؤں کے لوگ ڈر کے مارے گھروں میں چھپ جاتے تھے تو وہ اپنے سروں پر آگ سے بھری ہوئی تھال رکھ کر نکلتی تھی اور اپنے سپاہی سے مل کر واپس چلی جاتی تھی۔

    سپاہی اس کو کھانا اور رہنے کاخرچ دیتا تھا۔ جب میں نے اس کا پورا قصہ سناتو مجھے بڑا افسوس ہوا۔ میں نے اس سے معافی مانگی لیکن اس نے کہا، ’’اب میں اپنے سپاہی سے نفرت کرنے لگی ہوں۔‘‘ میں نے پوچھا کیوں؟ تو بولی کہ ’’وہ مجھے اکیلا چھوڑ کر بھاگ گیا، ڈرپوک کہیں کا۔ وہ تو کہو کہ تم تھے اور تم مجھے جانتے ہو، کوئی اور ہوتا تو کیا ہوتا اور تم نے بھی مجھے ننگا دیکھا ہے۔ بتاؤ تمہیں میرا جسم دیکھنے کا کیا حق ہے۔ میں تمہاری بیوی نہیں ہوں، تمہاری معشوقہ نہیں ہوں، تم نے میرے جسم پر اپنی نگاہیں کیسے ڈالیں۔‘‘ یہ کہہ کر چہرو مجھ سے لڑنے لگی۔ وہ تن کر کھڑی ہو گئی۔ اس کی آنکھوں سے شعلے نکل رہے تھے اور اس نے اپنے خوب صورت بالوں سے اپنا سینہ چھپا لیا تھا۔

    میں نے کہا چلو میں تم کو گھر پہنچا آؤں لیکن اس نے انکار کردیا۔ کیا سمجھتے ہو، میں ڈرتی ہوں، میں خود چلی جاؤں گی۔ جہاں میرا جی چاہے گا وہاں جاؤں گی، میراکوئی گھر نہیں ہے۔ وہ دیر تک اکھڑی ہوئی سانس لیتی رہی اور پھر خود ہی بڑی نرمی سے بولی۔۔۔ تم کسی سے کہو گے تو نہیں۔ میں نے وعدہ کیا تو وہ مسکرائی۔ اس سے میری ہمت بڑھی اور میں نے کہا۔ چہرو میں تم سے محبت کرنے لگاہوں۔ مجھ سے بیاہ کروگی۔ وہ بہت زور سے ہنسی، قہقہہ مار کر، جس کی آواز سن کر کتے پھر رونے لگے اور گدھ اپنے پر پھڑپھڑانے لگے۔ میں نے کہا چہرو سچ مچ تم سے بیاہ کرنا چاہتا ہوں، آج سے نہیں بلکہ دوبرس سے تمہارا دیوانہ ہوں۔

    چہرو پھر سنجیدہ ہوگئی اور کہنے لگی، ’’تم نے پہلے کیوں نہیں بیاہ کی بات کی۔ مجھے دو وقت کھانا دے سکوگے۔ میری بڑی بہن دس برس کی بیاہی تھی، لیکن اس کے میاں نے اسے ہاتھ پکڑ کر نکال دیا۔ میری ماں نے مرنے سے پہلے اپنے تین برس کے بیٹے کو گھر سے ڈھکیل دیا۔ ایک مٹھی بھر چاول کے لیے میرا باپ گلا گھونٹنا چاہتا تھا۔ بتاؤ تم مجھ سے بیاہ کرکے مچھلی اور بھات کہاں سے دوگے۔ آج تم نے مجھے ننگا دیکھا ہے تو تمہیں مجھ سے محبت ہو گئی۔ لیکن اس محبت سے تم چاول نہیں خرید سکوگے، چاول، چاول دو روپیہ سیر بک رہا ہے، دو روپیہ سیر۔‘‘ یہ کہتی ہوئی وہ چلی گئی۔ چہرو چلی گئی اور اس کا خوب صورت جسم اندھیرے میں کھو گیا۔ میرے سامنے زمین پر انگاروں کا ڈھیر پڑا تھا، جو رفتہ رفتہ بجھتے جا رہے تھے۔ وہ راتوں رات کہیں نکل گئی اور آج تک واپس نہیں آئی۔ اس قصے کو چھ مہینے ہو گئے ہیں۔ میں اپنے دل میں چہرو کی یاد لیے بیٹھا ہوں۔ جب بہت اداس ہوتا ہوں تو کشتی لے کر دریا میں نکل جاتا ہوں۔ جسمانی محنت سے دل کا درد دور ہو جاتا ہے۔‘‘

    گنیش تھوڑی دیر تک سرجھکائے بیٹھا رہا اور پھر خاموشی سے اٹھ کر چپو چلانے لگا۔ اس کا بوڑھا باپ خراٹے لے رہا تھا اور سمندر کی موجیں سسک رہی تھیں۔ میں بھی لیٹے لیٹے سو گیا۔ گنیش رات بھر اکیلا چپو چلاتا رہا۔ جب صبح میری آنکھ کھلی تو سورج نکل رہا تھا۔ سمندر کی موجیں ناچ ناچ کر گیت گا رہی تھیں۔ ہمارے پیچھے سبز رنگ کا زمردیں سمندر تھا اور سامنے سنہرے رنگ کا سمندر، جس کے کنارے کنارے کوکس بازار کادل کش ساحل پھیلا ہواتھا۔ سپاری کے نازک درخت سراٹھائے کھڑے تھے جیسے ابھی سمندر سے نہاکر نکلے ہوں اور دھوپ میں اپنے بال سکھا رہے ہوں۔ دونوں ماہی گیر تیز تیز چپو چلا رہے تھے اور کشتی کو کس بازار کے ننھے سے دریا کے دہانے میں داخل ہو رہی تھی۔

    اب ہم پتلے سے دریا کے اندر تھے اور ہمارے دونوں طرف کالے رنگ کی کیچڑ اور پھر سنہرے رنگ کا ساحل تھا۔ ایک طرف ہزاروں فوجی موٹریں اور توپیں کھڑی تھیں۔ دوسری طرف ہوائی اڈے پر سیکڑوں جہاز بڑی بڑی ٹڈیوں کی طرح اپنے سر اٹھائے کھڑے تھے۔ کئی جہاز سر پر منڈلا رہے تھے۔ جہاز توڑ توپیں اپنے دہانے آسمان کی طرف اٹھائے ہوئے جاپانی جہازوں کاانتظار کر رہی تھیں اور بہت سے سپاہی افسر اور مزدور ریت پر چل پھر رہے تھے۔ بیچ دریا میں لکڑی کا ایک پل بنا ہوا تھا۔ جس کے پاس کئی کشتیاں اور سمپانیں تیر رہی تھیں۔ ہماری کشتی بھی پل سے لگ کر کھڑی ہو گئی۔ یکایک گنیش کی زبان سے نکلا، ’’چہرو!‘‘

    میں نے نظر اٹھاکر دیکھا تو مبہوت رہ گیا۔ پل پر ایک دبلی پتلی لڑکی کھڑی تھی۔ اس نے زرد مخمل کی پتلون اور سبز مخمل کی جیکٹ پہن رکھی تھی۔ اس کے کٹے ہوئے بال سمندر سے آنے والی ہوا میں اڑ رہے تھے۔ بھویں تنی ہوئی تھیں اور آنکھوں میں سورج کی کرنوں کی تیزی تھی۔ میں نے پھر نظر بھر کر اس کی طرف دیکھا۔ اس کے رخسار پاؤڈر اور رنگ سے گلابی ہو رہے تھے اور ہونٹوں پر لپ اسٹک کی ایک بڑی گہری تہہ جمی ہوئی تھی۔ بائیں ہاتھ کی کلائی پر گھڑی بندھی تھی اور داہنے ہاتھ میں ایک فوجی بید تھا۔ اس نے بید سے میری طرف اشارہ کرکے کہا، ’’بھدرلوک‘‘ اور اس کی آنکھوں میں ایک وحشی چمک ناچ اٹھی۔

    بوڑھے ملاح نے جلدی سے کہا، ’’پرمٹ دکھاؤ۔‘‘ میں نے جیب سے پرمٹ نکالا اور کشتی میں کھڑے ہوکر چہرو کی طرف بڑھا دیا۔ لیکن اس نے پرمٹ کی طرف دیکھا بھی نہیں اور مجھ سے کہا، ’’کشتی سے نیچے اترو۔‘‘ میں نے پل پر چڑھنے کے لیے ہاتھ بڑھایا ہی تھا کہ اس نے اپنے بید سے ایک ٹھوکا دے کر کہا، ’’اوپر مت چڑھو، کشتی سے نیچے اترو۔‘‘ لیکن نیچے سیاہ رنگ کی کیچڑ تھی۔ میں حیران تھا اور میری سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا، کہ کیا ہو رہا ہے۔ گنیش نے کہا، ’’چہرو تو کتنی بدل گئی ہے۔ دیکھتی نہیں نیچے کیچڑ ہے۔‘‘

    ’’دیکھ رہی ہوں۔‘‘ چہرو نے گنیش کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر جواب دیا، ’’اسی لیے تو کہہ رہی ہوں کہ اسے نیچے اتارو۔ یہ بھدرلوک ہے اور بھدرلوک کو پل پر چڑھنے کی اجازت نہیں ہے۔ اسے کیچڑ میں چلاؤ تاکہ اس کے سفید کپڑے لت پت ہو جائیں۔ جلدی کرو، دوسری کشتیاں آرہی ہیں۔‘‘ چہرو کی آواز میں ایک قسم کا وقار تھا۔ آنکھوں میں وہی وحشی چمک۔ گنیش اور بوڑھے ملاح کے چہروں پر پریشانی تھی۔ میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا، کئی فوجی کشتیاں آرہی تھیں۔ میں کیچڑ میں چلنے کو تیار ہو گیا اور اپنے جوتے اتارنے لگا۔ گنیش نے اپنے مضبوط بازوؤں کی جنبش سے میرا سامان اٹھاکر ساحل پر پھینک دیا۔ بوڑھے ملاح نے کہا، ’’چہرو تو بڑی افسر ہو گئی ہے اور ہم سب کو بھول گئی ہے۔‘‘ پھر میری طرف اشارہ کرکے بولا، ’’یہ بھدرلوک ہیں۔ بمبئی سے آئے ہیں، غریبوں کی سیوا کرتے ہیں۔‘‘

    آخری جملہ سن کر چہرو کو گھن آ گئی۔ اس کے ہونٹ تلخی سے اینٹھ گئے اور اس نے اپنی وحشی آنکھوں سے مجھے گھور کر دیکھا پھر بولی، ’’سب بھدرلوک ایک سے ہوتے ہیں اور سب غریبوں کی سیوا کرتے ہیں۔ چاچا میں تمہیں بھولی نہیں ہوں۔ اپنی ماں کی کوکھ کو بھی نہیں بھولی ہوں۔ مجھے خوب یاد ہے کہ میں کون ہوں۔ تم مچھیرے ہو اور میں کسان کی لڑکی ہوں۔ میں ہر بھدرلوک کو اس کیچڑ میں چلاتی ہوں۔ تم نے اسے سمندر میں ڈبوکیوں نہیں دیا۔ بھدرلوک کہیں کا۔‘‘

    میں اتنی دیر میں کیچڑ میں اترچکا تھا اور جیب سے روپے نکال کر کشتی کا کرایہ ادا کر رہاتھا۔ میرے پیر گھٹنوں گھٹنوں تک سیاہ کیچڑ میں دھنس گئے تھے۔ پل پر کھڑی ہوئی چہرو مجھے دیکھ کر مسکرا رہی تھی اور گنیش اسے للچائی نظروں سے دیکھ رہا تھا۔ جب میں کیچڑ سے گزر کر ساحل پر پہنچا تو چہرو کا قہقہہ بلند ہوا، پھر اس نے اپنا ہاتھ بڑھاکر گنیش کو پل کے اوپر چڑھالیا اور اس سے ہنس ہنس کر آہستہ آہستہ کچھ باتیں کرنے لگی۔ گنیش نے پکار کر باپ سے کہا، ’’بابا تم جاؤ، میں یہیں رہوں گا۔‘‘ بوڑھے ملاح نے ملامت بھری نظروں سے دونوں کو دیکھا اور بولا، ’’پاگل مت بن بیٹا، چہرو تیرے کام کی نہیں رہ گئی۔‘‘

    چہرو نے مسکراکر گنیش کے رخسار پر اپنی ہتھیلی سے ایک ہلکی سی تھپکی دی اور اسے سہارا دے کر پل سے نیچے کشتی میں اتارنے لگی۔ گنیش نے اس کا ہاتھ جھٹک دیا اور کود کر کشتی میں بیٹھ گیا۔ اس نے دونوں ہاتھوں میں چپو اٹھا لیے اور انہیں تیز تیز چلاتا ہواکشی کو نکال لے گیا۔ چہرو کی نگاہیں دور تک اس کا تعاقب کرتی رہیں۔ میں ایک میلے تولیے سے اپنے پیر کی کیچڑ پونچھ رہاتھا کہ چہرو پل سے اترکر میرے پاس آ کھڑی ہوئی اور پوچھنے لگی، ’’تم کہاں سے آئے ہو؟ بمبئی سے؟‘‘

    ’’جہنم سے۔‘‘ میں نے جل کر کہا۔

    ’’میں کبھی کبھی بھدرلوک کو پیٹ بھی دیتی ہوں۔ اپنے اس بید سے۔‘‘ چہرو کی آنکھوں میں شرارت تھی۔ میں نے گردن اٹھاکر اس عجیب و غریب لڑکی کی طرف دیکھا۔ اس کی آنکھوں کی وحشی چمک میں بلا کا جادو تھا اور پیشانی پر نفرت اور شرارت سے پڑی ہوئی ہلکی ہلکی شکنیں اس کے خوب صورت بیضاوی چہرے کی معصومیت میں وقار کا اضافہ کر رہی تھیں۔ میں اس سے باتیں کرنا چاہتا تھا۔ گنیش کی کہانی نے میرا شوق اور بڑھادیا تھا۔ لیکن چہرو کے تیور بڑے خطرناک تھے اور مجھے زبان کھولنے کی اجازت نہیں دیتے تھے۔

    ’’مجھے گالی کیوں دیتی ہو۔ میں بھدرلوک نہیں ہوں۔‘‘ میں نے جھجکتے ہوئے کہا۔

    ’’اچھا تم بھدرلوک کو گالی سمجھتے ہو؟‘‘ وہ ہنسی، ’’مگر تمہارے کپڑے تو ویسے ہی ہیں۔‘‘

    ’’اور تمہارے کپڑے؟‘‘

    ’’یہ تو میں نے بھدرلوکوں کو جلانے کے لیے پہنے ہیں۔ مجھے اچھے تھوڑی لگتے ہیں۔‘‘

    ’’اور یہ چہرے پر رنگ جو تم نے پوت رکھا ہے؟‘‘

    ’’روزی کمانے کے لیے!‘‘

    میں اس کی صورت دیکھتا رہ گیا۔ یہ بے حیائی تھی، بے باکی تھی، یا انتقام کاجذبہ۔ میں کچھ فیصلہ نہ ک رسکا۔

    ’’اچھا تو تم بھدرلوک نہیں ہو اور غریبوں کی سیوا کرتے ہو؟‘‘ اس نے بڑے طنز سے پوچھا، ’’کالا بازار کرتے ہو لڑکیاں بیچتے ہو؟‘‘ اس کے ماتھے کی شکنیں اور گہری ہو گئیں اور تیوریوں پر بل پڑگئے، ہونٹوں پر ایک تلخ سی ہنسی آئی اور وہ مجھے نفرت اور حقارت سے دیکھتی ہوئی چلی گئی اور میں یہ سوچتارہ گیا کہ یہ کیسی لڑکی ہے جس میں کسانوں کی بو باس تک باقی نہیں رہ گئی ہے۔

    یہ بغاوت اور انتقام نہیں ہے۔ صرف نراج اور آوارگی ہے۔ یہ پارہ سے بنی ہوئی لڑکی، جس کی رگوں میں بجلیاں بھری ہوئی ہیں، خود اپنی ذات سے انتقام لے رہی ہے۔ اپنی فطرت اور اپنی نسوانیت سے بغاوت کر رہی ہے۔ جیسے سمندر کی کوئی بےتاب موج طوفان کی آغوش سے نکل کر ساحل پر آپڑی ہو اور اپنے تھپیڑوں سے خشک ریت کو سمندر بنانے کی کوشش کر رہی ہو۔ ننھے ننھے خاک کے ذرے اسے اپنا رزق سمجھ کر ایک ایک گھونٹ کرکے پی جائیں گے۔

    کوکس بازار میں ہر ایک کی زبان پر چہرو مانجھی کا نام تھا۔ چہرو جو بیس برس کی لڑکی تھی۔ جس نے مزدوری کرتے کرتے مزدوروں کی سرداری حاصل کر لی تھی۔۔ اور اب مانجھی کہلاتی تھی۔۔۔ جس نے تھانبی اور بازو اور گمچھا ترک کرکے انگریزی لباس پہننا شروع کر دیا تھا۔ جو اپنے حسن کی وجہ سے فوجی افسروں کے منہ چڑھی ہوئی تھی۔ جو کسی سفید پوش آدمی کو برداشت نہیں کر سکتی تھی۔ جو ہرایک کی بے عزتی کر دیتی تھی۔ جو درجنوں شریف آدمیوں کو کیچڑ میں چلا چکی تھی۔ عورتیں خاص طور سے اس سے نفرت کرتی تھیں لیکن مرد کچھ للچائے ہوئے لہجے میں اس کی مذمت کرتے تھے۔

    دوسرے دن میں نے اسے ایک جیپ میں گزرتے دیکھا۔ اس کی گود میں پھولوں کاایک بڑاسا گچھا رکھا تھا۔ تیسرے دن وہ مجھے ایک چرنگر کے پاس کھڑی ہوئی مل گئی اور مجھے دیکھ کر مسکرا دی۔ میں نے کہا، ’’کیسی ہو چہرو؟‘‘

    ’’کیسی ہوں؟‘‘ اس کی آنکھیں پھر چمک اٹھیں، ’’اچھا یہ بتاؤ، میں پتلون اور جیکٹ پہن کر کیسی لگتی ہوں؟‘‘

    ’’بالکل انگلستان کی شہزادی معلوم ہوتی ہو۔‘‘

    وہ کھلکھلاکر ہنس پڑی اور اس کے دونوں رخساروں میں دو چھوٹے چھوٹے گڑھے پڑ گئے اور خوب صورت سفید دانتوں کی قطار چمکنے لگی۔ اتنے میں ایک فوجی ٹرک آئی۔ چہرو نے ہاتھ کا اشارہ کیا اور اچک کر اس میں بیٹھ گئی۔ جب ٹرک چلی تو وہ کھڑی ہوئی تھی اور اس کے دونوں ہاتھ آسمان کی طرف اٹھے ہوئے تھے اور بال ہوامیں اڑ رہے تھے۔ گاڑی کے پہیوں سے اڑنے والی سرخ دھول نے جو سپاری کے پیڑوں تک بلند ہو گئی تھی، اسے ڈھانپ لیا۔ شام کو سارے کوکس بازار میں ایک ہنگامہ برپا تھا۔ ہر شخص یہ کہہ رہاتھا کہ چہرو کو یہاں سے نکال دو۔ اس نے رامو روڈ پر ٹرک سے اترکر کسی شریف آدمی کو لہولہان کر دیا تھا۔ ساری بستی اس کے خلاف ہوگئی تھی۔ لیکن فوج کا خوف انہیں زبانی احتجاج سے آگے نہیں بڑھنے دیتا تھا۔ رات کو یہ خبر آئی کہ فوجی افسروں نے اسے سزا دی ہے اور اب وہ ساحل کے علاقے سے باہر بستی میں نہیں نکلنے پائےگی۔ لوگ اطمینان کا سانس لے کر سو گئے اور پھر چہرو کے افسانے مزے لے لے کر بیان کرنے لگے۔

    صبح ساحل پر چہرو مزدوروں کی ایک ٹولی کو کچھ ہدایات دے رہی تھی۔ اس وقت سمندر میں پانی چڑھ رہا تھا اور لہریں دوڑ کر ساحل کا منہ چوم رہی تھیں۔ بڑی بڑی سو سو گز لمبی لہریں، روئی کے گالوں کی طرح بہتی ہوئی اور چاندی اچھالتی ہوئی آتی تھیں اور ریت پر جھاگ چھوڑ کر چلی جاتی تھیں۔ چہرو ایک نیلے رنگ کا چست لباس پہنے ہوئے تھی اور ابھی ابھی سمندر سے نہاکر نکلی تھی۔ اس کے دونوں بازو، آدھی رانیں اور پنڈلیاں ننگی تھیں جن پر سمندرکے نمک کا باریک برادہ جما ہواتھا۔ بھیگے ہوئے بال الجھے ہوئے تھے اور چہرے کا گندمی رنگ سمندر کے نمکین پانی سے دھل کر نکھر آیا تھا۔ میں نے پہلی بار اس کے سڈول جسم کی دل کشی کا اندازہ کیا۔ وہ مجھے دیکھ کر ایک بار تن گئی اور اس کا سینہ سمندر کی کسی لہر کی طرح بلند ہو گیا۔

    ’’کیا تم بھی مزدوری چاہتے ہو؟ میں نے کل شام تمہاری ہی طرح کے ایک بھدرلوک کو پیٹا تھا، جو مجھے سڑک کے کنارے کھڑا ہوا گھور رہا تھا۔ کیا تمہاری بھی شامت آئی ہے؟‘‘

    ’’تمہیں بھدرلوک سے اتنی نفرت کیوں ہے؟‘‘

    ’’تم سے مطلب؟ تم ہوتے کون ہو؟‘‘

    ’’میں کیسے بتاؤں۔ جب تم سیدھے منہ بات ہی نہیں کرتی ہو؟‘‘

    میں حیران رہ گیا۔ اس نے لپک کر میرا ہاتھ پکڑ لیا اور دوڑتی ہوئی بالکل ساحل کے کنارے پہنچ گئی، جہاں سمندر کی موجیں ریت کا منہ دھو رہی تھیں۔ وہ بھیگی ہوئی ریت پر بیٹھ گئی۔ اپنے پیر سمندر کی طرف پھیلا دیے اور کہنیاں نرم مخملیں ریت میں ٹیک دیں۔

    ’’مجھے ایک بات بتاؤگے؟‘‘ اس نے ایسی محبت سے پوچھا جیسے مجھے برسوں سے جانتی ہو۔

    ’’پوچھو؟‘‘

    ’’گنیش نے تم سے میرے بارے میں کچھ کہا ہے؟‘‘

    ’’ہاں۔ وہ تم سے محبت کرتا ہے۔‘‘

    اس کے چہرے پر ایک رنگ سا دوڑ گیا اور آنکھوں میں بے انتہا نرمی اور لطافت آگئی۔ جیسے کسی نے جادو کے زور سے اس کی وحشت اور خشونت کو بدل دیا اور وہ بے انتہا حسین ہو گئی۔ سمندر کی موجیں اس کے پیروں کو چوم رہی تھیں اور ہوا کی غیرمرئی انگلیاں اس کے بالوں میں کنگھی کر رہی تھیں۔ وہ بڑی دیر تک اپنے دونوں ہاتھوں سے ریت کے گھروندے بناتی رہی اوربگاڑتی رہی۔

    ’’مجھے اس ریت سے بڑی محبت ہے، میں اس سے پیدا ہوئی ہوں۔ گنیش بھی اسی سے پیدا ہوا ہے۔ میں اکثر آکر اس ریت کی گود میں لیٹ جاتی ہوں اور گھنٹوں خواب دیکھتی رہتی ہوں۔ بڑے بڑے دھان کے کھیت ہیں۔ دور افق تک پھیلے ہوئے کھیت جن کی سنہری بالیاں لہرارہی ہیں۔ میں اپنے ہنسئے سے کھیت کاٹ رہی ہوں اور دھان کی بالیاں سمیٹ سمیٹ کر کھلیان لگا رہی ہوں۔ میں کٹے ہوئے کھیتوں کی منڈیروں پر گاتی ہوئی گھوم رہی ہوں، زمین گارہی ہے، آسمان گا رہا ہے، ہوائیں گا رہی ہیں اور دریا کے کنارے ایک چھوٹی سی جھونپڑی ہے جس میں گنیش بیٹھا ہوا ہے، اس کے جال میں بڑی بڑی مچھلیاں تڑپ رہی ہیں، جنہیں دیکھ کر چھوٹے چھوٹے بچے تالیاں بجا بجاکر ہنس رہے ہیں اور ناچ رہے ہیں۔‘‘ وہ چپ ہو گئی اور ریت کے گھروندے کو اپنی مٹھی میں اٹھا لیا۔

    ’’میں گنیش سے بہت سی باتیں کرنا چاہتی تھی، لیکن اس کا باپ موجود تھا، بڈھا کھوسٹ، کہتا ہے کہ میں گنیش کے قابل نہیں رہ گئی ہوں اور وہ اپنے باپ کے خلاف کچھ نہیں کر سکتا۔ بزدل کہیں کا۔ دیکھو نا مجھے چھوڑ کر چلا گیا۔‘‘ اس نے آخری جملہ بچوں کی طرح کہا۔

    ’’مگر تم خود جو اسے چھوڑ کر چلی آئیں۔‘‘

    ’’محبت کرنے کے لیے ہمت کی ضرورت ہے۔ مجھے بزدل آدمیوں سے بڑی نفرت ہے، میں ایسے آدمی پسند کرتی ہوں جو ہنستے ہوئے موت کے منہ میں چلے جائیں، دیکھو سمندر میں طوفان آ رہا ہے۔ پانی گزوں اچھل رہا ہے، اگر میں گنیش سے اس وقت کشتی کھینے کے لیے کہوں تو وہ کبھی تیار نہ ہوگا۔ کنارے کھڑا ہوکر جال پھینکےگا، مچھیرا ہے نا مچھیرا۔ مجھے بھی مچھلی کی طرح پکڑنا چاہتا ہے۔ بتاؤ میں مچھلی تو نہیں ہوں۔ بولو کیا میں مچھلی ہوں؟‘‘

    ’’نہیں۔‘‘

    ’’میں مچھلی نہیں ہوں، میں عورت ہوں، چہرو ہوں، گل چہر ہے میرا نام۔ مجھے کوئی مچھلی کی طرح نہیں پکڑ سکتا۔‘‘

    ایک مزدور دوڑتا ہوا آیا اور کہنے لگا، ’’چہرومانجھی، چہرو مانجھی، تمہیں صاحب نے بلایا ہے۔‘‘

    ’’کہہ دو نہیں آتی۔‘‘

    ’’وہ بوتھی ڈانگ جا رہے ہیں، موٹر پر بیٹھے ہیں۔‘‘

    ’’بس کہہ دو نہیں آتی۔ میں بوتھی ڈانگ نہیں جاؤں گی۔ میں سمندرمیں جا رہی ہوں۔‘‘ مزدور چلا گیا، میں نے پوچھا، ’’کس نے بلایا ہے؟‘‘

    ’’کوئی نہیں، وہ لال منہ کا بندر ہے، اس کا تبادلہ ہو گیا ہے اور مجھے بو تھی ڈانگ لے جانا چاہتا ہے۔ میں نہیں جاتی۔ اس کے ایسے ہزاروں یہاں ملیں گے۔ کوئی میں ڈرتی تھوڑی ہوں۔ کسی چیز سے نہیں ڈرتی۔ آؤ طوفان میں کشتی چلائیں۔ بڑا مزا آئےگا۔‘‘ میں کہنا چاہتا تھا کشتی الٹ جائے گی، لیکن اس ڈر سے چپ رہا کہ وہ مجھے بزدل سمجھےگی۔ اس نے ایک نازک سی سمپان کا انتخاب کیا اور پل پرچڑھ کر اس میں کود گئی۔ میں نے پوچھا، ’’میں بھدرلوک ہوں، کیا کیچڑ میں چل کر آؤں؟‘‘

    ’’پل سے ہوکر آجاؤ، تم بھدرلوک نہیں ہو۔ جب تم میرے کہنے سے بغیر احتجاج کیے کیچڑ میں چلنے کو تیار ہو گئے، تب ہی میں سمجھ گئی کہ تم بھدرلوک نہیں ہو۔‘‘ اس نے چپو سنبھال لیے اور سمپان کھینے لگی، اس کے ہاتھ بڑی مشاقی سے چل رہے تھے، جب سمندر کا پانی چڑھ رہاہو، اس وقت کشتی کھینا مذاق نہیں ہے۔ میرا دل کانپ رہا تھا کہ کہیں سمپان الٹ نہ جائے۔ لیکن چہرو بڑے اطمینان سے چپو چلا رہی تھی۔

    ’’تمہیں چپو چلانا آتا ہے؟‘‘ اس نے پوچھا۔

    ’’ہاں میں بمبئی کے سمندر میں کشتی کھے چکا ہوں۔‘‘

    ’’اور تیرنا بھی آتا ہے؟‘‘

    ’’ہاں کچھ یوں ہی سا۔‘‘

    ’’پھر ڈر کی کوئی بات نہیں۔‘‘ یہ کہہ کر وہ چپوؤں کو اور زیادہ تیز چلانے لگی۔ کھلا ہوا سمندر جوش کھائے ہوئے پانی کی طرح ابل رہا تھا اور ہماری سمپان غصے میں بھری ہوئی موجوں پر ایک سوکھے ہوئے پتے کی طرح لرز رہی تھی۔ موجوں کے تھپیڑے بڑے سخت تھے اور سمپان بری طرح ڈگمگانے لگی تھی۔ ایک موج کشتی کے اوپر سے گزر کر ہمیں بھگو گئی۔ میں نے کہا، ’’چپو مجھے دے دو۔‘‘

    ’’تم مجھ سے اچھے چپو نہیں چلا سکتے۔‘‘

    ’’سمپان واپس لے چلو۔ الٹ جائےگی۔‘‘

    ’’تم ڈر رہے ہو؟‘‘

    میں نے لپک کر چپو پکڑ لیے۔ چہرو نے انہیں میرے ہاتھوں سے چھڑانے کی کوشش کی۔ ایک بار سمپان پھر کی کی طرح ناچ اٹھی اور ایک بڑی سی غضب ناک موج نے آکر اسے دس بارہ فٹ اوپر اٹھا لیا اور ایک زبردست جھٹکے سے ساحل پر پھینک دیا۔ ایک دوسری موج ہمارے اوپر سے گزرگئی اور سمندر غرانے لگا۔ مجھے نہیں معلوم کہ چہرو کہاں گری اور میں کہاں گرا۔ جب موج سر سے گزرچکی تو میں ریت پرپڑا ہوا تھا اور چہرو مجھ سے کئی گز دور کھڑی تھی اور کشتی موجوں کے تھپیڑوں میں تھی۔ ایک چپو ریت میں دھنس گیا تھا اور دوسرا آسمان کی طرف ہاتھ اٹھائے ہوئے فریاد کر رہا تھا۔ اس نے پکار کر پوچھا، ’’چوٹ تو نہیں لگی؟‘‘

    ’’نہیں، ریت بہت نرم ہے۔‘‘ میں نے جواب دیا، حالانکہ میرے گھٹنے اور کہنیاں چھل گئی تھیں۔ چہرو پھر میرے پاس آکر بیٹھ گئی اور کہنے لگی، ’’میرا جی چاہتا ہے کہ کوئی اس دنیا کو اسی طرح اٹھاکر پھینک دے۔ جب سمندر میں طوفان آتا ہے تو میں خوشی سے دیوانی ہوجاتی ہوں اور میں سوچتی ہوں، یہ طوفان بڑھتا جائےگا، بڑھتا جائے گا، یہاں تک کہ آسمان اور زمین کے بیچ میں صرف سمندر ہی سمندر ہوگا۔ اس کی نیلی موجوں میں ہم، تم، گنیش، چاند، سورج، ستارے سب ڈوب جائیں گے۔‘‘

    میں نے کہا، ’’تم پگلی ہو چہرو۔‘‘

    ’’ہاں میں سچ مچ پگلی ہوں۔ تم بھی پگلے ہو جو میرے پاس بیٹھے ہو۔ گنیش بھی پگلاہے جو مجھ سے محبت کرتا ہے اور وہ لاکھوں کسان اور مچھیرے سب پگلے تھے جو چاردانہ چاول کے لیے ایڑیاں رگڑ رگڑ کرمرگئے۔ صرف بھدرلوک پگلا نہیں ہے، باقی سب پگلے ہیں۔‘‘

    ’’تمہیں بھدرلوک سے اتنی نفرت کیوں ہے؟‘‘ میں نے موقع پاکر پوچھا۔ چہرو ایک دم سنجیدہ ہو گئی اور اس کی نظروں کی وحشی چمک اس کی آنکھوں میں واپس آ گئی۔

    ’’جانتے ہو میں کیا کرتی ہوں؟‘‘ اس نے مجھ سے پوچھا، ’’میں اپنا جسم بیچتی ہوں، اجنبی آدمی تم پہلے شخص ہو جس سے میں اس طرح باتیں کر رہی ہوں۔ لوگ کہتے ہیں کہ میں بہت خوب صورت ہوں، مجھے بھی اپنی صورت اور اپنا جسم بہت اچھا لگتا ہے اور میں اسے بیچتی ہوں۔ ایک دن کے تیس روپے لیتی ہوں اور فوجی افسر مجھے اس سے زیادہ روپے دیتے ہیں۔ تم سمجھتے ہوگے کہ یہ میرا خاندانی پیشہ ہے۔ نہیں۔ میں تو کسان کی بیٹی ہوں، دھرتی کی طرح پاک، میں نے یہ پیشہ کبھی نہیں کیا تھا۔ لیکن جب میرے ماں باپ مرگئے اور ساراگاؤں اجڑ گیا اور میں ہزاروں لاشوں کے بیچ میں اکیلی رہ گئی اور لاشوں کو نوچ نوچ کر کھانے والے کتے مجھے دیکھ کر اپنے دانت پیستے تھے تو گیارہ دن کے فاقوں کے بعد میں لڑکھڑاتی ہوئی اپنے گاؤں کے زمین دار کے پاس گئی، مٹھی بھر چاول کی بھیک مانگنے کے لیے۔

    وہ چاول جس کادھان میں نے پچھلی فصل میں اپنے ہاتھوں سے کاٹا تھا۔ زمین دار کے گھر میں منوں چاول بھرا ہوا تھا۔ لاشوں کی طرح بوریاں گنجی ہوئی تھیں۔ وہ اس کا بیوپار کرتا تھا۔ کالے بازار کابیوپار، جہاں وہ ہمارے کھیتوں کا پیدا ہوا چاول ساٹھ روپے من بیچ رہا تھا۔ میں گیارہ دن کی بھوکی تھی اور دنیا میں میراکوئی سہارانہیں تھا۔ کئی بار میں نے سڑی ہوئی لاشوں کا گوشت کھانے کا ارادہ کیا تھا، لیکن گھن آ گئی۔ میں نے زمین دار سے مٹھی بھر چاول مانگے۔ اس نے پوچھا کیا قیمت دوگی۔ میرے پاس کیا تھا۔ میں نے کہا، خیرات دے دو۔ اس نے کہا، میں کئی خیراتی اسکول اور یتیم خانے چلا رہا ہوں۔ چٹ گاؤں میں میرا خیراتی لنگر خانہ چل رہا ہے۔ آخر کہاں تک خیرات دوں۔ میں نے پوچھا، پھر کیا کروں، چٹ گاؤں جانے کی سکت نہیں ہے، میرے پاس تو کچھ بھی نہیں ہے۔

    اس نے کہا، تمہارے پاس جوانی ہے، خوب صورت چہرا ہے، بھراہوا جسم ہے، اسے کہیں جاکر بیچ آؤ۔ لیکن میرا جسم چاول کی بوری تو نہیں تھا، جو میں اسے بیچ دیتی۔ میں وہاں سے بھاگ آئی۔ لیکن دو دن کے بعد جب میں تیرہ دن کی بھوکی تھی۔ میں اپناجسم لاش کی طرح گھسیٹ کر زمیندار کے پاس لے گئی۔ میں نے کہا، میں اپناجسم مٹھی بھر چاول میں بیچنے آئی ہوں، اسے خریدوگے۔ وہ خفا ہو گیا، بھدرلوک، بڑے عزت والے ہوتے ہیں۔ اس نے کہا۔ میں کوئی دلال نہیں ہوں۔ میں نے کہا، پھر میں کہاں اپنا جسم بیچنے جاؤں۔ مجھ سے تو چلابھی نہیں جاتا۔ زمین دار نے مجھے اپنے گھر سے نکال دیا۔ اس کا بیٹا جو مجھے گھسیٹ کر باہر لایا تھا، سیر بھر چاول میں میرا جسم خرید لے گیا۔

    تب سے میں محسوس کرتی ہوں کہ میرے پاس میرا جسم نہیں ہے، میری جوانی نہیں ہے، میری خوب صورتی نہیں ہے۔ یہ سب تو سیر بھر کے چاول میں بک چکی ہے۔ اس کے بعد مجھے ایک سپاہی ملا، وہ ڈرپوک تھا۔ پھر گنیش ملا وہ بھی بزدل نکلا اور اب کو کس بازارمیں میری حکومت ہے۔ یہاں جتنے آدمی ہیں سب بزدل ہیں۔ یہاں بہت سے بھدرلوک آتے ہیں۔ اپنا بیوپار کرنے کے لیے، فوجی ٹھیکہ لینے کے لیے۔ میں انہیں کیچڑ میں چلاتی ہوں، کبھی کبھی کسی کو پیٹ بھی دیتی ہوں، لیکن کسی میں اتنی ہمت نہیں کہ میرے ایک تھپڑ ماردے۔ روپے کی ہوس اور لالچ نے انہیں بزدل بنا دیا ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ میں فوجی افسروں کی منہ چڑھی ہوں اور وہ مجھے تھپڑ مارکر انہیں ناراض نہیں کر سکتے۔۔۔ انہیں روپیہ کی ضرورت ہے۔ وہ اپنے گاؤں کی بیٹیاں لاکر فوجی افسروں کے ہاتھ بیچ جاتے ہیں۔

    تم سمندر کے راستے سے مت جانا، اراکان روڈ سے ہوکر جانا۔ چٹ گاؤں یہاں سے اسی میل دور ہے، لیکن یہاں سے چٹ گاؤں تک تین لاکھ کسان عورتیں ہیں جو میری طرح پیشہ کر رہی ہیں اور ان کی کمائی بھدرلوک کھا رہے ہیں۔ تم بھدرلوک نہیں ہو، اس لیے میری بات سمجھ جاؤگے۔ وہ کہتے ہیں چہرومانجھی بدمعاش ہے، چہرو مانجھی آوارہ ہے، چہرو مانجھی بیسوا ہے، لیکن بھدرلوک مجھ سے زیادہ بدمعاش ہیں، مجھ سے زیادہ آوارہ ہیں، وہ سب بیسوا ہیں، دلال ہیں۔ ان کی عزت، ان کا مذہب، ان کا دیوتا، سب کچھ روپیہ ہے۔ اس لیے وہ اپنی ماؤں کو بیچ ڈالیں۔ اپنی بیٹیوں کو بیچ ڈالیں۔ ان کی عزت اور شرافت صرف ان کے سفید کپڑوں میں ہے۔ کیا بمبئی میں بھی بھدرلوک ہوتے ہیں؟‘‘

    ’’بھدرلوک ہر جگہ ہوتے ہیں۔‘‘ میں نے جواب دیا۔

    ’’پھر کچھ نہیں ہو سکتا، کچھ نہیں ہو سکتا، مجھے ان سے بڑی نفرت ہے۔‘‘ وہ بڑبڑائی۔

    سورج کی کرنیں بہت تیز ہو گئی تھیں اور چہرومانجھی کے گندمی رنگ چہرے پر پسینے کے موتی چمک رہے تھے۔ سمندر کی موجیں اس کے قدم چوم رہی تھیں اور ہواکی غیرمرئی انگلیاں اس کے بالوں میں کنگھی کر رہی تھیں، اس نے اپنی آنکھیں بند کرلیں اورجیسے کوئی غنودگی کے عالم میں باتیں کر رہا ہو، زیر لب آہستہ آہستہ کہہ رہی تھی، ’’جب یہاں سے جانا تو گنیش سے کہہ دینا کہ میں اس کا انتظار کر رہی ہوں۔ میں اس زندگی سے تنگ آ گئی ہوں۔‘‘


    حاشیے 
    (۱) بنگالی زبان میں درمیانی طبقے کے سفید پوش آدمی کو بھدرلوک کہتے ہیں۔ 
    (۲) تھانبی رنگین دھوتی کو کہتے ہیں جو چٹ گاؤں کی مسلمان عورتیں باندھتی ہیں۔ بازو چولی یا انگیا کو کہتے ہیں اور گمچھا دوپٹے کو۔ 
    (۳) لکڑی کا بنا ہوا ایک طرح کا جھونپڑا جو پبلک کے استعمال کے لیے سڑکوں کے کنارے بنا دیا جاتا ہے۔ لوگ اس میں بیٹھ کر سستاتے بھی ہیں اور بے گھر لوگ اکثر رات کو اس میں سوتے ہیں۔

     

    مأخذ:

    سردار جعفری کی نادر تحریریں (Pg. 124)

      • ناشر: ساقی بک ڈپو، دہلی
      • سن اشاعت: 2008

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے