Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

کیمیکل

MORE BYسید تحسین گیلانی

    ہم دوسری بار تسلی کے لیے ایک بار پهر چیک اپ کے لیے آئے تهے لیکن میں فیصلہ کر چکی تهی !!!

    ہم دونوں کی شاید یہ آخری ملاقات تهی وہ میرے سامنے تها، بهرپور مرد، وجیہہ شخصیت کا مالک ،خوب رو گہری بهوئیں، پیشانی سے بهی ذرا آگے تک آئے ہوئے گہرے کالے بال، کانوں کی لووں کو چھوتی ہوئی قلمیں، تیکھا ناک اور صاف رنگت کا مالک وہ شخص میرے سامنے ہی بیٹها تها جس کے ساتھ میں نے اپنی زندگی کے پانچ سال بتائے تهے۔ ہم دونوں کا جو تعلق دوستی سے شروع ہوا رشتے پر ختم ہو رہا تها۔

    اس میں کیا کمی تهی میں یہ بهی نہیں جانتی تهی لیکن مجهے اس سے تعلق نہیں رکھنا تها-

    دیکهو تم ایسا کیوں کر رہی ہو؟

    معلوم نہیں!!!

    سننا چاہتے ہو۔۔۔تو سنو

    اب تمہاری خوشبو میں وہ خوشبو نہیں ہے جس کی میں دیوانی تهی۔ تم ہنستے ہو تو میرے اندر کوئی جھرنا نہیں پھوٹتا تم دور رہو تو مجهے تم بالکل بهی یاد نہیں آتے۔ تمہاری آواز کے دانت جب میرے جسم میں پیوست ہوتے ہیں تو میرے جسم سے لہو کی جگہ درد رستا ہے۔ الماری میں لٹکے ہوئے تمہارے کپڑے تمہاری غیر موجودگی میں آسیب بن کر اپنے خونخوار پنجے میرے ذہن کی رگوں میں گاڑتے ہیں اور میرے خیالوں کے چیتھڑے اڑاتے چلے جاتے ہیں۔

    تم۔۔۔

    تمہارا وجود مجهے کسی خوف ناک بلا سے بهی بدتر دکهائی دیتا ہے ایسی بلا جس نے میرے وجود کو ادھیڑ کر میرے ہی سامنے اسے دوبارہ سینا شروع کر دیا ہو۔

    اور۔۔۔اور تمہارا خیال اگر بهولے سے بهی کبهی میرے سامنے جلوہ گر ہو جائے تو میں اس پر نفرت کے اتنے وار کرتی ہوں کہ جب تک وہ چہرہ مسخ نہ ہو جائے میں مسلسل وار کیے جاتی ہوں۔

    اور۔۔۔کیا سوچتی ہو میرے بارے میں تم؟

    کیا کبهی ہماری محبت ہمارا وہ جنون تمہیں یاد نہیں آیا؟

    اگر وہ لمحہ مجهے کبهی مل جائے تو میں اس کا منہ نوچ لوں اور۔۔۔اور۔۔۔یاد رکهنا وہ محبت یا جنون نہیں تها وہ۔۔۔وہ تو پاگل پن تها جسم کی تڑپ تهی تم نے اپنے جسم کے لاحاصل وار کر کرکے میری روح کو زخموں سے اتنا چھلنی کیا ہے کہ میری سانسوں سے بهی لہو چهنتا ہے تمہارے منہ سے یہ لفظ محبت کسی گندی نالی میں بہتے ہوئے شہد کی طرح لگ رہا مت لو محبت کا نام۔ تم کیا جانو محبت کیا ہے محبت تو ایک ایسا احساس ہے جو بدن سے خوشبو بن کر پھوٹتا ہے محبت کا ایک ایک پل ایک ایک صدی پر بهاری ہوتا ہے۔

    آہ محبت تمہاری تلاش میں یہ بدن کا صحرا نہ پڑتا تو شاید لوگ تجھ تک پہنچ ہی جاتے -لیکن تیرا تو مسکن مسافتوں میں گم ہو کر ہی رہ گیا۔

    ہم تو انسانوں کے اس قبیلے سے ہیں جن کے رشتوں کو بدن کی ضرورت نے جوڑا ہوا ہے ورنہ یہ نظام کب کا رک گیا ہوتا انسان کب کا اپنی لاش پر بین کر چکا ہوتا۔

    لیکن یہ بدن کے رشتے بهی تو زندہ لاشیں ہی ہیں بس اتنے رحیم ضرور ہیں کہ یہ مردے ایک دوسرے کا بوجھ ڈهو رہے ہیں۔ دلوں کی جگہ کدورتیں ڈهڑکنیں بن چکی ہیں۔ تم مرد غلاظتوں کے چلتے پھرتے ڈهیر ہو جو اپنا دماغی تشنج عورتوں میں بانٹتے ہو۔ خود کو مطاہر و منور بنا کر دن بهر مسندوں پر عشق حقیقی اور عشقِ مجازی کے نعرے لگاتے ہو اور رات کا گھونگٹ اٹھاتے ہی روشنی پر ٹوٹ پڑتے ہو، کهاتے پیتے ہوئے تمہیں کچے اور پکے گوشت کا فرق بهی معلوم نہیں پڑتا ۔ظالم ہو تم۔۔۔بلکہ ظلم بهی اگر تمہارا اصل چہرہ دیکھ لے تو اس کی بهی نسیں پهٹ جائیں یہ عورت ہی ہے جو اس ظلم کی ڈولی میں بیٹھ کر اپنی ہستی کو جنازے میں بدل ڈالتی ہے۔

    لیکن تم سن لو اب بس۔۔۔بس بس بس دیکهو اس وقت شاید تم بہت خفا ہو رہی ہو ہم پهر بات کریں گے ۔کئی دنوں سے دوا بهی نہیں کهائی!!

    کس لیے کهاوں میں دوا اور سنو۔۔۔۔مجهے تم سے بات ہی نہیں کرنی۔ مجهے میرے پانچ سالوں کا حساب چاہیے جو تم نے برباد کیے تم ایک مصنفہ کے قاتل ہو تم نے اپنی عیاشی کے لیے اسے جیتے جی مار ڈالا تم نے مجھ سے مجهے چهین لیا اور کیا دیا مجهے ان پانچ سالوں میں اداسی، تنہائی اور ان راتوں کی دبی دبی چیخوں کے سوا کیا دیا مجهے تم نے جاو میرے قلم میں سکون کی وہ سیاہی بهر لاؤ کہ جس کی چمک آسمان پر بکھرے ان ستاروں سے بهی زیادہ تیز تهی جاو میرے ناولوں/کہانیوں کے ہنستے مسکراتے ان کرداروں کے پاؤں پڑو اور ان کو واپس میرے ذہن کی دہلیز پر لے آؤ!!!

    کر سکتے ہو یہ سب۔۔۔

    نہیں ناں تو جاؤ مجهے کوئی گڑیا ہی لا دو۔۔۔

    کچھ نہیں کر سکتے تم کچھ نہیں۔۔۔

    جب وہ وہ کرنے والا نہ کچھ کر سکا تو تم کیا کرو گے۔ وہ تو بس انسان کا تماشہ دیکھ رہا ہے بلکہ انسان کا نہیں عورت کا، اسے بلند مقام دے کر اتنا گرا دیا کہ آج تک وہ مرد کے قدموں میں اپنی پہچان ڈهونڈ رہی ہے ۔۔۔واہ رے واہ!!!

    میری آنکهوں میں غور سے دیکهو وہاں ایک اداسی کا جنگل ہے ذرا اس میں تو ایک پهیرا لگا کر آؤ۔۔۔

    دیکهو اس جنگل بیاباں میں کتنی اداسیاں برہنہ پڑی ہیں

    کتنی فریادیں اس گهنے جنگل میں دفن ہیں

    کتنے خوابوں کی اجاڑ قبریں ہیں اس میں اور کتنی پامال حسرتوں نے ڈیرے لگا رکھے ہیں وہاں۔۔۔

    لیکن تمہیں کیا تم مرد ہو پیسہ بنانے والی ایک مشین، ظاہری ضرورتوں کے بیوپاری تم کیا جانو حسرتیں خواب اداسی کیا ہے۔ تمہیں تو صرف داسی کا ملن چاہئے قیمت چاہے اس کا خون ہی کیوں نہ ہو۔

    دیکهو تم بول رہی ہو میں غور سے سن رہا ہوں لیکن تم میری وفا کو تو مت بهولو!!

    یہ بهی خوب کہی تم نے وفا ۔۔۔اور مرد!!؟؟

    میں قہقہہ ضرور لگاتی لیکن میں اپنے قہقہے بهی تم پر ضائع نہیں کروں گی۔ ہاں لیکن اگر وفا سیکھنی ہے تو کسی عورت کے دروازے پر مرد کو صدیوں ستاروں کی نیاز دینا گی تو شاید وفا کا ایک ذرہ مرد کو بهی بهیک میں مل ہی جائے۔ جاؤ علم و فکر کی ساری کتابیں چهان مارو۔۔۔جاؤ تاریخ کی بهول بهلیاں سے ایک چکر لگا آو ہر جگہ عورت تمہیں سراپا وفا ہی ملےگی۔۔۔یاد رکهو میں کہانیوں میں دروازے توڑ کر بهاگتی عورت کی بات نہیں کر رہی وہ بهی تم جیسے مردوں کی پدری سوچ کے سوا کچھ نہیں ہے جن کے قلم کی زبان سے بهی جهوٹ ٹپکتا ہو وہ کیا وفا جانے۔

    تمہاری انہی باتوں کا تو میں دیوانہ ہوں دیکهو ابهی کوئی فیصلہ مت کرو جلد بازی اچهی نہیں شاید تم سب سچ کہہ رہی ہو لیکن میں صرف اور صرف تم سے محبت کرتا ہوں یہ بهی ایک سچ ہے ڈاکٹر صاحبہ کو آ لینے دو تب تک میری رہو۔

    سوری وہ نورین آپ ہیں!!

    جی۔۔۔جی ڈاکٹر صاحبہ

    ہم معافی چاہتے ہیں پرانی رپورٹس غلط تهیں شاید کیمیکل میں کچھ مسئلہ تها۔

    مبارک ہو آپ ماں بننے والی ہیں!!!!

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے