Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

سرکس کی سادہ سی کہانی

اسد محمد خاں

سرکس کی سادہ سی کہانی

اسد محمد خاں

MORE BYاسد محمد خاں

    کہانی کی کہانی

    سرکس کے کرداروں کے درمیان پیش آنے والے واقعات کی تہہ میں معاشرے کی سیاسی پینترے بازیوں کو پیش کیا گیا ہے، رنگ ماسٹر، آسو بلا اور وہاں موجود دوسرے کرداروں کے رویے جس طرح ظاہر کچھ اور باطن میں کچھ اور ہیں ٹھیک اسی طرح معاشرے میں سیاسی مفاد کے لیے لوگ رنگ اور مزاج بدل لیتے ہیں۔

    جیپ چل رہی تھی۔ وہ ابھی کہیں پہنچے نہیں تھے۔ تین چار گھنٹے سے جیپ چل رہی تھی۔ جیپ والا کسی سرکس کا رنگ ماسٹر تھا جس نے ان دونوں کو پیدل جاتا دیکھ کر بٹھا لیا تھا، ’’ارے پیدل کیوں جا رہے ہو؟ آؤ جی بھائی صاحبو بیٹھو! بیٹھ جاؤ!‘‘بھائی صاحبو اس نے عادتاً کہا ہوگا کیوں کہ جنہیں اس نے بٹھایا تھا ان میں ایک مرد تھا، دوسری عورت۔ رنگ ماسٹر کہیں سے پوری بوتل لگا کے چلا تھا۔ آدمی دل پھینک تھا اور خوب باتیں بنا سکتا تھا۔ کہنے لگا، ’’اب صبح ہونے والی ہے، میرا نشہ ٹوٹ رہا ہے اسی لیے جلدی پہنچنا چاہتا ہوں۔ بھائی صاحبو!‘‘ پھر بولا، ’’دن اگے تک سرکس گراؤنڈ آ جائےگا اور وہاں بھائی صاحبو! میں تم دونوں کو بڑا جنگی ناشتا کراؤں گا۔‘‘

    پیچھے بیٹھی عورت اپنے آدمی سے دھیرے سے کچھ کہہ کر ہنسی ہوگی تو رنگ ماسٹر نے جیپ کی رفتار ذرا دھیمی کر کے اونچی آواز میں کہا، ’’ہاں بھائی صاحبو؟ کیا بات ہو گئی؟ ہمیں بھی سناؤ۔ ہم بھی ہنسیں گے۔‘‘عورت انجن کی آواز پر اپنی آواز بلند کر کے بولی، ’’کچھ نہیں جی، بات کیا ہوگی۔‘‘رنگ ماسٹر ٹھٹھا مار کے ہنسا، کچھ تو ہے جس کی رازدھاری ہے۔ بہت دیر سے آپ دونوں بھائی صاحبوں کے راز و نیاز کی آواز آ رہی ہے۔ کیا کوئی موج میلہ چل رہا ہے پیچھے۔۔۔؟ ہاہاہا! ہاں نا بھائی صاحبو؟‘‘

    مرد نے کوئی کڑوی بات کہنے کے لیے اسٹارٹ ہی لیا تھا کہ عورت نے اس کے منھ پہ ہاتھ رکھ دیا اور رنگ ماسٹر سے پوچھا، ’’سرکس گراؤنڈ اور کتنی دور ہے؟‘‘ وہ بولا، ’’بس بھائی! سمجھو پہنچ گئے۔ پہلے ہمارا ہی ٹینٹ ہے۔ اس وقت اس میں ہماری بیلا جی سو رہی ہوں گی۔ ان کو تو ہم اٹھائیں گے نہیں۔ وہ کچی نیند سے اٹھ جائیں تو سارا سارا دن گندی گندی گالیاں بکتی ہیں۔ اس لیے آپ بھائی صاحبوں کے لیے ہم خود ہی کوئی ناشتا واشتا تیار کر لیں گے۔۔۔ہاں بھائی صاحبو!‘‘ مرد نے آدھی جھونجھل، آدھے مسخرے پن میں کہا، ’’اچھا بھائی صاحبا!‘‘ عورت ہنسنے لگی۔

    مرد نے پھر پوچھا، ’’مگر بھائی صاحب! تم نے یہ نہیں بتایا کہ یہ بیلاجی کون ہے۔ بیوی ہے تمہاری؟‘‘ رنگ ماسٹر بولا، ’’بیوی ویوی کوئی نہیں۔ وہ رکھیل ہیں ہماری۔‘‘عورت اور زور سے ٹھٹھے مار کے ہنسنے لگی تو ’’بھائی صاحبا‘‘ خود بھی ہنسا، بولا، ’’آپ صاحبوں کو گشتی سرکسوں کا کچھ پتا ہی نہیں ہے، اسی لیے ہنستے ہو۔ ارے ہم اگر اپنے ساتھ کوئی بیوی ویوی رکھیں تو چل چکا سرکس۔ چل ہی نہیں سکتا۔ بالکل بھی نہیں۔‘‘

    مرد کو اس کی باتوں میں مزہ آنے لگا تھا،اس نے پوچھا کہ کیوں نہیں چل سکتا؟ کہنے لگا، ’’بیویاں تو ویسے ہی اپنے مردوں کی پتلونیں پھاڑ رکھتی ہیں، ہوشوں حواسوں میں نہیں رہنے دیتیں اور بھائی ہمارا کام جان جوکھم کا کام ہے۔ کوئی ساٹھ فٹ اونچے تار پر چل رہا ہے بھائی صاحبو! تو کسی نے اوپر پیٹرول چھڑک کے، آگ دکھا کے، سوفٹ کی اونچائی سے بالشت بھر کے ٹب میں چھلانگ لگانی ہے۔ کوئی شیر کے منہ میں اپنی کھوپڑی دیے بیٹھا ہے بھائی صاحبو! تو کسی نے ریچھ کے پچھائے میں ہاتھ دے کے کرتب دکھانے شروع کیے ہیں۔۔۔الغرض سب سرکس والے اپنی جان پر کھیل کے روزی کما رہے ہیں۔ ایسے میں کون عقل سے پیدل طوطیا ہوگا جو اپنے اوپر چڈی گھٹانے کو ایک بیوی بھی رکھےگا۔ نا صاحبو نا! ہم لوگ تو رکھیلوں وکھیلوں سے گزارہ کر لیتے ہیں۔ شروع سے یہی چل رہا ہے۔۔۔اور کیا!‘‘

    عورت ہنستے ہنستے دہری ہو گئی۔ بڑی مشکل سے ہنسی تھام کے ٹکڑوں ٹکڑوں میں بولی، ’’اور یہ جو۔۔۔رکھیل تمہاری، تمہیں گالی دیتی ہے گندی گندی۔۔۔یہ کیا ہے؟ اس نے بھی تو تمہارے اوپر چڈھی گانٹھ رکھی ہے؟‘‘ وہ بولا، ’’نابھائی صاحبو! نا۔ بیلا جی ٹائم ٹائم سے گالی نکالتی ہے۔۔۔وہ جو بولتے ہیں نا کہ تیرے ہونٹ کتنے شیریں ہیں کہ گالیاں کھا کے بھی وہ سسرا بے مزا نہیں ہوتا۔۔۔تو وہی قصہ ہے بھائی صاحبو! پھر اگر بیلا جی ڈاہ لنگ کبھی بے سری بولنے لگتی ہیں، آؤٹ ہونے لگتی ہیں، تو آپ کافلک شیر رنگ کا ماسٹر ان کی سڑائی بھی کر دیتا ہے۔۔۔تاہم بیویوں کی سڑائی نہیں کی جا سکتی۔۔۔بہ وجوہ!‘‘

    عورت نے پوچھا، ’’سڑائی کیا ہوتی ہے؟‘‘ فلک شیر رنگ ماسٹر (یہی اس کا نام تھا) بولا، ’’آپ سڑائی نہیں جانتیں بھائی صاحبو؟ ارے پھینٹی لگانے کو بولتے ہیں۔ چارچوٹ کی مار لگائی نہیں کہ بیلا جی پھر گنے کی طرح سیدھی اور میٹھی۔‘‘ مرد نے کہا، ’’ہاں ماسٹر! یہ بتاؤ بیوی کو جو پھینٹی نہیں لگائی جا سکتی اس کے کیا وجوہ ہیں؟‘‘ رنگ ماسٹر بولا، ’’حیرت ہے صاحبو! آپ بیوی والے ہو کے بھی یہ وجہ نہیں جانتے۔۔۔خیر، اس ٹائم کیوں کہ آپ کی میم صاحب سامنے موجود ہے، یہ نکتے کی باتیں پھر کبھی عرض کروں گا۔ لوجی! آ گئیں سرکس گراؤنڈز۔‘‘ انہوں نے سر اٹھا کر دیکھا۔ سب طرف پیلے بلبوں کی جھالریں ٹنگی نظر آ رہی تھیں۔

    سورج نکلنے میں دیر تھی۔ ایک عمومی سناٹے میں ڈیزل یا کیروسین سے چلنے والے جنریٹروں کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں۔ میلے کچیلے اوور آل پہنے، گھٹنوں تک کے ربڑ کے جوتے چڑھائے بہت سے آدمی جانوروں کو کھانا پانی دینے اور پنجروں کی صفائی کرنے خیموں کے درمیان سے نکل نکل کے آ جا رہے تھے۔ پہیے لگے پنجروں کی ایک قطار خیموں چھولداریوں کے بیچ کھڑی کر دی گئی تھی۔ اب مختلف جانوروں کی بھی ہلکی ہلکی آوازیں آنا شروع ہو گئی تھیں۔ وہ شاید جیپ کی آواز سے بےآرام ہو کر بیدار ہو رہے تھے۔ جیپ رک گئی۔

    رنگ ماسٹر انجن بند کر کے اترتے نشے اور شرارت کے ساتھ عورت مرد کو دیکھ کے آنکھ مارتا ہوا پردہ اٹھا، پنجوں کے بل اپنے ٹینٹ میں چلا گیا۔ دو تین منٹ بعد پکنک باسکٹ جیسی بید کی صندوق ٹوکری اٹھائے وہ برآمد ہوا اور ہونٹوں پر انگلی رکھ کے انہیں پیچھے آنے کا اشارہ کرتا خیموں کے بیچ بیچ چلنے گا۔ ڈانگریوں والے ورکر اس کے سائے کو پہچان پہچان کر سلام کر رہے تھے۔

    بلبوں کی پیلی روشنی میں سرکس کے خیمے کچھ زیادہ اجاڑ اور صبح کی آوازوں کے ہوتے بھی خاموش اور افسردہ لگ رہے تھے۔ تاہم اس افسردگی اور اجاڑپن میں دور ایک بہت بڑا خیمہ روشنی سے اور چمکیلی آوازوں سے چھلکتا ہوا دکھائی دیا۔ رنگ ماسٹر اپنی پکنک باسکٹ اٹھائے اسی روشن خیمے میں داخل ہوگیا اور اندر رک کر اپنے مہمانوں کا انتظار کرنے لگا۔ اب وہ اونچی کھلکھلاتی آواز میں انہیں خیمے میں چلے آنے کو کہہ رہا تھا، ’’چلے آؤ بھائی صاحبو! آ جاؤ۔ رکنا نہیں ہے۔ توقف نہیں کرنا ہے۔ یہ خیمہ بے تکلف ہے بھائی صاحبو! شیروں، اژدہوں سے پنجا کرنے والے دلیروں کے لیے طاقت سے بھرپور ایک دم بم فولادی ناشتے اسی خیمے میں ملیں گے۔ سمجھے بھائی صاحبو! تکلف نہیں کرنا ہے، یعنی توقف نہیں کرنا ہے۔ بس آجاؤ۔‘‘ رنگ ماسٹر کے اور مہمانوں کے خیمے میں داخل ہوتے ہی اندر کے سب ان کی طرف متوجہ ہو گئے۔

    مگر نہیں، ’’ان کی طرف‘‘ زیادہ درست نہیں ہے، کیونکہ سب رنگ ماسٹر اور عورت ہی کو دیکھ رہے تھے۔ مرد تو جیسے ان کے ساتھ تھا ہی نہیں۔ گٹھے ہوئے بدن والے تین چار بونوں نے منھ میں انگلیاں ڈال کر تیز تیز سیٹیاں ماری تھیں اور ’’ہاہاہا‘‘ کی آواز نکالی تھی۔ رنگ ماسٹر خود کواس وقت سرکس کے رنگ میں اترا ہوا سمجھ رہا تھا۔ اس نےسیٹیوں کےجواب میں ایک قدم آگے بڑھ کر عورت کو خود سے بھڑا لیا، اس کی کمر میں ہاتھ ڈال کے جھک جھک کر ہاتھ ہلاتے ہوئے کسی بات کی داد وصول کرنے لگا۔ ہجوم میں سے ایک نے چیخ کر کہا،’’ وا بھئی وا۔۔۔ماشٹر فلک شیر نے ایمان سے یہ نمبر ون ماشوک گھیرا ہے!‘‘ رنگ ماسٹر نے خوش ہو کے ٹھٹھا لگایا اور داد وصول کرتے ہوئے پھر ہاتھ لہرایا۔

    عورت کا مرد غصے سے بےقابو ہو گیا۔ اس نےبڑھ کر رنگ ماسٹر کی کلائی پکڑی اور جس ہاتھ سے وہ عورت کو گھیرے ہوئے تھا وہ ہاتھ جھٹکے سے کھینچ کر ہٹا دیا۔ ہجوم نےخوشی کا نعرہ مارا ،’’واہ!‘‘ وہ سب سمجھ رہے تھے اب رقیبوں کی لڑائی شروع ہو گئی۔ مگر انہیں مایوسی ہوئی۔عورت نے ہنستی ہوئی آنکھوں سے اپنے مرد کو دیکھا اور ہجوم سے چیخ کر کہا، ’’سنو رے سنو۔ رنگ ماسٹر میرا ’ماشوک‘ نہیں ہے۔ میرا ’ماشوک‘ یہ ہے۔‘‘ اس نے کمر میں ہاتھ ڈال کے اپنے آدمی کو ہجوم کے سامنے کر دیا۔ پھر ہنستی ہوئی آواز میں چیخ کر کہنے لگی، ’’ارے وہ رنگ ماسٹر تو میری ماں کا بھائی ہے۔ ماما ہے میرا۔‘‘ سمجھو اس میرے ’ماشوک‘ کا ممیا سسر ہے۔ کچھ سمجھے ممیا سسر کیا ہوتا ہے؟‘‘

    ہجوم نے ایک آواز ہو کے کہا، ’’ہاں، سمجھ گئے۔‘‘

    ’’کیا ہوتا ہے؟‘‘عورت نے پھر ہنستے ہوئے پوچھا۔ دو تین آوازوں نے گاکر کہا، ’’ماشوک کا سسر ہوتا ہے۔‘‘ اور باقی سب تالی بجانے لگے۔ رنگ ماسٹر بےوجہ کھلا پڑتا تھا۔ وہ ہر سمت میں جھک جھک کر اور ٹھک ٹھک کر کے اپنی ایڑیاں بجا رہا تھا جیسے یہ پورا شو اسی کے لیے ہو رہا ہو۔ اسے بات بات پر داد وصول کرنے کا شوق تھا۔ وہ تینوں اور پکنک باسکٹ کسی میز تک ابھی پہنچے بھی نہ ہوں گے کہ تالیاں بجاتے سرکس والوں نےاپنی میزیں چھوڑ دیں اور انہیں گھیر لیا۔ مرد کا غصہ یا جھونجھل، جو بھی تھی، اب تک ختم ہوچکی تھی۔ سرکس والے کھلے دل کے لوگ لگتے تھے۔ ان کی باتوں سے عورت کی، یا کسی کی بھی، توہین نہیں ہوتی تھی۔ وہ تو اپنی خوش مزاجی اور امنگ میں نئےدن کا استقبال کر رہے تھے۔

    رنگ ماسٹر نے میز سنبھالتے ہی سرکس والوں کو دھکے دیتے ہوئے کافی جگہ بنالی اور پکنک باسکٹ اپنی کرسی کے قریب فرش پر رکھ دی۔ اب اس نے کرتب دکھانے کے انداز میں باسکٹ سے ایک ایک چیز نکالنی شروع کی جو وہ اپنی مرضی سے کبھی عورت کے، کبھی مرد کے اور خود اپنے سامنے رکھتا گیا یا واپس باسکٹ کےحوالے کرتا گیا۔ ہرچیز دیکھ کر ہجوم داد دیتا یا تالی بجاتا تھا۔

    باسکٹ سے وسکی کی بوتلیں، بیئر کے ٹن، لمبے ڈنٹھلوں والے شیشے کے گلاس، پنیر کے سر بند ڈبے، کانٹوں دار تار، ڈبے کھولنے والے کٹر، کاگ اڑانے والے گھومے ہوئے اوپنر، پیچ کش اور دھمکیاں، الٹی میٹم اور بڑھیا بسکٹوں کے ٹن، بٹر پیپر میں لپیٹی روسٹ کی ہوئی سالم مرغی، جھوٹی تسلیاں، دلاسے اور ڈینگیں، کافی پینے کے مگ، کانٹے، چھریاں، اسلحے، پلیٹیں، ٹشوپیپر، وھائٹ پیپر، آٹھ دس نارنگیاں، اتنے ہی سیب، مخمل کے خوب صورت جھولنے میں بند سخت سینکی ہوئی ڈبل روٹی، مکھن لگی روٹی، روٹی لگا مکھن، صرف روٹی اور صرف مکھن، کچھ اور روٹی، شہد کا جار اور وٹامن کی گولیوں کی شیشی۔۔۔بےشمار چیزیں۔ سب نکلی آ رہی تھیں۔ لگتا تھا عمر و عیار کی زنبیل ہے جس سے نعمتیں اور عشرتیں اور دوسری سب چیزیں بس چلی آ رہی ہیں۔

    رنگ ماسٹر نے گولیوں کی شیشی اٹھا کر ہاتھ بلند کرتے ہوئے، ہجوم کو ’’درجہ بہ درجہ‘‘ آنکھ ماری اور اپنی اعلانچیوں والی آواز میں عورت اور مرد کو مخاطب کر کے کہا، ’’اور بھائی صاحبو! یہ ہیں اصلی سلاجیت کی جوہری گولیاں، یہ شیرنی کے دودھ اور کنوارے ریچھ کی کمر سے حاصل کیے ہوئے ایک خاص جوہر میں گوندھ کے تیار کی گئی ٹیبلٹیں ہیں بھائی صاحبو! جو حکیم ارسطاطالیس اصلی کی ایجاد ہیں صاحبو اور موج میلے کی کارکردگی میں سمجھو کہ تیر بہ ہدف ہیں۔ اس لیے۔۔۔‘‘ اب وہ باقی ہجوم سے مخاطب تھا، ’’اسی لیے بھائی صاحبو! یہ گولیاں میں اس معزز جوڑے کو پیش کرتا ہوں اور کیوں نہ پیش کروں کہ اس وقت پورے سرکس گراؤنڈ میں ان دونوں سے زیادہ اس کا حق دار اور کون ہوگا۔۔۔بتاؤ کون ہوگا؟‘‘ ہجوم نے، جو اب ہر طرف سے انہیں گھیر چکا تھا، چیخ کر ایک آوازمیں کہا، ’’کوئی نہیں!‘‘

    رنگ ماسٹر نے حکم دیا، ’’اچھا تو ان کے لیے ایک ایک گلاس سادہ پانی لاؤ۔‘‘ پانی آگیا۔ رنگ ماسٹر نے مرد اور عورت کو حکم دیا، ’’تو بھائی صاحبو! دو دو گولیاں سلاجیت اصلی ممسک قرص جوہری درجہ اول آپ دونوں کھا لو۔ فوراً۔۔۔رام بھلی کرے گا۔‘‘عورت نے انکار کر دیا۔ مرد نے ہاتھ بڑھاکر شیشی اٹھالی۔ اس پر لکھا ہوا پڑھا۔ عام سی وٹامن بی کمپلیکس کی گولیاں تھیں۔ اس نے دو نکالیں اور پانی سے نگل لیں۔ رنگ ماسٹر سمیت ہجوم نے، ’’ہا آ۔۔۔شیر کا بچہ ہے!‘‘ کہہ کر تالی بجائی۔ مرد اٹھا، تعظیم کو جھکا اور اس نے داد وصول کی۔ وہ بھی ان کے رنگ میں رنگتا جا رہا تھا۔

    اسے دیکھ کر عورت بھی اٹھی۔ اس نے بھی دو ’’ممسک جوہری‘‘ گولیاں نکالیں، ہتھیلی پر رکھ کر پورے حلقے کو دکھائیں۔ حلقے سے پسندیدگی کی گونج سنائی دی۔

    ’’ہا آآآں!‘‘

    عورت نے پہلے ایک، پھر دوسری گولی پانی سے نگلی اور وہ اپنےمرد کی طرح داد وصول کرنے کو جھکی، اپنی فراک کا گھیرا تھام کر، دونوں گھٹنے خم کر کے اس نے ہجوم کو تعظیم دی۔

    ’’ہا آ۔ شیر کی بچی ہے ماشوک! شیر کی بچی ہے۔‘‘ اور ہجوم نے تالیاں بجانی شروع کر دیں۔ دو بونے میزوں کے بیچ خالی جگہ میں ایک دوسرے کے پنجوں میں پنجے پھنسا کر گھمن گھیری ناچنے لگے۔ رنگ ماسٹر اور مہمان عورت مرد نے بھی تال دینی شروع کر دی۔ جو ہجوم انھیں گھیرے ہوئے تھا وہ اب گھمن گھیری ناچتے بونوں کی طرف گھوم گیا اور بڑے جوش سے تال دے دے کر کچھ گانے لگا، اس لیے تینوں اس تال دیتے گاتے ہجوم میں شامل ہو گئے۔ان کی مرکزی حیثیت ختم ہو چکی تھی۔۔۔اسپاٹ لائٹ سمجھو اب ان بونوں پر تھی۔

    ’’تری درادا۔ تری دادا۔ تاناتانا، تن تنانا۔ او تری درادا۔ تری دادا۔‘‘ نہ معلوم کیا گیت تھا۔ وہ جوڑا بھی سب کے ساتھ چیخ چیخ کر ’’تری درادا‘‘ کرنے لگا۔ کوئی پانچ سات منٹ یہ ناچ، تالیاں اور ’’تری دادا‘‘ چلتا رہا۔ پھر جس طرح اچانک بونوں نے ناچنا شروع کیا تھا، ایک دم ہی انہوں نے بند کر دیا۔ دونوں ہنستے اور ایک دوسرے کی پیٹھ تھپکتے ہوئے دائرہ توڑ کر ایک طرف نکل گئے اور کرسیاں کھینچ کر بیٹھ گئے۔ ہجوم چھٹ گیا۔ سب اپنی میزوں پر چلے گئے۔ عورت اور مرد کو لیے ہوئے رنگ ماسٹر اپنی میز کی طرف بڑھا اور۔۔۔ٹھٹک کر وہیں کھڑا رہ گیا۔

    رنگ ماسٹر کی میز پر شیر کی کھال سے بنا کوسٹیوم پہنے، گل مچھوں والا ایک لمبا تڑنگا، چوڑا چکلا اور ادھ ننگا باڈی بلڈر بیٹھا پرشور طریقے سے رنگ ماسٹر کے سیب کھا رہا تھا۔۔۔کھا نہیں رہا تھا چرا رہا تھا۔ باڈی بلڈر کے دونوں ہاتھوں میں ایک ایک سیب تھا اور وہ اپنے مضبوط سفید دانتوں سے کبھی ایک سیب کو، کبھی دوسرے کو پھنساتا اور سر کا جھٹکا دے کر جیسے اکھاڑتا تھا، پھر خچر کی طرح منھ چلاتے ہوئے چبانے لگتا تھا۔ سیبوں کے رس سے گل مچھوں سمیت اس کا نچلا آدھا چہرہ چمک رہا تھا اور پھل کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے اس کی ہتھوڑے جیسے ٹھوڑی اور بالوں بھرے سینے پر گر رہے تھے۔

    ’’سڑ لپ سڑلپ‘‘ کی آوازیں سن کے اب دوسرے بھی ادھر دیکھنے لگے تھے۔ رنگ ماسٹر کو سامنے پاکر بھرے منھ کے ساتھ باڈی بلڈر ’’ہو ہو ہو‘‘ کر کے ہنسا۔ مرد پریشان ہو کر کبھی اسے کبھی رنگ ماسٹر کو دیکھنے لگا۔ رنگ ماسٹر غصے میں کانپنے لگا تھا۔ باڈی بلڈر بھونڈی آواز میں ہنستے ہوئے بولا، ’’کیا سوچ را ہے؟ آ۔۔۔مار مجھے۔۔۔! آ!‘‘ عورت اور مرد نے سوچا، ’’کیسی اچھی صبح طلو ع ہونے والی تھی۔ اب سب کچھ برباد ہو گیا ہے کیوں کہ ماحول میں غصہ ہے اور سب کے ساتھ کہیں کوئی دھاندلی کی جا رہی ہے۔‘‘ رنگ ماسٹر نے سر جھٹک کر پیشانی پر ہاتھ پھیرا۔۔۔بالکل اس طرح جیسے کوئی نیند کے جھونکے سے پیچھا چھڑانا چاہ رہا ہو۔ باڈی بلڈر نے ہنستے ہوئے اسے پھر للکارا، ’’آ۔۔۔مار!‘‘ رنگ ماسٹر عورت کی طرف گھوم گیا۔ دھیرے سے بولا، ’’تم دونوں ایک منٹ کے لیے ذرا باہر جاؤ۔‘‘ خیمے میں سناٹا ہو گیا۔

    عورت نےرنگ ماسٹر کے شانے پر ہاتھ رکھا تو وہ ایک بار ایسے تھرایا جیسے بجلی کا زندہ تار اسے چھو گیا ہو۔ وہ پہلے کی طرح دھیرے سے کہنے لگا، ’’نہیں بی بی! مجھے چھونا مت۔۔۔اب ہاتھ نہیں لگانا۔ بالکل نہیں۔‘‘ عورت کو اندازہ نہیں تھا۔ اس نے، ’’اب ایسا بھی کیا‘‘ کہہ کے رنگ ماسٹر کی پیٹھ تھپکنا چاہی تھی کہ وہ منھ اٹھاکے پوری طاقت سے چیخا، ’’ہا آآآآہ!‘‘ پھر اس نے جھپٹ کر قریب پڑی کرسی اٹھائی اور باڈی بلڈر کے سر پر چلا دی۔ مرد نے دل میں سوچا، ’’یہ گیا شیر کی کھال والا گل مچھڑ۔۔۔اب نہیں بچتا۔‘‘ مگر باڈی بلڈر نے بیٹھے ہی بیٹھے ہاتھ اٹھایا اور بازو کے پر گوشت حصے پر یہ وار روک لیا۔ کرسی ٹوٹ کے گر گئی۔ مرد نےاپنی عورت کو بانہہ سے پکڑا اور کھینچتا ہوا اسے خیمے سے باہر لے گیا۔

    جاتے ہوئے اس نے سنا اندر سے ایسی آوازیں آئی تھیں جیسے سانڈ پھنکارتے ہوئے ایک دوسرے پر جھپٹ رہے ہوں۔ خیمے میں بھرے ہوئے لوگوں نے ’’نانانا‘ کہتے ہوئے کسی کو باز رکھنے کے لیے ایک ساتھ شور مچانا شروع کر دیا تھا۔ وہ دونوں خیمے سے نکل کر دو قدم ہی چلے ہوں گے کہ اندر ’’پھٹ‘‘ کی سی آواز ہوئی۔ لگتا تھا چھوٹے بور کا فائر آم چلایا گیا ہے۔ کسی کے دھم سے گرنے کی بھی آواز آئی تھی۔

    مرد واپس اندر جھپٹا۔ عورت اس کے پیچھے تھی۔ رنگ ماسٹر اپنی میز کے قریب ہاتھ میں پیتل کا چھوٹا سا جیبی پستول کے لیے کھڑا تھا۔ پستول کی نال سے ابھی تک دھواں نکل رہا تھا اور باڈی بلڈر کی کرسی الٹی پڑی تھی۔ برابر سے ایک بونا، مار دیا رے مار دیا، آسو بلے کو مار دیا، چلاتا ہوا باہر بھاگا۔ کوئی اور اسےروکتا ہوا پیچھے چلا تھا مگر بونا بہت تیز دوڑ رہا تھا۔

    عورت مرد نے فرش پر گرے ہوئے باڈی بلڈر کو دیکھا۔ وہ ٹوٹی کرسیوں کے ملبے میں پڑا اپنا دایاں شانہ سختی سے دبا ئے اٹھنے کی کوشش کر رہا تھا۔ اس کی انگلیاں خون میں بھیگی جا رہی تھیں۔ آسو بلا (بونے نےاس کا یہی نام لیا تھا) مرا نہیں تھا۔ وہ اٹھ کر بیٹھنے میں کامیاب ہو گیا تھا اور اب تک منہ چلا رہا تھا۔ ’’ہوہو‘‘ کر کے ہنستے ہوئے اس نے منہ میں بھرے سیب کے ٹکڑے اور لگدی فرش پر گرا دی اور بولا، ’’پشتول چلاتا ہے۔۔۔حرامی!‘‘ رنگ ماسٹر نے اسے مارنے کو ایک اور کرسی اٹھا لی۔۔۔اس کے دیسی پستول سے شاید ایک ہی فائر ہو سکتا تھا۔

    مرد رنگ ماسٹر کو حملے سے روکنے کے لیے بڑھ رہا تھا کہ خیمے کے لوگوں اور بونوں نے چیخ کر کہا، ’’نہیں بھائی۔ قریب مت جانا۔ بالکل مت جانا۔‘‘ مرد سوچنے لگا، ’’ارے! رنگ ماسٹر نے زخمی آسو کو مارنے کے لیے کرسی اٹھائی ہے۔ یہ کیسے لوگ ہیں، مجھے آگے آنے سے روک رہے ہیں۔ مگر اس نے کنکھیوں سے دیکھا کہ وہ سب کے سب ایک جتھے کی صورت میں رنگ ماسٹر کو گھیرتے جا رہے تھے۔ ہر ایک نے ایک ایک کرسی اٹھا رکھی تھی۔ ہر کرسی کی ٹانگیں کسی چار انگلیوں والے پنجے کی طرح رنگ ماسٹر کی طرف اٹھی ہوئی تھیں۔ وہ گھیرا ڈال چکے تب ماسٹر کو اندازہ ہوا کہ وہ گھر گیا ہے۔ اس نے دیکھا اور حملے کے لیے اٹھائی ہوئی اپنی کرسی فرش پر رکھ دی اور اسی پر بیٹھ گیا۔ پھر سر جھکا کر اپنے جوتوں کے درمیان فرش کو گھورنے لگا۔ اب وہ ایک پرسکون اور فکرمند آدمی تھا۔

    عورت مرد نے سر کسوں میں کٹیلے جانوروں کو کرسی کے بڑھتے ہوئے پنجوں سے قابو میں آتے دیکھا تھا۔ یہ پہلا موقع تھا کہ ان کے سامنے ایک انسان ۔۔۔خود کٹیلوں کا تماشا دکھانے والا رنگ ماسٹر۔۔۔کرسی سے قابو میں آ گیا تھا۔ ایک بار پھر خیمے میں سناٹا ہو گیا۔ ایک چھوٹی سی آواز نے، کسی بچے کی آواز نے اچانک سوال کیا، ’’یہاں کیا ہو رہا ہے؟‘‘ عورت مرد گھوم گئے۔ خیمے کے دروازے میں ایک لڑکی آ کھڑی ہوئی تھی۔۔۔آٹھ نو برس کی بچی۔ اس نے اپنی چھوٹی سی تجسس بھری آواز میں پھر پوچھا، ’’جانم! کیا ہوا تھا ابھی؟‘‘ اس نے یہ سوال رنگ ماسٹر سے کیا تھا۔

    ’’کچھ نہیں، ڈارلنگ!۔۔۔تم کیوں آ گئیں؟ جاؤ۔۔۔سوجاؤ۔‘‘ رنگ ماسٹر نے جس طرح کہا تھا اس سے انہیں شک ساہوا۔ دونوں نے پھر دیکھا۔ اب کے غور سےدیکھا۔ وہ بچی نہیں، عورت تھی، پوری عورت۔۔۔وہ بونی تھی۔ بونی نے پوچھا، ’’جانم! یہ ایسا کیوں بیٹھا ہے؟‘‘ وہ آسو بلے کی طرف اشارہ کر رہی تھی، ’’کیا ہو گیا اس کو؟ کیسےچوٹ لگ گئی؟‘‘ عورت نے سوچا، ’’جھوٹ بول رہی ہے۔ یہ خوب جانتی ہے کیا ہوا ہے۔‘‘ بونی کو خبر کرنے والا بونا اس کے پیچھے خیمے میں آ گیا تھا۔

    ’’کیا ہوا اسے؟‘‘ اس نے پھر پوچھا۔

    ’’کیا خبر۔‘‘ رنگ ماسٹر نے پھر سر جھکا کر فرش کو گھورنا شروع کر دیا تھا۔ آسو بلا کبھی بونی کو کبھی رنگ ماسٹر کو گھما گھما کے دیکھتا رہا تھا۔ اب جو رنگ ماسٹر نے ’’کیا خبر‘‘ کہہ کے سر جھکا لیا تو آسو فرش پر سےاچانک اٹھ کھڑا ہوا اور شکایت کے لہجے میں بولا، ’’بیلا جی! بیلاجی! اس نے پشتول مارا ہے۔۔۔حرامی نے۔‘‘

    خوب! تو رنگ ماسٹر کی رکھیل بیلا جی یہ ہے۔۔۔بونی۔

    آسو کی بھدی آواز میں ماسٹر کے لیے گالی سن کر بیلا جی کی تیوریاں چڑھ گئی تھیں۔ بلے کی طرف دیکھے بغیر اس نے منہ بگاڑکر کہا، ’’بک بک نہیں کر!‘‘ اور خاموش بیٹھے ہجوم میں سے ایک کو انگلی کے اشارے سے بلایا، ’’اوسن، ادھر آ۔۔۔ہاں تجھی سے کہہ رہی ہوں۔ لے جا اس سالے کو۔۔۔کمپوڈر اٹھ گیا ہوگا۔۔۔اس کی پٹی کرا دینا۔‘‘ ہجوم سےجو نکل کے آیا وہ بھی بونا تھا۔ وہ بھنبھناتے ہوئے شکایت آمیز لہجے میں بولا، ’’ابھی کدھر اٹھا ہووےگا کمپوڈر۔ رات پوری باٹلی ٹکا کے گیا تھا۔‘‘

    ’’جاجا، سالا بالشٹر! ادھر ہی جرح کرنے لگا ہےحرام کا! ابے جاتا ہے یا پچھالے پہ ٹھڈا کھائےگا۔ گاں۔۔۔!‘‘

    رنگ ماسٹر ٹھیک کہتا تھا، بیلا جی کچی نیند سےاٹھادی گئی تھی۔۔۔اب یہ دن بھر گندی گندی گالیاں بکےگی۔ گالی کھا کے بونا زخمی آسو کے پاس گیا اور ہاتھ پکڑ کر اسے خیمے سے باہر لے چلا۔ لگتا تھا کریکٹ کے بیٹ کو اس کی بال کھینچے لیے جا رہی ہے۔ جوں ہی آسو اور بونا خیمے سےنکلے، بونی بیلا جی حلق سے لاڈ کی آوازیں نکالتی، رنگ ماسٹر کے جوتوں پر پیر رکھتی، اچھل کر اس کی گود میں جا بیٹھی، ’’اررے میرا فلک شیر! پھلکو میرا۔۔۔کیا بات ہو گئی ڈار لنگ۔۔۔؟ تجھے کیوں غصہ آ گیا؟ آں؟ میری جان! پستول کائی کو چلایا تونے اس۔۔۔اس پونے پہ کائی کو چلایا پستول؟‘‘

    بونی رنگ ماسٹر کے بڑھے ہوئے شیو پر اپنے رخسار رگڑنے لگی اور پچ پچ کی آوازیں نکالتی ہوئی کچھ یوں ظاہر کرنے لگی جیسے وہ اس کے بوسے لے رہی ہے، یا لینا چاہتی ہے مگرحاضرین کی وجہ سے جھجکتی ہے۔ رنگ ماسٹر اس کی پہنچ سے دور ہونےکو اپنا چہرہ دائیں بائیں ہٹاکر اسے روکتا رہا، ’’نا ڈارلنگ! نا بیلا! اری بات تو سن۔‘‘ مگر بیلا جی کا لاڈ اور نقلی چوما چاٹی چلتی رہی اور بار بار وہی سوال کہ کیا بات ہوگئی؟ کیوں غصہ آ گیا؟ پستول کائی کو چلایا؟ رنگ ماسٹر نے بیلاجی کی غیر معمولی توجہ سے بچنے کو شاید ایک بار منھ کھول کر بتا دینا چاہا بھی مگر پھر ’’ہاں، وہ، یہ‘‘ کہہ کر چپ ہو گیا۔

    ’’بتانا، کیا بات ہوگئی جانم؟‘‘ بیلا جی اب اپنے پھلکو فلک شیر کی گود میں کھڑی ہو گئی، اس کے کھلے گریبان میں دور تک اپنا انگوٹھیوں بھرا ہاتھ ڈال دیا اور اندر ہی اندر رنگ ماسٹر کا ادھیڑ سینہ تھپتھپانے لگی۔ اسے گدگدی ہو رہی تھی یا کوئی اور بات ہوگی جو وہ سرخ ہو گیا اور گھگھیانے لگا، ’’بس کر۔ ذرا ٹھیر تو۔ اری دیکھ تو سب ہیں۔۔۔بھلا یہ کون سا وقت ہے؟ بیلا! او بیلا جی! نہیں سنےگی؟‘‘

    بونی بیلا جی مم مم مم کرتی ہوئی جیسے خود بھی اپنی مصروفیت میں مگن ہو رہی تھی کہ فلک شیر دلاور نے ہتھیار ڈال دیے اور منھ سے رال گراتے ہوئے بولا، ’’سن بتاتا ہوں۔۔۔بتاتا ہوں۔ اس نے۔۔۔اس نے سالے نے میرے سیب کھا لیے تھے۔۔۔اس لیے، اس لیے گولی ماری ہے۔ چل ہاتھ نکال۔۔۔اتر!‘‘ بیلا جی بہت فتح مند اور مسرور اپنے فلک شیر ڈار لنگ کی گود سے اتر آئی۔ اس نے خیمے میں موجود لوگوں اور بونوں کی طرف جیتی ہوئی عورت کے غرور سے دیکھا اور حکم دیا، ’’پھلکو کی باسکٹ میں اس کی سب چیزیں واپس رکھ دو۔‘‘

    خیمے میں موجود لوگ، حد یہ ہے کہ بونے تک بے تعلقی اور بیزاری بلکہ ایک دھیمی نفرت سے یہ سب کچھ دیکھتے رہے تھے۔ ان میں سے کسی نے بیلا جی کی بات پرتوجہ نہ دی۔ عورت مرد دیکھ رہے تھے کہ بعض بونوں تک نے جماہیاں لی تھیں۔

    ’’تمہاری بھیں کا یہ، کا وہ۔۔۔سنا نہیں، میں نے کیا کہا ہے؟‘‘ بونی نے منھ بگاڑ بگاڑ کے گالی گفتار بکنی شروع کر دی تھی۔ عورت نے حیرت سے اپنے مرد کو دیکھا۔ دھیرے سے بولی، ’’اس چھوٹی ڈبیا سی عورت میں کتنا گند بھرا ہے!‘‘ مرد کچھ نہ بولا۔ اسے بھوک لگنی شروع ہو گئی تھی۔۔۔صبح تڑکے سے بلکہ آخری پہر کے اندھیرے سے اب تک انہوں نے بڑی دیوانگی کے ساتھ وقت گزارا تھا۔ رات جاگتے ہوئے کٹی تھی۔ بھوک تو لگنا ہی تھی۔ بیلا جی کی گالی گفتار سن کے سبھی بونے جلدی جلدی رنگ ماسٹر کا سامان اس کی باسکٹ میں بھرنے لگے تھے۔

    بونی نے اب عورت مرد کی طرف توجہ کی۔ ایسا لگتا تھا دونوں پر اس کی نظر پہلے نہ پڑی ہوگی۔ اس نے ایک بار مرد کو دیکھا، منہ بنایا، پھر عورت کو دیکھا تو اس کی آنکھیں چمکنے لگیں۔ جھک کر اس نے رنگ ماسٹر کے کان میں کچھ کہا۔ اس نے بہت سختی سے انکار میں سر ہلایا، دبی ہوئی آواز میں بولا، ’’تو پاگل ہو گئی ہے! اری وہ میاں بیوی ہیں۔‘‘ بیلا جی رنگ ماسٹر کی کرسی کے پیچھے کھڑی تھی، اب وہ اس کے برابر آ گئی۔ وہ جھکی ہوئی برابر اس کے کچھ کہے جا رہی تھی۔

    رنگ ماسٹر ایک دم کرسی سے اٹھ کھڑا ہوا۔ بیلا جی گرتے گرتے بچی، کھسیا گئی، مگر اس نے ڈپٹ کر بہت غصے سے مرد کو دیکھا اور بولی، ’’اورے او۔۔۔کیا دیکھتا ہے؟ کون ہے تو؟ کدھر سے آیا ہے۔۔۔سالا پرورٹ!‘‘ وہ نہ معلوم کیوں اسے یہ عجیب طعنہ دے رہی تھی۔ مرد کے جواب دینے سے پہلے رنگ ماسٹر بول اٹھا، ’’مہمان ہیں میرے۔۔۔ان سے کیا پوچھ رہی ہے؟ بتایا نا، میرےساتھ آئے ہیں دونوں۔‘‘ بونی نے فلک شیر کی کہی بات ان سنی کر دی، اسی گندے لہجے میں مرد سے پوچھنے لگی، ’’او رے او۔۔۔یہ رنڈی کون ہے تیری۔۔۔؟ ماں ہے؟‘‘

    اب مرد کے کچھ کہنے سے پہلے اس کی عورت آواز بنا کے ہنسی، بولی، ’’اری او پاگل! کیسی بھلکڑ ہے۔۔۔ کیا پھر بھول گئی؟ اری اس کی نہیں میں تیری میا ہوں۔ نایکہ ہوں ادھر کی۔۔۔آٹھ آٹھ آنے لے کے میں ہی تو چھوڑتی جاتی ہوں۔۔۔پورے کا آٹھ آنہ، بونے کا چار آنہ، پونے کا ایک آنہ۔۔۔یاد آیا؟‘‘

    رنگ ماسٹر کا منھ تھتھا ہوا تھا لیکن عورت کی بات سن کے اس نے چہرہ اٹھا کے ایک زبردست قہقہہ لگایا، پھرپیٹ پکڑ کے ہنسنے لگا اور ہنستے ہنستے بولا، ’’آج ملی ہے یہ تیرے سر کی استاد ۔۔۔ شاباشے۔۔۔ ہاہاہا۔۔۔یہ ملی ہے۔‘‘

    بیلا جی کرسی کے پیچھے سے غصہ ور نیولے کی طرح خی خی کی آواز نکالتی ہوئی جھپٹی اور اس نے بہ یک وقت عورت کی طرف کک چلایا اور مرد کے پیٹ میں گھونسا مارا۔ عورت اس کے لیے تیار تھی۔ اس نے اپنی طرف آتے کک کو ہاتھ بڑھا کر ذرا اوپر اٹھا دیا۔ بونی کا توازن بگڑ گیا اور وہ گر گئی۔ مرد کی طرف چلایا ہوا اس کا گھونسا اوچھا پڑا۔۔۔ذرا سا نیچے۔ مارے تکلیف کے وہ دہرا ہو گیا۔ بیلاجی بونی فرش پر پڑی ہوئی اسے۔۔۔مرد کو، خدا معلوم مرد ہی کو کیوں۔۔۔طرح طرح کی گالیاں دے رہی تھی، ’’تیری ماں کو بھیں کے یاں کاواں۔۔۔حرامی سالا نامردا، گینگلوکی اولاد، سور دلا کدھر کا۔۔۔‘‘

    رنگ ماسٹر فلک شیر نے ہنسی سے بے حال ہوتے ہوئے بھی جھک کر فرش پر پیچ و تاب کھاتی بونی کو اس کی کمر کے گرد بازو ڈال کر چھوٹے مچلتے ہوئے بنڈل کی طرح اٹھایا اور بغل میں مار خیمے سے نکل گیا۔ وہ بری طرح ہاتھ پیر چلا رہی تھی۔ تین بونوں نے رنگ ماسٹر کی پکنک باسکٹ اٹھائی اور مشقت کی آوازیں نکالتے وہ بھی پیچھے چل پڑے۔ دور سے بیلا جی کی چیختی چنچناتی آواز آ رہی تھی، ’’ان دونوں سالوں کی بھیں کا یہ، کا وہ، دلا سالا فش ٹولا۔۔۔اور وہ سالی رانڈ۔۔۔‘‘ عورت نے تھکی ہوئی بیزار خوش مزاجی سے ہاتھ جھاڑکر کہا، ’’گئی سسری۔۔۔جان چھوٹی۔‘‘

    ’’مگر وہ تو کھانے کی سب چیزیں لے گئے ہیں۔ اب کیا ہوگا۔‘‘ عورت نے لاعلمی میں کندھے اچکائے۔ پیچھے سے کسی نےدھیمی گمبھیر آواز میں کہا، ’’میرے ساتھ آؤ، ناشتا کرا دوں گا۔‘‘عورت مرد نے مڑ کے دیکھا۔ نیلا اوور آل پہنے، ٹول بکس اٹھائے ایک سنجیدہ چہرے والا عرب، ایرانی یا شاید پاکستانی جیب میں ہاتھ ڈالے سکون سے کھڑا تھا اور انہیں ساتھ آنے کو کہتا تھا۔ اس نے مصافحے کے لیے ہاتھ بڑھایا، ’’میرا نام بادل ہے۔ ادھر الیکٹریشین لگا ہوا ہوں۔‘‘ مرد نے ہاتھ ملاتے ہوئے محسوس کیا کہ اس کے ہاتھ کے لمس میں محنتی آدمی کا کھردراپن اور بےغرضی تھی۔

    ’’تم پاکستانی ہو؟‘‘مرد نے بادل سے پوچھا۔

    ’’پتا نہیں۔۔۔میں اور والد صاحب مسقط میں پیدا ہوئے تھے۔۔۔دادا صاحب بلوچستان سے گیا تھا۔‘‘ بادل انہیں لیے ہوئے میزوں کے درمیان راستہ بناتا خیمے کے پچھلے حصے کی طرف چلا۔

    میزوں کے گرد بیٹھے ہوئے لوگ اب اپنے مگوں، گلاسوں اور پیالوں میں جھکے ہوئے چائے، کافی جیسا کچھ پینے لگے تھے۔ عورت مرد نےدیکھا ان کے مگ اور گلاس جھڑی ہوئی تام چینی اور پتلے المونیم کے تھے۔ پیالیاں، کوریں، کونڈے، جھڑی اور بےجوڑ تھیں۔ تام چینی کی کالونچ لگی رکابیوں اور اردو کے پرانے پیلے پڑے اخباروں پر بھورے بدرنگ آٹے کی گیندیں سی رکھی تھیں اور بہت سے پکے زرد کھیرے، چیرا دیے ہوئے اور نمک مرچ لگے، کھری میز پر پڑے لڑھک رہے تھے۔ کوئی کوئی ورکر بےدلی سے آٹے کی ان بھوری گیندوں کو اٹھا اٹھا کے کتر لیتا تھا۔۔۔کھیروں کو تو ان کے دیکھتے کسی نے چھوا بھی نہیں۔

    وہ دونوں اور بادل بڑے روشن خیمے کو چھوڑ کر باورچیوں کی چھولداری میں آ گئے۔ یہاں چینیوں جیسی مہربان صورتوں کے آدمی عارضی چولہوں پر کچھ پکاتے تھے یا گرم کر رہے تھے۔ وہ کچھ بولے تو معلوم ہوا، شکلیں بےشک چینیوں جیسی ہیں مگر وہ چینی نہیں ہیں۔ بادل نےدھیرج سے سمجھاتے ہوئے ان سے کچھ کہا تھا۔ وہ لوگ اس مرد اور اس عورت کے بارے میں بات کر رہے ہوں گے کیوں کہ ان میں سے کوئی بھی عورت مرد سے آنکھ نہیں ملا رہا تھا۔ کچھ بحثا بحثی کے بعد چینی دکھائی دینے والوں میں سے ایک نے ہاں میں سر ہلایا اور اپنے ایک ساتھی کو اشارہ کیا۔ وہ کہیں سے تین فولڈنگ کرسیاں اٹھا لایا جو اس نے ایک صندوق کے پاس بچھا دیں۔ صندق ایک طرح کی میز بن گیا۔

    بادل اور عورت مرد بیٹھ چکے تو باورچیوں میں سے ایک بڑے خیمے کی طرف کھلنے والے دروازے میں اسٹول ڈال کے، رستہ روک کے بیٹھ گیا۔ اسے ڈر ہوگا کہ کہیں ادھر سے کوئی اور نہ آ جائے۔ دوسرے باورچی ان کے لیے ناشتا تیار کرنے لگے۔ بادل نے بتایا، ’’دیگوں والی چائے بے کار ہے۔ یہ نئی چائے بنا کے دیں گے۔‘‘ مرد نے دھیرے سے کہا، ’’مہربانی ہے تمہاری۔‘‘ وہ بولا، ’’مگر ادھر ہمارا کوئی عمل دخل نہیں ہے دوست۔ یہ لانگری لوگ ویسا ہی طبیعت کا اچھا ہے۔‘‘ باورچیوں نے آلو ابالنے کو چڑھا دیے۔

    بادل آہستہ آہستہ باتیں کرتا ہوا اس ناکافی ناشتےکی پیشگی معذرت کرنے لگا جو ابھی ان دونوں کے سامنے لایا بھی نہیں گیا تھا۔ مگر مرد نے کہا کہ بھائی محبت سے جو بھی مل جائےگا نعمتوں سے بڑھ کے ہوگا۔ بادل بولا، ’’دوست ادھر بڑا کڑکی ہے۔‘‘ بتانے لگا کہ ویسے تو سرکس چل ہی نہیں رہا اور جو تھوڑا بہت آتا ہے تو وہی تینوں ’’مردار‘‘ آپس میں بانٹ لیتے ہیں۔ ورکروں کو وعدے وعید کے سوا دیتے ہی کچھ نہیں۔ بےزبان جانوروں کو بھوکا مار رکھا ہے۔۔۔سب کو بس آدھے پیٹ ملتا ہے۔ مرد نےسوچا، تینوں سے وہی تینوں مراد ہوں گے، رنگ ماسٹر، باڈی بلڈر اور بیلا بونی۔ اخباروں پر پڑی آٹے کی گیندیں اور پکے پیلے کھیرے دیکھ کر اسے پہلے ہی حیرت ہوئی تھی۔ یہ وہ ناشتا تھا جسے رنگ ماسٹر ’’طاقت سے بھرپور ایک دم بم فولادی ناشتا‘‘ بتا رہا تھا!

    اس نے پوچھا، ’’جب کچھ ملتا ہی نہیں ہے تو تم سب لوگ سرکس کا پیچھا کیوں نہیں چھوڑ دیتے؟‘‘ بادل بولا، ’’ کدھر جاوے؟ سب لوگ کا شناختی پرچی سرکس کے ساتھ ہے۔ ویسے بھی باہر کے حساب سے دم، لیاقت کوئی نہیں ہے۔ نہیں کام ملےگا، نہیں کوئی کدھری گھسنے دیں گا۔‘‘ مرد کو بونی اور رنگ ماسٹر کی سنگت یاد آئی۔ اس نے ویسے ہی، کچھ نہ کچھ کہنے کو، کہہ دیا کہ وہ دو ایک طرف ہیں اور باڈی بلڈر ایک طرف، میرے تو خیال میں وہ کچھ دبا ہوا ہے اور خطرے میں ہے۔ رنگ ماسٹر کے پستول سے ابھی مرتے مرتے بچا ہے۔ تم اس کا ساتھ کیوں نہیں دیتے۔ تمہارا بھی فائدہ ہے۔

    بادل یہ سب سن کے ہنسا، کہنے لگا، ’’آسو بلا بھی ایک حرامی ہے۔ انہی کا آدمی ہے۔ آپ کیا سمجھتے ہو؟ وہ جو آسو کو دھتکارتی تھی، وہ کیا تھا۔۔۔؟ بھئی سب ناٹک تھا۔ اصل پوچھو تو وہ آسو ہی کا عورت ہے۔ رنگ ماسٹر کو تو بس ابھی پھنسا رکھا ہے۔ یا پھر سمجھو کسی کی بھی نہیں ہے۔ ابھی تھوڑی دیر کو فلک شیر کے خیمے میں گئی ہے۔ ادھر سے اپنی تسلی کراکے بلے کے ٹینٹ میں جاکے پڑ جائےگی۔ چوما چاٹی کر کے اس مردار کو منائےگی۔ کمپوڈر کو ٹھڈے مار مار کے بلے کے بازو پر ایک دم نئی بینڈیج لگوائےگی۔ بھلے ہی اسے بخار ہووے نہیں ہووے، سرپے ٹھنڈے پانی کی پٹی رکھےگی۔ پھر شام تک ادھری پڑی سوتی رہےگی۔‘‘

    مرد نے کہا، ’’خوب!‘‘

    ’’شام کے بعد شو چلےگا۔ شو کے پیچھے وہ فلک شیر کے خیمے میں جا سوئے گی۔ سب کو پتا ہے۔ آسو کے گولی پڑنے کی خبر لے کے بونا بھاگا بھاگا ادھر ہی گیا تھا۔‘‘

    ’’عجیب بات ہے!‘‘

    بادل بولا، ’’بس ایسا ہی انتظام ہے۔‘‘

    ’’انتظام‘‘ کا لفظ کہتے ہوئے اس نے کراہت ظاہر کی تھی۔

    ’’یہ بتاؤ، اب جو گولی چلی ہے اور بلا زخمی ہو گیا ہے تو رنگ ماسٹر کے اور اس کے بیچ دشمنی نہیں ہو گئی؟‘‘

    ’’ہاں برابر ہو گئی۔ مگر یہ سب وقتی دشمنی ہے۔‘‘

    مرد نے دھیرے سے کہا، ’’عورت پہ ان کی دشمنی نہیں ہوتی۔۔۔سیبوں پہ ہو گئی؟‘‘

    ’’عورت؟ کیسا عورت۔۔۔؟ وہ عورت مورت نہیں ہے۔ پاٹنر ہے بھئی، ہم نے بولا ہے نہیں۔ سب چیز میں وہ بھی حصہ بٹاتی ہے۔ پھر یہ بھی ہے ان لوگ کا دوستی دشمنی سب ٹائم ٹائم سے ہوتا ہے۔ مرتا کوئی نہیں۔ بھاگتا کوئی نہیں۔ ہر بار سیزن کے شو ختم ہونے پہ یہ لوگ یار دوست بن جاتا ہے، حصہ بخرا کرتا ہے۔ ہم لوگ کو تسلی دیتا ہے، بولتا ہے انتظار کرو، بونی اپنی کہتی ہے۔ باڈی بلڈر اپنی کہتا ہے۔ وہ بولتا ہے میں رنگ ماسٹر کی کمر توڑ دوں گا، بس دیکھتے رہو۔ فلک شیر کہتا ہے، آسو بلے کو زندہ نہیں رہنے دینا ہے۔ دوست! ابھی یہ بھی ہو سکتا ہے بلے کے ٹینٹ میں اس وقت وہ خود بھی بیٹھا ہووے۔ تین گلاس سامنے رکھے، بوتل کھولنے لگا پڑا ہو یا پھر کھڑے ہو ہو کے ٹھک ٹھک ایڑی بجا بجا کے بلے کا اور بونی کا گلاس بھرتا ہووے یا آنکھ مار مار کے ٹھٹھے لگاتا ہووے۔۔۔ان لوگ کا ہمیشہ سے ایسا ہی ہے۔‘‘

    مرد اور کیا کہتا، اس نے کہا، ’’ان کو مار کے نکالو۔ سرکس تو تمہی لوگ چلاتے ہو۔ بس، چلاتے رہو۔‘‘

    بادل بلوچی نے کوئی جواب نہ دیا۔ اسے اپنی سنجیدہ آنکھوں سے دیکھنے لگا۔ جنریٹروں کی آوازیں آنی بند ہو گئی تھیں۔ لگتا تھا باہر دن نکل آیا ہے۔ مگر یہ کون بتاتا کہ نکلا بھی ہے کہ نہیں۔۔۔سبھی تو اندر تھے۔

    مأخذ:

    غصے کی نئی فصل (Pg. 46)

    • مصنف: اسد محمد خاں
      • ناشر: زینت حسام
      • سن اشاعت: 1997

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے