Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

کلر بلائنڈ

انور قمر

کلر بلائنڈ

انور قمر

MORE BYانور قمر

    وہ ایک چھوٹا سا ہل اسٹیشن تھا۔ سیزن میں ٹورسٹ جب وہاں پہنچتے تو ہماری بے کیف زندگی میں تھوڑی سی گلابی گھل جاتی، بوجھل فضا تازہ اور جوان ہوجاتی۔ ورنہ وہاں کی ہر چیز سیاہ نم کمبل میں لپٹی ہوئی اداس مورت تھی۔

    میں اس قصبے میں بسنے والے ان کم نصیبوں میں سے تھا جو بڑے شہر کی چکراتی ہوئی تیز رفتار زندگی سے اپنے آپ کو ہم آہنگ نہ کرپائے تھے، اور اپنی لاچاری کی بناپر اس سست رفتار اور کم آباد قصبے میں آکر بس گئے تھے۔

    میں تھا اور میرے ساتھ جوان بہن تھی۔ ہم دونوں پولیوزدہ تھے۔

    آصف مرچنٹ تھا، جو اپنی تپ دق کی ماری ماں کے علاج کے سلسلے میں اس یقین کے ساتھ یہاں آیا تھا کہ پہاڑوں پر تپ دق کامریض جلد شفا پاجاتا ہے۔ لیکن اسے یہاں آئے ہوے کئی برس ہوچکے تھے، اس کی ماں بدستور بیمار تھی۔ مرض گھٹنے کے بجائے بڑھ گیا تھا۔ مرچنٹ نے اس دوران میں اپنے گزارے کے لیے قصبے کے واحد اسکول میں ملازمت اختیار کرلی تھی۔ وہ بچوں کو مصوری سکھایا کرتا تھا۔

    پوچا جی تھے، جنہوں نے فٹر کی حیثیت سے کسی ڈسٹلیری DISTILLERY میں بڑی عمرگزاری تھی۔ وہاں سے ریٹائر ہوکر اس قصبے میں چلے آئے تھے۔ ڈسٹلیری کے بڑے بڑے بوائلروں کے شور سے ان کی سماعت متاثر ہوچکی تھی، ورنہ ہم سبھوں میں وہ سب سے زیادہ تندرست تھے۔ اپنی صحت کے تعلق سے وہ بڑی احتیاط برتا کرتے تھے، اسی احتیاط کے پیش نظر سال کے بارہ مہینے وہ گرم موزے اور گرم دستانے پہنا کرتے تھے۔

    مسز جوشی تھیں، جن کے پتی کا دیہانت ہوچکا تھا۔ وہ گھر گھر جاکر اخبار اور رسالے فروخت کرتی تھیں، اور اپنے فرصت کے اوقات میں سوئٹر بناکرتی تھیں۔

    ایک شاہ صاحب تھے، جنہیں کثرت شراب نوشی کی لت نے تباہ کردیا تھا۔ ان کا جگر متاثر ہوچکا تھا۔ وہ چند برس قبل اپنی صحت کی بحالی کی غرض سے یہاں آئے تھے اور اسی قصبے کے ہو رہے تھے۔ ان کا ماہانہ خرچ کسی شہر سے ان کی بیٹی انہیں پابندی سے بھیج دیا کرتی تھی۔

    شاہ صاحب، پوچا جی، مسز جوشی، آصف مرچنٹ، میں اور میری بہن ایک دوسرے کے رفیق اور رازداں تھے، ایک دوسرے کے عزیز اور غم خوار تھے۔ اس کے باوجود کوئی قدر ہم میں مشترک نہ تھی، سوائے ایک قدر کے! کوئی شوق یکساں نہ تھا، سوائے ایک شوق کے! اور وہ یہ کہ ہم سبھوں کو رنگ بہت عزیز تھے۔ ہرے، پیلے، اُودے، نارنجی، سرخ۔ سفید اور سیاہ رنگ۔

    ہم جب بھی کوئی خوش رنگ چیز دیکھتے، تو بڑا تسکین بخش احساس پیدا ہوتا ہمارے دل میں! ایسا احساس کہ جو ہمارے ذہنی انتشار کو ختم کردیتا اور ہماری روحوں کو سیراب کردیتا تھا ہم نے ایک کلر بینک COLOUR BANK قائم کر رکھاتھا، جس میں مختلف رنگوں کی چھوٹی چھوٹی چیزیں، ایسی چیزیں کہ جن کی نظر عامہ میں کوئی حیثیت نہیں تھی، وقتاً فوقتاً ہم اس بینک میں جمع کیا کرتے تھے۔ جیسے خوش رنگ قلم، خوش رنگ پینسلیں، خوش رنگ بٹن، خوش رنگ چوڑیاں، خوش رنگ دستیاں، خوش رنگ اسٹیمپ، خوش رنگ پوسٹ کارڈ اور پرندوں کے خوش رنگ پر۔

    میں اپنے اور اپنی بہن کے گزر بسر کی خاطر اس قصبے میں چشمے کی دوکان کرتاتھا۔ دوکان کے بالائی حصے میں ہماری رہائش تھی۔ مجھے اور میری بہن کو نیچے سے اوپر پہنچنے میں بڑی دشواری پیش آتی تھی۔ کیونکہ جب تک ہم جائنٹ بوٹ GIANT BOOT نہیں پہن لیتے تھے، تب تک چل پھر نہیں سکتے تھے۔ پھر جائنٹ بوٹوں کو پہن کر سیڑھیوں کی پیمائش؟ یقینا سہل نہ تھا۔ سیڑھیاں چڑھتے ہوئے کھٹ کھٹ کھٹ کھٹ کی بے ہنگم سی آواز پیدا ہوتی اور یہ آواز اندھیرے میں بستی والوں کو بڑی پراسرار معلوم ہوتی تھی۔

    دوکان کے مقابل، لیکن قدرے فاصلے پر لکڑی کی بنی ہوئی ایک خوش نما عمارت تھی۔ ایسی عمارت کہ جس کا نمونہ ہر بچے کو اس کے بزرگ اس کے بچپن میں، تحفے میں دیتے ہیں۔ اور ہر بچہ اپنے بچپن سے بڑھاپے تک اس عمارت کی تشکیل اور تعمیر اپنے ذہن میں کرتا رہتا ہے۔ ٹھیک ایسی ہی عمارت تھی وہ!

    اس عمارت کی ایک اور خصوصیت تھی، اور وہ یہ کہ اس کے دروازوں، کھڑکیوں، قوسوں، محرابوں اور حاشیوں پر رنگ برنگے کانچ نصب تھے۔ ن گنت رنگین کانچ! سورج کی کرنیں جب ان کانچوں پر پڑتیں تو آنکھوں کے سامنے دھنک سی کھل اٹھتی، سارا عالم گلزار ہوجاتا۔ یہی کیفیت چاندنی رات میں ہوا کرتی تھی۔ دیکھنے والا اس عمارت کو ایک رنگین خواب تعبیر کرتا۔ ایسا خواب کہ جس کا ہر منظر باغ و بہار تھا۔

    عمارت کاحدود و اربعہ کافی وسیع تھا۔ اس میں کئی دیوان خانے ہوں گے، کئی زنان خانے، متعدد دالان اور متعدد خواب گاہیں، غلام گردشیں بھی کئی ہوں گی اور برآمدے بھی کئی ہوں گے۔ ملازمین کی تعداد بھی خاصی ہوگی۔ ان تمام ملازمین کا تقرر کسی بڑے شہر میں ہوا کرتا ہوگا اور وہ کسی خفیہ ذریعہ سے اس عمارت میں پہنچائے جاتے ہوں گے اور اسی خفیہ ذریعہ سے واپس لے جائے جاتے ہوں گے۔ کیونکہ یہ بھی تعجب خیز امر تھا کہ ان میں سے کوئی بھولا بھٹکا ملازم ہم سے آکر بھی نہیں ملا تھا۔

    سال میں دو ایک مرتبہ کوئی خاتون اس عمارت میں آکر ٹھہرا کرتی تھی۔ اس کے آتے ہی قصبے میں پرخوف خاموشی چھاجاتی تھی۔ ایسی خاموشی کہ مجھے عینکوں کے کانچ گھسنے کی مشین چلانے میں ڈر سا محسوس ہوتا تھا۔ اسی ڈر سے ان دنوں ہم اپنے جائنٹ بوٹوں پر ٹاٹ کا موٹا غلاف چڑھا لیتے تھے تاکہ سیڑھیاں چڑھتے اور اترنے میں کھٹ، کھٹ کھٹ کی وہ ناگوار آواز نہ ہو۔ یہ اور بات ہے کہ اس صورت میں ہم دونوں بھائی بہن کاچلنا پھرنا دوبھر ہوجاتا تھا۔

    یوں تو ہفتے میں دو ایک بار آصف مرچنٹ، پوچاجی، مسز جوشی اور شاہ صاحب میری دوکان پر شام کے وقت ضرور آتے اور ڈھلتے سورج کے پس منظر میں اس خوشنما عمارت کے حسن و جمال کا لطف لیتے تھے لیکن جن دنوں وہ خاتون اس عمارت میں آکر ٹھہرتی، ان دنو ں میں میرے دوست ہر شام میرے یہاں بلاناغہ حاضری دیتے تھے۔

    میری بہن بڑی لطیف اور خوش گوار چائے بناکرانہیں پلاتی۔ میں کوئی ہلکا پھلکا کام ہاتھ میں لے لیتا اور ان کی گفتگو میں باقاعدہ شریک ہوتا تھا۔ مرچنٹ، پوچاجی، مسز جوشی اور شاہ صاحب کی تمنا ہوتی کہ کسی صورت اس خاتون کے درشن کرلیں۔ لیکن یہ ممکن ہی نہ تھا۔ اس کی بہیتری وجہیں تھیں،

    اول، میری دوکان اور اس عمارت کے درمیان میں ڈیڑھ دوفرلانگ کا فاصلہ تھا۔

    دوم، عمارت کے باہر بھاری پہرہ تھا۔

    سوم، داخلے کا پروانہ ہم میں سے کسی کے پاس نہ تھا۔ اگر ہوتابھی تو ہم عمارت میں داخل نہ ہوسکتے تھے۔ کیونکہ اس عمارت کے ضابطے، اس کی ترتیب، اس کی آراستگی اور اس کی چوکسی اس خاتون کی موجودگی میں ہمیں بہت زیادہ خوفزدہ کردیا کرتی تھی۔

    چائے کی چسکی لیتے ہوئے مرچنٹ پوچھتا، ’’تم نے اسے دیکھا؟‘‘

    ’’نہیں۔‘‘ میں جواب دیتا۔

    ’’نہیں۔‘‘ میری بہن گردن ہلاکر کہتی۔

    ’’نہیں۔‘‘ مسز جوشی کاجواب ہوتا۔

    ’’ہم میں سے کسی نے بھی نہیں۔‘‘ شاہ صاحب کہتے۔

    پوچاجی خاموش رہتے۔

    ’’کہاں سے آتی ہے؟ کہاں کو جاتی ہے؟‘‘ مرچنٹ دونوں سوال اکٹھے پوچھتا۔

    پوچاجی حسب معمول خاموش رہتے۔ پھر وہ یک لخت بول اٹھتے، ’’ایک نہ ایک دن اس کا دیدار ضرور نصیب ہوگا، ایک نہ ایک دن اس کا دیدار ضرور نصیب ہوگا۔‘‘

    ہم سبھوں کے منہ سے نکلتا، ’آمین، آمین۔‘

    اس رات میں بستر پر بیٹھا اپنے ناتواں پیرو ں کو اپنے ہاتھوں سے داب رہا تھا کہ میں نے دیکھا، چاند بہتے بہتے میری کھڑکی میں تھم سا گیا ہے اور چاندنی میں وہ عمارت اس خوش رنگ پرندے کی مانند لگ رہی ہے جو دونوں پر کھولے آسمانوں کی جانب گردن اٹھائے خدا کی حمد و ثنا کر رہاہو۔ میرا جی چاہا کہ اسے وہاں سے اٹھاکر اپنے پہلو میں لے آؤں اور اس کے ایک ایک حصہ پر ہولے ہولے اپنی انگلیاں یوں پھیروں کہ اس کا سحر انگیز حسن میرے لمس میں محفوظ ہوجائے۔

    ابھی میں اسی خیال سے لطف اندوز ہو رہا تھا کہ مجھے عمارت کے نیم روشن برآمدے میں ایک سایہ سا نظر آیا، میں نے آنکھیں ملیں اور اس نقطے پر جہاں وہ سایہ نظر آیا تھا اپنی نظر فوکس کردی۔ ان چند ثانیوں میں چاند پر سیاہ بادل کا پردہ پڑچکا تھا، جس کے نتیجے میں وہ سایہ نظر سے اوجھل تھا۔ میں نے بستر سے اٹھ کر صندوق میں سے دوربین نکالی اور دوربین کی مدد سے اس سایہ کو، اس نیم روشن برآمدے میں تلاش کرنے لگا۔ بادل ہٹ چکا تھا۔ چاندنی حسب سابق عمارت پر پڑ رہی تھی۔ میں نے دیکھا کہ ایک وجیہ اور پروقار عورت برآمدے میں ٹہل رہی ہے، اس کی زلفیں شانوں پر بکھری ہوئی ہیں، اور وہ کسی دکھی سوچ میں ڈوبی ہوئی ہے۔

    اگلے روز میں نے رات کی ساری تفصیل اپنے ساتھیوں سے بیان کردی۔ انہوں نے پوری توجہ اور استعجاب کے ساتھ میری باتیں سنیں اور شام کے بجائے رات کو میرے گھر آنے کا پروگرام بنایا۔ جب پوچاجی کے کانوں کے قریب منہ لے جاکر مرچنٹ نے انہیں ساری روداد سنائی تو انہوں نے کہا،

    ’’آج صبح سیر کرتے کرتے اپنے معمول کے مطابق جب میں وینس پوائنٹ پہنچا تو میرے کانوں میں کوئی غیرمانوس آواز ایسی پڑی کہ گویا ٹڈے پھدک رہے ہوں۔ میں نے اِدھر اُدھر نظر دوڑائی تو کیا دیکھتا ہوں کہ ایک عورت رائڈینگ سوٹ پہنے امیرانہ شان سے شہسواری کرتی چلی جارہی ہے، اور اس سے کچھ فاصلے پر آٹھ دس گھڑسوار اس کے پیچھے پیچھے چلے جارہے ہیں۔‘‘

    ہم نے سوچا کہ وہ گھڑسوار عورت یقینا وہ خاتون ہوگی کہ جس کے دیدار کو ہم ترس رہے ہیں۔

    میری بہن نے پوچھا، ’’اس کا رخ کس طرف کو تھا؟‘‘

    پوچاجی بولے، ’’خاموش وادی کی طرف۔‘‘

    اگلے روز علی الصبح ہم سب سردی سے ٹھٹھرتے خاموش وادی میں پہنچ گئے۔ پوپھٹ چکی تھی۔ آسمان کی سیاہی میں سرخی تیزی سی سرایت کرتی جارہی تھی۔ فضا میں شورہ آمیز بو بسی ہوئی تھی اور چاروں طرف ایک ناقابل فہم افسردہ خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ انتظار کرتے کرتے جب کافی وقت گزر چکا، یہاں تک کہ سورج بھی اونچا اٹھ آیا، تو ہم نے پوچاجی سے پوچھا، ’’پوچاجی، آپ کے کہنے پرہم یہاں چلے آئے، یہاں، اس ویرانے میں! وہ عورت ہمیں کہیں دکھائی نہیں دیتی؟ کہاں ہے وہ؟ اور کہاں ہیں وہ گھڑسوار؟‘‘

    پوچاجی نے خلافِ توقع دیوانوں کی طرح دونوں ہاتھ ہوا میں یوں لہرائے، گویا اپنی لاعلمی کا اظہار کر رہے ہوں۔

    جب ہم خاموش وادی سے قصبے کی جانب چلے تو راہ میں، میں نے اپنے ساتھیوں سے پوچھا، ’’آخر ہم کیوں اس کے دیدار کے متمنی ہیں؟ ہمیں کیا پڑی ہے کہ اس کی صورت دیکھنے کے لیے اتنے کشٹ اٹھائیں؟ رات کی نیند اور دن کا چین حرام کردیا ہے ہم نے اپنے آپ پر! آخر کوئی تو وجہ ہو؟‘‘

    مرچنٹ نے کہا، ’’وجہ ہے، اور بڑی معقول وجہ ہے۔ سنو، یہ ہمارے دیش کی روایت رہی ہے، صدیوں سے عوام اپنے راجا کے درشن کرتے چلے آرہے ہیں۔‘‘

    ’’آخر کیوں؟‘‘ شاہ صاحب نے پوچھا۔

    آصف مرچنٹ نے پھر جواب دیا، ’’اس لیے کہ راجا کا درشن عوام کے حق میں مبارک اور باعث برکت سمجھا جاتا ہے۔ پرانے محلوں میں ’درشن جھروکے‘ ہوا کرتے تھے۔ طلوع آفتاب کے بعد راجا اس جھروکے سے، دور اور نزدیک سے آئے ہوئے اپنے عوام کو درشن دیا کرتا تھا۔ راجا کے درشن کو لینے کے بعد عوام راجا کی جئے، جئے کرتے، خوشی خوشی اپنے کھیتوں، کارخانوں اور دھندوں پر چلے جایا کرتے تھے، ان کا اعتقاد تھا کہ راجا کے درشن سے ان کانصیبہ جاگ اٹھے گا، ان کی کٹھنائیاں دور ہوں گی اور ناسازگار حالات درست ہوجائیں گے۔‘‘

    مسز جوشی بولیں، ’’لیکن اس بات کا ہم سے کیا تعلق ہے؟‘‘

    ’’تعلق ہے، یقیناً ہے۔ ہم سب ایک انتہائی سست سی بلکہ بیمار سی زندگی گزار رہے ہیں۔ سیکڑوں دن اور سیکڑوں راتیں ہماری عمر سے کٹ چکی ہیں۔ ہمارے جیون میں نہ تو کوئی لہر اٹھتی ہے اور نہ ہی کوئی جھونکا آتا ہے۔ یہاں تک کہ رحمت بھی نہیں برستی، اور نہ کوئی زمین لالہ زار ہوتی ہے۔ ہم ایک حیرتناک مایوسی اور افسردگی کا بوجھ لیے بوڑھے جذامیوں کی طرح ایک اندھی سرنگ سے گزرے چلے جارہے ہیں۔ ایسے مایوس کن حالات میں اس خاتون کے دیدار کی تمنا نہ صرف بامقصد ہے بلکہ بامعنی بھی ہے۔ ممکن ہے اس کا دیدار ہمارے لیے مبارک ثابت ہو اور ہماری کایا پلٹ جائے۔‘‘ یہ کہہ کر آصف مرچنٹ خاموش ہوگیا۔

    مجھے پل بھر کے لیے اپنے جوتے بے حدوزنی اور اپنا وجود من من بھر بھاری محسوس ہونے لگا۔

    ہم اپنے اپنے گھروں کو لوٹ گئے۔ وہ ہمارے لیے بدستور ایک معمہ بنی ہوئی تھی۔ ہم اس کے متعلق کچھ بھی نہیں جانتے تھے۔ وہ کہاں سے آتی تھی؟ وہ کہاں کو جاتی تھی؟ اس عمارت میں کیوں ٹھہرا کرتی تھی؟ یہ عمارت بذات خود بھول بھلیاں تھی۔ گویا یہ ایک کھوج ہو، کوئی گورکھ دھندا ہو، جس کا سرا کسی منتر کے اندر پوشیدہ ہو۔ عمارت کا تحفظ، اس کے حسن کا تحفظ، ایک چکرا دینے والی پہیلی تھی۔ اس کے کئی پہلو مخفی ہوتے ہوئے بھی نمایا ں تھے، ظاہر ہوتے بھی پوشیدہ تھے۔ وہ ہمارے لیے ایک مسئلہ بنی ہوئی تھی جسے حل کرنے میں ہم کوشاں تھے۔

    اس شام آصف مرچنٹ، مسز جوشی، پوچا جی اور شاہ صاحب حسب معمول دوکان پر موجود تھے اور ہم سب مل کر ایک حیرت ناک منظر دیکھ رہے تھے۔ وہ منظر یہ تھا کہ ایڈورڈ جونس کا بینڈ اس عمارت کے سامنے پرسوز دھنیں بکھیر رہا تھا، او ریہ دھنیں رفتہ رفتہ ہمیں سوگوار کرتی چلی جارہی تھیں۔

    اس رات ہم سب ایڈورڈ جونس کے گھر پہنچے۔ ایڈورڈ جونس اس قصبے میں برسہا برس سے رہ رہا تھا۔ اس کا پیتل کے باجے بجانے والوں کا طائفہ تھا۔ وہ اپنی روزی روٹی اسی پیشے سے کماتا تھا۔ یوں بھی وہ بڑا خدا ترس اور نیک دل انسان تھا۔ اپنے مذہب کی تبلیغ اس کا نصب العین اور مشغلہ تھا۔ اس کی تبلیغ کا ڈھنگ نرالا تھا۔ وہ چھوٹے چھوٹے گاؤں میں پھیری کرتا اور مقامی زبانوں میں چھپی ہوئی مقدس انجیل اور دیگر مذہبی کتابیں لوگوں کو بیچتا یا بانٹ کر دیا کرتا تھا۔ مشنریوں میں وہ EDWARD JONES THE GREAT COLPORTEUR کے نام سے مشہور تھا۔

    ابھی رات کے نو ہی بجے تھے لیکن ایڈورڈ جونس اپنی سحر خیزی کی عادت کی وجہ سے سوچکا تھا۔ ہمارے دروازہ کھٹکھٹانے پر وہ جاگا۔ لالٹین جلائی اور پھر اس نے دروازہ کھول دیا۔ جب ہم سب اس کے قدرے کشادہ مکان میں اطمینان سے بیٹھ گئے تو میں نے گفتگو کا آغاز کیا، ’’ایڈورڈ جونس اس وقت آنے پر ہم شرمندہ ہیں اور تمہیں زحمت دینے پر نادم ہیں، لیکن ہماری مجبوری اس سے سوا ہے۔‘‘

    جونس کے چہرے پر کوئی ناخوشگوار تاثر پہلے بھی نہ تھا لیکن میری بات سن کر وہ زیرلب مسکرایا اور بولا، ’’ایسی کوئی بات نہیں۔ مجھے کسی قسم کی زحمت نہیں ہوئی۔ آپ ناحق پریشان نہ ہوں۔ وہ بات بلاتکلف بتائیں جس کے لیے آپ تشریف لائے ہیں۔‘‘

    ’’جونس، ہم جاننا چاہتے ہیں کہ آج اس عمارت کے سامنے تم نے بینڈ کیوں بجایا؟‘‘

    ایڈورڈجونس بولا، ’’اس عمارت سے مجھے ایک دستی خط ملا، اس میں لکھا تھا کہ آج شام میں وہاں پہنچوں اور آدھے گھنٹے تک پلینٹ کمپوزیشنPLAINT COMPOSITIONبجاؤں۔ مجھے اس خط میں یہ ہدایت بھی دی گئی تھی کہ میں اس چٹھی رساں کو اپنی فیس سے آگاہ کردوں تاکہ وہ فیس شام میں مجھے ادا کی جاسکے۔‘‘

    ’’تم نے کتنی بتائی؟‘‘ شاہ صاحب نے پوچھا۔

    ’’میں نے اس سے کہا کہ فیس کی کوئی اہمیت نہیں ہے میرے نزدیک۔ جو سمجھ میں آئے دیدیں۔ میں خوشی سے قبول کرلوں گا۔ وہاں پہنچا تو عمارت کے سامنے ٹیبل کرسیاں بچھی ہوئیں تھیں اور مرکزی ٹیبل پر یہ لفافہ رکھا ہوا تھا۔ جونس نے کتابوں کے شیلف پر رکھا ہوا لفافہ اٹھایا اور ہماری طرف بڑھادیا۔ ہم سبھوں نے اس لفافے کو خوب اچھی طرح الٹ پلٹ کر دیکھا۔ وہ دبیز کاغذ کا بنا ہوا سفید رنگ کا لفافہ تھا جو شہر کی کسی بھی اسٹیشنری کی دوکان سے دستیاب ہوسکتا تھا۔ لفافے کے اندر سو سو روپے کے دو کرارے نوٹ رکھے ہوئے تھے۔

    ’’صرف دو سو؟‘‘ پوچاجی نے حیرت سے یوں پوچھا۔ گویا یہ رقم اس عمارت میں رہنے والوں کی جانب سے ادائیگی کے شایانِ شان نہ تھی۔

    ’’نہیں، انہوں نے ایک ہزار کی رقم دی تھی، میں نے دو دو سورپے کی رقم اپنے چار ساتھیوں میں تقسیم کردی۔‘‘

    میری بہن نے پوچھا، ’’جونس ہمیں بتاؤ کہ تم نے کس طرز کی دھنیں وہاں بجائیں؟ ظاہر ہے ان کا تاثر بڑا سوگوار تھا۔‘‘

    جونس نے میری بہن کے ناتواں پیروں پر نظر ڈالی اور بولا، ’’جی ہاں! وہ ماتمی دھنیں تھیں‘‘ PLAINT COMPOSITIONS

    ’’جونس ہمیں بتاؤ کہ ایسی دھنیں تم کس موقع پر بجاتے ہو؟‘‘

    ’’جب کسی کو ضرر پہنچے، کسی کا کچھ کھوجائے، کچھ ضائع ہوجائے۔‘‘

    ’’ضرر پہنچنے، ضائع ہوجانے اور کھوجانے سے ہم کیا مراد لیں؟‘‘ پوچاجی جو کان سے ہاتھ لگائے ہماری باتیں سن رہے تھے بولے۔

    ایڈورڈجونس نے مضطرب ہوکر کہا، ’’میرا مطلب ہے کہ موت۔‘‘

    مسز جوشی نے کہا، ’’جیسے میرے پتی کی موت، مسٹر جوشی کی؟‘‘

    ’’جی، درست ہے، بالکل درست۔‘‘

    ’’ایڈورڈجونس میرے پتی کی موت پر تم نے ماتمی دھنیں کیوں نہیں بجائیں؟ کیا تمہارے نزدیک یہ کوئی لاس LOSS نہیں تھا؟‘‘

    میری بہن نے اپنی ساری کا سرا اپنے ٹخنوں تک اٹھایا اور بولی، ’’ایڈورڈجونس یہ میرے پیر ہیں، اور یہ میرے بھائی کے۔‘‘ اس نے میری پتلون کا نچلا سرا میرے ٹخنوں تک اٹھایا اور بولی، ’’ہم گوشت پوست کے بنے ہوئے تھے، ہماری قسمت نے ہم سے مذاق کیا۔ اس نے ہم سے گوشت پوست کے پیر چھین لیے اور ہمیں ساگوان کی لکڑی اور بھینس کے چمڑے کے بنے ہوئے پیر عطا کیے۔ کیا یہ ہمارا نقصان نہیں؟ ایڈورڈجونس تم نے اس سلسلے میں کوئی ماتمی دھن کیوں نہیں بجائی؟‘‘

    آصف مرچنٹ نے کہا، ’’میری ماں کے سینے میں پھیپھڑے نہیں رہے ہیں جونس! اگر پھیپھڑے ہوتے تو ہوا پھینکتے۔ اب تو ان کی ذرا سی جنبش سے میری ماں کے منہ سے خون رسنے لگتا ہے۔ ایڈورڈجونس! کیا تمہارے نزدیک یہ قابل افسوس بات نہیں؟ اگر ہے تو پھر تم نے کیوں ہمیں اور ہمارے نقصان کو نظرانداز کیا؟ کبھی بھولے بھٹکے بھی نہیں آئے۔ ہمارے درمیان بھی نہیں بیٹھے۔ ہمار احال تک نہیں پوچھا۔ ہمارا درد بھی نہیں بانٹا۔ تم پر ہمارا بہت بڑا قرض ہے ایڈورڈجونس۔‘‘

    پھر ہم وہاں سے چل دیے۔ کہیں دور، کسی ویرانے میں کوئی بڑھیا دھاڑیں مار مار کر رو رہی تھی اور اس کے رونے کی آواز ہمارے پیچھے پیچھے چلی آرہی تھی۔

    اگلے روز ایک اجنبی میرے یہاں پہنچا، اس کے ہاتھ میں ٹھیک اسی نمونے کا لفافہ تھا کہ جس نمونے کالفافہ ہم نے ایڈورڈ جونس کے یہاں کل رات کو دیکھا تھا۔ وہ لفافہ اس شخص نے میری طرف بڑھادیا۔ لفافہ پر نام لکھا ہوا دیکھ کر ایک ٹھنڈی سی لہر دوڑ گئی میرے جسم میں! لرزتے ہاتھوں سے میں نے لفافہ چاک کیا۔ اس میں ایک ٹائپ شدہ رقعہ تھا جس میں لکھا تھا،

    ’’چونکہ اس قصبے میں کوئی ماہر چشم نہیں ہے اور ہمیں ایک کیس کے سلسلے میں فوری طور پر مشورہ کرنا ہے اس لیے براہِ کرم پہلی فرصت میں تشریف لائیں۔‘‘

    جی میں آیا کہہ دوں کہ مجھے فرصت نہیں۔ میں آنکھ کا معالج نہیں ہوں بلکہ چشمہ ساز ہوں۔ شہر پچاس کوس کے فاصلے پر ہے، گاڑی بھیج کر کسی ماہر چشم کو بلالیں۔

    لیکن چشمہ سازی کا فن سیکھتے سیکھتے میں آنکھوں کی اندرونی اور بیرونی ساخت، ان کے امراض اور ان کے علاج، ان کے نقص اور ان کو دور کرنے کے طریقے، آنکھوں کو لاحق خطرے اور ان خطروں سے بچنے کی تدبیریں، بڑھتی ہوئی عمر کے ساتھ ساتھ آنکھوں میں پیدا ہونے والی کمزوریاں اور ان کے دفاعی اقدام سے میں واقف تھا۔ میں بغیر کسی آلے کی مدد کے بتاسکتا تھا کہ موتیا کب پکے گا؟ آدمی شارٹ سائیٹڈ ہے یا لانگ سائیٹڈ؟ آشوب چشم کے سلسلے میں کونسا نسخہ مجرب ہے۔ کونٹکٹ لینس CONTACT LENS آنکھوں کی بصارت کو تیز کرنے میں کتنے معاون ہیں اور پولورایڈلینس POLAROID LENS کس اصول پر کام کرتے ہیں۔

    قطع نظر ان باتوں کے، عمارت کے اندر کاحال جاننے کا اشتیاق میرے دوسرے خیالوں پر حاوی رہا۔ میں نے ایک گھنٹے کا وقت طلب کیا اور درخواست بھجوائی کہ میرے ساتھ میرے رفقا بھی ہوں گے۔ ان کی موجودگی پر براہِ مہربانی اعتراض نہ کیا جائے۔ میری بہن نے مسز جوشی، پوچا جی، مرچنٹ اور شاہ صاحب کے گھر جاکر میرا پیغام پہنچایا کہ عمارت میں داخلے کی سبیل نکل آئی ہے۔ وہ سب دوکان پر فوراً پہنچیں۔

    آدھے گھنٹے کے اندر اندر وہ سب عمدہ لباس پہن کر دوکان پر آپہنچے۔ ان کے چہروں پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں۔ جانچ کے آلے بٹورتے ہوئے نہ جانے کیوں میرے بھی ہاتھ کانپ رہے تھے۔ میں نے ڈوبی ہوئی آواز میں کہا، ’’چلیے۔‘‘ نڈھال قدموں سے وہ میرے ساتھ عمارت کی جانب روانہ ہوئے۔ اس عمارت کے پہرے پر تعینات افسر گویا ہماری آمد سے باخبر تھا۔ ضابطے کی کارروائی پوری کرنے کی خاطر اس نے وہ رقعہ ہم سے لے لیا، رجسٹر پر ہمارے ناموں کا اندراج کیا، اس کے بعد اس نے فرداً فرداً ہمارے دستخط لیے اور داخلے کے لیے دروازہ کھول دیا۔

    عمارت کے سامنے لان تھا، جس کے حاشیہ پر پختہ راستہ بنا ہوا تھا۔ ہم اس راستے سے گزرتے ہوئے عمارت کے برآمدے میں پہنچ گئے۔ برآمدے کو عبور کیااور پھر ایک نہایت آراستہ، پیراستہ دالان میں داخل ہوگئے۔ دالان کی دیواروں پر، راجوں مہاراجوں سے مشابہ دیوار گیر، پورٹریٹ PORTRAIT گلے ہوئے تھے۔ ان کے چہروں سے رجواڑی رعب داب عیاں تھا۔ اس دالان سے گزر کر ہم دوسرے دالان میں پہنچے۔ وہاں بھی کوئی موجود نہ تھا۔ البتہ اس کی دیواروں پر جانوروں کے سر نصب تھے اور ان کے دوسرے سرے پر واقع محراب دار دروازے کے دائیں اور بائیں جانب دو تصویریں آویزاں تھیں۔

    ایک تصویر اس پیکر سے مشابہت رکھتی تھی جسے میں نے اس رات دوربین کی مدد سے اس عمارت کے برآمدے میں ٹہلتے ہوئے دیکھا تھا۔

    دوسری تصویر پوچاجی کے بیان کیے ہوئے واقعہ سے ملتی جلتی تھی۔ خاموش وادی کو جاتی ہوئی گھڑسوار عورت۔ قدرے فاصلے پر اس کے پیچھے پیچھے جاتے ہوئے گھڑسوار۔ تصویروں کو دیکھتے ہی ہمارے دل دہشت سے لرز اٹھے۔ اس طویل و عریض کمرے کی ہر ہر چیز پراسرار معلوم ہونے لگی۔

    ہم اس کمرے سے نکل کر ایک دوسرے کمرے میں داخل ہوئے۔ اس کے وسط میں ایک نوجوان بیٹھا اخبار دیکھ رہا تھا، اس کے لبوں میں حقہ کی سنہری نے دبی ہوئی تھی۔ اس کے نتھنوں سے نکلتی ہوئی دھوئیں کی پتلی سی لکیر فصا میں کنڈل بنارہی تھی۔ ہمیں دیکھتے ہی وہ اٹھ کھڑا ہوا۔ میں نے اپنا ذاتی تعارف دینے کے بعد اپنے ساتھیوں کا تعارف کرایا۔ وہ ہم سب سے خندہ پیشانی سے ملا۔ اس کا لہجہ نرم اور آواز دھیمی تھی۔ اس کی آنکھوں سے غم جھانک رہاتھا۔ میں نے کہا،

    ’’جناب عالی! نہ تو میں ماہر چشم ہوں اور نہ ہی کوئی سرجن، پھر بھی اپنے پیشے کے تیس سالہ تجربہ کی روشنی میں آنکھوں کے امراض کے سلسلے میں مشورے دے سکتا ہوں۔ ویسے آپ لانگ سائٹیڈ پرسن ہیں کسی وجہ سے آپ نے اپنے لائبریری اسپیکٹس نہیں لگائے ہیں۔ آپ کی آنکھیں دیر تک پڑھ نہیں سکتیں، وہ تھک جاتی ہیں۔‘‘

    ’’خوب! بہت خوب۔‘‘ اس نے کہا اور جیکٹ کی جیب میں سے اپنی عینک نکال کر دکھاتے ہوئے بولا، ’’آپ کا فرمانا درست ہے، ویسے میرا نمبر زیادہ نہیں ہے۔‘‘

    اس دوران میں خادم چائے کی کشتی تپائی پر رکھ گیا تھا۔ اس نے بڑے اخلاق سے میرے ساتھیوں کو چائے نوش کرنے کی درخواست کی اور مجھے اپنے ساتھ لے کر اگلے کمرے میں چلا آیا۔ اس کمرے میں ایک سات آٹھ سالہ لڑکا صوفے پر لیٹا ہوا کوئی موٹی سی کتاب پڑھ رہاتھا، جس کی آنکھوں پر چشمہ چڑھا ہوا تھا۔ ’’یہ میرا اکلوتا بیٹا ہے۔‘‘ اس نے بچے کے سر پر ہاتھ پھیر کر کہا، ’’اسے دو روز سے پڑھتے ہوئے دشواری محسوس ہو رہی ہے۔‘‘

    بچے نے مسکراکر گردن اٹھائی اور ہلکے سے مجھے ہلو کہا پھر بولا، ’’آپ پولیو کے مریض ہیں؟‘‘

    ’’جی۔ جی ہاں۔ صاحب زادے۔‘‘ میں نے پتہ نہیں کیوں اتنے احترام سے اسے جواب دیا۔

    ’’آپ کے والدین کم پڑھے لکھے تھے، پولیو ویکسین POLIO VACCINE آپ کے بھی بچپن میں مہیا تھا۔‘‘ وہ میری ناتواں ٹانگوں کا جائزہ لینے لگا۔

    ’’پتاجی، آپ انہیں اسٹیٹ کیوں نہیں بھجوادیتے، ان کی ٹانگیں وہاں درست ہوسکتی ہیں۔‘‘

    ’’بیٹے یہ ہمارا پرابلم نہیں ہے۔ ذرا اس کرسی پر بیٹھو، یہ تمہاری آنکھوں کی جانچ کرنے آئے ہیں۔‘‘

    ’’میری آنکھوں کی؟ مجھے تو کوئی پرابلم نہیں۔‘‘

    میں نے اسے تسلی دی، ’’صاحب زادے آپ بہت پڑھتے ہیں نا؟‘‘

    اس نے اس بات میں گردن ہلائی۔

    ’’زیادہ پڑھنے لکھنے والوں کو اپنی آنکھوں کی جانچ سال میں دو ایک بار کروالینی چاہیے۔ یہ آپ کا روٹین چیک اپ ROUTINE CHECK UP ہے۔‘‘ میں آلوں کی مدد سے اس کی آنکھوں کا معائنہ کرنے لگا۔ آٹھ دس منٹ میں میں معائنہ کرچکا۔ برسبیل تذکرہ پوچھ بیٹھا، ’’صاحب زادے آپ کو کون کون سے رنگ پسند ہیں؟‘‘

    ’’رنگ؟‘‘ وہ کچھ سوچتا ہوا بولا۔

    ’’ہاں رنگ، نیلے، پیلے، اودے، سرخ، سبز رنگ۔‘‘

    ’’مجھے۔۔۔ مجھے رنگوں سے کوئی دلچسپی نہیں۔‘‘

    ’’کیا فرمارہے ہیں آپ، صاحب زادے! رنگ تو کائنات میں جاری و ساری ہیں۔ سارے عالم میں بکھرے ہوئے ہیں۔ ان کے بغیر تو کسی شئے کا تصور ہی ممکن نہیں۔‘‘

    نوجوان کے چہرے پر تھوڑی سی خفگی کے آثار نمایاں ہوئے، پھر زائل ہوگئے۔ اس نے ذرا تیز لہجے مگر دھیمی آواز میں کہا، ’’آپ اپنا معائنہ مکمل کرچکے ہیں تو چلیں، آپ کے ساتھی آپ کے منتظر ہوں گے۔‘‘

    میں نے اس کے لہجے میں تبدیلی فوراً محسوس کی۔ ’’جی۔‘‘ میں نے اپنے آلے بیگ میں ڈالتے ہوئے کہا، ’’آپ کے بچے کی آنکھیں پرفیکٹ آرڈر میں ہیں۔ آپ ذرا بھی فکر نہ کریں۔ البتہ شہر جاکر کسی اچھے آپٹیشن سے ان کی نئی عینک بنوالیں۔ ان کا نمبر بدل چکا ہے۔‘‘

    جب ہم اس کمرے کو لوٹنے لگے تو میں نے اس نوجوان سے پوچھا، ’’آپ برا نہ مانیں تو ایک بات پوچھوں؟‘‘

    اس نے قدرے توقف کے بعد کہا، ’’فرمائیے۔‘‘

    ’’کیا آپ کو بھی رنگوں سے کوئی دلچسپی نہیں؟‘‘

    ’’میں آپ کا مطلب نہیں سمجھا؟‘‘ اس نے متردد ہوکر پوچھا۔

    ’’میرا مطلب ہے کہ آپ کی سوچ و فکر پر، آپ کے طرز زندگی پر، آپ کے لائحہ عمل پر، آپ کے نصب العین پر رنگوں کا کوئی عمل دخل ہے بھی یا نہیں؟‘‘

    اس نے اپنی چال روک دی، کچھ دیر تک سوچتا رہا پھر بولا، ’’پتہ نہیں آپ رنگوں کو اتنی اہمیت کیوں دے رہے ہیں؟ آخر رنگوں کی حقیقت ہی کیا ہے؟ یہ ایک خاص احساس ہے جو اتنشار شعاع سے آنکھ کی پتلی پر پیدا ہوتا ہے۔ پانی کے ایک قطرے سے سورج کی شعاع گزرتی ہے اور دھنک کی شکل میں سات رنگ بکھیر دیتی ہے۔ سرخ، نیلا اور زرد بنیادی اور اصلی رنگ ہیں۔ باقی کے تمام رنگ انہی تین رنگوں کو مختلف مقدار میں ملانے سے پیدا ہوتے ہیں۔ بتائیے اب رنگوں کی کیا اہمیت رہ گئی ہے آپ کے نزدیک؟‘‘

    میں نے اس کی معلومات پر حیرت کا اظہار کیا اور بولا، ’’جناب عالی! میں آپ کی بات کی تردید کرنے کی جرأت نہیں کرسکتا۔ لیکن آخری سوال پوچھنے کی اجازت چاہتا ہوں۔‘‘

    اس نے اکتاہٹ اور بیزارگی سے کہا، ’’فرمائیے۔‘‘

    ’’یہ بتانے کی زحمت کریں کہ جب آپ کو رنگوں سے قطعی دلچسپی نہیں ہے تو رنگوں کے سلسلے میں اتنی معلومات کیوں کر حاصل کر رکھی ہیں آپ نے؟‘‘

    اس نے ذرا جھجک کر اور سوچ کر جواب دیا، ’’یہ مکتبی باتیں ہیں مطالعہ کا شوق مجھے بھی ہے۔‘‘

    ’’جناب عالی! ایک آخری سوال۔‘‘

    ’’آپ نے تنگ کردیا مجھے۔‘‘ اس نے درشت لہجے میں کہا۔

    ’’یہ میرے پیشے سے متعلق سوال ہے، ممکن ہے، آپ کا جواب میری ذہنی گتھی کو سلجھانے میں مدد گار ثابت ہو۔‘‘ پھر اس کے جواب کا انتظار کیے بغیر میں نے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر پوچھا، ’’کیا آپ سرخ اور سبز رنگوں میں تمیز کرسکتے ہیں؟‘‘

    یہ سنتے ہی اس کا رنگ اترگیا۔ اس نے نظریں جھکالیں اور اندر کے کمرے میں چلا گیا۔

    اس کمرے سے نکل کر ہم اس دالان میں آگئے جس کی دیوار پر اس خاتون کی وہ تصویریں آویزاں تھیں۔ میری نظریں اچانک پورٹریٹ پر جاپڑیں جیسے کسی مقناطیسی قوت نے انہیں اپنی جانب کھینچ لیا ہو۔ میرے اندر بیٹھے ہوئے اس تجربہ کار چشم شناس نے مجھے اطلاع دی کہ یہ خاتون بھی اس مرض میں مبتلا تھی کہ جس مرض میں وہ نوجوان مبتلا ہے اور جس مرض میں اس نوجوان کا بیٹا۔ کیا مرض موروثی تھا؟

    عمارت سے نکلنے سے قبل اس افسر نے ایک لفافہ میرے ہاتھوں میں تھمادیا۔ لفافے میں سو سو کے بیس نوٹ رکھے ہوئے تھے اور ایک ٹائپ شدہ عبارت اس سے منسلک تھی،

    ’’معالج اپنے مریض کا سب سے بڑا رازداں ہوتا ہے۔‘‘

    ’’میں نے دوکان پر پہنچ کر اپنے ساتھیوں سے مشورہ طلب کیا کہ آیا مجھے یہ رقم قبول کرنی چاہیے یا نہیں؟‘‘

    ’’کیوں نہیں قبول کرنی چا ہیے۔ یہ تمہاری فیس ہے۔‘‘

    ’’میری فیس؟‘‘

    ’’ہاں تمہاری۔‘‘

    ’’مگر یہ کس کام کی؟ میں نے کیا کیا؟‘‘

    ’’تم نے۔۔۔ تم نے۔۔۔ ہاں تم نے ہمیں بتایا ہی نہیں کہ تم نے اندر کس کی جانچ کی، کس کی آنکھوں کا معائنہ کیا؟‘‘

    مجھے اس ٹائپ شدہ عبارت کا خیال آیا، ’’معالج اپنے مریض کا سب سے بڑا رازداں ہوتا ہے۔‘‘ میں نے اپنے ساتھیوں سے سرمیں گرانی کا بہانہ کرکے معذرت طلب کی، پھر ان کے جانے کے بعد دوکان بند کرکے اوپر کی منزل پر چلا آیا۔

    اس رات بڑی دیر تک مجھے نیند نہیں آئی۔ میں کھڑکی میں بیٹھا اپنی اور اپنی بہن کی، آصف مرچنٹ اور پوچاجی کی، مسز جوشی اور شاہ صاحب کی زندگی کے بارے میں دیر تک غور کرتا رہا۔ ہماری زندگی میں کوئی قدر مشترک نہ تھی سوائے رنگوں کے، ہم رنگ دیکھ کر خوش ہوجانے والے لوگ تھے۔

    چاند گھٹ گیا تھا۔ اس کی ہلکی ہلکی روشنی عمارت کی ہر کانچ میں سے دھنک کی طرح پھوٹ کر بکھر رہی تھی۔

    اگلے روز میں نے دیکھا، عمارت سے وہ ست رنگی کانچ نکالے جارہے ہیں اور ان کی جگہ دفتے کے ٹکڑے نصب کیے جارہے ہیں۔ اس شام سبھوں نے چائے پیتے ہوئے میری بہن سے شکایت کی کہ اس نے آج تک اتنی بدمزہ چائے انہیں کبھی نہیں پلائی تھی۔

    پوچاجی بار بار ناک سڑک رہے تھے اور دائیں بائیں گردن ہلائے جاتے تھے۔

    مسز جوشی اور آصف مرچنٹ، شاہ صاحب اور میری بہن کسی اور مقام پر منتقل ہوجانے کی بات کر رہے تھے۔ جہاں زندگی تیز رفتار نہ ہو، جہاں فضا بوجھل نہ ہو، جہاں لکڑی کی کوئی عمارت کہ جس پر رنگ برنگی شیشے چڑھے ہوں۔ تاریکی میں جس پر چاند سایہ ڈالتا ہو۔

    میں ایڈورڈجونس کو وہ دوہزار روپے دے آیا تھا۔ پروگرام کے مطابق اسے مغرب کے وقت میرے یہاں پہنچنا تھا۔

    سورج رفتہ رفتہ ڈھلتے ہوئے عمارت کی پشت پر آگیا۔ اس کی کرنیں دفتوں پر پڑیں پھر لوٹ گئیں۔ سائے لمبے ہوگئے۔ تاریکی نے عمارت کو اپنی آغوش میں لے لیا۔

    ہم بغیر لالٹین جائے، اندھیرے ہی میں ایک حلقہ بناکر اپنی محفوظ کی ہوئی چیزوں کے گرد بیٹھ گئے۔ اور ایک ایک چیز کو۔۔۔ اندھوں کی طرح ٹٹولتے ہوئے، ان سے وابستہ رنگوں کو یاد کرنے لگے۔

    ہماری آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔۔۔ اور ایڈورڈجونس ماتمی دھنیں بجارہا تھا۔

    اگلے روز اس عمارت سے اکھاڑی ہوئی رنگین کانچوں کو ہم سبھوں نے ملبے میں سے چن کر اپنی بینک میں محفوظ کرلیا۔

    مأخذ:

    کلر بلائنڈ (Pg. 9)

    • مصنف: انور قمر
      • ناشر: قلم پبلی کیشنز، ممبئی
      • سن اشاعت: 1990

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے