aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

کمپوزیشن ایک

بلراج مینرا

کمپوزیشن ایک

بلراج مینرا

MORE BYبلراج مینرا

    کہانی کی کہانی

    ایک شخص اس کشمکش میں ہے کہ سورج سے اس کا ایسا کیا سمبندھ ہے جو سورج اس کی آنکھ کھلنے کے ساتھ طلوع ہوتا ہے، سارا دن سایہ کی طرح ساتھ رہتا ہے، مختلف طرح کے خیالات اس کے ذہن میں آتے ہیں لیکن کوئی اطمینان بخش جواب اسے نہیں مل پاتا، آخر میں ایک اجنبی اس کے کان میں سرگوشی کرتا ہے کہ تم سورج اور سایہ کا مرکز ہو۔ سورج اور سایہ تمہارے گرد گھومتا ہے۔

    سورج کے ساتھ تمہارا کیا سمبندھ ہے؟

    میں جاہل، بےبس، بیمار کچھ نہ کہہ پاتا۔

    ان دنوں میرے ذہن کی قیدگاہ میں یہی سوال تھا۔۔۔ سورج کے ساتھ تمہارا کیا سمنبدھ ہے؟

    میرے ذہن کی قیدگاہ کی چابیاں میرے پاس نہ تھیں کہ دورازہ کھول دیتا، سوال کو بھی نجات ملتی اور مجھے بھی۔

    چابیاں کس کے پاس ہیں۔

    میں جاہل، بےبس، بیمار کس سے پوچھتا۔

    ان دنوں عجیب کیفیت تھی۔

    ادھر سورج طلوع ہوتا ادھر میری آنکھ کھلتی۔ ادھر سورج اپنے سفر پر روانہ ہوتا، ادھر میں اپنے سفر پر روانہ ہوتا۔ ہم منزلیں طے کرتے بڑھتے رہتے اور پھر ادھر سورج غروب ہوتا اور ادھر مجھے نیند آ جاتی۔

    یہ سب کیسے ہوا؟

    یہ مجھے معلوم نہیں۔۔۔ میں نے کبھی سورج کو آنکھ بھر کر نہیں دیکھا تھا۔ پہلی بار جب سورج کے غرو ب ہوتے ہی مجھے نیند آئی، میں سورج کی جانب رخ کئے ہوئے تھا۔ ٹھنڈی ہوا دھیمے دھیمے بہہ رہی تھی اور سورج نیم کی سرسراتی پتیوں میں مسکرا رہا تھا۔

    میں آرام کرسی میں دھنسا ہوا تھا اور رت کے ہاتھوں ذبح ہورہا تھا اور ذبح ہوتے ہوئے انجانی لذتیں پارہا تھا۔۔۔ انجانی لذتیں؟ نیم کی سرسراتی پتیوں میں سورج کی مسکراہٹ، نرم، ٹھنڈی، ہموار کٹی ہوئی سبز گھاس پر نیم کی پتیوں کی پرچھائیوں کا رقص اور میری رگوں میں دوڑتا ہوا ڈپلومیٹ کے تین پیگوں کا سرور۔

    اور پھر نیم کی پتیوں میں مسکراتا ہوا سورج دھیمے دھیمے نیچے اترنے لگا۔

    میں کرسی کھینچ کر نیم کے تنے کی اوٹ میں بیٹھ گیا۔

    سبز گھاس پر پپلی دھوپ بجھی ہوئی تھی۔

    اور پھر پیلی دھوپ کی چادر دھیمے دھیمے سمٹنے لگی۔

    میرے ہاتھ پاؤں ڈھیلے پڑنے لگے، میری آنکھیں مندنے لگیں۔

    اور پھر دھوپ کی آخری کانپ سمٹ گئی اور مجھے نیند آ گئی اور پھر جب میری آنکھ کھلی، زرد، اداس سورج مشرقی افق پر مسکرا رہا تھا۔

    اس سے پہلے میں کبھی اتنی لمبی نیند نہیں سویا تھا۔

    اور پھر یوں ہوتا کہ ادھر سورج طلوع ہوتا ادھر میری آنکھ کھلتی۔ ادھر سورج اپنے سفر پر روانہ ہوتا، ادھر میں اپنے سفر پر روانہ ہوتا۔ ہم منزلیں طے کرتے بڑھتے رہتے اور پھر ادھر سورج غروب ہوتا، ادھر مجھے نیند آ جاتی۔

    پھر میرے ذہن کی قیدگاہ میں سرسراہٹ ہونے لگی۔

    میں اس سرسراہٹ سے ناآشنا تھا۔

    میں نے اس سرسراہٹ کو معنی دینے کی کوشش کی۔۔۔ میری کوششیں جاری رہیں۔

    سورج طلوع ہوتا، میری نیند کھل جاتی۔ سورج غروب ہوتا، مجھے نیند آ جاتی اور ایک جگ بیت گیا اور میں اس ناآشنا سرسراہٹ کو معنی (نہ) دے پایا۔

    سورج کے ساتھ تمہارا کیا سمبندھ ہے؟

    سرسراہٹ کی شکل ایک سوال کی شکل تھی۔۔۔ سوال کہ میرے ذہن کی قیدگاہ میں قید تھا۔

    سورج کے ساتھ تمہارا کیا سمبندھ ہے؟

    میں جاہل، بےبس بیمار کچھ کہہ نہیں پاتا۔

    میں جاہل تھا کہ سوال حل نہ کر پایا۔

    بے بس تھا کہ نہ میں سورج پر قابو پا سکا نہ اپنے آپ پر کہ ادھر سورج طلوع ہوتا، ادھر میری آنکھ کھلتی، ادھر سورج غروب ہوتا ادھر مجھے نیند آ جاتی۔

    میں بیمار تھا کہ میری رگیں سورج کی کرنوں کی محتاج ہو گئی تھیں۔

    سورج کے ساتھ جاگنا اور سورج کے ساتھ سونا آزار بن گیا کہ سورج کا اور میرا سمبندھ میری سمجھ سے بالاتر تھا اور میں سمبندھ کی نوعیت جانے بنا رہ بھی نہیں سکتا تھا کہ ہر دم میرے ذہن کی قیدگاہ میں سوال چیختا تھا، سورج کے ساتھ تمہارا کیا سمبندھ ہے؟

    اور میرے ذہن کی قیدگاہ کی چابیاں میرے پاس نہ تھیں کہ دروازہ کھول دیتا، سوال کو بھی نجات ملتی اور مجھے بھی۔

    چابیاں کس کے پاس ہیں؟

    میں جاہل، بےبس بیمار کس سے پوچھتا؟

    اور پھر یہی ہوتا کہ مشرقی افق پر سورج نمودار ہوتا، میری پلکوں پر بیداری نمودار ہوتی۔ سورج زرد اور اداس ہوتا، میں پژمردہ اور اداس ہوتا۔ سورج مجھ سے دور ہوتا اور مغرب کی جانب پھیلا ہوا میرا سایہ مجھ سے لمبا ہوتا۔ سورج سفر پر روانہ ہوتا، میرا سایہ سفر پر روانہ ہوتا۔

    سورج مشرقی افق سے دھیمے دھیمے اٹھتا، میرا سایہ دھیمے دھیمے میرے گرد گھومنا شروع کرتا۔ سورج میرے قریب آتا، میرا سایہ سکڑ جاتا۔ سورج میرے سر پر ہوتا میرا سایہ میر قدموں تلے ہوتا۔

    سورج مغربی افق کی جانب دھیمے دھیمے بڑھتا اور میرا سایہ مشرق کی جانب پھیلنے لگتا اور پھر ادھر سورج غروب ہوتا، ادھر مجھے نیند آ جاتی۔

    کیا سورج اور میرے سمبندھ کی گرہ میرا سایہ ہے؟

    میں سمبندھ کی بنیاد جاننے کا جتن کرتا۔

    کیا میرا سایہ، میرا سایہ ہے؟

    میں ثابت قدم نہ رہ پاتا۔

    کیا میرا سایہ سورج کا سایہ ہے۔

    کیا میں اور سورج جڑواں بھائی ہوں۔

    ہر بار میں جان پایا کہ میں جاہل ہوں۔

    ہربار میں جان پایا کہ میں جاہل ہوں، بے بس ہوں، بیمار ہوں، لیکن میری جہالت، بے بسی اور بیماری میری مشکلوں کا حل نہ تھی۔

    اور پھر ایک دن، کہ سورج محو سفر تھا، میں محو سفر تھا، میرے کان میں اجنبی ہوا نے چپکے سے کہا،

    میرے نادان دوست، تم سورج اور سائے کا مرکز ہو، سورج اور سایہ تمہارا گرد گھومتا ہے۔

    اور پھر یوں ہونے لگا کہ ادھر میری آنکھ کھلتی، ادھر سورج طلوع ہوتا، ادھر میں سفر پر روانہ ہوتا ادھر سورج سفر پر روانہ ہوتا۔ ہم منزلیں طے کرتے بڑھتے رہتے اور پھر ادھر مجھے نیند آتی، ادھر سورج غروب ہو جاتا۔

    مأخذ:

    سرخ و سیاہ (Pg. 19)

    • مصنف: بلراج مینرا
      • ناشر: ایجو کیشنل پبلشنگ ہاؤس، نئی دہلی
      • سن اشاعت: 2004

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے