Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

کمپوزیشن دو

بلراج مینرا

کمپوزیشن دو

بلراج مینرا

MORE BYبلراج مینرا

    کہانی کی کہانی

    اس افسانہ کا کردار موت کے فرشتے کے لیے مشکل بنا ہوا ہے، جبکہ دوسرے لوگ باآسانی اس کی گرفت میں آجاتے ہیں۔ اس شخص نے خود کو تنگ و تاریک گوشے میں محدود کر لیا ہے جہاں کی ہر چیز سیاہ ہے۔ سیاہ قلم سے سیاہ کاغذ پر وہ افسانے لکھتا رہتا ہے، ایک دن وہ افسانہ سنانے کی غرض سے باہر نکلتا ہے تو ہجوم اسے جوتے گھونسے سے مار مار کر موت کے گھاٹ اتار دیتا ہے۔

    آپ لوگ مجھے جانتے ہیں، پہچانتے نہیں۔ پہچاننے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ آپ لوگوں نے مجھے دیکھا نہیں ہے اور آپ مجھے کبھی دیکھیں گے بھی نہیں۔ اگر میں آپ کے سامنے آ جاؤں، ممکن ہے، آپ میں سے کچھ لوگ بھڑک جائیں اور مجھے ادھ موا کر دیں۔ میرا کام ہی ایسا ہے۔ آپ وزارت خارجہ میں کلرک ہیں اور آپ ٹائمز آف انڈیا کے نامہ نگار ہیں۔ آپ کبھی دل سے اور کبھی بد دلی سے کام کرتے ہیں۔ آپ ہی کے کچھ بھائی قبریں کھودتے ہیں، کچھ مردے جلاتے ہیں، کچھ پھانسی دیتے ہیں۔ قبریں کھودنا، مردے جلانا اور پھانسی دینا کام ہیں اور یہ کام کسی نہ کسی کو کرنا ہیں، یہ آپ جانتے ہیں اور ان لوگوں کو منہ بنا کر یا بری نظروں سے دیکھتے ہوئے، آپ قبول کر لیتے ہیں آپ انہیں پہچانتے ہیں، وہ آپ کے سامنے آ بھی جائیں، آپ بھڑکیں گے نہیں اور انہیں ماریں گے بھی نہیں۔ ممکن ہے، آپ منہ پھیر کر راستہ بدل لیں۔

    میری جان بڑی مشکل میں ہے۔ آپ لوگ مجھے جانتے ہیں، پہچانتے نہیں۔ آپ لوگوں کو مجھ پر غصہ ہے لیکن آپ سوچتے کیوں نہیں؟ میں کیا کر سکتا ہوں؟ میرا کام ہی ایسا ہے۔ بھری برسات میں، جھلستی گرمی میں، ٹھٹھرتی سردی میں اور ہنستے کھیلتے اٹھکیلیاں کرتے موسم میں، وادیوں میں، ویرانوں، میں جنگ کے میدانوں میں، اسپتالوں میں، سونے چاندی کے گھروں میں، گھاس پھوس کی جھونپڑیوں میں، صبح و شام، ہر گھڑی، چند لمحوں کی عمر کے بچے کو، سترہ سال کی محو خواب لڑکی کو، پچیس سال کے کڑیل جوان کو، اسی سال سے بڈھے کھوسٹ کو، شرافت کے مجسمے کو، کمینگی کے پتلے کو، بھولے بھالے کو، چالاک کو، میں موت کا فرشتہ ہوں، میں ہرکسی کے پاس جاتا ہوں اور اسے لے آتا ہوں مجھے آپ جانتے ہیں، پہچانتے نہیں۔

    زندگی میں جو کام آپ کے ذمے لگا ہے، آپ اس کام میں کچھ نہ کچھ لذت تو ضرور پاتے ہوں گے! جو کام میرے ذمے ہے، اب کہ آپ سے پہلی بار اور شاید آخری بار، بات کرنے کا موقع ملا ہے، کہہ دوں، جو کام میرے ذمے ہے، اس میں بے پناہ لذت ہے۔ اب یہی دیکھیے نا، اس لذت کا بھلا کوئی انت ہے کہ ناز ی ڈکٹیٹر ہٹلر ہو یا ہندوستانی جمہوریت پسند نہرو، فلم اسٹار جیمز ڈین ہو یا کالو بھنگی۔۔۔ سب میرے ساتھ چپ چاپ چل پڑتے ہیں۔

    آج پہلی بار میں آپ لوگوں سے بات کر رہا ہوں۔ کیو ں؟ آپ میری بات توجہ سے سن رہے ہیں۔ آپ بات توجہ سے سننے پر مجبور ہیں۔ کیوں؟ آپ خوفزدہ ہیں۔ آپ کا خوف بےمعنی ہے۔ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ جتنے لوگ یہاں بیٹھے ہیں، ان میں کسی کی موت ابھی قریب نہیں ہے۔ آپ نے ان گنت لوگوں کی بری بھلی تقریریں سنی ہیں، کبھی آپ نے جی سے تقریریں سنی ہیں اور کبھی مجبوراً۔ میں سب جانتا ہوں۔ میں کوئی تقریر نہیں جھاڑنا چاہتا۔ میں آپ سے بات کرنا چاہتا ہوں۔ میری جان مشکل میں ہے۔۔۔

    آپ لوگوں کا المیہ یہ ہے کہ پیدا ہوتے ہی آپ کی زبان پر درازی عمر کا کلمہ ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب آپ کا کوئی دوست، عزیز یا رشتہ دار اٹھ جاتا ہے، آپ لوگ رونے پیٹنے، غم منانے کا اتنا بڑا آڈمبر رچاتے ہیں کہ تعجب ہوتا ہے۔ ایک آدمی عمر بھر بوجھ اٹھاتا ہے اور پھر ایک سرد رات اکڑ جاتا ہے اور ایک آدمی سترہ سال راج سنگھاسن پر بیٹھتا ہے اور پھر ایک گرم دن لڑھک جاتا ہے۔ ٹھیک ہے، دونوں نے اپنا اپنا کام کیا اور چل دیے۔ اس میں رونے پیٹنے یا جلسے جلوس نکالنے کی کیا بات ہوئی؟ کسی بھی آدمی کی پہچان، اس کا مرنا نہیں، اس کا جینا ہوتی ہے۔ اور یہ کہ آپ لوگوں کو جینے کی کوئی خواہش نہیں ہوتی، مرنے کا غم ہوتا ہے، میرا کام آسان ہو جاتا ہے۔ میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ میں اپنے کام پر شرمسار نہیں ہوتا۔

    میری جان مشکل میں ہے۔ بات یہ ہے، آپ لوگ اکثر موت کی آہٹ، موت کے قدموں کی چاپ کی بات کرتے ہیں۔ کیا آپ کو میرے قدموں کی چاپ سنائی دیتی ہے؟ یہ آپ کا واہمہ ہے۔ یہ تو صحیح ہے کہ میں دن رات آپ لوگوں کے درمیان گھومتا پھرتا ہوں، آپ کی آنکھ لگی ہو یا کھلی ہو، میں آپ کے پاس بیٹھا رہتا ہوں، بعض اوقات آپ کو چھو کر گزر جاتا ہوں۔ نہ تو آپ میرے قدموں کی چاپ سن پاتے ہیں، نہ میرے سانس محسوس کر پاتے ہیں۔ لیکن آپ میری موجودگی سے خائف رہتے ہیں، کیوں؟

    میری جان مشکل میں ہے۔ بات یہ۔۔۔ بات یہ ہے کہ اپنی بات کہنے کے لئے کتنا بڑا آڈمبر رچانا پڑتا ہے۔ اب یہی دیکھئے ناکہ مجھے اپنی بات کہنے کے لئے کتنا بڑا آڈمبر رچانا پڑا ہے! بات یہ ہے کہ آپ نے زندگی میں کتنی سیاہی دیکھی ہے؟ میرا کام سیاہ ہے۔ بات یہ ہے ایک آدمی میری مشکل بن گیا ہے۔

    اس آدمی کی کل کائنات ایک کمرہ ہے۔۔۔ ایک کمرہ، کمرہ کیا ہے، اب کیا کہوں؟

    ایک کمرہ ہے جس کی دیواریں سیاہ ہیں، چھت سیاہ ہے، ایک کھڑکی ہے اور ایک دروازہ۔ کھڑکی اور دروازہ۔۔۔ دونوں کی چوکھٹیں سیاہ ہیں، پٹ بھی سیا ہ ہیں اور ان کے شیشے بھی سیاہ ہیں۔

    کھڑکی اور دروازے پر موٹے، کھردرے کپڑے کے پردے ٹنگے ہوئے ہیں جو سیاہ ہیں۔ کمرے کے ایک کونے میں دیوار کے ساتھ میز رکھا ہوا ہے۔ میز سیاہ ہے، میز پوش پر کڑھے ہوئے پھول بھی سیاہ ہیں۔ چند کتابیں میز پر اوپر تلے اوندھی سیدھی پڑی ہوئی ہیں۔ کتابو ں کی جلدیں سیاہ ہیں، اوراق سیاہ ہیں، اور اوراق پر پھیلی ہوئی عبارت سیاہ ہے۔ میز پر چند کورے کاغذ بھی پڑے ہوئے ہیں۔ کاغذ سیاہ ہیں۔ قریب رکھا ہوا قلم سیاہ ہے اور قلم میں روشنائی سیاہ ہے۔ میز کے قریب ایک کرسی پڑی ہے۔ کرسی سیاہ ہے، کرسی کا بید سیاہ ہے اور کسی کی پشت پر چڑھا ہوا غلاف بھی سیاہ ہے اور غلاف پر کڑھے ہوئے پھول بھی سیاہ ہیں۔۔۔

    دیواروں پر تصویر یں آویزاں ہیں۔ تصویر وں کی موٹی اور چوڑی چوکھٹیں سیاہ ہیں۔

    تصویریں سیاہ ہیں۔ چھت کے عین بیچ میں سیاہ کنڈا ہے جس کے ساتھ بجلی کی سیاہ تار بندھی ہوئی ہے۔ فرش کی طرف لٹکتی ہوئی سیاہ تار کے ساتھ سیاہ بلب ٹنگا ہوا ہے۔ بلب کا شیڈ سیاہ ہے۔ ایک دیوار میں سیاہ سوئچ بورڈ ہے۔ سوئچ بھی سیاہ ہے۔ کھڑکی کے عین نیچے تابوت رکھا ہوا ہے۔ وہ کمرہ۔۔۔

    جس آدمی کی کل کائنات وہ کمرہ ہے، وہ آدمی میری مشکل بن گیا ہے۔

    دن بھر آفتا ب کی تیز روشنی میں دنیا میں کچھ نہ کچھ ہوتا رہتا ہے۔ لیکن اس کمرے میں۔۔۔ آفتاب کی تیز روشنی کو اب تک وہ کمرہ دیکھنا نصیب نہیں ہوا ہے! وہ کمرہ، دن بھر، جوں کا توں، سیاہی میں لت پت پڑا رہتا ہے۔ دن ڈوبتا ہے، شام کے سائے گہرے ہوتے ہیں، رات دبے پاؤں آتی ہے، دنیا کا کاروبار ٹھپ ہو جاتا ہے، رات گہری ہو جاتی ہے، دنیا سو جاتی ہے اور۔۔۔ اس سمے سیاہ کمرے میں، سیاہ تابوت ڈھکنا اٹھتا ہے اور وہ آدمی جاگتا ہے۔۔۔ وہ آدمی جو میری مشکل بن گیا ہے۔

    وہ آدمی جاگتا ہے، انگرائیاں توڑتا ہے۔ اس کا بدن چٹختا ہے اور پھر وہ سوئچ آن کرتا ہے۔ سیاہ کمرے میں سیاہ بلب سے سیاہ روشنی پھوٹتی پڑتی ہے اور کمرے کی سیاہی گہری ہو جاتی ہے۔

    اس آدمی کا لباس کیا ہے؟ اس آدمی کا لباس ایک سیاہ چادر ہے جو اس نے سادھوؤں کی طرح اوپر تلے لپیٹ رکھی ہے۔ پاؤں میں سیاہ چپل ہے اور آنکھوں پر سیاہ فریم اور سیاہ شیشوں والی عینک ہے۔

    اس آدمی کی کل کائنات سیاہ ہے۔ وہ چند لمحے ایک تصویر کے سامنے کھڑا ہوتا ہے، پھر دوسری تصویر کے سامنے پھر تیسری کے اور اسی طرح تصویریں دیکھ لینے کے بعد کرسی میں دھنس جاتا ہے اور سیاہ عبارت لکھتا ہے۔ وہ سیاہ عبارت کیا؟ کیا کہوں؟

    بہت رات گئے تک وہ لکھتا رہتا ہے۔ سیاہ کمرے میں، سیاہ روشنی میں، سیاہ لباس میں، سیاہ کرسی میں دھنسا ہوا، سیاہ میز پر جھکا ہوا ایک آدمی، جو سیاہ قلم سے، سیاہ کاغذوں پر، سیاہ عبارت لکھتا ہے، میری مشکل بن کیا ہے۔۔۔ وہ آدمی جس کی کل کائنات ایک کمرہ ہے جہاں دنیا بھر کی سیاہی سمٹ گئی ہے۔ کمرے کے باہر رات ہے، کمرے کے اندر سیاہی ہے جہاں بہت رات گئے تک وہ لکھتا رہتا ہے سیاہی میں، خاموشی میں۔

    اور جب نپے تلے قدموں کی چاپ سنائی دیتی ہے وہ جھکا ہوا سر اٹھاتا ہے، گردن گھما کر دروازے کی جانب دیکھتا ہے۔ دروازہ دھیمے سے کھلتا ہے، پردہ لرزتا ہے اور سیاہی ساری اور سیاہ بلاؤز میں لپٹی ہوئی، لمبے سوکھے گھنے سیاہ بالوں والی لڑکی نظر آتی ہے۔

    لڑکی دھیمے دھیمے قدم اٹھاتی ہے اور باز و بڑھا کر اس کے اٹھے ہوئے سرکو بازؤں میں باندھ لیتی ہے اور پھر اس کی پیشانی چومتی ہے، پھر گال اور پھر ہونٹ۔۔۔ وہ بےتحاشہ اسے چومتی ہے اور پھر سسکتے سسکتے رونے لگتی ہے۔ اس کے ہاتھ کانپتے کانپتے لڑکی کے لمبے سوکھے گھنے سیاہ بالوں سے کھیلتے رہتے ہیں اور۔۔۔ اور پھر اس سیاہ کمرے میں سیاہ سرگوشیاں ہوتی ہیں،

    یہ جیون ہے نا۔۔۔

    اور یہ بدن۔۔۔

    تم۔۔۔

    اور تم۔۔۔

    ایک ہی مٹی۔۔۔

    ہم سکھی ہیں۔۔۔

    ہم دکھی تھے نا اس لئے۔۔۔

    اور ایسی ہی سرگوشیوں کے درمیان، وہ دو سیاہ پرچھائیاں بانہوں میں با نہیں ڈالے کھڑی ہو جاتی ہیں اور سیاہ دیوار پر آویزاں، سیاہ چوکھٹوں میں جڑی ہوئی سیاہ تصویروں پر نظریں گاڑ دیتی ہیں اور۔۔۔ اور۔۔۔

    ہم نہ کہتے تھے کہ دن کا اندھیرا موت ہے۔۔۔ رات کا اجالا زندگی ہے۔۔۔ اور جب رات دم بہ لب ہوتی ہے، سیاہ ساری اور سیاہ بلاؤز میں لپٹی ہوئی، لمبے سوکھے گھنے سیاہ بالوں والی لڑکی لوٹ جاتی ہے اور وہ۔۔۔ جس کا لباس ایک سیاہ چادر ہے جو اس نے سادھوؤں کی طرح اوپر تلے لپیٹ رکھی ہے۔۔۔ تابوت میں دراز ہو جاتا ہے اور تابوت کا ڈھکنا گر جاتا ہے۔۔۔ وہ آدمی میری مشکل بن گیا ہے۔ میری مشکل کا حل۔۔۔ لیکن آپ یہ سب کیا جانیں کہ آپ کی زبان پر تو درازی عمر کا کلمہ ہے۔

    ہم اس کی آواز کے جادو میں کھو گئے تھے۔

    جب اس کی آواز کا جادو ٹوٹا اور ہم ہوش میں آئے، ہم نے دیکھا کہ ہال میں قیامت بپا ہے۔ اس کا لباس، ایک سیاہ چادر تھی جو اس نے سادھوؤں کی طرح اوپر تلے لپیٹ رکھی تھی۔ اس کی آنکھوں پر سیاہ فریم اور سیاہ شیشوں والی عینک چڑھی ہوئی تھی۔ اس کے پاؤں میں سیاہ چپل تھی اور وہ ہمارے قریب ہی اسٹیج پر، اپنے گھٹنوں کے گرد بازو باندھے، اطمینان سے بیٹھا ہوا تھا اور ہال میں قیامت بپا تھی۔ ’’اس کالے آدمی کو باہر نکالو۔‘‘

    ’’ہم مریضوں کے افسانے سننے نہیں آئے۔‘‘

    ’’مارو!‘‘

    ’’مارو!‘‘

    ’’مارو سالے کو!‘‘

    آن کی آن میں پورا ہجوم اسٹیج پر ٹوٹ پڑا اور ہم یہی دیکھ پائے کہ جوتے، گھونسے، چھڑیاں، پتھر برس رہے ہیں۔

    اور جب قیامت ٹلی، ہم نے دیکھا، وہ شخص ڈھیر ہوا پڑا ہے۔ اس کی پیشانی، ناک، کان اور منہ سے خون بہہ رہا تھا۔

    ہمارے دیکھتے دیکھتے اس کے سانس اکھڑ گئے اور پھر ایک شخص نے اس کی سیاہ چادر کے پلو سے اس کا منہ ڈھک دیا۔

    جب ہم اس کے گھر گئے ہم نے دیکھا، ایک کمرہ ہے۔۔۔ ایک کمرہ۔۔۔ کمرہ کیا ہے، اب کیاں کہیں؟ ایک کمرہ ہے، جس کی دیواریں سیاہ ہیں، چھت سیاہ ہے۔

    مأخذ:

    سرخ و سیاہ (Pg. 23)

    • مصنف: بلراج مینرا
      • ناشر: ایجو کیشنل پبلشنگ ہاؤس، نئی دہلی
      • سن اشاعت: 2004

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے