aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

کمپوزیشن تین

بلراج مینرا

کمپوزیشن تین

بلراج مینرا

MORE BYبلراج مینرا

    کہانی کی کہانی

    زندگی کے مسائل میں الجھے ہوئے ایک ایسے فنکار کی روداد ہے، جو تعلیم یافتہ، صحت مند اور اپنے پیشے میں ماہر ہے لیکن اسے کہیں نوکری نہیں مل رہی ہے۔ کہیں سے کامیابی کی کوئی امید نظر نہیں آتی۔ ایک دن اس کے کمرے میں دو چڑیاں پھنس جاتی ہیں جس کی وجہ سے وہ خوش ہوتا ہے کہ انھیں بھون کر کھائے گا۔

    جنوری کی اس خوش گوار خنک صبح میں کافی ہاؤس کے ویران لان میں کرسیاں جوڑے، ٹانگیں پسارے نیم دراز تھا۔ میری بائیں کہنی میز پر ٹکی ہوئی اور بوجھل پلکیں گری ہوئی تھیں۔ سورج میری پشت پر تھا اور خنک، کاٹتی ہوئی ہوا مغرب کی اور سے چلی آ رہی تھی۔۔۔

    میز پر کافی رکھی ہوئی تھی۔ گرم کافی، سوندھی سوندھی باس لئے کافی۔۔۔ میں ٹانگے پسارے، آنکھیں موندے نیم دراز تھا۔ کافی سے لبالب بھری پیالی اٹھانے کے لئے بایاں ہاتھ بڑھاتا، ہتھیلی کی لپیٹ میں پیالی آ جاتی، ہتھیلی تپ جاتی اور میں ہاتھ کھینچ لیتا۔۔۔ وہ صبح ہزار انجانی، بے نام لذتیں لئے ہوئے تھی۔

    سورج ابھرتا ابھر تا میری گردن تک آ پہونچا۔۔۔

    ’’تم افسانہ نگار ہو۔۔۔؟‘‘

    میں نے بمشکل بوجھل پلکیں اٹھائیں اور آنکھیں پھا ڑ کر دیکھا۔۔۔ خنک کاٹتی ہوئی ہوا کے ایک جھونکے نے سلگتی ہوئی آنکھوں کو راحت بخشی۔۔۔ وہ میرے لئے اجنبی تھا۔

    ’’تم مجھے نہیں جانتے۔ میں تمہیں جانتا ہوں۔ تم افسانہ نگار ہو۔۔۔؟‘‘ اس نے پھر کہا۔

    اس نے دو ڈگ بھرے اور برابر کے ٹیبل سے کرسی کھینچ لی۔

    ’’تمہاری کافی ٹھنڈی ہوگئی ہے۔۔۔؟‘‘ اس نے کہا۔

    میں نے اشارے سے ویٹر کو بلایا اور دو کافیاں لانے کا اشارہ کیا۔

    ’’میرا نام پالی ہے!‘‘

    میں خاموش رہا۔۔۔ کیا کہتا؟

    ’’تم مجھ پر افسانہ لکھوگے؟‘‘ اس نے پھر کہا۔

    مجھے محسوس ہوا، میرے لبوں پر مسکراہٹ پھیل گئی ہے۔۔۔ میں خاموش رہا۔

    میں نے سگرٹ سلگایا۔ پھیپھڑوں تک دھواں کھینچا اور اس کی اور دیکھا۔

    ’’میں اپنا برانڈ پیتا ہوں۔۔۔!‘‘ اس نے سیگرٹ سلگانے کے بعد کہا۔

    چند لمحوں کے بعد اس نے پھر کہا۔

    ’’بات یہ ہے کہ۔۔۔ کبھی کبھی جی چاہتا ہے، سب کچھ پھونک ڈالوں۔۔۔ لیکن۔۔۔؟‘‘

    میں نے اس کے چہرے پر آنکھیں گاڑ دیں۔

    اس نے کافی کی دونوں پیالیوں میں ایک ایک چمچ چینی ملائی اور پھر ایک پیالی میری اور بڑھا دی۔

    ’’بات صرف اتنی ہے کہ۔۔۔‘‘

    اس نے میری طرف دیکھا۔

    میں خاموش رہا۔

    ’’میں بہت کچھ کر سکتا ہوں لیکن میں کچھ نہیں کرتا۔۔۔ میری صحت اچھی ہے، میری صورت اچھی ہے، میری تعلیمی حیثیت بھی اچھی ہے۔ میں ٹریند میکنک ہوں اور میں انڈیا کی طرف سے بین الاقوامی مقابلوں میں ہاکی کھیل چکا ہوں لیکن۔۔۔ لیکن کوئی مستقبل نہیں۔ نہ نوکری ملتی ہے نہ لڑکی۔ پینتیس سال عمر ہوگئی ہے اور نہ گھر نہ گھاٹ۔ عجیب ملک ہے۔۔۔ اور ذلیل لوگ کہتے ہیں، ملک کو کلرکوں کی نہیں، ٹریند ہینڈز کی ضرورت ہے۔۔۔ میں اس ذلیل ملک کے لئے کچھ نہیں کر سکتا، جہاں چپراسی سے لے وزیر تک، بددیانت لوگوں کا کاروبار پھیلا ہوا ہے۔۔۔ جانتے ہو میں کیا کیا کرتا ہوں۔۔۔ آئم اے میل پر اسٹی ٹیوٹ۔۔۔!

    اور وہ۔۔۔ یہ جا، وہ جا۔

    اور میں۔۔۔

    میں بہت دیر تک مسکراتا رہا۔

    اس دن کی شروعات قابل قبول تھیں۔۔۔ ایک ناراض آدمی افسانہ نگار کے پاس پہنچتا ہے، اپنی ناراضگی کا بھر پور اظہار کرتا ہے اور اپنے راستے چل دیتا ہے۔

    اس دن کی شروعات خوب تھیں۔

    صبح صبح میری آنکھ کھل گئی تھی۔۔۔ کمرے میں چڑیاں پھدک رہی تھیں اور چیں چیں کئے جا رہی تھی۔

    میرا کمرہ، موسم سرما میں، ان چڑیوں کا رات بھر کا ٹھکانہ ہے۔۔۔ دن بھر کھڑکی کھلی رہتی ہے۔ شام ڈھلے چڑیاں کمرے میں چلی آتی ہیں اور چھت کے درمیان بیکار پھنسے ہوئے کنڈے میں بسیرا ڈال دیتی ہیں۔ بہت رات گئے، میں کمرے میں آتا ہوں، کھڑکی بند کرتا ہوں اور سو جاتا ہوں۔۔۔ رات بھر، اس بند کمرے میں، چڑیاں اور میں، آرام کرتے ہیں، صبح ہوتی ہے اور چڑیاں پھدکتی ہیں، چیں چیں کرتی ہیں، میر ے لحاف پر بیٹھتی ہیں۔۔۔ ان کی ننھی سی جان جتنا کہرام مچا سکتی ہے، مچاتی ہے۔ مجھے بستر چھوڑ کر اٹھنا پڑتا ہے اور کھڑکی کھولنا پڑتی ہے۔۔۔

    کھڑکی کھلتی ہے اور چڑیاں۔۔۔ یہ جا، وہ جا۔ ادھر میری زبان سے یہ تین الفاظ پھسلے، ادھر میری تھکی ہوئی آنکھوں سے نیند اڑ گئی۔

    کہاں آن پھنسے؟

    چڑیاں کمرے کے طول و عرض میں پھدک رہی تھیں، چیں چیں کیے جا رہی تھیں۔

    چیں چیں چیں چیں کہاں آن پھنسے چیں چیں کہاں آن پھنسے چیں چیں کہاں آن پھنسے چیں چیں چیں چیں۔۔۔

    میں نے لحاف سے اچھی طرح منہ ڈھک لیا، ٹانگیں پیٹ کے ساتھ باندھ لیں اور سکڑ کر گٹھری بن گیا۔

    چیں چیں کی آواز میر ے کانوں میں آ رہی تھی اور چڑیوں کا پھڑپھڑا نا بھی مجھے سنائی دے رہا تھا۔

    نیند کی شدید طلب تھی لیکن نیند میری آنکھوں سے اڑ چکی تھی۔

    کہاں آن پھنسے؟

    غیر شعور ی طور پر میری زبان سے پھسلے ہوئے اس سیدھے سادھے جملے کے معنی کیا ہیں؟ میں لحاف میں گٹھری بنا سکڑا ہوا تھا اور گٹھری کھولنے کی کوشش میں، چڑیاں لحاف میں چونچیں مار رہی تھیں۔

    میں نے ٹانگیں پھیلا لیں اور لحاف الٹ دیا۔

    چڑیاں چھت کے درمیان بیکار پھنسے ہوئے کنڈے میں بیٹھی ہوئی تھیں۔

    میں نے سیگرٹ سلگا کر غافل ہونا چاہا کہ یار لوگ کہتے ہیں، میں سیگر ٹ سلگا کر غافل ہو جاتا ہوں۔

    میں نے سیگرٹ سلگایا اور پھیپھڑوں تک دھواں کھینچا۔

    مجھے اخبار کی طلب محسوس ہوئی لیکن اخبار بند دروازے کے اس طر ف پڑا ہوا تھا کہ ہمیشہ پڑا ہوتا ہے۔۔۔ اب کون اٹھائے؟

    صبح صبح سیگرٹ پینے میں بڑی لذت ہے۔۔۔!

    صبح صبح کافی پینے میں بڑی لذت ہے۔۔۔!

    اور پھر میں کافی ہاؤس میں تھا۔

    چڑیاں میرے کمر ے میں بند تھیں کہ میں نے کپڑے بدلنے کے بعد احتیاط سے دروازہ کھولا تھا اور چڑیوں کو نکل اڑنے کا موقع دئے بنا، باہر نکل کر دروازہ بند کر دیا تھا۔

    پھر مجھے کچھ علم نہیں، وہ کب میرے سامنے آن کھڑا ہوا تھا اور کب مجھ سے مخاطب ہوا تھا، ’’تم افسانہ نگار ہو؟‘‘

    جنوری کا وہ دن خاصہ خنک تھا، ہوا کاٹ رہی تھی اور دھوپ بھلی لگ رہی تھی۔ کافی ہاؤس کا لان خالی خالی تھا اکا دکا میزیں گھری ہوئی تھیں اور لوگ باگ اخبار پڑھ رہے تھے کافی پی رہے تھے، نرم و نازک چیز سینڈوچز کھا رہے تھے، سیگرٹ پی رہے تھے اور دھواں اڑا رہے تھے۔۔۔ کتنا سکون تھا۔

    اور وہ کب میرے سامنے آن کھڑا ہوا تھا، مجھے کچھ علم نہیں۔۔۔ اس نے پوچھا تھا۔

    ’’تم افسانہ نگار ہو؟‘‘

    اور میں خاموش رہا تھا۔۔۔ میں مسکرا دیا۔

    ’’آج بہت خوش نظر آرہے ہو۔۔۔؟‘‘

    میں نے دیکھا۔۔۔ ایک جانی پہچانی صورت تھی۔

    میں خاموش رہا اور مسکراتا رہا۔

    ’’کوئی بات ضرورہے۔۔۔؟‘‘

    وہ کرسی کھینچ، قریب ہی بیٹھ گیا اور پائپ بھر نے لگا میں مسکراتا رہا۔

    ’’کچھ تو ہے۔۔۔ تمہاری مسکراہٹ معنی لئے ہوئے ہے!‘‘

    میں نے سیگرٹ سلگایا اور پھیپھڑوں تک دھواں کھینچا اور اس کی طرف دیکھا۔۔۔ وہ میری طرف دیکھ رہا تھا۔

    ’’تو پھر؟‘‘

    میں خاموش رہا۔

    ’’کوئی بات ضرور ہے۔۔۔ آج موسم قیامت کا ہے۔۔۔ تم اجڑے اجڑے سے لگ رہے ہو اور خوش ہو۔۔۔!‘‘

    ’’میں نے کہا، ’’آج میں نے دو چڑیاں پکڑی ہیں۔۔۔ آج میں انہیں بھون کر کھاؤں گا۔۔۔؟‘‘

    یکا یک ہی اس کا لہجہ بد ل گیا۔ اس نے جھلا کر کہا، ’’پھر وہی افسانہ نگاری؟‘‘

    میں خاموش رہا۔۔۔ کیا کہتا؟

    مأخذ:

    سرخ و سیاہ (Pg. 29)

    • مصنف: بلراج مینرا
      • ناشر: ایجو کیشنل پبلشنگ ہاؤس، نئی دہلی
      • سن اشاعت: 2004

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے