Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

کمپوزیشن پانچ

بلراج مینرا

کمپوزیشن پانچ

بلراج مینرا

MORE BYبلراج مینرا

    کہانی کی کہانی

    اس افسانے میں ہر روز کے بدلتے حالات اور احساسات کو پیش کیا گیا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ کوئی بھی دن حادثات سے خالی نہیں ہوتا۔ افسانہ میں پیش کردہ روداد کے مطابق کوئی دن کرفیو کا ہے، تو کسی دن شہر کی حالت تہس نہس نظر آتی ہے۔ کسی دن آنسو گیس کا قہر اور کسی روز کسی شناسا کی موت۔

    میری انگلیاں دکھ رہی ہیں کہ ایک مدت سے میں نے کچھ نہیں لکھا ہے۔

    دن دھول نکلا۔۔۔ خوف زدہ آنکھوں نے دیکھا شہر کا غرور پاؤں میں پڑا ہے۔ دیو قامت آئفل ٹاور انجر انجر پنجر پنجر غائب تھا اور وہ شہر کا شہر عمارت دھواں دھواں تھی جہاں کا کروچ کیکٹس اور صلیب پناہ گزیں تھے۔

    دن دھواں ہوا۔۔۔ شہر کا غرور ٹھوکر ٹھوکر غلاظت گاہ کی چوکھٹ پر پڑا ہے۔ رات آئی۔۔۔ رات پہلے جیسی نہ تھی۔۔۔ رات جنس زدہ نہ تھی۔

    چھیلوں بانکوں کے ہاتھوں میں آئفل ٹاور کی پسلیوں اور رگوں کی غلیلیں تھیں اور ان کی جیبیں وزنی پیچ پرزوں سے بھری ہوئی تھیں اور ان کی تپتی ابلتی آنکھیں منظر تھیں۔۔۔ جیسے ہی دھڑکتی رگوں والا وہ ہاتھ اٹھا، رات کانپنے لگی۔

    غلیلیں تن گئیں۔۔۔ اور جب غلیلیں ڈھیلی ہوئیں، تپتی ابلتی آنکھیں شانت تھیں کہ ان گنت کھوپڑیاں چکنا چور تھیں۔

    لڑکیوں سے کسی نے کچھ نہ کہا۔۔۔ لڑکیوں نے آپو آپ، ہنستے گاتے گلی گلی، بازار بازار جھاڑ پونچھ ڈالے۔

    قطار در قطار بچوں نے شہر کی سرحد سے کھوپڑیوں کو ٹھوکر لگائی اور ہوا میں اچھال دیا۔ ادھر تھکے ہارے لوگ، تھکے ہارے بے سدھ پڑے تھے اور وہ جو بےسدھ نہ تھے، تھکے ہارے نہ تھے منتظر تھے۔

    کھوپڑیاں اونچے مکانوں پر آن پڑیں۔۔۔ اونچے مکان بھک سے اڑ گئے۔

    تھکے ہارے، بے سدھ لوگوں کے بدن ٹوٹے، تھکن ٹوٹی، انگڑائیاں ٹوٹیں اور آنکھیں کھل گئیں ( یہ مشرق تھا۔)

    اور وہ جو بےسدھ نہ تھے، تھکے ہارے نہ تھے، منتظر تھے۔۔۔ انہوں نے شہر وں کو کاٹتی بانٹتی درمیانی باڑیں نوچ ڈالیں۔۔۔ وہ دن، گرم تپتا ہوا دن۔۔۔

    گرم، تپتے ہوئے ان گنت دن۔۔۔

    دن گرم ہوں یا خنک ہو یا بھیگا ہوا ہوا اک لہر ہے۔

    اک لہر ہے کہ آتی ہے اور گزر جاتی ہے۔

    سمے کے کبھی شانت اور کبھی بپھرے ہوئے سمندر کی اک لہر کے بھلا کیا معنی ہوئے؟

    وہ دن،

    وہ دن طلوع ہوا۔۔۔ اک بے معنی دن تھا۔

    اس گرم، تپتے ہوئے دن کی دھول اڑاتی دوپہر، ٹنڈ منڈپیڑ کے نیچے میں نے سنا، لوگوں نے دیکھا ہے، اس کی برہنہ رانوں پر جونک نماز رد جیلی چپکی پڑی ہے اور اس نے اپنے کھچڑی بالوں میں پانچ ہزار کے کرنسی نوٹ اڑس رکھے ہیں۔

    اس ہچکیاں لیتی شام بڈھا سرخ بےوطن یورپی مجھے اس ریستوراں میں ملا جس کا پچھلا دروازہ رفتگاں کی پگڈنڈی پر کھلتا ہے۔

    اس گہری کالی کرفیو مقید رات دستک ہوئی۔

    میں نے دروازہ کھولا

    وہ سیڑھیوں پر گرا پڑا تھا۔

    ٹارچ کی روشنی کے دائرے میں۔۔۔ میں نے دیکھا وہ مرا پڑا ہے۔

    لاش کی چوڑی پیشانی پر کھدا ہوا تھا، گوتم نیلمبر۔

    میں کمرے میں لوٹ آیا اور کھڑ کی کھول، کرسی کھینچ بیٹھ گیا اور باہر کی اور تکنے لگا، زنگ آلود آسمان کو، لا علاج دم بہ لب رات کو اور سیڑھیوں پر مردے پڑے گوتم نیلمبر کو۔

    صبح کی پہلی چاپ سنتے ہی میں نے دیکھا، گوتم نیلمبر کا ٹھنڈا گوشت مٹی ہونے لگا ہے۔ صبح کی چاپ تیز ہونے لگی اور ٹھنڈا گوشت اور ہڈیاں مٹی ہونے لگیں اور روشنی کی پہلی کر ن کے ساتھ مٹی مٹی لاش منتشر ہوگئی۔

    میں بےتحاشہ ہنسنے لگا۔

    ماضی پرست ہوں یا ڈریکولا، انت ایک ہے۔

    اور پھر وہاں کو ئی نہ تھا۔۔۔ اور میں تو چاہتا بھی یہی تھا۔۔۔ اور وہ تو چاہتا بھی یہی تھا کہ وہاں کوئی نہ ہو، کہیں کوئی نہ ہو اور جہاں سے وہ آیا تھا، وہاں بھی کوئی نہ تھا لیکن اسے وہاں، بیکار آوارہ گھومتے اتنے دن ہو گئے تھے کہ وہ سنسان اجڑی گلیوں اور خالی بازاروں میں خود اپنے آپ سے ٹکرا جاتا اور گلیوں بازاروں میں زوروں کا دھماکہ ہوتا اور اسے محسوس ہوتا، اگر وہ یونہی خود سے ٹکراتا رہا، غفلت کی نیند سویا ہو ا شہر کسی دن بیدار ہو جائےگا۔ خود اپنے آپ سے ٹکرا کر پاش پاش ہونے کی لذت کا تو وہ منتظر تھا لیکن یہ اسے منظور نہ تھا کہ غفلت کی نیند سویا ہوا شہر بیدار ہو۔۔۔ وہ جو غفلت کی نیند سو گئے تھے، کہیں بیدار نہ ہو جائیں، اس نے وہ شہر چھوڑ دیا اور پہاڑی پہاڑی اس خوف کے ساتھ، کہیں اس جیسا کو ئی دوسرا وہاں نہ ہو، وہاں پہنچا۔

    خو ف تو اپنے جیسے کسی دوسرے سے ہوتا ہے، (وہاں کوئی نہ تھا) اور وہ جگہ جہاں اپنے جیسے کسی دوسرے سے ملنے کے امکانات نہ ہوں، کہاں تھی، یہ اسے معلوم نہ تھا۔

    پہاڑیوں کا وہ سلسلہ اس کے قدموں تلے ختم ہوا پڑا تھا۔۔۔ نیچے سمندر تھا اور اس کے دائیں ہاتھ پہاڑی کا دامن نم کئے دھیمے دھیمے بہتا دریا سکون کے ساتھ وشال سمندر میں پناہ لے رہا تھا اور بائیں ہاتھ پہاڑی کی ڈھلان پر سیڑھی سیڑھی دراز سبز گھنا جنگل سائیں سائیں کر رہا تھا۔۔۔ آسمان نیلا تھا اور پگڈنڈی کے بل واضح تھے۔

    پگڈنڈی کے واضح بل بے معنی تھے کہ اسے لوٹنا نہیں تھا۔ آسمان کی نیلی رنگت بھلی تو تھی، بس بھلی تھی کہ اس کا رشتہ تو زمین سے تھا، اس نے مزید غور نہ کیا اور دریا تو خود سمندر کی پناہ لے رہا تھا اور جنگل بھی سمندر کنارے تک بڑھ پایا تھا اور پہاڑی بھی بڑھتے بڑھتے یوں اچانک رک گئی تھی جیسے ڈوب جانے کے خو ف نے پاؤں پکڑ لئے ہوں۔۔۔ اور سمندر؟ بہت دن تک وہ وقت کی رفتار سے باخبر رہا لیکن ایک دن آسمان کی بھلی بھی سی نیلی رنگت اور سمندر کی ابرق سی چمک نے وہ جال بچھایا کہ وہ محو یت کے عالم میں وقت سے پیچھے رہ گیا اور جب وقت کی رفتار پہاڑی کے اس آخری نقطے پر اس کی پہچان کی حدود میں نہ رہی، وہ خو داپنے آپ سے ٹکرا گیا۔

    پگڈنڈی، پہاڑی، جنگل، دریا، آسمان، کوئی بھی تو غفلت کی نیند نہ سویا ہوا تھا وہ پہاڑی سے نیچے کود گیا۔ نہ جانے کتنے سورج اس کی آنکھوں میں اتر ے۔۔۔ وہ ہاتھ پاؤں مارتا لہر لہر سے ٹکراتا رہا۔ دور ساحل تھا۔

    ساحل سمندر صحرا کا کنارا تھا۔۔۔ سامنے صحرا پھیلا پڑا تھا اور وہاں کوئی نہ تھا۔

    سورج دو ہیں، ایک سر پر ہے اور ایک ریزہ ریزہ صحرا میں پھیلا پڑا ہے۔

    اور یوں کہ پاؤں تلے ریت، سر میں ریت، آنکھوں میں ریت، منہ میں ریت۔۔۔ اس نے نخلستا ن میں چشمے کے ٹھنڈے اجلے پانی سے تن صاف کیا اور قدم بڑھائے۔

    اب واحد غائب واحد حاضر کی صورت میرے سامنے کھڑا ہے۔

    ہم ریلنگ کا سہارا لئے کھڑے ہیں۔۔۔ دو گھنٹے ہوئے، ہم اتفاقاً ایک دوسرے کے سامنے آ گئے تھے، ہمارے قدم رکے تھے اور پھر ہم بغل گیر ہوئے تھے۔۔۔ میں آٹھواں سگریٹ پی رہا ہوں اور دو گھنٹوں سے خاموش ہوں کہ وہ دو گھنٹوں سے خاموش ہے۔ میں اس سے بہت ساری باتیں پوچھنا چاہتا ہوں اور یہ نہیں جانتا، وہ مجھ سے بہت ساری باتیں کہنا چاہتا ہے یا نہیں۔

    وہ ایک نظر مجھے دیکھتا ہے، مسکراتا ہے اور میں جان لیتا ہوں، وہ کہہ رہا ہے، آؤ یار مرے! کافی پئیں۔۔۔ کالی کافی، گرم اور کسیلی۔

    ہم وہیں بیٹھے ہیں، جہاں ہم نے زندگی کے دس برس، جن کے بارے میں یقین کے ساتھ کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ اہم برس تھے یا غیر اہم برس، گزار ے ہیں، کافی پی رہے ہیں اور خاموش ہیں۔ میں اس کی موجودگی میں نواں سگریٹ پی رہا ہوں۔ ایک سیگریٹ لینے باہر جاؤں گا اور لوٹنے پر اسے نہ پاؤں گا، ہاں، پیالی تلے ایک پرزہ رکھا ہوگا۔۔۔ پھر کبھی۔۔۔ ہم ہمیشہ ایسے ہی ملتے ہیں، خاموش رہتے ہیں، میں سگریٹ پیتا رہتا ہوں اور یہ جانے بنا ہی کہ وہ مجھ سے کچھ کہنا چاہتا ہے یا نہیں، اس سے بہت کچھ پوچھنا چاہتا ہوں اور پھر ہمیشہ سگریٹ لینے باہر جاتا ہوں اور لوٹنے پر مجھے ہمیشہ پیالی تلے پرزہ رکھا ہوا ملتا ہے، ’’پھر کبھی۔‘‘

    پھر کبھی۔۔۔ لیکن کب، کہاں؟

    آنے والے کل کا شہر، جہاں آج گھنی گہری نیلی آنسو گیس پھیلتی رہتی ہے، جہاں آنکھوں سے لہو بہتا ہے۔

    ان گنت قابل فہم اور مانوس آوازوں کا شہر، جہاں ’’ہمار انام تمہارا نام۔۔۔ ویت نام، ویت نام‘‘ بیک آواز، مشرق سے مغرب اور شمال سے جنوب تک، صبح و شام، آٹھوں پہر، جستجو، جدوجہد اور جنگ کا لازوال ہتھیار ہے۔

    آنے والے کل کے سرخ شہر کی گلیاں، بازار، چوک، پارک اور کافی ہاؤس روندتا ہوا بڈھا سرخ بےوطن یورپی جو شمشان گھاٹ، گرجا گھر اور کنچن چنگا کے معنی جانتا ہے۔

    وہ کون ہے؟ وہ ایک بےوطن سرخ شہری ہے۔

    میں کون ہوں؟ میں وہ ہوں۔

    اور وہ ( میری) کرسی؟

    لمبی، بہت ٹانگیں۔ بہت لمبے بازو۔ اونچی، بہت اونچی پشت۔۔۔ مغرب کی جانب رخ کئے ہوئے وہ کرسی۔

    کرسی کے لمبے، بہت لمبے بازؤوں پر پڑے ہوئے لمبے بازو، گری ہوئی ہتھیلیاں اور گری ہوئی انگلیاں۔ کرسی کی اونچی، بہت اونچی پشت سے جڑی ہوئی اونچی اور اونچی، تنی ہوئی گردن۔ زمین کی جانب سیدھی لٹکی ہوئی لمبی ٹانگیں۔ ننگے پاؤ ں۔ ذہن خالی۔ دل کی دھڑکن خاموش، نبض کی رفتار تھمی ہوئی۔ مساموں کا کام کاج بند۔۔۔ وہ ساکت، بےجان جسم۔

    اور وہ آنکھیں۔۔۔ زندہ آنکھیں، روشن آنکھیں۔۔۔ بڑی بڑی آنکھیں۔۔۔ متحرک پتلیاں اور زندہ آنکھیں۔۔۔ بےجان جسم اور زندہ آنکھیں، زندہ آنکھیں اور بےجان جسم۔۔۔ کو ن کس کی زندگی اور کون کس کی موت؟

    مغرب کی جانب رخ کئے ہوئے کرسی میں مقید ساکت اور بےجان جسم،

    ساکت اور بےجان جسم میں مقید زندہ اور روشن آنکھیں،

    آنکھوں کے سامنے۔۔۔ آنکھوں کے سامنے آئینہ ( کتاب؟)

    آئینہ؟

    شمال کی جانب شمال کی آخری حد تک آئینے کی دیوار!

    جنوب کی جانب جنوب کی آخری حد تک آئینے کی دیوار!

    آسمان کی جانب آسمان کی انجانی بلندیوں تک آئینے کی دیوار!

    آنکھوں کے سامنے آئینہ،

    آئینہ، اجلا، شفاف۔۔۔

    میں نے سگریٹ سلگایا۔

    وہ سرخ شہری ہے اور میں وہ ہوں۔ کہیں گھپلا ہے؟ میں وہ ہوں اور وہ سرخ شہری ہے۔ میں سرخ شہری کیوں نہیں؟ ہیں۔۔۔ میں سرخ شہری ہوں۔۔۔ نہیں نہیں، میں سرخ شہری نہیں ہوں۔ یہ تو میری تحریر کے ’’میں‘‘ کی پرابلم ہے۔۔۔ اور میری تحریر۔۔۔ میں اور میری تحریر کا ’’میں۔۔۔‘‘

    ایک جنگ نا تمام

    میری انگلیوں کے دکھ میں کمی آ گئی ہے۔

    مأخذ:

    سرخ و سیاہ (Pg. 40)

    • مصنف: بلراج مینرا
      • ناشر: ایجو کیشنل پبلشنگ ہاؤس، نئی دہلی
      • سن اشاعت: 2004

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے