Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

بنارس کا ٹھگ

خواجہ احمد عباس

بنارس کا ٹھگ

خواجہ احمد عباس

MORE BYخواجہ احمد عباس

    کہانی کی کہانی

    ایک ایسے فرد کی کہانی ہے جو بنارس سیر کے لیے آتا ہے تو اسے ہر جگہ وارانسی لکھا دکھائی دیتا ہے۔ شہر میں گھومتے ہوئے اسے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شہر میں جہاں ایک طرف بہت امیر لوگ ہیں وہیں دوسری طرف ایسے لوگ بھی ہیں جن کے تن پر کپڑے تک نہیں ہیں۔ سیر کرتے ہوئے وہ سارناتھ جاتا ہے، وہاں گوتم بدھ کی سونے کی مورتی دیکھتا ہے۔ سونے کی مورتی دیکھ کر اسے بہت غصہ آتا ہے اور وہ مورتی کو توڑ دیتا ہے۔ وہ شہر میں اسی طرح کے اور بھی تخریبی کام کرتا ہے۔ آخر میں اسے پولس پکڑ لیتی ہے اور پاگل خانے کو سونپتے وقت جب اسکا نام پوچھا جاتا ہے تو وہ اپنا نام کبیر بتاتا ہے۔

    (۱)

    ریل کے اسٹیشن پر لکھا تھا۔۔۔ وارانسی

    پولیس کے تھانے کے باہر لکھا تھا۔۔۔ وارانسی

    ہسپتال کے دروازے پر بورڈ لگا تھا۔۔۔ وارانسی

    شراب کی دکان پر لکھا تھا۔۔۔ وارانسی

    افیون، گانجہ اور چرس کی دوکان پر لکھا تھا۔۔۔ وارانسی

    کتابوں کی دوکان، جہاں کوک شاستر کھلے عام بک رہی تھی، لکھا تھا وارانسی۔۔۔ اوشدھالیہ پر، جہاں سدھ مکردھوج خریدنے کے لیے بھیڑ لگی تھی، لکھا تھا۔۔۔ وارانسی۔۔۔ حکیم حاذق الملک کے دارالشفا پر لکھاتھا۔۔۔ وارانسی

    پنجراپول پر لکھا تھا۔۔۔ وارانسی

    گئوشالہ پر لکھا تھا۔۔۔ وارانسی

    پاگل خانہ پر بورڈ لگا تھا۔۔۔ وارانسی

    اور ڈاک خانہ میں چٹھیوں پر کھٹاکھٹ مہریں لگائی جارہی تھیں۔۔۔ وارنسی۔۔۔ وارانسی۔۔۔ وارانسی۔۔۔ جیسے ہتھوڑے کی چوٹ پڑتی ہے۔ جیسے طبلے پر تھاپ پڑتی ہے وارانسی۔ وارانسی۔ وارانسی۔ وارانسی۔

    مگر جب مسافر نےراہ گیر سے پوچھا، ’’بھائی یہ کون سا شہر ہے؟‘‘ تو جواب ملا، ’’بنارس۔‘‘

    اور مسافر جو اب تک حیران و پریشان، کھویا کھویا ہوا گھوم رہا تھا، یک بیک اس کےچہرے پر ایک عجیب خوشی اور اور اطمینان کی لہر دوڑ گئی اور اس کی گہری سیاہ آنکھوں میں نہ جانےکتنی پرانی یادیں جاگ اٹھیں۔ اس کے سوکھے ہوئے ہونٹوں پر ایک عجیب معصوم مسکراہٹ پھیل گئی۔ جیسے بچہ گھر آکر ماں سے کہہ رہا ہو۔۔۔ ’’ ماں، میں آگیا۔‘‘

    مسافر بہت دور سےآیاتھا۔۔۔ مگر اس کے چہرے پر تھکن کے کوئی آثار نہیں تھے۔ اس کے گھر کے دھلے گاڑھے کے کپڑوں پر راستے کی کوئی گرد نہیں تھی۔ اس کے پاس نہ بستر تھا، نہ ٹرنک، نہ ناشتہ دان، نہ صراحی، نہ پانی کا لوٹا، نہ پانی کی لٹیا۔ پھر بھی نہ جانے کیوں ایسا لگتا تھا کہ وہ اپنے کندھوں پر بہت بڑابوجھ اٹھاکر چل رہاہے۔ مسافر کو ٹھہرنے کےلے جگہ چاہیے تھی۔ راستے میں اس نےکسی راہ چلتے سے پوچھا، ’’بھائی یہاں بھولی بھٹیارن کی ایک سرائے ہواکرتی تھی۔‘‘

    جواب ملا، ’’سرائے تو یہاں کو ئی نہیں۔۔۔ البتہ ایک مسلم مسافر خانہ ہے۔‘‘

    ’’اور جو مسلمان نہ ہوں وہ کہاں ٹھہرتے ہیں؟‘‘

    ’’ہندوؤں کے لیے کئی دھرم شالائیں ہیں۔‘‘

    ’’اور جو نہ ہندو ہوں، نہ مسلم ہوں؟‘‘

    راہ گیر نے ایک ہوٹل کی طرف اشارہ کردیا۔

    باہر بورڈ لگا تھا، جس پر لکھا تھا۔۔۔ ’’ہوٹل وارانسی۔۔۔ وارانسی‘‘ اور مسافر یہ سوچتا ہوا اندر داخل ہو ہی رہاتھا کہ آخریہ وارانسی دوبارہ کیوں لکھا گیا ہے، کہ اس نے دیکھا کہ ایک کالا ناگ پھن پھیلائے اس کی طرف بڑھ رہا ہے۔ گھبراکر وہ ایک طرف کو ہوا تو یہ دیکھ کر پریشان ہوگیا کہ ایک اَدھ ننگی جوان فرنگی عورت کھڑی ہے اور اس کے گلے اور سینے اور کولہوں کے گرد ایک بھیانک اژدہا لپٹا ہوا ہےاور ایک داڑھی والامداری کھڑا کہہ رہا ہے، ’’پائی تھن میم صاحب۔ پائی تھن۔ نو میک فیر۔ میم صاحب۔ ٹیک پیکچر۔ اونلی ٹو روپی۔‘‘ اور مسافر جو یہ بھاشا نہیں سمجھتا تھا، سمجھا کہ یہ سپیرا اس فرنگی عورت کو اژدہے سے ڈسوارہا ہے۔ اور اس نے لپک کر اژدہے کو دونوں ہاتھوں سے کھینچا اور زور سےزمین پر پٹخ دیا۔

    فرنگی عورت اپنی بھاشا میں کچھ چلائی۔ سپیرے نے مسافر کو گردن سے پکڑ لیا، ’’اے بڈھے، یہ کیا کرتا ہے؟ میرا کام خراب کردیا۔‘‘ اور پھر اس کی آنکھوں میں ایک شبہ کی چمک آئی، ’’اے تو بھی سپیرا ہے کیا؟‘‘ مسافر نے کہا، ’’میں سپیرا نہیں ہوں۔ پر تو یہ کیا کر رہاتھا، وہ بے چاری فرنگی عورت مرجاتی تو؟‘‘

    ’’ارے مورکھ اژدہے کے دانت نہیں ہیں۔ اس کو گلے میں ڈال کر میم صاحب تو صرف تصویر کھنچوا رہی تھی۔ چل اپنا راستہ لے۔ پاگل کہیں کا۔‘‘ اور پھر اس نے فرنگی عورت کی طرف دیکھ کر انگلی سے اپنی کھوپڑی کی طرف اشارہ کیا اور بولا، ’’میم صاحب، اولڈ مین، اسکرولوز، نومائنڈ، پاگل مین ناؤ پائی تھین میک لو میم صاحب۔ صاحب ٹیک پکچر۔ اونلی ٹو روپی۔‘‘

    اور اب مسافر ہوٹل کے منیجر سے بات کر رہا تھا۔

    ’’کیا میں اس سرائے میں ٹھہر سکتا ہوں؟‘‘

    ’’یہ سرائے نہیں ہوٹل ہے!‘‘

    ’’اچھا تو اب سرائے کو ہوٹل کہتےہیں۔ میں یہاں ٹھہرنا چاہتا ہوں۔‘‘

    ’’آپ کہاں سے آئے ہیں؟‘‘

    ’’جی میں تو یہیں رہتا ہوں، اور یہاں سے اتنی دور بھی رہتاہوں کہ کوئی اِس فاصلہ کااندازہ بھی نہیں لگاسکتا۔‘‘ منیجر کی سمجھ میں یہ بات نہ آئی۔ پھر اس نے اپنے رجسٹر میں لکھے ہوئے سوالوں پر نظر ڈالتے ہوئے پوچھا، ’’ آپ نے سفر کیسے کیا؟ مطلب یہ کہ آپ یہاں آئے کیسے؟ ریل سے؟‘‘

    ’’جی نہیں!‘‘

    ’’بس سے؟‘‘

    ’’جی نہیں!‘‘

    ’’ہوائی جہاز سے؟‘‘

    ’’جی نہیں۔۔۔ یا یوں سمجھیے، جی ہاں۔۔۔ آپ میرے سفر کو ہوائی جہاز کا سفر کہہ سکتے ہیں!‘‘

    ’’آپ کا سامان کہاں ہے؟‘‘

    ’’جی۔ سامان۔ جہاں میں رہتا ہوں وہاں کسی سامان کی ضرورت نہیں ہوتی!‘‘

    ’’توآپ یہاں نہیں ٹھہر سکتے!‘‘

    ’’تم اس سرائے کے یعنی ہوٹل کے مالک ہو کیا؟‘‘

    ’’نہیں منیجر ہوں!‘‘

    ’’تو مالک کون ہے؟‘‘

    ’’اس کے مالک ہیں بھگوان کاشی دوارکاناتھ بھنجم۔‘‘

    ’’تو اس کو ہوٹل ووٹل کیا کہتے ہیں۔۔۔ یہ تو بھگوان کامندر ہوا۔ اور مندر میں کوئی بھی مسافر بھگوان کا مہمان ہوسکتاہے۔‘‘ منیجر ہنس کر بولا، ’’مگر جو دیوتا اس ہوٹل کا مالک ہے، وہ کرایہ مانگتا ہے۔ ہر کمرے کا چالیس روپیہ روز کرایہ۔ اتنا روپیہ ہے تمہارے پاس؟‘‘ اور مسافر غصے سے بولا، ’’تو پھر اس جگہ کامالک بھگوان نہیں کوئی شیطان ہے۔ میں یہاں نہیں ٹھہروں گا۔ میں جاتا ہوں!‘‘ اور یہ کہہ کر وہ وہاں سے جلدی جلدی قدم بڑھاتا چلا گیا اور اس کے جانے کے بعد منیجر نے بیرے کی طرف دیکھ کر کہا، ’’کیسے کیسے پاگلوں سے واسطہ پڑتا ہے۔‘‘

    اور بیرے نے کہا، ’’صاحب، یہ تو کوئی خطرناک پاگل ہے۔ ابھی میں نےدیکھا وہ امریکن میم صاحب کو تنگ کر رہا تھا۔ وہ اپنا سپیرا ہے نا، اس کا ناگ چھین کر بھاگنے والا تھا۔‘‘

    ’’تو پہلے کیوں نہیں بولا۔ ایسا پاگل لوگ ہمارے ہوٹل کےآس پاس گھومے گا تو ٹورسٹ لوگ ادھر آنا بند کردے گا۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے ٹیلیفون اٹھایا اور ڈائل گھمایا۔ ۸۔ ۶۔ ۰۔ ۴۔

    (۲)

    اور اب مسافر بازار کی بھیڑ میں سے چلا جارہا تھا۔ اس نے سوچا میرے زمانے میں تو آبادی اتنی نہیں تھی۔ بڑی خوشی کی بات ہے کہ اپنے شہر میں اتنی رونق ہے۔ راستے میں اس نے بنارسی ساڑھیوں اور کمخواب کی دوکانیں دیکھیں۔ اس نے سوچا کیا نفیس کپڑا آج بھی ہمارے کرگھوں پر بنا جارہاہے۔ دوکانیں رنگ برنگی ساڑھیوں اور مختلف قسم کے تھانوں سے اَٹی پڑی تھیں۔ اس نے سوچا، اب تو اپنے شہر کی ہر عورت بنارسی ساڑی پہن سکتی ہے۔ کمخواب کالہنگا یا پائجامہ سلواسکتی ہے۔ دوسری دوکانوں پر اس نےدیکھا کہ ہر قسم کا اونی کپڑا بھی بھراپڑا ہے۔ اس نےسوچا جاڑے کا انتظام اچھا ہے۔ یہ سب ترقی کے آثار ہیں۔ ورنہ ہمارے زمانہ میں تو اس موسم میں روئی کے دگلے پہنے جاتے تھے۔

    مگر جب اس نے بازار کی طرف رخ کیا اور چلتے پھرتے لوگوں کو دیکھا تو اس کی سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ سب پھٹے پرانے، میلے کپڑے پہنے کیوں گھوم رہے ہیں۔ دوکانوں میں کئی لاکھ بنارسی ساڑھیوں کا ڈھیر ہے اور سڑک پر کھڑی بھکارن ایک چیتھڑے میں اپنا اور اپنے بچے دونوں کا بدن ڈھانکنے کی کوشش کر رہی ہے۔ ہاتھ گاڑی کو ڈھکیلتے ہوئے دو دبلے دبلے مزدور جارہے ہیں اور ان کے بدن پر پھٹے ہوئے سوتی کرتوں اور میلی دھوتیوں کے سواکچھ نہیں اور وہیں قریب کی دوکان پر ایک لالہ جی پشمینے کا دوشالہ پہنے انگیٹھی پر ہاتھ سینک رہے ہیں اور ایک مولوی صاحب کشمیری سنہری کام کا اونی چوغہ پہنے سر پر بیس گز کا عمامہ باندھے مسجد کی طرف جارہے ہیں اور ایک داڑھی مونچھ منڈا نوجوان اونی ولایتی سوٹ اور کوٹ، اونی موزے مفلر اور دستانے پہنے منھ سےدھواں نکالتا اپنی موٹر کی طرف جارہاہے۔ ایک لمبی چوڑی موٹر جس پر جھنڈا لگا تھا، قریب سے گزرگئی اور مسافر کو اس میں صرف ایک سفید ٹوپی کی جھلک نظرآئی اور پاس کھڑے ہوئے کسی راہ گیر نے کہا، ’’دیکھا تم نے چاروں طرف شیشے چڑھے ہوئے ہیں کہ کہیں منتری جی کو چھینک نہ آجائے۔‘‘

    اور پھر ایک اس سے بھی لمبی موٹر آئی اور ایک ساڑھیوں کی دوکان پر رکی اور اس میں سے اترکر ایک موٹا تازہ آدمی اندر گیا اور اس کی کالی کالی انگلیوں پر انگوٹھیوں کے ہیرے ایسے چمکے جیسے رات کے وقت گندی نالی کے بدبودار پانی میں ستاروں کا عکس جھلملاتا ہے۔ کسی نے کہا، ’’پہچانا تم نے، یہ ہیں سیٹھ کروڑی مل پکوڑی مل۔ کالے بازار میں انہوں نے ایک کروڑ کمایا ہے۔ اس میں سے ایک لاکھ کا مندر بنایا ہے اور اب اپنی سپتری کو پانچ لاکھ کا جہیز دینے والے ہیں۔ اس کے لیے ساڑھیاں خریدنے آئے ہیں۔ اسپیشل ساڑھیاں بنوائی گئی ہیں۔ ایک ایک پانچ پانچ سو کی، کیا سمجھے؟‘‘مسافر کچھ نہیں سمجھا۔ اس نے صرف اتنا دیکھا کہ بھکارن دیوار سے لگی سردی کے مارے کانپ رہی ہے اور اس کی گود کے بچے کا چہرہ اور بدن نیلا پڑتا جارہا ہے۔

    اوراسی وقت قریب کے ایک مندر میں بھجن شروع ہوگیا۔

    جے جے رام کرشن ہرے۔ جے جے رام کرشن ہرے۔

    اور مسافر کو نہ جانے کیا ہوگیا کہ وہ بھی زور زور سے بھجن گانے لگا۔ مگر یہ اس کااپنا بھجن تھا اور بازار کے سب لوگ اس کے گرد اکٹھے ہوگیے۔ کیونکہ یہ آواز جو اُن کو اپنے من کی لگتی تھی، انہوں نے صدیوں سے نہیں سنی تھی۔ مسافر گارہا تھا۔

    اے بھگوان۔ یہ کیسا تیرا دربار

    جہاں ہے ظلم کی بھرمار

    رنگ محل میں بسیں مسخرے

    عیش کریں سب چور لٹیرے

    مورکھ کو سب کہیں گیانی

    گیانی کو سب کہیں گنوار

    کوئی اوڑھے شال دوشالہ

    اور کوئی ننگا بیچ بازار۔۔۔ یہ کیسا تیرا دربار

    یہ کیسی سرکار رے بھگوان۔ یہ کیسی سرکار

    یہ سن کر کسی نے کہا، ’’ضرور کوئی کمیونسٹ ہے۔‘‘ مگر دوسرے نے کہا، ’’مجھے تو کبیر پنتھی لگتا ہے۔ یہ شبد تو کبیر کے جیسے ہیں۔‘‘ تیسرے نے کہا ، ’’نہیں جی، کبیر پنتھی آج کل کبیر کے ایسے شبدوں کو کب یاد کرتے ہیں۔‘‘ چوتھے نے کہا، ’’میں تو کہتا ہوں کوئی پاگل ہے پاگل بیچارہ۔‘‘ پانچویں نے کہا، ’’مگرخطرناک پاگل ہے جو ایسے خطرناک بھجن گاتا ہے۔‘‘ چھٹے نے کہا، ’’بے چارہ گاہی تو رہاہے۔ کچھ کر تو نہیں رہا۔‘‘ ساتویں نے کہا، ’’تم کیا جانو۔ ایسے شبد آگ لگادیتے ہیں۔‘‘ آٹھویں نےکہا، ’’ ایسے شبد تو وہ زہریلے ناگ ہیں جن کے کاٹے کا کوئی منتر ہی نہیں۔‘‘ اور اتنےمیں کوئی چلایا، ’’دیکھو دیکھو وہ پگلاکیا کر رہاہے؟‘‘

    سب نےمڑکر ادھر دیکھا کہ مسافر نے سیٹھ جی کا دوشالہ گھسیٹ کر ایک سائیکل رکشا والے کو دے دیا جو ایک پھٹی قمیص اورنیکر میں کھڑا ٹھٹھر رہاتھا اور دوشالہ پاتے ہی وہ رکشا والاپیڈل مارتا ہوا بکٹٹ ہولیا اور ابھی سیٹھ جی ہائےواویلاکر ہی رہے تھے کہ مولانا جو مسجد سے واپس ہو رہے تھے دفعتاً چلا پڑے، ’’ارے میرا چوغہ، پکڑو پکڑو، چور میرا چوغہ لے بھاگا۔‘‘ مگر اتنے میں مسافر نے وہ اونی چوغہ بھکارن کو دے دیا اور وہ اس میں اپنے بچے کو لپیٹے سرپٹ بھاگی جارہی تھی، اور اب سب مسافر کی تلاش کر رہے تھے اور مسافر وہاں سے غائب ہوگیا تھا۔

    مولانا کی داڑھی غصے کے مارے ہل رہی تھی اور وہ بار بار کہہ رہے تھے۔ جیسے اسم اعظم کا ورد کر رہے ہوں ’’یامظہرالعجائب‘‘ ابھی وہ مردود یہاں تھا، اور ابھی غائب یا مظہرالعجائب۔ ابھی وہ مردود یہاں تھا اور ابھی غائب!‘‘ایک نے کہا، ’’دن دہاڑے ڈاکے پڑنے لگے۔ سیٹھ جی اور مولانا کو تھانے میں رپورٹ کرنی چاہیے۔ چور فوراً پکڑا جائے گا۔‘‘ دوسرے نے کہا، ’’چور نہیں جی ٹھگ تھا۔ آنکھوں میں دھول جھونک کر دوشالہ اڑا کرلے گیا۔‘‘ تیسرے نے کہا، ’’بھئی شکل و صورت سے تو ٹھگ نہیں لگتا تھا۔ سیدھا سادا بڈھا تھا کوئی۔‘‘ دوسرےنے جواب دیا، ’’بنارس کے دیکھنے میں ایسے ہی بھولے بھالے لگتے ہیں۔ ضرور وہ کوئی ٹھگ ہی تھا۔‘‘ چوتھے نے کہا، ’’پھر میرے خیال میں بھی وہ ٹھگ یا چور نہیں تھا ورنہ وہ چیزیں چراکر وہ خود لے جاتا۔ دوسروں کو کیوں دیتا۔ ضرور وہ پاگل ہے!‘‘

    اور سیٹھ جی کی توندمولانا کی داڑھی کی طرح غصے کے مارے ہل رہی تھی، بولے، ’’پر یہ پاگل پن بڑا کھترناک ہے جی۔ دو چار ایسے پاگل ہور آگیے تو ہمارا دھندہ ہی سورا بند ہوجاوے گا۔ ‘یہ کہہ کر انھوں نے پاس رکھا ہوا ٹیلی فون اٹھایا اور ڈائل گھمایا۔ ۸۔ ۶۔ ۰۔ ۴

    (۳)

    مگر مسافر وہاں سے بہت دور سارناتھ کے کھنڈروں میں گھوم رہا تھا۔ جہاں نہ سیٹھ آتے ہیں نہ مولانا۔ نہ موٹروں میں گھومنے والے منتری۔ یہاں خاموشی تھی، سکون تھا۔ ماضی کی دھول پر چلتے ہوئے پیروں کی آواز بھی نہ ہوتی تھی۔

    بڑی دیر تک مسافر عجائب گھر میں بھگوان بدھ کی مورتی کے سامنے کھڑا رہا اور گوتم کا ابھے مدرا اسے جیسے دلاسہ دیتا رہا۔ اور پتھریلی آنکھیں جنہوں نے دنیا کے غم کی تہہ کو پالیا تھا۔ اس سے بہت کچھ کہتی رہیں اور اسے ایسے محسوس ہوا کہ وہ ترشے ہوئے پتھریلے ہونٹ اس کی طرف دیکھ کر مسکرارہے ہیں، جیسے کہہ رہے ہوں، ’’ اے مسافر جس راستے پر تم چل رہے ہو اس سےہم بخوبی واقف ہیں، کیونکہ یہی ہمارا مارگ تھا۔ پر آج اس مارگ پر کون چلتا ہے۔ تمہارا پتھ بھی تو سونا پڑا ہے۔ ہمارے تمہارے راستے کی دھول پر تو صدیوں کے بعد کسی بھولے بھٹکے کےنقش قدم ملتے ہیں۔‘‘

    اور مسافر کی نگاہوں نے خاموشی کی زبان سے کہا، ’’مجھے شکتی دو۔ مجھے شانتی دو۔۔۔ شاکیہ منی۔ میں بہت دنو ں کے بعد واپس آیا ہوں۔‘‘ اور گو تم کے ہونٹوں نے بن کھلے کہا، ’’تم واپس نہیں آئے۔ تم کہیں گیے نہیں تھے۔ تم لوگوں کے من میں سو گیے تھے اور اب ان کے من میں تم جاگ گیے ہو۔ تم یہیں تھے، اور یہیں رہو گے۔ تم یہاں ہو او رہر جگہ ہو۔ جیسے میں یہاں ہوں، وہاں ہوں اور ہرجگہ ہوں۔ ہم ہرجگہ ہیں اور ہر وقت میں ہیں، مگر خاص کر ہم آج ہیں اور یہاں ہیں۔‘‘

    ’’پرشاکیہ منی۔ آج جو کچھ میں نے دیکھا ہے اس سے میں بہت دکھی ہوں۔‘‘

    اور گو تم کی آنکھوں نے خاموشی سے کہا، ’’دکھ کیا ہے؟ سکھ کیا ہے؟ کچھ نہیں ہے۔ جو کچھ ہیں وہ ہمارے کرم ہیں، ہمارا عمل ہے اور آج تم نے اپنے عمل سے ثابت کردیا ہے کہ تمہارے شبدوں میں سنگیت ہی نہیں شکتی بھی ہے۔‘‘ اور اب مسافر نے دیکھا کہ وہ پتھریلی آنکھیں اس کی طرف دیکھ کر مسکرا رہی ہیں۔۔۔ پھر وہ گھومتا ہوا نئے بنے ہوئے بدھ مندر کی طرف چلا آیا اور اندر جاتے ہوئے اس نے دیکھا کہ سنگ مرمر کی سلوں پرسیٹھوں، رئیسوں کے نام کھدے ہیں اور اُن میں سیٹھ کروڑی مل پکوڑی مل کا نام بھی ہے، جس کا دوشالہ آج اس نے چھینا تھا۔

    ’’یہ کیا ہے؟‘‘اس نے مندر کے ایک بھکشو سے پوچھا۔ اور پیلی کفنی پہنے ہوئے بھکشو نے کہا، ’’یہ ان دانیوں کے نام ہیں جنہوں نے اِس مندر کو بنانے کے لیے چندہ دیا تھا۔‘‘ مسافر نے بڑبڑاکر کہا، ’’تو انہوں نے چندہ مہاتما بدھ کے لیے نہیں دیا تھا، دھرم کے لیے نہیں دیا تھا۔ اس مندر کے لیے نہیں دیا تھا۔ سنگ مرمر کی سل پر اپنا نام لکھوانے کے لیے دیا تھا۔‘‘ اور وہ یہ کہہ کر اندر داخل ہوا اور اس نے دیکھا کہ وہ مہان آتما جس نے دنیا کے لاکھوں کروڑوں انسانوں کو مکتی دی تھی، وہاں ایک پیلی دھات سے بنائے ہوئے خول میں قید تھا۔

    بھکشو نے کہا، ’’اس مورتی پر آٹھ من سونے کا خول چڑھا ہوا ہے۔‘‘ اور مسافر نے جواب دیا، ’’بڑی طاقت ہے سونے کی جو بدھ جیسی آزاد آتماکو بھی اپنے پنجے میں جکڑ سکتی ہے۔‘‘ مگر یہ بات اس بھکشو کی سمجھ میں نہ آئی۔ پھر مسافرنے دیکھا کہ چاروں طرف بھدی بھدی تصویریں بنی ہوئی ہیں، جن میں مہاتما بدھ کی زندگی کے مختلف منظر پیش کیے گیے ہیں۔ بھکشو نے کہا، ’’یہ تصویریں جاپان کے ایک مہمان کلاکار نے اپنی شردھا سے بنائی ہیں۔ پورے چار برس لگے تھے اسے یہ کام پورا کرنےمیں۔ وہ دیکھو کونے میں جاپانی آرٹسٹ کاپورا نام پتہ لکھا ہوا ہے۔‘‘

    اور ایک یاتری نے مسافر سے کہا، ’’صرف چار برس۔ پھر بھی آرٹسٹ کو اپنا نام پتہ لکھنے کی اتنی فکر تھی اور اجنتا ایلورا کے غاروں میں دیکھو۔ ایک ایک غار کو اس کے مجسموں اور تصویروں کو مکمل کرنے میں ڈھائی ڈھائی سو سال لگے اور کلاکاروں کی کئی کئی نسلوں نے ایک کے بعد ایک اس لافانی آرٹ کو تخلیق کیا۔ پھر بھی کسی نے ایک جگہ بھی اپنا نام نہیں لکھا۔ اسے کہتے ہیں سچی شردھا۔ سچی کلا۔‘‘ مسافر نے یہ بات بڑے غور سے سنی۔ پھر وہ بولا، ’’نام کے لیے لوگ سب کچھ کرتے ہیں۔ بدھ سے کوئی پیار نہیں کرتا۔‘‘

    مگر اس عرصہ میں وہ بھکشو دوکان پر کھڑا تصویریں اور مورتیاں اور کتابیں بیچ رہاتھا۔ اب مسافر نے دیکھا کہ ایک اور بھکشو ہے جو بدھ کی مورتی کے سامنے بار بار سجدہ کر رہا ہے۔ اور اس نے سوچا، ’’مگر بدھ نے تو کہا تھا، میری مورتی نہ بنانا اور یہ بھی کہا تھا کہ کسی مورتی کے آگے ماتھا نہ ٹیکنا۔‘‘ مگر وہ بھکشو منھ ہی منھ میں کوئی دعا بڑبڑا رہا تھا اور ہر بار سارے بدن کو زمین پر گرا کر ماتھا ٹیک رہا تھا۔ پہلے تو مسافر نے سمجھا کہ وہ کوئی ورزش کر رہا ہے اور اس نے ایک یاتری سے کہا بھی، ، ’’یہ مندر ہے کہ اکھاڑا؟‘‘ مگر یاتری نے کہا، ’’ش ش بھکشو مہاراج پوجا کر رہا ہے۔ بھگوان بدھ کی مورتی کی۔‘‘

    اور اب مسافر نے دیکھا کہ اس بھکشو نے سنگ مرمر کے ٹھنڈے فرش پر دوبالشت چوڑا تہ کیا ہوا اونی کپڑا بچھارکھاہے، تاکہ اس کا بدن ٹھنڈے پتھر کو نہ لگے۔ جہاں اس کے ہاتھ زمین پر آتے تھے، وہاں بھی دونوں طرف ایک ایک اونی کپڑے کاٹکڑا پڑا ہوا ہے، تاکہ بھکشو کے ہاتھوں کو بھی ٹھنڈے فرش کو نہ چھونا پڑے۔ کتنا خیال تھا اس بھکشو کو اپنے آرام کا، مگر وہ برابر اپنی کسرت کیے جارہا تھا۔ جھکتا، زمین پرمنھ کے بل، اوندھا لیٹتا، پھر اٹھتا، پھر جھکتا۔ اور تمام عرصے کوئی دعائیں بڑبڑاتا رہااورمسافر کو ایسا لگاکہ یہ ایک بھکشو نہیں ہے بلکہ پوجا کرنے کی ایک مشین ہے جو بٹن دبانے پر اٹھک بیٹھک کرنے لگتی ہے۔

    اور اسے ایسا لگا کہ یہ بھکشو اپنی ریاکارانہ عبادت سےبھگوان بدھ کی ہتک کر رہاہے۔ ان کا، ان کی پوتر آتما کا منھ چڑا رہاہے اور اس نےایک ہی وار میں بھکشو کے سامنے سے وہ گدیاں گھسیٹ لیں اور اس بار بھکشو سجدے میں گیا تو اس کا ماتھا دھڑ سے ٹھنڈے سخت پتھر پر لگا اور ایک پل میں اس کی تپسیا، اس کی شردھا اور اس کی پوجا اور اس کی اہنسا کا بھرم کھل گیا اور مسافر کو مارنے کے لیے اس کے پیچھے دوڑا مگر اس عرصے میں مسافر نے مورتی استھان کے پاس سے گھڑیال بجانے کی ایک لوہے کی موگری اٹھالی تھی اور اس سے وہ مورتی پر چڑھے ہوئے پیلی دھات کے خول کو توڑ رہاتھا۔ بدھ کو سونے کی قید سے آزاد کر رہا تھا۔

    کتنے ہی بھکشو، پہرے دار یاتری مسافر کے پیچھے دوڑے لیکن وہ ان کے ہاتھ نہ آیا۔ چھلاوے کی طرح غائب ہوگیا اور جب اس کا پیچھا کرنے والے مندر سے باہر نکل کر بھاگے تو انہوں نے دیکھا کہ دروازے کے دونوں طرف جو سنگ مرمر کی تختیاں لگی تھیں، جن پر چندہ دینے والے سیٹھوں کےنام اور ان کے چندے کی رقمیں لکھی ہوئی تھیں، ان کو کوئی پاگل اس طرح چکناچور کرگیا ہے کہ اب نہ سیٹھ کروڑی مل پکوڑی مل کا نام پڑھا جاتا ہے اور نہ ان کی دان دی ہوئی سو روپے کی رقم۔

    ’’بالکل پاگل ہے مہاراج‘‘ بھکشوؤں نے مندر کے منیجر کو رپورٹ کی جو اپنے رجسٹر میں دان کی رقموں کا حساب کتاب لکھ رہاتھااور پہرے دار بولا، ’’بڑا کھترناک پاگل ہے مہاراج، مورتی پر چڑھے ہوئے سونے کو ٹکرے ٹکرے کر گیا اور خود اس میں سے ایک ٹکرا بھی اٹھا کر نہ لے گیا۔۔۔ بالکل پاگل، مہاراج!‘‘

    (۴)

    ’’مہاراج!‘‘ایک آواز آئی مگر مسافر نے مڑ کر نہ دیکھا۔ ’’شریمان!‘‘وہی آواز پھر آئی مگر اب بھی اس نے ادھر کوئی توجہ نہ کی۔ بازار میں شام کے وقت بہت بھیڑ تھی۔ کھوے سے کھوا چھلتا تھا۔۔۔ ہو سکتا ہے کسی اور ہی کو آواز دے رہا ہو۔

    ’’او بھائی صاحب!‘‘

    ’’اے مسٹر!‘‘

    ’’اجی سنیے تو!‘‘

    ’’ارے او۔۔۔!‘‘

    ’’اے۔۔۔!‘‘

    اور اس آخری ’’اے‘‘ میں اتنا زور تھا کہ مسافر ٹھٹک کر رک ہی گیا۔ پیچھے مڑ کردیکھا تو ایک آدمی سفید کرتا دھوتی اور اونی بنڈی پہنے، بالوں میں تیل ڈالے، ماتھے پر چندن لگائے اس کاپیچھا کر رہاہے۔

    ’’کیا ہے بھائی؟‘‘

    ’’تم بنارس میں آج ہی آئے ہو لگتا ہے! کیوں ٹھیک ہے نا؟‘‘

    ’’آپ ٹھیک کہتے ہیں، میں ہمیشہ سے بنارس ہی میں رہتا آیا ہوں، مگر اس وارانسی میں آج پہلی بار آیا ہوں۔‘‘

    ’’کیا ہے وہاں؟‘‘

    ’’ارے بھگوان کے درشن ہوں گے۔‘‘

    ’’کیوں بھگوان یہاں نہیں ہیں کیا، وہاں قید کر رکھا ہے کسی نے؟‘‘

    ’’ارے نہیں، وہاں شیو بھگوان کی مورتی ہے، اس کے درشن کرنا پوجا کرنا۔‘‘

    مسافر نے کہا، ’’اگر پتھر پوجنے سے ہی بھگوان ملتا ہے تو چکی کی پوجا کیوں نہ کروں جو آٹا پیس کر انسانوں کا پیٹ بھرتی ہے۔‘‘

    ’’ارے نہیں، یہ پتھر کی نہیں، سونے کی مورتی ہے۔ مندر کے کلس پر چھبیس من سونا چڑھا ہوا ہے۔‘‘

    ’’مجھے بھگوان کی مورتی نہیں دیکھنی۔ نہ پتھر کی نہ سونے کی۔ میں تو بھگوان کو ہرروز، ہر گھڑی، ہر پل دیکھتا ہوں۔‘‘

    چکنے بالوں والا سمجھا، یہ بڈھا اس سے مخول کر رہا ہے۔ سو وہ بولا، ’’ کیوں بڑے میاں بھلا بھگوان کو کہاں کہاں دیکھا ہے تم نے؟‘‘

    مسافر نے جواب دیا، ’’میں نے بھگوان کو گلی میں بھیک مانگتے دیکھا ہے۔۔۔ میں نے بھگوان کو پھٹی قمیص پہنے سردی میں ٹھٹھرتے دیکھا ہے۔ میں نے بھگوان کو شراب خانے میں دیکھا ہے۔ وہ شراب میں ہے، شراب کی بھٹی میں بھی ہے، وہی شراب بناتاہے وہی پلاتا ہے، وہی پیتا ہے، وہی صراحی ہے، وہی پیالہ ہے، وہی متوالا ہے۔‘‘ مسافر ابھی بول ہی رہا تھا کہ وہ چکنے بالوں والا گھبراکر وہاں سے چلتا بنا۔ وہ سوچ رہا تھا۔ ’’ باپ رے میں بھی کس پگلے کے پلے پڑگیا۔‘‘

    مسافر آگے چلا تو ایک اور پنڈا اسے ملا۔ وہ بولا، ’’مہاراج لگتاہے، آج ہی آپ اس پوتر بھومی میں پدھارے ہیں۔ چلو تمہیں گنگاجی میں اشنان کروالاؤں!‘‘ مسافر نے پوچھا، ’’کیوں، گنگا میں اشنان کرنے سےکیا ہوتا ہے؟‘‘

    ’’جیون کے سب پاپ دھل جاتے ہیں۔ ایک بار گنگا اشنان کروگے، سیدھے سورگ میں جاؤگے۔‘‘ مسافر نے ایک پل سوچ کر جواب دیا، ’’کیوں شریمان، جو کوئی بھی گنگا نہائے وہ سچ مچ سورگ میں جاتا ہے؟‘‘پنڈے نے کہا، ’’بالکل سیدھا سورگ میں جاتا ہے!‘‘اورمسافر بولا، ’’تو پھر تو سب دھوبی اور دریا کے سب کچھوے سیدھے سورگ جانے چاہئیں۔‘‘

    ’’پاگل ہے بیچارہ۔‘‘ پنڈے نے سوچا اور کسی اور شکار کی تلاش میں چل پڑا۔ گھومتے گھومتے مسافر اب شمشان گھاٹ پر پہنچ گیا۔۔۔ جہاں اس نے دیکھا کہ لکڑی کے ڈھیروں پر چتائیں جل رہی ہیں۔ ان پر گھی اور تیل ڈالا جارہاہے۔ شعلے بھڑک رہے ہیں۔ برہمن اشلوک پڑھ رہے ہیں۔ مرنے والے کے رشتہ دار برہمنوں کو دان دے رہے ہیں۔ مسافر نے ایک آدمی سے پوچھا جو جلتی ہوئی لکڑیوں کو الٹ پلٹ کر رہا تھا، ’’کیوں بھائی کیا حال ہے؟‘‘

    ’’دھندا بڑا مندا ہے آج کل بھائی!‘‘ مسافر نے پوچھا، ’’کون سا دھندا؟‘‘

    ’’یہی کریا کرم کا دھندا۔ نہ جانے کیا ہوگیا ہے؟ لوگوں نے مرنا ہی کم کردیا ہے۔ کہاں دس برس پہلے روز سو ڈیڑھ سو لاشیں آتی تھیں۔ اب مشکل سے پچیس تیس آتی ہیں۔ پہلے سارے دیش کے کونے کونے سے لوگ یہاں مرنے آتے تھے۔ اب اَدھرم پھیل رہا ہے اور کتنے ہی لوگ اپنے گھر میں مرنا ہی پسند کرتےہیں۔‘‘ مسافر نے ہمدردی کا اظہار کیا، ’’بڑا افسوس ہے بھائی۔ پھر بھی بھگوان پر بھروسہ رکھو وہ سب کا پالن ہار ہے۔‘‘

    اتنے میں مسافر نے دیکھا کہ ایک بوڑھا آدمی اکیلا اپنے بازوؤں پر کفن میں لپٹی ہوئی ایک لاش اٹھائے چلا آرہا ہے۔ کوئی ارتھی کو کندھا دینے والا نہیں ہے۔ مسافر نےبوڑھے کے پاس جاکر کہا، ’’تم تھک گئے ہوگے، لاؤ لاش کو مجھے دےدو!‘‘بوڑھےکی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔ لاش کو مسافر کے سپرد کرتے ہوئے وہ بولا، ’’ذرا سنبھال کے بھائی۔ میرا اکلوتا بیٹا ہے۔‘‘ اس کے لیے وہ اب تک ’’ہے‘‘ ’’تھا‘‘ نہیں ہوا تھا۔ اب وہ دونوں گھاٹ کے کنارے ایک جگہ پہنچے، جہاں لوہے کے کٹہرے کے پاس لکڑیوں کاایک ڈھیرلگا ہوا تھا۔

    ’’اے اے!‘‘ایک پانڈا چلاتا ہوا آیا، ’’تم لوگ ادھر کیسے آئے؟ یہ راجوں مہاراجوں کے کریا کی جگہ ہے۔ یہاں انتم سنسکار کرنے کے پانچ سو روپے ہوتے ہیں۔‘‘

    ’’پانچ سو روپے!‘‘مسافر نے دہرایا، ’’موت بھی اتنی مہنگی ہوگئی ہے!‘‘

    ’’ہاں ہاں، جانتے ہو، یہ چندن کی لکڑی ہے۔ راجوں مہاراجوں کے لیے منگائی جاتی ہے۔ جاؤ ادھر کے گھاٹ پر جاؤ۔ ‘مگر دوسری طرف دوسرے پہریدار کھڑے تھے۔ موت کے محل کے چوکیدار۔

    ’’چالیس روپے کی تو لکڑی ہی آئے گی۔‘‘ ایک نے کہا، ’’روپے نکالو۔‘‘

    ’’پانچ روپے کا گھی۔‘‘ دوسرے نے ہاتھ بڑھایا۔

    ’’پانچ روپے پنڈت کو دان‘‘تیسرے نے اپنی مٹھی کھولی۔

    ’’کل پچاس روپے ہوں گے۔‘‘ چوتھے نے حساب بتلادیا۔

    ’’مگر سواروپیہ ٹھیکیدار کو دینا ہوگا۔‘‘

    ’’ٹھیکیدار!‘‘مسافر نے حیرت سے کہا، ’’کیا کسی نے موت کا ٹھیکہ بھی لیا ہوا ہے؟‘‘

    ’’ہاں، ہاں، ٹھیکیدار کو سوا روپےدیے بنا یہاں کوئی کریا نہیں کرسکتا۔‘‘

    دوسرے نے کہا، ’’نہیں ہیں تو گھر کا راستہ لو۔‘‘

    چوتھے نے لاٹھی پٹختے ہوئے کہا، ’’چلو جلدی کرو۔ دھندے کا ٹائم ہے۔‘‘

    اور بوڑھا جس کی آنکھوں سے آنسوؤں کی گنگاجمنا جاری تھی۔ اس نے مسافر کی طرف دیکھ کر کہا، ’’میرے پاس تو کچھ بھی نہیں، جو تھا وہ اس کی دوا دارو پہ لگادیا۔‘‘

    اتنےمیں کسی امیر آدمی کی ارتھی آئی۔ سیکڑوں آدمی ساتھ میں بینڈ باجہ، ہار پھول، لگتا تھا کسی کی برات ہے۔ موت کے سب ٹھیکیدار ادھر بھاگے۔

    اب یہ تین اکیلے رہ گیے۔ مسافر، بوڑھااور بوڑھے کےجوان بیٹے کی لاش۔ مسافر نے دیکھا کہ لکڑی کے ایک بڑے ڈھیرپر ایک چتا جل رہی ہے اور اس کے پاس کوئی نہیں ہے کیونکہ سب بینڈباجے والی ارتھی کو دیکھنے چلے گیے ہیں۔ اس نے ایک پل کے لیے کچھ سوچا اور اس کے بعد دبے پاؤں جلتی چتا کے پاس گیا اور وہاں بوڑھے کے لڑکے کی لاش کو جلنے کے لیے رکھ دیا۔ چند ہی لمحوں میں ایک کے بجائے دو لاشیں جل رہی تھی۔

    بوڑھے نے کہا، ’’دھنیہ واد بھائی۔‘‘ اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا اور اس کے رونے کی آواز سن کر موت کے کئی ٹھیکیدار ادھر دوڑ کر آئے اور جب انہوں نے دیکھا کہ ایک لاش کو بغیر فیس دیے جلادیا گیا تو انہوں نے لاٹھیاں سنبھال لیں۔

    ’’کس نے بے اجازت یہ لاش اس چتا پر رکھی؟‘‘

    ’’میں نے!‘‘مسافر نے کہا۔

    ’’تو نکالو اکیاون روپے۔‘‘ ایک نے کہا۔ دوسرے نےیاد دلایا، ’’اور پچیس نئے پیسے!‘‘

    ’’پیسے ہمارے پاس نہیں ہیں!‘‘مسافر نے کہا۔

    ’’تو پھرہم اس لاش کو چتا پر سے اٹھاکر دریا میں بہادیں گے۔‘‘

    مسافر نے بڑی نرمی سے کہا، ’’وہ اب بھی مردہ ہےاور جب بھی مردہ رہے گا۔ جلنے نہ جلنے سے اس کی آتما کو کوئی فرق نہیں پڑنے والا مگر اس کے بوڑھے باپ کو دکھ ہوگا۔۔۔‘‘ اور پھر اس کی آواز میں ایک سختی کا انداز آگیا، ’’سو میں یہ نہ ہونے دوں گا۔‘‘ اور وہ چتا اور موت کے ٹھیکیداروں کے بیچ میں کھڑا ہوگیا۔

    ’’ہم تمہیں بھی اس آگ میں جھونک دیں گے بڑے میاں۔‘‘

    ’’جھونک دو۔ میں اب جلنے، ڈوبنے، مرنے کے خطروں سے ہمیشہ کے لیے آزاد ہوچکا ہوں۔ مگر تم میں سے کم از کم ایک کو میں اپنے ساتھ اس آگ میں گھسیٹ لے جاؤں گا۔‘‘

    لٹھیل اس کی طرف بڑھنے ہی والا تھا کہ ایک آدمی نے چلاکر کہا، ’’ارے اس کے پاس نہ جانا۔ یہ تو پاگل ہے۔ بڑا خطرناک پاگل ہے۔ اسی نے آج بازار میں سیٹھ کروڑی مل پکوڑی مل کا دوشالہ اتار لیا۔ اب سنا ہے سارناتھ میں جاکر بھگوان بدھ کی مورتی توڑ ڈالی۔ پولیس اور پاگل خانے والے سارے شہر میں اس کی ڈھندیا مچارہے ہیں۔ ایک اور آدمی نے ہاں میں ہاں ملائی۔ ’’تم ٹھیک کہتے ہو۔ میں نے بھی یہی سنا ہے۔ پاگل آدمی کاکیا ٹھیک، آگ میں کود پڑے اور ساتھ کسی اور کو بھی لےمرے۔ میں نے تو سنا ہے پولیس شکاری کتے لے کر اس کا پیچھا کر رہی ہے۔‘‘ سو لٹھیل پیچھے ہٹ گیے اور بوڑھے کے نوجوان بیٹے کی لاش جل گئی اور جب چتا کے شعلے مدھم پڑے تو سب نے دیکھا کہ وہ پگلا غائب ہے اور بوڑھا اکیلا کھڑا اپنے بیٹے کی راکھ کرید رہا ہے۔

    ’’چلو چلو!‘‘ایک نے کہا، ’’تھانے میں رپورٹ کریں کہ پگلا اِدھر ہی کہیں گھوم رہا ہے۔‘‘

    تھانیدار صاحب نے بڑے غور سے ان کی رپورٹ کو سنا اور پھر ٹیلی فون اٹھاکر نمبر ملایا۔ ۸۔ ۶۔ ۰۔ ۴۔

    (۵)

    جاڑے کی رات اندھیری تھی۔ کالے آسمان میں ستارے ایسے جھلملارہے تھے جیسے جھک کر دیکھنا چاہتے ہوں، نیچے زمین پر کیا ہو رہا ہے۔ ٹھٹھری ہوئی سنسان سڑکوں پر پولیس کے شکاری کتے ایک پاگل کی تلاش کر رہے تھے، جس نےایک دن میں سارے شہر کو تہ و بالا کردیا تھا۔ ایک اجاڑ سنسان مندر میں پجاری دروازہ بند کر رہاتھا کہ اس نے ایک پرچھائیں دیکھی۔

    ’’کون ہے؟‘‘ اس نے ڈانٹ کر کہا۔ کیونکہ اسے ڈر لگ رہا تھا۔

    ’’میں ایک مسافر ہوں۔ رات کے لیے ٹھکانا چاہتا ہوں۔ آگیا ہو تو مندر میں لیٹ رہوں؟‘‘

    ’’کون جات ہو؟‘‘

    ’’مَنُشّیہ جات ہوں، مہاراج!‘‘

    ’’وہ جاتی ہم نہیں جانتے۔۔۔ دھرم کیا ہے؟ ہندو تو ہونا؟‘‘

    مسافر نے کئی پل سوچ کر گزارے۔ پھر بولا، ’’نہیں مہاراج، میں جھوٹ نہیں بولوں گا۔ میں ہندو نہیں ہوں۔‘‘

    ’’پھر کیا ہو؟‘‘

    ’’انسان!‘‘

    ’’تو پھر جاؤ۔۔۔ انسانوں کا کوئی مندر کھوجو۔‘‘ اور مسافر وہاں سے چل کھڑا ہوا۔

    مسجد کا ملا عشاء کی نماز پڑھ کر اپنے حجرے میں جارہا تھا کہ اس نے دیوار کے پاس ایک سایہ دیکھا، ’’اے کون ہے؟‘‘

    ’’میں ہوں۔ ایک مسافر!‘‘

    ’’کیا چاہتے ہو؟‘‘

    ’’رات بھر کے لیے ٹھکانا ، بہت تھک گیا ہوں مولوی جی۔‘‘

    ’’تم کون ہو؟ مسلمان ہو نا؟‘‘ایک بار پھر مسافر نے جواب دینے سے پہلے توقف کیا، ’’جی نہیں۔ سچ بات یہ ہے کہ میں مسلمان نہیں ہوں۔‘‘

    ’’تو پھر کیا ہو؟‘‘

    ’’انسان ہوں!‘‘جواب میں ملا نے دروازہ بند کردیا۔

    اور اب رات تھی۔ اندھیرا تھا۔ سناٹا تھا۔ برفیلی سرد ہوا تھی اور ایک مسافر تھا۔ بے ٹھکانا۔ اور دور سےشکاری کتوں کے بھونکنے کی آوازیں قریب آرہی تھیں۔ ستاروں کی روشنی میں ایک سفید سفید عمارت جھلملائی۔ پاس ہی چند لوگ الاؤ جلاکر ہاتھ تاپ رہے تھے۔

    ’’کیوں بھائی یہ عمارت کیا ہے؟ ایک طرف سے مسجد لگتی ہے، ایک طرف سے مندر۔‘‘

    ’’جی یہ مسجد بھی تھی اور مندر بھی۔ اکبر بادشاہ کے زمانےمیں اسے بنایا گیا تھا کہ ہندو مسلمان سب دھرم والے ایک ہی جگہ اپنی اپنی عبادت یا پوجا پاٹھ کیا کریں۔ پھر اورنگ زیب نے اسے توڑ کر مسجد بنادیا۔ بعد میں کسی راجہ نے اسے مندر بنادیا۔‘‘

    ’’اور اب یہ کیا ہے؟‘‘مسافر نے پوچھا۔

    ’’اب یہ نہ مندر ہے نہ مسجد۔ کچھ بھی نہیں ہے۔‘‘

    ’’بس تو میرے جیسے آدمی کے لیے جو سب کچھ ہے اور کچھ نہیں ہے۔ جو ہر جگہ ہے اور کہیں نہیں ہے۔ یہی جگہ ٹھیک ہے۔‘‘

    ابھی وہ اس عمارت کے باہر ہی تھا کہ شکاری کتوں کی آواز قریب آگئی۔ بہت قریب۔

    (۶)

    تھانےمیں سب انسپکٹر پولیس نے پوچھا، ’’اے بڈھے تمہارانام؟‘‘مسافر نے اپنا نام بتادیا۔

    ’’کام کیا کرتے ہو؟‘‘ پہلے بنکرتھا۔ جسے آپ بڑے لوگ جلاہا بھی کہتے ہیں۔۔۔ کپڑا بنا کرتا تھا اور پریم کے تانے اور گیان کے بانے سے سچائی کی چادر بننےکی کوشش کرتاتھا۔ پر میرا کرگھا تو کب کا ٹوٹ گیا۔ اسی کی تلاش میں آیا تھا کہ شاید کسی اور کو مل گیا ہو اور میرا کام کر رہا ہو۔۔۔ مگر آپ نے وقت ہی نہیں دیا۔‘‘

    ’’سچ مچ پاگل ہے۔‘‘ سب انسپکٹر نے اپنے حوالدار سے کہا، ’’ابھی بھیج دیتے ہیں، نہیں تو رات کو نہ جانے یہاں کیا گل کھلائے۔‘‘

    تو پھر اس نے ٹیلیفون اٹھایا اور ڈائل گمایا۔

    چار۔

    صفر۔

    چھ۔

    آٹھ۔ ۸۔ ۶۔ ۰۔ ۴

    ادھر سے آواز آئی، ’’ہیلو! ہم پاگل خانے سے بول رہے ہیں۔‘‘ اور سب انسپکٹر نے کہا، ’’ارے بھئی، وہ بنارس کاٹھگ پکڑا گیا۔ ٹھگ وگ نہیں ہے۔ بڈھا بالکل پاگل لگتا ہے۔ سو اسے بھیج رہے ہیں، کرپا کرکے ابھی داخلہ کرلو۔‘‘

    ادھر سے آواز آئی، ’’نام؟ نام کیا ہے؟‘‘

    سب انسپکٹر نے کہا، ’’نام ہے کبیرا۔‘‘ اور فون رکھ دیا مگر مسافر وہاں سے جاچکا تھا۔

    مأخذ:

    خواجہ احمد عباس کے منتخب افسانے (Pg. 92)

      • ناشر: سیمانت پرکاشن، نئی دہلی
      • سن اشاعت: 1988

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے