Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

دانتوں میں گھری زبان

علی امام نقوی

دانتوں میں گھری زبان

علی امام نقوی

MORE BYعلی امام نقوی

    کہانی کی کہانی

    یہ کہانی تقسیم کے بعد ہندوستان میں رہ گئے مسلمانوں کی حالات کا جائزہ لیتی ہے۔ تقسیم میں وہ خاندان ایک طرح سے بکھر گیا تھا۔ بڑے بھائی پاکستان چلے گیے تھےجبکہ چھوٹے بھائی نے ہندوستان میں ہی رہنے کا فیصلہ کیا تھا۔ سالوں بعد بڑا بھائی چھوٹے بھائی سے ملنے آتا ہے اور انہیں ہندوستان میں غیر محفوظ ہونے کا احساس دلاتے ہوئے اپنے ساتھ چلنے کے لیے کہتا ہے۔ مگر چھوٹا بھائی اس کی تجویز کو خارج کرتے ہوئے کہتا ہے وہ ہندوستان میں اسی طرح محفوظ ہے جیسے بتیس دانتوں کے درمیان زبان۔

    اس نے پورے زینے بھی طے نہیں کیے تھے کہ پڑوس کی بیوہ کے چھ سالہ بچے نے اپنے معصوم لہجے میں اسے اس کے بھائی کی آمد سے مطلع کیا۔

    ’’بھیا۔۔۔!‘‘

    اس کے لہجےکا تحیر اس کے عدم اعتماد کی گواہی دے رہا تھا مگر بچے نے اثبات میں سر کو جنبش دے کر اسے اطمینان دلایا اور پھر آگے بڑھ گیا۔

    ’’بھیا۔۔۔!‘‘

    اس کے ہونٹ لرزے اور بےاختیار اس کی آنکھیں بھر آئیں، بھیگی ہوئی آنکھیں لیے وہ ایک سانس میں بقیہ تمام زینے طے کر گیا۔ چال کی گیلری بھی اس نے دوڑتے ہوئے ہی طے کی اور پھر دروازے کے سامنے پہنچتے ہی دیوانہ واراپنے بڑے بھائی کو پکارنے لگا۔ برابر کے کمرے سے اس کا بڑا بھائی اس کی آواز سن کر مسکراتے ہوئے نکلا، لمحہ بھر کو دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھا اور پھر دونوں آگے بڑھ کر ایک دوسرے سے بغل گیر ہوگئے ۔ بڑے بھائی کا چہرہ خوشی سےدمک رہا تھا اور چھوٹا رو رہا تھا۔

    ’’ارے۔۔۔ تو تو اب بھی اتنا ہی چھوٹا ہے! تجھے یاد ہے جب میں جا رہا تھا تب بھی تو اسی طرح لپٹ کر رو رہا تھا۔۔۔ مجھے یاد ہے! امی نے چاہا تھا میں نہ جاؤں۔۔۔ انہوں نے تیرے رونے کا۔۔۔ ‘‘

    ’’ہاں مجھے یاد ہے۔۔۔ آپ کی جدائی کا زخم زیادہ پرانا نہیں۔‘‘ چھوٹا بات کاٹ کر کہتا ہے۔ ’’ابھی کل ہی تو گئے تھے! یہی کل۔۔۔ جو گزرا ہے۔‘‘

    کل جب وہ اور میں اپنے مشترکہ دشمن سے لڑ رہے تھے تب متحد تھے اور جب ہم نے اپنے اتحاد اور خود دشمن کے جبر و تشدّد اور اس کی اپنی سرمایہ دارانہ حیثیت کے باعث اسے ذلت آمیز شکست سے دوچار کیا تھا تب ہمیں پتہ چلا تھا کہ ہم اب نہیں رہے بلکہ ہمارے درمیان ایک خطِ امتیاز کھینچ دیا گیا ہے۔ وہ اب وہ ہے۔۔۔! اور میں۔۔۔ صرف میں ہو گیا ہوں! یہ خطِ امتیاز کس نے کھینچا؟ میں وہ اور میں کا فرق کون سمجھا گیا؟ اس گتھی کو سلجھانے میں آج بھی میں مصروف ہوں اور خود وہ بھی اس معمّے کے اشارے کھوج رہا ہے۔ اپنی اس مہم میں نہ میں رہا ہوں اور نہ ہی وہ۔ مقتدر اور صاحب فہم شخصیتیں اس گتھی کو سلجھانے میں آج بھی میرے ساتھ مصروف ہیں کہ اس الجھن کی وجہ سے ہم مسلسل خسارے میں ہیں اور بڑی بڑی ذی علم ہستیاں وہاں بھی سر جوڑکر اس مسئلے کا حل دریافت کرنا چاہتی ہیں تاکہ ہم ان سے کٹ کر علیحدہ نہ رہ جائیں لیکن ہزار کوششوں کے باوجود اونٹ کسی ایک کروٹ نہیں بیٹھتا، کبھی دائیں کبھی بائیں اور اس دائیں بائیں رخ بدلنے میں بہت سی زندگیاں حشرات الارض کی مانند پس جاتی ہیں۔

    ’’ارے۔۔۔ پاگل۔ اب بھی روئے جا رہا ہے چل چپ ہوجا۔ دیکھ دلہن دیکھےگی تو کیا سوچےگی؟‘‘بڑے نے چھوٹے کی کمر سہلاتے ہوئے کہا۔ بڑی مشکل سےچھوٹے نے اپنی ہچکیاں روکیں۔ اس اثنا میں دلہن ہاتھوں میں چائے کی ٹرے اٹھائے کچن سے برآمد ہوئی۔ دو منٹ دونوں ہی چائے کے چھوٹے چھوٹے سپ لیتے رہے تھے۔ دو تین سپ لینے کے بعد بڑے نے پیالی پرچ پر رکھتے ہوئےچھوٹے سے کہا، ’’ہاں ایک بات تو بتا۔۔۔ یہ تونے امّی کے انتقال کی خبر مجھے کیوں نہیں دی؟‘‘

    ایک مرتبہ پھر چھوٹے کی آنکھیں بھر آئیں۔ اس نے اپنی آبدیدہ نظروں سے اپنی بیوی کی طرف دیکھا، بیوی نے ان نظروں کا مفہوم سمجھ کر سر جھکا لیا اور کچن کی طرف لوٹ گئی۔

    ’’اگر تو ان کی بیماری کی اطلاع دے دیتا تو مجھے ویزا ملنے میں سہولت ہو جاتی۔۔۔ میں ان کی زندگی میں ہی آ جاتا۔۔۔ اب دیکھ کتنی پینترے بازیوں کے بعد ویزا ملا ہے۔ یوں سمجھ کہ اس کے حصول کے لیے جھوٹ اور مکر کا جوا تک کھیلنا پڑا ہے مجھے!‘‘

    ’’جوا۔۔۔؟‘‘

    ’’ہاں جوا!‘‘

    ’’وہ تو اس بستی والے شروع سے کھیل رہے ہیں۔ مجھے یاد ہے گول میز پر بھی جوا ہی کھیلا گیا تھا۔ شملہ کی بلندی پر سیاہ اور سفید کا سنگم ہوا تھا اور لمبی سیاہ میز پر جوا ہی ہوا تھا۔ وہ دونوں آمنے سامنے بیٹھے تھے اور ایک محافظ۔۔۔ جوئے کے قواعد کی موٹی سی کتاب سامنے رکھے ان کی نگرانی پر مامور تھا۔ دونوں جواری مطمئن تھے کہ جیت میرے حصے میں نعمت بن کر آئےگی اور یہی یقین و اطمینان دونوں کو ایک دوسرے پر فقرے کسنے پر مجبور کر رہا تھا۔‘‘

    ’’اس سے پہلے کہ شکست آپ کا مقدّر بنے، آپ پتے میز پر رکھ کر با عزت طریقے سے اپنی ہار تسلیم کر لیجئے۔‘‘

    ’’ہار اور عزت دو متضاد باتیں ہیں۔ کھیل جب شروع ہو ہی چکا ہےتو ان کا فیصلہ بھی ہوگا، ہار اور جیت تو لازمی امر ہے۔‘‘

    ’’مجھے ڈر ہے، ہار کی صورت میں آپ کے اپنے آپ کو کتوں کی طرح جھنجھوڑیں گے۔‘‘

    ’’انہیں کیا ملےگا؟ مجھے دیکھ رہے ہو۔۔۔ ان کے اپنے ہی دانت ٹوٹ کر رہ جائیں گے۔ لیکن تمہاری قابلِ رشک صحت پر رحم آتا ہے۔‘‘

    اور ا س کے بعد دبلے پتلے بجوکا سے آدمی نے پتے میز پر ڈال دیے تھے۔ شیروانی والے کی آنکھیں پھیل گئی تھیں اور اس جوئے کا نگراں خود حیرت میں ڈوب گیا تھا۔

    ’’اس فیصلے کے بعد ہم ، ہم نہ رہے۔۔۔ وہ اور میں میں تقسیم ہو گئے۔ میں فتح یاب ہوکر بھی مزید مراعات کا مطالبہ کر رہا تھا اور وہ اپنی شکست تسلیم کرنے پر آمادہ نہ تھے۔ بات تو تو میں میں سے چلی اور نوبت خون خرابے تک جا پہنچی۔ خون خرابہ لاٹھیوں سے بلوں سے اور پھر طمنچے اور پستول سے بھی! فرعون کون ہے، اس کی شناخت کی ضرورت ہی نہ رہی۔ وہ ’’میں‘‘بھی ہو سکتا تھا۔ ’’میں‘‘ وہ بھی لیکن ایسا تو کچھ بھی نہیں ہوا تھا۔ وہ ’’وہ‘‘ہی رہا اور میں صرف ’’میں۔‘‘ ایک خون کا دریا تھا جو ’’ہمارے‘‘ گلوں سے نکلا تھا اور ہمارے سروں سے گذر جانا چاہتا تھا۔ اس کے علاوہ ہر سو دھواں ہی دھواں تھا۔ لوگ دوڑے چلے جا رہے تھے۔ گرتے پڑتے، عجیب افرا تفری کا عالم تھا۔ مجھے یاد ہے!خوب یاد ہے! آپ کو ۔۔۔ آپ کو یاد ہےبھیّا؟ آپ بھی تو۔۔۔ ‘‘

    وہ پھر سسک پڑا۔ سر کو دائیں شانے پر جھکاکر اس نے اپنی آنکھیں خشک کر لیں۔

    ’’ہاں مجھے یاد ہے!امی کے شدید اصرار کے باوجود میں نہیں رکا تھا۔ ایک سنہرے مستقبل کا نظر فریب خواب آنکھوں میں سجائے میں بھی لاشوں کو روندتا ہوا وہاں پہنچا تھا۔ دسیوں بیسیوں شاید ہزاروں۔۔۔ نہیں، نہیں لاکھوں زندگیوں کی قربانیوں کے بعد ہم نے اس پار جاکر ایک بستی آباد کی۔۔۔ یہ بستی خدا کا عطیہ تھی۔ وہاں ہم نے نقل مقانی اور آباد کاری کی پہلی سالگرہ کاجشن بڑے اہتمام سے منایا، رفتہ رفتہ یہ جشن ایک روایتی شکل اختیار کرتا چلا گیا۔۔۔ مگر جن سپنوں کو آنکھوں میں لئےمیں نےتمہیں اور امی کو روتا بلکتا چھوڑا تھا، وہ دوڑتے بھاگتے کہیں راستے ہی میں ٹوٹ کر بکھر گئے تھے، ہزاروں لاکھوں انسانی لاشوں کی طرح۔‘‘

    ’’پھر آپ کو وہاں جانے پر کیا ملا؟‘‘ چھوٹے کے استفسار پر بڑا چند لمحوں کے لیےخاموش ہو جاتا ہے۔ اس کا سر جھکتا ہے اور آواز بلند ہوتی ہے۔

    ’’تحفظ کا احساس!جو تمہیں یہاں میسر نہیں۔۔۔ ابھی میں نے یہاں آتے ہوئے اپنے کانوں سے سنا کہ یہاں کی اکثریت تمہیں آج بھی قابل اعتماد نہیں سمجھتی۔ وہ آج بھی تم سے وفاداری کا ثبوت طلب کرتی ہے۔‘‘

    ’’ہاں!بات تو درست ہے۔۔۔‘‘ چھوٹا سوچتا ہے۔۔۔ ہم دونوں ہی ایک دوسرے کو اس طرح چونک کر دیکھتے ہیں جیسے ہم میں سے ایک بھی دوسرے پر اعتماد کرنے کو تیار نہ ہو۔ ایسے ہی ایک روز میں نے جب اسے چونک کر دیکھا تب اس نے جز بز ہوتے ہوئے مجھ سے سوال کیا؟

    ’’یہ تم چونک چونک کر مجھے کیوں دیکھا کرتے ہو؟‘‘

    ’’میرا اعتماد زخمی جو ہو گیا ہے۔‘‘

    ’’وشواس تو میرا بھی گھائل ہوا ہے!‘‘

    ’’کیا میرے ہاتھوں؟‘‘

    ’’نہیں، تمہارے اپنوں کے ہاتھوں اور تمہارا اعتماد۔۔۔؟‘‘

    وہ جان بوجھ کر فقرہ ادھورا چھوڑ کر بڑے کی طرف دیکھنے لگتا ہے۔ بڑا زہر خند لہجے میں چھوٹے کو مخاطب کرتا ہے۔

    ’’آؤ چلو، ان میں اتنی اخلاقی جرات نہیں کہ یہ اپنے مظالم کا اعتراف کریں۔‘‘

    ’’پھر وہی پرانا سبق۔‘‘

    ’’میں تمہاری طرح بزدل ہوں، مجھے ان کے مظالم کی پوری فہرست زبانی یاد ہے!‘‘

    ’’بھیا پلیز۔‘‘

    ’’ارے کیا پلیز پلیز کر رہا ہے! کیا اب تجھ میں بھی اخلاقی جرات نہیں رہی۔‘‘

    چھوٹا تڑپ کر رہ جاتا ہے۔ چند لمحے وہ بڑے کے سراپا کو ترحم آمیز نظروں سے دیکھتا ہے اور پھر آہستہ سے سر جھکاکر کہتا ہے۔

    ’’نہیں، یہ بات نہیں ہے۔ مجھ میں جرات بھی ہے اور اخلاق بھی، اس وشال دھرتی پر میرا وجود میری جرات کا منہ بولتا ثبوت ہے اور یہ اخلاق ہی کا کرم ہے کہ میں آپ کو چاہتے ہوئے بھی بھگوڑا نہیں کہہ پا رہا ہوں۔ جب کہ سچ تو یہ ہے کہ آپ اپنے کو ان سے غیر محفوظ جان کر اور ان سے ڈر کر بھاگے تھے۔ حیرت ہے۔۔۔ آج برسوں گزرنے کے بعد بھی آپ بھاگنے پر فخر کرتے ہیں، اپنے کو جری کہتے ہیں جبکہ جری تو ہم ہیں، کیونکہ بتیس دانتوں کے درمیان زبان کی طرح رہتے ہیں!‘‘

    بڑا کبیدہ خاطر ہوکر منھ پھیر لیتا ہے۔ سر اس کا بھی جھک جاتا ہے اور سر چھوٹے کا تو پہلے ہی سے جھکا ہوا تھا۔

    مأخذ:

    اردو کے بہترین افسانے (Pg. 91)

      • ناشر: اسٹار پبلیکبشنز، دہلی
      • سن اشاعت: 1986

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے