- کتاب فہرست 185975
-
-
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
-
ادب اطفال1973
طرز زندگی22 طب917 تحریکات298 ناول4769 -
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
- بیت بازی13
- اشاریہ5
- اشعار64
- دیوان1460
- دوہا48
- رزمیہ108
- شرح199
- گیت60
- غزل1183
- ہائیکو12
- حمد46
- مزاحیہ36
- انتخاب1596
- کہہ مکرنی6
- کلیات691
- ماہیہ19
- مجموعہ5046
- مرثیہ384
- مثنوی836
- مسدس58
- نعت559
- نظم1245
- دیگر76
- پہیلی16
- قصیدہ189
- قوالی18
- قطعہ63
- رباعی296
- مخمس17
- ریختی13
- باقیات27
- سلام33
- سہرا9
- شہر آشوب، ہجو، زٹل نامہ13
- تاریخ گوئی30
- ترجمہ74
- واسوخت26
علی امام نقوی کے افسانے
پاسا
"کہانی مذہبی انتہا پسندی کے ایسے گروہ کے بارے میں بات کرتی ہے، جو ایک مصنف کو تاریخ کو دوبارہ لکھنے کا مشورہ دیتا ہے۔ اس تجویز پر گروہ کے لوگوں اور مصنفین کے درمیان کافی بحث مباحثہ بھی ہوتا ہے۔ مگر اس کے باوجود مصنف تاریخ کی اس بازیافت میں ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب کو برقرار رکھنے میں کامیاب رہتا ہے۔"
دانتوں میں گھری زبان
یہ کہانی تقسیم کے بعد ہندوستان میں رہ گئے مسلمانوں کی حالات کا جائزہ لیتی ہے۔ تقسیم میں وہ خاندان ایک طرح سے بکھر گیا تھا۔ بڑے بھائی پاکستان چلے گیے تھےجبکہ چھوٹے بھائی نے ہندوستان میں ہی رہنے کا فیصلہ کیا تھا۔ سالوں بعد بڑا بھائی چھوٹے بھائی سے ملنے آتا ہے اور انہیں ہندوستان میں غیر محفوظ ہونے کا احساس دلاتے ہوئے اپنے ساتھ چلنے کے لیے کہتا ہے۔ مگر چھوٹا بھائی اس کی تجویز کو خارج کرتے ہوئے کہتا ہے وہ ہندوستان میں اسی طرح محفوظ ہے جیسے بتیس دانتوں کے درمیان زبان۔
کہی ان کہی
ایک نفسیاتی کہانی، جو خدا اور انسان کے درمیان کے رشتوں سے وابستہ کئی سوالوں پر بات کرتی ہے۔ ایک شخص شہر کے چوک میں کھڑا ہوکر پوچھتا ہے کہ کیا کسی کو پتہ ہے کہ وہ دن کون سا تھا جب خدا انسان سے خوش ہوا تھا؟ مجمع میں بہت سے لوگ کھڑے ہیں مگر کوئی بھی سوال کا جواب نہیں دیتا۔ بس سبھی اس کے مذہب اور سوال کے وجہ پر زور دیتے رہتے ہیں۔
آپ رکے کیوں نہیں؟
’’یہ کہانی ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب کی ایک شاندار مثال پیش کرتی ہے۔ بھارت میں ایک سکھ خاندان اپنے مسلم پڑوسی کے پاکستان چلےجانے کے بعد بھی محلے کی مسجد کو پہلے کی طرح ہی آباد رکھتا ہے۔ سالوں بعد پاکستان گئے خاندان کا سربراہ جب اپنے سکھ دوست سے ملنے آتا ہے تو صاف ستھری مسجد کو دیکھ کر حیران ہوتا ہے۔ اس پر اس کا دوست کہتا ہے کہ ہم نے تو آپ کو جانے کے لیے نہیں کہا تھا۔ آپ خود ہی گئے تھے۔‘‘
join rekhta family!
-
ادب اطفال1973
-