Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

دستکیں

MORE BYسلیم آغا قزلباش

    شہاب الدین کا کاروبار اتنا چمکا کہ اُس کے لشکارے بیرونِ ملک بھی پہنچ گئے۔ اب وہ وقت شاید زیادہ دور نہیں تھا کہ اُس کا شکار بھی بڑی مچھلیوں میں ہونے لگتا۔ بس ایک تاو¿ کی کسر باقی تھی کہ وہ اُس غیرمعمولی صورتِ حال سے دوچار ہوگیا۔ وہ جو ہمیشہ سے اپنی راہ میں حائل ہر رکاوٹ کو نوکِ پا سے ٹھکرادیا تھا اب مکڑی کے جالے میں پھنسی مکھی کے مانند بے دست و پا ہوکر رہ گیا تھا۔ اُس کی جگہ کوئی دوسرا ہوتا تو شاید وہ زیادہ دنوں تک اُن حالات کا مقابلہ نہ کرسکتا اور اگر کوئی ہمت والا اُن سے نپٹنے کےلئے کمربستہ ہو بھی جاتا تو لڑتا بھڑتا انہیں لوگوں کی صف میں آن شامل ہوتا جو انجام کار ہتھیار پھینک دیتے ہیں۔ بہرحال وہ سب حالات اُس کے لئے انتہائی سنگین روپ اختیار کرچکے تھے۔

    پہلی بلائے ناگہانی کا نزول ایک سبز قدم صبح طلوع ہونے پر ہوا۔ حالاں کہ جب وہ بیدار ہوا تو بظاہر سب کچھ معمول کے مطابق تھا۔ مگر چند ثانیوں کے بعد ہی اُسے کمرے کی تمام اشیاءبلیک اینڈ وہائٹ میں لتھڑی دکھائی دینے لگیں۔ یہ دیکھ کر اُس نے چند بار اپنی آنکھیں جلدی جلدی سے جھپکیں لیکن اِس کے باوجود کمرے میں موجود کسی چیز نے اپنے اصلی رناگ ظاہر نہ کئے۔ گھبراکر وہ اٹھ بیٹھا، آنکھوں کو ہتھیلیوں سے دو تین مرتبہ ملا۔ یہ سوچتے ہوئے کہ شاید نیند پورے طور پر آنکھوں سے جدا نہیں ہوئی۔ مگر ایسا کرنے کے باوجود پیش منظر میں کوئی تبدیلی رونما نہ ہوسکی۔ لہٰذا وہ لپک کر غسل خانے میں گیا اور بیسن پر جھک کر ٹونٹی سے لپ لپ نکلتی پانی کی دھار کو چلو میں بھر کر اُس کے چھینٹے باری باری دونوں آنکھوں میں زور زور سے مارنے لگا۔ اِس مرحلے کے بعد جب اُس نے آئینے پر نگاہ ڈالی تو چکرا گیا۔ رنگ گم ہوچکے تھے۔ کلر بلائینڈ ہونے کے عارضے کے متعلق تو اُس نے سن رکھا تھا، مگر بصارت کے رنگوں سے یک مشت اور یک لخت بغیر کسی خاص وجہ کے ہاتھ دھو بیٹھنا اُس کے لئے ناقابل فہم تھا۔ وہ اِس حادثے کو تسلیم کرنے پر آمادہ نظر نہیں آتا تھا۔ کمرے میں واپس آکر وہ اپنی مخصوص بازوو¿ں والی کرسی پر ٹانگیں پسار کر بیٹھ گیا اور کئی لمحوں تک ساکت و صامت بیٹھا رہا۔ تھوڑی دیر کے بعد دونوں آنکھوں کو میچ کر خود سے ہم کلام ہوا کہ جب میں ایک۔ دو۔ تین۔ تک گنتی گننے کے بعد آنکھیں دوبارہ کھولوں گا تو سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا اور جب اِس ترکیب پر عمل پیرا ہوتے ہوئے آنکھوں کو وا کیا تو اُس کو زور کا ایک جھٹکا لگا جیسے سینہ پر کسی نے زور سے گھونسا مار دیا ہو۔ کرسی کی ہتھی پر اُس کی انگلیوں کی گرفت پل بھر کے لئے مضبوط ہوئی اور پھر ڈھیلی پڑگئی۔ مانو اس کے جسم سے جان نکل گئی ہو، کیوں کہ رنگ واپس نہیں آئے تھے۔ لیکن اُس کا دل مانتا نہ تھا کہ یہ سب کچھ جو وہ کھلی آنکھوں سے دیکھ رہا تھا اُسی کے ساتھ پیش آرہا تھا۔ پھر نجانے کیا سوچ کر اُس نے اُٹھ کر کمرے کے کونے میں رکھے ہوئے ٹیلی ویژن کو آن کردیا۔ صبح کی نشریات کا آغاز ہوچکا تھا، مگر سکرین پر سب کچھ بلیک اینڈ وہائٹ میں متحرک تھا۔ اُس نے خود کو ایک بار پھر طفل تسلی دی کہ ممکن ہے کسی فنی خرابی کے باعث تصویر بغیر رنگوں کے آرہی ہو۔ تاہم کمرے کی جملہ اشیاءتو ٹیلی ویژن اسکرین کا جزو بدن نہیں تھیں وہ اپنے رنگ کیوں اُجاگر نہیں کررہی تھیں! یہ خیال در آتے ہی ایک بار پھر اُس کے دل و دماغ میں کھینچا تانی شروع ہوگئی۔ حالاں کہ سچ آخر سچ ہے، چاہے کوئی مانے یا نہ مانے آخر کو تو ماننا ہی پڑتا ہے۔ اس سب کے باوجود اُس نے ایک آخری داو¿د آزمانے کی کوشش کی اور آگے بڑھ کر سورج کی جانب کھلنے والی دبیز شیشے کی کھڑکی کے سامنے لٹکے ہوئے پردے کو ایک جھٹکے کے ساتھ ایک جانب کو سرکا دیا۔ باہر تاحد نگاہ وسیع لان کی کیاریوں میں جھومتے لہلہاتے ہوئے پھول بوٹے، لان کی مخملیں سبز گھاس، یوکلٹپس کے دراز قامت درخت، سڑک کا ٹریفک، آسمان کا سائبان اور صبح کی جوان دھوپ، غرضیکہ ہر شے اپنا قدرتی رنگ لٹا بیٹھی تھی اور فقط بلیک اینڈ وہائٹ کے پھیکے، اکہرے یکسانیت آمیز رنگ میں رنگی ہوئی تھی۔ آج غالباً پہلی مرتبہ اُسے بیڈ ٹی منگا کر پینا بھی سرے سے یاد نہیں آیا تھا۔ بیٹھے بٹھائے خوشی اس طور منہ کالا کرکے کہیں جاسکتی تھی اُس نے بھول کر بھی اِس پہلو سے نہیں سوچا تھا۔ حالاں کہ کل کی شام کتنی یادگار تھی۔ اُس کے عالیشان بنگلے کا چپہ چپہ رنگوں، خوشبوو¿ں، قہقہوں اور ذائقوں سے بھرا پڑا تھا۔ عمائدین اور معززین شہر کی بہت بڑی تعداد اُس کے بنگلے میں موجود تھی اور وہ خود گھمنڈ اور طاقت کے نشہ میں سرشار سب مہمانوں کا سواگت کررہا تھا، اُن سے باری باری مل رہا تھا اور کل شام وہ خوش بھی تو ضرورت سے زیادہ ہی تھا اور کیوں نہ ہوتا! اُس کو ملکی سطح پر ایک اعلیٰ سول اعزاز ملنے کی خبر کا اعلان جو ہوا تھا۔ ہرچندکہ کل کی شام اور آج کی صبح کے بیچ فقط چند گھنٹوں کا فاصلہ حائل ہوا تھا، تاہم اس دورانیہ میں کوئی غیرمرئی ہستی اُس کی آنکھوں کے رنگوں کو پانی میں گھول کر غٹاغٹ پی گئی تھی۔ از سر نو ایک تشنج آمیز کیفیت اُس کو بلونے لگی اور اُس کا انگ انگ تناو¿ کی زد میں آگیا اُس نے سگار سلگاکر اپنے شیرازے کو سمیٹنے کی ایک بار پھر سعی کی۔ کافی دیر تک وہ خیالوں کی دنیا میں گم کمرے میں بے قرار سے سے ٹہلتا رہگا۔ شاید خیالوں ہی خیالوں میں رنگوں کو کھوجتا رہا تھا اور جب وال کلاک نے ٹنٹناتے ہوئے نو بجے کی آمد کا گھنٹہ بجایا تو وہ حقیقت کی سفاک دنیا میں واپس آگیا۔

    جیسے تیسے خود کو پکڑ دھکڑ کر وہ تیار ہوکر ناشتے کے لئے نچلی منزل پر آیا تو اُس نے دیکھا کے ہال کمرے کی دیواروں پر ٹنگی قد آدم روغنی تصاویر اپنے تمام رنگوں سے دست کش ہوچکی تھیں۔ چلتے چلتے رُک کر اُس نے ہونٹوں کو بھینچ لیا تاکہ اندر سے نکلنے والی کراہ کو دباسکے۔چوں کہ وہ نہیں چاہتا تھا کہ کسی دوسرے کو اُس کی اُس کی ذہنی ابتری کا ہلکا سا بھی شائبہ ہو لہٰذا وہ اپنے چہرے پر زبردستی کا خوشگوار تاثر چپکائے ڈائٹنگ روم میں داخل ہوا اور ناشتہ زہر مار کرنے کے بعد دفتر کو روانہ ہوگیا۔اپنے پرائیویٹ آفس کے شاندار کمرے میں طویل عرصہ تک بیٹھے رہنے کے باوجود وہ جم کر کوئی کام نہ کرسکا۔سارا وقت اکھڑے اکھڑے انداز میں ہرمعاملے کو سلجھانے کی کوشش کرتا رہا۔ الفاظ اور یاد داشت اُس کا سالھ بار بار چھوڑ جاتے تھے۔ ایک مرتبہ اُس نے اپنے اسسٹنٹ کو آفس میں طلب کیا مگر اُس کی آمد کے بعد وہ بات ہی سرے سے بھول گیا جس کے لئے اُسے بلایا تھا۔ سو مارکیٹ اور اسٹاک ایکسچینج کے اتار چڑھاو¿ کے بارے میں فروعی استفسارات کرنے کے بعد اُسے جانے کا اشارہ کردیا۔ اُس کی غیرحاضر دماغی یہاں تک جاپہنچی کہ سامنے کھلی پڑی فائل کو میز کے مختلف خانوں میں تلاش کرنے لگا اور عدم دستیابی پر سٹپٹا کر میز کے خانوں میں موجود کاغذات کو بے دردی سے اُتھل پتھل کرتا چلا گیا اور ایسا کرتے ہوئے معاً اُس کی نظر انگریزی کے ایک رسالے پر پڑی۔ اُس نے غیرارادی طور پر اُس کو اٹھالیا اور پھر اس کی ورق گردانی میں مصروف ہوگیا۔ چند ورق اُلٹے پلٹے تو یکایک اُس کی نگاہ سرجری کے موضوع سے متعلق ایک مختصر سے مضمون پر جاٹکی اور پھر اُس کے مندرجات پر پھسلتی چلی گئی۔ مضمون کالب لباب یہ تھا کہ پیوندکاری کے آپریشن کے بعد جسم میں ریجیکیشن کا عمل شروع ہوجاتا ہے جسے بعض خاص ادویہ کے ذریعہ قابو میں رکھنا پڑتا ہے تاکہ جسم نئے مہمان عضو کو اپنا جگر گوشہ بنانے پر آمادہ ہوجائے۔ یہ مختصر مضمون پڑھنے کے بعد اُس کے اندر کھلبلی مچ گئی، نئے نئے اندیشوں اور وسوسوں نے اُسے اپنے نرغے میں لے لیا۔ اپنے آفس میں بیٹھے ہوئے یہ روح فرسا اندیشہ اُس کے دل و دماغ میں کڑوا دھواں بن کر پھیلنے لگا کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ معاشرے نے اس طبقہ کے خلاف ریجکیشن کا عمل شروع کردیا ہو جس سے وہ خود وابستہ تھا اور یہ جو کچھ اُس کی بصارت کے سلسلے میں حادثہ پیش آیا تھا وہ بھی شاید اِسی عمل معکوس کا نتیجہ ہو جو جسم کی سطح پر اپنا ا ظہار کرنے لگا تھا۔ اگر یوں تھا تو اِس کے معنی یہ ہوئے کہ اس خاص طبقہ سے تعلق رکھنے والی دیگر چھوٹی بڑی مچھلیوںکو بھی اِسی سے ملتا جلتا کوئی نہ کوئی عارضہ لاحق ہوگیا ہوگا۔ یہ سوچ کر اُس کی ڈھارس بندھی۔چنانچہ اگ لے دوچار روز میں اُس نے مختلف نوعیت کی ٹی پارٹیوں، محفلوں اور میٹنگوں میں شرکت کرنے والے اپنے کاروباری دوست احباب اور جان پہچان کے لوگوں سے باتوں باتوں میں بالواسطہ یا بلا واسطہ آنکھوں کی تکالیف سے متعلق استفسارات کئے اور یہ معلوم کرکے سخت مایوسی ہوئی کہ اُن میں سے اکثریت، مزید دولت نہ سمیٹ سکنے، بعض کنٹرکیٹوں کے ہاتھ سے نکل جانے، مرضی کے مطابق ٹیکس چوری نہ کرسکنے کے غم میں بلڈ پریشر اور معدے کے السر میں تو مبتلا تھی مگر اُس کے روگ جیسی ایک معمولی سی علامت بھی اُن میں سرے سے موجود نہیں تھی۔یہ سب کچھ جان کر اُس کے دماغ میں یہ سوال ٹھپر ٹھپرانے لگا کہ آخر اُسے ہی کیوں یہ سب کچھ سہنے کے لئے چنا گیا ہے۔ اُس کی جگہ کوئی دوسرا بھی تو ہوسکتا تھا جو اِس اذیت میں مبتلا ہوجاتا۔ مگر یہ زاویہ¿ نگاہ اپنے طور پر ایسا گورکھ دھندہ تھا جو سلجھائے نہیں سلجھ سکتا تھا۔

    بصارت کی ٹیکنی کلر دنیا کے معدوم ہوجانے کا زخم ابھی ہرا تھا کہ پے در پے آفتیں بھوکے گدھوں کی طرح اُس کے وجود پر ٹوٹ پڑیں اور اس کو بری طرح نوچنے کھسوٹنے لگیں۔ ان آفتوں کی شروعات ناشتہ کی میز پر سے ہوئی۔اُس نے جب دیے کا پہلا ہی چمچ منہ میں ڈالا تو اُسے یک دم ابکائی سی آئی جیسے اُس نے غلطی سے کیچڑنگل لیا ہو۔ عجلت سے اُس نے پلیٹ کو پرے سرکاکر چائے کا گھونٹ بھرا تو وہ گرم پانی جیسا بے ذائقہ لگا۔ بمشکل خود پر قابو پاتلے ہوئے اُس نے ہاتلھ بڑھاکر آملیٹ کا ایک ٹکڑا کانٹے میں پروکر منہ میں ڈالا تو وہ بھی بے ذائقہ نکلا۔ یک بیک غصے سے اُس کا پارہ چڑھ گیا۔ اُس نے بلند آواز سے ملازم کو بلایا۔ نوکر بوکھلاکر دوڑا آیا اور ”یہ کیا ہے؟ یہ کوئی طریقہ ہے، آخر تمہیں ہو کیا گیا ہے“ اتنے میں اُس کی بیوی آنچل سنبھالتی ہوئی آگئی اور بولی : ”کیا ہوا، کیوں ناراض ہو رہے ہو“ اُس نے جواباً کہا” ہر چیز بے مزہ ہے تم خود چکھ کر دیکھ لو“ اُس کی بیوی نے آملیٹ کا ایک ٹکڑا چکھا اور بولی: ”ارے اِس میں تو نمک کچھ زیادہ ہی کمبخت نے ڈال دیا ہے۔ میں ابھی اُس کی خبر لیتی ہوں“ اور پھر قدرے توقف سے اپنے شوہر سے مخاطب ہوئی: ”تمہاری طبیعت کچھ ٹھیک نہیں لگتی، رات تم بتارہے تھے کہ کل سارا دن تم بہت ہی مصروف رہے۔ میری مانو تو آج آفس نہ جاو¿ اور گھر پر ہی آرام کرو“ اُس نے بیوی کی باتوں کو بغیر کسی تاثر کے سنا اور پھر او کے ، اوکے کہتا ہوا وہاں سے اُٹھ کر چل دیا۔ کمرے میں پہنچ کر وہ چند لحظوں تک خالی الذہن کھڑا رہا۔ معاًاس نے سوچا چلو ذرا موسیقی سن کر دل بہلایا جائے۔ریکارڈ پلیئر کو چلاکر ابھی وہ پلٹا ہی تھا کہ ریکارڈ سے عجیب بے ہنگم خرخراتی نامانوس آوازیں ابلنا شروع ہوگئیں۔ انہیں قدموں پلٹ کر اُس نے ریکارڈ تبدیل کیا اور اپنی نشست پر آبیٹھا۔ دوبارہ بالکل پہلے جیسی بے ہنگم، سمع خراش آواز اُس کے کانوں کے پردوںسے آ ٹکرائی۔ زچ ہوکر اُس نے یکبارگی ریکارڈ پلیئر کو بند کردیا اور اس کے بعد ٹرانسٹر کو آن کرکے اس کی سوئی کو گھما پھرا کر کوئی اسٹیشن ڈھونڈنے لگا۔ ایک دو جگہ پر کچھ نشر ہورہا تھا، لیکن بولنے یاگانے والے کی آواز شہد کی مکھیوں کی سی بھنبھناہٹ بن کر اُس کے کانوں میں بھرتی جارہی تھی اور عین اُس وقت اس کے دل میں یہ ڈراو¿نا خدشہ دھڑکنے لگا کہ کہیں خرابی ریڈیو اور ریکارڈ پلیئر کے بجائے اُس کی ذات کے ریسونگ سیٹ میں تو نمودار نہیں ہوگئی! چنانچہ اُس نے اِس خدشے کو جھٹلانے کی خاطر اپنے آفس منیجر کو فون کیا اوریہ سن کر اس کے پاو¿ ںتلے سے زمین نکل گئی کہ ٹیلی فون ریسورس سے معانی سے تہی، اجنبی لفظوں کی بھنبھناہٹ اُس کے کان میں پگھلے ہوئے سیسہ کی طرح اُترتی جارہی تھی۔ اُس نے ریسور میں سے سنائی دینے والی بھنبھناہٹ کو بعجلت چند ایک ضروری باتیں بتائیں اور بات ختم کردی۔ یہ مجھے کیا ہوتا جارہا ہے، کہیں میرا دماغ، نہیں نہیں ایسا سوچنا بھی حماقت ہے، مگر آنکھوں میں بے رنگی، زبان پر بے ذائقگی اور کانوں میں بے معنی الفاظ کی بھنبھناہٹ۔ آخر اِن سب باتوں کا مطلب کیا ہے؟ اِسی ادھیڑ بن میں وہ کمرے میں بے قراری کے عالم میں گھومنے لگا۔ اتنے میں نوکر نے کمرے میں داخل ہوکر تازہ اخبار اور ڈاک سامنے میز پر لاکر رکھ دی اور پھر اس کی طرف منہ موڑ کر کچھ کہا جسے وہ بالکل نہ سمجھ سکا۔ اُس کو یہی سنائی دیا کہ اوٹ پٹانگ، بے معنی بھنبھناتے لفظوں کی گردان پڑھی جارہی ہے،چند ثانیوں تک وہ اُس کی جانب یوں تکتا رہا جیسے کسی اجنبی مخلوق کو دیکھ رہا ہو اور پھر دیوارکی جانب رُخ موڑ کر قدرے اونچی آواز سے نوکر سے کہا ”ٹھیک ہے تم جاو¿“ نوکر کے جانے کے بعد وہ تادیر کھویا کھویا سا کھڑکی کے سامنے کھڑا رہا۔ وہ اِس بات پر سخت متعجب تھاکہ دوسروں کو تو اُس کی تمام باتیں سمجھ میں آرہی ہیں مگر اُن کی کوئی بات بھی اُس کے پلے نہیں پڑ رہی تھی۔ اس مسئلہ پر سوچ سوچ کر اُس کا سر اتنا بوجھل ہوگیا تھا کہ مزید کھڑا رہنا بھی اُس کے لئے دو بھر ہوگیا۔ مانو کسی غیبی قوت نے اُس کے سر پر آہنی خود چڑھادیا ہو۔ لہٰذا وہ ڈگمگاتے قدموں سے بستر پر جاکر ڈھیر ہوگیا۔

    نجانے کتنی دیر تک وہ بے سدھ پڑا رہا۔ پھر آہستہ اُس کے اوسان قدرے بحال ہوئے۔ وال کلاک پر اچٹتی نگاہ ڈالی تو اندازہ ہواکہ وہ تین چار گھنٹے نیم بے ہوشی کی حالت میں بستر پر لیٹارہا تھا۔ وہ اُٹھ بیٹھا۔ اُس نے غسل کرکے طبیعت کی کسلمندی کو دور کرنے کا سوچا، اِس اُمید کے ساتھ کہ ممکن ہے غسل کرنے سے ڈرامائی تبدیلی رونما ہوجائے اور اس عذاب مسلسل سے گلو خلاصی کی کوئی نہ کوئی سبیل نکل آئے۔ شاور تلے کھڑا ہوکر جب اس نے پانی کی تیز بوچار کو اپنے بدن پر گرتے پھسلتے دیکھا تو اسے سخت اچنبھا ہوا اور پھر حیرت کے مارے وہ دم بخود ساہوکر رہ گیا کیوں کہ اُس کا جسم پانی کی خنکی کو محسوس نہیں کررہا تھا۔ جلدی سے اُس نے ٹھنڈے پانی کو بند کرکے گرم پانی کا والو گھمایا تو دھواں دھار پانی شوکتا ہوا اُس کے جسم پر جھپٹا مگر اس بار بھی اس کے بدن نے کسی قسم کے ردعمل کا کوئی مظاہرہ نہ کیا۔ گرم اور سرد کا فرق بھی غائب ہوگیا تھا اور جب کھڑے کھڑے کافی دیر ہوگئی تو وہ شاور کو بند کرکے بدن پر تولیہ لپیٹ کر باہر آگیا۔زندگی کے لذائذ صابن کی چکنی ڈلی کے مانند اُس کے ہاتھ سے پھدک کر نکلتے چلے جائیں گے یہ اس کے خواب و خیال میں بھی نہیں تھا۔ لیکن اب یہ سب کچھ ایک ننگی سچائی بن گیا تھا۔ کپڑے پہنتے ہوئے اُسے بار بار یہی گمان ہوا کہ وہ کسی بے جان کاٹھ کے پتلے پر لباس کھینچ تان کر چڑھا رہا ہو۔ اِس عمل سے فراغ پاکر وہ تھکے تھکے بوجھل قدموں سے سیڑھیاں اُترتا نچلی منزل میں آیا اور خود کو تقریباً گھسیٹتے ہوئے ڈائننگ روم میں لے گیا۔ کھانے کے لوازمات میز پر چن دئیے گئے تھے۔ اُس وقت اُس کی بیوی ریفریجریٹر میں سے کچھ نکال کر ملازم کے حوالے کررہی تھی۔ اُسے آتا دیکھ کر وہ مسکرائی اور کہا: ”ڈیر اب کیسی طبیعت ہے!“ مگر اس کو بے معنی لفظوں کی بھنبھناہٹ کے سوا کچھ سنائی نہ دیا۔ اُس نے قدرے ہکلاتے ہوئے محض اندازے سے جواب دیا ”ٹھیک ہوں“ اور یہ کہتے ہوئے ڈائننگ چیئر پر جاکر بیٹھ گیا۔ میز پر ترتیب اور قرینے سلیقے سے رکھے ہوئے سالن کے ڈونگوں میں اُس کی من پسند اشیا موجود تھیں۔ تاہم صبح کا تجربہ تا حال اُس کے ذہن پر جوں کا توم مرتسم تھا۔ یہی وجہ تھی کہ اُس نے ڈرتے ڈرتے کانٹے سے ایک سیخ کباب اٹھاکر پلیٹ میں ڈالا اور پھر اس کا ایک گوشہ کاٹ کر دانتوں تلے چبایا تو اُسے یقین ہوگیا کہ وہ ربڑ کی بنی کسی لجلجی بے ذائقہ چیز کو چبارہا ہے۔ اِس احساس کے غلبہ کے باوصف اُس نے چند ایک دوسری چیزوں کو بھی چکھنے کا فیصلہ کیا اور باری باری چند ایک ڈونگوں میں سے ایک ایک چمچ اپنی پلیٹ میں ڈھالا اور پھر اُن کو چباتا نگلتا چلا گیا۔ تمام لوازمات کا ذائقہ جواب دے چکا تھا اور کافی دیر تک منہ میں چبائے پپولے گئے چیونگم جیسا بے رس، بے ذائقہ لجلجا احساس باقی رہ گیا تھا جو تھوڑی بہت اُمید اُس کے دل میں تھی کہ ذائقہ ابھی قائم ہے وہ بھی جاتی رہی۔ مزید آزمائش کی سکت اُس میں نہ تھی۔ ایکا ایکی اُس کا دل ڈوبنے لگا۔اُس کی بیوی نے اُس کی ناسازی طبع کو بھانپتے ہوئے اُس سے کچھ کہا۔ بے معنی لفظوں کی بڑبڑاہٹ کے سوا اِس بار بھی اُس کے پلے کچھ نہ پڑا۔ اُس نے دوبارہ خود کو سنبھالا دے کر اندازے سے جواب دیا ”میری طبیعت پوری طرح سنبھلی نہیں ہے، میں ابھی کچھ دیر اور آرام کروں گا۔“ اتنا کہہ کر وہ نپکن سے ہاتھ پونچھتا ہوا اپنی نشست سے اُٹھ کھڑا ہوا۔ اُس کی بیوی نے بیٹھے کی ایک قاش پلیٹ میں ڈھال کر جلدی سے اُس کی جانب بڑھائی تو اس نے ہاتھ کے اشارے سے اُے منع کردیا اور رُخ موڑ کر لمبے لمبے ڈگ بھرتا ہوا سیڑھیوں کی جانب چل دیا۔ کمرے میں پہنچ کر اس نے سگار سلگاکر ایک گہرا کش لیا، لیکن اُسے قطعاً کوئی لطف نہ آیا۔ ایسے میں آپ ہی آپ اس کی نگاہ گلدان میں سجے سنورے پھولوں کے گلدستے پر جاٹکی اور کسی انجانے جذبے سے سرشار ہوکر وہ آگے بڑھا اور اپنا ناک پھولوں کے پاس لاکر ان کی خوشبو کو سونگھا، مگر خوشبو کا معمولی سا لہریا تک اُس کے نتھنوں سے نہ ٹکرایا۔ اس نے دوبارہ ایک دو مزید گہرے گہرے سانس اندر کھینچ کر پھولوں کی بھینی بھینی خوشبو سے خود کو تازہ دم کرنے کی کوشش کی جو بے سود ثابت ہوئی۔ اس نے سوچا یہ مصنوعی پھولوں سے بنایا گیا گلدستہ ہے جبھی تو اس میں سے کوئی مہک نہیں آرہی۔ اس کے بعد اس نے اپنے شک کو رفع کرنے کی خاطر بے اختیار ہوکر پھولوں کو انگلیوں سے ٹٹولا سہلایا، قطعاً اندازہ نہ ہوسکا کہ اصلی ہیں یا نقلی کیوں کہ چھونے کی حس تو پہلے ہی ہاتھوں سے نکل چکی تھی۔ البتہ اُس کی انگلی کی پور میں سے خون کی ایک سیاہی مسائل بوند ضروری اُبھر آئی۔ غالباً گلاب کی شاخ کا کوئی تیزدھار کانٹا اُس میں چبھ گیا تھا۔ یہ دیکھ کر اُس کے حلق میں بھی کانٹا سا اٹک گیا۔تو کیا یہ بھی میرا ساتھ چھڑ گئی! یکدم وہ سراسیمہ ہوکر الٹے قدموں پیچھے ہٹا اور صوفے سے ٹکراکر بے دم سا ہوکر اُس پر ڈھیر ہوگیا۔ اُس کا چہرہ ہلدی ہورہا تھا اور اس اذیت ناچ سوچ نے اُسے اپنے پنجوں میں جکڑلیا تھا کہ اب فقط چھٹی حس پر انحصار کرتے ہوئے اُسے محض اندازوں سے کام چلانا ہوگا۔ مضبوط اعصاب کا مالک ہوتے ہوئے بھی اُس کے دماغ کے بخیے ادھڑنے لگے تھے، بلکہ ای¿ کے لئے اِس اندوہناک احساس سے چھٹکارا پانا ممکن نہیں رہا تھا کہ وہ کم و بیش تمام عناصر خمسہ سے محروم ہوچکا ہے۔ شاید اُس کے اندر کے دفاعی نظام نے کسی نادیدہ خطرے کو بھانپ کر یا پھر کسی شدید فہمی کی بناپر خود کو تباہ و برباد کرنے والے خود کار آلہ کا بٹن داب دیا تھا جب کہ وہ خود بے دست و پاک ہوکر فقط اس انتظار میں مربہ لب بیٹھا تھا کہ دیکھوں کب دھماکہ ہوتا ہے اور میری دھجیاں اڑتی بکھرتی نظر آتی ہیں۔ بظاہر ایسی کوئی وجہ تو نہیں تھی کہ اُس کے اندر کا خودکار نظام اُس کے جسم کو تباہی و بربادی کے دہانے پر لاکھڑا کرتا۔ مگر ایسا ہوچکا تھا۔ اُس کو باہر کی دنیا سے وابستہ حسیات سے محروم کر دیا گیا تھا۔ ہرچندکہ یہ بات بڑی نا انصافی تھی تاہم اِس کی شنوائی اندر کی عدالت کے سوا اور کہیں بھی ممکن نہیں تھی اور فی الحال اندر کے تمام دروازے مقفل تھے اور باہر کے تمام راستوں پر پہرا بٹھا دیا گیا تھا اور وہ نہ اندر رہا تھا نہ باہر، صرف بیچ کسی تنگ و تاریک راہداری میں ایک شپرک کی طرح بھٹک رہا تھا، ہانپ رہا تھا، بے در دیواروں سے سر پھوڑ رہا تھا، چلا رہا تھا، آزادی کی بھیک مانگ رہا تھا، مگر جواب میں ایک اندھی، بہری، گونگی، بے حس خاموشی کی بے انت گونج کے سوا اور کچھ اُسے سنائی نہیں دے رہا تھا۔

    عمر کے اعتبار سے اُس نے بمشکل پچاسویں سال کو عبور کیا تھا اور صحت اُس کی اس قدر قابل رشک تھی کہ دیکھنے میں اپنی عمر سے کہیں چھوٹا نظر آتا تھا۔ بینائی بھی اُس کی ہمیشہ سے اِس قدر اچھی تھی کہ عمر کی نصف سنچری مکمل کرنے کے بعد بھی اُسے چشمہ لگانے کی ضرورت پیش نہیں آئی تھی اور دیگر حسیات کے سلسلے میں بھی اُس کا جسم بڑا حساس تھا،رنگوں، خوشبوو¿ں اور ذائقوں کے نازک سے نازک فرق کو وہ بڑی خوبی سے جان لیتا تھا۔ سو اس پہلو کا تو سرے سے کوئی امکان نہیں تھا کہ اُس کی موجودہ حالت کسی سابقہ عارضے کا باعث تھی۔ اِس سب کے باوجود وہ اس پراسرار بیماری کے چنگل میں پھنس گیا تھا اور اِس ابتلا کادرماں نجانے کس کے پاس تھا! اس کے لئے اب مزید انتظار کرنالاحاصل تھا، چنانچہ اُس نے اپنے ایک نہایت بااعتماد قریشی دوست سے مشورہ لینے کا فیصلہ کیا جو سوئے اتفاق سے ایک ماہر اعصاب ڈاکٹر بھی تھا۔ کپڑے کرکے وہ خاموشی سے نیچے آیا اور کسی کو کچھ بتلائے بغیر خود ہی کار ڈرائیور کرکے بہ ہزار دقت اپنے دوست کے ہاں جاپہنچا۔ اُس دوست اس کی بے وقت آمد پر پہلے تو حیران ہوا اور پھر اس کے چہرے کی اڑی اڑی رنگت اور پپڑی جمے ہونٹوں کو دیکھ کر پریشان ہوگیا۔بہرحال اُس نے آگے بڑھ کر گرم جوشی سے اُس سے مصافحہ کیا اور پھر اس کے شانے پر ہاتھ رکھتے ہوئے پوچھا: ”کیا بات ہے؟خیریت سے تو ہونا!“ وہ گم صم کھڑا رہا۔ اُس کا ڈاکٹر دوست اس کا ہاتھ پکڑ کر اُسے ڈرائینگ روم میں لے گیا۔ صوفے پر بیٹھتے ہی اُس نے سر جھکا لیا اور ایک ٹھنڈا سانس بھرکر جیب میں سے تہ شدہ ایک کاغذ نکال کر اپنے دوست کے ہاتھوں میں تھما دیا۔ اُس کاغذ پر مختصراً اُس کی ساری کیفیت درج تھی۔ اُس کا ڈاکٹر دوست کئی منٹ تک اُس کا بغور مطالعہ کرتا رہا اور پھر نہایت متفکر نظروں سے اُس کی جانب دیکھتے ہوئے بولا: ”یہ کیا ہوگیا ہے تمہیں! میں نے اس قسم کی بیماری کا ناتو کسی میڈیکل کی کتاب میں پڑھا ہے اور نہ ہی اس نوعیت کی علامات کا کوئی کیس ہی میرے مشاہدے میں آیا ہے۔“ تب تھوک نگلتے ہوئے کہنے لگا! ”گھبرانے کی ضرورت نہیں حوصلہ رکھو، دیکھتے ہیں کیا ہوسکتا ہے!“ پھر اٹک اٹک کر گویا ہوا: ”پہلے تو میں تمہارے کئی قسم کے ٹیسٹ کراو¿ں گا اور پھر کسی حتمی نتیجے پر پہنچ سکوں گا۔“ وہ اپنے ڈاکٹر دوست کے منہ سے نکلنے والی بے معنی غراہٹوں، بھنبھناہٹوں کو منہ کھولے سنتا جارہا تھا اور تب اس کے ڈاکٹر دوست کو اپنی غلطی کا احساس ہوا کہ وہ تو اُس کی باتوں کو سننے سے عاری ہوچکا ہے۔ لہٰذا اس نے پیڈ کے صفحے پر شکستہ انداز میں اپنی رائے لکھ دی۔ اُس نے ڈاکٹر کی تحریر پر سرسری نظر ڈال کر گلو گیر لہجے میں جواب دیا: ”میں سمجھ گیا“ اِس کے بعد ڈاکٹر نے پیڈ کے دوسرے ورق پر یہ لکھ کر اُسے بتایا یہ سب ٹیسٹ آج ہی رات تک ہوجانے چاہئیں تاکہ جلد از جلد کوئی مناسب قدم اٹھایا جاسکے۔

    اگلے روز جب وہ معائینہ رپورٹیں لے کر اپنے ڈاکٹر دوست کے پاس پہنچا تو اسے یہ جان کر سخت تعجب اور پھر عجب سی خوشی ہوئی کہ اُس کی جملہ معائینہ رپورٹیں سو فی صد درست تھیں۔ لیکن دوسرے ہی پل گھنگور سوچوں کے گہرے بادل اُس پر دوبارہ چھاگئے۔یہ بات اُس کی سمجھ سے بالاتھی کہ سب رپورٹیں ٹھیک ہیں تو پھر یہ خرابی کیوں ہے!کافی دیر تک وہ اپنے ڈاکٹر دوست سے اِس طور مصروف گفتگو رہا کہ ڈاکٹر اپنی بات کاغذ پر لکھتا اور وہ اُسے پڑھ کر جواب زبانی دیتا اور کبھی وہ زبانی سوال پوچھتا اور ڈاکٹر اس کا جواب کاغذ پر لکھ دیتا۔ آخر اُس کے دوست نے اسے مشورہ دیا کہ وہ جلد از جلد بیرونِ ملک جاکر اس سلسلے میں اپنا علاج کرائے۔ چنانچہ اگ لے چند دنوں میں اُس نے بیرونِ ملک جانے کے انتظامات مکمل کرلئے۔ گھر میں اُس کے رویے اور مزاج کی تبدیلی کے باعث سخت فکر مندی کی فضا چھائی ہوئی تھی۔ بہرحال جانے سے پہلے اُس نے اپنی بیوی کو علیحدگی میں سب حالات سے تفصیلاً آگاہ کردیا تھا۔ پہلے تو وہ یہ سب کچھ سن کر سناٹے میں آگئی تھی اور پھر نڈھال سی ہوگئی تھی۔ لیکن اُس نے ہمت کرکے خود کو سنبھال لیا تھا۔ بیوی کو حالات سے باخبر کرکے اُسے یک گونہ اطمینان قلب حاصل ہوا تھا۔

    غیرملکی ڈاکٹروں نے اُس کا تفصیلی طبی معائنہ کرنے کے بعد یہ فیصلہ صادر کیا کہ وہ ایک غیرمعمولی نوعیت کے سینڈروم کا شکار ہوچکا ہے اور اس مرض کا علاج کسی خاص دوائی سے ممکن نہیں ہے بلکہ اس ضمن میں ابسے اپنی قوتِ ارادی سے کام لینا ہوگا اور ہوسکتا ہے وہ بتدریج اپنی حسیات کی بغاوت پر غلبہ پانے میں کامیاب ہوجائے۔ اس قسم کی تشفی کے باوجود اُس کا ذہنی خلفشار کم نہ ہوا۔ الٹا اُس کے بھتیجے میں طرح طرح کے اندیشوں اور وسوسوں کی غراہٹیں جاگ اُٹھیں۔ جو روگ اُس کو لگ گیا تھا اُس کا خاطر خواہ تدارک نہ ہوسکتا تھا اور یوں وہ گڈمڈ سوچوں، بکھرے ہوئے اعصاب اور شکستہ دل کے ساتھ وطن واپس آگیا۔ مگر اِس بار اُسے وطن کی سرزمین بھی بے رنگ، بے حس اور مہک سے عاری محسوس ہوئی گویا اُسے بھی اندر ہی اندر کوئی روگ لگ گیا ہو۔ ڈاکٹروں کا یہ مشورہ اُسے نہایت بھونڈا اور مضحکہ خیز معلوم ہوتا تھا کہ وہ رنگوں، خوشبوو¿ں، آوازوں اور ذائقوں کی عدم موجودگی کے احساس پر توجہ دینا ہی چھوڑ دے۔ کاش کوئی انہیں بتلاتا کہ جب زندگی بے رنگ، بے ذائقہ، بے آواز، بے خوشبو اور بے حس ہوجائے تو اُس بہری، اندھی، گونگی اور مفلوج زندگی کو کوئی کیڑا مکوڑا تو شاید جی سکتا ہے لیکن وہ شخص جو ان تمام ذائقوں سے آشنا رہ چکا ہو وہ بھلا خود کو کیوں کر اُن کے حصول کی شدید خواہش سے باز رکھ سکتا ہے۔ اِن کے بغیر زندگی میں باقی رہ ہی کیا جاتا ہے!

    شدہ شدہ اُسے اپنا وجود ایک آفت زدہ علاقہ دکھائی دینے لگا، جس کے چپہ چپہ پر تباہی و بربادی کی کہانی نوشتہ¿ تقدیر کے مانند ثبت ہوچکی تھی۔ بلکہ اس کو لوگ،چیزیں، ماحول غرضیکہ سب کچھ ایک ہی رنگ میں رنگا معلوم ہوتا تھا۔ یہی نہیں اگر کوئی منہ کھول کر ہنس یا رو رہا ہوتا تو اُس کو بالکل اندازہ ہوتا کہ وہ رو رہا ہے یا ہنس رہا ہے ہرچند کہ اُس کی بیوی اور ڈاکٹر دوست کے علاوہ کسی دوسرے کو اُس کی اصلی حالت کا ابھی علم نہیں ہوسکا تھا پھر بھی اُس کو ہمہ وقت دھڑکا لگا رہتا کہ دنیا والوں کو اُس کی حقیقت کا اندازہ ہوگیا تو نجانے کیسی کیسی افوائیں اور کہانیاں گردش میں آجائیں گی اور وہ لوگوں کی نظروں میں تمسخر کا نشانہ بن کر رہ جائے گا۔ فی الحال اُس کی بیوی سارے معاملات کو سنبھالے ہوئے تھی اور آہستہ آہستہ کاروباری اور انتظامی امور بھی اُسی کے ہاتھوں میں چلے گئے تھے۔ ضرورت کے مطابق وہ کاروبار کر سلسلے میں خاص خاص باتیں اور اہم نکات اُس کو بتادیتا تھا اور وہ اُس پر عمل کرتی تھی۔ لیکن یہ ڈر گوند کی طرح اُس کے دل و دماغ سے چپک گیا تھا کہ اگر وہ لکھے ہوئے لفظ کی پہچان بھی گم کر بیٹھا تو کیا ہوگا! پھر تو شاید کچھ بھی باقی نہ رہے۔

    ٹک ٹک مرتے لمحوں کے لاشے اُس کو قسطوں میں ختم کررہے تھے اور ایک دو بار تو اُس کے اندر اس سارے جھنجھٹ کو ختم کرنے کی شدید خواہش دودھ کا اُبال بن کر باہر آگئی تھی اور اُس کا ہاتھ غیرارادی طور پر سائیڈ ٹیبل کی دراز میں رکھے اپنے ریوالور تک جاپہنچا تھا۔ مگر دوسرے ہی پل یوں خود بخود پیچھے ہٹ گیا تھا جیسے کسی بیھڑ نے اُس کی ہتھیلی پر ڈنک مار دیا ہو۔ کئی مرتبہ وہ خود کو کسی اور طریقے سے ختم کرنے کے بارے میں سوچنے لگتا،۔ البتہ اُسے اتنا اندازہ ضرور تھا کہ اگر وہ مرگیا تو معززین اور عمائدین شہر کی بھاری تعداد اُس کے جنازے میں شریک ہوگی۔لوگوں اور کیمروں کی چمکتی، پھیلتی، سکڑتی سوالیہ آنکھوں کا سیلاب اُس کو اپنے ہالے میں لے لے گا اور روزناموں کے صفحات پر جلی حروف میں اُس کی اچانک موت کی خبرشائع ہوگی جس میں سنسنی آمیز استعجاب نمایاں ہوگا۔ دراصل اُسے ڈراس بات کا تھا کہ کہیں مرنے سے اُس کا بھرم کو بہرطور قائم رکھنا چاہتا تھا۔ دوسری جانب تقریباً تمام حسیات سے محرومی کی بنا پر زندگی کا ہر لمحہ اُس کے لئے کوہِ گراں بن گیا تھا اور اِس سے بچ نکلنے کی کوئی دوسری راہ اُسے سوجھ نہیں رہی تھی۔ سچ پوچعھیں تو اُس کی حالت اُس شخص ایسی تھی جو دنیا کی ہرنعمت اور آسائنس کو ہر قیمت پر حاصل کرنے کی استعداد رکھتا ہو لیکن اس کے باوجود کچھ حاصل نہ کرسکتا ہو۔ سب کچھ ہوتے ہوئے بھی کچھ نہ ہونا اِس محرومی کو صرف وہی جان سکتا ہے جو اِس آگ کی بھٹی میں جل بھن رہا ہو۔ زندگی ڈریکولا کا چولا بدل کر ایسے شخص کا خون اپنی رگوں میں اتارنے لگتی ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ چلتی پھر زندہ لاش بن جاتا ہے۔

    تاحال اُس کے گھر کے کسی ملازم کو اُس کی اِس عجیب و غریب حالت کے بارے میں پتہ نہیں چلا تھا۔ یہاں تک کہ اُس کے بیٹے اور بیٹی کو بھی صحیح حالات سے آگاہی حاصل نہیں ہوسکی تھی۔ ملنے جلنے والوں کو بھی بس اس قدر بتایا گیا تھا کہ صاحب کو کوئی اعصابی مرض لاحق ہے اور ڈاکٹروں نے انہیں میل ملاقات سے منع کر رکھا ہے۔ لہٰذاملاقاتی آتے اور نیچے ڈرائنگ روم میں تھوڑی دیر بیٹھ، کر بیگم صاحبہ سے رسمی پرسش احوال کرنے کے بعد چلے جاتے۔

    پہلے وہ سمجھتا تھا کہ زندگی کی دوڑ میں صرف پانچ چیزوں کو بنیادی حیثیت حاصل ہے یعنی دولت، شہرت، طاقت، صحت اور آسائش اور اب اپنی پانچوں حسیات کو گنواکر اُسے بخوبی اندازہ ہوگیا کہ اِن پانچوں حسیات کی موجودگی میں زندگی کی قیمت دو کوڑی کے برابر بھی نہیں رہتی۔ البتہ اپنے بستر پر لیٹے لیٹے اُسے کبھی کبھی کچھ یوں جان پڑتا جیسے حالات کسی کوزہ گر کے مانند اُس کی زندگی کو چکنی مٹی کی صورت اپنے بے رحم ہاتھوں سے ایک ایسی عجیب و غریب شکل میں ڈھالنے میں جٹ گئے ہیں کہ جس کے باعث وہ نہ صرف بے شباہت ہورہا ہے بلکہ بے منزل ایک ہی دائرہ میں گھومتا چلا جارہاہے۔حالاں کہ منزل تو کسی کی کوئی نہیں ہے سوائے موت کی منزل کے۔ تاہم جینے کے لئے چھوٹی چھوٹی منزلیں تو بنانا ہی پڑتی ہیں وگرنہ انسان مرنے سے پہلے بار بارمرتا رہے۔ لیکن خود کو لمحہ بہ لمحہ تمام وسیلوں، رابطوں اور تاگوں سے کٹتا ہوا دیکھنا کم اذیت ناک تونہیں ہوتا۔ بہرحال وہ عذاب کے چرکے سہنے پر مجبور تھا۔ المیہ یہ تھا کہ زندگی نے اُسے ایک مقام پرلاکر ڈبل کراس کیا تھا کہ نہ اُس کا حال رہا تھا اور نہ مستقبل لے دے کر فقط ماضی بچ پایا تھا جسے وہ نام نہاد حال میں رہتے ہوئے بھیدوبارہ زندہ کرنے سے قاصر تھا۔

    رہ رہ کر اُسے وہ دن بری طرح یاد آتے جب وہ محفلوں کی جان سمجھا جاتا تھا۔ وہ نہ صرف گفتار کا غازی تھا بلکہ مدمقابل کو چند ہی منٹوں میں لاجواب کرکے اپنا ہم نوا بنالینے میں بھی اُس کو کمال حاصل تھا۔دوسروں کو موم کرکے اپنی مرضی کے مطابق ڈھالنے کے فن میں تاک ہونے کی وجہ سے وہ ترقی کے زینے تیزی سے عبور کرتا جارہا تھا۔ فنونِ لطیفہ سے بھی اس کو لگاو¿ تھا۔ اُس کے پاس سیکڑوں گویوں اور گلوکاروں کے کیسٹ موجود تھے۔ رنگوں کی دلفریب دنیا کا بھی وہ شناور تھا۔ شہر میں منعقد ہونے والی تصویری نمائشوں میں اُس کو اکثر بطور مہمان خصوصی مدعو کیا جاتا۔ ملکی سطح کے ٹریچر سے بھی اُس کو لگاو¿ تھا۔ کتابوں کی ایک قدآدم بک شلف اُس کے کمرے میں موجود تھی جس میں کتابوں کا ایک اعلیٰ انتخاب موجود تھا۔پھولوں کا بھی وہ بڑا رسیا تھا۔ اُس نے اپنی طویل و عریض کوٹھی کے احاطے میں لاتعداد قسموں کے پھول اُگا رکھتے تھے اور وقت ملنے پر وہ اُن کے بیچوں بیچ تعمیر کردہ روشوں پر چہل قدمی کرتے ہوئے اُن کی دلکشی اور خوشبو سے محفوظ ہوتا تھا۔ اعلیٰ اور معیاری خوشبوو¿ں کا اُسے اِس قدر ذوق وشوق تھا کہ اُس نے اِس سلسلے میں ملکی سطح پر ایک تجربہ گاہ قائم کرنے کا تہیہ بھی کرلیا تھا تاکہ مشرق و مغرب کی خوشبوو¿ں کے امتزاج سے نت نئے عطریات کو متعارف کراسکے مگر اب........!

    کبھی کبھی شام ڈھلے وہ اپنی بیوی کے ہمراہ کار میں بیٹھ کر شہر کے پوش علاقے میں موجود کسی سپرمارکیٹ تک چلا جاتا اور جب اُس کی بیوی پرس تھامے مارکیٹ کے اندر چلی جاتی تو وہ کار میں بیٹھا دوڑتی بھاگتی زندگی کو سیاہ و سفید رنگ میں تکتا رہتا۔ ایسی ہی ایک شام کو جب وہ کار میں تنہا بیٹھا ہوا تھا تو یکایک میلے کچیلے کئی چہرے کار کی ونڈسکرین پر اُگ آئے۔ اُن میں سے ایک چیچک زدہ چہرہ کسی اندھی جوان عورت کا تھا جو کار کو ٹٹولتے ہوئے اُس کی سمت بڑھ رہی تھی۔ دوسرا چہرہ بیساکھی کی ٹیک لگائے ہاتھ پھیلائے اُس کے سامنے بت بناکھڑا تھا۔ تیسرا چہرہ ایک گونگے لڑکے کا تھا جو منہ سے غول غال کرتا اپنی بے زبانی کا اظہار کررہا تھا اور چوتھا چہرہ ایک بوڑھے شخص کا تھا جو اپنے لنڈ منڈ بازو سے کار کے شیشے کو کھٹکھٹاکر اُسے اپنی جانب متوجہ کررہا تھا۔ اچانک اُن میں گھر جانے سے وہ بوکھلا گیا اور پلک جھپکنے میں اس نے اپنا ہاتھ کوٹ کی جیب میں ڈالا اور جتنے بھی تڑے مڑے نوٹ اُس کی مٹھی میں آئے اُس نے کار کی کھڑکی میں سے باہر پھینک دئیے اور شیشہ تیزی سے اُوپر چڑھا لیا اور سرنشست پر ٹیک دیا۔ اُس کا دل کنپٹیوں میں دھڑکنے لگا تھا۔

    رات تادیر اُس کو نیند نہ آسکی کیوں کہ وقفوں وقفوں سے شام کا واقعہ اُس کی آنکھوں کے سامنے گھوم جاتا اور ایک انجانے خوف سے اُسے جھرجھری سی آجاتی۔ اُس نے نیند کی گولیوں کی دگنی مقدار تھوڑے سے پانی کے ساتھ نگل لی تاکہ اس تکلیف دہ منظر سے اُس کو چھٹکارا مل جائے۔ نتیجتاً تھوڑی دیر کے بعد ہی اُس کی آنکھوں کے پپوٹے بھاری ہونے لگے اور وہ نیند کی دھند میں ملفوف، گلیوں، بازاروں میں یو بدحواس ساہوکر چکر کاٹنے لگا جیسا اپنا راستہ گم کر بیٹھا ہو۔ ایسے میں اُس نے دیکھا کہ ایک تنگ و تاریک گلی میں سے اندھی عورتوں کی ایک طویل قطار دیواروں کو ٹٹولتی اُس کی جانب بڑھتی چلی آرہی ہے۔ ذرا آگے جاکر اُس کا سامنا بریدہ بازوو¿ں والے بوڑھوں کے ایک جتھے سے ہوا۔ انہیں روبرو پاکر وہ دوڑ کر بغلی گلی میں گھس گیا۔ اس گلی کے بیچوں بیچ چھوٹی بڑی عمر کے لڑکوں کا ایک ٹولہ بیٹھا نبٹوں سے کھیل رہا تھا۔ اُس کو گلی میں داخل ہوتا دیکھ کر وہ سب کٹی زبانیں پھڑکاتے منہ سے غوں غال جیسی خوفناک آوازیں نکالتے اُس کے پیچھے لگ گئے۔ اُن سے خوف زدہ ہوکر وہ ایک دوسری گلی میں سرپٹ بھاگنے لگا، سانس ڈھونکنی کی طرح چلنے لگا۔ اُسے فرار کی کوئی راہ سوجھ نہیں رہی تھی۔ جب کہ چاروں طرف انتڑیوںکی صورت پھیلی گلیوں میں گنگوں، اپاہجوں اور اندھوں کا شوریدہ سرہجوم اُس کی جانب اُمنڈتا چلا آرہا تھا۔ وہ چوراہے میں پہنچا تو ہجوم پھنکارتا ہوا اُس کے گرد کنڈلی مارکر کھڑا ہوگیا، دہشت کے مارے وہ تھرتھرکانپنے لگا اور پھر انتہائی سراسیمگی کے عالم میں اُس نے دونوں آنکھوں پر ہاتھ رکھ لئے اور انتظار کرنے لگا، لیکن کچھ نہ ہوا اور جب ڈرتے ڈرتے اُس نے اپنی آنکھوں پر سے ہاتھ پرے ہٹائے تو وہ ہکا بکا رہ گیا۔ اُس نے دیکھا کہ سیکڑوں میلے کچیلے ہاتھ کشکول تھامے، جھولیاں پھیلائے مظلومی کی تصویر بنے اُس کے گردا گرد صم، بکم کھڑے تھے، ان کی یہ حالت زار دیکھ کر یک بیک اُس پر سے خوف کے بادل چھٹ گئے اُلٹا اُن سب کے لئے اُس کے دل میں ترحم اور انس ویگانگت کا ایک بیکراں سمندر مو¿جزن ہوگیا اور تب اُسے شدت سے محسوس ہوا کہ وہ سب غیر نہیں بلکہ اُس کے ہم زاد ہیں۔ وہ خود اُن ہی میں سے ایک ہے۔ عین اُس وقت اُس کے کانوں میں دستکوں کی آوازیں گونجنے لگیں، جیسے کوئی بند کواڑ کو بری طرح کھٹکھٹا رہا ہو۔ یکلخت وہ اُٹھ کر بیٹھ گیا۔ اُس کو اپنی سماعت پر یقین نہ آیا۔ پل بھر کے لئے اُس نے یہی سمجھا کہ شاید دستکیں اُس کے اندر کے بند دروازے پر دی جارہی ہیں۔ لیکن یہ اُس کا ہم نکلا۔ واقعی اُس کے کمرے کے بند دروازے کو کوئی دھڑادھڑ پیٹ رہا تھا۔ وہ بستر سے اُچھل کر کھڑا ہوگیا اور لپک کر دروازے کی جانب بڑھا اور جھپٹ کر دروازے کو کھول دیا۔ باہر کھڑی اُس کی بیوی کے چہرے پر ہوائیاں اُڑ رہی تھیں۔ اُس کو سامنے پاکر اُس نے اطمینان بھرا گہرا سانس لیا اور بولی: ”شکر ہے آپ جاگ گئے میں تو ڈر گئی تھی۔“ خلافِ توقع اُس نے آگے سے بھاری آواز میں جواب دیا: ”ہاں بس ابھی ابھی جاگا ہوں۔“

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے