Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

دینو بابا

صائمہ ارم

دینو بابا

صائمہ ارم

MORE BYصائمہ ارم

    دینو بابا اگر یورپ میں کہیں پیدا ہوتا تو ڈینیل نام پاتا اور اگر کسی ممی ڈیڈی گھرانے کا چشم و چراغ ہوتا تو ڈینی کے لقب سے پکارا جاتا لیکن وہ پیدا ہوا مرادآباد جیسے نیم شہری، نیم ترقی یافتہ قصبے کے اکلوتے عیسائی محلے میں، لہٰذا دانیال بھی نہ رہ سکا اور پکارنے والے اسے دینو پکارنے لگے۔ جھکی کمر اور بالوں کی سفیدی نے اس کی عزت میں البتہ اتنا اضافہ ضرور کر دیا کہ اب اسے بابا بھی کہا جانے لگا تھا۔ تو پچھلی دو دہائیوں سے وہ صرف دینو نہیں رہا تھا، دینو بابا ہو گیا تھا۔

    کمیٹی کی حدود ختم ہونے سے فرلانگ بھر پہلے، مرکزی سڑک سے دائیں طرف مڑتا ہوا پیا (کچا رستہ) جسے نو منتخب شدہ متفقہ اور اکلوتے اقلیتی ممبر نے، سولنگ لگا کر، پچھلے انتخابات میں پختہ کرا دیا تھا اور اسے ایوب سٹریٹ کا نام دلوایا تھا، سو ڈیڑھ سو گھروں کے آبادکاروں کی مسافت کا رازدار ہے۔ راستے کے دونوں طرف چھوٹی چھوٹی، تنگ، نیم پختہ، قبر نما کب نکالے، بل کھاتی گلیاں ہیں، جن کے دونوں اطراف غلاظت سے لبالب بھری، سیاہ کیچڑ اور گاب کے تعفن سے لتھڑی نالیاں ہیں، اور جن کے مکینوں میں سے اکثر رات ڈھلے یا بعض اوقات دن دیہاڑے مرکزی راستے سے سولنگ کی اینٹیں اکھاڑ کر اپنے گھروں کی مرمت کے لیے لے جاتے ہیں۔ جگہ جگہ سے اکھڑا ہوا یہ راستہ محلے کے وسط سے گزرتا ہوا سیدھا چرچ کی کہنہ، اجاڑ اوراداس عمارت اور اسی کے احاطے میں بنے بوسیدہ، بےتوجہی کے شکار مشنری سکول کے دروازے پر ختم ہوتا ہے۔ سکول کی چاردیواری سے ملحق بیدیوار کا قبرستان، جس میں جُڑ کے بنی ہوئی بیشمار چھوٹی بڑی قبریں ہیں۔ اسی قبرستان میں بغیر کتبے کی، پاس پاس بنی دو بڑی قبروں کے بیچ کی تین چار فٹ جگہ میں دینو بابا دونوں بانہیں پھیلائے، ٹانگیں کھولے، چت لیٹا رہتا ہے۔

    کبھی کبھی اس کی بوڑھی بیوی مائی جیراں اس کے پاس بیٹھی، چنگیر میں روٹی اور کٹوری میں سالن رکھے، اس کے منھ میں لقمے ڈالنے کی کوشش میں مصروف نظر آتی ہے۔ اس کا فوجی بھتیجا جب بھی چھٹی پہ گھر آتا ہے تو اپنے باپ کے ساتھ مل کر اسے گود میں اٹھائے، قبرستان کی نکڑ میں لگے پانی کے نلکے کی طرف لے جاتا دکھائی دیتا ہے اور دینو بابا کی بیمعنی چیخیں قبرستان کی حدیں پار کر کے چرچ میں پادری کے کانوں تک پہنچتی ہیں۔ وہ تاسف سے سر ہلاتا ہے اور سینے پہ کراس کا نشان بناکر، مسیحا کی میخیں جڑی شبیہ کے سامنے دوزانو جھک کر، دینو بابا کے لیے دعا مانگتا ہے۔ چرچ سکول کا سب سے ہونہار طالب علم، چودہ سالہ عمران، عیسیٰ ابن مریم کے بہتے لہو کا خیال باندھتا ہے اور حیرت سے سوچتا ہے کہ جب مصلوبِ خدا نے سب ماننے والوں کی اذیت اپنی جان پہ سہ لی ہے تو دینو بابا کو کیوں بھول گیا ہے۔ گرمیوں کی تیز دھوپ بھری دوپہروں میں وہ اپنے باقی ساتھیوں کے ساتھ مل کر دونوں کچی قبروں کے چاروں طرف بانس ٹھونک کر، پلاسٹک کی چادر سے شامیانہ سا بنا دیتا ہے اور دینو بابا کو سایہ دینے کی کوشش کرتا ہے، پر دینو بابا، جون کے دوپہری سورج سے زیادہ غضب ناک ہو جاتا ہے اور بانسوں سے اس وقت تک سر ٹکراتا رہتا ہے جب تک اس کے سر سے لہو نہ بہہ نکلے یا بانس نہ ٹوٹ جائیں۔ لہو ماتھے سے بہہ کر اس کی آنکھوں میں گرتا ہے تو وہ زور سے چیخنے لگتا ہے اور بھاگ کر پھر دونوں قبروں کے بیچ کی جگہ پہ قبضہ جما لیتا ہے۔ دینو بابا کی خبر گیری کو اکلوتا اقلیتی ممبر بھی ایک دورہ کرتا ہے اور اپنے ساتھ ڈاکٹر کو بھی لے آتا ہے۔ ڈاکٹر دینو بابا کی حالت پہ تشویش کا اظہار کرتا ہے اور اسے دماغی علاج کے لیے ہسپتال میں داخل کرانے پر زور دیتا ہے۔ اقلیتی ممبر کے حواری مستعدی سے آگے بڑھتے ہیں اور دینو بابا کو کھینچ کر قبرستان سے باہر لے جاتے ہیں۔ قبروں سے دور ہوتے ہوتے دینو بابا کی چیخیں مدھم ہونے لگتی ہیں، پھر اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلتے ہیں، آخیر آخیر اس پہ غشی طاری ہو جاتی ہے اور قبرستان کی حد سے نکلتے ہی وہ بے دم ہو کر ان حواریوں کی بانہوں میں جھول جاتا ہے اور حواری مجبوراََ اسے قبرستان میں واپس چھوڑ جاتے ہیں۔

    یوحنا آباد کے رہائشی دینو بابا کی قبرستان میں موجودگی کے عادی ہو چکے تھے۔ ان میں سے اکثر بھول گئے تھے کہ چیتھڑوں میں ملبوس، آسمان تکتے رہنے والا یہ بابا کسی زمانے میں کوچوان ہوا کرتا تھا۔ صبح سے شام تک وہ تانگے کے بم پہ بیٹھا، اپنی سات اولادوں میں زندہ بچ جانے والی دو لاڈلی بیٹیوں اور اکلوتے جگر گوشے کے لیے روزی کمانے شہر کی سڑکوں پہ ٹخ ٹخ کرتا پھرتا تھا۔ یہ مرادآباد سے نکل کر یہاں آباد ہوے تھے۔ اس کی بیوی سلائی کا کام کرتی تھی۔ یہ خود کو بھٹی کہلواتے تھیاور چماروں سے دور رہتے تھے۔

    باجی، باجی! دیکھو۔ اللہ توبہ مائی! بشیراں اونچی دھوتی لہراتی، جالی کا دروازہ کھول کر امی کو آوازیں دے رہی تھی۔ رفعت کو دیکھا تو ٹھٹک گئی۔ میں صدقے، میری دھی رانی کب آئی؟ اپنی بات بھول کر وہ رفعت کی بلائیں لینے لگی۔ بس اماں، ابھی پہنچی ہوں، ابھی تو پانی بھی نہیں پیا۔ رفعت بڑے دنوں کے بعد میکے آئی تھی۔ جب سے چھوٹا کامی سکول جانے لگا تھا، اس کا گھر سے نکلنا اور بھی مشکل ہو گیا تھا۔ اب کی دفعہ چھٹیاں ہوتے ہی اس نے امی کے گھر جانے کا سوچ رکھا تھا۔ آخری دن کامی سکول سے آیا تو وہ فوراً سامان اٹھا، میکے کی گاڑی میں بیٹھ گئی تھی۔ ان پہ رہتی تو سسرال کے بکھیڑے ہی نہ ختم ہوتے۔ دن پہ دن ٹلتے چلے جاتے، روز سامان بندھتا اور روز شام ڈھلے کھول دیا جاتا۔

    امی ٹرے میں شربت کا جگ اور گلاس لے کر آ گئی تھیں۔ شکر ہے یہ آئی تو سہی، اب کچھ دن رک کے ہی جائےگی۔ امی نے ٹرے میز پر رکھ دی۔ رفعت نے جھکی ہوئی ماں کو دیکھا۔ امی کتنی کمزور ہو گئی ہیں۔ امی، بھابھی کہاں ہیں؟ امی نے سیدھا ہوتے ہوے دھیرے سے جواب دیا، اندر کمرے میں ہے اپنے۔ ابھی سکول سے آئی ہے۔ استادوں کو ابھی چھٹیاں نہیں ہوئیں۔ بڑی کلاسوں کی لڑکیاں بھی آتی ہیں۔ رفعت ذرا سی شرمسار ہوئی۔ اچھا، چلیں آرام کرنے دیں انھیں۔ اٹھیں گی تو ملتی ہوں ان سے۔ میکے آئی نند سے بھابھی کی بےتوجہی کو بشیراں نے محسوس تو کیا لیکن کچھ بولی نہیں۔ دبلی پتلی، کھچڑی بالوں والی ماسی بشیراں اس وقت سے اس گھر میں کام کر رہی تھی جب رفعت کو قمیص پہننے کا ڈھنگ بھی نہیں آتا تھا۔ روز صبح جب امی ناشتے کے لیے باورچی خانے میں جاتیں تو بشیراں کے لیے باہر کا دروازہ کھول جاتی تھیں۔ بشیراں اندر داخل ہو کر سیدھی رفعت کے کمرے میں آتی، اسے اور چھوٹی بہن کو تیار کرتی اور جلدی جلدی بالوں میں کنگھی کر کے ناشتے کی میز پر لے آتی۔ رفعت کی سیدھی مانگ پر نظر پڑی تو مسکرا کے بولی۔ آج کس نے کنگھی کی میری شہزادی کی؟ رفعت کو بھی وہ زمانہ یاد آ گیا۔ اماں، خود ہی کی ہے۔ دیکھو، گڈی کی مانگ بھی دیکھو، اور کنگھی بھی نہیں ٹوٹی۔ امی کو بھی یاد آیا۔ توبہ، روز کنگھی توڑتی تھی تو بشیراں! کیا کرتی مائی، اس جھلی کے بال ہی ایسے تھے۔ اوپر سے تیری آوازیں۔ اچھے بھلے بندے کے ہاتھ پاؤں پھلا دیں۔ چھیتی کے کام تو پھر ایسے ہی ہوتے ہیں ناں۔

    بڑے مزے کے دن تھے وہ۔ ابا ہائی وے میں ایس ڈی اوتھے۔ محکمے کے بیلدار سرکار کی نوکری کم کرتے اور امی کی چاکری میں زیادہ مصروف رہتے تھے۔ دو تین نے تو گھر ہی دیکھ لیا تھا، روز صبح دفتر پہنچ کے حاضری لگاتے اور بابو سے کہتے، صاحب، اماں کو سلام کر آؤں؟کل شام انھوں نے کہا تھا صبح پھیرا لگا لینا۔ آٹا پسوانا ہے۔ یا: صاحب، کل گھر گیا تھا۔ گھاس بہت زیادہ ہو گئی۔ آج آپ سڑک پہ نہ بھیجیں تو گھاس کاٹ آؤں؟ ابا بھی سب سمجھتے تھے۔ زیادہ لیت و لعل نہ کرتے۔ نکا اور مجید بیلدار تو رہتے ہی امی کے پاس تھے۔ گھر میں افراد خانہ کم اور نوکر زیادہ تھے۔ بیچ بانٹ سے بچ رہنے والی کچھ تھوڑی بہت زمین بھی تھی۔ مزارعے بھی امی کی خوشنودی کو آتے جاتے موسمی میوے لے آتے اور امی کی مہمان نوازی کا لطف اٹھاتے ہوے چھوٹے موٹے کام کر جاتے تھے۔ ابا پیسہ کمانے کا ڈھنگ جانتے تھے اور افسروں کو خوش رکھنے کا بھی۔ گھر میں کتنا روپیہ آیا، امی نے کبھی گنا نہیں، نہ کبھی تالا لگایا۔ چھوٹا شہر، چھوٹی ضرورتیں، آن بان قائم رکھنا زیادہ دشوار نہ تھا۔ بالکل زمیندارنی تھیں امی، جب تک ابا زندہ رہے۔۔۔

    رفعت کو ابا کی یاد آئی تو مسکراتے لب ذرا بھنچ گئے اور وہ سر جھکا کر گڈی کے بالوں سے کھیلنے لگی۔ امی نے بھی اس کی اداسی کو محسوس کر لیا۔ میں کیا کرتی۔ وہ اس کا بابا نہیں تھا، دینو، وہ تانگہ لے کر بڑے دورازے پر کھڑا ہو جاتا تھا اور گھنٹی پہ گھنٹی بجاتا رہتا تھا۔ اسے دیر ہو جاتی تھی تو اندر آ جاتا تھا، سیدھا باورچی خانے میں۔ کمبخت کو کتنا سمجھاتی تھی کہ اندر نہ آیا کرے، پر وہ تو مانتا ہی نہیں تھا۔ خود ہی چنگیر اٹھا کے پراٹھا لینے آ جاتا تھا اور پیالی میں چائے ڈال کے سُڑک سُڑک پینا شروع کر دیتا تھا۔ امی نے رفعت کا دھیان بٹا دیا۔ وہ جانتی تھی کہ صلح کل زمیندارنی کو دینو بابا سے بڑی چڑ تھی۔ جس برتن کو بابا کا ہاتھ لگ جاتا، امی دوبارہ اسے استعمال نہیں کرتی تھیں۔ بابے کا باورچی خانے میں آنا تو امی کو سخت ناپسند تھا۔ بہانے بہانے سے کہتیں، بابا، یوں سیدھے منھ اٹھا کے اندر نہ گھس آیا کرو۔ اندر بیبیاں ہوتی ہیں۔ صحن میں رک جایا کرو۔ وہیں چائے پانی مل جائےگا۔ بعض بعض دفعہ تو نکا یا مجید اسے دروازے ہی پر روک لیتے۔ بابا جانے سمجھتا نہیں تھا یا شرارت کرتا تھا۔ جس دن اماں زیادہ خفا ہوتیں وہ اچھا مائی کہتا کان لپیٹ کر باہر نکل جاتا اور اگلے دن پھر صبح صبح مقررہ وقت سے کہیں پہلے دروازے پر آن موجود ہوتا۔ اسی لیے امی کی خواہش ہوتی تھی کہ بچیاں بابے کے آنے سے پہلے تیار ہوں تاکہ اسے کھلے دروازے سے اندر آنے کا موقع ہی نہ ملے۔ چوہڑے ہیں یہ لوگ، گندے۔ پلید۔ کچھ بھی کر لیں چوہڑے ہی رہیں گے۔ امی کو پاکی پلیدی کا بہت دھیان رہتا تھا۔ رفعت کبھی کبھی بحث کرتی، امی، اماں بشیراں سے تو صاف ہی ہے دینو بابا۔ اماں سے اتنی بو آتی ہے۔ نہاتی بھی نہیں وہ۔ دینو بابا تو روز مسواک بھی کرتا ہے۔ رفعت جانتی تھی کہ سکول کے تمام رستے میں دینو بابا منھ میں مسواک لیے چباتا رہتا تھا۔ وہ مسلمان تو ہے نا۔ اِنھیں کیا پتا پاکی پلیدی کا، صرف تن کی صفائی سے کیا ہوتا ہے! جانے دیں امی!اماں بشیراں کو تو کلمہ بھی نہیں آتا۔ میں نے خود پوچھا تھا اس سے۔ اور جس کو کلمہ نہ آئیوہ مسلمان نہیں ہوتا۔ رفعت مولوی صاحب کا پڑھایا ہوا سبق دہراتی۔ رہنے دے تو بس۔ اس کو کلمہ آتا ہے یا نہیں، یہ اس کا اور اللہ کا معاملہ ہے۔ تو بڑی بوبو نہ بن۔ ہم نے اپنے بڑوں سے سنا ہے۔ یہ یہودی اور عیسائی اللہ کے دشمن ہوتے ہیں۔ یہ مسلمانوں کے دوست نہیں ہو سکتے۔ دینو کا پیو ہمارے کھیتوں میں کام کیا کرتا تھا۔ گاؤں کے باہر، چھپڑ کے کنڈے دوچار گھر تھے ان کے، وہیں رہتے تھے یہ سب۔ گائے بھینسوں کا گند صاف کرتے تھے۔ ایک اس کا پیو ہی تھا نخرے والا۔ پر تھا تو ان میں سے ہی نا۔ جب فصل اتار کر گھر لاتا تو تیری نانی اللہ بخشے باہر مردانے میں اترواتی تھیں اور ساری کنک دھو کر پاک کرواتی تھیں۔ تب اس کا آٹا پسوایا جاتا تھا۔ تجھے اور تیرے باپ کو کچھ زیادہ ہی سمجھ ہے اسلام کی! ابا بھی دینو بابا کی حمایت کرتے تھے۔ امی ان سے تو براہ راست کچھ نہ کہہ سکتی تھیں لیکن رفعت کے کان ضرور کھینچ لیتی تھیں۔

    امی اور دینو بابا آگے پیچھے جوان ہوے تھے۔ کبھی کبھی جب امی موڈ میں ہوتیں تو خوب مزے مزے کے قصے سنایا کرتی تھیں۔ ملکوں کی بیٹی ہونے کے ناتے امی کو کھیتوں میں گھومنے، درختوں پہ چڑھنے یا چاندنی راتوں میں سہیلیوں کے گھر جا کر لکن میٹی کھیلنے کی اجازت نہیں ملتی تھی۔ زمینیں تو بٹ بٹا گئیں، آن بان باقی تھی۔ دکانوں پہ جا کے سودا سلف لانا ان کی شان کے خلاف تھا۔ اپنی ضرورتوں کے لیے انھیں کسی رازدار دوست کی حاجت رہتی تھی اور فضل مسیح عرف پھجّے کمّی کا بیٹا دانیال عرف دینو اس کے لیے موزوں ترین تھا۔ ایک تو اس لیے کہ گھر میں ا س کی آمد و رفت ابھی پابندی سے مبرا تھی، دوسرے رفعت کے بڑے بھائی یا رشتے دار لڑکے اسے خود سے پرے رکھتے تھے۔ گاؤں میں اس کے خاندان کی کسی سے زیادہ قربت نہیں تھی۔ وہ لوگ خود بھی خاموش ہی رہتے تھے۔ راز کھلنے کا کوئی خطرہ نہیں تھا۔ بھا مالے کی ہٹی سے کھٹی املی اور ٹاٹری کا چورن منگوانا ہو یا چھوہارے اور کشمش کی سوغات، دینو اس کے لیے سب سے مناسب تھا۔ کبھی کبھی دینو ان کے لیے کچی کیریاں بھی چن کے لاتا تھا، جسے وہ دونوں چھپ کے کھاتے تھے۔ جب کبھی امی ٹیوب ویل پر جانے کی بہت ضد کرتیں تو نانی ایک دو بزرگ خواتین کی نگرانی میں انھیں جانے کی اجازت تو دے دیتیں لیکن مرد کے نام پر دینو کو بھی رکھوالی کے لیے بھجوا دیتی تھیں۔ کھیتوں میں پہنچ کر وہ عورتیں پیپل کی چھاؤں میں چادر بچھا کے لیٹ جاتیں اور امی اور دینو درختوں پہ چڑھ کے گلہریوں کا تعاقب کرتے رہتے۔ دن اسی طرح گزرتے رہے، یہاں تک کہ امی نے جوانی کی سرخ دہلیزپر قدم رکھ دیا، دینو کے ہونٹوں کے اوپرکا رواں بھی گہرا ہو گیا اور نانی نے امی کو پاکیزگی کے پہلے غسل کا طریقہ سمجھاتے سمجھاتے دینو کا گھر میں داخلہ بند کر دیا۔ شروع کے چند مہینے امی کو دینو کی بڑی یاد آتی رہی۔ نانی سے کئی بار ضد بھی کی۔ پھر آہستہ آہستہ دینو کے لیے امی کی ہڑک کم ہوتی گئی، اتنی کم کہ اس ہڑک نے تب بھی زور نہ کیا جب امی کو نانی نے بتایا کہ دینو کھیت مزدوری چھوڑ کر، ان کے سسرالی شہر میں تانگہ چلانے لگا ہے۔

    رفعت کو بابا دینو بہت اچھا لگتا تھا۔ کبھی جب امی بابے کے باورچی خانے میں آنے پر ناک چڑھاتیں تو اس کا جی چاہتا کہ وہ ان املیوں اور چورن اور کیریوں کے بارے میں پوچھے جو امی نے بابے کے ہاتھ سے لے کر کھائی تھیں۔ اسے یاد تھا کہ جب اس نے سکول جانا شروع کیا تو نکا اسے سکول چھوڑنے جاتا تھا۔ وہ آگے سٹینڈ پر بیٹھتی اور بھیا پیچھے کیریر پر۔ پھر وہ بڑی کلاس میں آ گئی اور اس سے چھوٹے دونوں بھائی بہن بھی سکول جانے لگے تو نکے کی سائیکل چھوٹی پڑ گئی۔ انھی دنوں بھیا نے ضد کر کے پھٹپھٹی خرید لی۔ بھیا اور بوبی اسی پر سکول جانے لگے تھے۔ ان دونوں بہنوں کے لیے تانگے کی تلاش شروع ہوئی تو ابا کو بابا دینو یاد آ گیا۔ لمبامگر جھکا ہوا قد، سانولا، دھوپ سے جھلسا ہوا رنگ، اونچا پیڑھ اور بڑے بڑے مٹیالے دانت جو ہر وقت کی مسواک سے بھی اجلے نہ ہو پاتے۔ بابا بالکل خاموش بھی ہوتا تو جیسے مسکراہٹ اس کی باچھوں سے ٹپکتی رہتی تھی۔ شروع شروع میں اماں بشیراں دونوں بہنوں کو اگلی سیٹ پہ بٹھا کے خود پچھلی سیٹ پر بیٹھ جاتی اور ان کو سکول پہنچا کے لوٹ آتی۔ پہلے روز جب بابے نے ان کے ساتھ اگلی سیٹ پہ بیٹھنا چاہا تو اماں بشیراں نے جھڑک دیا۔ بابا، بم پہ بیٹھ، بم پہ۔ ملکوں کی بچیاں ہیں، کچھ حیا کر۔ اتنی سی عمر میں بھی نماز روزہ کرتی ہیں۔ ان کی ماں نے دیکھ لیا تو ہر کپڑا دھلوانے بیٹھ جائےگی۔ بشیراں امی کے وہم جانتی تھی۔ بابا کھسیا گیا اور اچک کر تانگے کے بم پر بیٹھ تو گیا لیکن اس کی بڑ بڑاہٹ جاری رہی۔ مائی، میں کیا گند اٹھاتا ہوں؟ خداوند کی قسم، آ ج تک دینو نے ٹٹی کی ڈھیری کو ہاتھ نہیں لگایا۔ میرا باپ کھیتوں میں سے رزق نکالتا تھا۔ تجھے پتا ہے، میرا چاچا انگریزوں کے رسالے میں نوکر تھا، نئی وڈا افسر ہو گیا تھا۔ ابا بتاتا تھا، جب اجاڑے پڑے تو ہم ادھر تھے اپنے کھیتوں پر اور وہ گیا تھا اپنی پلٹون کے ساتھ۔ بچارا مڑکے آ ہی نہ سکا۔ پتا نہیں جیتا تھا کہ مر گیا۔ میرا ابا ساری عمر ترستا رہا اپنے بھائی کو۔ جو وردی وہ اتار کے گیا تھا نا، وہ ساری عمر سنبھالی ابا نے۔ آج بھی پڑی ہے میرے گھر۔ اس روز جب تو آئی تھی اپنی دھی کے کپڑے سلوانے، تو دکھائی نہیں تھی تجھے؟ او ٹھیک ہے بابا، بشیراں نے بابے دینے کی تقریر بند کرنے کو کہا۔ میرا کیا ہے، تو بیٹھ جا کاکیوں کے ساتھ، خود ہی جواب دے لینا۔ ہنس مکھ بابے کو نہ جانے کہاں چوٹ لگی تھی، اس نے سر ہلا دیا اور خاموشی سے اپنی جگہ بیٹھا تانگہ چلاتا رہا۔ ہفتے دس دن میں بشیراں کی ڈیوٹی ختم ہو گئی۔

    دونوں لڑکیوں کو بھی تانگے کی پچھلی سیٹ پہ جم کے بیٹھنا آ گیا لیکن اگلی سیٹ خالی ہونے کے باوجود بابا دینا بم پر ہی بیٹھتا تھا۔ جھجک کم ہوئی تو رفعت نے بابے سے کہا بھی کہ وہ سیٹ پر بیٹھ جائے، لیکن بابے نے ہولے سے ہنس کے کہا، مائی، تو اتنی بھاری ہو گئی ہے، اگر میں بم پہ نہ بیٹھا تو تانگہ الر جائےگا۔ میں ادھر ہی ٹھیک ہوں، بھار برابر رہتا ہے۔ رفعت کو بابے کی بات بڑی معنی خیز لگی لیکن اس کی معصومیت نے کچھ زیادہ سمجھنے نہ دیا۔ اتنا پتا چلا کہ بابے کو برا لگا ہے۔ اس دن وہ امی سے ناراض ناراض رہی۔ شام کو کھانا بھی نہیں کھایا اور جب ابا آ ئے تو اس نے فوراً شکایت کی۔ ابا، آپ کوپتا ہے، بابا دینو نے کبھی گند کو ہاتھ نہیں لگایا، وہ فوجیوں کا بیٹا ہے۔ اور وہ چوہڑا بھی نہیں ہے، اور اماں بشیراں نے اس کی اتنی بےعزتی کی ہے۔ بابا بتا رہا تھا کہ خود تو اماں ان کے گھر سے سالن بھی مانگ کے لے جاتی ہے اور امی کو خوش کرنے کے لیے اس نے بابے کے منھ پہ اسے پلید کہہ دیا۔ رفعت کی موٹی موٹی آنکھوں میں آنسو بھر آئے تھے۔ ابا بپھر اٹھے اور امی کو بہت دیر تک ان کی گرج برداشت کرنی پڑی۔ وہ کان لپیٹے سنتی رہیں اور رفعت کامیابی کی معصوم سرشاری کو لیے ابا کے پہلو ہی میں سو گئی۔ اس دن کے بعد سے امی کی کبھی اتنی ہمت تو نہ ہوئی کہ و ہ ابا سے براہ راست کچھ کہہ سکیں لیکن بابے کی پلیدی ان کے لیے پاکی میں نہ بدل سکی۔ ہونہہ، فوجیوں کا بیٹا، کسان کی اولاد! موئے شودروں کی اولاد ہیں۔ پوچھنا تھا اس سے، تیرے باپ کا باپ کیا کرتا تھا؟ اور اس کا باپ؟۔۔۔ خیرات پہ پلنے والے، بھکاری۔ پورے دہلی کو کماتے تھے یہ لوگ، ادھر بھی اور اِدھر بھی۔ ہمارے کھیتوں میں آئے تھے تب بھی حویلیاں کماتے تھے یا باڑے صاف کرتے تھے۔ پنڈ سے باہر تھی ان کی بستی۔ جانے کون سی منحوس گھڑی تھی جب ان کو اجازت دے دی۔ فصلوں کو ایسا ناپاک ہاتھ لگایا کہ برکت ہی اٹھ گئی۔ ہمارے بڑوں نے تو تبھی کہہ دیا تھا کہ وبال آئے کہ آئے۔ اور دیکھو، ان دنوں کبھی کال پڑ جاتا تھا، کبھی ہیضہ۔ اور کچھ نہیں تو اُجاڑے پڑ گئے۔ کھڑی فصلوں کو آ گ لگا دی کافروں نے۔ کنووں میں زہر ڈال دیا۔ امی اٹھتے بیٹھتے اس کو سناتی تھیں۔ امی کا بگڑا مزاج دیکھ کر اس کی ہمت نہ ہوئی، ورنہ وہ پوچھنا چاہتی تھی کہ ا جاڑے پڑے تو فصلوں کو آگ دینو بابا نے لگائی تھی یا کنووں میں زہر اس نے ڈالا تھا؟ وہ کئی روز تک سوچتی رہی، پھر ایک دن اس کے سینے میں مچلتے سوال اس کی زبان پر آ ہی گئے۔

    ان دنوں وہ بابے سے بہت باتیں کرنے لگی تھی۔ درمیانی گدیلی ٹیک سے کمر ٹکائے، گردن ذرا موڑ کر وہ بابے کو بلاتی اور طرح طرح کے سوال کرتی۔ وہ سوال جن کا جواب امی کے پاس تھانہ بشیراں کے پاس، اور مولوی صاحب سے کچھ پوچھنے کی ہمت تو وہ کبھی جٹا ہی نہ پائی تھی۔ بابا، عیسائی پلیدکیوں ہوتے ہیں؟وہ ہمارے دشمن کیوں ہیں؟ تم لوگ شہر سے باہر کیوں رہتے ہو؟ تم نے گاؤں کیوں چھوڑ دیا؟ وہاں واپس کیوں نہیں جاتے؟ تمھارے پاس پیسے کیوں نہیں آتے؟ تم کلمہ کیوں نہیں پڑھ لیتے؟ اور پتا نہیں کیا کیا پوچھتی رہتی۔ بابا کبھی ہنس دیتا، کبھی چپ رہتا اور کبھی ڈھیر ساری باتیں کرنے لگتا۔ مائی، ہم کہاں تیرے دشمن ہیں! اسی مٹی سے تو اٹھے تھے ہم بھی۔ یہیں کا رزق کھاتے تھے۔ کبھی کہتا، خداوند کو مان لیا تو کافی نہیں؟ اب کلمہ پڑھ لینے سے کیا ہوگا۔ کسی روز جب وہ اپنے شاہجہاں عرف جھانے کو لے آتا ساتھ، تو اس کی خوشی دیدنی ہوتی۔ چودہ پندرہ برس کا دبلا پتلا سانولا سا لڑکا، گھنیرے بھورے بال اور اٹھتی جوانی کی نمایاں مہک میں بسا پسینہ۔ اس دن رفعت کو بابا دینا اور بھی اچھا لگتا۔ بابے کی ٹور ہی بدل جاتی۔

    جھانا دسویں کلاس میں پڑھتا تھا۔ روشن آنکھوں سے ادھر ادھر دیکھتا رہتا۔ اس روز بابا اپنے پتر کو لے کے باورچی خانے میں آ گیا تھا۔ مائی، تجھے سلام کرنے آیا ہے۔ اس کا امتحان شروع ہو رہا ہے۔ امتحانوں کے بعد اسے فوج میں بھیجوں گا۔ اسی کے لیے تو گاؤں چھوڑ کے آیا تھا۔۔۔ امی کے کچھ کہنے سے پہلے ہی بابے نے اپنی بات کہہ دی۔ امی بادل ناخواستہ اپنی پیڑھی سے اٹھیں اور دونوں کو لے کر باورچی خانے سے باہر آ گئیں۔ اچھا بابا، اللہ سلامت رکھے، تیرا خدمت گذار بنائے۔ جھانے کو غور سے دیکھا تو امی کچھ پگھل سی گئیں۔ تم لوگوں میں تو ہوتا نہیں، پر دینے، اس کا صدقہ دے، نظر اتار اس کی۔ تیرا کلا کلا پتر ہے۔ امی کے بچپن کی کوئی یاد جھلملائی تھی۔ اچھا، چل میں ہی دے دیتی ہوں۔ امی کو دھیان آ گیا، اللہ کی راہ پہ نکالی خیرات، اللہ کے ماننے والے ہی کو دی جا سکتی ہے۔ انھوں نے دوپٹے کے پلو سے بندھے کچھ روپے نکالے، منھ ہی منھ میں کچھ پڑھا اور بشیراں کو آواز دے کر جھانے کے سر کی بلا اس کے سپرد کر دی۔ بابا خوش خوش واپس چلا گیا۔ ہائے، اتنا جوان، اور کافر!اللہ اسے ہدایت دے۔ امی کو جھانے کا کئی دن تک خیال آتا رہا تھا۔

    امی کا بس چلتا تو وہ کسی اور تانگے والے کو لگا لیتیں۔ پر ابا کی گھرکی اور رفعت کا ناز ان کو روک لیتا۔ پھر بھائیوں کو بھی تسلی تھی۔ لیکن جب جھانے کو ڈنگر ہسپتال میں سرکاری نوکری مل گئی تو امی کی خواہش پوری ہونے کا وقت بھی آ گیا۔ سکولوں میں گرمیوں کی چھٹیاں تھیں۔ بابا دینو مٹھائی لے کر آیا تھا۔ مائی، اب جھانا تانگہ نہیں چلانے دیتا۔ میں نے بھی منت مانی تھی، جب جھانے کو پکی نوکری مل گئی تو تانگہ چھوڑ دوں گا۔ خداوند مدد کرے، ایک دن آئےگا جب میرا جھانا ہسپتال کی بڑی سیٹ پہ بیٹھےگا۔ سخت اور شدید میٹھی برفی کا ڈبا پکڑیبابے کی آنکھوں میں چمک تھی۔ فوجی نہ سہی، اس کا جھانا نائب قاصد ہو گیا تھا، گریڈ ایک کا ملازم۔ اور ابھی تو نوکری شروع ہوئی تھی، افسر بننے کے لیے بہت وقت پڑا تھا۔ وہ خوش کیوں نہ ہوتا، اس کے بیٹے نے سرکار کی نوکری کے لیے اپنی اہلیت ثابت کر دی تھی۔ مائی، چھٹیوں کے بعد کاکیوں کا کچھ بندوبست کر لینا۔ امی کو پہلی مرتبہ دینے کے لہجے میں غرور محسوس ہوا۔

    ویہڑے کے ساتھ والے کھیت کی اگلی طرف، دوسرے کھیت کی مڈھ پر شہزادے تانگے والے نے ایک کمرے اور چھوٹے سے صحن پر مشتمل گھر بنایا ہوا تھا۔ اس کی گھر والی آئی بھی تھی کہ ملک صاحب کی اجازت ہو تو شہزادہ بچیوں کو سکول چھوڑ آیا کرےگا۔ بابے دینے نے تانگہ چھوڑا تو اماں نے اسے ہاں بول دی۔ اس کا تانگہ بھی بہت سوہنا تھا۔ سرخ چمکیلی ریگزین کی سیٹیں، نچلی طرف پولیسٹر کی جھالریں اور چھت پہ لگے رنگ برنگے اونی پھندنے، جو کبھی میلے نہیں ہوتے تھے۔ ہر جمعے کی صبح شہزادہ ان پھندنوں کو اتار کر دھوتا اور تانگے کی اچھی طرح صفائی کرتا تھا۔ بم کے مڈھ پہ لگے پیتل کے پتروں کو لیموں سے رگڑ رگڑ کر مانجھتا اور جب تک وہ سونے جیسے چمکنے نہ لگتیتب تک اس کی تسلی نہ ہوتی۔ اوراس کا گھوڑا۔۔۔ پہلے دن جب رفعت تانگے پر بیٹھنے گھر سے نکلی تو گھوڑے کو تکتی رہ گئی۔ سرسوں کے تیل کی روزانہ مالش سے سنہری لشکارے مارتا سفید، اونچا، مضبوط بدن، جس پر چمڑے کے ساز سے بننے والے زخم کا کوئی نشان تک نہیں۔ سر پہ رنگ برنگی کلغی اور پاؤں میں گھنگھرو۔ ہولے ہولے پھنکارتا، کجلی آنکھوں سے اس کی طرف دیکھتا۔ اس کے نتھنے پھول پچک رہے تھے اور زمین پر رگڑتے کھر کی ہلکی ہلکی جنبش سے پنڈلیوں اور ران کے پٹھے نا محسوس انداز میں پھڑکنے لگے تھے۔ رفعت کو اپنی ٹانگوں میں سنسنی سی محسوس ہوئی اور ایک ٹھنڈی لہر اس کی کمر کے نچلے حصے میں دوڑنے لگی۔ اس کا بے اختیار جی چاہا کہ وہ گھوڑے کی کاٹھی کو چھو کردیکھے، لیکن ایک انجانے خوف نے اسے روک دیا۔ شہزادے نے سفید چادر کی بکل مارے، نوجوانی کی دہلیز پہ کھڑی، کالی چوٹیوں اور بھوری آنکھوں والی معصوم سی رفعت کو بڑے غور سے دیکھا تھا اور رازدارانہ انداز میں پوچھا تھا، بی بی، آگے بیٹھو گی آپ؟ رفعت نے ذرا سا سر ہلایا تو اس نے بڑھ کر اسے سہارا دیا اور رفعت پائیدان پر قدم رکھ کر ایک جھٹکے سے تانگے کی اگلی سیٹ پر بیٹھ گئی۔ چھوٹی کے پچھلی سیٹ پر جم جانے کے بعد شہزادے نے خیر ہو کا نعرہ لگایا اور پائیدان پہ کھڑے کھڑے بولا، چل وے ہیرے، ذرا پولے پولے چل۔ لگام کی مخصوص جنبش کے ساتھ ہیرا دلکی چال چلنے لگا۔ رفعت سانس روکے، گھوڑے کی دم پر نظر جمائے، اس کے کولھوں کے پٹھوں کی حرکت کو محسوس کر رہی تھی۔ گھر کا دروازہ نظر سے اوجھل ہوتے ہی گھوڑے کی چال میں تیزی آ گئی تھی اور شہزادہ بھی پائیدان سے اچک کر سیٹ پر آ بیٹھا تھا۔ اس کی ریشمی لنگی کچھ زیادہ ہی لچکیلی تھی۔ ذرا سی ہوا سے کھل کھل جاتی اور گٹھیلی ران کا کچھ حصہ نمایاں ہو جاتا۔ اس روز رفعت کو بہت گرمی لگی۔ سارا دن سکول میں وہ پانی پیتی رہی اور اگلے دن وہ بشیراں کے آنے سے بھی پہلے سکول جانے کے لیے تیار تھی۔

    دن گزرتے رہے۔ رفعت اگلی سیٹ کی عادی ہوتی جا رہی تھی۔ شہزادے کی آنکھوں کا سرمہ کچھ اور گہرا ہونے لگااور دونوں کی نشستوں کا فاصلہ دھیرے دھیرے گھٹنے لگا۔ ملکوں کی کوٹھی سے نکل کر، پکی سڑک کے پار، پرچون کی دکان کے مستقل گاہکوں کی نظریں شہزادے کے تانگے پر جمنے لگیں۔ بشیراں، نکے اور مجید میں رازدارانہ سرگوشیاں ہونے لگیں اور ایک دن ان سرگوشیوں کی بھنک امی کے کانوں تک جا پہنچی۔

    امی نے بوکھلا کر بھڑولے میں سے سارا باسمتی نکلوا لیا اور ابا سے پوچھے بغیر رفعت کے بر کی تلاش شروع ہو گئی۔

    رفعت اداس تھی۔ سکول کا آ خری مہینہ، پھر امتحانات، اور شہزادہ بھی اب نہیں آتا تھا۔ امی اسے چھت پہ بھی نہیں جانے دیتی تھیں۔ اس کا ذہن الجھ کر رہ گیا تھا۔ بہت دنوں کے بعد اسے بابے دینو کی یاد آنے لگی۔ اس نے سوچا، امی سے کہہ کر بابے کو بلا لے، پھر جھجک گئی۔ جب امی نے شہزادے کا حساب کیا اور نئے تانگے والے کی تلاش شروع ہوئی، دینو بابا کا ذکر چھڑا۔ امی کے کچھ کہنے سے پہلے بڑے بھیا ایک دم بھڑک اٹھے۔ ہر گز نہیں! کوئی کافر ہمارے گھر نہیں آئےگا اور اسے بھی سکول جانے کی کوئی ضرورت تو ہے نہیں۔ اس نے کیا نوکری کرنی ہے؟ بس آپ اسے گھر بٹھائیں۔ شادی کر دیں، یا اس نے پڑھنا ہی ہے تو کوئی دین کا علم حاصل کر لے۔۔۔ بڑے بھیا نے اپنی بالشت بھرڈ اڑھی پر ہاتھ پھیرتے ہوے اور بھی بہت کچھ کہا تھا لیکن رفعت نے سنا نہیں۔

    کتنا بدل گئے ہیں بھیا۔۔۔ وہ بھیا کی ڈاڑھی میں الجھ گئی تھی۔ سال بھر پہلے جب بڑی سڑک تکمیل کے ایک مہینے بعد ہونے والی پہلی بارش میں بہہ گئی تھی اور کئی دوسرے ناموں کے ساتھ ابا کا نام بھی شاملِ تفتیش ہونے لگا تھا، ان دنوں امی نے صدقہ خیرات میں اضافہ کر دیا تھا۔ گھر کے باہر سبیل لگوائی۔ درود تنجینا کا کئی مرتبہ ختم کرایا۔ ادھر ابا کے خلاف شہادتیں بڑھتی گئیں، ادھر امی کے نوافل کی رکعات میں اضافہ ہونے لگا۔ پھر امی نے بڑے بھیا کو سکول سے اٹھوا کر مولوی صاحب کے سپرد کر دیا۔ ابا نے کہا، اچھا ہے، اولاد نیک ہوگی تو ہماری آخرت بھی سنور جائےگی۔ چھ مہینے کی تفتیش اور محکمہ جاتی کاروائیوں کے بعد ابو کو بےگناہ قرار دے دیا گیا۔ سارے میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ ایک دفعہ پھر نوافل اور نیاز کا سلسلہ شروع ہوا، لیکن اس مرتبہ نوعیت بھی مختلف تھی اور جذبہ بھی۔ ابو دفتر جانے لگے تو سب کچھ معمول پر آ گیا، لیکن اس وقت تک بھیا کا مدرسے جانا بھی معمول کا حصہ بن گیا تھا۔

    بھیا کی تبدیلی بہت زیادہ چونکا دینے والی نہیں تھی۔ بہت دنوں تک کسی کو احساس ہی نہیں ہوا کہ مدرسے سے واپسی پر بھی ٹوپی بھیا کے سر پر رہتی ہے اور ان کی شلوار ٹخنوں سے مستقل اونچی رہنے لگی ہے۔ وہ زیادہ تر خاموش رہتے اور ان کے ماتھے کی سلوٹ گہری ہو گئی۔ بھیا کے بال ان کی ٹوپی سے نکل کر شانوں کو چھونے لگے تب بھی کسی نے خیال نہ کیا۔ حیرت اس وقت ہوئی جب بھیا نے، ضد کر کے لی ہوئی پھٹپھٹی بیچ دی۔ امی، ابا نے بہت پوچھا کہ پیسوں کا کیا کیا لیکن بھیا نے کوئی جواب نہ دیا۔ کہتے تھے، آپ فکر نہ کریں۔ اللہ کی راہ پہ خرچ کیے ہیں۔ اور اللہ کی راہ پہ جو خرچ کیا جائے اس کی تشہیر نہیں کرتے۔ گھر کا باہری کمرہ ان کی قبضے میں رہنے لگا جہاں رات رات بھر وہ اور ان کے دوست دروازہ بند کر کے عبادت میں مشغول رہتے تھے۔ ایسے میں کسی کو اجازت نہ ہوتی کہ ان کی عبادت میں مخل ہو سکے۔ بھیا کی بعض راتیں مسجد میں بھی گزرنے لگیں۔ امی نے ان تمام تبدیلیوں کو دیکھا اور شکر گذار ہوئیں کہ ان کے گھر میں بھی دین کی سمجھ والا کوئی پیدا ہو گیا ہے۔

    رفعت کا سکول جانا بند ہو گیا۔ ابو کے کہنے سیبھیا اتنے پر راضی ہو گئے کہ رفعت شادی سے پہلے امتحان دے دےگی، تاکہ ایک سند تو ہاتھ لگ جائے۔ اس سے زیادہ کی اس کے میکے یا سسرال میں کسی کو ضرورت تھی نہ خواہش۔ رفعت کا دل نہیں لگتا تھا۔ سارا سارا دن وہ کتابیں کھولے، صفحوں کو گھورتی رہتی یا سوئی دھاگے سے بستر کی چادر پر پھول کاڑھتی۔ امی سے بھی باتیں نہیں ہوتی تھیں۔ یوں بھی ان کے کام بہت بڑھ گئے تھے۔ روز بازار کا چکر لگتا۔ طرح طرح کی فہرستیں بنتیں۔ روئی کے نرخ معلوم کیے جاتے، چڑھاوے کے کپڑے اور مہمانداری کا کھانا طے کیا جاتا اور جانے کیا کیا۔ رفعت بے دلی سے سب دیکھتی رہتی۔ عجیب سناٹا سا چھایا تھا۔

    مغرب کی نماز کے بعد اس شام بڑے بھیا گھر آئے تو بہت جلدی میں تھے۔ ان کا چہرہ سرخ ہو رہا تھا اور آنکھیں بھیگی بھیگی۔ ناک یوں سوجی ہوئی تھی جیسے اس کو مستقل رگڑا جاتا رہا ہو۔ انھوں نے دروازہ کھولا تو صحن میں چھڑکاؤ کرا کے موڑھے پر بیٹھی امی دہل سی گئیں۔ ماں صدقے، کیا ہوا پتر؟ ماں واری، خیر تو ہے؟ نئیں امی، خیر ہی تو نہیں ہے۔ ہم تو یہاں آرام سے بیٹھے ہیں، سرحد پار ہمارے بھائیوں پہ کیا بیت رہی ہے آپ کیا جانیں۔ جہاد فرض ہو گیا ہے ہم پر۔۔۔ بھیا کی آواز کانپ رہی تھی، صحن پار کرکے جھلانی کی طرف جاتے ہوے بھیا سے اتنا ہی کہا گیا۔ امی بے اختیار ان کے پیچھے لپکی تھیں۔ ہوا کیا ہے؟ کچھ بتاؤ تو سہی۔ گھڑونچی پہ پانی کے برتن رکھتی رفعت کے ہاتھ تھم گئے اور اس نے اپنی اوڑھنی کو سر پر درست کرتے ہوے، آنکھیں میچ کے ملگجے اندھیرے میں بھیا کو دیکھنے کی کوشش کی۔ ابا کی چارپائی بچھاتی بشیراں نے چادرتلائی بے تکے انداز میں، چارپائی کی پائنتی پر پھینک دی اور امی کے پیچھے پیچھے چل پڑی۔ دونوں عورتیں ابھی بیچ صحن میں تھیں کہ بڑے بھیا کسی، پھاؤڑے، کلھاڑی اور درانتیاں لیے چھلانی سے برآمد ہوے۔ پتر، یہ کیا ہے؟کہاں جا رہا ہے؟ کسی سے جھگڑا ہو گیا کیا؟ امی کی سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا۔ لیکن وہ اتنا ضرور سمجھ گئی تھیں کہ بھیا کسی دشمنی کی فصل بونے یا کاٹنے کے ارادے سے جا رہے ہیں۔ امی، دعا کرنا، اللہ ہمیں کامیاب کرے۔ آنکھ کابدلہ آنکھ اور جان کا بدلہ جان۔ انھوں نے ہماری عزت پر حملہ کیا ہے، ہم ان کو جواب ضرور دیں گے۔ بھیا غیظ کے عالم میں بول رہے تھے۔ عزت۔۔۔ امی کی نظر رفعت کی طرف اٹھی۔ کہیں شہزادے کی بات تو۔۔۔ ارے جا کہاں رہے ہو؟

    امی کی آواز پھٹ گئی تھی۔ بھیا باہری دروزے کے پاس رکے۔ امی، میرے دوچار جوڑے تیار رکھنا۔ ہو سکتا ہے رات کسی وقت آؤں۔ نہ آیا تو پریشان نہ ہونا، بس دعا کرتے رہنا۔ بھیا دہلیز پار کر گئے۔ جا بشیراں، دیکھ کدھر جا رہا ہے یہ جھلا! امی باہری دروازے کی دہلیز پہ بیٹھی ہانپ رہی تھیں۔ بشیراں نے میلی کچیلی اوڑھنی سر پہ ڈالی اور تیز قدم بھیا کے نقش قدم دیکھتی نکل گئی۔ رفعت کا دل بھی لرز رہا تھا، وہ جھجکتے چور قدموں سے امی کے پاس آئی۔ امی، یہاں سے اٹھیے، آنکھیں پونچھیے۔ ایسے وقت رونا بدشگونی کی بات ہے رفعت نے امی کی بات ہی دہرائی تھی۔ دوپٹے کے پلو سے آنکھیں پونچھتی امی نے یک دم سر اٹھایا۔ دور ہو دِھیے! بد شگونی تو تب ہوئی جب تو پیدا ہوئی تھی۔ امی کے دھکے سے رفعت صحن میں جا گری۔ نکے اور مجید کی ہمراہی میں اندر داخل ہوتے ابا نے سخت حیرت اور نا پسندیدگی سے یہ منظر دیکھااور دہلیز پہ بیٹھی امی کا بازو پکڑ کر سختی سے بولے، کس کا جنازہ ٹور کے بیٹھی ہو ملکانی؟اٹھو، ہوش کرو! ابا کی گرفت میں آکر امی ہوش میں تو آ گئیں لیکن دکھ کے گہرے حصار سے نہ نکل سکیں۔ اللہ خیر، ملک جی! جنازہ نکلے اس مرن جوگی کا۔ وہ گیا ہے عبدل جبار، کسیاں، کلھاڑیاں سب لے گیا ہے۔ کہتا ہے، عزت پہ ہاتھ ڈالنے والوں سے بدلہ لینا ہے۔۔۔ امی کی آواز دھیمی اور لرزاں تھی۔ اس دفعہ امی کے ساتھ نکے اور مجید نے بھی رفعت کی طرف دیکھا۔ رفعت کو لگا جیسے وہ بھرے بازار میں ننگی ہو گئی ہو۔ ان کی نظریں تھیں کہ تیزاب کے چھینٹے، جہاں جہاں پڑتیں، اوڑھنی اور قمیض میں چھید کرتی، بدن کو جھلسائے جاتی تھیں۔ اس نے قریب کی چارپائی سے بستر پوش کھینچ کے اپنے پر لپیٹا اور ٹرنکوں والے کمرے میں گھس کے چھپ گئی۔ ہائے ربا، اسے کس نے خبر کی؟ابا نے امی کا بازو چھوڑ دیا اور جیسے اپنے آپ سے باتیں کرنے لگے۔

    ملک جی، آپ پانی وانی پیو، ہم پتا کر کے آتے ہیں، رفعت کو نکے کی آواز سنائی دی، پھر ان کے جاتے قدموں کی چاپ۔ امی اور ابا دھیرے دھیرے کچھ بول رہے تھے۔ ٹرنکوں کے پیچھے چھپی رفعت کا دل اپنے رب سے کوئی دعا مانگ رہا تھا، جا نے کیا۔ دروازہ پھر کھلا۔ خیر ہے جی خیر ہے! کاکا ادھر نہیں گیا ہے۔ بشیراں کی جانی پہچانی آواز میں بشاشت تھی۔ پتر تو مسیتے وَل بھا گا جا رہا تھا۔ میں خود دیکھ کے آئی ہوں۔ آج بہت لوگ ہیں وہاں۔ اماں، آج شبرات تو نئیں؟ رفعت کو لگا جیسے اس کی دعا قبول ہو گئی ہو۔ تو بھی نا بشیراں! ابھی تو عیدی کے پیسے لے کے گئی ہے پچھلے مہینے، ابھی کدھر سے شبرات آ گئی؟ امی کی آواز ہنستی ہوئی سی تھی بھاری بوجھ ہٹ جانے کے بعد کی میٹھی سی تھکان سے سرشار ہنسی۔ پھر ذرا سی تشویش۔ لیکن وہ اس طرح مسیتے کیوں گیا ہے؟اُدھر کوئی کام وام تو نہیں ہو رہا؟اس نے کہا کیا تھا؟ تجھے یاد ہے کچھ ملکانی؟ابا ابھی تک کچھ بیچین تھے۔ پتا نہیں کیا بول رہا تھا۔۔۔ غصے میں تو تھا۔۔۔ امی کی آواز پھر سے دب گئی۔ ہونہہ، لڑکے آئیں تو پتا چلے۔ دیر کردی انھوں نے۔ اچھا، تھوڑی دیر اور دیکھتا ہوں، ورنہ میں خود مسیتے جاتا ہوں۔ ابا نے گویا فیصلہ کر لیا تھا۔

    نکے اور مجید کی واپسی سے پہلے ابا مسجد پہنچ گئے۔ مسجد بھی کون سا دور تھی، چار چھ فرلانگ کا فاصلہ ہو گا۔ رمضان میں تراویح پڑھنے ابا وہیں تو جاتے تھے۔ گھر سے نکل کر پکی سڑک پر بائیں جانب مڑ جاتے۔ تھوڑا آگے جانے پر مکانوں کا سلسلہ شروع ہو جاتا تھا۔ ان سے ذرا پہلیپرچون کی دکان، پاس ہی مشتاق چائے والے کا اڈا، پر چون کی دکان گزر کر کمیٹی کا نالہ۔ یہاں سے شہری حدود شروع ہوتی تھیں۔ کلمے والی مسجد شہر کی پہلی مسجد تھی، یا دوسری طرف کے باسیوں کے لیے آخری مسجد۔ پکی سڑک کے بالکل اوپر بنی ہوئی، کھلے صحن اور ہرے گنبد والی چھوٹی سی مسجد لوگوں سے بھری ہوئی تھی۔ مدرسے کے سبھی طالبعلم وہاں موجود تھے۔ تیز تیز آوازیں اور متحرک بدن۔ ابا کو اُجاڑے کا زمانہ دھیان پڑا۔ دس بارہ برس کے لڑکے تھے تب وہ۔ گاؤں کی مسجد میں اسی طرح کے اکٹھ ہوتے تھے۔ پھر بلوے، حملے، چیخیں، چمکتی کرپانیں اور لہراتے خنجر۔۔۔ ان کے بڑھتے قدم ذرا سے لرزے۔ خود کو سنبھالنے کے لیے انھوں نے مسجد کے محرابی دروازے کا پٹ تھام لیا اور صورتحال سمجھنے کی کوشش کی۔ نکا اور مجید مسجد کے صحن میں تھے۔ وہ تیزی سے ابا کی طرف بڑھے۔ معافی، ملک جی، دیر ہو گئی۔ بھیا کے پیچھے یہاں پہنچے تو واپسی کا دھیان ہی نہ رہا۔ گل ہی ایسی ہے!نکا پیلے دانت نکالے، مٹھ بھر ہڈیوں تک کا زور لگا کے بولا تھا۔ پر وہ والی گل نہیں۔ اس لیے بھی ہم ادھر رک گئے تھے۔ پریشانی کی گل نہیں ملک جی!مجید سینئر تھا، اسے ابا کی پریشانی یاد آ گئی۔ وہ، ادھر، کافروں نے مسجدیں توڑی ہیں۔ آپ کو تو پتا ہے۔ وہ جو صبح خبر لگی تھی۔ ادھر سب اسی دکھ میں اکھٹے ہو رہے ہیں۔ مولبی صاب نے بتایا ہے کہ ان کے بڑے مولبی نے بندہ بھیجا ہے۔ سب جمع ہوں گے۔ کافروں کو بتائیں گے کہ ہم بھی کم نہیں۔۔۔ نکا بہت پر جوش ہو رہا تھا۔ ابا کو پھر کمزوری محسوس ہوئی۔ ویسی کمزوری جیسی صبح دفتر میں اخبار پڑھتے ہوے، شہ سرخی پہ نظر پڑتے ہی محسوس ہوئی تھی۔ دفتر میں بھی آج سارا دن انھوں نے ایسی آوازیں سنی تھیں۔ انھی سے بچنے کے لیے ہی تو وہ نکے اور مجید کو لے کر سڑکوں کے معا ئنے کو نکل گئے تھے۔ کیا کریں گے؟ ابا کی آواز بھی کمزور تھی۔ کرنا کیا ہے ملک جی، جلوس نکالیں گے۔ انھوں نے ہمارے اللہ کا گھر توڑا ہے۔ ہم ان کے اللہ کا گھر توڑیں گے۔ نکے نے ایک ہاتھ کا مکّا بنا کر دوسرے ہاتھ کی ہتھیلی پر یوں مارا جیسے کسی کافر کا جبڑا توڑ رہا ہو۔ ادھر تو ان کے اللہ کا گھر ہے ہی نہیں۔ پھر کیسے توڑیں گے؟سوال ابا کے ذہن میں تو ابھرا، پر مجمعے کو دیکھ کر ان کے لبوں پر نہ آیا۔ عبدل جبار بھی جا رہا ہے؟ وہ تو نکل بھی گئے۔ ثواب کا کام ہے۔ ہم بھی جا رہے ہیں! مجید نے ابا کو اطلاع دی۔ ابا کو لگا کہ جیسے ان کے حصے کا سب کام ختم ہو گیا ہیاور اب چھٹی کا وقت ہے۔ وہ مڑے اور سست قدموں سے گھر کی جانب چل پڑے۔

    رات بھیگ گئی تھی، ایوب سٹریٹ کے جلد سو جانے والی باسی جاگ رہے تھے۔ نا مطمئن خاموشی سارے میں پھیلی ہوئی تھی۔ بابے دینو کی بڑی بیٹی مریم اور چھوٹی صفیہ، اور مائی جیراں ایک کمرے کے مکان میں سمٹ کر بیٹھی تھیں۔ کاکی، مشین ہی چلا لے۔ نیند تو ویسے بھی نہیں آنی، شاید خاموشی سے گھبرا کر مائی جیراں نے مریم سے کہا تھا۔ اماں، بابا کب آئےگا؟ اور جھانا۔۔۔ مریم خوفزدہ تھی۔ ابھی گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ پہلے وہ سب اکھٹے بیٹھے کھانا کھا رہے تھے۔ جھانے کو نئی نئی تنخواہ ملی تھی۔ وہ گوشت لے کے آیا تھا۔ اماں نے بینگن ڈال کے گوشت پکایا اور چاول ابالے تھے۔ جھانے کی پسند کا کھانا۔ پر جھانے نے زیادہ نہیں کھایا۔ اماں، میرا حصہ رکھ لے، میں دیر سے کھاؤں گا۔ پیٹ بھرا ہوا ہے۔ ابھی مزہ نہیں آئےگا۔ جھانا نہ بھی کہتا تو اماں نے اس کا حصہ رکھنا ہی تھا۔ اس کا حصہ کیا، ساری ہانڈی اسی کی تو تھی۔ اگر وہ منھ نہ لگاتا تو کسی کو بھی کچھ نہ ملتا۔ صفیہ جانتی تھی کہ جھانے نے اتنا بھی اسی لیے کھایا کہ اماں باقی سب کو کھانا دے سکے۔ وہ یہ بھی جانتی تھی کہ آج جونی آیا ہے، دادے کے بعد ان کے خاندان کا پہلا فوجی۔ ابھی اس کی وردی کو کوئی پھول نہیں لگا تھا، پر سب اس کی عزت کرتے تھے، ستاروں والے افسروں سے بڑھ کر اسے چاہتے تھے، وہ ان کا اپنا جو تھا۔ صفیہ جانتی تھی کہ ابھی جھانا جونی کو لے کر بوٹے کی دکان کے پچھلے حصے میں گھس جائےگا، جہاں سب جوان لڑکے اس سے فوج کے قصے سنیں گے، ٹھرا پییں گے، قہقہے لگائیں گے اور اپنی آنکھوں میں ایسے خواب سجائیں گے جن کے پورا ہونے کی کوئی صورت نہیں ہو سکتی تھی، پر جو ان کو اور ان کے بڑوں کو اپنی جان سے زیادہ عزیز تھے۔ پھر رات گئے لڑکھڑاتے قدموں سے جھانا واپس آئےگا اور اس کے آنے سے پہلے وہ اس کے لیے دروازہ کھول دےگی۔

    جونی اسے سہارا دے کر گھر کی دہلیز پار کرا دے گا اور اس کی طرف مسکرا کے دیکھےگا۔ ہو سکتا ہے کہ اسے بوٹے کی سودا لکھنے والی ایک پرچی بھی پکڑا دے۔ وہ ناز سے منھ بنائےگی، بھائی کو اندر لائے گی اور اپنے ہاتھوں سے اسے روٹی کھلائے گی۔ پھر وہ پرچی کھول کے دیکھے گی اور اگلے دن کسی نہ کسی بہانے، بتائے گئے وقت پر کھیتوں میں جا نکلےگی۔۔۔ صفیہ کا تخیل جانے کہاں سے کہاں پہنچ گیا تھا۔ اس نے دیکھا، وہ کھڑے قد کی فصل میں، نم مٹی پہ لیٹی جونی کا انتظار کر رہی ہے۔ راستہ بنانے کی مخصوص آواز کے ساتھ اس کا دل دھڑکنے لگتا ہے۔ وہ کروٹ لے کر، اپنے ایک بازو کو تکیہ بناتی ہے اور ادا سے آنے والے کی طرف پشت کر لیتی ہے۔ اس کی گردن کا رُواں سانسوں کی گرمی کا منتظر ہے اور اس کی آنکھیں جلنے لگتی ہیں۔ وہ آنکھیں میچ لیتی ہے اور جانے کیسے وہ خود کو سفید لباس میں ملبوس، جالی دار نقاب پہنے، دینو بابا کی ہمراہی میں، چرچ کے اونچے تکونی دروازے سے اندر داخل ہوتا ہوا پاتی ہے۔ دینو بابا کی کمر کا خم غائب ہو چکا ہے اور وہ سیدھا تن کے چل رہا ہے۔ مسیح کی شبیہ کے سامنے، سیاہ سوٹ میں ملبوس جونی ذرا سا رخ موڑے کھڑا ہے اور اسے دیکھ کر فلمی ہیرو کی طرح مسکراتا ہے۔ صفیہ فخر سے گردن تان لیتی ہے۔ پورے یوحنا آباد کی سب سے خوش قسمت لڑکی۔ قسمت تو دیکھو!میڈم بن جائےگی، شہروں شہروں گھومےگی، گھر بھی سرکار سے ملےگا، چھاؤنی میں رہےگی یہ۔۔۔ ہاہ۔۔۔ نخرے تو دیکھو ابھی سے! اسے سکھیوں کی سرگوشیاں سنائی دیتی ہیں۔ وہ جونی کے پاس پہنچتی ہے، جونی اس کا بازو تھامنے کے لیے ہاتھ آگے بڑھاتا ہے۔ یکایک جونی کا چہرہ دھندلا جاتا ہے اور اس چہرے کے پس منظر سے لمبوترا، چڑیلوں جیسا، سرخ آنکھوں اور نوکیلے دانتوں والا ایک اور چہرہ ابھرنے لگتا ہے۔ وہ ڈر جاتی ہے۔ جانے کیسے وہ جان لیتی ہے کہ یہ مریم ہے، اس کی سگی بہن۔ مریم کے سوکھے، خشک، سیاہ، بڑے بڑے ناخنوں والے ہاتھوں میں بوٹے کی سودا لکھنے والی کئی پرچیاں ہیں، جنھیں وہ پھاڑ کر پھینک رہی ہے۔ وہ چیختی ہے، اور اس کی آنکھ کھل جاتی ہے۔ شاید وہ پیڑھی پر بیٹھے بیٹھے سو گئی تھی۔

    باہر کا دروازہ دھڑ دھڑایا جا رہا تھا۔ یسوع بھلا کرے! مائی جیراں دل پہ ہاتھ رکھ کر اٹھی تھی۔ دروازے پر جھانا تھا۔ اماں!گھر میں جتنی چھریاں رکھی ہیں وہ دے دے۔ اور کلھاڑی بھی نکال دے۔ ابا کا چابک بھی۔۔۔ جھانا تیزی سے بول رہا تھا۔ اس کی نظر سلائی مشین پر پڑی۔ یہ قینچی بھی پکڑا دے!مائی جیراں بوکھلائی سی تھی۔ صفیہ کی نظریں جونی کو تلاش کر رہی تھیں۔ بابا اور مریم بھی اٹھ گئے۔ جھانا بابے کو لے کر دہلیز پار کر گیا۔ تھوڑی دیر گلی میں کچھ بات کرنے کے بعد بابا پلٹا، دروازے پہ کھڑے ہو کر مائی جیراں کو آواز دی، دھیمی آواز میں اس سے کچھ کہتا رہا۔ مائی جیراں دل پہ ہاتھ رکھے سنتی رہی۔ پھر وہ اندر آئی، لکڑی کا دیمک زدہ، قبضوں سے اکھڑا ہوا دروازہ بند کر کے اس سے ٹیک لگا کر کھڑی ہو گئی۔ کیا ہوا اماں؟ مریم کے کانوں میں ابا کی سرگوشی گونج رہی تھی۔ اندر سے کنڈی لگا لے۔ کڑیوں کو بھی اندر کے کمرے میں بٹھا دے۔ اور کوئی بھی آئے، دروازہ نہ کھولنا، جب تک میری یا جھانے کی آواز نہ سہان(پہچان) لے، ابا نے جاتے جاتے اماں سے کہا تھا۔ کہا تو آہستگی سے تھا لیکن بالے کی چھت والے ڈیوڑھی نما باہری کمرے کے دروازے سے اندر کی چارپائی کا فاصلہ ہی کتنا تھا جو آواز نہ پہنچتی۔ پھر رات کا ڈرا دینے والا سناٹا۔ مائی جیراں کچھ دیر کھڑی سوچتی رہی۔ ایک ایسی ہی رات پہلے بھی اس نے دیکھی تھی۔ جب وہ نودس برس کی کمسن لڑکی سی تھی۔ دریا پار بڑے شہر کے سب سے غلیظ علاقے میں ان کی بستی کے مرد اس رات بھی یوں ہی اکھٹے ہوے تھے اور اس کی ماں نے اسے اور چھوٹی بہن کو پاتھیوں والی کچی کوٹھری میں چھپا دیا تھا۔ آدھی رات کے بعد سر کے گھاؤ پر صافہ باندھے بڑا بھائی انھیں لینے آیا۔ اسی رات وہ لوگ شہر چھوڑ کربابے دینے کے گاؤں پہنچے اور اماں نے پھجے کمی کے گھر پہنچ کر دینے کو اس کا ہاتھ تھما دیا۔ اپنے جلے ہوے گھر کی باقیات اکھٹی کرنے کے لیے چند ہفتوں کے بعد اماں واپس چلی گئی۔ اپنی سکھیوں کی یاد میں روتی جیراں کو تب پتا چلا کہ اس کی شادی ہو گئی ہے۔ مائی جیراں کو جھرجھری سی آئی۔ اس نے زور سے میلی چادر کی بکل ماری اور صفیہ اور مریم کو اندر جانے کے لیے کہا۔

    گرجے کی اداس عمارت آج اور بھی زیادہ ویران لگ رہی تھی حالانکہ چرچ میں آج اتوار کی سروس سے بھی زیادہ لوگ جمع تھے۔ سب مرد، جھکی کمروں اور سفید بالوں والے، مٹیالی، بدبودار، میل خوردہ قمیضیں، شلواریں یا دھوتیاں پہنے، پھٹی آنکھوں سے ایک دوسرے کو دیکھتے بوڑھے، یا سستے پاجامے اور انگریزی قمیضوں میں ملبوس جوشیلے مگر مبہم طور پر خوفزدہ نوجوان، لیکن سب کے سب مفلسی کی مخصوص بو میں بسے۔ انھیں اکلوتے اقلیتی ممبر کا انتظار تھا۔ چرچ کی دورویہ بنچوں پہ خودبخود دو گروہ بن گئے تھے۔ جھانے نے متلاشی نظروں سے ادھر ادھر دیکھا۔ بوٹے کا اشارہ پاکر وہ ان کی طرف بڑھ گیا۔ جونی کہاں ہے؟ بوٹے کی دکان سے وہ لوگ اکھٹے ہی نکلے تھے۔ بس وہ بابے کے لیے گھر نکل آیا تھا۔ جونی چاچے کو بلانے گیا تھا، آتا ہی ہو گا، بوٹے نے بڑی امید سے کہا۔ بوٹا تو جھلا ہو گیا ہے۔ میں نے خود دیکھا، وہ اور چاچا بڑی سڑک کی طرف جا رہے تھے۔ چاچے نے اس کا ٹرنک بھی اٹھایا ہوا تھا۔ بھاگ گیا سالا! تم لوگ یہاں بیٹھ کے اس کی ماں کو یاد کرتے رہو۔ وہ نئیں آنے والا، پرویز بہت غصے میں بولا۔ پیجے!تُو تو ویسے ہی سڑتا ہے جونی سے۔ وہ کیوں بھاگےگا؟ فوجی ہے فوجی۔ اسے پتا ہے آج اس کے بھائیوں کو لوڑ ہے اس کی۔ ہو سکتا ہے وہ کچھ انتظام کرنے گیا ہو۔ یا تھانیدار سے بات کرنے، یا باؤ جی کو بلانے۔۔۔ بوٹے کی امید اب بھی نہیں ٹوٹی تھی۔ پورے محلے میں صرف جونی کے پاس بندوق تھی، وہ بھی سرکاری۔۔۔ وہ کیسے جا سکتا تھا۔ چل اُڈیک اس کو! اڈیکتا رہ، اور یہاں ہمیں پھاڑ کے رکھ دیں گے وہ لوگ۔ ہمیں خود ہی کچھ کرنا ہے، پرویز کی آواز بلند ہو گئی۔ کئی بزرگوں نے چونک کر اسے دیکھا۔ کیوں؟ ہم نے کیا بگاڑا ہے کسی کا، ہمیں کیوں پھاڑ کے رکھ دیں گے؟ ہم بات کریں گے ان سے۔ سریعقوب مشنری سکول کے سب سے پرانے استاد تھے۔ چرچ میں جمع اکثر لڑکوں نے ان سے پڑھا تھا۔ سب ان کی عزت کرتے تھے۔ انھوں نے پرویز کی بات کا جواب دیا تو ایک لمحے کو خاموشی چھا گئی۔ کئی سر ان کی تائید میں ہلنے لگے۔ پرویز دوبارہ بولا تو اس کی آواز دھیمی تھی اور لہجہ پہلے سے بھی زیادہ سخت۔ سر، غصے کے کان ہوتے ہیں نہ آنکھیں۔ میں ادھر سے آیا ہوں۔ وہ لوگ چل پڑے ہیں۔ ان کے پاس بہت کچھ ہے اور ہمارے پاس کیا ہے؟ ہم میں تو قصائی بھی کوئی نہیں کہ ٹوکے، بغدے ہی پاس ہوتے۔۔۔ پرویز نے جوانوں کے گروہ کے بیچ رکھی پنڈ (گٹھڑی) پر نظر جمائی۔ بات کرنے والے بندوقیں لے کے نہیں نکلتے سر۔۔۔ پرویز نے گویا سبھی کو تنبیہ کی۔ اس کی بات میں دم تھا۔ تھانیدار صاحب بھی نکل پڑے ہوں گے۔ فادر خود گئے ہیں ان کو بلانے۔ کچھ نہیں ہو گا، سر یعقوب نے گویا خود کو تسلی دی۔ آپ سب لوگ انتظار کیجیے بس۔۔۔ سب لوگ۔۔۔ پرویز چٹخ گیا اور ہم کر بھی کیا سکتے ہیں!جھانا بھی مضطرب تھا اور اس سے زیادہ مایوس۔۔۔

    ستاروں کی روشنی مدھم ہو گئی۔ اونچی چھت کے رنگین روشن دانوں سے امڈتی تاریکی نے چرچ کے اکا دکا بلب کی ٹمٹماتی پیلاہٹ کو اور سوگوار کر دیا۔ فادر کو واپس آئے گھنٹہ بھر گزر گیا تھا اور اب تک تھانیدار صاحب اور اکلوتے اقلیتی ممبر کے درشن نہیں ہوے تھے۔ یسوع کی شبیہ کے سامنے جلائی پتلی پتلی موم بتیاں پگھل چکی تھیں۔ سرمن پڑھتے لڑکوں کی آواز نیند زدہ ہو گئی، بزرگوں کا تحمل اور جوانوں کا جوش تھک گئے۔ دور سے آتی اللہ اکبر کی صدا سب سے پہلے بابے نے سنی تھی۔ نیند کے جھکولوں میں اسے لگا کہ جیسے وہ پھر سے بارہ تیرہ برس کا لڑکا ہو گیا ہو۔ اس نے سر جھٹکا اور پوری طاقت سے اٹھ کر نعرہ لگایا:خداوند میرا چوپان ہو! جھکے سر اٹھ گئے اور سبھی مرد سنبھل کے بیٹھ گئے تھے۔

    نعروں کی آوازیں قریب آتی جا رہی تھیں۔ سرمن کا آہنگ بلند ہو گیا۔ مضطرب نوجوانوں میں سے اکثر چرچ کی اونچی بڑی کھڑکیوں کے طاق میں چڑھ گئے۔ چند ایک دروازے کے اندر کی طرف کان لگا کے سننے کی کوشش کرنے لگے۔ جلوس چرچ کے سامنے آ کھڑا ہوا۔ چیختے گلوں سے نکلتی صدائیں بے معنی ہو گئی تھیں۔ فادر نے اپنے ہاتھ میں پکڑی سب سے بڑی مومی شمع جلائی اور سریعقوب کی طرف دیکھا۔ کھولو کھولو۔۔۔ توڑو توڑو۔۔۔ مار دو، مزہ چکھاؤ۔۔۔ جہاد، جہاد، ظلم کا بدلہ ظلم۔۔۔ آوازیں سر یعقوب کو آگے نہیں بڑھنے دے رہی تھیں۔ پرویز نے سرخ آنکھوں سے سریعقوب کو دیکھا۔ اپنے سب سے عزیز اور ذہین طالبعلم کو بڑے دروازے کی طرف جاتا دیکھ کر سریعقوب کو بےچینی ہوئی۔ یوں بھی پرویز سبھی کو پیاراتھا، ان میں سے کوئی لڑکا اتنا پڑھا لکھا نہیں تھا نہ کالج میں پڑھاتا تھا۔ شام کو محلے کے اکثر بچے اسی کے پاس پڑھنے آتے تھے۔ وہ کسی سے پیسے لیتا اور کئیوں کو اپنے ہاتھ سے دے دیتا۔ انھوں نے اسے روکا اور خود آگے بڑھ گئے۔

    سریعقوب نے پرانا مگر بھاری چوبی پٹ ذرا سا کھول کر باہر جھانکا اور پھر ایک دم دروازہ بند کر دیا۔ کوئی سخت سی چیز دروازے سے ٹکرائی تھی۔ کنڈا لگاؤ، جلدی۔۔۔ جلدی کرو۔۔۔ سریعقوب کی چیخ نے لڑکوں کے بدن میں لہر دوڑا دی۔ کھڑکیوں میں چڑھے ہویچھلانگ لگا دروازے پر پہنچے۔ پنڈ میں سے چھریاں، چاقو، قینچیاں، کلہاڑیاں، بیلچے، کسیاں، جانے کیا کیا نکلنے لگا۔ دو چار تنومند لڑکوں نے دروازے کے سامنے پھٹا بھی لگا دیا۔ دو چار بنچیں گھسیٹ کر سامنے کیں اور ممکنہ حد تک ہتھیار بدست ہو گئے۔ غصے کا شور اور خوف کی چیخیں۔۔۔ دروازے کا ٹوٹنا، لوہے کی چمک، دو چارفائروں کی آوازیں، پٹرول کی بو، آگ کے شعلے۔۔۔ دینو بابا نے جھانے کو دیکھا۔ ہاتھ میں اس کا چابک پکڑیوہ صلیب پہ چڑھا جا رہا تھا۔ اس کے پیچھے گالیاں دیتے دو تین لڑکے۔۔۔ پھر جانے کیا ہوا، جھانا پندرہ بیس فٹ کی بلندی سے گرا اور بابے کو فوراً پتا چل گیا کہ جھانا مصلوب ہو گیا۔ اس کے معطل ہوتے حواسوں میں آخری آواز، پولیس کے سائرن کی تھی۔۔۔

    بڑے بھیا کئی دن تک گھر نہیں آئے۔ نکا اور مجید اگلی صبح لوٹے تو بری طرح خوفزدہ تھے۔ پورا شہر ڈرا ہوا تھا۔ پچھلی رات یوحنا آباد کے اکثر گھر جلا دیے گئے تھے۔ بہت سے لوگ زخمی ہوے، کچھ مارے گئے۔ مارے جانے والوں میں جھانا بھی تھا۔ پولیس نے نامعلوم مجرموں کے خلاف مقدمہ درج کر لیا، کہ ہجوم تو بےشناخت ہوتا ہے اور بے سمت بھی۔ یوحنا آباد سے کچھ فسادی گرفتار کر لیے گئے، باقیوں کی تلاش جاری تھی۔

    ابو، امی، نکے اورمجید میں بہت دیر تک باتیں ہوتی رہیں۔ دادا گاؤں سے آئے اور ایک روز ٹھہرنے کے بعد بوبی کو گاؤں لے گئے۔ پولیس کئی بار ان کے گھر بھی آئی۔ بڑے بھیا کے باہری کمرے کی تلاشی ہوئی۔ ابو نے ڈاک بنگلے پر تھانیدار کی کئی مرتبہ دعوت کی اور ان سے پورا تعاون کیا۔ آخر جب ابو کا بینک بیلنس ختم ہونے لگا تو تھانیدار کو یقین آ گیا کہ جب شہر میں یہ سارا فساد ہوا، ان دنوں بھیا اور بوبی چھٹیاں گزارنے گاؤں گئے ہوے تھے کیونکہ دادا کی طبیعت بہت خراب تھی اور وہ اپنے پوتوں کو اپنے پاس دیکھنا چاہتے تھے۔ دادا کی گواہی کوگاؤں کے نمبردار نے اور معتبر بنا دیا۔ ابا کی زمین کے آخری دو ایکڑ نمبردار کو ہبہ ہو گئے اور بڑے بھیا واپس آ گئے۔

    ابو نے بڑے بھیا سے مدرسہ چھڑوانے کے لیے سختی کی تو وہ ایک روز چپکے سے گھر ہی چھوڑ گئے۔ کوئی نہیں جانتا تھا کہ وہ کہاں گئے۔ بس مولوی صاحب کو ایک خط مو صول ہوا۔ بھیا جہادیوں میں شامل ہو گئے تھے۔ اس روز امی ایسے روئیں جیسے جوان بیٹے کا جنازہ ٹور کے بیٹھی ہوں۔ کافروں نے ان کا گھر ویران کر دیا تھا۔

    جانے کتنا وقت بیت گیا۔۔۔ مہینے، برس، صدیاں، یا چند لمحے۔ رفعت کو اپنی شادی کا دن یاد تھا سوگ میں ڈوبا ہوا۔ بھیا کے جانے کے بعد ابو زیادہ دیر نہ جی سکے۔ دینو بابا زیادہ سخت جان نکلا۔ وہ دوبارہ تانگہ چلانے لگا تھا۔ رفعت کا بڑا جی چاہتا تھا کہ بابا اس کی شادی میں بھی آئے۔ پر اس نے کہا نہ اماں نے بلایا اور نہ بابا خود آیا۔ بابا شاید اتنا بھی سخت جان نہیں تھا۔ وہ خاموش رہا تھا لیکن جانتا تھا کہ اس روز جھانے کے تعاقب میں بھاگتے لڑکوں میں سے ایک عبدالجبار بھی تھا اور رفعت اس کی کاکی سہی، عبدا لجبار کی بہن بھی تھی۔ ابو کے بعد بوبی نے ان کی سیٹ سنبھالنے کی کوشش کی۔ ابو کے دوستوں نے دے دلا کر نوکری پکی بھی کروا دی، لیکن بوبی ابو کی طرح معاملہ فہم نہیں نکلا۔ اسے دوستوں، افسروں کو راضی رکھنے اور ماتحتوں سے کام لینے کا گر نہیں آتا تھا۔ دو سال بعد ہی اس کا تبادلہ ایسی جگہ ہو گیا جہاں اس کے ہاتھ صرف گریڈ چودہ کی تنخواہ آتی تھی۔ بھابھی کو قریبی سیکنڈری سکول میں نوکری مل گئی۔ گھر اور بچوں کا خرچ مارے بندھے نکل ہی آتا تھا۔ نکا اور مجید بیلدار کچھ عرصہ مستقل آتے رہے، پھر انھوں نے نئے ایس ڈی او کے گھر کا راستہ دیکھ لیا۔ اب بھی وہ کبھی کبھار آ نکلتے تھے۔

    کتنا عرصہ ہو گیا، کبھی دینو بابا نظر ہی نہیں آیا۔ جانے کیسا ہے وہ! گڈی کے بالوں سی کھیلتی رفعت نے امی سے نظریں ملائے بغیر جانے کس سے پو چھا تھا۔ ہائے توبہ، مائی!میں کملی جھلی بھول ہی گئی۔ اماں بشیراں کو یکایک یاد آ گیا۔ وہ بابا دینا ہے نا، وہ جھلا ہو گیا۔ بھاگا جا رہا تھا قبرستان وَل۔ اس کے گھر پولس آئی ہے۔ وہ صفیہ تھی نا؟ اس نے مریم کو مار دیا۔ امی کے برتن سمیٹتے ہاتھ رک گئے۔ مار دیا؟۔۔۔ کیسے مار دیا؟کیوں مار دیا؟۔۔۔ کیا ہوا؟ رفعت نے گڈی کو گود سے اتارا اور سیدھی ہو کے بیٹھ گئی۔ بابا جھلا ہو گیا؟ ہاں مائی، مریم کا رشتہ مانگا تھا اس کے چاچے نے، وہ جس کا پتر فوج میں ہے۔ دونوں میں کوئی چکر بھی تھا۔ سنا ہے کہ مریم کے پیٹ میں بچہ تھا اس کا۔ مانگنا پڑا رشتہ ان کو۔ صفیہ کو پتا چلا تو بڑا لڑی۔ رات سے سارا محلہ سن رہا تھا۔ سویرے سویرے مائی جیراں نے ناشتے کے لیے آگ جلائی ہی تھی کہ پھر تماشا شروع ہو گیا۔ مائی جیراں اور بابے نے اسے چپ کرانے کی بڑی کوششیں کیں۔ وہ کسی کے قابو میں ہی نہیں آتی تھی۔ محلے کی عورتیں بھی اکٹھی ہو گئی تھیں۔ میں بھی گئی تھی۔ مجھے تو لگتا ہے جن آ گئے تھے اس پر۔ کبھی خود کو پیٹنے لگتی، کبھی چاچے اور اس کے پتر کو گالیاں دیتی۔ پھر چھری اٹھا کے بھاگی اس کی طرف۔ چار چار عورتوں نے پکڑ رکھا تھا، پھر بھی چھٹ چھٹ جاتی تھی۔ اب لڑکی ذات، مردوں کو بلانے کا حوصلہ نہیں پڑتا تھا۔ ہائے! بلا لیتے تو چنگا ہوتا۔ اسی سیاپے میں اس نے مریم کو دھکا دیا تو وہ سیدھی جلتے چولھے پہ جا گری۔ چولھا الٹ گیا اور سارے کمرے میں آگ لگ گئی۔ عورتیں تو نکل گئیں جی سب باہر۔ مائی جیراں کو بھی لے گئیں۔ آگ دیکھ کر محلے کے لڑکے گھس آئے فوراً۔ انھوں نے اس کتی کو نکالا، بابے کو بھی نکالا۔ ایویں نکالا حرامزادی کو، مرنے دیتے وہیں سڑ کے! مریم کو بھی وہی بیچارے لے گئے۔ بچی نہیں نمانی۔ پولس تو جی ہسپتال ہی پہنچ گئی تھی۔ رپٹ درج ہو گئی۔ سپاہنیں بھیجیں تھانیدار نے۔ ابھی ہسپتال سے لاش بھی نہیں آئی تھی کہ وہ پہنچ گئیں صفیہ کو لینے۔ بابا چیختا رہا کہ میں نے مارا ہے اپنی لڑکی کو، حرامی تھا اس کے پیٹ میں، پر تھانے والے کہاں مانتے ہیں۔ کہتے تھے، سارا محلہ جانتا ہے، وہ کیسے کسی بے گناہ کو پکڑ کر بند کر دیں! پھر بابے نے کہا کہ وہ مدعی ہے، اپنی لڑکی کو معاف کرتا ہے۔ اس پر بھی وہ بولے کہ ایسے کیسوں میں سرکار مدعی بنتی ہے، وہ کون ہوتا ہے معاف کرنے والا؟ آخر لے گئیں کھینچ کے۔۔۔ ادھر ان کی گڈی نکلی، ادھر بابا نکل گیا۔۔۔ سنا ہے سیدھا گیا جھانے کی قبر ول۔ کہتا جاتا تھا، گھر جا رہا ہوں۔۔۔ ہاہ! بیچارہ بدنصیب۔۔۔ جا کے قبر کے پاس تھاں مَل لئی (جگہ قبضہ کر لی)۔ کہتا تھا، میرے بچوں کی تھاں ہے، کسی کو نہیں لینے دوں گا۔۔۔ مائی جیراں بیچاری جلے گھر میں بیٹھی روئے جا رہی ہے۔ بابے کو اٹھاؤ تو وہ اتنا چیختا ہے جیسے مر ہی جائےگا۔ بیٹھے ہیں سب اس کے پاس۔۔۔ ہاہ ہائے۔۔۔ بشیراں ہونٹوں پہ زبان پھیرتے ہوے قصہ کہے جا رہی تھی۔ گنگ بیٹھی رفعت نے دیکھا، امی کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ بڑی دیر بعدوہ ہولے سے بولیں، ہاہ! بد نصیب۔۔۔ کلمہ پڑھ لیتا تو۔۔۔ رفعت کے سامنے بڑے بھیا کی ڈاڑھی لہرانے لگی۔ اس نے سوچا، کلمہ پڑھ لیتا تو۔۔۔؟

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے