Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

دیوار کے پیچھے

شوکت صدیقی

دیوار کے پیچھے

شوکت صدیقی

MORE BYشوکت صدیقی

    اچانک میری آنکھ کھل گئی، بارہ ساڑھے بارہ بجے کا عمل ہوگا، کہیں قریب ہی کتے زور زور سے بھونک رہے تھے۔ ان دنوں پاس پڑوس میں چوری کی ایک آدھ واردات بھی ہوچکی تھی۔ اس لیے کتوں کے اس طرح مسلسل بھونکنے سے ذرا تشویش ہوئی۔ میں شہر کے جس علاقے میں رہتا ہوں، وہ کسی قدر غیر آباد ہے۔ نہ سڑکوں پر روشنی کا انتظام ہے نہ رات کو پولیس کی باقاعدہ گشت ہوتی ہے۔

    آنکھ کھلنے کے بعد میں نے سوچا کہ احتیاطاً اپنے گھر کا بھی جائزہ لے لوں۔ میں نے دروازہ کھولا اور کھنکارتا ہوا باہر آگیا۔ گلابی جاڑوں کی رات تھی۔ ہوا میں خوش گوار خنکی تھی۔ کتوں کے بھونکنے کی آواز گھر کے پچھواڑے سے آرہی تھی۔ میں اسی طرف چل دیا۔ میرے مکان کے پیچھے ایک خالی پلاٹ ہے اور اس کے برابر ایک نیم تعمیر مکان ہے، جو غیر آباد ہونے کے باوجود رات کی تاریکی میں بھوتوں کا مسکن معلوم ہوتا ہے۔ راتوں کو یہاں کتے بسیرا کرتے ہیں یا زیر تعمیر مکانوں میں کام کرنے والے مزدور اورکاریگر اس کو حوائج ضروری کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ معلوم نہیں کس منحوس کا مکان ہے، کبھی پلٹ کر ادھر کا رخ بھی نہیں کیا کہ میں اس سے احتجاج کرسکوں۔

    ہاں تو جب میں عقبی دیوارکے پیچھے پہنچا تو پیچھے سے ہلکی ہلکی سرگوشیوں کی آواز سنائی دی۔ میں لرز کر رہ گیا۔ دل میں کہا لو بھئی آج ہوگیا۔ چوروں سے مچیٹا، قبل اس کے کہ میں لپک کر کسی کو بیدار کروں کہ اسی اثنا چوڑیوں کی ہلکی سی جھنجھناہٹ ہوئی۔ ساتھ ہی کسی عورت نے بہت آہستہ کہا، ’’یہ کتے تو ہمارے پیچھے لگ گئے۔ مجھے تو ڈر لگ رہا ہے۔ آؤ کسی خالی مکان میں چلیں۔‘‘

    ’’ہاں یہ ٹھیک ہے۔‘‘ آواز مردانہ تھی۔

    معاملہ کی نوعیت تو کچھ سمجھ میں آئی مگر میں چکر میں پڑ گیا کہ اس وقت آدھی رات کو یہاں کون ہوسکتا ہے۔ کچھ غصہ بھی آیا کہ حرام زادوں کو کہیں اور ٹھکانہ نہ ملا۔ میری ہی دیوار کے پیچھے ان کو عشق لڑانا رہ گیا تھا۔ جی چاہا کہ ان کو ٹوکوں۔ لعنت ملامت کروں۔ پھر اس خیال سے باز رہا کہ اپنی بھی نیند حرام ہوگی اور دوسروں کی بھی۔ خواہ مخواہ کا ہنگامہ ہوگا، بات زیادہ بڑھ گئی تو معاملہ پولیس تک پہنچے گا۔ سوچا مجھے کیا نقصان پہنچا رہے ہیں۔ ’’پس دیوار بیٹھے ہیں تیرا کیا لیتے ہیں۔‘‘

    میں خاموشی کے ساتھ واپس آکر بستر پر سو گیا۔

    ابھی ذرا آنکھ لگی ہی تھی کہ بیوی نے جھنجھوڑ کر جگایا۔ گھبراکر پوچھا، ’’خیریت تو ہے؟‘‘

    جواب ملا، ’’باہر سارا محلہ اکٹھا ہے۔ کوئی واردات ہوگئی ہے۔‘‘

    لوگوں کے زور زور باتیں کرنے کی آوازیں بھی میں نے سنیں۔ آنکھیں ملتا ہوا اٹھا۔ باہر جاکر دیکھا تو ایک مکان کے سامنے کچھ لوگ جمع تھے۔ قریب گیا تو ایک مرد اور عورت نظر آئے۔ دونوں گردنیں جھکائے سہمے ہوئے خاموش کھڑے تھے، ان کو دیکھتے ہی میں سمجھ گیا کہ بات کیا ہے۔ عورت سیاہ برقعہ پہنے ہوئے تھی۔ چہرے پرنقاب پڑی ہوئی تھی۔ مرد صورت شکل سے ہرگز معقول نہیں لگتا تھا۔ سیاہ رنگ کی چست پتلون اور اونی سویٹر پہنے، وہ سیدھا سادا ایک عام نوجوان معلوم ہوتا تھا۔ لوگ ان دونوں کے گرد نیم دائرے میں کھڑے اس طرح گھور رہے تھے جیسے وہ کوئی عجوبہ ہوں۔

    میری طرح کچھ اور لوگ بھی گھروں سے نکل کر وہاں آگئے۔ ہر آنے والے کی زبان پر ایک ہی سوال تھا۔ بھائی ہوا کیا؟ معاملہ کیا ہے؟ جواب دینے والا بھی ایک شخص تھا۔ لمبا تڑنگا، نیلی یونیفارم پہنے۔ گلوبند لپیٹے وہ بڑی شان سے اکڑا ہوا کھڑا تھا۔ میرا خیال ہے کہ وہ پاور ہاؤس میں مستری کا کام کرتا ہے۔ ممکن ہے فورمین ہو، کچھ بھی ہو، بہر حال آدمی پرلے درجے کا شیخی خورہ ہے۔ وہ ٹھہر ٹھہر کر چٹخارہ لے کر اونچی آواز سے بتا رہا تھا،

    ’’بھئی ہوا یہ کہ میں ڈیوٹی ختم کر کے آرہا تھا۔ جب اس خالی مکان کے سامنے پہنچا تو کچھ آہٹ معلوم ہوئی۔ دو سائے نظر آئے۔ میں ٹھٹک کر ٹھہر گیا اور وہیں سے ڈپٹ کر آواز لگائی، کون ہے؟ بس ایک دم یہ دونوں نکل کر بھاگے۔ میں پیچھا نہ کرتا تو صاف نکل گئے تھے۔ بلکہ یہ سالا تو نکل ہی گیا تھا۔ وہ تو راستے میں کوئی گڑھا آگیا، قلابازی کھاکر گرا اور میں نے فوراً دبوچ لیا۔ بہت ہاتھ پاؤں مارے مگر میں نے ٹیٹوا گھٹنے سے دبا رکھا تھا۔ نکل کر کیسے جاتا۔‘‘

    یہ تفصیل وہ اس سے پہلے بھی بتا چکا تھا۔ اورہر بار کندھے اُچکا کر سب کو اس طرح دیکھتا جیسے اکھاڑے سے کشتی مار کر آیا ہے۔ وہ بات ختم کرتا تو ایک دم تبصرہ شروع ہوجاتا۔

    ’’یارو اندھیر ہے، غضب خدا کا کس قدربے غیرتی ہے۔‘‘

    ’’صورت تو دیکھو، اچھا خاصا بھلا آدمی معلوم ہوتا ہے اور اس کے یہ کرتوت۔‘‘

    ’’نہیں بھئی، یہ تو کوئی آوارہ عورت معلوم ہوتی ہے۔‘‘

    ’’ابے تم کو یہ حرام کاری کرتے شرم نہیں آتی۔ جہنم میں جاؤگے جہنم میں۔‘‘

    ’’تف ہے تمہاری اوقات پر۔‘‘

    اس لعنت اور پھٹکار کے دوران پستہ قد محمد حسین بھی اپنی منحنی آوازمیں بار بار کہتے، ’’اجی ان کو سنگسار کردینا چاہیے۔ اسلام میں زنا کاروں کی یہی سزا ہے۔‘‘

    جب وہ کئی بار یہی بات کہہ چکے تو ایک بار میں نے جل کر کہا، ’’قبلہ پہلا پتھر کون مارے گا؟‘‘

    بولے، ’’آپ ہی سے بسم اللہ ہوجائے توکیا مضائقہ ہے۔‘‘

    میں نے کہا، ’’جناب!پھانسی کے تختے پر چڑھنے کا میرا کوئی ارادہ نہیں۔ آپ زیادہ مجاہد معلوم ہوتے ہیں۔ آپ ہی سے پہل ہو۔‘‘ وہ ایک دم جوش میں آگئے، ’’لیجئے میں ہی شروع کرتا ہوں۔‘‘ اور انھوں نے واقعی پتھراٹھالیا۔

    میں نے ٹوکا، ’’پتھر اٹھانے سے پہلے یہ بھی سوچ لیجئے کہ انجام کیا ہوگا۔ جیل کی کوٹھری اورپھانسی کا تختہ، بیوی رانڈ بیوہ، بچے یتیم۔‘‘ انھوں نے فوراً پتھر چھوڑ دیے۔ مجھ کو خونخوار نظروں سے گھورتے ہوئے بولے، ’’ذرا زبان سنبھال کر بات کیجئے۔ آپ ہی کے ایسے بزدلوں نے تو مسلمانوں کوبدنام کیا ہے۔ جبھی تو ہم اس حالت کو پہنچے ہیں کہ اس طرح کھلے عام حرام کاری ہورہی ہے۔‘‘

    شاید وہ کچھ اور بھی کہتے، لیکن بیچ میں دوسرے لوگ بول پڑے۔ ہو بھی یہی رہا تھا۔ کوئی بات شروع کرتا، دوسرا بیچ میں ٹانگ اڑا دیتا۔ ہر شخص اپنی ہانک رہا تھا۔ جتنے منہ اتنی باتیں۔ اور وہ دونوں خاموش کھڑے، خوف سے سہمے ہوئے، سکڑے ہوئے، دبکے ہوئے۔

    رات ڈھلنے لگی تھی۔ خنکی بڑھ گئی تھی اور ابھی یہ طے نہیں ہوسکا تھا کہ ان کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے۔ کچھ لوگوں کا اصرار تھا کہ ان کو پولیس کے حوالے کردیا جائے مگر سوال کئی میل دور تھانے جانے کا تھا اور اس سے ہر شخص کنّی کاٹ رہا تھا۔ بعض کی تجویز تھی کہ مرد کا منہ کالا کیا جائے اور جوتے لگائے جائیں۔ عورت کی صرف چوٹی کاٹ دی جائے۔ کچھ اور بھی ایسی ہی دل چسپ سزائیں تجویز کی گئیں۔ بوڑھے بڑھ چڑھ کر بول رہے تھے اورجوان بڑوں کے ڈر سے خاموش تھے۔ ایک آدھ بار انھو ں نے لقمہ دیا تو ان کو ڈانٹ کر خاموش کردیا گیا۔ جن کے باپ موجود تھے انھو ں نے لڑکوں کو تنبیہ کر کے گھر واپس بھیج دیا۔

    آخر بڑی بک بک جھک جھک کے بعد یہ طے پایا کہ ان سے پوچھ گچھ کی جائے اور اس تفتیش کی روشنی میں سزا تجویز کی جائے۔ لیکن اس طرح شبنم میں لوگ زیادہ کھڑے رہنے کے حق میں نہیں تھے۔ کسی نے مشورہ دیا کہ کہیں بیٹھ کر اطمینان سے پوچھ گچھ کی جائے۔ بات معقول تھی سب تیار ہوگئے۔ لطف یہ کہ کوئی بھی گھر واپس جاتا معلوم نہیں ہوتا تھا۔ ہر شخص کو دلچسپی تھی، کرید تھی، اور ان میں، میں بھی شامل تھا۔

    یہ تحریک چونکہ اکبر صاحب کی تھی۔ لہٰذا انھیں کے مکان میں جو قریب ہی تھا، بیرونی و رانڈے میں سب لوگ اکٹھا ہوگئے۔ اندر سے کرسیاں آگئیں۔ بیٹھنا نصیب ہوا تو لوگوں میں کچھ معقولیت بھی پیدا ہوئی۔ عورت کو ذرا دور ایک کونے میں بٹھا دیا گیا اورمرد سے سوالات کیے جانے لگے۔ محلے کے ڈاکٹر مرزا صاحب نے ابتدا کی۔ انھوں نے کسی قدر نرمی سے پوچھا، ’’بھئی تم اس محلے کے تو معلوم نہیں ہوتے۔۔ پہلے یہ بتاؤ کہ تمہارا نام کیا ہے۔ کہاں رہتے ہو؟ کیا کرتے ہو؟ اور یہ عورت کون ہے؟ بیوی تو معلوم نہیں ہوتی۔‘‘

    کسی نے بیچ میں لقمہ دیا، ’’تو بہ کیجئے۔ بیوی کے ساتھ کوئی یہ نامعقول حرکت کرتا ہے۔‘‘ یہ صاحب کہ جن کا نام نامی اسم گرامی شریف احمد ہے، میرے گھر سے کچھ ہی فاصلے پر رہتے ہیں۔ انھوں نے ابھی نیا نیا مکان تعمیر کرایا ہے۔ کسی ایسی فرم میں ملازم ہیں جہاں دوسرے الاونسوں کے ساتھ مکان کا ایک مقررہ کرایہ بھی ملتا ہے۔ اپنے مکان میں رہنے کے باوجود دفتر سے اس کا کرایہ بھی وصول کرتے ہیں۔ مکان بیوی کے نام ہے۔ ابھی خوف سے کہ راز نہ کھل جائے، بیوی کے لیے شوہر کے خانے میں کسی چھکن خاں کا نام لکھوا دیا۔ ویسے بڑے پرہیزگار آدمی ہیں۔ میں ہر روز ان کو پابندی سے مسجد کی جانب جاتے ہوئے دیکھتا ہوں۔

    شریف احمد کا ذکر تو خواہ مخواہ بیچ میں آگیا۔ اب اس آدمی کا حال سنیے، اس نے کسی سوال پر کوئی جواب نہیں دیا۔ سر جھکائے خاموش بیٹھا رہا۔ بہت اصرار کیا گیا تو عاجزی سے بولا، ’’جناب غلطی ہوگئی معاف کردیجئے۔ آپ سب سے معافی مانگتا ہوں، توبہ کرتا ہوں۔‘‘ اس نے دونوں ہاتھ جوڑے۔

    مستری جی جنہوں نے دونوں کو پکڑا تھا، فوراً بول پڑے، ’’معافی تو تم نے اسی وقت مجھ سے مانگی تھی، اس طرح کام نہیں چلے گا۔ صاف صاف بتاؤ۔‘‘

    وہ آدمی پھر خاموش ہوگیا۔ کوئی جواب نہیں دیا۔ اچانک فیاض خاں نے اٹھ کر اس کے منہ پر ایک زور دار تھپڑ لگایا اور گرج کر بولے، ’’بتاتا ہے سالے کہ اور ایک لگاؤں۔‘‘

    وہ آبدیدہ ہوکر بولا، ’’آپ کیوں مار رہے ہیں۔ میں نے آپ کا کیا بگاڑا ہے؟‘‘

    فیاض خاں پولیس کے ریٹائر انسپکٹر ہیں، ذرا نہ پسیجے۔ ایک اور ہاتھ رسید کیا۔ وہ بلبلا کر اپنا گال سہلانے لگا۔ فیاض خاں نے ہم سب کو اس طرح داد طلب نظروں سے دیکھا، گویا کہہ رہے ہوں کہ دیکھو اس طرح پوچھ گچھ کی جاتی ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے ایک پھر اپنا سوال دہرایا، ’’اب تو بتادو کہ تم کون ہو، یہاں کیسے آئے؟ کیوں آئے؟‘‘

    فیاض خاں نے اس کو پھر ڈانٹا، ’’سچ سچ بتانا، ورنہ مار مار کر سور بنا دوں گا۔‘‘ وہ آدمی آہستہ سے بولا، ’’میرا نام اسلم ہے۔ دفتر میں کلرک ہوں۔‘‘ پوچھا گیا، ’’شادی ہوگئی تمہاری؟‘‘ اس نے انکار میں گردن ہلا دی۔

    اکبر صاحب نے کہا، ’’توبھلے آدمی شادی کر کے گھر کیوں نہیں بسا لیتے۔ اس خرافات میں کیا رکھا ہے، عاقبت بھی خراب اور دنیا میں بھی منہ کالا۔‘‘

    وہ بولا، ’’آپ ٹھیک کہتے ہیں۔ میری ماں اور دوسرے رشتہ دار بھی یہی کہتے ہیں مگر بات یہ ہے۔۔۔‘‘

    کسی نے بیچ میں بات کاٹ دی، ’’کیوں بکتا ہے۔ تم کو تو عورتوں کے ساتھ آوارہ گردی میں مزہ آتا ہے۔‘‘ وہ کہنے لگا، ’’نہیں جناب یہ بات نہیں۔‘‘ فیاض خاں نے تیوری پر بل ڈال کر پوچھا، ’’پھر کیا بات ہے سچ سچ بتا۔‘‘

    وہ بتانے لگا، ’’دیکھئے ڈیڑھ سو تو کل میری تنخواہ ہے۔ اس میں پچاس روپے ہر مہینے ماں کو بھیجتا ہوں۔ ان کا اور کوئی سہارا نہیں۔ باپ کا میرے انتقال ہوچکا ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ کراچی میں معمولی سے معمولی مکان سوروپے سے کم میں نہیں ملتا۔ ایک دوست کے ساتھ کسی نہ کسی طرح گزر بسر کر رہا ہوں۔‘‘

    پھر کوئی بیچ میں بول پڑا، ’’اماں، صاف جھوٹ بول رہا ہے۔ یہ تو کچھ اور ہی معاملہ معلوم ہوتا ہے۔‘‘ پوچھا، ’’اس عورت کو بھگا کر لائے ہو؟‘‘ اس نے جواب دیا، ’’جی نہیں۔‘‘ کسی نے لقمہ دیا، ’’تو پھر اسی کا بھڑوا ہوگا۔‘‘ اس پر بعض لوگوں کی باچھیں کھل گئیں۔

    ڈاکٹر صاحب نے دریافت کیا، ’’یہ عورت کون ہے؟‘‘ وہ بڑے اطمینان سے بولا، ’’معلوم نہیں۔‘‘ فیاض پھر گرجے، ’’ابے پھر جھوٹ بولا۔ لگاؤں دو ایک اور۔۔۔‘‘

    ’’میں آپ سے سچ کہہ رہا ہوں۔‘‘

    فیاض خاں کو اب تو جلال آگیا۔ قبل اس کے کہ وہ ہاتھ اٹھائیں، ڈاکٹر صاحب فوراً بول پڑے، ’’مگر بھئی، پھر یہ عورت تمہارے ساتھ کیسے آئی؟ٹھیک ٹھیک بتاؤ ورنہ اور درگت بنے گی۔‘‘

    وہ کہنے لگا، ’’دیکھئے بات یہ ہے کہ میں دس بجے کے قریب ایک دوست سے ملنے ریلوے اسٹیشن گیا تھا۔ وہ ریلوے میں کام کرتا ہے۔ وہیں یہ عورت مجھ کو مل گئی۔ اسٹیشن سے ذرا ہٹ کر فٹ پاتھ پر کھڑی کسی آدمی سے بات کر رہی تھی۔ مجھے آتا دیکھ کر وہ آدمی ایک دم آگے بڑھ گیا۔ میں اس کے پاس سے گزرا تو مجھے محسوس ہوا کہ مجھ کو دیکھ کر مسکرائی تھی۔ میں آگے چلا گیا۔ پھر جانے کیوں واپس آگیا۔‘‘

    کسی نے آوازہ لگایا، ’’استاد یہ نہیں کہتے کہ ذرا اٹھرک لگانے کو جی چاہا۔‘‘

    دوسری طرف سے آواز آئی، ’’اماں بات تو پوری سننے دو۔ ہاں بھئی تو پھر کیا ہوا؟‘‘ اب اس کی بات میں لوگوں کو دلچسپی پیدا ہونے لگی تھی۔

    وہ بتانے لگا، ’’میں نے قریب جاکر اس سے پوچھا؟ کہاں جاؤگی؟ بولی! جہاں لے چلو۔ بس پھر ہم دونوں ساتھ ساتھ چلنے لگے۔ اس نے مجھ سے چالیس روپے مانگے اوربیس روپے پیشگی بھی لے لیے۔ ہم دیر تک ادھر ادھر سڑکوں پر گھومتے رہے اور جب ایک پولیس والے کو اپنی جانب گھورتے دیکھا تو سوچا کہ اس طرح سڑکوں پر گھومنا خطرناک ہے، میں نے فوراً ایک رکشا ٹھہرائی اور دونوں اس میں سوار ہوگئے۔ مگر اس کو لے کر جاتا کہاں، دفتر کے ایک ملنے والے کے یہاں پہنچا تو اس نے گالیاں دے کر بھگا دیا۔ جس شخص کے ساتھ رہتا ہوں، وہ بال بچے دار آدمی ہے۔ اس کو ذرا بھی شبہ ہوجائے تو کھڑے کھڑے گھر سے نکال دے۔‘‘

    سب بڑی دلچسپی کے ساتھ چپ چاپ اس کی باتیں سن رہے تھے کہ اچانک اکبر صاحب بول پڑے، ’’جب منہ ہی کالا کرنا تھا تو کسی ہوٹل میں کمرہ کرایہ پر لے لیا ہوتا۔ یہاں ایسے ہوٹلوں کی کمی نہیں۔‘‘

    وہ بولا، ’’میرے پاس اتنے روپے نہیں تھے۔‘‘

    کسی نے پوچھا، ’’کتنے روپے تھے؟‘‘

    ’’پچاس!‘‘

    ڈاکٹر صاحب نے کہا، ’’یہ ماں کو بھیجنے کے لیے تو نہیں تھے؟‘‘

    اس نے سر جھکا کر آہستہ سے کہا، ’’جی ہاں!‘‘

    بیک وقت کئی آوازیں مختلف سمتوں سے ابھریں۔

    ’’بھئی حد ہوگئی۔‘‘

    ’’لعنت ہے اس شخص پر۔‘‘

    ’’اس کو تو واقعی سزا ملنی چاہیے۔‘‘

    کسی نے اونچی آواز میں اس کو مخاطب کر کے کہا، ’’بھئی تم آگے بتاؤ۔‘‘

    وہ بتانے لگا، ’’جب کوئی جگہ سمجھ میں نہیں آئی تو ہم شہر سے نکل کر ادھر آگئے۔ یہاں آبادی بھی کم ہے اور سڑکوں پر اندھیرا بھی ہے۔ کیا کرتا بیس روپے تو وصول کرنا ہی تھے۔‘‘ وہ اب ذرا کھل کر بات کرنے لگا۔

    کسی نے برجستہ کہا، ’’تو تم نے کیے وہ روپے وصول؟‘‘

    وہ بڑی معصومیت سے بولا، ’’رکشا کے کرایہ میں جو تین روپے دیے تھے وہ بھی وصول نہیں ہوئے۔‘‘

    پستہ قد محمد حسین اس بات پر تڑپ کر رہ گئے۔ بگڑ کر بولے، ’’لاحول ولا قوۃ، کیا بے غیرتی کی باتیں ہورہی ہیں۔ اور اس بے حیا کو دیکھیے کہ کس بے شرمی کے ساتھ بات کر رہا ہے۔ ’’کچھ اور لوگوں نے بھی لعنت ملامت شروع کردی۔

    رات بہت زیادہ ہوچکی تھی اور اس شخص کی بات میں بھی اب کچھ نہیں رہ گیا تھا۔ ڈاکٹر صاحب نے سفارش کی، ’’میرا خیال ہے اب ان کو جانے دیا جائے۔ ان کو کافی سزا مل گئی۔‘‘

    شریف احمد کہنے لگے، ’’کیا بات کر رہے ہیں ڈاکٹر صاحب۔ ان لوگوں کو سزا کہاں ملی، ان کو ضرور کچھ نہ کچھ سزا ملنا چاہیے تاکہ آئندہ عبرت ہو۔‘‘ ڈاکٹر صاحب نے جواب دیا، ’’یہ رسوائی، یہ لعنت پھٹکار کچھ کم سزا ہے۔ بھلے آدمی ہوں گے تو آئندہ ایسی حرکت نہیں کریں گے۔‘‘

    ڈاکٹر صاحب نے پھربھی ہتھیار نہیں ڈالے، کہنے لگے، ’’پولیس کے حوالے کرنے سے کیا ہوگا۔ زیادہ سے زیادہ کچھ جرمانہ ہوجائے گا اور اخباروں میں خبر چھپ جائے گی کہ ایک نوجوان مرد اور عورت پبلک پلیس پر بوس و کنار کرتے ہوئے پکڑے گئے۔۔۔ اورجہاں تک تھانے جانے کا سوال ہے تو جناب میں تو اب گھر جاکر سوؤں گا۔ میں تھانے وانے نہیں جاتا۔‘‘

    ذرا دیر کے لیے سناٹا چھا گیا۔ پھر شریف احمد کی آواز اُبھری، ’’مجھے تو سب سے بڑا اعتراض یہ ہے کہ یہ شریف لوگوں کی آبادی ہے، یہ یہاں اس حرام کاری کے لیے کیوں آئے؟‘‘

    میں جو تمام عرصے خاموش بیٹھا رہا تھا، شامت اعمال بیچ میں بول پڑا، ’’جناب میرے گھر کی دیوار کے پیچھے یہ ساری بے ہودگی ہوئی مگر میں اب ان سے کیا کہوں۔ نہ جانے رات کی تاریکی میں کس کس کی دیوار کے پیچھے کیا کچھ ہوتا ہے۔ مجھے تو انہوں نے کوئی نقصان نہیں پہنچایا۔ نہ میری نیند خراب کی، نہ میرے گھر میں نقب لگائی۔‘‘

    شریف احمد میری باتوں پر چڑ گئے۔ کہنے لگے، ’’آپ کو ان سے بڑی ہمدردی معلوم ہوتی ہے۔ ایسی ہی ہمدردی ہے تو اپنے گھر کے اندر بلا لیا ہوتا آپ نے۔‘‘

    ان کی اس بات پر میں جل گیا۔ لیکن انھوں نے اسی پر اکتفا نہ کیا۔ بڑے طنز کے ساتھ بولے، ’’آئندہ بلا لیجئے گا، ویسے یہ دھندا بُرا نہیں، منافع ہی منافع ہے۔‘‘

    یہ کہہ کر انھوں نے زور کا ٹھٹھا مارا۔ میں نے اپنا پیر ذرا ڈھیلا کیا اور قبل اس کے کہ ان کا قہقہہ ختم ہو، جوتا اتار کے بغیر کسی تمہید کے تڑاتڑ دو ان کی گنجی چندیا پر جما دیے۔ تیسرا ہاتھ اٹھایا تھا کہ لوگوں نے ہاتھ پکڑ لیا اور زبردستی جوتا چھین کر پھینک دیا۔ پھر کیا تھا، وہ آپے سے باہر ہوگئے۔ لڑنے مرنے پر آمادہ ہوگئے۔ ایک ہنگامہ برپا ہوگیا۔ کبھی وہ مجھ کو مارنے کے لیے جھپٹتے، کبھی میں ان پر لپکتا۔ کئی بار ہم گتھم گتھا ہوتے ہوتے رہ گئے۔ ہر بار لوگوں نے روک لیا۔ اچھی خاصی افراتفری مچ گئی۔

    جب ذرا معاملہ ٹھنڈا ہوا تو پتہ چلا کہ اس ہنگامے میں وہ دونوں چپکے سے نکل بھاگے مگر میں بیٹھے بٹھائے مشکل میں پھنس گیا۔ شریف احمد نے دوسرے ہی دن سٹی کورٹ میں مجسٹریٹ کے روبرو آٹھ آنے کے اسٹامپ پر حلف نامہ داخل کیا۔ دو گواہ پیش کیے گئے اور مار پیٹ کرنے کے الزام میں مرے خلاف قابل ضمانت وارنٹ جاری کرادیے۔ ابھی مقدمے کی پہلی پیشی ہے، جس میں ضمانت دے کر آیا ہوں۔ باقاعدہ سماعت بعد میں ہوگی۔ اب چونکہ یہ معاملہ عدالت کے روبرو ہے۔ لہٰذا یہ بات یہیں چھوڑے دیتا ہوں، کچھ اور کہوں گا تو توہینِ عدالت کے جرم میں دھرلیا جاؤں گا۔

    مأخذ:

    کہانیاں (Pg. 111)

      • ناشر: نیشنل فائن پرنٹنگ پریس، حیدر آباد
      • سن اشاعت: 1985

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے