Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ڈپٹی صاحب کا کتا

قاضی عبدالغفار

ڈپٹی صاحب کا کتا

قاضی عبدالغفار

MORE BYقاضی عبدالغفار

    کہانی کی کہانی

    ایک داروغہ کی کہانی ہے، جو صبح گشت کرتے وقت ہر ملنے والے کو ٹوکتا، جھڑکتا اور ڈانٹتا ہوا چلتا ہے۔ ایک مٹھائی کی دکان پر اسے ایک کتا دکھائی دیتا ہے۔ کتا داروغہ کو دیکھ کر غراتا ہے تو داروغہ لوگوں کا ڈانٹتا ہے کہ انہوں نے محلے میں کیسے کتے کو رکھا ہوا ہے۔ اس پر لوگ کتے کو مارنے کے لیے دوڑ پڑتے ہیں۔ جب داروغہ کو پتہ چلتا ہے کہ کتا ڈپٹی صاحب کے کتے جیسا ہے تو وہ خود اس کتے کو گود میں اٹھاکر ان کے پاس لے چلتا ہے۔

    داروغہ جی محلہ کی سڑک پر خراماں خراما تشریف لے جا رہے ہیں۔ ان کے ہاتھ میں ایک چھوٹا سا بید کا ٹکرا ہے، جس کی دم میں چمڑےکے کٹے ہوئے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے لگے ہوئے ہیں۔ وہ اس کو اس طرح ہلاتے اور گھماتے چلے جاتے ہیں کہ چمڑے کے ٹکڑوں کا ایک پھول ہوا میں بن جاتا ہے۔ سیاہ فام چہرہ پر گھنی مونچھوں سے ڈھکے ہوئے موٹے موٹے ہونٹ ہیں۔ جس کی گرفت میں ایک سلگتا ہوا سگریٹ ہے۔ اپنی چھوٹی چھوٹی آنکھوں سے وہ ہر طرف دیکھتے جاتے ہیں۔۔۔ گویا محلہ کے ہر در و دیوار پر اور ہر دروازے میں دو نہیں ایک چھپا ہوا چور نظر آنے والا ہے۔

    سڑک پر کھیلتے ہوئے بچے داروغہ جی کو دیکھ دیکھ کر اپنے گھروں کے دروازوں کی طرف بھاگنے لگے!

    محلہ کی پنہیاریوں نے راستہ چھوڑ کر اپنے گھونگھٹ لمبے کر لیے!۔۔۔ اس طرح داروغہ جی محلہ میں شام کا پہرا لگا رہے ہیں!!

    ’’کیں بے، دیکھتا نہیں، سالے۔‘‘

    بھنگی نے جھاڑو چھوڑ کر دونوں ہاتھوں سے سلام کیا۔ داروغہ جی نے جیب سے رومال نکال کر اپنی ناک کو لگایا۔ تاکہ سڑک پر بھنگی کی جھاڑو سے جو خاک اڑ رہی تھی۔ وہ ان کی سریع الحس ناک میں داخل نہ ہونے پائے۔

    ‘‘خاں صاحب! ہم دیکھتے ہیں تمہارے ہاں اب تاش بہت کھیلا جاتا ہے۔‘‘ خان صاحب معہ اپنے احباب کے گھبراکر چارپائی سے اٹھ کھڑے ہوئے، ’’آئیے داروغہ جی! آئیے، حقہ تو پیتے جائیے۔‘‘

    ’’کیوں جی! گیہوں کا بھاؤ پھر تم نے بڑھا دیا۔‘‘ بنیا دوکان سے اترکر سڑک پر آ گیا۔

    ’’نہیں تو ہجور!‘‘ اس نے گڑگڑاکر کہا۔ ’’بھلا سرکاروں کے لیے بھاؤ تاؤ کیا۔‘‘

    ’’ادھر آبے۔‘‘ داروغہ جی نے ایک لونڈے کو گائیں ہکائے لیے جارہا تھا، بلایا۔ ’’دیکھ! تیرے گھر تازہ مکھن ہو تو اپنی ماں سے کہنا ایک پاؤ بھر تھانہ میں پہنچا دے۔‘‘

    داروغہ جی اپنے چمڑے کا ٹکڑا گھماتے ہوئے چلے جا رہے ہیں۔ نان بائی کی دوکان کے سامنے ایک کتا بیٹھا ہوا تھا۔ کیا جانے کیا سمجھ کر وہ بھوکنے لگا۔

    ’’کیوں بے!‘‘ داروغہ جی کتے سے مخاطب ہوئے۔ ’’بہت دانت نکالتا ہے۔‘‘ ایک چابک لگاکر،

    ’’اور لےگا؟‘‘ محلہ والوں کی طرف مخاطب ہوکر۔ ’’کیوں جی۔ تم لوگ ان کٹکھنے کتوں کو مارتے بھی نہیں۔ عجیب لوگ ہیں اس محلے کے۔ کیوں جی! معلوم ہے قانون کیا کہتا ہے؟ قانون کہتا ہے کہ کاٹنے والے کتے کو فوراً مار دیا جائے۔۔۔ مارنا تو ذرا دولاتیں اس مردود کے! بھونکے جاتا ہے! بھونکے جاتا ہے۔‘‘

    دو ایک آدمی دوڑ پڑے۔ کتے کا پٹا پکڑ کر اس کو دھپانا شروع کیا۔ کتا ٹیاؤں ٹیاؤں کر رہا ہے۔ داروغہ جی نے اپنا چمڑے کا ٹکرا بغل میں اور سگریٹ منہ سےنکال کر انگلیوں میں دبالیا ہے۔ ان کی آنکھوں میں روشنی بڑھ گئی ہے!

    ’’مارو سالے کو! بہت گلا پھاڑ تا ہے۔ موذی ہے سالا!‘‘

    اب تو محلے کے بچے بوڑھے جوان سب ہی سمٹ آئے۔ دکاندار بھی اپنی دکانوں کے تختوں سے اٹھ کر سڑک پر آ گئے۔۔۔ داروغہ جی کے حکم سے کتا پیٹا جا رہا ہے!

    محلہ کے دوسرے سرے کے دوکان پر ایک ’’جوان‘‘ بھی بیٹھا ہوا حقہ پی رہا تھا، اس نے جو سنا کہ داروغہ جی محلہ میں آ گئے، تو وہ بھی اپنی پیٹی کمر میں اور صافہ سر پر درست کرتا ہوا اٹھا۔ محلے والے جمع ہیں۔ داروغہ جی پہلا سگریٹ ختم کرکے دوسرا سلگا رہے ہیں اور کتا پٹ رہا ہے!

    کتا چھوٹی نسل کا بھورے بالوں والا۔ خاصا خوبصورت کتا تھا۔ کبھی نان بائی کی دوکان کے سامنے آ جایا کرتا تھا۔ مزاج کا ذرا کڑوا تھا اور کم بخت کو داروغہ اور غیر داروغہ کی پہچان نہ تھی!

    اس وقت اس کی آنکھیں پھٹی ہوئی تھیں۔ دم ٹانگوں کے اندر مڑ کر گویا چپک گئی تھی۔ زبان ایک انچ سے زیادہ باہر نکلی ہوئی تھی۔ اس کا ہر انداز رحم طلب تھا۔

    ’’یہ کتا کہیں چھوٹے صاحب کا نہ ہو۔‘‘ کانسٹیبل نے داروغہ کے کان سے منہ ملا کر کہا۔

    ’’ارے کس کا ہے یہ کتا؟‘‘ داروغہ جی نے محلہ والوں سے سوال کیا۔ مارپیٹ اب بند ہو گئی۔

    شیخ جی! جو ابھی ابھی شور پکار سن کر مسجد سے نکلے تھے۔ دبی زبان سے کہنے لگے،

    ’’یہ کتا تو، صاحب میرے، وہی نا، جو نئے ڈپٹی صاحب آئے ہیں ان کا معلوم ہوتا ہے۔‘‘

    ایک لونڈا بول پڑا،

    دیکھا تو ان ہی کے دروازے پر ہے، داروغہ جی۔

    داروغہ جی نے سگریٹ کی جلتی ہوئی دم نالی کی طرف پھینک دی۔ کچھ کھانسے،

    ’’بھئی کتا تو اچھی نسل کا ہے۔ ہو نہ ہو ڈپٹی صاحب ہی کا ہوگا۔ ذرا ادھر تو لاؤ اسکو۔‘‘ کتے کے سر پر انہوں نے ہاتھ پھیرا،

    ’’اچھا کتاب ہے۔ نئے ڈپٹی صاحب آدمی شوقین ہیں۔‘‘

    پھر کتے کے سر پر تھپکی دی۔ وہ مانوس نہیں ہوتا۔ دم اس کی ابھی تک ٹانگوں کے اندر ہے۔ اب وہ چیختا تو نہیں۔ مگر غرائے جاتا ہے۔

    ’’مزاج کا ذرا گرم ہے یہ کتا۔۔۔ یہی تو علامت ہے اس بات کی کہ اچھی نسل کا ہے۔‘‘

    یہ کہہ کر داروغہ جی نے محلہ والوں کی طرف دیکھا گویا اپنی پہچان اور شناخت کی داد چاہتے ہیں۔ کلو نان بائی نے اپنی دکان کے تختہ پر سے پکارا،

    ’’اجی نہیں داروغہ جی، یہ سسرا تو روز میری دوکان کے سامنے بیٹھا رہتا ہے۔ بھلا ڈپٹی صاحب کا کتا ایسا کیوں ہونے لگا۔‘‘

    کسی نے جواب دیا،

    ’’نہیں جی، پاگل ہو، اس کا پٹا نہیں دیکھا۔ پالتو ہے جی، بازاری نہیں ہے۔‘‘ داروغہ جی نے تیسرا سگریٹ سلگایا۔ ان کا پارہ ذرا چڑھنے لگا،

    ’’ارے میاں، تم اتنے محلہ والے ہو۔ کسی کو معلوم نہیں کہ کتا کس کا ہے، عجیب بےخبر لوگ ہو تم! اس محلہ کا باوا آدم ہی نرالا ہے۔‘‘

    ’’ہاں صاحب! ہاں صاحب! ہمیں معلوم ہے۔ یہ کتا ڈپٹی صاحب کا ہے۔ ہم نے ہزار دفعہ اس کو ان کی کرسی کے پاس بیٹھے ہوئے دیکھا ہے۔‘‘

    ’’ارے میاں! تم بھی عجیب آدمی ہو خاں صاحب۔‘‘ داروغہ جی نے جلدی سے فرمایا۔ ’’کھڑے دیکھ رہے ہو، کتا غریب پٹ رہا ہے اور روکتے بھی نہیں۔ پھلا یہ کیا ظلم ہے۔ کہ سب کے سب غریب کتے پر ٹوٹ پڑیں۔۔۔ چھوڑ دو، اس کا پٹا۔ چھوڑ دو جی! معلوم نہیں کہاں سے گھیر گھار کر اس کو لے آئے اور کہتے ہو کہ دکان کے سامنے پڑا رہتا ہے۔ معلوم نہیں تم لوگوں کو؟ جانوروں پر ظلم کرنے کے متعلق کس قدر سخت قانون ہے، ابھی چاہو تو دوچار کا چالان کردوں۔ غضب خدا کا، غریب کتا کس بری طرح پیٹا گیا ہے۔ تم لوگ انسان ہو یا جانور۔ بےزبان جانوروں پر یہ ظلم! اس وقت میں نہ آ گیا ہوتا تو تم لوگ تو مار ہی ڈالتے ڈپٹی صاحب کے کتے کو!‘‘

    کانسٹیبل کی طرف مخاطب ہوکر فرمانے لگے،

    ’’لے بھئی، ذرا اٹھا تولے اس غریب کو سنبھال کر۔ چل ڈپٹی صاحب کے یہاں پہنچا دیں۔‘‘

    محلہ والوں کی طرف رخ کرکے،

    ’’دیکھو جی! خبردار، آئندہ ایسی حرکت نہ کی جائے ورنہ باندھ لے جاؤں گا دس پانچ کو۔‘‘

    مأخذ:

    تین پیسے کی چھوکری (Pg. 70)

    • مصنف: قاضی عبدالغفار
      • ناشر: مکتبہ اردو، لاہور
      • سن اشاعت: 1934

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے