Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

دیر دس سال کی

انور قمر

دیر دس سال کی

انور قمر

MORE BYانور قمر

    ’’تم مری داس تو نہیں؟‘‘ اس نے لالٹین کی لو اونچی کی اور لالٹین اس کے چہرے کے قریب لاکر پوچھا۔

    ’’ہاں میں مری داس ہی ہوں۔ لیکن تم نے کیسے پہچانا؟‘‘ وہ اپنی جھکی ہوئی پیٹھ پر سے نیچے سرکتا ہوا بوجھ سنبھالتا ہوا بولا۔

    ’’میں پچھلے دس سال سے تمہارا منتظر تھا اور ہر رات دو بجے اس اسٹیمر سے آنے والے مسافروں پر نظر رکھتا تھا۔‘‘

    ’’ہاں، میں دس سال سے پہلے آنے والا تھا۔۔۔ لیکن۔۔۔‘‘

    ’’لیکن کیا۔۔۔؟‘‘ اس نے بے چین ہوکر پوچھا۔

    ’’لیکن۔۔۔ مجھے دیر ہوگئی۔‘‘

    ’’دس سال کی دیر۔‘‘ وہ بڑبڑایا۔

    ’’ہاں، دس سال کی۔ میں جس کام سے اس گاؤں سے نکلا تھا، اسے پورا ہونے میں وقت لگ گیا۔‘‘ یہ کہہ کر مری داس رک گیا۔ پھر بولا، ’’کیا ہمیں یہاں سے کورلم (CORLIM) جانے کے لیے کوئی سواری نہیں ملے گی؟‘‘

    ’’سواری۔۔۔ نہیں کوئی نہیں۔ دراصل اس اسٹیمر سے اکا دکا مسافر ہی آتے ہیں اور وہ صبح تک آس پاس کے کسی جھونپڑے میں قیام کرلیتے ہیں۔‘‘

    ’’ہوں۔۔۔ اگر تم سہارا دو تو میں اپنے تھیلے میں سے شراب نکالوں۔۔۔ اس کے بغیر تو مجھے چلنا دوبھر ہوا جارہا ہے۔‘‘

    ’’ہاں۔۔۔ سو قدم پر ایک غیرآباد مکان ہے۔ تم چاہو تو ہم دو گھڑی وہیں آرام کرلیں گے۔ کیا تمہارا بوجھ میں اپنے سر لے لوں؟‘‘

    ’’ہاں بہتر ہوگا۔ ویسے یہ اتنا وزنی بھی نہیں لیکن میری صحت اب اسے بھی گوارہ نہیں کر رہی ہے۔‘‘

    اس نے اپنا سر جھکا کر مری داس کا بوجھ اپنے سر پر رکھ لیا اور راستہ چلنے لگا۔

    ’’اس میں تم کیا لائے ہو؟‘‘

    مری داس نے آنکھیں پھاڑ کر اسے دیکھا۔ پھر مسکرایا، ’’بہت سا سامان ہے۔ مالتی کے لیے ساڑیاں، دھن راج کے لیے سوٹ کا کپڑا۔ شانتارام کے لیے نیکریں اور قمیص اور رادھا کے لیے فراکیں۔‘‘

    رات کی گہری تاریکی میں سڑک سنسان پڑی تھی۔ آسمان پر صرف ایک ستارا کبھی چمکتا اور کبھی بجھتا نظر آتا تھا اور ان کے دائیں بائیں اگی ہوئی گھنی جھاڑیوں میں سے کبھی جھینگروں کی پراسرار سیٹیاں اور کبھی لومڑیوں کے رونے کی دردناک صدائیں سنائی دے جاتی تھیں۔

    ’’تم خاموش کیوں ہو؟ کیا تمہیں میری لائی ہوئی چیزیں پسند نہیں آئیں۔ ارے، میں اپنے ساتھ بہت ساری مٹھائی بھی لایا ہوں۔ ایک ٹرانزسٹر لایا ہوں۔ ایک ٹیپ ریکارڈ لایا ہوں۔ اور گوری گوری میموں کے ننگے فوٹو بھی لایا ہوں۔ وہ صرف اپنے دوستوں کو دکھاؤں گا۔ ٹرانزسٹر بستی کے تمام لوگ سن سکتے ہیں اور ٹیپ ریکارڈر پر میں سبھوں کی آواز قید کرکے انہیں حیرت میں ڈال دوں گا۔‘‘

    سڑک پر ان کے قدموں کی آواز دمکتی رہی۔ ایک چمگادڑ دائیں طرف کے درخت سے اڑی اور بائیں طرف کے درخت پر جابیٹھی۔

    ’’ٹھیک ہے مجھے تمہاری لائی ہوئی چیزوں کی پسند اور ناپسند سے کیا واسطہ؟ چیزیں تمہاری ہیں اور تم انہیں اپنے لوگوں کے لیے لائے ہو۔ لیکن سوال یہ ہے کہ۔۔۔؟‘‘

    ’’تم خاموش کیوں ہوگئے۔ کچھ کہتے کیوں نہیں؟‘‘

    وہ جواب دینے سے پہلے بڑی دیر تک خاموش رہا۔ پھر بولا، ’’وہ رہا مکان۔ تم ذرا دم لے لو۔ پھر بتاؤں گا۔‘‘

    وہ اس ویران مکان کے چبوترے پر چڑھ گئے۔ لالٹین کی روشنی میں انہوں نے مکان کے ورانڈے کا ایک گوشہ منتخب کیا۔ اس نے اپنا بوجھ بہ آہستگی سرسے اتارا۔ مری داس نے بڑھ کر تھیلا کھولا۔ اس میں سے ٹٹول کر ایک سیاہ بوتل نکالی۔ پھر ٹٹول کر پلاسٹک کے دو ٹمبلر (TUMBLER) نکالے، ایک دیوار سے ٹیک لگائے بیٹھے اپنے ساتھی کی طرف بڑھایا اور دوسرا اپنی گود میں رکھ لیا۔ ٹھچ کی آواز ہوئی اور بوتل میں بھری ہوئی شراب کی تیز بو ہوا میں منتشر ہوگئی۔

    بُڑ۔۔۔ بُڑ۔۔۔ کی آواز کے ساتھ اس نے شراب دونوں ٹمبلروں میں انڈیلی۔ سگریٹ سلگائی اور اطمینان سے اپنے ساتھی کے برابر دیوار سے ٹیک لگاکر بیٹھ گیا اور اپنے پیر پھیلادیے۔

    ’’ہاں تو تم کیا کہنے جارہے تھے۔۔۔؟‘‘ مری داس نے پوچھا۔ اس کی آواز شراب کے زیر اثر واضح ہوگئی تھی اور لہجہ نرم پڑگیا تھا۔

    ’’نہیں پہلے تم بتاؤ۔‘‘ اس کے ساتھی نے اصرار کیا، ’’تمہاری وہاں کیسے گزری؟‘‘

    مری داس گویا ہوا، ’’تم جانتے ہو کہ میں یہاں مانڈوی ہوٹل میں کام کرتا تھا۔ پرتگالیوں کا زمانہ تھا۔ ہر چیز سستی تھی۔ چاول چار آنے کا سیر بھر اورمچھلی دو آنے کی پاؤ سیر، فینی ایک آنہ پیگ اور سوڈا آدھ آنے کا۔ غرضکہ سو روپے کی تنخواہ میں میرا، میری بیوی کا اور تینوں بچوں کا اچھا گزر ہوجاتا تھا۔ لیکن۔۔۔‘‘ وہ کہتے کہتے رک گیا۔ پھر اس نے اپنے ساتھی کو اپنے ہاتھ سے چھوکر، پھر آنکھوں سے بغور دیکھ کر محسوس کیا اور یہ یقین کرکے کہ وہ اس کے بچپن کا یار ہے، کہنے لگا،

    ’’۶۰ء میں گوا آزاد ہوا۔ ہمارا راج ہوا۔ دیکھتے ہی دیکھتے ہر چیز مہنگی ہوگئی۔ لوگوں نے دوسری ریاستوں سے یہاں آنا شروع کیا۔ کاروبار شروع کیا۔ یہاں کی سستی چیزیں وہاں لے گئے اور وہاں کی چیزیں مہنگے داموں ہمیں بیچنے لگے تو پھر ہمارا جینا دشوار ہوا۔ سو روپے تو انتہائی ضروری کھانے، پکانے، پینے، اوڑھنے کی چیزوں کے لیے ناکافی ہونے لگے۔ اور کچھ نہ بن پڑا تو میں نے ایک انگریز سیاح سے جو کہ مرے ہوٹل میں ٹھہرا ہوا تھا، رائے لی کہ اگر میں یورپ کی کسی ہوٹل میں ملازم ہوگیا تو مجھے کیا تنخواہ ملے گی؟ جانتے ہو اس نے مجھے کیا بتایا؟‘‘

    ’’نہیں۔‘‘

    ’’دس پاؤنڈ ہفتہ وار۔ یعنی دو سوروپے ہفتہ وار تنخواہ یعنی آٹھ سو روپے ماہانہ۔ میں نے فوراً اپنا پاسپورٹ بنوایا۔ ویزا کے لیے عرضی دی۔ دو ہفتے میں مجھے یورپ جانے کی اجازت مل گئی او رایک رات میں اسی دو بجے آنے والے اسٹیمر سے یہاں سے رخصت ہوا۔‘‘

    ’’ہاں مجھے یاد ہے تمہیں وداع کرنے تمہاری بیوی، تمہاری بیٹی اور دونوں بیٹے بھی یہاں آئے تھے۔ گاؤں کے آٹھ دس لوگ بھی ان کے ساتھ تھے۔‘‘

    ’’ہاں یار۔۔۔ وہ پہلا موقع تھا کہ ہمارے گاؤں کو رلم کاکوئی شخص سمندر پا جارہا تھا۔‘‘

    یہ سن کر اس کی آنکھوں کے سامنے تیرہ سال پہلے کی رات کا وہ منظر گھوم گیا۔ کتنے بجھے ہوئے دل سے کتنے آنسوؤں کو اپنی آنکھوں میں روکے اور کتنے بھاری قدموں سے وہ اسٹیمر کی ڈولتی ہوئی سیڑھیوں پر چڑھا تھا۔ اس کی بیوی میلی کچیلی ساڑی میں ملبوس، اپنے پلو سے اپنی آنکھیں خشک کر رہی تھی اور اس کی لڑکی دھاڑیں مار مار کر رو رہی تھی۔ البتہ اس کے دونوں شرارتی لڑکے دل ہی دل میں خوش ہو رہے تھے کہ ان کا سخت دل باپ لمبے عرصے کے لیے دوسرے ملک جارہا ہے۔

    پھر اسٹیمر کی ہوٹ نے اس کا کلیجہ دہلادیا۔ وہ انجانے ملک میں انجانے لوگوں کے درمیان رہنے کے تصور ہی سے اپنے آپ کو تنہا محسوس کرنے لگا اور اس تنہائی کے خوف اور اپنی بے چارگی و کسمپرسی کے ڈر کے تحت اس نے اچاہا کہ لپک کر کنارے پر کود جائے اور اپنی بیوی اور بچوں کو گلے لگاکر کہے کہ کیا تم ایک وقت کا فاقہ نہیں کرسکتے، کیا موٹا جھوٹا نہیں پہن سکتے؟ کیا یہ ضروری ہے کہ تمہارا پتی اور تمہارا باپ تم سے ہزاروں میل دور محض اس لیے چلاجائے کہ وہ تمہیں سونے کا نوالہ اور اطلس کا لبا س پہناسکے۔ کیا تم اس کی رفاقت اور اس کی سرپرستی میں خوش نہیں ہو؟

    لیکن اسٹیمر کنارا چھوڑ چکا تھا اور وہ اپنے عزیزوں کو جیٹی (JETTY) پر ننگے بلبوں کی زرد روشنی میں اپنی دھندلائی ہوئی آنکھوں سے بڑی دیر تک دیکھتا رہا تھا۔

    ’’تم دس سال پہلے آنے والے تھے۔۔۔‘‘ اس کے ساتھی نے اپنی بھرائی ہوئی نشہ آلود آواز میں اپنا سوال دہرایا۔

    ’’ہاں دس سال پہلے آنے والا تھا۔ لیکن مجھے دیر ہوگئی۔‘‘ اس نے بھی اپنا جواب دہرایا۔

    ’’دس سال کی دیر؟‘‘ اس کے ساتھی نے پھر حیرت و استعجاب سے پوچھا۔

    ’’ہاں دس سال۔ کوئی ضروری تو نہیں کہ دیر منٹ، گھنٹہ، دن، ہفتہ اور مہینہ کی ہو۔ سال بھر کی ہو سکتی ہے اور دس سال کی بھی ہوسکتی ہے۔‘‘

    اس نے شراب کا آخری قطرہ بھی اپنے گلاس میں انڈیل لیا۔ وہ محسوس کرنے لگا تھا کہ اس کی پلکیں بوجھل ہو رہی ہیں اور وہ باوجود کوشش کے انہیں پل دو پل کھلی نہیں رکھ پا رہا ہے اور اسے اس کا پتہ نہیں تھا کہ اس کے ذہن کے پچھلے کواڑ کھل چکے ہیں جن کے راستے یادوں کی برات بڑھی چلی آرہی ہے۔

    ’’تین سال لزبن (LISBON) میں کیا کماتا؟ اوں۔۔۔ وہاں تو ہر چیز بہت مہنگی تھی۔ بہت مہنگی۔ بئیر تین شلنگ کی ایک پاینٹ (PINT) وہسکی دس شلنگ کی اور۔۔۔ اور کھانا۔ یار تیرے ہاں آج کیا پکا ہے؟‘‘

    ’’اوگڑا رائیس (RICE) اور ویلری (VELRY)مچھلی کا سالن۔‘‘

    ’’اُوف!‘‘ وہ اپنی انگلیاں چاٹنے لگا۔ تیرہ سال بیت گئے تھے اور اس نے ابلا ہوا بھات اور مچھلی کا چٹپٹا سالن نہیں کھایا تھا۔

    ’’پھر میں لزبن سے لندن گیا۔ لندن سے پیرس۔ پیرس سے ہانگ کانگ اور وہاں سے سیدھا سنگاپور۔ ایک بات بتاؤں یار۔۔۔ میری زندگی وہاں بڑی غیرمطمئن اور بڑی غیر محفوظ سی گزری۔‘‘

    ’’ہزار بارہ سو کی نوکری ہوتے ہوئے تم یہ کیونکر کہہ سکتے ہو؟‘‘

    ’’یہی بات تو تمہاری سمجھ میں نہیں آسکتی! یہاں ہماری نظر میں روپے پیسے کی بڑی اہمیت ہے۔ لیکن وہاں اس کی کوئی اہمیت نہیں۔ وہاں کام بہت ہے۔ کام کرنے والے نہیں۔ اس لیے ہزار بارہ سو کی نوکری تو ہرکس و ناکس کو مل جاتی ہے۔ لیکن بحیثیت ایک انسان کے میری کوئی عزت نہیں تھی وہاں۔ کوئی قدر نہیں تھی وہاں۔ میں مشین کے کسی کل پرزے کی طرح کام کرتا تھا۔ بغیر کسی جذبے کے، بغیر کسی احساس کے، بغیر کسی شوق کے۔ یہاں تو میں کبھی کیرمل کسٹرڈ (CARAMEL CUSTARD) تیار کردیتا اور وہ کسی گاہک کو پسند آجاتا تو ویٹر آکر مجھے شاباشی دیتا۔ میرا دل بڑھاتا۔ مجھے اس کی پرواہ بھی نہیں ہوتی کہ گاہک نے ویٹر کو جو روپیہ بطور ٹپ دیا ہے اس میں میرا بھی حصہ نکلتا ہے۔ وہاں ٹپ ملتی تھی لیکن دل کو بڑھاوا نہیں ملتا تھا۔ وہاں تو ایک قاعدہ تھا تمام (TIPS) ایک ڈبے میں جمع کردی جاتی تھی۔ ہر ہفتہ ہر چھوٹے بڑے کو اس کا حصہ مل جاتا تھا۔ جو میری ہفتہ بھر کی تنخواہ سے زیادہ ہوتا تھا۔‘‘

    ’’کیا کہا، ہفتہ بھر کی تنخواہ سے زیادہ ہوتا تھا۔‘‘

    ’’ہاں!‘‘

    ’’اس کے باوجود تم وہاں خوش نہیں تھے؟‘‘

    ’’ہاں!‘‘

    ’’کیا بکتے ہو؟ تمہارا دماغ تو نہیں چل گیا؟‘‘

    ’’چاہے تم جو سمجھو۔ لیکن میں ہوش میں ہوں اور سچ کہہ رہا ہوں۔ وہاں جاکر ہی مجھے محسوس ہوا کہ روپیہ پیسہ اتنا اہم نہیں جتنا اہم ہمارا وجود ہے۔ اپنا آپ ہے۔ اپنا انا ہے۔ او ریہ وہ چیزیں بھی نہیں جنہیں داموں خریدا جاسکے۔ تمہیں اس دنیا میں ایسے لوگ مل جائیں گے جو اپنا سب کچھ بیچ دینے کو ہر وقت تیار رہتے ہیں۔ لیکن میں ان میں سے نہیں۔ لیکن یہ وہ بات مجھے اپنے وطن، اپنی بیوی، اپنے بچوں، اپنے دوستوں، اپنے عزیزوں سے ہزاروں میل دور جاکر معلوم پڑی۔‘‘

    ’تو پھر تم فوراً واپس ہوجاتے، تمہیں وہاں تیرہ سال تک رکنے کی کیا ضرورت تھی؟ تم نے تو اپنی بیوی کو دس سال پہلے لکھا تھا کہ تم جولائی کی ۲۸تک واپس ہو رہے ہو؟‘‘

    ’’ہاں تم ٹھیک کہتے ہو، مجھے فوراً لوٹ آنا چاہیے تھا لیکن یہ سوچ کر وہاں رک گیا کہ میرے آنے جانے پر پانچ ہزار روپے خرچ ہوجائیں گے۔ یہ روپے میں نے بڑی کٹ کسر سے جمع کیے تھے اور یہ بچت میں سالہا سال سے کرتا چلاآیا تھا۔ اس لیے اتنی رقم میں وہیں رک کر جمع کرلینا چاہتا تھا۔‘‘

    ’’تو اس کا مطلب ہے یہ تم پانچ ہزار کے لیے تیرہ سال تک بکتے رہے؟‘‘

    ’’نہیں یہ بات نہیں۔ تیرہ سال تک پانچ ہزار کے لیے نہیں بلکہ ایک سال تک ان پانچ ہزار روپیوں کے لیے بہ سبب مجبوری بکا۔ اور بارہ سال تک ساٹھ ہزار کے لیے اپنے شوق سے بکا۔‘‘

    ’’کیا کہہ رہے ہو؟ کیا تم ساٹھ ہزار کے آسامی بن گئے ہو؟‘‘

    ’’بڑا غلط لفظ استعمال کیا ہے تم نے۔ جس شخص کے پاس ساٹھ ہزار ہوں اسے آسامی نہیں کہتے، آسامی ساٹھ لاکھ اور ساٹھ کروڑ کے مالک کو کہتے ہیں۔ ان ساٹھ ہزار سے میں کون سے ہوٹل اور ریسٹورانٹ تعمیر کرلوں گا۔ یہ تو میرے بال بچوں کی پرورش، ان کی پڑھائی لکھائی پر صرف ہوجانے والے ہیں۔ میرے اور میری بیوی کے بڑھاپے اور بیماریوں کے علاج معالجے پر خرچ ہوجانے والے ہیں۔ اور تم محسوس کر رہے ہوگے کہ اب میرے جسم میں، میرے دماغ میں اور میرے دل میں بیچنے کو کچھ بھی باقی نہیں بچا۔‘‘

    سینٹ فرانسس زیوئیر چرچ کی بالائی منزل پر نصب دس من وزنی پیتل کا گھنٹہ بجا۔ ٹن۔۔۔ ٹن۔۔۔ ٹن۔۔۔ ٹن۔۔۔ ٹن۔۔۔

    پھر دور بہت دور کوئی مرغ اذان دینے لگا۔ ککڑوں کوں۔۔۔ ککڑوں کوں۔۔۔

    ’’لو باتوں باتوں میں صبح ہوگئی۔ چلو اب گھر چلیں۔‘‘

    اس کے ساتھی نے تھیلا باندھا اور سر پر اٹھا لیا۔ ایک ہاتھ سے بجھی ہوئی قندیل اٹھائی اور دوسرے سے مری داس کو سہارا دیا۔ اُون کے نیلے اوور کوٹ میں ملبوس مری داس لڑکھڑا کر اٹھا اور ڈگمگاتے قدموں سے چلنے لگا۔

    کچھ دور چل کر وہ اچانک رک گیا۔ پھر اس نے اپنے چہرے پر ہاتھ پھیرا۔ پھر اپنے ساتھی کو بغور دیکھا۔ پھر اپنے سفید بالو ں میں انگلیاں پھیرنے لگا۔ پھر کچھ سوچ میں پڑگیا۔ پھر چلنے لگا۔ پھر رک گیا اور بولا، ’’تم کپتان فرنانڈیس (CAPTAN FARNANDES) ہونا؟‘‘

    ’’ہاں کیوں۔ تمہیں تعجب کس بات کا ہے؟‘‘

    ’’اور میں مری داس ہی ہوں نا؟‘‘

    ’’ہاں، میں نے تمہیں اندھیرے میں بڑی مشکل سے پہچانا تھا۔‘‘

    ’’لیکن تمہاری اور میری عمر میں اتنا تضاد کیوں نظر آرہا ہے؟‘‘

    ’’تضاد، کیسا تضاد؟‘‘

    ’’میں بہت بوڑھا، بہت کمزور اور تم اتنے جوان ہٹے کٹے۔‘‘

    ’’شاید اس کی ایک ہی وجہ ہے؟‘‘

    ’’کیا ہے؟ کیا ہے؟ کیا ہے وہ وجہ؟‘‘ بے چین ہوکر مری داس نے اس کے شانے پکڑ کر جھنجھوڑ دیے۔

    ’’یہی کہ میں نے یہاں کچھ نہیں بیچا۔‘‘

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے