aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

دیوتاؤں کا صدقہ

قاضی عبدالغفار

دیوتاؤں کا صدقہ

قاضی عبدالغفار

MORE BYقاضی عبدالغفار

    کہانی کی کہانی

    ’’ایک رومی بادشاہ کی کہانی، جو اپنی بیوی کی بد چلنی سے واقف ہے۔ وہ اسے اور اس کے عاشق کو مروانے کے لیے جس نوکرانی کو زہریلی شراب تیار کرنے کا حکم دیتا ہے، اس کی بیوی نے بھی اسی نوکرانی کو اس کے لیے زہر ملا حلوہ تیار کرنے کو کہہ رکھا ہوتا ہے۔‘‘

    اشخاص:

    کلاڈیس بالبو:     ایک رومی امیر جو اپنی بیوی کی بدچلنی سے واقف ہے۔

    لینٹولس:         روما کا ایک نوجوان امیرزادہ جس سے بالبو کی بیگم کے ناجائز تعلقات ہیں۔

    جولیا:            بالبو کی بدچلن بیوی۔

    گالیا:            بالبو کا سکریٹری۔

    لوکسٹا:          بالبو اور جولیا کی کنیز جو زہر دے کر قتل کرنے کے فن میں دستگاہ رکھتی ہے۔

    منظر
    دوپہر ڈھل چکی ہے، آفتاب کی تمازت کم ہوتی جاتی ہے۔ کلوزیم کی دیواروں کا سایہ لمبا ہوتا جاتا ہے۔ ٹھنڈی ہوا چل رہی ہے۔ یہ وقت ہے جب روما کے رؤسا اور امرا اپنے محلوں کے برآمدوں میں نکل آتے ہیں۔

    کلاڈیس بالبو کا محل بنیاد سے گنبد تک خالص مرمر کا بنا ہوا ہے۔ اس محل کے ایک برآمدہ میں بالبو اپنی بیگم کے عاشق لینٹولس کے ساتھ پالسو کا کھیل کھیل رہا ہے۔ یہ دونوں مرمر کی نیچی چوکیوں پر رکھے ہوئے ریشم کے موٹے گدوں پر کچھ بیٹھے اور کچھ لیٹے ہوئے کھیل میں مشغول ہیں۔

    بالبو: کھیلو۔ کھیلو، پانسہ پھینکو، پانسہ کو روکتے کیوں ہو۔ کس چکر میں ہو؟ (آنکھ مار کر اور سرہلا کر محل کے دروازے کی طرف دیکھتا ہے)

    لینٹولس: ’’ہوں۔ کیا کہا؟ پانسہ؟ پانسہ تو پھینک رہا ہوں، یہ دیکھو، یہ مارا، لو چلو اٹھاؤ پانسہ۔‘‘

    بالبو: ’’(ایک ہونٹ دانتوں کے نیچے دباکر) تمہارا پانسہ تو سیدھا پڑ رہا ہے۔ مگر کب تک؟ ایسا لوٹےگا کہ یاد کروگے۔ پانسہ کے بھروسہ پر نہ رہنا۔ میرا ہاتھ ابھی نہیں دیکھا۔‘‘

    لینٹولس: ’’اجی سب دیکھ لیا۔ دیکھ چکے تمہارا ہاتھ! (پانسہ پھینک کر) پانسہ یوں پھینکتے ہیں، دیکھا؟ اب ذرا سنبھل کر پھینکو۔

    (اٹھ کر ٹہلنے لگتا ہے۔ دل ہی دل میں باتیں کرتا ہے۔ پانسہ پانسہ سیدھا پانسہ تو میرا ہے۔ اس گدھے کا پانسہ تو الٹا پڑ چکا۔ نرا الو کا پٹھا ہے۔ جو روکو میں لے جاتاہوں شوہر آپ ہیں! دیوتاؤں کی دلگی بھی عجیب ہے۔ جو لیا جیسی پری کاجوڑا لگایا بھی تو اس لنگور کے ساتھ! واہ میرے دیوتاؤ)

    بالبو: ’’کیا منمنا رہے ہو، لو پھینکو آخری ہاتھ۔‘‘

    (جولیا محل کا پردہ اٹھا کر آتی ہے۔ اس کالباس بھی اتنا ہی حسین اور دلکش ہے۔ جس قدر وہ خود حسین ہے رخسار اور ہونٹ غازہ کی سرخی سے گلاب کی طرح سرخ ہیں۔ اس کے جسم پر جواہرات جگمگا رہے ہیں)

    جولیا: (بالبو کی طرف منہ بناکر) ’’لینٹولس سے پانسے پھنکوا رہے ہو اور تمہیں خبر نہیں کہ وہ مجھے ساتھ لے کر اس وقت کلوزیم جانے والا ہے۔ تم کو تو پانسہ پھینکنے کے سوا کوئی کام ہی نہیں اورجب پھینکوگے الٹا۔

    بالبو: ’’بیگم صاحبہ! معاف فرمائیے (منہ بناکر) مجھے کیا خبر تھی کہ لینٹولس کو ساتھ لے کر آپ تماشہ دیکھنے جا رہی ہیں۔ لے جائیے، لے جائیے (لینٹولس سے) ’’جائیے جناب، جائیے۔ تشریف لے جائیے۔ مہربان، بیگم صاحبہ کو کلوزیم کا تماشہ دکھانے لے جائیے۔ (ذرا گرمہوکر) ’’جاؤ، تم دونوں جاؤ۔ میں کب کہتاہوں کہ نہ جاؤ۔ ایسے ایسے جاؤ کہ پھر واپس بھی نہ آؤ۔‘‘

    جولیا: (جاتے جاتے رک کر) کیا فرمایا۔ مجھ سے پیچھا چھڑانا چاہتے ہو؟ نہیں چاہتےکہ واپس آؤں۔ تو پھر قصہ ختم کرو۔ میرا مہر مجھے دو۔ پورے دو لاکھ جیب سے نکالو۔ میں کب تم جیسے گدھوں کے اصطبل میں رہنا چاہتی ہوں۔ مگر جاؤں گی اپنا مہر لے کر اور تمہاری صورت کو آگ لگا کر۔ (زور سے دروازہ بند کرتی ہے اور محل سے نکل جاتی ہے)

    بالبو: (سخت غصہ کی حالت میں ٹہل رہا ہے اور بڑبڑاتا جاتا ہے) ’’دیکھوں گا، دیکھوں گا، سمجھوں گا! طلاق لےگی؟ مہر لےگی؟ تو اور تیرا لینٹولس (دروازے کی طرف مکا دکھاتا ہے) لے! مجھ سے اپنا مہر لے اور لینٹولس کی بغل میں چین کر! (آواز دیتا ہے) ’’گلبا۔ گلبا۔۔۔‘‘

    (گلبا داخل ہوتا ہے)

    بالبو: جاؤ ان دونوں کے پیچھے جاؤ۔ لوکسٹا کو بلاؤ۔ اس سےکہو کہ جس وقت یہ دونوں واپس آئیں تو ان کے لیے تیز شراب کا ایک آخری جام تیار رہے۔ سمجھ گئے میرا مطلب!‘‘

    (گلبا جاتا ہے اور بالبو کمرے میں بڑبڑاتا ٹہل رہا ہے)

    بالبو: طلاق، مہر، لینٹولس کی معشوقہ، لوکسٹا کی شراب پی، ایک جام پی لے، میری پیاری بیگم! بیگم صاحب کی عمر کا پیالہ چھلکنا چاہیے۔ آج رات کے کھانے کے بعد، ناہید دیوتا کی قسم میں بغیر جولیا کا مہر اداکیے انگیر پینا سے شادی کر سکوں گا۔ دیوتاؤں کا صدقہ!‘‘

    دوسراسین
    (محل کے باہر سڑک پر)

    لینٹولس: کیوں جان من! وہ حلوہ بھی تیار کر لیا جو آج شب کو بالبو صاحب نوش فرمائیں گے۔

    جولیا: (مسکراکر) نہیں۔ مگر میری کنیز لوکسٹا تیار کر رہی ہے۔ مطمئن رہو۔ وہ اپنے فن کی ماہر ہے۔ ناہید دیوتا کا سایہ ہمدونوں کے سرپر ہے۔ حلوہ بہت میٹھا ہے۔ بہت مزے کا ہوگا۔ میں نے لوکسٹاکو سمجھا دیا ہے کہ شکر زیادہ ڈالے۔

    میرے عزیز شوہر حلوہ کھا کر سو رہیں گے! نہ طلاق! نہ مہر! بس لوکسٹا کا حلوہ میرے معزز شوہر کےحلق میں! دیوتاؤں کا صدقہ!‘‘

    ’’پردہ‘‘

    مأخذ:

    تین پیسے کی چھوکری (Pg. 48)

    • مصنف: قاضی عبدالغفار
      • ناشر: مکتبہ شاہراہ، دہلی
      • سن اشاعت: 1959

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے