Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

دھنک کے رنگ نہیں

واجدہ تبسم

دھنک کے رنگ نہیں

واجدہ تبسم

MORE BYواجدہ تبسم

    کہانی کی کہانی

    ’’ایک ایسے شخص کی کہانی، جو گھر کی ذمہ داریوں کی وجہ سے شادی کرنے سے انکار کر دیتا ہے۔ اس کی بیوہ ماں اور بیوہ بہن اسے ہر ممکن طریقے سے شادی کے لیے تیار کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ مگر وہ انکار کرتا جاتا ہے۔ پھر گھر میں ایک ایسی لڑکی آتی ہے، جس سے وہ شادی کرنے پر راضی ہو جاتا ہے۔ تبھی کچھ ایسا ہوتا ہے کہ وہ اس سے بھی شادی کرنے سے انکار کر دیتا ہے۔‘‘

    اور پھر پھول اتنا رویا۔ اتنا رویا کہ اس کا کلیجہ پھٹ گیا۔ گھاس سر اٹھاکر بولی۔ ’’ارے بھائی تم روتے کیوں ہو؟ ابھی ابھی تو تمہارے منہ پر ہنسی آئی تھی کہ تم رونے بھی لگے؟‘‘ پھول نے مرتے مرتے جواب دیا۔ میں روتا ہوں اس لئے کہ دوسرے ہنس سکیں۔‘‘ اور پھول مر گیا۔

    دوسرے دن ٹہنی پر گلابی کلیاں جھوم جھوم کر ہنس رہی تھیں۔ گھاس نے شرمندہ ہو کر سر جھکا لیا۔ میں کتنی نادان ہوں! اتنی سی بات میری سمجھ میں نہ آ سکی۔‘‘

    ہم سب گھاس کی طرح نادان ہیں۔

    (ایک جاپانی گیت)

    رفیق میاں کندھے پر اچکن لٹکاکر باہر نکلے تو پیچھے سے حوری لپکی ہوئی آئی اور پردے کو اپنے جسم کو آس پاس لپیٹ کر، سر نکال کر بولی۔

    ’’اجی ماموں جان پاندان میں ڈالی نہیں ہے۔‘‘

    رفیق میاں پلٹے۔ ’’نہیں ہے تو نہ رہے کون پان کھانے کا اتنا شوقین ہے؟‘‘

    وہ پھر سے بولی۔ ’’امی جان کہتی ہیں، واپسی میں ضرور لائیےگا۔ ہاں اور وہ پانوں نچانے لگی۔

    ’’یہ تو بھئی خواہ مخواہ کے خرچے ہیں، بی بنو۔ بھلا۔‘‘

    ابھی ان کی بات ان کے منہ ہی میں تھی کہ اچانک ان کی نگاہیں حوری کے تھرکتے پیروں سے جا ٹکرائیں۔

    ’’ارے؟‘‘

    اچانک ان کے منہ سے نکلا۔ ان کی نگاہیں حوری کے پیروں سے چپک کر رہ گئیں۔

    ’’ارے یہ گلابی گرگابیاں؟‘‘ حوری نے اترا اترا کر پیر نچانے شروع کر دئیے۔ مخمل کی نازک نازک گلابی کا مدار گرگابیاں۔ جیسے دو مہکے مہکے گلاب حوری کے پیروں میں کھل اٹھے تھے۔ ان کا دل دھڑ، دھڑ، دھڑکا اور پھر وہ دل مزے سے حلق میں آکر جھولنے لگا۔ اماں تو بوڑھی ٹھہریں۔ وہ بھلا ایسی گرگابیاں پہننے لگیں؟ آپا بھی بے چاری بیوہ۔ سفید ساڑی کے سوا کبھی انھوں نے دوسرے رنگ کی ساڑی تک نہ پہنی، تو ایسی چمکتی دمکتی گرگابیاں وہ کہاں پہننے چلیں۔ وہ زہرہ دلہن۔ انھیں تو میں جانتا ہوں۔ ان کے پاس بھی ایسی گرگابیاں نہیں۔ پھر۔۔۔ پھر۔۔۔ انو میاں؟۔ انو میاں ٹھہرے مرد۔ وہ آخر ایسی رنگین، بھڑکیلی گرگابیاں کیسے پہن سکتے ہیں اور بچے تو بچے ہی ٹھہرے۔۔۔ پھر؟ ہو سکتا ہے آپا بی کے جہیز کی رکھی رکھائی ہوں اور حوری نے مارے اتراہٹ کے پہن لی ہوں۔ مگر آپابی کا سارا جہیز تو کبھی کا ختم ہو چکا ہے اور جو کبھی جہیز کی ہوتیں تو بھی اتنے دنوں تک ان کی چمک دمک ماند نہ پڑ جاتی؟ ہو سکتا ہے کہ حوری نے ہی خریدی ہوں۔ اچھا اگر حوری نے ہی خریدی ہیں تو یہ اس کے

    پیروں سے اتنی بڑی کیوں ہیں کہ ایڑیاں تو اندر رہ گئی ہیں ا ور جوتی پیچھے سے باہر نکل گئی ہے۔‘‘

    انھوں نے حیرت سے پھر حوری کے پیروں کو دیکھا۔ گرگابیاں تو اپنے منہ سے کچھ نہیں کہتیں۔ ان کے زبان نہیں ہوتی۔ پھر یہ کیسی گرگابیاں تھیں بھئی جو باقاعدہ پٹ پٹ باتیں کر رہی تھیں، چہک رہی تھیں اور رفیق میاں کو باقاعدہ مجبور کر رہی تھیں کہ وہ بھی چہکیں اور ان کے ساتھ باتیں کریں۔

    بھلا آدم کے سنسان ویران، جنت کے باغ میں یہ کون سی حوا آ گئی ہے کہ سارے میں گلاب مہکنے لگے ہیں۔ وہ جھلا کر بولے۔ ’’ارے یہ کس کی گرگابیاں چڑھا رکھی ہیں؟ خراب ہو جائیں گی تو؟‘‘

    حوری نے پردے میں پاؤں چھپانے کی کوشش کی۔ پھر چلبلا کر بولی۔ ’’ارے وہ خراب کاہے سے ہونے لگیں۔‘‘

    ’’اور جو تو مسلسل ناچے جا رہی ہے تو ایسی نازک گرگابیاں پھٹیں گی تھوڑے ہی۔‘‘

    حوری کس قدر منہ پھٹ تھی۔ ’’شکو باجی کا درد آپ کو کیوں ہو رہا ہے۔ بھئی واہ جس کی چپلی وہ تو کچھ نہ کہے۔ تیسرا ہی دل اٹکاتا پھرے۔‘‘

    شکو باجی؟ بالآخر وہ کھل کر پوچھ بیٹھے۔

    ’’وہی جو اندر بیٹھی ہیں۔ وہ دھانی رنگ کی ساڑی پہنے۔‘‘ وہ اک دم پردہ چھوڑ کر باہر لپک آئی۔ ’’قسم خدا کی ماموں جان۔ ان کا سارا بکس لال نیلے پیلے کپڑوں سے بھرا پڑا ہے اِتےّ پیارے پیارے رنگ کہ پوچھئے متی اور ایک چھوٹا بکسا ہے، جس میں ڈھیروں چوڑیاں ایک اور بکسا ہے جس میں ان گنت چپلیاں، ڈھیروں جوتیاں رنگ برنگی کہ نظر نہ ٹھہرے۔ ایک اور بکس ہے جس میں۔۔۔‘‘

    ’’انہوں ہوں۔ کیا بکواس لگا رکھی ہے۔ تجھ سے اتنی ساری تفصیل کس نے پوچھی تھی۔ اور یوں اچک اچک کر باتیں نہ بنا۔ کہیں آڑھا ترچھا پاؤں پڑ گیا تو گرگابی بے چاری ٹوٹ جائےگی۔ اتنی نازک جو ہے۔

    ’’تو کیا غضب ہو جائےگا خدا وندا۔ ڈھیروں تو جوتیاں ہیں۔ کچھ قحط تو نہ پڑ جائےگا۔‘‘

    ’’مگر دوسرے کی چیز لینا کچھ اچھا لگتا ہے۔‘‘ وہ اسے ذرا سی غیرت دلانے پر تلے ہوئے تھے۔

    ’’یہ دوسرا کیا ہوتا ہے جی میاں۔ میری پھوپھی ہی تو ہے اور بھلا پھوپھی کہیں غیر ہوتی ہے جی ماموں جان؟‘‘

    رفیق میاں نے حیرت سے دیدے کھول کر پوچھا۔

    ’’تیری پھوپھی۔ تیری پھوپھی یعنی کہ اپنی آپا بی کی نند‘‘

    ’’ظاہر ہے۔‘‘ وہ انتہائی لاپروائی سے بولی۔

    ’’مگر میں نے تو آج تک نہیں دیکھا بھائی

    حوری تنک کر بولی۔ ’’تو اس کا مطلب یہ کہاں نکلتا ہے کہ آپ نے نہیں دیکھا تو وہ میری پھوپھی نہیں ہوئیں۔‘‘

    ’’تو بڑی چربانک ہے لڑکی۔ یہ نہیں سوچتی کہ میں تیرا بڑا ماموں ہوں اور تو ایسی زبان چلاتی ہے۔‘‘

    ’’واہ بھئی واہ۔ میں نے ایسی کون سی بری بات کہی۔ اپنا دل صاف نہیں، اس لئے جناب نے لتاڑ بتائی۔ میں نے تو ذرا ہی زبان ہلائی تو مجھ پر الزام‘‘

    رفیق میاں کو پہلی بات یاد آ گئی۔ تو آپ اسی لئے ڈلی منگوانے پر اصرار کر رہی تھیں کہ گھر میں مہمان آ گئے ہیں۔‘‘

    ’’ظاہر ہے۔‘‘ وہی لہجہ بےزاری بھرا۔

    ’’حوری۔۔۔ اے حوری۔ اری حور‘‘ اندر سے آپا بی کی آواز آئی۔ اور حوری پردے کو جھلاتی سپڑ سپڑ اندر کو بھاگ گئی۔

    نرم نرم گلابی گلابی گر گابیاں اس کے پیروں تلے کس بری طرح رگڑے کھا رہی تھیں۔ رفیق میاں جھلا گئے، ’’اری کمبخت۔۔۔‘‘

    کوئی آدھ پون گھنٹے بعد رفیق میاں باہر سے واپس آئے تو اپنے کمرے میں پہنچ گئے مگر ہمیشہ کی طرح انھوں نے پلنگ پر پڑ کر تھکی ہاری سانس نہیں لی۔ بلکہ اچکن کو ٹانگ کر وہ دھیرے دھیرے گنگنانے لگے۔ پیروں کی چاپ سن کر حوری پھر جان کھانے کو آموجود ہوئی تھی۔ آتے ہی تنک کر بولی۔ ’’ڈلی آئی یا نہیں؟‘‘

    رفیق میاں نے خوشی خوشی اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔

    ’’آج بہت اترا رہی ہے ری اور جود و چانٹے جڑ ہی دوں تو۔‘‘

    حوری شرارت اور گستاخی سے بولی ’’اور میرے پیر تو غالباً جناب نے دیکھے ہی نہیں۔‘‘

    ’’اچھا۔! وہ بناوٹی غصے سے بولے۔‘‘ تو مطلب یہ ہے کہ آپ ان چپلیوں سے ہماری خبر لیں گی نا؟

    حوری کھی کھی کر کے ہنسنے لگی۔ ’’اچھا لائیے چھالیہ تو دے دیجئے۔‘‘ وہ ہاتھ پھیلا کر کھڑی ہو گئی۔

    ’’تو چل۔ میں خود ہی لئے آتا ہوں۔‘‘ اور وہ پلنگ کے نیچے جوتے ٹٹولنے لگے۔ آگے آگے حوری تھی اور گلابی مخملیں گر گابیوں کی ہلکی ہلکی دپ۔ دپ اور پیچھے پیچھے رفیق میاں تھے اور تازہ تازہ گلابوں کی مہک۔ حوری پردہ اٹھا کر اندر کہیں غائب ہو گئی تھی۔ سامنے باورچی خانے سے دھواں اٹھ رہا تھا۔ اماں ہانڈی بھون رہی تھیں۔ رفیق میاں آگے بڑھ گئے۔

    پرلے دالان میں انو میاں کی بیوی بیٹھی اپنے بچے کو دودھ پلا رہی تھیں وہ مایوسی سے اور آگے بڑھ گئے۔ سامنے والے کمرے میں حوری کی اسلم سے چھین جھپٹ جاری ہو چکی تھی۔ شائد گڑیا کی چوٹی کھینچے جانے کا سا کوئی سنگین معاملہ پیش تھا۔ انھوں نے زور سے چھالیہ کی پڑیاتخت پر پٹخ دی اور اماں سے بولے۔

    ’’یہ چھالیہ کی پڑیا یہاں رکھ رہا ہوں۔ پاندان جانے کدھر پڑا ہے۔ ورنہ میں خود ہی کلیا میں ڈال دیتا۔‘‘

    کونے والے کمرے میں جہاں سبز پردہ جھول رہ اتھا، ہلکی سی گڑ گڑاہٹ ہوئی اور اک دم رفیق میاں چکرا کر رہ گئے۔

    دھنک کے رنگ۔

    قوس قزح کی رنگینیاں۔۔۔

    دھیرے سے پاندان تخت پر رکھ کر وہ بولی۔

    ’’امی پان کھا رہی تھیں۔ معاف کیجئے آپ کو تکلیف ہوئی۔‘‘

    نہ پھول مہکے نہ کھلیان چٹکیں، نہ ہوائیں چلیں، نہ بادل جھومے۔ بس آپ ہی آپ بہار سی چھا گئی، جیسے سارے میں دھنک کے رنگ ہی رنگ بکھرگئے۔ رنگ جو بہاروں اور خوشیوں سے عبارت تھے۔

    ہرا آنچل پاندان کے کونے سے اٹک گیا۔ تو وہ ذرا کی ذرا رُکی، مڑی اور ہلکی سی ’’اونہہ‘‘ کے ساتھ آنچل چھڑا کر اندر چلی گئی اور تو کچھ نہیں لیکن اس کی مخمل والی گلابی گلابی ایڑیاں وہیں رہ گئیں جو اتنی تازہ، اتنی نازک تھیں۔ جیسے گلاب کی کچی کلیاں۔ قسم خدا کی، یہ پانوں نہیں یہ گلاب ہیں۔ رفیق میاں نے اپنے ہونٹوں پر ہاتھ رکھ لئے، کہیں دل کی بات زبان نہ کہنے لگے اور جو زبان کہہ دے تو کان نہ سن لیں۔ تو یہ بات کھل جائےگی کہ دیکھو بھائی یہ رفیق میاں تو محبت کرنے لگے ہیں!

    اب جب کبھی اندر سے پانوں کی گلوریاں باہر بھجوائی جاتیں تو رفیق میاں کو ان پانوں سے صفا گلابوں کی خوشبو آتی اور وہ حوری سے پوچھتے۔ ’’ہاں حوری یہ پان کس نے بنائے ہیں؟‘‘

    ’’شکو باجی نے۔‘‘

    ’’کس نے؟‘‘ وہ جان کر دوبارہ پوچھتے۔

    حوری چڑ جاتی۔ ’’شکو باجی نے۔ شکو باجی نے۔ شکو باجی نے۔ اب سن لیا یا نہیں؟‘‘

    ’’ارے یہ تمہاری شکو باجی بڑھیا کی طرح دن رات پان ہی چباتی رہتی ہیں کیا؟‘‘ وہ شرارت سے پوچھتے۔

    ’’ہش۔‘‘ وہ ناک سکوڑ کر کہتی۔ انھیں پان کھانے کی کیا غرض پڑی ہے، ان کے ہونٹ تو خود ایسے سرخ ہیں کہ بس۔‘‘

    ’’ہم کو کیا پتہ۔ لیکن یہ آپ کو شکو باجی سے کیا لینا ہے جی۔ وہ بھلے سے پان کھائی چھالیہ کھائیں آپ سے مطلب؟‘‘

    رفیق میاں جھٹ سے بات کا رخ پھیر دیتے، جو حوری سی طرار لڑکی بات چھوڑ دے تو سارے میں اودھم مچ جائےگی اور یہ گلوریاں تو دن بھر میں کم سے کم چار پانچ بار چلی آتی تھیں کمبخت۔ ورنہ اماں جی کے ہاتھوں تو نہ کبھی پان ہی ملا نہ پان کی طلب کبھی محسوس ہوئی۔ اب تو جب دیکھو تب رفیق میاں کی چونچ لال ہے اور وقت بے وقت حوری سے فرمائش کئے جا رہے ہیں۔

    ’’اری حوری ذرا پان تو بنوا لائیو۔‘‘

    ’’ابھی ابھی تو پان کھایا تھا ماموں جان آپ نے۔ ہوا کیا ہے آپ کو؟‘‘

    وہ چونک جاتے۔

    ’’واقعی مجھے کیا ہوا ہے؟ کیا ہو رہا ہے؟

    کوئی ہفتہ بھر بعد کی بات ہے رفیق میاں مردانے میں بیٹھے کچھ کاغذات الٹ پلٹ کر رہے تھے کہ پردہ اٹھا کر اماں اندر آ گئیں۔

    ’’کیا بات ہے اماں؟‘‘ انھوں نے اپنا ہاتھ روک کر ماں سے پوچھا۔

    اماں گھٹنوں پر ہاتھ رکھ کر دیوار کے کنارے لگ کر بیٹھ گئیں۔ ’’تیری آپا بی کی نند اور ساس آئی ہوئی ہیں۔‘‘ انھوں نے اپنے طور پر گویا بہت بڑی اور نئی خبر سنائی۔‘‘

    ’’انھیں تو آئے بھی غالباً چار چھ دن ہو گئے ہیں نا۔‘‘

    وہ لاپروائی سے بولے۔ اماں چپ رہ گئیں۔ بیٹے نے ماں کو چورنگا ہوں سے دیکھا اور گلا صاف کر کے بولے۔ ’’آپ کچھ خاموش خاموش نظر آ رہی ہیں اماں۔ کیا بات؟‘‘

    ’’نہیں تو۔‘‘ اماں نے خواہ مخواہ کی ہنسی چہرے پر لانی چاہی۔ تجھے وہم ہو رہا ہے۔

    ’’آپ کو قسم ہے اماں جو آپ نے مجھ سے کوئی بات چھپائی۔ ورنہ میں سمجھ لوں گا کہ آپ کو مجھ سے محبت نہیں ہے۔‘‘

    ’’اے واہ میاں۔ کیسی بات کرتا ہے۔ بھلا تجھ سے محبت نہ ہوگی تو پھر کس سے ہوگی۔ اللہ کے بعد تو ہی تو میرا پہلا اور آخری سہارا ہے۔‘‘ اماں کا جی کلپ اٹھا۔ آنکھیں بھیگ گئیں‘‘ اور یوں بھر پور جوانی میں تجھ پر بڑھاپا آیا تو کس کے کارن‘‘؟ انھوں نے رفیق میاں کے سر پر ہاتھ رکھ دیا۔ جس میں اکا دکا سفید بال جھلک رہا تھا۔

    ’’اونہہ۔‘‘ رفیق میاں نے پیار سے اماں کا ہاتھ جھٹک دیا۔‘‘ میں نے ایسا کیا کر دیا ہے آپ کے لئے جو آپ بار بار یاد دلاتی رہتی ہیں۔ میرا تو جی چاہتا ہے اماں کہ اللہ مجھے ہزار جنم دے اور میں ہر جنم آپ پر اور بھائی بہنوں پر یوں ہی وارتا جاؤں۔‘‘

    بس بس۔۔۔ اماں نے منہ میں پلو ٹھونس لیا۔ اب ایسا نہ کہہ میرے بچے۔ تیرے پاؤں پڑتی ہوں۔ میراجی کیسے کیسے کٹتا ہے کہ تو نے ہماری خاطر، میری خاطر، ان بچوں اور اس گھر کی خاطر کیسا سنجوگ لے لیا۔ آج کو تیرا بھی گھر ہوتا، تیری بھی دلہن ہوتی، تیرے بھی بال بچے، تیرے بھی جی کو ٹھنڈک پہنچتی مگر۔۔۔‘‘

    ’’اف، اماں بی تو ہوا ہی کیا۔ آپ کیوں یوں دل کو جلا رہی ہیں۔ کیا مجھے کسی نے منع کیا تھا؟ کیا کسی نے میرا ہاتھ روکا تھا؟

    ’’وہی تو میں بھی کہتی ہوں۔‘‘ وہ آنسو پونچھتی پونچھتی بولیں۔‘‘ اگر آج کو تیرے سر اتنی ذمہ داریاں نہ ہوتیں تو کیا تو یوں ہی اکیلا پڑا رہتا؟ اب تو میراجی رہ رہ کر یہ کہتا ہے کہ۔۔۔‘‘ آنسو ان کا گلا دبوچے لے رہے تھے۔

    رفیق میاں نے ہنس کر بات کاٹی۔ ’’افوہ اماں ان سب باتوں کا بھلا یہ کون سا موقع ہے؟ اچھا بتائیے۔‘‘ وہ خوش دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بولے۔ ’’آپ میرے پاس کس کام سے آئی تھیں۔‘‘

    اماں نے دوپٹے سے اپنی آنکھیں صاف کرکے کہا۔ ’’بیٹا مہمان گھر آئے ہوئے ہیں، گھی ختم ہو چکا ہے۔ پراٹھوں اور انڈوں کے لئے تو گھی ہونا ہی چاہئے۔۔۔ ذرا سا تھا تو اتنے دن چل گیا۔ اب تو ڈول خالی پڑا ہے۔‘‘

    ’’کوئی بات نہیں میں منگوا دوں گا۔ اتنی سی باتوں کے لئے آپ یوں پریشان کیوں ہوتی ہیں اماں؟‘‘

    ’’اتنی سی بات؟‘‘ اماں الجھ کر بولیں۔ ’’کیا تیرے قدموں تلے گنگا بہہ رہی ہے جو اتنی سی بات ہے یہ۔ اور ماشاء اللہ سے کھانے کے لئے تو پورا گھر بھرا پڑا ہے۔ بھائی، بھاوج، تین بچے۔۔۔‘‘

    ’’اماں۔ اماں۔‘‘ وہ ماں کے لہجے کو دھیما کروانے کے لئے خود بھی دبے دبے بولنے لگے۔

    ’’آپ ذرا چپ رہا کیجئے۔ انو کو بار بار الاہنے نہ دیا کیجئے۔ بدک گیا تو گھر چھوڑ کر چلا جائیگا‘‘

    ’’جاتا ہے تو سو بار جائے۔ ہمارا کیا لے جائےگا؟‘‘

    ’’ہمارا چین، سکون لے جائے گا۔‘‘ رفیق میاں کھوئے کھوئے لہجے میں درد سے بولے۔۔۔ ’’آپ بھول گئیں وہ ابا میاں کا کتنا دلار ا تھا اور ابا میاں نے مرتے مرتے آپ سے کہا بھی تو تھا کہ بیگم، انو اور کوئی نہیں، میرا ہی دوسرا روپ ہے۔ اور ابا میاں نے مجھ سے بھی تو کہا تھا نا اماں، کہ رفیق بیٹے میرے بعد اور کون ہوگا جو اس گھر کو دیکھے۔ تم سے مجھے بہت ساری امیدیں ہیں۔ میرے پیچھے تم سا بیٹا ہو تو قبر میں بھی چین ہی چین ہے۔ آپ انو کو دکھ دیں گی تو ابا میاں کی روح کہاں چین پائےگی۔‘‘

    تمہاری شہ پاکر ہی وہ اتنا غیر ذمےدار اور لاپروا ہو گیا ہے، ورنہ کس نے دیکھا ہے کہ جوان جو روکا مرد اور اتنے سارے بچوں کا باپ، یو گھر زندگی اور پیسے خرچے سے بیگانہ رہے کہ پھوٹی کوڑی دینے کا روادار نہیں رہے۔ الٹے دھونس جماتا پھرے۔‘‘

    ’’سنبھل جائےگا اماں۔ آخر عمر ہی کیا ہے۔‘‘

    ’’یہ لو اور سنو۔ ڈھیر سے بچوں کا باپ ہے اور کیا عمر ہونی چاہیئے۔‘‘

    ’’ایسا چھوٹا دل بھی نہیں کرنا چاہئیے اماں۔ اوپر والا دیتا ہے، ہم کسی کو کھلانے کا دعویٰ کر سکتے ہیں بھلا! سب اللہ کی دین ہے۔‘‘

    ’’وہ تو ٹھیک ہے بیٹا کہ اللہ کی دین ہے، لیکن اللہ بھی کب تک دےگا۔ دےگا۔ دےگا، پھر ہاتھ سمیٹ لےگا۔‘‘

    ’’ارے واہ اماں یہ کیسے ممکن ہے بھلا۔ بھولے بھٹکے دو چار مقدمے تو مہینے بھر میں مل ہی جاتے ہیں۔‘‘

    ’’اور کھانے والے جو گاڑی بھر ہیں؟‘‘ اماں تلخی سے بولیں۔ رفیق میاں نے جان کر بات کا رخ موڑ دیا۔

    ’’اچھا تو اماں میں صبح ہی باقر کو بھجوا کر گھی منگوادوں گا۔ کسی اور چیز کی ضرورت ہو تو مجھ سے کہلوا دیجئےگا۔‘‘

    ماں کی آنسو بھری آنکھیں وہ بھول نہ سکے رہ رہ کر انھیں ان جھریوں بھرے چہرے کا خیال آتا رہا۔ جس پر آنسو آڑی ٹیڑھی ترچھی لکیریں بناتے ہوئے بہے جا رہے تھے اور کیا اماں بی کا رونا غلط تھا۔ دکھوں سکھوں سے پالی گئی اولاد کا کون سکھ نہیں چاہتا۔ کس ماں کا دل گردہ ہے کہ جاں جوان اولاد کو کنوار پن کی تنہائیاں بھوگتے دیکھے۔ نصیبوں کے ستم تو دیکھو کہ پھول کو بھی ہاتھ لگایا تو وہ کانٹا ہو گیا۔ ماں باپ کے گھر کوئی ہن تو برستا نہ تھا۔ جیسا میکہ ویسی ہی سسرال ملی۔ مگر اللہ نے آل اولاد سے خوش رکھا۔ ایک بیٹی اور دو بیٹے ہوئے اب اور کیا چاہئیے تھا۔ روکھی سوکھی سے، ہنسی خوشی سے بسر ہوتی تھی۔ بیتی عمر کے سترہویں، اٹھارہویں میں آئی تو ماں باپ نے اچھی جگہ دیکھ کر سرکا بوجھ اٹھا دیا۔ مگر قسمت کی ہٹی تھی کہ بھر ی جوانی میں رنڈاپے نے آ گھیرا۔ اوپر تلے چار بیٹے ہوئے۔ حوری باپ کی موت کے کوئی چھ سات ماہ بعد پیدا ہوئی۔

    عورت کا سارا دم خم مرد کے دم سے ہوتا ہے۔ مرد ہی چھوڑ جائے تو کون اس کو پوچھے۔ کون اس کی عزت کرے۔ باپ اور بھائی نہیں چاہتے تھے کہ غریبی سے سہی، مگر نازوں لاڈوں کی پالی کو سسرال میں یونہی چھوڑ دیں۔ سسرال والے بھلے سے لاکھ نانا کرتے رہے مگر انھوں نے بیٹی کو گھر بلا ہی لیا۔ یہ پھر بھی اپنا ہی گھر تھا۔ برے بھلے کی کیا بات تھی۔ جو یہ کھاتے وہی کچھ وہ بھی کھاتی۔ جو یہ پہنتے وہی کچھ وہ بھی پہنتی۔ یہ تو نہ تھا کہ عمر بھر سسرالیوں کی جھیڑ جھیڑ پیڑ پیڑ سنا کرتی۔ چار دن تو ہر کوئی اوپر اوپر کرتا ہے اور پھر بات بات میں گوسے نکال کر موت میں ڈالنا شروع کر دیتے ہیں۔ ایسے سے میکہ کیا برا ہوتا ہے۔

    جانے کون سا الو گھر پکار گیا تھا کہ ایک سے ایک مصیبت ٹوٹتی گئی۔ دن نہ گزرے تھے کہ باپ بھی چلتے ہوئے۔ دو دو بیوائیں اور ان کے چھوٹے چھوٹے بچے۔ جو کچھ بڑا پن تھا وہ رفیق میاں ہی میں تھا۔ پڑھائی جاری تھی مگر اب ساری ذمہ داری انھیں کے سر آ پڑی۔ ماں نے پھر بھی اپنے اتنے حواس نہ کھوئے کہ بیٹے کی پڑھائی ہی ختم کروادیتیں۔ پاس کا زیور، برتن بھانڈے کام آتے رہے۔ رفیق میاں کو وکالت کی ڈگری مل گئی۔ یہ تو ہوا کہ منہ بھگونے کو کوئی آسرا تو ہوا، ورنہ چھوٹے انو میاں تو بچپن ہی سے ماں باپ کے لاڈلے تھے۔ اب ان سے کیا آس تھی۔ ان کی اور رفیق میاں کی عمروں میں فرق بھی تھا۔ باپ بیٹے جیسا نہ سہی، مگر گنے جاتے یہ باپ ہی سے۔ وہ بھلا دیتے کیا اور یہ لیتے کیا؟ بلکہ خود ہی چار آٹھ آنے کے لئے بھائی اور ماں کے آگے ہاتھ پھیلایا کرتے۔ ایسے میں وہ کسی کے پھیلے ہوئے ہاتھ میں کیا رکھ سکتے تھے۔ دسویں کے بعد تو ان کی پڑھائی کا سلسلہ بھی ٹوٹ گیا۔ بھائی نے لاکھ چاہا کہ پڑھ لکھ کر ڈاکٹر بن جائے مگر شائد ان کے مقدر ہی میں کسی کے زخموں پر مرہم رکھنا نہ لکھا تھا تو وہ کرتے بھی تو کیا کرتے؟

    یونہی برس گزر گئے۔ زندگی اس قدر سپاٹ تھی کہ کوئی اونچ نہ نیچ۔ اس قدر ویران تھی کہ رنگ نہ بو۔ آخر ماؤں کے جی میں بھی ارمان ہوتے ہیں۔ اماں بی ایسی کون سی انوکھی تھیں اور بڑے بیٹے کی موجودگی میں آخر کو بول ہی اٹھیں۔

    ’’اللہ نے جیسی بھی گزار دی۔ اس کا شکوہ کس سے کیا کریں۔ ہم سے بھی گئے گزرے لوگ اس دنیا میں موجود ہیں۔ مگر میاں اب تو یہی جی چاہتا ہے کہ میرے بھی آنگن میں بہو پازیب چھنکاتی پھرتی۔ اس سے پہلے بھی اماں نے ہزار بار کہا ہوگا۔ مگر بیٹے ٹال ٹال گئے جس پر اتنی ذمہ داریاں ہوں، وہ کیا گھر بسائےگا۔

    ’’میری سمجھ میں نہیں آتا کہ پھر آپ دیر کیوں کر رہی ہیں، سوچ کیا رہی ہیں۔ آخر کر کیوں نہیں ڈالتیں ایک ہنگامہ۔ لے آئیے دلہن بھی۔‘‘

    اماں کی آنکھیں چمک اٹھیں۔‘‘ کلموہنے۔ اتنے دنوں سے پھر منہ کیوں سیئے بیٹھا تھا۔ آج کو چار چار پوتے گھر بھر میں ادھم مچاتے لوٹتے پھرتے۔‘‘

    ’’پوتوں کا کیا ہے۔ آج بہو لے آئیے، چند ہی سالوں میں پوتے پوتیوں سے آنگن بھر جائیگا۔‘‘ وہ ہنسے۔ ’’مگر آپ نے کوئی ڈھنگ کی لڑکی بھی دیکھی ہے۔‘‘

    ’’تو تو کان ہی نہیں دیتا پھر لڑکی دیکھ کر میں کرتی بھی کیا۔ اب تو نے حامی بھر لی ہے، تو سمجھ میں نے لڑکی بھی دیک لی۔‘‘ وہ خوشی خوشی بولیں۔

    رفیق میاں کچھ سمجھ کر چکرائے۔ ’’مگر امان میں تو انور میاں کی شادی کے بارے میں کہہ رہا ہوں۔‘‘

    ’’کیا کہا۔‘‘ اماں ان کی آنکھوں میں جھانکتی ہوئی بولیں۔ ’’انو کی شادی ہوگی اور تو یوں ہی سانڈ بنا گھومتا رہےگا۔‘‘

    ’’اماں۔‘‘ وہ ایک ٹھنڈی سانس بھر کر سنجیدگی سے بولے۔‘‘ میرے حالات ایسے نہیں ہیں اماں کہ میں شادی کرنے کے بارے میں سوچ بھی سکوں۔‘‘

    ’’اوئی میں بھی تو سنوں کہ وہ کون سے حالات ہیں جو تیری شادی میں پتھر روڑے اٹکا رہے ہیں؟‘‘

    ’’اماں میری حالت اس ستون کی سی ہے جو ساری چھت کو سنبھالے رہتا ہے۔ ستون ذرا بھی اپنی جگہ سے ہلا کہ ساری عمارت نیچے۔ میں ایسی نا سمجھی کی حرکت کبھی نہیں کر سکتا۔‘‘

    ’’عقل والے ستون کوہلنے بھی نہیں دیتے۔ قدم جمائے کھڑے رہتے ہیں۔ تجھے خود بھروسہ نہیں۔‘‘

    ’’ہاں اماں۔ مجھے کھلے لفظوں میں اقرار کرنے دیجئے کہ خود مجھے ہی اپنی ذات پر بھروسہ نہیں۔ مجھے اتنے سارے مرحلے طے کرنے ہیں اگر کوئی ایسی ویسی جورو مل گئی جس نے گھر والوں میں پھوٹ ڈالوا دی تو میں آپ کو کیا منہ دکھاؤں گا۔ یہ سارے لوگ کدھر بھٹکیں گے۔‘‘

    ’’اے چل میاں۔ عورت پاؤں کی جوتی ہوتی ہے، اس سے اتنا بھی کیا دینا۔‘‘

    ’’نہیں اماں۔ آپ عورت ہو کر عورت ذات کی بے حرمتی نہ کیجئے۔ عورت تو سرکا تاج ہوتی ہے، وہ ہر روپ میں قابل عقیدت ہوتی ہے۔ میں خود کو بہت کمزور پاتا ہوں، مجھ میں اتنی، ہمت نہیں کہ سرکے تاج کو ٹھوکر لگا سکوں۔‘‘

    ’’تو کیا تو اب شادی کرےگا ہی نہیں؟‘‘

    وہ ہنسنے لگے۔ تو اماں کہنے لگیں۔ ’’تیری باتوں سے تو یہی لگتا ہے مجھے۔‘‘

    ’’جی نہیں اماں، اس کا یہ مطلب تو نہیں نکلتا۔ میں شادی کروں گا ضرور۔ مگر ابھی نہیں۔ کچھ دن ٹھہر کر، جب حالات ذرا سدھر جائیں گے۔ دیکھئے نا اماں آپا جی کے بچے ہیں۔ ان کے آگے پیچھے کوئی نہیں۔ اتنے ساروں کی لکھائی پڑھائی، پرورش، تعلیم، تربیت پہننا اوڑھنا، پھر انو ہے۔ اس کی شادی بیاہ۔ اس کے بچے ہوں گے، پھر گھرداری۔ کتنی ساری الجھنیں اور بکھیڑے ہیں اور۔۔۔‘‘

    اماں بات کاٹ کر بولیں۔ ’’ارے پگلے تجھے یہ بھی نہیں معلوم کہ اپنی الجھنو اور بکھیڑوں کو بانٹنے والا بھی کوئی ہونا چاہئیے۔ مرد تھکا ہارا ہو، پریشان ہو، غم نصیب ہو، تو کوئی تو ہاتھ ایسا ہو جو ممتا کی سی محبت سے اس دکھی دل کو سنبھال لے۔‘‘

    ’’آپ جو ہیں۔‘‘

    ’’ماں ماں ہے بیٹا۔ بیوی بیوی ہوتی ہے۔‘‘

    ’’میں اس بات کو نہیں مانتا اماں۔ عورت بہر حال عورت ہے۔ جو ہر حال میں، ہر روپ میں محبت ہی تو دیتی ہے۔‘‘

    آدم اور حوا کا حوالہ دیتے ہوئے اماں صاف صاف بے تکے پن پر اتر آئیں۔

    ’’وہ۔۔۔ وہ اماں۔ ’’بیٹے گھبرا گئے۔‘‘ بات ایسی ہے کہ شائد آپ بھی ٹھیک ہی کہتی ہوں لیکن اماں اصل بات یہ ہے کہ اف۔۔۔ آپ میرا مطلب تو سمجھتی نہیں ہیں میں نے کبھی آپ کا حکم ماننے سے انکار کیا ہے؟ یہ تو مجبوری کی بات ہے اماں اور آپ خود جانتی ہیں اور بوجھتی ہیں کہ میں شادی کر لوں چار دن میں بال بچہ ہوگا۔ اپنی بیوی اپنے بچوں اور اپنے گھر گرہستی میں گھر کر بس یہی سوچا کروں گانا کہ میں اپنوں کا منہ مار کر دوسروں کا منہ کیوں بھروں۔ کیوں ان کی حق تلفی کروں آخر اپنی زندگی بھی میرے سامنے ہے۔ دوسرے خود کمائیں خود کھائیں، میں کیوں ان کا ساتھ دوں۔ کیا میں اکیلا کمانے کے لئے رہ گیا ہوں؟ انو تو خیر مرد ہے کچھ نہ کچھ کر ہی لےگا۔ لیکن آپا جی کدھر ٹھوکریں کھاتی پھریں گی۔ پانچ بچوں کا ساتھ، چار دن میں لڑکی جوان ہو جائےگی۔ پھر کیا ہوگا یہ ظاہر ہے کہ ہانڈی ڈوئی آپس میں کھڑ کھڑائیں گی ضرور ہی دو بہوئیں ہوں گی۔ دو بیٹے۔ دن گزریں گے تو دانتا کلکل شروع ہو جائےگی۔ ہمارا کیا ہے مگر کچلن میں کون آئےگا؟ آپا جی اور اماں بی۔! میرا تو کچھ نہیں جائےگا! اچھا بتائیے آپ نے میرے لئے کون سی لڑکی ڈھونڈی اور پسند کی ہے۔ میں کیوں یہ گناہ مول لوں کہ بڑھاپے میں ایسی محبت والی ماں کا دل دکھایا؟‘‘

    اماں نے غور سے بیٹے کی صورت دیکھی۔ کتنی سچی باتیں اس نے کہیں۔ وہی تو اس گھر کا کرتا دھرتا ہے۔ وہی منہ پھیرے تو کس پہ کیا گزرے، کون جانے۔ یہاں تو سارا ہی کچا آوا تھا۔ اور پھر یہ تو دنیا میں ہوتی آئی ہے کہ شادی کے بعد مرد کا دل اس کے اپنے بس میں نہیں رہ جاتا ایسی کٹھ پتلی بن جاتا ہے جس کی ڈور کسی اور کے ہاتھ میں ہوتی ہے کہ جیسا نچائے ویسا ہی ناچے۔ بیٹے نے ماں کو کچھ اس طرح قائل کیا کہ پھر آگے منہ ہلانے کی ہمت ہی نہیں پڑی۔ جی بہلانے کو آپا بی کے بچے تھے۔ بڑے بڑے بھی تے تو کیا ہوا؟ تھے تو بچے ہی۔ ہاں یہ ضرور تھا کہ گھر میں بیواؤں کا راج تھا۔ پائل کی چھنک اور چوڑیوں کھنک مدت ہوئی اس گھر سے رخصت ہو چکی تھی۔ اب انو میاں کی دلہن آ جاتی تو یہ ویرانی بھی رخصت ہو جاتی۔ اپنے ہی قریبی عزیزوں میں بیٹی دیکھی اور انو میاں کی شادی رچ گئی۔ دالان کے ساتھ والا کمرہ میاں بیوی کو دیا گیا۔ اب دلہن جو چلتی تو پازیب چھن چھنا اٹھتی اور آنچل سنبھالتی تو چوڑیاں کھنکنے لگتیں اور کبھی جوانو میاں کو رات بےرات شرارت سوجھتی تو پھر پائل اور چوڑیاں دونوں مل کر چیخ پکار مچانا شروع کر دیتیں۔ گھر کی فضا اب ایسی تھی جیسے برسوں پڑیت پڑی رہنے والی بنجر زمین میں کسی نے ہل چلا کر ہری بھری فصل اگا دی ہو۔ پہلے تو یوں ہوتا تھا کہ سب اپنے اپنے کاموں میں مگن اور اپنے اپنے بکھیڑوں میں الجھے رہتے، لیکن اب ان اداس چہروں پر ہنسی کی چھوٹیں بھی دکھائی دے جاتی تھیں، جو مدت ہوئی مسکرانا تک بھول چکے تھے۔ رفیق میاں، جب کبھی کوئی موٹی رقم ہاتھ لگتی، چھوٹی دلہن کے لئے کوئی نہ کوئی تحفہ لے ہی آتے۔ کبھی ساڑی۔ کبھی جھمکے کبھی چوڑیاں تو کبھی کنگن۔

    دلہن تو بچوں کے لئے عجوبہ ہوتی ہے۔ گھیرے میں لے کر بیٹھ جاتے اور چہلیں ہوتیں۔ اب کہیں اتنے دنوں بعد اس گھر میں قہقہے جاگے۔ شادی کے ٹھیک دسویں مہینے چھوٹی دلہن کے درد اٹھا۔ رات مصیبتوں سے کٹی۔ ایک طرف انو میاں اور دوسری طرف خود رفیق میاں دروازے کے باہر بیٹھے گھڑیاں گنتے تھے۔ اماں بدحواس۔ نند پریشان پہلا پہل معاملہ اور چودہ گھنٹے گزرنے پر بھی مشکل آسان نہ ہوئی۔ رفیق میان کا دل رہ رہ کر ڈوبتا ابھرتا۔ مصیبتوں نے ہمیشہ سے اس گھر کو تاکا تھا۔ خدا نہ کرے زہرہ دلہن کو کچھ ہو گیا تو۔ وہ جان جوان دلہن اپنی جان سے جائےگی۔ یہاں کیا ہے آٹھ چار دن میں انو میاں کا گھر دوبارہ آباد ہو جائےگا۔ پھر ڈوبتے دل سے انو میاں کو دیکھتے۔ آنکھوں میں نمی گھلی پاتے تو خیال بدلنا پڑتا کہ گھر آباد ہوگا تب آباد ہوگا۔ یہاں تو ایسے وہتاک کے مارے بیٹھے تھے کہ بری بھلی خبر جو آجاتی وہیں بیٹھے بیٹھے دم چھوڑ دیتے۔

    ’’ہمارے قہقہے نہ چھین لینا خدا وندا۔ ’’انھوں نے کلپ کر دعا مانگی۔

    چیاں چیاں کی آواز آئی اور ادھر ان کا دل ان کے حلق میں آ بیٹھا۔ انو میاں چیاں چیاں سنتے ہی لپک پڑے، ادھر ماں بہن ہاں ہاں کرتی ہی رہیں۔

    ’’اے میاں کیا کرتے ہو۔‘‘ مگر وہ اندر پہنچ بھی گئے اور ہاہا ہو ہو کر کے گوشت کے گولے کو ہنسانے کا جتن بھی کرنے لگے۔

    انومیاں باپ بن گئے۔

    رفیق میاں کا دل آج تک اس انداز سے نہ دھڑکا تھا۔ ماں نے ٹھیک کان کے پاس بھتیجا ہونے کی خوش خبری سنائی تو بھرے دل سے ہنس کر بولے۔ ’’چلو بھائی آج ہم تایا بن گئے۔‘‘

    اس دن جب آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر انھوں نے آئینے کو خوش خبری سنائی کہ لو بھئی تم تایا ہو گئے تو آئینے نے ہنس کر کہا۔ ’’اور آج ہم بھی تم کو ایک خوشخبری سناتے ہیں کہ وہ دیکھو تمہارے کان کے پاس ایک سفید تار سا جھم جھما رہا ہے۔

    کہیں یہ بڑھاپا تو نہیں؟

    لوگ کہتے ہیں کہ گرمیوں کی شاموں کو جو سرسراتی ہوائیں چلتی ہیں ان میں ایک جھونکا ایسا بھی آتا ہے جو تنہائی کا احساس دلا کر کانوں کے پاس شائیں شائیں کئے جاتا ہے۔ ’’اٹھو۔ کسی کا ہاتھ تھامو۔ اٹھو کسی کا ہاتھ تھامو۔ اٹھو۔۔۔‘‘ یقیناً ایسے ہی کسی جھونکے نے آدم کو تنہائی کا احساس دلایا ہوگا۔ اور شدت سے دلایا ہوگا تبھی تو حوا نے ان کی پسلی میں اپنی سیج سجائی۔ مگر لاکھ ہوائیں چلیں، ہوائیں گرم گرم ہوائیں ٹھنڈی ٹھنڈی زندگی بخش پھواروں سے بدلیں۔ پھواریں پھر سردیوں کا پیغام لائیں۔ موسم کی اس آنکھ مچولی نے جی کو کیسے کیسے کلپایا۔ کبھی سرد برف کے جھونکے کبھی پروا کبھی چھینٹے جو بدمست ہواؤں کے دوش بدوش آتے۔ اور یہ سر سر کرتے جھونکے کانوں میں سرگوشیاں کرتے۔ ’’اٹھو کسی کا ہاتھ تھامو۔ کسی کی مہکی ہوئی زلف کو اپنے چہرے پر بکھیر لو۔ کسی کا آنچل جو دھنک رنگ ہے اس میں اپنے وجود کو چھپا لو۔ چھپا لو، لیکن رفیق میاں کے کان ایسے پٹ تھے کہ ان کے پردوں سے کبھی یہ آواز نہ ٹکرائی۔

    جنے ایک دن بیٹھے بٹھائے انھیں خود ہی یہ خیال کیوں آیا۔ زہرہ دلہن نے تو کبھی کسی بات پر زبان نہ ہلائی۔ ممکن تھا کہ میں شادی کر لیتا تو میری دلہن موم کی مورت ہی ملتی۔ نہ کسی کے لینے میں نہ دینے میں۔ اونہہ اب غصے کی بات تو جانے ہی دو بھلا کون انسان ایسا ہے جسے ایک آدھ بات پر غصہ نہ آتا ہو۔ پھر میری دلہن ہی کیوں قصور وار ٹھہرائی جاتی؟

    یہ سوال انھوں نے اپنے دل سے کیا تھا۔ دل کچھ جواب نہ دے پایا۔ دیتا بھی کیا لیکن دوسرے ہی دن انھیں خود بخود جواب مل گیا۔

    ننھے اسلم کے چھلے پر گھر میں دھوم دھڑکا تھا۔ یوں تو اب گھر میں قہقہے سنائی دیتے ہی تھے مگر اس دن تو ہر طرف خوشی پھوٹی پڑ رہی تھی۔ ماں بن جانے کے بعد عورت کا دل بڑا نرم و نازک بڑا وہمی بن جاتا ہے۔ اور اسلم میاں تو یوں بھی ماں کو زیادہ ہی پیارے تھے کہ کڑے دردوں سے جنائے گئے تھے۔ گود بھرائی کی رسم کے لئے زہرہ دلہن جب اسلم کو گود میں لے کر بیٹھیں تو چاؤ کے مارے بیوہ پھوپھی بھی پھول پہنانے لگیں۔ چھوٹی دلہن کے منہ سے جیسے آپ ہی آپ سوچا سمجھا جملہ ٹپک پڑا۔

    ’’آپا بی پھول پہنانے کو ایک آپ ہی رہ گئی تھیں۔ حوری بھی تو ایک ہلکا پھلکا ہار پہنا سکتی تھی۔‘‘

    دلہن نے تو اپنے حسابوں بڑی سمجھ داری کی بات کی تھی لیکن آپا بی سے چھپا نہ رہ سکا کہ ان کا مطلب کیا تھا۔ بھلا کون بہن اپنی بھابی کے سہاگ کو یعنی اپنی ہی زندگی اپنے ہی بھائی اپنے ہی خون کو ٹوک سکتی ہے۔

    ارمان بھرا دل بھائی کی خوشی پر خوش ہی ہوا ہوگا، یہ تو نہ سوچا ہوگا کہ اپنا منحوس سایہ بھابی پر ڈال دیں۔ اور بھائی بھرپور جوانی میں مرکر اپنے پیچھے اولاد کو یتیم چھوڑ جائے، پھر زہرہ دلہن کے منہ سے یہ بات کیسے نکل پڑی اور پھر وہ اس انداز سے اسلم کو اپنے سینے میں سمیٹ بیٹھی تھیں کہ کانپتے ہوئے ہاتھوں سے ہار تو گراہی گرا، ادھر آپا بی بھی گر پڑیں۔ اماں بی کو جو کھٹک دن رات کھائے جاتی تھی کہ رفو میاں نے شادی نہیں کی، شادی نہیں کی۔ وہ کھٹک آج کھٹ سے کہیں اڑ گئی۔ آج انہیں یاد آیا کہ کیسی عقلمندی کی، بات بیٹے نے کہی تھی کہ ہانڈی ڈوئی ساتھ رہیں گی تو کھڑکینگی ہی۔ اگر آج یہ رفیق میاں کی دلہن نے کہا ہوتا تو کسی کو سہار ہوتی؟ کوئی نہ کوئی کچھ کہہ اٹھتا اور پھر وہ اپنے میاں کے کان بھر دیتی اور مرد کس کی سنےگا؟ ماں بہنو کی یا اپنی دل لگ بیوی کی؟ جو اس کا پلو گرماتی ہے اور بچوں سے اس کا گھر بھر دیتی ہے۔

    رات کو رفیق میاں نے بڑی بھلمنساہٹ سے اپنے دل کو سمجھایا۔

    ’’میں جانتا ہوں تم عمر کے اس دور میں ہو کہ کسی پر نگاہ نہ ڈالوگے لیکن پھر بھی آج تمہیں سنا دیتا ہوں کہ اپنے کان بند کرلو، اپنی آنکھیں میچ لو، ایسا نہ ہو کہ کوئی سریلی آواز اور مٹھاس بھری صور ت تمہاری عبادت میں خلل ڈال دے۔

    دل نے دھیرے سے جواب دیا۔

    عمر کا یہی حصہ تو خطرناک ہوتا ہے۔ اسی دور میں آکر تو عورت کے پیار کی، اس کے محبت بھرے دل کی، اس کے نرم گرم جسم کی خواہشیں بڑھتی ہیں۔ پیاسا تو پانی دیکھ کر لپکتا ہی ہے۔ کیا میں یونہی قصور وار ٹھہرایا جاؤں گا؟

    وہ ہنسے۔ ’’نادان، پیاس تو مدت ہوئی بجھ چکی ہے۔ اب کوئی خطرہ نہیں۔ یہ تو محض ایک دوستانہ مشورہ تھا۔‘‘

    دل بےتکے پن سے بولا۔ بعض ملائم ہونٹ اتنے گستاخ ہوتے ہیں کہ بے صدا آواز سے پکارے جاتے ہیں۔ ہمیں چوم لو۔ ہمیں چوم لو۔۔۔ اگر ان گستاخ ہونٹوں پر بھولے بسرے پیار آ ہی گیا تو؟

    ’’نہیں۔‘‘ انھوں نے دھیرے سے مضبوط لہجے میں کہا۔ ’’ایسا کبھی نہ ہوگا۔ میری روح کے سارے دروازے بند ہیں۔ یہاں تک کسی کی آواز نہیں پہنچ سکتی۔ چاہے وہ پیار کی درخواست کرنے والے ملائم ہونٹ ہوں یا چنگاریاں چھوڑتے ہوئے سرخ سرخ گال۔‘‘

    اس سے پہلے اماں نے ایک بار شادی کے لئے کہا تھا، بڑے پیار اور بڑی ضد سے انھوں نے بیٹے کو قائل کرنا چاہا تھا۔ خواہ مخواہ عورتوں کو بدنام کرتا ہے، بھلا چھوٹی دلہن نے آج تک کیا کیا۔ بھلے کو بڑی ہی آتی تو دلی سکون ملتا۔‘‘

    ’’کیوں اب سکون نہیں ہے کیا۔‘‘ انھوں نے کہا تھا۔

    ’’ہے کیون نہیں مگر؟‘‘

    ’’مگر کیا؟‘‘

    ارے کمبخت۔‘‘ اماں گلا پھاڑ کر چلائیں۔ خواہ مخواہ ٹر ٹر کئے جاتا ہے کبھی تو اس ممتا کے مارے بوڑھے دل کا خیال کر۔۔۔‘‘

    اس دن اماں نے ایسی گونچ گرج کے ساتھ ڈرا دیا تھا کہ ایک لمحے کو وہ جھک سے گئے تھے اور اماں بھی اپنی جگہ خوش ہو گئی تھیں، مگر اس دن کی بات اور تھی اور آج کی بات اور (ٹیکسٹ مسنگ) زہرہ دلہن کی اتنی سی بات نے سارے گھر میں سناٹا پھیلا دیا تھا۔ انو میاں بن بات اپنی جگہ روٹھ گئے تھے۔ جیسے واقعی آپا بی کا قصور ہو اور آپا بی کی آنکھوں میں ایک بار پھر آنسوؤں کی قندیلیں سلگ اٹھی تھیں۔ انھوں نے اماں سے جا کر بڑے دھیمے سبھاؤ میں کہا۔

    ’’میری آمدنی تو یونہی سی ہے اور کوئی ذریعہ آمدنی کا ہے بھی نہیں۔ اور اماں شادی کرنا تو سراسر آبادی بڑھانا ہے۔‘‘

    بھلا اتنے سارے لوگوں کے کھانے پینے پر کچھ نہ کچھ خرچ تو لگتا ہی ہے۔ بس آپ سب لوگ میرے آس پاس رہیں۔ اماں مجھے سچ مچ بڑا غرور محسوس ہوتا ہے اور بڑی خوشی ہوتی ہے کہ میں اتنے سارے لوگوں کا بڑا ہوں۔ ان سب کی دیکھ ریکھ کرتا ہوں۔ میرے دم سے ان کی خوشیاں ہیں اور میرے ہی دم سے۔۔۔‘‘

    اور ان کی بات کاٹ کر ان کا دل ان سے پوچھ بیٹھا۔

    ’’اور اپنی تو سناؤ۔ سچ کہنا کیا تم نے کبھی ایک چاند سی دلہن اور پھول سے بچے کی آرزو نہیں کی؟ یہ تمہارے وجود پر برف کی، سلیں رکھی ہیں، جو راتوں کو پگھل پگھل کر تکئیے کو گیلا کردیتی ہیں اور اماں (وہ دل کا الا ہنا شربت کا گھونٹ جان کر پی گئے ) سب سے زیادہ خوشی تو مجھے اس بات کی ہے اماں کہ میں آپ کا بھی بڑی ہوں۔!‘‘

    اماں نے بیٹے کو سینے سے لگا دیا۔ وہ سل، جو راتوں کو چھپے چوری پگھل پگھل کر تکیہ بھگویا کرتی تھی، دن دہاڑے پگھل اٹھی

    ٹپ۔ ٹپ۔ ٹپ

    شروع سے رفیق میاں نے انو کو ایسی شہ دی، بات بےبات یوں پشت پنا ہی کی تھی کہ ان کو ذمہ داری کا احساس ہوا ہی نہیں۔ انسان کے آگے پیچھے کوئی الجھٹا ایسا لگا رہے کہ بار بار اسی کا دھیان بندھا رہے تو وہ ذرا ذمہ دار بن جاتا ہے۔ یہاں تو شروع سے لے کر آخر تک ہر کام کو رفیق میاں نے سنبھال لیا۔ پھر بھلا ان میں کیا احساس پیدا ہوتا اور تو اور پڑھائی بھی پوری نہ کرسکے۔ بھائی کی کمائی کو کبھی یہ سوچ سمجھ کر خرچ نہ کیا کہ یہ بھائی کے محنت کے پسینے کی کھینچ ہے اور انو میاں کا تھا ہی کیا، سبھی رفیق میاں کے بل بوتے پر زندہ تھے اگر رفیق میاں کی بھی کوئی بیوی ہوتی تو وہ اپنا حق جتا کر کچھ نہ کچھ تو سنبھال کر بچا کر رکھتی مگر انھوں نے خود ہی یہ روگ نہ پالا۔ اب تک جتنا بھی آیا سبھی کھائی میں گیا ان کا جو کچھ تھا سب گھر والوں کا تھا۔ بھولے سے بھی کبھی خیال نہ آتا کہ کبھی اپنی بھی شادی ہوگی۔ دلہن گھر آئے گی۔ اپنے بچے ہوں گے۔ اور ان کی بھی زندگی بنانی پڑےگی۔ جب آگے پیچھے کوئی فکر ہی نہیں تھی تو اور کون سا خیال ہوتا۔ جو جی سے چمٹا رہتا؟ بس آ جاکے یہی دکھ انہیں ستائے جاتا کہ میری جان پر بھلے سے جو گزرے سو گزرے لیکن سب چین اور امن خوشی سے رہیں۔ مگر اتنا سا سکھ ان کے نصیب میں نہ تھا۔ زہرہ دلہن کا منہ ایک بار کیا کھلا کہ سدا کے لئے ہی کھل کر رہ گیا۔ روز دانتا کلکل ہونے لگی۔ کبھی کبھار تو اماں بول جاتیں ورنہ اکثر خاموش ہی رہتیں۔ مگر چھوٹی دلہن کا منہ بند ہونے میں نہ آتا۔

    آپا بی کے بچے اسلم کے دیوانے۔ یوں بھی گھر میں ننھا بچہ ہو تو بڑوں چھوٹوں سبھی کے لئے کھلونا ہو جاتا ہے۔ بچے اسے ستائیں بھی، ماریں بھی اور کھلا پلا کر پیار دلار بھی کریں۔ اس کا یہ مطلب کہاں ہوا کہ بچے سے دشمنی ٹھہری ہے۔ کھلائے پلائے کی حد تک تو مومانی چپ تھیں۔ لیکن جہاں بچے کی چیں بھی سنی وہ آپے سے باہر۔

    ’’اوئی بچہ نہ ہوا خدا کا غضب ہو گیا۔ میں کہوں، یہ کون تک ہے کہ ننھے بچے کو رلا رلا کر خوش ہوتے ہیں۔ ہنستے ہیں۔ حوری ایسی طرار تھی کہ خاموش تو اس سے بیٹھا ہی نہ جاتا۔ تیزی سے بولتی۔ ’’ہاں ہاں جان کر رلا رہے ہیں۔ سن لیا۔ ارے کھاتا ہی بہت ہے تو چلائےگا نہیں؟‘‘

    چھوٹی دلہن انگارے اگلنے لگتیں۔ اے لیو اور سنو۔ کیا تمہارے باوا جان، جائداد چھوڑ کر مرے تھے کہ کھلائے پلائے کا الانہا دیتی ہو۔ لو بھئی چار دن کی چھوکری ہمارے منہ آتی ہے۔‘‘

    آپابی جو لپک کر دو چار دھول دھپے حوری کو جڑ دیں تو جڑ دیں ورنہ بات بڑھتی چلی جاتی اور جب تک خود رفیق میاں اپنے کاغذات کے انبار سے نکل کر نہ آتے تب تک صلح صفائی نہ ہوتی۔

    انھیں دنوں زہرہ دلہن کی چھوٹی بہن طاہرہ اپنی *بہن سے ملنے آئی ہوئی تھیں۔ اچھی خاصی صورت۔ ڈھنگ گن بھی اچھے۔ منہ کی ایسی میٹھی کہ بس باتیں ہی سنا کرو۔ رفیق میاں سے پردہ تھا لیکن آتے جاتے جھپک ضرور دکھائی پڑ جاتی۔ اماں تو چھوٹی بہو کے تماشے دیکھ دیکھ کر دنگ تھیں۔ مگر آپا بی چاہتیں تھیں کہ رفیق میاں گھر بسا لیں۔ جانتی تھیں کہ بھائی نے یہ ویرانی کسی اور کے لئے نہیں انہیں لوگوں کے لئے اٹھائی ہے۔ ورنہ آگے پیچھے بہن بھائی، بھانجے بھتیجے نہ لگے ہوئے تو وہ کیوں ایسے ڈھائیں ڈھائیں پھرتے، لاکھ چاہا کہ بھائی ہاں کردیں لیکن وہ کب ماننے والے تھے۔ بہن نے بہت ہی جان کھانی شروع کی تو بولے۔

    ’’جیسی ایک بہن ویسی دوسری۔ زہرہ دلہن نے بیٹھے بیٹھے کیسے ہاتھ پاؤں، نکالے ہیں۔ اگر طاہرہ بی بی بھی ویسی ہی نکلیں تو؟ پھر تو اس گھر کا اللہ ہی مالک ہے نا آپا بی نا۔ میرے سامنے میرے ننھے منے بھانجے بھانجیاں ہیں۔ ان کی زندگیاں ہیں۔ میرا اپنا بھائی ہے لاکھ جان جوان ہے مگر مجھے تو یہ بات نہیں بھولتی کہ ابامیاں میرے ہاتھ میں اس کا ہاتھ دے کر گئے تھے۔ پھر اس کی بیوی بچے ہیں۔ آپ ہیں۔ اماں بی ہیں۔ میں کیسے اتنے سارے لوگوں کو چھوڑ دوں؟ میں اور کتنی بار دہراؤں کہ مجھے بار بار مجبور نہ کیا جائے۔ میں اپنا ذہنی سکون نہیں برباد کرنا چاہتا۔ سب سے ٹھیک یہ ہے کہ اتنے سارے لوگوں کو چھوڑنے کی بجائے میں ایک دلہن کو چھوڑ دوں۔‘‘ آپا بی خوش ہو گئیں۔ ’’اگر طاہرہ بی بی بھی ایسی ہی نکلیں تو۔‘‘ مطلب یہ کہ وہ شادی کے لئے راضی تو ہیں مگر وہ صرف اس وجہ سے آنا کانی کر رہے ہیں کہ کہیں بڑی بہو بھی چھوٹی کی طرح لڑاکا اور بدتمیز نہ نکل آئے اور گھر کا سکون لٹ جائے۔ وہ خوشی *خوشی بولیں۔‘‘ اے میاں تو میں کوئی اچھی سی میٹھے سبھاؤ کی دلہن ڈھونڈھ لاؤں گی۔‘‘

    سامنے ٹوکری میں سیب دھرے تھے۔ ایک سرخ سا سیب اٹھا کر وہ بولے ’’یوں دیکھنے میں اوپر سے تو یہ اتنا خوبصورت نظر آرہا ہے لیکن کون جانے یہ میٹھا ہے یا کھٹا آپا بی کی زبان پر تالے پڑ گئے۔

    ایک دن چھوٹی دلہن نے بڑے چاؤ سے باور چی خانہ سنبھالا اور مرچوں کا کھٹا سالن پکایا۔ اور تو سب نے ہری مرچوں کا کھٹا اور تیز سالن مزے لے لے کر کھایا مگر۔ اماں بی ایک تو بوڑھی۔ دوسرے دس دن سے پشچو سے گھل رہی تھیں۔ سوں سوں کر کے جیسے تیسے مگر انھوں نے بھی کھا ہی لیا۔ بہو کو یہ بات نہ بھائی کہ سب تو تعریف کریں اور ساس سوں سوں کر کے سب کی توجہ اس بات کی طرف دلائیں کہ ’’دیکھو بھئی اس نے سالن مزے کا نہیں پکایا۔ بلکہ مرچیں کچھ زیادہ ہی جھونک دی ہیں۔‘‘

    وہ کھرے پن سے بولیں۔ ’’اوئی اماں جان آپ یہ سوں سوں کیوں کئے جا رہی ہیں؟‘‘

    اماں نے بیچارگی سے دیکھا اور بولیں۔ ’’بی بی میں کچھ بہانہ تو کر نہیں رہی ہوں، دیکھ لو پیچش کے مارے زبان چھالوں سے لد گئی ہے۔‘‘ انھوں نے زبان نکال کر بتائی۔ سرخ کھیری ہو رہی تھی۔

    انو میاں بیوی سے مخاطب ہو کر بولے۔ ’’تمہیں معلوم تھا اماں بیمار ہیں تو ایک پھیکا سالن الگ سے پکا دیتیں۔‘‘

    ’’اے واہ۔ میں کوئی باورچن ہوں۔ کیا میں نے ماما گیری کرنے کا ٹھیکہ اٹھا رکھا ہے کہ سارے گھر کا کام کاج کرتی پھروں۔ ایسا ہی ہے تو چولھے کیوں نہ الگ کرلیں وہ اپنی مرضی سے کھائیں، ہم اپنا من مانا پکائیں۔‘‘

    بہو کی زبان چرچر چلی جا رہی تھی۔ رفیق میاں نے ناگواری سے بھاوج کی طرف دیکھا۔ مگر کچھ بولے نہیں۔ اماں بی بھی خاموش رہ گئیں۔ مگر آپابی سے چپ نہ رہا جا سکا، تیورا کر بولیں۔ ’’دلہن۔ ایک دن چولہے کے پاس جا کر جھانکا تو اتنی باتیں کر رہی ہو آخر تمہیں اپنے بچوں سے فرصت ہی کب ملتی ہے کہ باورچی خانے کا رخ کرو۔ اوپر کا سارا کام تو باقر ہی نبیٹر لیتا ہے۔ رہا روٹی تھوپنا اور ہانڈی بھون دنیا تو آخر میں اور اماں پھر کرتی ہی کیا ہیں؟‘‘

    ’’گویا میں تو مالکن بن کر راج رج رہی ہوں نا۔‘‘ وہ تیکھی ہو کر بولیں۔

    ’’میں نے تو نہیں کہا بی بی۔ تم آپ کہہ لو تو میں کیا کہہ سکتی ہوں۔ لیکن تم ہی کہو کہ شادی کے اتنے دن گزر گئے تم نے کتنی بار باورچی خانے میں جھانک کر بھی دیکھا، ایک دن ایک سالن پکا کر یہ کہہ دینا ذرا تو زیبا نہیں کہ میں باورچن نہیں جو سارے گھر کا کام کاج کرتی پھروں۔ انسان ذرا تو ایمان کا پاس کرے۔‘‘

    سارے گھر میں وہ ہلور مچی کہ توبہ ہی بھلی۔

    دلہن نے رو رو کر سارا گھر سر پر اٹھا لیا۔ آخر رفیق میاں کو ٹھنڈے دل سے کہنا پڑا۔

    ’’آپا بی آپ غلطی پر ہیں۔ چھوٹی دلہن کا کہنا ٹھیک ہے۔ اگر ان کی مرضی ہو تو آپ چولہا ہانڈی الگ کر لیں۔‘‘

    اماں جو اب تک چپ تھی پھپھک کر بولیں۔ ’’اے واہ ان کی مرضی۔ یہ ان کی مرضی کیا ہوئی۔ کون سی بڑی ان کی کمائی دھمائی ہے۔ ذرا منہ تو ہو بولنے کے لئے۔ دوسروں کے مال پر یوں چودھرائی کرتے ذرا تو شرم آئے۔‘‘

    انو میاں نے ندامت سے سر جھکا لیا۔ ’’بھائی صاحب آپ زہرہ کی باتوں کا اثر نہ لیں۔ سب ایک ساتھ ہی بھلے۔ خواہ مخواہ ایک فتنہ کھڑا کر دیا۔‘‘ وہ غصے سے بیوی کو گھورتے ہوئے بولے۔‘‘ بہو کو ساس کی بات تیر جیسی لگی۔‘‘

    یہ دوسروں کے مال کی اچھی سنائی۔ آخر کو بڑے بھائی ہیں، کچھ تو حق لگےگا اور کیا ابا میاں یونہی خالی ہاتھ تو نہ مرے ہوں گے۔ پھر وہ جمع جتھا کدھر ہو گئی ہمیں تو پھوٹی دمڑی تک نہ ملی۔ ورنہ یہ بڑے بھائی آج وکیل اور چھوٹے بھائی ان پڑھ نہ رہ جاتے۔‘‘

    ایک تلوار تھی کہ سب کے دلوں کو کاٹتی ہوئی نکل چلی۔ کوئی کچھ نہ کہہ سکا۔ کسی کے منہ سے ایک حرف نہ نکلا۔ رفیق میاں اپنی جگہ سکتے میں رہ گئے۔ اسی کو دنیا کہتے ہیں۔ بھائی سے محبت کی اور ایسی کہ کبھی ٹیڑھی آنکھ سے نہ دیکھا۔ ہر ضد پوری کی، یہاں تک کہ پڑھنے سے جی چرایا تو ڈانٹ ڈپٹ تک نہ کی، کہ دل پر بوجھ نہ پالے۔ اسکول سے اس لئے اٹھایا کہ پڑھائی میں دل نہ لگتا تھا۔ ماسٹر مارپیٹ کرتے تھے تو روتا ہی رہتا تھا اور ان کا اپنا دل دکھتا تھا۔ خود روکھا سوکھا، کھا کر سب کی برابری کی۔ اپنے ارمانوں اور آرزؤں کو تھپک تھپک کر سلایا۔ اپنے جذبات کی خود ہی قدر نہ کی اور بھائی کی سیج سجا دی۔

    بھائی کی دلہن آئی تو ان کا اپنا بستر ان کے لئے کانٹوں کا بچھونا ہو گیا۔ مگر کسی سے بھی اپنے دل کا درد نہ کہا۔ بھائی باپ بنا تو جگر پر آ رے چل چل گئے۔ مگر دل کے درد کو تکیہ بھگو بھگو کر مٹاتے رہے۔ اور آج بھاوج نے کیا صاف صاف سنا دیا۔ پشیمان نگاہوں سے بھائی کو دیکھا۔ لاکھ برے تھے۔ انو میاں، مگر ان میں ایسی بری کوئی ادا نہ تھی کہ جس کی وجہ سے بڑے بھائی کا دل ان سے پھر جاتا۔ بس اتنی بات ضرور تھی کہ گھر بیٹھے روٹی توڑتے تھے۔ اور کمائی نہ دھن۔ سال پیچھے بچہ جنتے تھے۔ لیکن یوں کھری کھری تو کبھی انھوں نے بھی نہ سنائی۔

    انو میاں نے بڑی شرمندگی سے بڑے بھائی کو دیکھا اور غم سے بولے۔‘‘ بھائی صاحب زہرہ کی باتوں پر نہ جائیے۔ چولہے دو ہو جائیں گے دل بھی دو ہو جائیں گے۔‘‘

    ’’ہمیں کیا ایک دل لے کر چاٹنا ہے جی کہ آئے دن کی موئی لڑائیاں لپٹ گئی ہیں۔‘‘ زہرہ دلہن کا غبار ابھی تک نہ نکلا تھا۔

    ’’ہاں زہرہ تم ٹھیک کہتی ہو۔ ایک جگہ رہ کر بکھرے ہوئے دلوں سے کہیں اچھا ہے، کہ بکھرے ہوئے رہ کر دل ایک رہیں۔ ’’رفیق میاں نے ٹھنڈی سانس بھر کر بھیگے بھیگے لہجے میں کہا۔

    چولہے دو ہو گئے لیکن دل پھر بھی ایک نہ ہو سکے۔ دل کی رنجشیں باقی ہی رہیں چھوٹی موٹی باتوں پر آئے دن جھڑپ ہو جاتی۔ اماں تو طرح دے کر ٹال جاتیں لیکن آپا بی برداشت نہ کرپاتیں۔ انھیں رہ کر کر یہی دکھ ستاتا کہ آج بھائی کی حالت انہی کی وجہ سے یوں تباہ ہے۔ یوں بڑے نرم سبھاؤ کی تھیں اپنی سسرال میں کبھی کسی سے اونچی آواز میں بات تک نہ کی۔ اپنے سے چھوٹوں تک کی بھی عزت کی۔ بھلا بڑوں کا تو پوچھنا ہی کیا۔ مگر بھاوج نے رات دن کے طعنوں مینوں سے ان کا کلیجہ چھلنی کر دیا۔

    پہلے پہل تو رفیق میاں گھر کے اندر ہی دالان کے دائیں ہاتھ والے کمرے میں رہتے تھے مگر جب لڑائیوں کا زور شور بڑھا تو وہ مردانے میں اٹھ گئے۔

    بیاہے مرد کو یہ احساس نہیں ہو سکتا کہ ایک کنوارے مرد کی زندگی کیسی کانٹوں کا بچھونا ہوتی ہے۔ عورت کاساتھ کسی ٹھنڈے باغ سے کم نہیں ہوتا۔ فکر ہو۔ پریشانی ہو۔ غم ہو، الجھن ہو، ذراجی ہارا اور عورت کا سہارا لیا۔ اس کے پیار کے دو بول زندگی میں ٹھنڈک پھیلا دیتے ہیں۔ غم کے اندھیرے میں اس کی محبت اور دلاسوں سے چاندنی بکھرنے لگتی ہے۔ ہر غم تو ایسا نہیں ہوتا کہ ماں بہن سے رونا لے بیٹھے۔ ماں، بہن لاکھ کلیجے سے چمٹالیں وہ بات پیدا نہیں ہو سکتی۔ جو عورت محض ایک پیار بھری ترچھی نگاہ سے ہی دیکھ لے۔

    رفیق میاں کی زندگی میں تو اس نگاہ کا گزر ہی نہ تھا۔ رات ہو یادن۔ بیٹھک بھلی اور وہ بھلے۔ کاغذات سامنے دھرے ہیں۔ اور وہ سوچ بچار میں غرق ہیں کبھی بچے اچھل پھاند کرتے پہنچ گئے کبھی حوری شرارت کرنے جا پہنچی ورنہ وہاں وہی ایک رنگی تھی۔ ایک دن انھوں نے بڑے جتن سے اپنے دل کو سمجھایا تھا۔

    ’’اپنی آنکھیں میچ لو۔ اپنے کان بند کر لو کیا خیر کوئی چاند سی صورت تمہاری عبادت میں بادھا ڈال دے۔‘‘ اب ایسی بات سوچ کر انھیں ہنسی آتی تھی۔ بھلا میں بھی کتنا نادان تھا۔ دل کو سمجھانے چلا تھا۔ بھلا میری زندگی میں کہیں چاند چمکا کرتے ہیں؟ اور جو چمکیں بھی تو میں کہیں دیکھا کرتا ہوں۔‘‘

    اور وہ مزے میں ادھر ادھر ڈولتے پھرتے۔ اپنے کھچڑی بالوں کو دیکھتے اور بولتے۔

    ’’عبادت گاہ کے دروازے تو بند ہیں۔ اب یہاں کون آئے گا۔ کیسے آئیگا؟‘‘ گرمیوں کی رسمساتی شاموں کا االبیلا جھونکا کبھی تو ان کے کانوں میں نہ کہہ سکا کہ ’’اٹھو کسی کا ہاتھ تھامو۔‘‘

    مگر اب ان کا سارا مان ٹوٹ کر رہ گیا۔ سرخ مخملیں چپلیوں کو دیکھ ان کی ساری عبادت دھری کی دھری رہ گئی۔ وہ نرم نرم گرگا بیاں ان کے دل سے یوں چمٹ کر رہ گئی تھیں کہ نکالے نہی نکلتیں۔ نہ کسی کی چاند ایسی صورت پر پیار آیا نہ کبھی کسی کی سریلی آواز نے کانوں میں رس ہی گھولا۔ نہ کسی کی نگاہوں کا تیر دل کے آر، پار ہوا۔ نہ کسی کی البیلی چال نے ان کا سیدھا راستہ چلتے قدم ڈگمگائے اور تو اور کسی کے سرخ ہونٹوں نے یہ گستاخی نہیں کی کہ ’’ہمیں چوم لو۔ ہمیں چوم۔۔۔ ہمیں۔۔۔‘‘

    جنے کیسا سمے تھا کہ بےپروں کے دل اڑ نچھو ہو گیا۔ ان کا دل چاہتا کہ نرم نرم۔۔۔ گرگابیوں پر ہمیشہ کے لئے اپنا سر جھاگدیں۔ ’’میں تمہاری عبادت کرتا ہوں۔ میں تمہیں پوجنا چاہتا ہوں۔ میں تمہیں پیار کرنا چاہتا ہوں۔‘‘

    اور جب سے وہ شوکی اپنی پیٹھ موڑے دھیرے دھیرے قدم اٹھاتی اپنی گلابی گلابی ایڑیاں ان کے دل کے زخموں پر مرہم کی طرح رکھتی چلی گئی تھی۔ ان کو ہمیشہ اپنے آس پاس گلاب کی ادھ کھلی کچی کلیوں کا ڈھیر سا محسوس ہوتا رہتا۔ ہاتھ بڑھا بڑھا کر وہ ان کلیوں کو چھونا چاہتے تو جیتی جاگتی ایڑیاں بن جاتیں اور دھیرے دھیرے دور ہوتی چلی جاتیں یہ لپکتے تو قہقہے لگاکر کہتیں۔

    ’’ہمیں چھوؤ نہیں ہماری عبادت کرو۔ ہم تو پوجے جانے کے لئے ہی بنی ہیں۔ اور یہ کسی انجانی طاقت کے آگے سر جھکا دیتے۔ کیا یہ محبت ہے؟ وہ اپنے دل سے پوچھتے۔ دل بڑی سنجیدگی سے جواب دیتا۔

    ’’عبادت خانے کے دروازے تو بہر حال اب کھل ہی گئے ہیں۔ اور جیتا جاگتا بت اس میں داخل ہو گیا ہے۔ عبادت تو کرنی ہی پڑےگی۔ بھلے یہ کفر ہی سہی‘‘

    اب تک رفیق میاں کی شوکت سے مڈبھیڑ نہ ہوئی تھی۔ وہ تو اندر ہی گھسی رہتیں کھانا لگ جاتا تو اماں بی ادھر سے آواز دیتیں۔

    ’’رفو میاں کھانا کھا لے بیٹا۔‘‘ یا پھر حوری تھرکتی ہوئی آتی اور وہیں سے چلائے جاتی۔

    ’’سب بھائی لوگ کھانے پر آپ کا انتظار کر رہے ہیں، ماموں جان، اجی ماموں جان چلئے نا بھئی کھانے۔۔۔‘‘

    پہلے رفیق میاں یوں ہی اٹ چھٹ کر آ جایا کرتے اور اب گھر میں داخل ہونے پر یوں سنبھل جاتے تھے، جیسے عبادت گھر میں داخل ہو رہے ہوں۔ سر جھکا ہوا۔ آنکھیں نیچی۔ ہلکے ہلکے قدم۔ کبھی کبھار ہی ایسا ہوتا کہ شوکت نظر آ گئی ہو۔ مگر انھیں تو اڑتی خوشبو میں آپ ہی بتا دیتی تھیں کہ وہ گلاب کس جگہ مہک رہا ہے۔

    انو میاں کے گود کے بیٹے کا عقیقہ تھا۔ ایسے کام کاج کے دن دو جگہ کھانا نہ پکتا بلکہ سبھی ایک ہی دستر خوان پر کھانا کھاتے۔ ورنہ جب سے لڑائی ہوئی تھی اس گڑکی سے آج کے دن تک الگ الگ ہی کھانے پکتے اور کھائے جاتے۔ عزیزوں اور رشتہ داروں کے گھر تو کچے گوشت کا حصہ بھجوا دیا گیا۔ گھرمیں تین چار رنگ کے سالن قورمے پکے۔ میتھا بنا۔ پتلی پتلی چپاتیاں۔ کھانا کھانے سبھی بیٹھے۔ رفو میاں نے ایک نوالہ منہ میں رکھا اور بےساختگی سے بولے۔

    ’’قسم خدا کی، اماں کیا ہی مزے دار قورمہ بنایا ہے۔‘‘

    اماں شوکت کی طرف دیکھ کر پیار سے مسکرا دیں۔

    شوکت عورتوں والے حصے میں کھانا پکا رہی تھی۔ اپنا ذکر اور پھر تعریف کے سلسلے میں سن کر اس کے کان کھڑے ہو گئے۔ آنکھیں اٹھیں اور سیدھی ان بجلیوں سے جا ٹکرائیں جو اتفاقاً رفیق میاں کی آنکھیں تھیں۔ رفیق میاں بری طرح گڑ بڑا گئے۔

    کھانا حلق سے اترا بھی نہ تھا کہ جلدی سے سامنے سے کھارے کی رکابی ہٹا کر میٹھے کی طشتری کھینچ لی۔

    پھر شامت آئی۔ ماں سے اسی لہجے میں لا علمی میں کہنے لگے۔

    ’’اماں میں سمجھتا ہوں آپ نے اتنی مزے دار فرینی تو آج تک شائد ہی کبھی بنائی ہو۔‘‘

    اب کے ماں صاف صاف ہنس پڑیں۔

    ’’اے لڑکی تیری عقل ماری گئی ہے۔ دوپہر سے گھر میں ہلو رہے کہ آج کے کھانے شوکت نے پکائے ہیں۔ اور اماں کی تعریف ہو رہی ہے۔ واہ۔‘‘

    لوگ کہتے ہیں کیسی ہی، پتھر دل عورت ہو، مرد کی تعریف سے بہہ جاتی ہے اور بھلا شوکت پھرھ دل کب تھی؟

    اب کی بار شوکت کی نگاہیں اٹھیں اور اب کے، بجائے آنکھیں ملنے کے یوں ہوا کہ وہ دونوں ایک دوسرے کی آنکھوں میں اتر گئے اور آنکھوں کے راستے سیدھے دل میں اتر کر بیٹھ گئے ہمیشہ کے لئے۔

    بے تکے پن سے رفیق میاں اٹھے اور لپکتے ہوئے باہر چلے گئے۔ بھد سے اپنے پلنگ پر گر پڑے اور اوپر نیچے لمبی لمبی سانسیں لینے لگے، پلٹ پلٹ کر ادھر ادھر دیکھتے اور گھبرا گھبرا کر آنکھیں بند کرتے اور پھر کھول دیتے۔

    کچھ نہ سوجھا تو آئینے کے سامنے جا کھڑے ہوئے اور آنکھوں میں جھانکنے لگے۔ سوچا تھا وہاں شوکت ملے گی۔ لیکن وہاں تو بس وہی وہ تھے۔

    ’’تم کہاں چلی گئیں۔ تم کہاں چلی گئیں‘‘

    ’’میں؟ میں تو تمہارا ہی ایک روپ ہوں۔ میں تم سے الگ کب تھی۔ جو مجھے کھوجنے کی ضرورت پڑے۔ اپنی آنکھوں میں جھانک کر دیکھو، اگر اپنا ہی عکس نظر آئے تو جان لو کہ وہ تم نہیں، میں ہوں میں، جو تم میں جذب ہو کر تمہارا ہی روپ دھار چکی۔‘‘

    پلکیں جھپکا جھپکا کر انھوں نے دور دور تک اپنی آنکھوں کی سیر کر ڈالی۔ وہاں ان آنکھوں میں شوکت بہار بن کر پھول کھلا رہی تھی۔ پھول بن کر خوشبو مہکا رہی تھی اور خوشبو مہکا کر اپنے وجود کو نہلائے بیٹھی تھی۔ میٹھی میٹھی پھوار سے ان کا سارا جسم بھیگ گیا۔

    وہ شوکت بڑی نازک تھی۔ دبلی پتلی، سرخ و سفید رنگت۔ پیٹھ پر لمبی سی موٹی چوٹی سدا جھولتی ہوئی، وہ یوں تو جو ہی کی منی کلی ایسی تھی مگر اس کی ساری خوبصورتی آ کر ایڑیوں میں جمع ہو گئی تھی۔ ایسی کومل کومل گلابی ایڑیاں کہ ایک دن رفیق میاں نے حوری سے بڑے رازدانہ لہجے میں پوچھا۔

    ’’ہاں ری حوری یہ تیری شکو باجی نے کہیں گلابی رنگ تو گھول کر اپنی ایڑیوں میں نہیں بھر لیا ہے؟‘‘

    حوری ہنستے ہنستے لوٹ گئی۔ لوٹتے لوٹتے پھر اٹھ بیٹھی اور اٹھ کر اندر بھاگ گئی اپنے قہقہوں کو روک کر اس نے بڑی مشکلوں سے پھوپھی سے کہا۔

    ’’شکو باجی کچھ سنا۔ ہمارے ماموں جان کہہ رہے تھے ’’وہ سانس لے کر بولی۔‘‘ کہ کہیں آپ نے ایڑیوں میں گلابی رنگ تو گھول کر نہیں بھر لیا ہے؟ ہی ہی۔ ہاہا۔ ہوہو۔

    شوکت نے گھبرا کر اپنے پیروں کو دیکھا۔ اپنے بازوں کو دیکھا۔ اپنی آنکھوں میں جھانکا۔ اپنی انگلیوں کی سرخ سرخ پوروں کو پتلیوں سے قریب لاکر دیکھا اور پھر ہتھیلیوں میں ایڑیوں کو لے لے کر دیکھنے لگی۔ پھر وہی سرخی اس کے گالوں میں بھر گئی اور ہنسی اس کے چہرے پر چھا گئی۔ ہنستے ہی ہنستے اس نے حوری کی ٹھوری پکڑ لی اور بولی۔ بتا تو بھلا مجھے ہنسی کیوں آ رہی ہے؟

    حوری اپنی ہنسی بھول بھلا کر شوکت کے چہرے کو دیکھنے لگی۔ پھر جیسے بڑی عقلمندی کے انداز سے سر ہلا ہلا کر بولی۔ معلوم ہو گیا جی، یہ آپ کچے رنگ کے مخمل کی گرگابیاں اس لئے پہنتی ہیں کہ ان کا رنگ چھوٹ چھوٹ کر ایڑیوں میں لگتا رہے، اور ماموں جان تعریف کرتے رہیں۔‘‘

    ’’اررر۔‘‘ شوکت گھبرا کر بولی ’’کیسی باتیں کرتی ہے۔ حوری۔ بھلا میری چپلیاں کچے رنگوں کی ہیں۔ توبہ، توبہ‘‘

    ’’پھر آپ کی ایڑیاں گلابی کیوں ہیں؟‘‘

    شوکت نے ہنس کر اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال دیں۔‘‘ اور کل تو یہ پوچھنے بیٹھےگی کہ آپ کے گال اتنے سرخ کیوں ہو ئے جاتے ہیں۔ آپ کی آنکھیں اتنی گہری کیوں ہیں۔ آپ چلتے میں جھومتی کیوں ہیں۔ آپ آئینے میں کس سے باتیں کرتی ہیں۔ ایسی بے بنیاد باتوں کا بھلا میں کیا جواب دے سکتی ہون؟ اونہہ!‘‘

    پھر ایک دن یوں ہوا کہ تیسری تاریخ کا کچھ مدھم سا، کچھ چمکیلا سا، زیادہ مدھم، کم چمکیلا، چاند آسمان پر چمک رہاتھا۔ سب لوگ آنگن میں بچھے ہوئے تختوں اور پلنگوں پر لیٹے بیٹھے باتیں کر رہے تھے کہ شوکت کی شادی کا ذکر چل نکلا۔

    اماں نے اپنی سمدھن سے پوچھا۔

    ’’کیوں بہن شکو بی بی کی بات کہیں ٹھہرائی ہے؟‘‘

    بہن کے چہرے پر ذرا ناگواری کے اثرات چھا گئے۔‘‘

    ’’دوئی بہن اس کے باپ سے پوچھو ہم سے کیا پوچھتی ہو۔ تم سے کیا چھپانا ہے بیس اوپر وہ برس کی بٹیا ہو گئی مگر قسم لے لو جو کبھی بھول سے بھی شادی کی بات چھیڑی ہو۔ لکھا پڑھاکر عاقبت خراب کر دی ہے۔ اب تو یوں آزاد چھوڑ رکھا ہے۔ صفا کہتے ہیں کہ جب بیٹا کا جی چاہے گا تبھی کریں گے۔‘‘

    اماں نے حیرت سے آنکھیں پٹ پٹا کر دیکھا۔

    ’’دوئی یہ کیا بات ہوئی بھلا۔‘‘ پھر بولیں۔۔۔ ’’مگر کوئی لڑکا تو نظر میں ہوگا ہی‘‘

    ’’مجھے تو نہیں معلوم بی۔‘‘ پھر ذرا طعنے سے بولیں ’’کیا پتہ یہ لڑکا ڈھونڈنے کا اختیار بھی بیٹی کو ہی دے رکھا ہو۔‘‘

    ساری روشن خیالی یہیں آکر اٹک گئی ہے۔ صاف تو بولتے ہیں کہ مذہبی کتابوں میں لکھا ہے کہ کبھی لڑکی کی شادی اپنی مرضی سے نہ کرو۔‘‘ اماں اچنبھے سے بولیں۔

    ’’بہن یہ تو آج تم نے نئی ہی بات سنائی۔‘‘

    ’’ہاں بہن۔‘‘ انھوں نے ایک ٹھنڈا ٹھنڈا طعنہ چھوڑا۔ ’’نئے زمانہ کے لوگ ہیں۔ کوئی کیا کہے۔ بی اے تو پاس کر ہی لیا ہے۔ بیٹا نے۔ اب باپ کہتے ہیں۔

    ام اے بھی کروائیں گے۔ اب تک لڑکیوں کے کالج میں پڑھایا۔، اب تو لڑکوں کے کالج میں پڑھانا پڑے گا۔ میں کچھ زبان ہلاتی بھی ہوں تو بولتے ہیں کہ مذہبی کتابوں میں آیا ہے کہ جو بیوی اپنے شوہر کو خوش نہیں رکھےگی، سیدھا دوزخ میں جائےگی۔‘‘

    پھر تھوری دیر کے لئے تیسری کا چاند ایک بدلی کی آڑ میں چلا گیا۔ ا ور سارے میں صرف چھالیہ کترنے کی چک چک باقی رہ گئی۔ مگر رفیق میاں نے ذرا سر اٹھا کر دیکھا تو تخت کے اس کونے پر ایک چودہویں کا چاند چمک رہا تھا۔

    وہ اٹھ کر کمرے میں چلے گئے۔ ہلکے سبز رنگ کی مدھم روشنی کمرے میں پھیلی ہوئی تھی۔ انھوں نے رفیق میاں کو جا کر دیکھا، اچھے خاصے تھے۔ چہرے پر جھری تھی نہ ماتھے پر شکن۔ انگوں میں تناؤ بھی تھا اور بدن بھی گٹھا ہوا نظر آتا تھا۔ اور ہوتا کیوں نا لیکن لہریں مارتے سیاہ بادلوں میں یہ سفید سفید سی رہ گزر کہاں سے پھوٹ نکلی تھی!

    ’’میں تمہیں چاہتا ہوں مگر۔۔۔ مگر۔۔۔‘‘ مگر کے ساتھ اپنے عکس سے مخاطب ہو کر کسی اور کو سنایا۔

    ’’مگر یہ تم میرے بالوں میں سفید تار بھی دیکھ رہی ہو۔‘‘

    ’’دیکھ رہی ہوں۔ یہ سفید تار نہیں یہ تو تاروں بھری راہ ہے۔ کہکشاں ہے۔ اس پر شرمندہ ہونے کی کیا بات ہے۔ کیا محبت سیاہ بادلوں اور حسین چہرے ہی سے کی جاتی ہے۔ وہ تو دل سے کی جاتی ہے۔ پیار کرنے والے، پیار کو۔ سمجھنے ولاے دل کے۔۔۔‘‘

    رفیق میاں گھبرا کر پلٹے۔ اس راہ پر پاؤں دھرتے دھرتے۔ قدم قدم چلتے چلے کون ان کے دل کے اس قدر قریب آ گیا تھا کہ اس کی آواز تک سنائی دے رہی تھی ملے جلے سبزا اور سیاہ اجالے میں انھوں نے پلکیں جھپکا جھپکا کر دیکھا۔ اپنے دبلے پتلے جسم کو سمیتے شوکت پردے کے پاس کھڑی ہوئی تھی۔ پردے کو اس نے اپنی پتلی کمر کے گرد لپیٹ لیا تھا۔ ساڑی کے نیچے سے اس کے گلابی کا فوری پیر نظر آ رہے تھے اور وہ پردے میں سے چاند ایسا منہ نکالے دھیمے دھیمے مگر مضبوط لہجے میں رفیق میاں سے کہہ رہی تھی۔

    ’’اس پر شرمندہ ہونے کی کیا بت ہے۔ کہکشاں تو راہ دکھاتی ہے۔ بھلا کہیں سفید روشن جھم جھماتے ستاروں کو کسی نے یہ کہہ کر ٹھکرایا ہے کہ یہ اجالا کیوں بکھیرتے ہیں۔ کیوں؟‘‘

    رفیق میاں نے آنکھوں کے پٹ کھول دیئے۔

    شوکت شرما گئی۔ اس نے دھیرے سے پردہ چھوڑ دیا اور گلابی گلابی ایڑیوں کو دھیرے دھیرے زمین پر ٹکاتی، اٹھاتی یوں دھیرے دھیرے چلی گئی کہ جیسے وہ ایڑیاں کانچ کی تھیں کہ ذرا زور سے پاؤں پڑتا اور چٹخ چٹخ جاتیں۔

    ابھی ابھی جہاں ایڑیوں کے نشان تھے، وہاں سجدوں کے نشان ابھر آئے۔ رات بھر رفیق میاں کا کمرہ گلاب کی کچی کلیوں سے مہکتا رہا۔

    عورت جب محبت کرتی ہے تو چاہتی ہے کہ ہر صورت اپنے مجبوب کی خوشنودی حاصل کرے۔ اس کی محبت کا مرکز اپنی ہی اپنی ذات کو بنالے۔ اس کی راہوں میں اپنی آنکھیں اپنا دل بچھا دے اور جب محبوب کے قدم پڑیں، وہ قدم تلے بچھی زمین رہ رہ کر پکار اٹھے، ہمیں تم سے محبت ہے۔۔۔ ہمیں تم سے محبت ہے۔

    ہمیں تم سے۔۔۔

    ہمیں۔۔۔

    اور یہ بھی تو محبت ہی تھی کہ اب دستر خوان پر ہمیشہ چٹ پٹی نئی نئی چیزیں کھانے کو ملتیں۔ جانے کیسے شوکت کو پتہ چل گیا تھا کہ رفیق میاں کو سوئیوں کی فیرنی پسند ہے۔ ثابت آلوؤں کا سالن من بھاتا ہے۔ چاول کھڑے کھڑے نہ پکیں تو دسترخوان چھوڑ کر اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ مرد ہو یا عورت، کنوارپن کی پھٹکار منہ پھوڑ پھوڑکر بولتی ہے، ہم کنوارے ہیں، ایسے میں جو محبت کی کہیں سے مٹھاس مل جائے تو چہرے پر نور بکھر جاتا ہے۔ وہی رفیق میاں تھے۔ وہی گھر، وہی حالات۔ وہی خرچے۔ وہی خرچ کی تنگی، وہی بھاوج اور ماں کے جھگڑے۔ وہی بچوں کی جھڑ جھڑ پھر پھڑ مگر پھر بھی وہ۔ رفیق میاں نہ رہ گئے تھے اور کوئی فرق بھلے سے آیا ہو نہ آیا ہو لیکن آنکھیں سدا چمکتی رہتیں، جیسے آنکھیں نہ ہوں آسمان سے توڑ کر دو ستارے ٹانک دئیے گئے ہوں۔

    ایک دن باورچی خانے سے شوکت نکلی تو آنکھیں سرخ تھیں۔ آنگن بیچ کھڑی ہو کر اس نے حوری کو پکارا۔ ’’حوری ذرا دیکھ تو میری آنکھ میں شائد بال پڑ گیا ہے۔‘‘ شیشے کی سی نازک ایڑیوں کی مانوس مدھم چاپ سن کر رفیق میاں بھی اپنے کمرے سے نکل آئے تھے۔ حوری بازو میں کھڑی پھوپھی کی آنکھوں میں بال ڈھونڈ رہی تھی کہ اسی دم اسے رفیق میاں بھی اسی دنیا میں چلتے پھرتے نظر آ گئے۔

    رفیق ماں کو سامنے دیکھ کر شوکت شرما سی گئی۔ ٹالنے کو حوری سے بولی۔

    ’’جانے دے کدھر بھی کھو گیا ہوگا۔‘‘

    حوری شرارت سے بولی۔ ’’اجی جناب بال کی کیابات ہے، آپ کی آنکھوں میں تو بڑے بڑے آدمی کھو جاتے ہیں۔ بال بے چارہ تو اتنا نازک، اتنا باریک ہی تھا۔‘‘

    ’’کیا مطلب؟‘‘ شوکت گڑ بڑا کر بولی

    ’’مطلب یہی۔‘‘ وہ ہاتھ نچا کر بولی۔ ’’کہ ابھی ابھی میں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ ماموں جان آپ کی آنکھوں میں اترے اور دیکھتے ہی دیکھتے کھو گئے۔

    شوکت اس سچی حقیقت کو سن کر پانی پانی ہو گئی۔

    رفیق میاں نے بہت۔ بہت دھیمے دھیمے کہا۔

    ’’وہ آنکھیں تو میرا وطن ہیں۔ میں وہیں پیدا ہوا، میں وہیں پلا۔ وہیں بڑھا وہیں میں نے زندگی بتائی۔ وہیں رہ کر میں نے محبت کرنی سیکھی۔ وہیں رہ کر میں نے جانا کہ ایڑیوں میں گلاب کیسے کھلتے ہیں۔ وہیں میرے دل نے نئے انداز سے دھڑکنا سیکھا اور زندہ رہنے کا گر بھی تو میں نے اپنے وطن سے سیکھا ہے۔ کاش میں وہیں کھو جاؤں، یوں کہ پھر کبھی کسی کو نظر نہ آؤں۔ کبھی نہیں۔ کبھی بھی نہیں اور ان پلکوں کے پیچھے میری زندگی یوں ہی خاموش خاموش سی بیت جائے۔‘‘

    شوکت نے بڑی مشکل سے پلکیں اٹھائیں۔ یوں جیسے ان پر ساری دنیا کا بوجھ تھا وہ آنکھیں جو رفیق میاں کا وطن تھیں۔ وہ ان کے سامنے کھلی تھیں۔ پلکوں کے دروازے کھلے ہوئے تھے اور کوئی بےصدا آواز جیسے خوابوں کی دنیا سے انھیں بلا رہی تھی۔

    ’’آ جاؤ۔ چھپ جاؤ۔‘‘

    ’’خدا نہ کرے جو تمہیں جلا وطن ہونا پڑے۔‘‘

    اور شوکت نے بڑے معنی خیز انداز میں آنکھیں بند کر لیں، یوں جیسے ہمیشہ کے لئے ان دو پتلیوں میں رفیق میاں کو قید کر لیا ہو۔ رات چمکدار تھی۔ فضا خوشبودار تھی۔ پھر یہ دل لگتا کیوں نہیں؟ نیند آتی کیوں نہیں؟ انھوں نے اپنے پلنگ پر پڑے پڑے سوچا۔ ’’میں بوڑھا ہو رہا ہوں۔ بھلا بوڑھے سے کون پیار کر سکتا ہے؟‘‘

    میں کر سکتی ہوں۔ میں۔ جو ایک عورت ہوں سہارا دینا جانتی ہوں۔ دو آنکھیں ان کی آنکھوں میں جھک آئیں۔ اور دھیرے دھیرے سے بولیں۔

    ذرا ان آنکھوں میں جھانک کر تو دیکھو، تمہارے سوا اور کوئی دوسری تصویر، یہاں نظر آ جائے تو پھر جو جی چاہے کہنا۔ اگر وہ آنکھیں شوکت کی تھیں تو پھر واقعی ان میں سوائے رفیق میاں کے اور کسی کی تصویر نہ تھی۔

    رات کے سناٹے میں یہ آواز کہیں سے بھی آئی ہو۔ مگر ہے شوکت کی ہی۔ انھوں نے بڑی خوشی اور گہرے اطمینان سے سوچا۔

    رفیق میاں نے اپنے ہاتھوں سے اپنے لئے ایسا راستہ بنایا تھا کہ کوئی اونچ نہ نیچ۔ سیدھی سیدھی سڑک تھی۔ بار بار ماں اور بہن نے کہا اور انھوں نے وہی ایک بندھا ٹکا جواب دیا۔

    ’’نا، میں شادی نہیں کروں گا۔‘‘

    اور آخر کتنی بار کوئی اصرار کرتا اور جب ان کے سر میں کھلم کھلا سفید بالوں نے راج رجنا شروع کر دیا۔ تو یہ خیال ہی سبھوں کے دل سے مٹ گیا کہ کبھی ان کی شادی ہو بھی سکتی ہے۔ لاکھ وہ سفید، فکروں او رپریشانیوں کی رہی ہو۔ مگر تھی تو سفیدی ہی۔ پھر کون ان کے دل پر ہاتھ رکھنے چلا تھا۔ اور اب رفیق میاں کا دل اپنے پہلو سے اڑا تو کسی پل قرار نہ آیا۔ منہ پھوڑ کر ماں سے کیسے بولیں؟ کیا صاف صاف جا کر یونہی سنا دیں۔ ’’اماں میری شادی شوکت سے کر وا دیجئے نا۔

    کہنے کو کیا تھا کہہ بھی دیتے۔ مگر ایک تو انہیں یہ خیال آتا کہ اس میں شوکت کی اپنی بدنامی ہوگی۔ یہ تو ظاہر تھا کہ اس کے ابا نے اسے شادی کا پورا اختیار دے رکھا تھا ایسے میں یقینی بات تھی کہ سب کی نگاہیں اس کے دل کو ٹٹولنے لگتیں اور پھر دوسرے یہ کہ انھیں عمر کے اس دور میں پہنچ چکنے کے بعد یہ کہتے ہوئے بڑی شرم محسوس ہوتی کہ’’میں سہرا باندھوں گا۔‘‘

    ماں بہن لاکھ ماں بہن تھیں۔ لیکن اگر تڑسے بول دیتیں کہ جب ہمارے دلوں کے ارمان نکلنے کا وقت تھا اور ہم نے بول بول کر منہ سکھایا تو کلمو ہے نے سہرا نہ باندھا اور اپنے قدم بہکے ہیں۔ تو کیسے سہارے کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے۔ اس مخمسے میں رات دن الجھے رہتے۔ کہ اچانک ایک دن اماں ان کے کمرے میں آکر بیٹھ گئیں ادھر ادھر نظریں دوڑا کر ذرا مطلب بھرے انداز میں بولیں۔

    ’’تو یہ میلے کپڑوں کا انبار بھرا پڑا ہے۔ دھوبی کو کیوں نہیں دئیے۔‘‘

    ’’ارے۔‘‘ انھوں نے کھونٹیوں کی طرف دیکھا اور ذرا شرمندہ ہو کر بولنے ’’ایک بات دھیان میں آئے اور اسی دم کر ڈالوں تو اچھا، ورنہ پھر کام کاج میں دوسرے ہی لمحے بھول بیٹھتا ہوں۔‘‘

    ’’اماں نے بڑے غور سے دیکھا۔‘‘ ارے میاں اپنے کمرے کی گت تو دیکھ ذرا یہ جالے، یہ کچرا، یہ دھول، یہ چھٹے پھٹائے کاغذوں کے انبار۔ تجھ سے اتنا بھی نہیں ہوتا کہ باقر سے کہہ کر ذرا جھاڑ وہی پھر والے۔ آخر تیرے مقدموں والے آتے ہوں گے تو کیا منہ پر تھوک کر جاتے ہوں گے۔‘‘

    رفیق میاں کے چہرے پر شرمندگی چھا گئی۔

    ’’بولوں بھی تو ایک بار کے کہے میں سنتا ہی نہیں ہے۔ اماں اسے بار بار یاد دلانا پڑتا ہے اور یہاں کسے اتنی فرصت ہے اور جب نوکر ایسا کم بخت ہو تو۔۔۔‘‘

    تو اماں نے بات کاٹ دی۔ ’’یوں ناک بھوں چڑھاتا ہے تو سیدھے سے شادی کیوں نہں کر لیتا کہ آپ ہی وہ سارے گھر کی دیکھ بھال کرےگی۔‘‘

    رفیق میاں کے دل کا وہ چراغ جو اتنے دنوں سے مدھم مدھم سی لو دیتا تھا آج پوری چمک دمک سے جل اٹھا۔

    ’’اب؟‘‘ وہ ہنسے۔ ’’کون بدنصیب اس بوڑھے کا ہاتھ تھا منا پسند کرےگی؟

    اماں نے غصے سے دیکھا۔ ’’اونہہ بوڑھا۔ یہ کیوں نہیں کہتا کہ مرنے کے قریب ہوں۔ شرم نہیں آتی ذرا سی تیری اور انو کی عمروں میں ایسا فرق ہی کتنا ہے۔ فکروں نے یہ سفیدی عنایت کی ہے۔

    رفیق میاں ہنسے۔

    ’’دیکھ میاں میں عورت ہوں اور عورت کے دل کی بات جانتی ہوں، عورت کی فطرت میں خدمت کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوتا ہے اسے خود پالنے پوسنے اور دیکھ ریکھ کرنے میں مزہ آتا ہے۔ یہ تو اللہ کا بنایا ہوا طریقہ ہے میاں۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو اولاد کو اللہ میاں عورت کے پیٹ کے بجائے مرد کے پیٹ سے پیدا کرتا۔‘‘

    رفیق میاں نے ماں کے چہرے پر آنکھیں گاڑ دیں۔

    ’’عورت اسی مرد سے زیادہ محبت کرے گی جس مرد کی خدمت کا اسے زیادہ موقع ملے اور پھر یہ تو دلوں کی بات ہے۔ بیاد عورت کا دل تو بس محبت کرنا جانتا ہے۔‘‘

    رفیق میاں کو سمجھتے دیر نہ لگی کہ اماں کا دھیان کدھر ہے۔ آخر یہ تو وہ بھی دیکھتی ہی تھیں کہ بی شوکت نے آئے گھڑی سے چولہا چکی سنبھال لی تھی۔ سب گھر والوں کا ثابت آلوؤں کا قورمہ اور کھڑے چاول کھاتے کھاتے ناک میں دم آ گیا تھا۔ اماں بی کے دانت روزانہ شکایت کرتے۔ لیکن چپاتیاں ویسی ہی ہلکی اور پتلی پکتیں کہ کوؤں کے کانوں میں باندھ دو تو آسانی سے لے کر اڑ جائیں۔ رفیق میاں کو مٹھاس زیادہ پسند نہ تھی۔ لے دے کے ایک سوئیوں کی فیرنی پسند تھی، سو آئے دن ایسی پھیکی پھیکی فیرنی کھاتے کھاتے حلق میں پھندے پڑنے لگے تھے۔ اوپر سے موئی کڑکڑی۔ شکر چھڑک کر کھاؤ تو کھاؤ ورنہ وہ پھینکا گولہ نصیب میں بندھ کر رہ گیا تھا۔ بچپن سے رفیق میاں کو گلابی رنگ پسند تھا۔ گھر میں جتنے بھی دروازے تھے، سبھوں پر اب گلابی گلابی سر سرکرتے پردے جھولتے تھے۔ اب اماں کے دیدے پٹ تو نہیں تھے اور ایسی باتوں کو دیکھ کر تو کوئی بھی اندازہ لگا سکتا ہے کہ پانی کا بہاؤ کس طرف کو ہے؟ ہ ندّی چاہے نکلی کہیں سے بھی ہو مگر بل کھاتی لہراتی آ کر رفیق میاں کے قدموں ہی میں سر پٹختی تھی اور رفیق میاں بھی کہ لاکھ سادھو مہاتما تھے کہ کسی پر آج تک اچھی بری نظر نہ پھینکی تھی، اب ایسے دیوانے کاہے سے ہو گئے تھے، کہ بات تو کرتے حوری سے اور نگاہیں کھوجتی رہتیں شوکت کو، بات کرتے میں حوری کے بجائے شوکی، شوکی نکل پڑتا اور حوری ایسی تیز طرار، کہ چار لوگوں کی موجودگی دیکھے نہ جھجکے، صفا بول پڑتی۔ ‘‘میں نے کہا جناب میرا نام حوری ہے حوری، شوکی نہیں۔ شوکی آپ کی وہ بیٹھی ہیں۔ وہاں باورچی خانے میں آلو ابالتی ہوئی۔‘‘

    ہمیشہ تو رفیق میاں بڑھ بڑھ کر باتیں بنایا کرتے تھے۔ مگر آج ان کی زبان کو اماں کے سامنے چپ لگ گئی تھی۔ بس بیٹھے بیٹھے منٹ منٹ کو ماں کے منہ کو تکتے رہے۔

    ’’تیری مرضی ہو تو بول دے۔ ورنہ پھر تو وہ لوگ چلے جائیں گے۔ وہ تو، شوکت کا اصرار تھا کہ چھایئں گزارنے بھابی کے پاس چلیں تو بہن آ گئیں۔ وہ کدھر ہم کدھر۔‘‘

    ’’تو آپ یہ غضب کر دیں گی کہ اپنے گھر بیٹھ کر ہی بات چھیڑ دیں۔ نہیں اماں بی انہیں برا لگے گا کہ جس گھر میں بیٹی آئی تھی، وہیں بات چھیڑ دی۔ آپ جانتی ہیں پرانے لوگ ایسی باتوں کا برا مانتے ہیں۔ آپ ان کے یہاں سے جانے کے بعد ان کے ابا کو خط کیوں نہ لکھ دیں؟‘‘ رفیق میاں معصومیت سے یہ سب کچھ سناتے رہے۔ وہ بھول گئے کہ ان کے بات کرنے کے انداز نے اماں پر ان کی محبت کا بھید کھول کر رکھ دیا ہے۔

    شوکت کے جانے میں تین چار دن باقی رہ گئے تھے۔ اس کے قدموں کے ساتھ ساتھ ان کا دل بھی گھومتا پھرتا۔ مسکراہٹ ان کے روئیں روئیں سے پھوٹی پڑتی۔ کیسے سدا بہار گلابوں سے ان کا باغ مہکنے والا تھا۔

    سردی کے دن تھے۔ آتش دان میں چھوٹی چھوٹی لکڑیاں چٹختیں، یا پھر انگیٹھی میں سرخ انگارے دہکتے۔ پان چبائے جاتے۔ کافی اور چائے کے گھونٹ بھرے جاتے رات گئے تک باتیں ہوتیں۔ ایسی ہی ایک رات میں آپا بی کمرے کے گرم ماحول سے اٹھ کر باہر کوئلے لانے گئیں۔ اندر گرمی تھی۔ باہر سردی نے جیسے ان کا سر جکڑ لیا واپس کمرے میں آئیں تو سر پکڑے ہوئے۔ اماں نے دیکھا تو ذرا فکر مندی سے بولیں۔

    ’’کیا ہوا بیٹی؟‘‘

    ’’کچھ نہیں اماں۔ ایسے ہی اچانک سر میں درد ہونے لگا ہے۔ جنے ہوا لگی یا کیا ہو گیا۔ ابھی تو بھلی چنگی تھی۔‘‘ ماں نے ماتھے پر ہاتھ رکھا۔ جو ٹھنڈا ہو رہا تھا۔ رضائی اڑھا کر لٹا دیا۔ صبح سے وہ گھر کے کاموں میں الجھی رہتی تھی۔ کبھی کھلے آنگن میں بیٹھ کر گیہوں پھٹکے، تو کبھی چاول صاف کئے۔ برتن دھو دھلا کر رکھے تو مرچوں کے ڈنٹھل توڑنے بیٹھ گئیں، کمر میں سخت درد ہونے لگا۔ گھنٹے بھر میں بخار اچھا خاصا تیز ہو گیا۔ سارا گھر آپا بی کی تیمار داری میں جٹ گیا۔ سوائے زہرہ دلہن کے۔ وہ ادھر قیامت گزر جائے تب بھی اپنے دالان سے نہ نکلتیں۔ برائی کا بیچ جو اتنے زمانے پہلے دل کی زمین میں بویا گیا تھا۔ اب پھیل پھول کر ایک تناور درخت بن چکا تھا۔ ان کو آجا کے اس بات پر غصہ تھا کہ میں تو میاں والی ہو کر بھی خالی ہاتھ رہتی ہوں اور آپا بی سارے گھر پر راج رجتی پھرتی ہیں۔ آٹھ چار دن میں کوئی نہ کوئی بات ایسی ہو جاتی کہ پھر گھر میں ہنگامہ اٹھ کھڑا ہوتا۔

    ایک دن گزر گیا۔

    دوسرے دن بھی بخار میں کوئی کمی نہ ہوئی۔ جسم تھا کہ پھنکا جا رہا تھا۔ سانس میں آنچ کی سی لپٹیں نکلتیں۔ آنکھیں سرخ انگارہ ہوئی جارہی تھیں۔ ڈاکٹر آیا۔ دوا انجکشن سبھی، کرکے گیا، مگر بخار اپنی جگہ سے ہلا بھی نہیں نہ آنکھوں کی سرخی کم ہوئی۔ سرتھا کہ درد کے مارے پھٹا جا رہا تھا، حوری ماں کے سر ہانے بیٹھی تھی۔

    ’’اف۔‘‘ آپا بی درد سے کراہیں۔

    ’’امی آپ کی طبیعت کیسی ہے؟‘‘

    ماں نے آنکھیں کھولیں۔ دل رکھنے کو ذرا مسکرائیں اور بولیں۔ اچھی خاصی ہوں بیٹا، بس سر میں درد بہت ہے۔‘‘

    ’’آپ بستر پر پڑ گئی ہیں امی تو سارا گھر ہمیں اداس اداس نظر آ رہا ہے۔‘‘ وہ غم زدہ لہجے میں بولی۔

    ’’مجھے ہوا ہی کیا ہے۔‘‘ وہ بچوں کا دل بڑھانے کو بولیں۔ ’’ذرا سر میں درد زیادہ ہے وہ بھی اچھا ہو جائےگا۔‘‘

    ’’بام مل دوں امی؟‘‘

    ’’شیشی تو خالی پڑی ہے۔ رات ہی ختم ہو گیا تھا، رہنے دے یونہی ٹھیک ہو جائیگا۔‘‘

    ’’ٹھہرئیے میں زہرہ مومانی سے پوچھتی ہوں، ان کے پاس شائد ہے۔‘‘

    آپا بی منع کرتی رہیں اور وہ دالان کی طرف دوڑ بھی گئی۔ تھوڑی ہی دیر میں ادھر سے تیز تیز آوازیں آنے لگیں۔

    رفیق میاں نے سر اونچا کر کے سننے کی کوشش کی۔ آواز زہرہ دلہن کی تھی۔

    ’’اے ہے درد ورد خاک بھی نہیں۔ اب وہ شوکت بیگم چلی جا رہی ہیں نا۔ سوچا چولہا چکی پھر نصیبوں میں آ گئی تو کیوں نہ بیمار پڑ جاؤں کہ ادھر میرے گلے سارے گھر کی مصیبتیں آ جائیں۔‘‘

    حوری کی غصہ بھری آواز آئی۔

    ’’ذرا چل کر خود ہی دیکھ لیجئے نا۔ مارے درد کے تڑپ رہی ہیں۔‘‘

    ’’اے بی بی درد کی نہ کہو۔ درد آج تک کس کو دکھائی دیا ہے۔ بخار کہو تو ایک بات بھی ہے۔‘‘

    ’’بخا اور کیسا ہوتا ہے۔ جسم تو جلا جا رہا ہے۔‘‘

    ’’سر سے پاؤں تک رضائی اوڑھ کر جسم تپا لیا اور بخار کا نام بدنام۔ ہونہہ!‘‘

    حوری تیز آواز سے بولی۔ ’’ذرا سا بام مانگا تو ستر باتیں سنا ڈالیں۔ تھوہے۔ بڑے، ماموں جان کی کمائی پر اتنی کنجوسی؟ اور جو خود کی کمائی۔۔۔‘‘

    ابھی اس کی بات منہ کی منہ میں ہی تھی کہ دھن دھن کی آوازیں آنے لگیں اور ساتھ ہی گرجدار ڈانٹ۔

    ’’بالشت بھر کی چھوکری اور زبان اتنی بڑی۔ نکل یہاں سے بدتمیز کہیں کی۔ اور خبردار جو کبھی ادھر کے دالان میں پاؤں بھی دیا۔ ٹانگیں چیر ڈالوں گا کمبخت کی۔‘‘ آواز انو میاں کی تھی۔

    حوری سرخ سرخ آنکھیں اور بجھا ہوا چہرہ لئے سسکتی ہوئی آکر بڑے ماموں سے لپٹ گئی۔

    ’’کیا ہوا بی بی۔ کیوں روتی ہے حوری؟‘‘

    حوری نے ہچکیاں لے لے کر روتے روتے سنانا شروع کیا۔

    ’’ماموں جان۔ ماموں جان۔ ہم ذرا امی کے لئے بام مانگنے گئے تو زہرہ مومانی نے سو باتیں سنا ڈالیں اور غصے میں آ کر ہم نے کوئی جواب دے ڈالا تو چھوٹے ماموں نے آکر دھن دھن چار چھ تھپڑ مار دئیے۔‘‘ وہ روتے روتے اور زور سے ان سے چمٹ گئی اور بولی۔

    ’’اچھا ہوا آپ نے شادی نہیں کی، ورنہ بڑی مومانی کی باتوں میں آ کر آپ بھی ہمیں چھوٹے ماموں کی طرح مارتے، ہمیں ڈانٹتے۔ پھر تو کوئی بھی ہمیں پیار کرنے والا نہ ہوتا۔ زہرہ مومانی بےحد بری ہیں۔ اچھا ہوا۔۔۔‘‘

    وہ سنہری چراغ جو زندگی بھر کے اجالوں کا امین تھا۔ حوری کے آنسوؤں سے اسی دم بجھ گیا۔ سارے میں اندھیرا پھیل گیا اور رفیق میاں اسی ایک لمحے میں اسی برس کے بوڑھے بن گئے۔

    ’’جھریوں بھرا ہاتھ وہ حوری کے سر پر رکھ بولے،

    ’’مت روبیٹی۔ مت رو۔ میں تو تجھ سے محبت کرتا ہوں نا۔ میں تو تیرا اچھا ماموں ہو ں نا۔ میں نے تو کبھی۔۔۔‘‘

    برآمدے میں ہوا کے سرد جھونکے آ رہے تھے۔ اندر کمرے میں شوکت انپی بجلی بھر ی نگاہوں سے رفیق میاں کو تاک رہی تھی۔ اک دم رفیق میاں نے دونوں ہاتھوں سے اپنا کلیجہ تھام لیا اور کانپتی ہوئی آواز میں بولے۔

    ’’اماں۔ یہ دروازہ بند کر لیجئے۔‘‘

    مأخذ:

    • مصنف: واجدہ تبسم
      • ناشر: اشفاق احمد
      • سن اشاعت: 1974

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے