Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

دیوالی کے تین دیے

خواجہ احمد عباس

دیوالی کے تین دیے

خواجہ احمد عباس

MORE BYخواجہ احمد عباس

    کہانی کی کہانی

    یہ دولت کی دیوی لکشمی کو متوجہ کرنے کے لیے دیوالی پر جلائے گیے تین دیوں کی کہانی ہے جو اپنی حیثیت کے مطابق تین مختلف گھروں میں جل رہے ہیں۔ ایک سیٹھ کے گھر میں بہت بڑے دیے کے ساتھ ہزاروں اور بھی دیے ہیں۔ دوسرا گھر کسی افسر کا ہے جس کے یہاں کچھ کم دیے ہیں اور آخری گھر کسی غریب کا ہے جس میں محض ایک دیا جل رہا ہے۔ ایک غریب عورت سر پر گٹھری رکھے سیٹھ کے یہاں رات بھر کے لیے آسرا مانگنے آتی ہے، لیکن اسے منع کر دیا جاتا ہے۔دوسرے گھر بھی جاتی ہے وہاں بھی اسے انکار کر دیا جاتا ہے۔ وہ اس غریب کے گھر جاتی ہے اور اس جھونپڑی میں جاتے ہی اس جھونپڑی کا دیا باقی گھروں سے زیادہ تیز جلنے لگتا ہے۔

     

    پہلا دیا
    دیوالی کا یہ دیا کوئی معمولی دیا نہیں تھا۔ دیے کی شکل کا بہت بڑا بجلی کا لیمپ تھا۔ جو سیٹھ لکشمی داس کے محل نما گھر کے سامنے کے برآمدےمیں لگا ہواتھا۔ بیچ میں یہ دیوں کاسمراٹ دیا تھااور جیسے سورج کے اردگرد اَن گنت ستارے ہیں، اسی طرح اس ایک دیے کے چاروں طرف بلکہ اوپر نیچے بھی ہزاروں بلب بجلی کے تاروں میں ایسے جگمگارہے تھے جیسے مالن ہاروں میں چنبیلی کے سفید پھولوں کو گوندھتی ہے۔

    برآمدے کے ہرمحراب میں ان بجلی کے دیوں کے ہار پڑے ہوئے تھے۔ چھت کے کنگروں کے ساتھ ساتھ ستاروں سے بھی زیادہ جگمگاتے ہوئے قمقموں کی جھالریں جھول رہی تھیں۔ سنگ مرمر کے ہرستون پر بجلی کے تار کی بیل چڑھی ہوئی تھی اور اس میں پکے ہوئے انگوروں کی طرح لال، ہرے، نیلے، پیلے بلب لگے ہوئے تھے۔ سارے گھر میں کچھ نہیں تو دس ہزار بجلی کے یہ دیے شام سے ہی دیوالی کا اعلان کر رہے تھے۔ دیوی لکشمی کا انتظار کر رہے تھے۔

    مگر ان سب میں سب سے زیادہ نمایاں وہ ایک ہی دیا تھا۔ دیوی کا سمراٹ جو اپنی روشنی سے شام کے دھندلکے  کو دوپہر کی طرح روشن کیے ہوئے تھا۔ یہ دیا سیٹھ لکشمی داس امریکہ سے لائے تھے۔  جب وہ وہاں اپنی کمپنی کے لیے بجلی کا سامان خریدنےگیےتھے۔۔۔ دراصل یہ دیوی کا سمراٹ انھیں ذاتی کمیشن کے طور پر بھینٹ کیا گیا تھا۔ مال سپلائی والی امریکن الیکٹرک کمپنی کی طرف سے۔ اور اس کو دیکھتے ہی سیٹھ لکشمی داس نےسوچ لیا تھا کہ اب کے بار دیوالی پر یہ امریکن دیا ہی دیوی لکشمی کاسواگت کرے گا۔

    اور آج شام ہی سے یہ دیا اپنی بھڑکیلی امریکن شان سے جل رہا تھا۔ اس کے چاروں طرف دس ہزار اور روشنیاں جگمگا رہی تھیں۔ سیٹھ لکشمی داس کاکہنا تھا کہ سب تہواروں میں دیوالی ہی سب سے اہم اور برتر تہوار ہے۔دیوالی کی رات کو جہاں اس کا سواگت کرنے کو روشنیاں ہوتی ہیں وہاں دیوی لکشمی آتی ہے۔ سو وہ ہمیشہ اس کا خیال رکھتے تھے کہ ہر دوسرے سیٹھ اور بیوپاری کے گھر سے زیادہ روشنیاں لکشمی محل میں ہونی چاہئیں۔ ان کو یقین تھا کہ جتنی روشنیاں زیادہ ہوں گی اتنی ہی زیادہ لکشمی دیوی کی مہربانی بھی ہوگی اور شاید تھا بھی یہ سچ۔ بیس بائیس برس پہلے جب ان کی چھوٹی کپڑے کی دوکان تھی،تب ان کے گھر میں کڑوے تیل کے سودیے جلاکرتےتھے۔ پھر جب جنگ ہوئی اور ان کو فوجی کمبل سپلائی کرنے کا ٹھیکہ مل گیا تو ان کے نئے گھر پر ایک ہزار دیےجگمگانے لگے۔ پھر جب آزادی آئی، اور سیٹھ لکشمی داس کو ایک بہت بڑے ڈیم بنانے کے لیے مزدور سپلائی کرنے کاٹھیکہ مل گیا تو دیوالی کی رات کو ان کے بنگلے پر پانچ ہزار بجلی کے بلب جگمگا اٹھے اور اس سال جب کہ انہوں نے ایک امریکن کمپنی کے ساتھ مل کر کئی کروڑ روپے کا کارخانہ قائم کرلیا تھا جس میں انہیں لاکھوں روپے مہینے کی آمدنی کی امید تھی، اگر انکم ٹیکس افسر کوئی گڑبڑ نہ کرے۔

    اس مرتبہ تو انہوں نے اپنے لکشمی محل میں ایسی روشنی کی تھی کہ ایک بار تو دیوی لکشمی کی آنکھیں بھی چکاچوند ہوجاتیں۔ اتنی بہت روشنیاں اور خصوصاً امریکن دیوی کے سمراٹ کو دیکھ کر دیوی خوش ہوگئی تو کون جانتا ہے اگلی دیوالی تک سیٹھ جی پانچ چھ اور کارخانے اور دوچار بینک خریدنے کے قابل ہوجائیں۔

    ہاں تو دیوالی کی رات تھی اور سیٹھ صاحب الیکٹرک انجینئر کو ہدایت دے رہے تھے کہ بجلی کے کنکشن اور فیوز وغیرہ کا خاص خیال رکھے کیوں کہ کسی کی بھول سے ایک سیکنڈ کے لیے بھی بجلی فیل ہوکر اندھیرا ہوگیا تو خطرہ ہے کہ دیوی لکشمی ناخوش ہوکر اس گھر سے ہمیشہ کے لیے نہ چلی جائے۔ اس لیے الیکٹرک انجینئر نے ایک جنریٹر بھی لگایا ہوا تھا تاکہ پاور کے کرنٹ میں کوئی گڑبڑ ہوتو جنریٹر سے بنائی ہوئی بجلی کام آئے۔

    یکایک سیٹھ صاحب کو ایسا محسوس ہوا کہ جیسے محل بھر میں لگے ہوئے سارے بجلی کے قمقوں کی روشنی اور تیز ہوگئی ہو، ’’دیوی لکشمی آگئی‘‘ انہوں نےخوش ہوکر کہا۔ مگر انجینئر نے سمجھایا کہ کرنٹ کے گھٹنے بڑھنے سے کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ روشنی زیادہ یا کم ہوجاتی ہے۔‘‘

    ’’تو پھر تمہاری ڈیوٹی یہ ہے کہ دیکھتے رہو کہ روشنی زیادہ ہوتی رہے۔ ایک پل کے لیے بھی کم نہ ہو۔‘‘یہ کہہ کر سیٹھ صاحب برآمدےکی سنگ مرمر کی سیڑھیاں اتر کر باغ کی طرف آرہے تھے۔ جہاں ہر پیڑ کی شاخوں میں جگمگاتے ہوئے ’’پھل‘‘ جھول رہے تھے کہ انہوں نے ایک عورت کو سڑک پر کھڑا دیکھا۔۔۔عورت گاؤں سے آئی لگتی تھی۔ اس کے بدن پر میلا گھاگرا تھا۔ جس کا رنگ کبھی لال رہا ہوگا۔ اسی رنگ کی چولی تھی اور سر پر اوڑھنی تھی۔ وہ بھی موٹے لال کھدر کی مگر چھپی ہوئی۔ اپنے سر پر وہ میلے کچیلے چیتھڑے میں لپٹی ہوئی ایک گٹھری اٹھائے ہوئی تھی۔ اس کے کپڑے نہ صرف میلے تھے بلکہ پھٹے پرانے پیوند بھی لگے تھے۔

    ’’کوئی غریب بھکارن ہوگی۔‘‘سیٹھ لکشمی داس نے دل میں سوچا۔’’کیوں مائی کیا چاہیے؟‘‘ انہوں نے سیڑھیاں اترتے پوچھا اور قریب جانے پر انہوں نے دیکھا کہ عورت غریب سہی مگر جوان ہے اور رنگت سانولی ہونے پر بھی خوبصورت ہے۔

    ’’ایک رات کہیں ٹھہرنے کا ٹھکانہ چاہیے، سیٹھ جی بڑی دور سے آئی ہوں۔‘‘

    ’’نابابا معاف کرو‘‘وہ جلدی سے بولے۔ من ہی من میں انہوں نے سوچ لیا تھا کہ ایک انجانی غریب جوان عورت کو رات بھر کے لیے گھر میں رکھنے کا کیا نتیجہ ہوگا۔ ہوسکتا ہے کہ راتوں رات گھر میں سے روپیہ پیسہ یا زیور سونا چراکر بھاگ جائے۔ ہوسکتا ہے کہ اسے بلیک میل کرکے روپیہ وصول کرے۔ سیٹھ جی کا لڑکا جوان تھا۔ وہ کہیں اس انجانی عورت کے چکر میں نہ آجائے۔پھر بھی انہوں نے سوچا دیوالی کی رات ہے۔ کسی بھکارن کو دھتکارنا بھی نہیں چاہیے۔۔۔

    ’’بھوکی ہو تو کھانا کھلوائے دیتا ہوں۔ لڈو، پوری جو جی چاہے کھاؤ۔‘‘

    ’’میں بھکارن نہیں ہوں سیٹھ جی۔‘‘

    اس نے اپنے سر پر دھری ہوئی گٹھری کی طرف اشارہ کرتے ہوئے جواب دیا، ’’میرے پاس کھانے کو بہت کچھ ہے۔ مکئی کی روٹی ہے، چنے کا ساگ۔ گاؤں کا اصلی گھی ہے۔ دہی ہے، دودھ ہے۔ آپ کے سارے گھر کو پیٹ بھر کر کھلاسکتی ہوں۔ مجھے تو رات بھر ٹھہرنے کا ٹھکانہ چاہیے۔‘‘ اس کی حاضر جوابی سے سیٹھ جی اور گھبراگیے۔ انہوں نے سوچا ایک معمولی گاؤں کی عورت کی ہمت نہیں ہوسکتی کہ یوں سوال جواب کرے۔ کہیں یہ عورت انکم ٹیکس والوں کی سی آئی ڈی تو نہیں ہے؟

    ’’نابابا معاف کرو، ہمارے گھر میں جگہ نہیں ہے۔ کوئی دوسرا گھر دیکھو۔‘‘

    ’’توپھر دوسرا ہی گھر دیکھنا پڑے گا سیٹھ جی۔‘‘ یہ کہا اور وہ عورت اپنی گٹھری سنبھالتی ہوئی چلی گئی۔سیٹھ جی مڑکر سیڑیاں چڑھتے ہوئے واپس برآمدےمیں جارہے تھے کہ انہوں نےمحسوس کیا کہ اس امریکن دیے کی روشنی  کچھ پیلی پڑتی جارہی ہے۔ ’’یہ پاور ہاؤس کا کرنٹ پھر نیچے جارہا ہے۔‘‘ اور پھر چلاکر کہا، ’’انجینئر جنریٹر تیار رکھو۔ دیے بجھنے نہ پائیں۔ الیکٹرک انجینئر بھاگتا ہوا آیا اور اس نے کہا، ’’سیٹھ جی کرنٹ بالکل ٹھیک آرہا ہے۔ ویسے جنریٹر بھی تیار ہے۔ آپ بالکل نہ گھبرائیے۔‘‘

    ’’گھبراؤں کیسے نہیں؟‘‘سیٹھ جی کا دل نہ جانے کیوں ایک عجیب بے چینی سے دھڑک رہا تھا۔ جانتے  نہیں دیوالی کی رات ہے؟ ایک پل کو بھی اندھیرا ہوگیا اور وہی دیوی کے آنے کا سمے ہوا اور دیوی روٹھ کر کہیں اور چلی گئی۔۔۔ تو۔۔۔تو۔۔۔؟‘‘

    دوسرا دیا
    انکم ٹیکس افسر لکشمی کانت تیل کی بوتل لے کر اپنے فلیٹ کی بالکنی میں نکلا تو اس نے دیکھا کہ سامنے سیٹھ لکشمی داس کامحل بجلی کی روشنیوں سے جگمگارہا ہے۔

    ’’ہاں کیوں نہ ہو!‘‘اس نے سوچا کروڑوں روپیہ بلیک کا جو موجود رکھا ہے۔ دس ہزار کیا دس لاکھ بجلی کے بلب لگا سکتا ہے۔‘‘

    پھر اس نے دیکھا کہ اس کی اپنی بالکنی کی منڈیر پر جو سودیئے اس نے سجا رکھے ہیں، ان میں سے ایک دیئے کی لو دھیمی ہوئی جارہی ہے۔ اس نے گھبراکر سوچا، ’’کہیں دیا بجھ نہ جائے، شگون ہی برا نہ ہوجائے!‘‘ اور جلدی سے اس نے بوتل کا تیل دیے میں الٹ دیا۔  دیا سلائی سے لو بھی اوپر کی تو اسے ایسا لگا کہ نہ صرف اس دیے کی بلکہ سو کے سو دیوں کی روشنی ایک دم سے تیز ہوگئی۔

    ’’دھنیہ ہو، دیوی‘‘اس نے دیوار پر لکشمی کی تصویر کے آگے پرنام کرتے ہوئے کہا، ’’اس برس تو تمہاری بڑی کرپا رہی ہے۔‘‘ پھر اس نے کرسی پر آرام سے بیٹھ کر اپنا جاسوسی ناول اٹھایا جو ختم کے قریب تھا اور جس کا ہیرو اس وقت ڈاکوؤں کی سنہری ٹولی کے پنجےمیں پھنسا ہوا تھا۔دروازے کی گھنٹی بجی تو رسوئی میں سے اس کی بیوی چلائی۔ ’’اجی او۔۔۔ ذرا دیکھنا تو کون ہے؟‘‘

    ’’منگو سے کہو نا دیکھے کون ہے‘‘اس نے ناول سے نظر اٹھائے بغیر جواب دیا۔

    ’’منگو کو میں نے بازار بھیجا ہے، مٹھائی لانے‘‘رسوئی سے آواز آئی۔

    ’’تو گنگا کو بھیجو!‘‘ گنگا ان کے یہاں برتن مانجھنے پر ملازم تھی اور صبح شام کام کرنے آتی تھی۔

    ’’گنگا مردار تو آج چھٹی منارہی ہے۔ کہتی تھی بائی ہماری بھی آج دیوالی ہے۔ آج ہم کام نہیں کریں گے۔ سو میں نے بھی چڑیل کو کھڑے کھڑے نکال دیا۔‘‘

    گھنٹی ایک بار پھر بجی۔

    ’’اچھا، اب تم ہی اٹھ جاؤنا۔۔۔ ضرور سیٹھ جی کے ہاں سے مٹھائی آئی ہوگی۔‘‘

    ’’کیا صرف مٹھائی ہی آئی ہے یا کچھ اور؟‘‘اس نے اٹھتے ہوئے پوچھا۔مگر جب اس نے دروازہ کھولا تو سیٹھ جی کا ملازم نہیں ہے۔ ایک عورت کھڑی ہے۔ عورت صورت سے گنوار لگتی تھی۔ کپڑے بھی پھٹے پرانے تھے۔ سر پر ایک میلے سے چیتھڑے میں لپٹی ہوئی ایک گٹھری تھی مگر تھی جوان اور خوبصورت، لکشمی کانت نے دل ہی میں سوچا۔ جوانی اور خوبصورتی پر بھی انکم ٹیکس لگنا چاہیے۔مگر اونچی آواز سے اس نے پوچھا ’’کیوں، کیا چاہیے؟‘‘

    ’’بابوجی! بڑی دور سے آئی ہوں۔ گھر لوٹنے کاسمے نہیں رہا۔ ایک رات کو ٹھیرنے کا ٹھکانہ مل جائے تو بڑی کرپا ہوگی۔ میں کہیں کونے میں پڑ رہوں گی۔‘‘

    لکشمی کانت نے ایک بار پھر اس عورت کی جوانی کا جائزہ  لیا پھر مڑ کر کن انکھیوں سے رسوئی کی طرف دیکھا جہاں اس کی بیوی بیٹھی پوریاں تل رہی تھی۔ لاجو موٹی تھی۔ اس کے منہ پر چیچک کے نشان تھے مگر وہ جہیز میں دس ہزرا نقد لائی تھی۔ اس کے سب رشتہ داروں نے مبارکباد دے کر کہا تھا۔ لکشمی کانت سچ مچ تیرے گھر میں تو لکشمی آئی ہے۔لکشمی کانت نے اپنی بیوی کو دیکھا اور اس کے ہاتھ میں پوریاں بیلنے کے لیے جو لکڑی کا بیلن تھا، اور پھر ہلکی سی ٹھنڈی سی سانس لے کر اس انجانی عورت کی طرف مخاطب ہوا،

    ’’آئی کہاں سے ہو؟‘‘

    ’’بڑی دور سے آئی ہوں بابوجی، مگر اس وقت تو سیٹھ لکشمی داس کے ہاں سے آئی ہوں۔‘‘

    ’’کیوں سیٹھ جی نے تمہیں نکال دیا۔۔۔؟‘‘

    ’’ہاں بابوجی، یہی سمجھو نکال ہی دیا۔‘‘

    ’’اور وہاں سے تم سیدھی یہاں چلی آئیں۔‘‘

    ’’ہاں بابوجی!‘‘

    لکشمی کانت نے کتنے ہی جاسوسی ناول پڑھے تھے اور اسے معلوم تھا کہ اگر کوئی سرمایہ دار کسی کو تباہ کرنا چاہتا ہے تو اس کا ہتھیار کوئی ایسی عورت بھی ہوسکتی ہے۔

    ’’تو سیٹھ جی نے مجھے یہ دیوالی کی بھینٹ بھیجی ہے؟‘‘اس نےدانت بھینچ کر کہا۔

    ’’اس گٹھری میں کیا ہے؟‘‘

    ’’اس میں مکئی کی روٹی ہے بابوجی، چنے کا ساگ ہے اور گاؤں کا اصلی گھی ہے اور دودھ ہے۔ دہی ہے۔‘‘

    ’’بس بس رہنے دو۔‘‘ اسے یقین تھا کہ یہ سب بکواس ہے۔ جاسوسی ناولوں کے مطابق اس گٹھری میں زیور ہوگا۔ نشان لگے ہوئے نوٹ ہوں گے۔ رات کو یہ گٹھری اس گھر میں چھوڑ کر یہ عورت چمپت ہوجائے گی اور جب سیٹھ اس کو پکڑوانے کی دھمکی دے گا تو بغیر کچھ لیے دیے اس کے انکم ٹیکس کے رٹرن پاس کرنے ہوں گے۔

    ’’جاؤ دوسرا گھر دیکھو۔‘‘اس نے عورت کی جوانی کا آخری بار جائزہ لینے کے بعد ایک اور ٹھنڈی سانس بھری اور دروازہ بند کردیا۔

    ’’کون تھا؟‘‘لاجو رسوئی سے چلائی۔

    ’’کوئی نہیں۔۔۔‘‘

    ’’کوئی نہیں تھا تو اتنی دیر کس سے باتیں کر رہے تھے۔‘‘

    ’’میرا دماغ مت کھاؤ۔ کوئی بھکارن تھی۔‘‘

    بھکارن تھی تب ہی اتنی دیر تک میٹھی میٹھی باتیں کر رہے تھے، میں تمہیں خوب۔۔۔‘‘

    ایک بار پھر گھنٹی بجی۔دونوں نے دروازے کی طرف دیکھا۔

    ’’جاؤ لگتا ہے پھر تمہاری بھکارن آئی ہے۔‘‘ بیوی نے حکم دیا۔
    لکشمی کانت نے دروازہ کھولا تو سفید وردی پہنے ایک ڈرائیور ہاتھ میں مٹھائی کا بڑا سا سنہری ڈبہ لیے کھڑا تھا۔

    ’’سیٹھ لکشمی داس نے دیوالی کی مٹھائی بھیجی ہے۔‘‘

    لکشمی کانت ڈبہ لے کر اندر آیا تو لاجو نے جلدی سے ڈبہ لے لیا اور ڈرائیور سے چلاکر بولی، ’’اچھا بھائی سیٹھ جی سے ہمارا نمستے کہنا اور دیوالی کی مبارکباد۔‘‘ دروازہ بند کرکے لکشمی کانت کمرے میں داخل ہی ہو رہا تھا کہ بیوی نے پھر ڈانٹا، ’’ارے یہاں کھڑے میرا منھ کیا دیکھ رہے ہو۔ جلدی سے دیوں میں تیل ڈالو۔ ان کی روشنی کم ہوتی جارہی ہے۔‘‘

    تیسرا دیا
    دیاصرف ایک تھا جو جھونپڑی کے سامنے ٹمٹما رہا تھا۔ دیے میں تیل بھی بہت کم تھا۔اندر کھاٹ پر لکھو پڑاتھا۔ اس کا نام بھی لکشمی چند ہوتا تھا۔ جب وہ اپنے گاؤں سے چل کر شہر آیا تھا مگر مل میں اور جھونپڑیوں کی بستی میں اسے لکھو ہی کہتے تھے۔ غریب مزدور کو اور خصوصاجب وہ بے کار ہو اور بیمار بھی ہو، بھلا کون لکشمی چند کہہ سکتا تھا۔

    اس کی بیوی گنگا ایک کونے میں بنے ہوئے چولہے پر بھات پکا رہی تھی اور سوچتی جارہی تھی کہ بچوں کو بھات کے ساتھ ساتھ کھانے کو کیا دوں۔ بارہ آنے گھر میں تھے۔ اس کی وہ لکھو کی دوا لے آئی تھی۔ مالکن نے کھڑے کھڑے نکال دیا تھا۔ صرف اس لیے کہ اس نے دیوالی کی چھٹی مانگی تھی۔ پندرہ دن کی پگار باقی تھی وہ بھی نہیں دی تھی۔ کہہ دیا تھا، ’’دیوالی کے بعد آنا، آج کے دن ہم لکشمی کو گھر سے باہر نہیں نکالتے۔‘‘ اتنے میں اس کے دونوں بچے باہر سے بھاگتے ہوئے آئے۔ بڑا سات برس کا تھا لچھمن، اور چھوٹی چار برس کی تھی مینا۔

    لچھمن بولا، ’’ماں، ماں سیٹھ جی کے محل میں اِتّے دیے جل رہے ہیں کہ لگتا ہے رات نہیں دن ہے اور ایک دِیا تو اِتّا بڑا ہے کہ سب اسے دیوی کا سمراٹ بولتے ہیں۔‘‘اور مینا نے بھنک کر کہا، ’’ماں بھوک لگی ہے۔‘‘ مگر لچھمن نے اسے ڈانٹ دیا، ’’مجھے بھوک لگی ہے۔ میں کہتا ہوں ماں، ہمارے ہاں ایک ہی دیا کیوں جل رہا ہے؟‘‘

    ’’اس لیے بیٹا کہ ہم  غریب ہیں۔ تیل کے پیسے نہیں کہ اور دیے جلا سکیں۔‘‘ اور کھانستے ہوئے لکھو نے کھاٹ پر سے آواز دی، ’’اری تو پھر یہ دیا بھی بجھا دے۔ اس جھونپڑی میں اندھیرا ہی ٹھیک ہے۔‘‘

    ’’ہائے رام‘‘ گنگا جلدی سے بولی۔۔۔ دیوالی کی رات کو دیا بجھادوں؟ اندھیرے میں دیوی لکشمی نہیں آئے گی۔‘‘

    لکھو اتنی زور سے چلایا کہ پھر کھانسی کا دورہ پڑگیا مگر کھانستے کھانستے بھی وہ بولتا گیا، ’’دیوی سیٹھ لکشمی داس کے محل میں جائے گی۔ لکشمی چند کے گھر نہیں آئے گی۔ نہ بجھا چراغ۔۔۔ تھوڑی دیر میں تیل ختم ہوجائے گا تو آپ سے آپ ہی بجھ جائے گا۔‘‘

    لچھمن جو کھڑکی میں سے جھانک رہاتھا چلایا، ’’بابا۔ بابا۔ دیکھو ہمارے دیے کی لو آپ سے آپ اونچی ہوتی جارہی ہے۔‘‘

    ’’پاگل ہوا ہے بے‘‘لکھو اسے ڈانٹ ہی رہا تھا کہ یہ دیکھ کر اچنبھے میں رہ گیا کہ باہر رکھے ہوئے دیے کی روشنی اب جھونپڑی میں بھی پھیلتی جارہی ہے۔دروازہ کسی نے کھٹکھٹایا۔گنگا نے دروازہ کھولا تو دیے کی روشنی میں دیکھا، ایک عورت کھڑی ہے۔

    ’’کیا ہے بہن؟‘‘

    ’’ایک رات کہیں ٹھیرنےکاٹھکانہ چاہیے۔ بڑی دور سےآئی ہوں۔‘‘

    ’’تو اندر آؤنا۔‘‘وہ عورت دروازہ میں سے اندر آئی تو اس کےساتھ ہی چراغ کی روشنی بھی اندر آگئی۔لکھو نے کہا، ’’ہمارے پاس تو بس یہی جھونپڑی ہے۔ ہوگی تو تکلیف، مگر اتنی رات گیے اور کہاں جاؤگی۔ کھاٹ بھی ایک ہی ہے مگر میں اپنا بستر ادھر زمین پرکرلوں گا۔‘‘

    عورت زمین پر بڑے آرام سے پھسکڑ مار کر بیٹھ گئی تھی، ’’نہیں بھائی، تم بیمار ہو۔ تم کھاٹ پر سوؤ۔ میں تو دھرتی ہی سے نکلی ہوں۔ دھرتی ہی سے مجھے سکھ آرام ملتا ہے۔‘‘ گنگا نےکہا ’’لگتا ہے شہر میں پہلی بار آئی ہو۔ کہو دیوالی کی روشنیاں دیکھیں؟‘‘

    ’’ہاں۔‘‘عورت نےتھکی ہوئی سی ٹھنڈی سانس  بھرتے ہوئے کہا ’’دیوالی کی روشنیاں بھی دیکھیں، دیوالی کا اندھیرا بھی دیکھا۔‘‘

    گنگا اس کا مطلب نہ سمجھی۔ لکھو بھی کھاٹ پر پڑا سوچتا رہا۔ یہ عورت تو کوئی بڑی ہی انوکھی باتیں کرتی ہے اور اس نے دفعتاً محسوس کیا کہ جیسے اس کی چھاتی پر سے کھانسی کا بوجھ آپ سے آپ اتر گیا ہو۔ وہ جو سات دن سے کھاٹ پر پڑا تھا، بے سہارا اٹھ کر بیٹھ گیا اور بولا، ’’گنگا آج تو مجھے بھی بھوک لگی ہے، نکال کھانا مہمان کے لیے بھی۔‘‘

    گنگا نے ہانڈی چولہے پر سے اتارتے ہوئے شرمندہ ہوکر کہا، ’’بھات تو ہے مگر ساتھ کھانے کے لیے کچھ نہیں ہے۔ نہ جانے تم سوکھا بھات کھا بھی سکوگی بہن؟‘‘

    ’’تم میری فکر نہ کرو۔‘‘ عورت نے اپنی گٹھری سامنے رکھتے ہوئے جواب دیا، ’’میرے پاس سب کچھ ہے۔ دراصل یہ میں تمہارے لیے ہی لائی تھی۔‘‘

    ’’ہمارے لیے؟ پر تم تو ہمیں جانتی ہی نہیں تھیں۔‘‘

    ’’میں تمہیں بہت اچھی طرح جانتی ہوں بہن۔ لکھو بھائی کو بھی، لچھمن اور مینا کو بھی۔‘‘یہ کہہ کر اس نے گٹھری کھولی تو کھانےکی خوشبو سونگھ کر بچے اس کے پاس آگیے۔

    ’’اس میں کیا ہے؟ لکھو نے کھاٹ سے اترکر چولہے کے پاس بیٹھتے ہوئے کہا۔عورت نے ایک ایک چیز نکال کر ان کے سامنے رکھ دی۔’’یہ مکئی کی روٹیاں مکھن لگی ہوئی۔ یہ ہے چنے کا ساگ، یہ ہے گاؤں کا اصلی گھی، یہ ہے دیوالی کی مٹھائی۔ اصلی کھوئے کے پیڑے۔ یہ ہے دہی، اور اس لٹیا میں بچوں کے لیے گائے کا دودھ ہے۔ شہر کی طرح پانی ملا نہیں ہے۔‘‘

    اور یہ سن کر سب ہنس پڑے۔ مگر اتنا بہت کھانا دیکھ کر لکھو کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو آگیے۔ روٹی کا لقمہ بناتے ہوئے بولا، ’’یہ سب ہو تو پھر آدمی کو اور کیا چاہیے؟‘‘

    وہ کھانا کھاتے جارہے تھے اور اس انجانی عورت کی طرف کن انکھیوں سے دیکھتے جارہے تھے جو نہ جانے کہاں سے ان کے لیے یہ ساری نعمتیں لے کر آگئی تھی۔کھانا کھاکر وہ سب آرام سے بیٹھے تب گنگا نے کہا، ’’بہن آج تمہاری بدولت ہماری دیوالی ہوگئی۔‘‘اور لکھو ہنس کر بولا، ’’نہیں تو دیوالہ ہی دیوالہ تھا۔ تمہارا شکریہ کیسے ادا کریں بہن۔ ہمیں تو تمہاری پوجا کرنی چاہیے۔‘‘اور عورت نے کہا، ’’شکریہ تو مجھے تمہارا ادا کرنا چاہیے۔ میں اس سارے شہر میں پھری مگر کسی نے مجھے رات بھر کے لیے آسرا نہیں دیا۔ سوائے تمہارے، سب محلوں کے سب بنگلوں کے دروازے بندتھے۔ میرے لیے کھلا تھا تو صرف تمہاری جھونپڑی کا دروازہ۔ اب میں ہر برس تمہارے ہاں آیا کروں گی دیوالی پر۔‘‘

    گنگا نے کہا، ’’بہن تم کل سویرے چلی جاؤگی تو ہم تمہیں یاد کیسے کریں گے؟ ہمیں تو یہ بھی نہیں معلوم تم کون ہو۔ کہاں سے آئی ہو؟‘‘

    اور اس کا جواب سن کر وہ سب بڑی گہری سوچ میں پڑ گیے۔ اس عورت نےکہا، ’’میں یہیں تم لوگوں کے پاس رہتی ہوں۔۔۔ میں اِن کھیتوں کے پاس رہتی ہوں جہاں لکھو بھیا کے بابا اناج اگایا کرتے تھے اور میں اس کارخانے میں بھی رہتی ہوں جہاں لکھو بھیا مشینوں سےکپڑا بنتے ہیں۔ جہاں کہیں انسان اپنی محنت سے اپنی ضروریات پیدا کرتا ہے۔ میں وہیں رہتی ہوں اور دیوالی کی رات کو میں ہر اس گھر میں پہنچ جاتی ہوں جہاں ایک چراغ میں بھی مجھے انسانیت اور سچی محبت  جھلملاتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔‘‘

    تھوڑی دیر جھونپڑی میں سناٹا رہا۔ اب اس اکلوتے ننھے سے دیے کی روشنی اتنی تیز ہوگئی تھی کہ جھونپڑی کا کونا کونا جگمگا اٹھا تھا اور دور سیٹھ لکشمی داس کے محل میں اندھیرا چھا گیا تھا۔ شاید کرنٹ اور جنریٹر دونوں فیل ہوگیے تھے اور بابو لکشمی کانت کی بالکنی کے سارے دیے بھی تیل ختم ہوکر بجھ گیے تھے۔

    ’’دیوی!‘‘ گنگا نے ڈرتے ڈرتے پوچھا، ’’تمہارا نام کیا ہے؟‘‘

    اور اس عورت نے مسکراکر جواب دیا، ’’لکشمی۔‘‘

     

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے