Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

دوسری شادی

جینا بائی دیسائی

دوسری شادی

جینا بائی دیسائی

MORE BYجینا بائی دیسائی

    سمجھانے اور تسلی دینے کی صلاحیت انسان میں محدود ہوتی ہے۔ اس کا احساس اسے آج پہلی دفعہ نہ ہوا تھا۔ لیکن کتنے واقعات کسی عزیز کی موت سے بھی زیادہ غمناک ہوتے ہیں، اس کا تجربہ اسے آج پہلی دفعہ ہوا تھا۔ بستر میں وہ مسلسل کروٹیں بدلتار ہا لیکن کسی طور پر نیند کو قریب نہ بلا سکا۔

    کمرے کا اندھیرا اس کی اذیت میں اضافہ کرنے لگا۔ چارپائی کے نیچے رکھی ہوئی لالٹین ا س نے جلائی۔ کمرے میں اجالا پھیل گیا لیکن اس کے دل کا اندھیرا اور بھی گہرا ہو گیا۔ اس نے نسوار کی ڈبیہ نکالی اور چٹکی بھر نسوار اٹھائی لیکن وہ چٹکی یوں ہی رہی اور اس نے کھڑکی سے باہر دیکھا۔

    دروازہ کھول کر وہ باہر، چبوترے پر آ گیا۔ پورا محلہ سو رہا تھا۔ اندھیری رات یوں خاموش اور دم بخود تھی جیسے وہ بھی اس کے ساتھ اسی کی بےپناہ اذیت سے کسی کا انتظار کر رہی ہو۔

    چبوترے پر وہ کتنی ہی دیر تک ٹہلتا رہا۔ نسوار کی ڈبیہ بدستور اس کی گرفت میں رہی۔ جب وہ خالی ہوگئی تو اس کے دل کی حالت ایسی ہو گئی، جیسے کوئی اس کے جسم پر سے کھال کو کھینچ رہا ہو۔ گھر کی ایک ایک چیز سے اس کی بیٹی منورما کی زندہ یادیں وابستہ تھیں۔ اس کی نسوار کی ڈبیہ کبھی خالی رہتی ہی نہ تھی۔ اس کے کپڑے منورما کسی کو دھونے ہی نہ دیتی تھی۔ اسے کب پیاس معلوم ہوگی، کب اس کی طبیعت باہر جانے کو چاہےگی، آج اس کا کیا کھانے کو جی کرےگا، یہ ساری اس کے دل کی باتیں اس کے بشرے سے ہی معلوم کر کے منورما نے اس کی زندگی کو کس قدر بھرپور بنا دیا تھا۔

    اور سویتا۔۔۔! ’’میری منو‘‘ کے بغیر جسے چین نہ آتا تھا۔ میری منو کے بغیر جو ایک پل رہ نہ سکتی تھی، وہ خود اس کی ماں ہے کہ بیٹی، یہ سوال وہ دن میں ایک دفعہ نہیں کئی دفعہ ہنس ہنس کر پوچھا کرتی تھی۔ اس سویتا کی زندگی میں اس کا کتنا اہم مقام تھا۔ لڑکی ماں کی کہ باپ کی؟ یہ سوال آج پہلی دفعہ اس کے دل میں اس قدر اذیت کے ساتھ ابھرا اور اس نے سوچا کہ اگر وہ خود اس طرح ٹوٹ گیا تھا تو بچاری سویتا زہر کی پڑیا کا سہارا لے تو اس میں تعجب کی کون سی بات ہے؟ منورما کے ہاتھ سے کھلی کھانے کے عادی بیلوں نے بھی تو کھلی کے ٹوکرے کو سونگھ کر یوں ہی رہنے دیا تھا۔ کھلی میں منہ تک نہ ڈالا تھا۔ تو کیا جانوروں میں بھی اتنی سمجھ ہوتی ہوگی؟

    نسوار کی ڈبیہ کھول کر اس نے نسوار لینی چاہی اور اس کی چٹکی ڈبیہ میں ادھر ادھر ٹٹولتی رہی اور پھر اسے یہ تک ہوش نہ تھا کہ خالی ڈبیہ ناک کے قریب لے جاکر سونگھ رہا تھا، ہائے! انسان کس قدر مجبور ہے۔

    رات کی خاموشی اس کے لیے ناقابل برداشت بن گئی۔ وہ سویتا کے کمرے کی طرف چلا۔ کمرے میں اندھیرا تھا۔ اس خیال سے کہ سویتا کی آنکھ نہ کھل جائے، وہ دبے پاؤں کمرے میں داخل ہوا۔

    ’’تم ہو؟‘ اندھیرے میں سے سویتا کی کپکپاتی ہوئی آواز سنائی دی۔

    ’’ہاں۔ میں نے سوچا کہ دیکھ آؤں کہ تو سوگئی ہے یا جاگ رہی ہے۔۔۔‘‘ کہتے ہوئے وہ منورما کی خالی چارپائی پر بیٹھ گیا۔ سویتا اٹھی، لالٹین جلائی اور اس کی روشنی میں جگجیون نے دیکھا کہ سویتا کی آنکھوں میں آنسو چھلک رہے تھے۔

    جگجیون منورما کی چارپائی پر سے اٹھ کر سویتا کی چارپائی پر بیٹھ گیا۔ بےپناہ ہمدردی سے اس نے سویتا کی پیٹھ پر ہاتھ پھیرا اور اسے اپنے قریب کھینچ لیا۔ کتنے ہی برسوں کا فاصلہ دور ہو گیا اور یہ میاں بیوی زندگی کی ایک خفیہ اور پیار بھری کہانی کو روپ دینے لگے۔

    یوں تو ماں باپ کی طے کی ہوئی بات سے وہ شادی کرکے میاں بیوی کے رشتے میں جڑے تھے۔ کوئی پچیس سال کا یہ واقعہ تھا۔ اس وقت ان دونوں کا لڑکپن تھا لیکن ان دونوں نے ایک دوسرے کے مزاج کو سمجھ لیا تھا اور آپس میں کس قدر پیار پیدا ہو گیا، کتنی لگن ابھر آئی تھی ایک دوسرے کے لیے اور جب ان کے یہاں پہلا بچہ پیدا ہوا تھا تو انہیں کس قدر خوشی حاصل ہوئی تھی، جیسے آسمان نے خوشیوں کے خزانے ان پر نچھاور کر دیے ہوں۔ اس پھول جیسی اور گل گوتھنی بچی کی کلکاریوں سے گھر میں روشنی ہی پھیل گئی تھی، کمھلاتی روشنی۔ وہ دوسال میں ہی نوگھنٹے کی مختصر سی علالت کے بعد دفعتاً ختم ہو گئی اور تب خود اپنے صدمے کو چھپا کر سویتا کو ٹوٹنے سے بچانے کے لیے جگجیون کو جیسی بےپناہ کوشش کرنی پڑی تھی اس کا تنہا گواہ یا تو وہ تھا یا پھر وہ بھگوان جس نے اپنا پھول سا عطیہ واپس لے لیا تھا۔

    بیٹی کی موت کے چند دنوں بعد کی وہ رات اسے یاد آئی۔ سویتا روتے روتے ایک دم سے خاموش ہو گئی اور یوں بے حس اور خاموش پڑ رہی جیسے سکتے میں آ گئی ہو اسے رلانے کے لے لیے جگجیون نے لاکھ لاکھ جتن کیے کہ اس کے دل کا غبار نکل جائے۔ اس کے ٹھنڈے اعضا میں دوبارہ گرمی لانے کے لیے اس نے اپنے تن اور من کی انگیٹھیاں دہکا دیں۔ کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔ سارا پیار، تمام ہمدردیاں اور سارے غم سمیٹ کر پلک جھپکائے بغیر اس خاموش اور غم بھرے گھر کی تنہائی میں وہ سویتا کے پلنگ کے قریب بیٹھا رہا۔ بس بیٹھا ہی رہا۔ آدھی رات کے قریب ایک ٹھنڈی آہ کے ساتھ سویتا کی یہ خطرناک خاموشی یکایک ٹوٹ گئی۔ جگجیون نے فوراً اسے اپنی آغوش میں گھسیٹ لیا اور بھیانک آندھی میں موٹے تنے کا سہارا تلاش کرتی ہوئی لتا کی بیل کی طرح ہچکیاں لے کر روتی ہوئی سویتا اس سے لپٹ گئی۔

    صبح بیدار ہوئی تو یوں گھبرا گئی جیسے دن کی روشنی سے خوفزدہ ہو۔ جگجیون سے نظریں ملتے ہی اس نے نظریں جھکا لیں۔ ہائے! یہ کیا ہوگیا، لڑکی کی موت کا سایہ تو بھی گھر میں ہی گھوم رہا ہے اور ہم یہ کیا کر بیٹھے؟ سویتا کے دل کی اس الجھن میں جب جگجیون نے اسے سمجھایا کہ لڑکی یہ گھر چھوڑ کر جانا نہیں چاہتی، اسی لیے تو ایشور نے گزشتہ رات ہم سے ’’یوں کروا دیا‘‘ تو سویتا سوچ میں پڑ گئی اور بے اختیار پوچھ بیٹھی۔ جانے والے لوٹ کر آتے ہیں کبھی؟

    ’’کیوں نہیں آتے؟ اگر نہ آتے تو اور میں اس جنم میں کس طرح ایک دوسرے کے بنتے؟‘‘

    ’’تمہیں یقین ہے کہ پچھلے جنم میں ہم ساتھ ہی تھے؟‘‘

    ’’اور آئندہ جنم میں بھی ساتھ ہی ہوں گے، اس کا مجھے یقین ہے۔‘‘

    اور یہ سنتے ہی سویتا کیسے یقین سے، کیسے اعتقاد سے اور کتنے جوش سے اس کا سہارا تلاش کرتی ہوئی جیسے اس میں سما گئی تھی۔

    جگجیون نے اسے جو دلاسہ دیاتھا وہ صحیح ثابت ہوا۔ کچھ ہی دنوں میں اس کی علامتیں سویتا کے انگ انگ سے ظاہر ہونے لگیں اور اس کے بھولے بھالے دل میں یہ یقین بیٹھ گیا کہ واقعی گزری ہوئی بیٹی واپس آرہی ہے۔ کامیاب زچگی کے بعد جب اسے بتایا گیا کہ لڑکی پیدا ہوئی ہے تو اس کی خوشی کی انتہا نہ رہی۔ بیٹی کی موت کا غم بھلانے کے لیے، اس کے صدمے سے چھٹکارا دلانے کے لیے اور اس زخم کو بھرنے کے لیے ہی بھگوان نے اس رات انہیں دوہ بات سمجھائی تھی۔ جگجیون کی کہی ہوی یہ بات سویتا کو اب سچ معلوم ہوئی۔ اسے یقین ہو گیا کہ واقعی ایسا ہی تھا۔ اس بچی کا نام بھی انھوں نے منورما ہی رکھا۔

    اور جیسا نام تھا ویسی ہی وہ تھی۔ منورما! اس قدر پیاری کہ سب کے دل جیت لے۔ اس کے پیدا ہوتے ہی اس جوان جوڑے کی زندگی میں جیسے نئے اجالے پھیل گئے۔ اس کے پلنے اور بڑھنے کی ایک ایک تفصیل پروہ بحث کرتے اور اس بحث کو بار بار دہراتے وہ کبھی تھکتے نہ تھے۔ منورما چار پانچ برس کی ہوئی تو اس عرصے میں تو اس کے جسم کی کتنی بہت سی چیزیں یادگار بن گئی تھیں، یہاں تکہ اس کی گڑیا بھی صرف جگجیون اور سویتا کے درمیان ہی نہیں بلکہ ہر میل ملاقاتی کے سامنے بھی بحث کا دلچسپ موضوع بن جاتی۔ گڑیا کا نام اس نے ریکھا رکھا تھا۔ لیکن اسے غصہ آتا گڑیا پر تو وہ اسے رکھیلی کہتی۔ کبھی کبھار وہ اسے ڈانٹ بھی دیتی، دھمکاتی اور کبھی اسے ایک چیت بھی رسید کر دیتی اور پھر اسے پچکارتی، لاڈ کرتی۔ زور سے تونہیں لگی میری پیاری بہن، پچ، تو ایسا کرتی ہے تو مجھے غصہ آ جاتا ہے نا؟ اب ایسا نہ کرنا، میں بھی اب تجھے نہیں ماروں گی۔ نہ رو میری۔۔۔ میری اچھی بہن۔ نہ رو، پچ۔

    ایسے سوانگ تو وہ دن میں کئی دفعہ بھرتی جب وہ اپنی سہیلیوں کے ساتھ کھیل رہی ہوتی تو یکایک جیسے یاد آ گیا ہو، یوں کہتی: ریکھا کو بھوک لگی ہوگی۔ رورہی ہوگی اور پھر وہ گڑیا کو اپنے سینے سے لگا کر اسے دودھ پلانے کا تماشا کرتی، گھر میں آتی تو جگجیون اور سویتا ایک دوسرے کی طرف حیرت سے دیکھتے اور پھر مسکرانے لگے۔

    وقت گزرنے لگا تو اس دور کے رواج کے مطابق منورما کی شادی بچپن میں ہی کردی گئی۔ مبارک گھڑی دیکھ کر یہ فرض پورا کر دیا گیا۔ سویتا نے زندگی کی سب سے بڑی خوشی محسوس کی لیکن ساتھ ہی اس خیال سے اس کا دل بھر آیا کہ اکلوتی بیٹی کا سکون تھا۔ نئی زندگی تھی۔ اس وقت بچاری سویتا کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ یہ میٹھا میٹھا درد کچھ ہی دنوں میں ایک دل خراش ٹیس میں تبدیل ہو جائےگا۔ ابھی شادی کے شادیانوں کی آواز فضا میں ہی تھرتھرا رہی تھی کہ منورما بیوہ ہو گئی۔ جگجیون اور سویتا کی پہاڑ جیسی جوانی اس ضرب سے ٹوٹ گئی۔ معصوم اور ارمان بھری بیٹی کو سسرال سے اپنے سائے میں لے کر کسی بھی بحث کے بغیر اور کسی بھی سوچے سمجھے ہوئے مقصد کے بغیر جگجیون اور سویتا نے اپنی زندگی کے نقشے کو نئے سرے سے جمایا۔ گھر کچھ بڑا تو نہ تھا لیکن اتنا چھوٹا بھی نہ تھا کہ علاحدہ کمرے کا انتظام نہ ہو سکتا۔ چنانچہ اب ایک کمرہ سویتا اور منورما کا ہوا۔ انتظام یہ کیا گیا کہ ایک کمرے میں سویتا اور منورما کی چار پائیاں اور دوسرے میں جگجیون کی چارپائی۔ سہاگ کی علامت باقی رکھ کر سویتا نے دوسرے تمام سنگھار ترک کر دیے اور ازدواجی زندگی کے علاوہ ماں باپ منورما سب کچھ دینے اور اس کی ہر آرزو پوری کرنے کے لیے کمر کس کر تیار ہو گئے۔ وہ چاہتے تھے اور ان کی کوشش بھی یہی تھی کہ منورما کسی چیز کی کمی محسوس نہ کرے۔

    حسن کے ڈھیر جیسی بیٹی کے لٹے ہوئے سہاگ کو دیکھ کر سویتا کے دل کی گہرائیوں میں سے بار بار آہیں امڈ پڑتی تھیں۔ ارے، جس نے ازدواجی سکھ دیکھا تک نہیں، ایک اجنبی لڑکے کا ہاتھ جس نے صرف چھوا ہی تھا، اس معصوم کی زندگی یوں ویران ہو گئی۔ اس کلی پر کھلنے سے پہلے ہی خزاں آ گئی۔ یہ کیسی سزا؟ یہ کون سے گناہ کی سزا تھی؟ سویتا کے یہ سارے سوال بے جواب ہی رہے۔ دوسری شادی کی بات تو اس کے دل میں جھانکنے کے لیے بھی تیار نہ تھی لیکن لڑکی کو زندگی بھر دوسروں کا سہارا نہ لینا پڑے، اس خیال سے اسے تعلیم دلوانے کا جگجیون کا مشورہ بھی سویتا نے بڑی مشکلوں سے قبول کیا۔

    اور تعلیم میں منورما بڑی تیز ثابت ہوئی۔ موسیقی کشیدہ کاری، سلائی بنائی اور فنون لطیفہ میں منورما صرف اپنے درجہ میں ہی نہیں بلکہ پورے اسکول میں اول رہی۔ فائنل کے امتحان میں اول نمبر سے کامیاب ہوکر اس نے پورے علاقہ میں اپنی خدادا د ذہانت کا سکہ بٹھا دیا۔ جگجیون اسے آگے اعلیٰ تعلیم دلوانا چاہتا تھا لیکن سویتا اس کے خلاف تھی۔ چنانچہ یہ بات یہیں آکر ختم ہو گئی۔

    جگجیون کی نظر کے سامنے یہ اور دوسرے بہت سے واقعات پردۂ سیمیں پر چلنے والی فلم کی طرح آکر گزر گئے اور پوری طرح سے ٹوٹی ہوئی سویتا کو بےپناہ پیار کا سہارا دے کر اور اپنے سینے سے لگا کر وہ اسے سنبھالنے کی کوشش میں مصروف ہو گیا۔ اس نے کہا، ’’سویتا! جو ہونا تھا سو ہو گیا۔‘

    ’’لیکن منونے ایسا کیوں کیا؟‘‘

    ’’تو ہماری وہ رات بھول گئی۔۔۔‘‘

    شرم سے سویتا کی نگاہیں جھک گئیں اورجھکی جھکی نظروں سے اس نے کہا، ’’لیکن تم نے تو کہا تھا کہ وہ تو بھگوان نے ہی۔۔۔‘‘

    ’’اور وہ میں نے غلط نہیں کہا تھا۔ وہی بات میں ایک بار پھر دہرا رہا ہوں کہ یہ بھی بھگوان نے ہی کیا ہے۔‘‘

    ’’لیکن بھگوان اَدَھر کا (خلاف مذہب) کام کروا سکتا ہے؟‘‘ سویتا کی آواز میں الجھن تھی۔

    ’’کون کہتا ہے کہ اس میں ادھرم ہے۔ اگر مندودری (راون کی بیوی) جیسی عورت ستی سمجھی جاتی ہے تو ہماری منورما تو اس سے کئی گناہ زیادہ معصوم، ہزار گنا پاکباز ہے۔۔۔‘‘

    ’’یہ سب سچ سہی لیکن لوگ۔۔۔‘‘

    ’’جہنم میں جائیں لوگ۔ لوگ لوگ کرکے ہی تو نے منورما کو تعلیم مکمل کرنے نہ دی۔ کب کام آئے لوگ۔‘‘

    اور تکلیف دہ خاموشی میں یہ میاں بیوی منورما کی زندگی کے چھوٹے بڑے واقعات کے بھنور میں غرق ہو گئے۔ جگجیون منورما کی کتابوں میں سے تصویروں کی البم لے آیا۔ پہلی تصویر ایک خوبصورت بیل کی تھی، دوسری میں ایک مرغی اپنے چوزوں کو لے کر دانا چگنے نکلی تھی، چوتھی تصویر میں جھپٹتے ہوئے عقاب سے بچانے کے لیے اپنے بچوں کو پروں تلے لے کر پھول کر کپا بنی ہوئی ایک دوسرے مرغی تھی، پانچویں تصویر بال کرشن جی کی تھی جس میں وہ پیپل کے پتوں پر لیٹے ہوئے انگوٹھا چوس رہے تھے۔ البم کے صفحات پلٹتا ہوا جگجیون بولا،

    ’’یہ تصویریں منوہم کو کس قدر جوش و مسرت سے دکھایا کرتی تھی لیکن ہم دونوں کس قدر بیوقوف ہیں کہ اتنی سی بات نہ سمجھ سکے کہ منوان تصویروں کے ذریعہ اپنے دل کی بات ہم سے کہہ رہی تھی۔‘‘ جگجیون نے ایک ٹھنڈی سانس لے کر نسوار کی ڈبیہ کھولی اور اس میں اس کی چٹکی ٹٹولنے لگا۔ سویتا نے یہ دیکھا اور اسے یاد آیا کہ منورما نے ان دونوں کی زندگی کو اپنی محبت اور خلوص سے کس قدر بےپرواہ بنا دیا تھا۔

    شوہر اور بیوی کی دلی کیفیت کو زبان دیتی ہوئی ان کی باتیں آگے چلیں۔ بیچ بیچ میں جگجیون نسوار کی خالی ڈبیہ میں اپنی ناک ڈبوکر سونگھنے کی کوشش کرتا۔ یہ دیکھ کر ایک بار سویتا ہنس پڑی اورکہا، ’’یہ کیا کر رہے ہو تم، خالی ڈبیہ۔۔۔‘‘

    ’’ہاں بھئی بھول جاتا ہوں کہ ڈبیہ خالی ہے اور اگر خالی ڈبیہ یہ سب کچھ کرواتی ہے تو جوانی سے بھرپور وجود۔۔۔‘‘

    اور اس سے پہلے کہ وہ فقرہ پورا کرتا سویتا اس کی آغوش میں سما گئی۔

    جوانی کو بہت پیچھے چھوڑ کر ادھیڑ عمر کی سرحد بھی بہت جلد عبور کر جانے والے دوسرشاردلوں کا یہ ملن، جو بے دردوقت کی مضبوط فصیل توڑ گیا تھا، سہاگ رات سے بھی زیادہ پرجوش اور بھرپور تھا۔ بدن کی رکاوٹیں ہٹ گئیں، صرف جذبات، پیار اور مامتا کی دل گرما دینے والی لہریں فضا میں تیر گئیں۔ طے ہوا کہ جگجیون منورما اور اس کے محبوب کو خود جاکر بلا آئے اور ان دونوں نے کسی بھی طریقے سے شادی کی ہو، تاہم انہیں لاکر اس گھر کے آنگن میں ویدک رسم سے دونوں کی دوبارہ شادی کرکے خود اپنے ہاتھ سے کنیادان کیا جائے۔ اس فیصلے کے ساتھ ہی یہ ادھیڑ جوڑا، نوبیاہتا جوڑے کی طرح کئی برسوں کے بعد آج پہلی دفعہ بڑے جوش و خروش، بڑی لگن، بےاختیاری اور ایک نئی امید کے ساتھ ایک دوسرے میں مدغم ہو گیا۔

    صبح گیارہ کی ریل سے روانہ ہوکر اور دونوں کو اپنے ساتھ لے کر جگجیون کو واپس آنا تھا۔ اس لیے علی الصبح بیدا رہونے کی تو فکر ہی نہ تھی۔ چنانچہ کافی دن چڑھ آنے کے باوجود سویتا نے تقریباً رات بھر جاگے ہوئے جگجیون کو نہ اٹھایا۔ خود اس کے پہلو میں سے آہستہ سے اٹھ آئی اور چائے بنانے کے لیے باورچی خانے میں چلی گئی۔ وہاں ایک تصویر کے نیچے تھوڑا سا کوڑا پڑا دیکھ کر اسے منورما یاد آ گئی۔ اس تصویر کے پیچھے چڑیاں وقتاً فوقتاً گھونسلا بنایا کرتی تھیں اور منورما اور ان کے ملازم سیتارام کے درمیان دن بھر ٹھنی رہتی تھی۔ سیتارام گھونسلے کے تنکے اور چیتھڑے وغیرہ پھینک دینے پر بضد ہوتا اور منورما چیخ چیخ کر اسے ایسا کرنے سے منع کرتی۔ آخر کار فتح منورما کی ہوئی اور سیتارام کو گھونسلا سلامت رکھنا پڑا۔

    سویتا نے بڑے جذباتی انداز میں تصویر کے نیچے پڑے ہوئے تنکے اور پتیاں اٹھائیں اور انہیں اس تصویر کے پیچھے، جہاں نہ کوئی چڑیا تھی اور نہ بچے اورنہ انڈے، رکھنے لگی اور پھر دل میں ایک عجیب قسم کا گرم جذبہ لیے اور مستقبل کے کسی خواب کی تعبیر کی تلاش میں اس گھونسلے کی طرف پرامید نظروں سے دیکھنے لگی۔ فورا ہی ایک چڑیا چونچ میں ایک تنکا لیے آئی اور تصویر کے پیچھے غائب ہو گئی۔ دوسرے ہی لمحے چڑا چونچ میں دو تنکے دبائے، چوں چوں، کرتا آیا اور وہ بھی تصویر کے پیچھے چلا گیا۔

    اس واقعہ سے مبارک فال لے کر سویتا چائے بنانے میں مصروف ہو گئی اور وہاں کمرے میں بےخبر سوئے ہوئے جگجیون کے ہونٹوں پر خوشگوار مسکراہٹ ناچ اٹھی اور اس نے کروٹ بدل لی۔

    مأخذ:

    گجراتی کہانیاں (Pg. 121)

      • ناشر: نیشنل بک ٹرسٹ، نئی دہلی
      • سن اشاعت: 1979

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے