Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

دوپہر

ساجد رشید

دوپہر

ساجد رشید

MORE BYساجد رشید

    دربار عام کے صدر دروازے پر ایک جم غفیر بادشاہ کا وہ تاریخی فیصلہ سننے کے لیے بے تاب تھا جو آنے و الی نسلوں میں ضرب المثل بننے والا تھا! وزراء بادشاہ کی دائیں طرف کی صف میں اپنی اپنی نشستوں پر دم بخود بیٹھے ہوئے تھے۔ ان کی آنکھیں اس بوڑھے پر جمی ہوئی تھیں جس نے پرانی دھوتی اور پھٹا انگرکھا پہن رکھا تھا۔ بوڑھے کے ساتھ ایک نوجوان عورت بھی تھی، جس نے میلی دھوتی کا ہاتھ بھر لمبا گھونگھٹ کاڑھ رکھا تھا۔ عورت کی گوری کلائیاں اور پیروں کی دودھ جیسی ایڑیاں اس کے خوبصورت ہونے کی ضمانت دے رہی تھیں۔

    بوڑھے مدعی نے بادشاہ کے حضور میں فریاد کی تھی کہ ولی عہد سلطنت نے اس کے گھر کے قریب سے گزرتے ہوئے گھوڑے کی پیٹھ سے اچک کر اس کے آنگن میں جھانک لیا تھا، جہاں اس کی بہو بیٹھی نہارہی تھی۔ ولی عہد نے اس پر اکتفا نہ کرتے ہوئے اپنے سینے پر لگے گلاب کے پھول کو نکال کر بوڑھے کی بہو پر پھینک کر اسے اپنی طرف متوجہ کرنا چاہا تھا۔ آج بوڑھے کی اس فریاد کا فیصلہ ہونا تھا۔۔۔

    بوڑھے کی فریاد اور اس کی بہو کا بیان سننے کے بعد بادشاہ نے چند لمحوں کے لیے خاموشی اختیار کی۔ اس نے درباریوں کو ایک خوفناک شش و پنج میں ڈال دیا تھا۔ وزیراعظم اپنی خونخوار نظروں سے کبھی بوڑھے کو تو کبھی اس کی خوب صورت جوان بہو کو گھورنے لگتا تھا۔ وہ سوچ رہا تھا، بادشاہ کی فراخ دلی اور نرمی نے رعایا کو کچھ زیادہ ہی حساس اور بےباک بنا دیا ہے کہ وہ اب شاہی خاندان پر بھی انگلی اٹھانے کی جرأت کرنے لگی ہے۔

    ادھر صدر دروازے پر کھڑی خلقت سوچ رہی تھی کہ بوڑھے نے اپنے نوجوان بیٹے کے جوش و خروش کے دباؤ میں آکر بادشاہ سے انصاف کا تقاضہ کرکے خود اپنے حق میں کانٹے بولیے ہیں۔ ’’آج بڈھے کی خیر نہیں۔‘‘انہیں لوگوں میں گھرا بوڑھے کا نوجوان بیٹا فیصلے کی گھڑی کا منتظر تھا۔

    بوڑھے کے پیروں میں ایک بے نام سے خوف کے تحت رعشہ آ گیا تھا۔ بادشاہ کی چند لمحوں کی خاموشی اس کے اعصاب پر ہتھوڑے برسا رہی تھی۔ وہ اس لمحے کو کوس رہا تھا جب اس نے بیٹے کے غصے کے رعب میں آکر بادشاہ سے فریاد کی تھی۔ بادشاہ نے کھنکھار کر حلق صاف کیا اور سب کی نظریں بوڑھے کے استخوانی ڈھانچے سے اچٹ کر بادشاہ کے چہرے پر مرکوز ہو گئیں۔ بادشاہ نے بائیں ہاتھ سے دائیں ہاتھ کی درمیانی انگلی میں پھنسی زمردکی انگوٹھی کو دھیرے دھیرے گھماتے ہوئے اپنا فیصلہ سنایا،

    ’’ہمارے نظام میں فرد پر انصاف کو فوقیت حاصل ہے۔ انصاف بادشاہ کے بیٹے سے لے کر گڈریے تک یکساں ہے۔ ہم نے آج تک ملزم کی شناخت اس کے اجداد کی نیک نامی سے نہیں بلکہ ’فرد جرم‘ سے کی ہے، ہمیں غریب بوڑھے اور پاکباز خاتون سے پوری ہمدردی ہے کہ ان کی عزت پر شاہی خاندان کے ایک فرد نے غلط نگاہ ڈالی، جس کی سزا میں ولی عہد کی بیگم بوڑھے مدعی کے اس آنگن میں غسل فرمائیں گی اور جس گھوڑے پر ولی عہد سوار تھے اسی گھوڑے پر اس خاتون کا شوہر بیٹھ کر ولی عہد کی بیگم پر گلاب کا پھول پھینک کر ان پر اسی طرح سے ایک نگاہ غلط ڈالےگا۔‘‘

    بادشاہ کے اس فیصلے کو سن کر درباریوں کو سکتہ طاری ہوگیا۔ شعلہ بار آنکھوں سے گھورتے ہوئے مصاحبوں کے ہاتھوں کی گرفت تلوار کے دستوں پر سخت ہو گئی۔ دیوان عام کے صدر دروازے پر کھڑی رعایا بادشاہ کے اس غیرمتوقع فیصلے کو سن کر جذبات سے بےقابو ہو گئی۔ ’’حضور کا اقبال بلند ہو‘‘کے نعروں سے محل گونج اٹھا۔ رعایا کے اس خیال پر بادشاہ نے آج ثبت مہر کر دی تھی کہ بادشاہ سلامت کے نزدیک رعایا اور شاہی خاندان کی عزت اور وقار میں کوئی امتیاز نہیں ہے۔

    بادشاہ کا فیصلہ سن کر بوڑھے مدعی پر لرزہ طاری ہو گیا۔ شاہی خاندان کی بہو کو مجھ کم ذات کا لڑکا بے پردہ دیکھےگا! نہیں نہیں یہ کیسے ہو سکتا ہے! سیکڑوں برس کی محکومی بوڑھے کے چہرے کی جھریوں سے جھانکنے لگی۔ وہ دونوں ہاتھوں کو جوڑ کر بادشاہ سے بڑی لجاجت سے بولا، ’’حضور کا سایہ ہم غریبوں پر قیامت تک سلامت رہے۔ حضور میں نے ا نصاف پا لیا ہے۔ آپ کے فیصلے نے میرے پرکھوں کی عزت رکھ لی ہے۔ اب مجھے کچھ اور نہیں چاہیے، اب مجھے کچھ اور نہیں چاہیے، کچھ نہیں۔‘‘ کہتے کہتے بوڑھے کی آواز بھرا گئی اور آنکھوں سے آنسو بہہ کر اس کے چہرے کی جھریوں کو سیراب کرنے لگے۔

    بوڑھے کی اس التجا کو سن کر درباریوں نے اطمینان کا سانس لیا۔ مصاحبوں کی گرفت تلوار کے دستوں پرڈھیلی پڑ گئی۔ دربار عام کے صدر دروازے پر کھڑے لوگوں میں سے کسی کے چہرے پر خوشی کے، تو کسی کے چہرے پر غصے کے، تو کسی کے چہرے پر سکون کے تاثرات پھیل گئے۔ بوڑھے کا بیٹا غصے سے تمتمایا چہرہ لیے بھیڑ کو چیر کر باہر نکل گیا۔

    بوڑھا ہاتھ جوڑ کر بادشاہ کے حضور دوہرا ہو گیا۔ درباریوں، مصاحبوں، امرا اور وزراء کے چہرے اندر کی کسی فتح کو محسوس کرکے دمک اٹھے۔ بوڑھے نے بہو کو اپنے ساتھ چلنے کا اشارہ کیا اور الٹے قدموں دربار سے صدر دروازے کی طرف بڑھ گیا۔ بوڑھے کی بہو گھونگھٹ کاڑھے اپنے سسر کے پیچھے گائے کی طرح چل دی۔ جب وہ داروغۂ زنداں کے قریب سے گزری تو داروغۂ زنداں نے اپنی تجربہ کار آنکھوں سے اسے کپڑوں کے اندرتک ٹٹول ڈالا۔

    بوڑھے نے جیسے ہی گھر میں قدم رکھا اس کا بیٹا برس پڑا، ’’تم نے بادشاہ سلامت کے فیصلے کو کاہے نہیں مانا؟ یہی لیے نا کہ بادشاہ کے بیٹے کو سزا ملتی۔ اگر ہماری برادری میں سے کسی کے خلاف ہوتا یہ فیصلہ تو کیا تم ایسے ہی چھوڑ دیتے۔ تم نے۔۔۔‘‘

    ’’آہستہ بولو بیٹا۔۔۔‘‘ بوڑھا پھٹی پھٹی آنکھوں سے آس پاس دیکھتے ہوئے خوف سے بولا، ’’کوئی سن لےگا تو غصب ہو جائےگا۔ بیٹا ہم بہوت چھوٹے لوگ ہیں۔ وہ شاہی خاندان، ہمارے ان داتا یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ۔۔۔‘‘

    بیٹے نے باپ کی بات سے اتفاق نہیں کیا اور غصے سے ہانپتا گھر سے باہر چلا گیا۔

    *

    اس رات بوڑھے، بیٹے اور بہو پر ہی نہیں پورے چمار ٹولے پر قیامت گزری۔ وہ جیپ لے کر چمار ٹولے کی گلیوں میں گھس گئے اور آندھی طوفان کی طرح سارے چمار ٹولے کو روند ڈالا۔۔۔ عورتوں، بوڑھوں اور بچوں میں کوئی تمیز باقی نہیں رکھی۔ عجیب ڈاکو تھے، لوٹ نہیں رہے تھے بس سب کچھ تہس نہس کر رہے تھے۔ مال و اسباب سے لے کر عصمت تک! جو لٹ پٹ رہے تھے خود انہیں پتہ نہیں تھا کہ آخر یہ سب کیوں ہو رہا ہے۔ کون کیسی دشمنی نکال رہا ہے۔ بوڑھے کے کچے مکان میں گھس کر انہوں نے بوڑھے اور اس کے بیٹے کو رائفل کے کندوں سے مار مار کر ادھ مرا کرڈالا۔ دو کڑیل جوانوں نے ان کی مشکیں کس دیں۔ بقیہ دو نے بوڑھے کی بہو کو رائفل کی زد پر لے لیا۔ کمان جیسی گھنی مونچھوں والے موٹے بدشکل آدمی نے نشے میں جھومتے ہوئے بہو کو بے لباس کیا۔ بوڑے نے آنکھیں بند کرلیں اور سر جھکا لیا۔ بوڑھے کے بیٹے نے یک بارگی چھٹ پٹانے کی کوشش کی لیکن اس کے سر پر پڑنے والی بندوق کے دستے کی ضرب اتنی شدید تھی کہ وہ اندھیرے میں ڈوب گیا۔

    *

    ادھر جب سورج پہاڑیوں میں چھپا اور محل پر اندھیرا پھیلا تو مومی شمعیں روشن کر دی گئیں۔ بادشاہ اپنے حرم میں بیگمات کی آغوش میں چلے گئے۔ ولی عہد نے بادشاہ کے مصاحبوں کے ساتھ ناونوش کی محفل سجائی۔ بادشاہ کے مصاحب اس وقت ولی عہد کے مصاحب بن گئے تھے اور ولی عہد کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کر رہے تھے۔ ولی عہد نے نشے سے بوجھل پلکوں کو اٹھاکر وزیر اعظم کی طرف دیکھا۔

    ’’فرمائیے حضور۔۔۔‘‘ وزیر اعظم نے جھکتے ہوئے انکساری کا مظاہرہ کیا۔

    ’’آج تو ابا حضور نے ہماری جان ہی لے لی تھی۔‘‘ ولی عہد کا اشارہ بادشاہ کے فیصلے کی طرف تھا۔

    ’’اگر بوڑھے نے ابا حضور کے فیصلے کو مان لیا ہوتا تو، اف خدایا۔۔۔‘‘

    ولی عہد نے آنکھیں بند کرکے نقرئی جام خالی کر دیا۔

    ’’حضور بادشاہ سلامت نے فیصلہ دے کر اپنی عظیم علمیت کا ثبوت دیا ہے۔ بادشاہ سلامت اچھی طرح جانتے تھے کہ وہ پست ذات بوڑھا جس کی سات پشتوں نے حضور کے اجداد کے جوتے گانٹھے ہیں، اس میں یہ جرأت پیدا ہی نہیں ہو سکتی کہ وہ بادشاہ سلامت کے فیصلے کو عملی جامہ پہنانے کا تصور بھی کر سکے۔‘‘

    وزیر اعظم کا تجزیہ سن کر ولی عہد کی آنکھیں چمک اٹھیں اور وہ ابا حضور کی علمیت کا تہہ دل سے قائم ہو گیا۔

    *

    دس میل کا سفر پیدل طے کرکے وہ تینوں باپ، بیٹے، بہو تحصیل پہنچے ہیں۔ ان کے پاس اتنے پیسے نہیں ہیں کہ وہ یہاں تک بس میں آتے۔ گھر سے چلتے سمے بوڑھے نے کندھے پر انگوچھے میں جو کا ستو باندھ لیا تھا۔ ایک چائے کی دکان پر نل سے پانی لے کر لوٹے میں نمک اور ستو گھول کر باپ بیٹے نے پیا۔ بہو سے لاکھ کہا مگر وہ بھیتر اور باہر کے درد سے سسک سسک کر انکار کرتی رہی۔

    جیٹھ کا سورج سر پر ہے۔ دھوپ کے طمانچے چہروں پر پڑنے لگے ہیں۔ وہ جب پولیس تھانے پہنچے تو سنتری نے بوڑھے کو حقارت اور بہو کو شہوت بھری نظروں سے دیکھ کر پوچھا، ’’کیا بات ہے؟ بلا تکار (زنا بالجبر) کی رپٹ کرنے آئے ہو کا؟ سالے تم چمار لوگن نے دوسروں کو پھنسانے کے لیے بلاتکار کا اچھا بہانہ بنا لیا ہے۔‘‘

    ’’جی سنتری جی۔۔۔ ہم ڈاکووں کے بارے۔۔۔‘‘ بوڑھا تھانے کی سنگلاخ عمارت کو دیکھ کر ہی ڈر گیا تھا۔ اس کی آواز نکل ہی نہیں رہی تھی۔

    ’’ہم کو داروغہ جی سے ملنا ہے۔‘‘ بوڑھے کے بیٹے نے ہمت سے کام لیا۔

    ’’کچھ نذرانہ لائے ہو؟‘‘سنتری نے رعب جماتے ہوئے پوچھا۔

    ’’نذرانہ کیسا؟‘‘بوڑھے کے بیٹے نے حیرت سے پوچھا۔

    ’’نذرانہ نہیں ہے تو کیا اپنی مہریا کو نذرانے میں دوگے؟‘‘ سنتری نے بہو کو اوپر سے نیچے تک گھورتے ہوئے ڈپٹ کر کہا۔

    ’’کون ہے پانڈے؟‘‘ اندر سے کہیں ایک پاٹ دار آواز آئی۔

    ’’داروغہ جی دوئی ٹھو چمار ایک چمارن ہے۔ سسرے کچھ رپٹ لکھانا چاہتے ہیں۔‘‘سنتری اپنی جگہ پر سے ہی چیخا۔

    ’’بھیج دو۔‘‘ وہی آواز آئی۔

    ’’جاؤ، وہ سامنے والے کمرے میں چلے جاؤ۔ داروغہ وہیں آرام کر رہے ہیں۔‘‘سنتری نے ہاتھ اٹھاکر ایک طرف اشارہ کیا۔

    تینوں جھجکتے ہوئے داروغہ جی کے کمرے میں پہنچے۔ بدن سے ننگا، کمان جیسی گھنی مونچھوں والا موٹا، بدشکل آدمی میز پر پیر پسارے ایک دیہاتی سے ہاتھ دبوا رہا تھا۔ اسے دیکھتے ہی بہو کی گھٹی گھٹی چیخ نکل گئی اور وہ بےتحاشہ بھاگ نکلی۔ دونوں باپ بیٹے اس کے پیچھے لپکے۔ دونوں اسے آواز دے رہے تھے مگر وہ دوڑتی ہوئی تھانے کی سنگلاخ عمارت سے باہر نکل گئی۔ انہوں نے اسے بازار میں جا لیا۔ وہ کسی گوریا کی طرح ہانپ رہی تھی۔ اس کی آنکھیں پھٹی ہوئی تھیں۔

    ’’یہ وہی ہے دادا، وہی ہے۔ بھاگ چلو یہاں سے۔ بھاگ چلو۔‘‘ بہو نے کانپتے ہوئے جلدی جلدی کہا۔ باپ، بیٹے دونوں کی آنکھوں میں رات کی شکلیں واضح ہونے لگیں۔۔۔

    وہ تینوں گاؤں جانے والی سڑک پر چلچلاتی دھوپ میں ننگے پیر چل رہے تھے۔ سڑک کے دونوں کناروں پر پھیلے سوکھے کھیت دھوپ سے جل جل کر ہانپ رہے تھے۔

    ’’دادا ہمیں ایسے چپ نہیں بیٹھنا چاہیے۔‘‘ کچھ دیر بعد بوڑھے کے بیٹے نے رک کر پھنکارتے ہوئے کہا۔

    ’’تب کیا کیا جائے بیٹا؟‘‘ بوڑھے نے سہمی نظروں سے بیٹے کے ارادے کو بھانپنا چاہا۔

    ’’ہم عدالت میں جائیں گے۔ جج صاحب سے انصاف مانگیں گے۔ ان لوگوں کو ایسے چھوڑ دینا پاپ ہوگا۔‘‘

    بہو یکبارگی چونک پڑی۔ بوڑھا گھبراکر بیٹے کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بولا، ’’نہیں بیٹا نہیں۔۔۔ کیا پتہ وہاں بھی یہی سب۔۔۔ جج ساب بھی۔۔۔ نہیں بیٹا نہیں۔‘‘ بوڑھے کی آنکھوں سے آنسو بہہ کر دھوپ سے تپتے چہرے کی جھریوں میں جل گئے۔

    وہ تینوں تھکے ہارے آگ برساتے آسمان کے نیچے اور تپتی زمین کے اوپر ایک نہ ختم ہونے والی سڑک پر دھیرے دھیرے چلے جا رہے ہیں۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے