Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

دوزخی

شانی

دوزخی

شانی

MORE BYشانی

    میں دبے پاؤں داخل ہوا۔ باہر کا گیٹ میں نے دھیرے سے کھولا، ایسے کہ آواز نہ ہو۔ گھر کے سامنے کا دروازہ اُڑکا ہوا تھا، ہمیشہ کی طرح۔ میں نے اسے بھی دھیرے سے دھکیلا۔ اصل میں، میں جمیل کے سامنے بالکل اچانک آنا چاہتا تھا، دل کے دورے کی طرح۔

    یہ بھوپال جیسے شہر کی دوپہری تھی، ڈھلتی ہوئی۔ دن میں سوناپن اور آلکس تھا کہ اکثر لوگ سورہے تھے۔ میں جانتا تھا کہ جمیل کے گھر پر ملنے کا وقت ہے۔ شہر اور اس کے اپنے مزاج ہی کے لحاظ سے نہیں، اس کے کام کے اعتبار سے بھی۔ اس کا کالج صبح شام لگتا تھا اور ساری دوپہر خالی رہتی تھی۔

    جمیل دیوان پر لیٹا ہوا تھا، دیوار کی طرف منھ کیے۔ آہٹ سے چونک کر جب اس نے دیکھا تو ایک آدھ پل بس دیکھتا ہی رہ گیا۔ حیران۔ پھر ’’ارے‘‘ کہتا ہوا ہڑبڑاکر اٹھا اور ہم دونوں لپٹ گئے۔ اس کی جکڑ زبردست تھی۔ بانہیں اس کی لمبی اور مضبوط تھیں اور ہتھیلیاں جیسے میری پیٹھ میں دھنس جانا چاہتی تھیں، گوشت پوست کو چھیدتی ہوئی۔ پہلی بار لگا کہ ہاتھ کی انگلیاں بھی بولتی ہیں۔

    ’’کب آیا؟‘‘ کئی پل بعد اس نے گردن ہٹاکر پوچھا، لگ بھگ رندھے ہوئے لہجے میں۔ اس کا چہرہ اب بھی میرے اتنے پاس تھا کہ دونوں ایک دوسرے کو دیکھ نہیں پارہے تھے۔

    ’’صبح۔‘‘ میں نے کہا، ’’دکھن ایکسپریس سے۔‘‘

    الگ ہوئے۔ بیٹھے۔

    ’’میں آج صبح ہی یاد کر رہا تھا۔‘‘ وہ بولا، اور گاؤتکیے سے ٹک کر میری طرف دیکھنے لگا۔ وہ ایسی بھرپور نظر تھی جس میں آپ سمولینا چاہتے ہیں سب کچھ۔ تبھی بغل والے کمرے کا پردہ ہٹاکر بیوی کنیز آئی، ہنستی ہوئی۔ سلام کیا۔ پاس بیٹھی۔ بولی۔ پوچھا۔ خوش ہوئی۔

    ’’باجی کیسی ہیں؟‘‘ میں نے کنیز سے کہا، ’’ان سے میرا سلام۔۔۔‘‘

    ’’نماز پڑھ رہی ہیں۔‘‘ وہ اندر دیکھتی ہوئی بولی، ’’اور تمہارے لیے کیا لاؤں؟ پہلے کھانا کھالو۔‘‘

    ’’اس وقت؟‘‘ میں ہنسنے لگا، ہمیشہ کی طرح۔ میں جانتا تھا کہ آخر وہ کھانا لائے گی اور میں کھاؤں گا۔ وہ اٹھ کر اندر چلی گئی۔

    ’’اب باجی کی طبیعت کیسی رہتی ہے؟‘‘ میں نے جمیل سے پوچھا۔

    باجی کا تخت باہرہی سے دِکھتا ہے، اور گھر میں داخل ہوتے ہوئے میں نے دیکھ لیا تھا کہ وہ نماز پڑھ رہی ہیں۔ سوال جیسے بے چین کردینے والا تھا۔ جمیل سگریٹ کا پیکٹ ٹٹولنے لگا۔ ملاتو ایک جلائی اور میری طرف دیکھ کر سرہلادیا، یعنی بس ٹھیک ہے، اور پھیکے پن سے مسکرایا۔ باجی، بھائی جان، یعنی ماں، باپ۔ باجی کئی مہینوں سے بیمار چل رہی تھیں، گھر پر ہوئے نئے حادثے سے بھی پہلے۔ شاید تبھی سے، جب ایک دن بھائی جان اچانک نہیں رہے تھے۔ رات کو وہ ٹھیک ٹھاک آئے تھے، لیکن صبح نہیں اٹھے، بس۔

    ’’کون ہے اَلّن؟‘‘ اندر سے آواز آئی۔ وہ شاید مصلے سے اٹھ رہی تھیں۔ الن، یعنی جمیل۔ جمیل نے میرا نام بتایا۔ کہا کہ میں دلی سے آیا ہوں، سلام کر رہا ہوں۔ انہوں نے وہیں سے دعائیں دیں۔ بہت تھکی ہوئی آواز میں۔ پھر کچھ دیر بڑبڑاتی سی رہیں۔ کیا؟ یہ میری سمجھ میں نہیں آیا۔ سامنا کرنا میرے بس کی بات نہیں تھی۔

    ’’اور؟‘‘ تھوڑی دیر بعد جمیل نے مجھے واپس لاتے ہوئے کہا، کہیں اور لے جانے کے لیے۔

    ’’تیری دلّی کیسی ہے؟‘‘

    ’’میری؟‘‘

    جمیل مسکرایا۔

    دلّی ایک دوزخ ہے، میں پہلے اکثر کہا کرتا تھا۔ چار سال پہلے جب میں اس شہر سے نکالا گیا تھا تو میرے من میں بہت تلخی تھی۔ یہ دیس نکالا پچھلی سرکار کی عنایت تھی، اور میرے لیے یہ بھولنا مشکل تھا کہ میں دلّی آیا نہیں، پھینکا گیا ہوں۔ اب وہ بات نہیں رہی، لیکن نہ تو میں دلی کا ہوسکتا ہوں اور نہ دلّی میری۔ جمیل یہ جانتا تھا۔

    ’’چل، میرٹھ کی مارکاٹ کی سہی۔ کیا حال ہیں؟‘‘

    ’’وہاں فساد کی تاریخ بہت پرانی ہے۔‘‘ میں نے کہا، ’’سن سینتالیس سے بھی پرانی۔ نیا میں کیا بتاؤں؟ وہی کہہ سکتا ہوں جو اخباروں میں ہے۔ ہاں، سناہے مراد آباد اور علی گڑھ میں بہت تناؤ ہے۔‘‘

    ’’تجھے اخباروں پر بھروسا ہوتا ہے؟‘‘

    میں چپ ہوگیا۔

    ’’جولوگ دہانے پر بیٹھے ہیں وہ جانتے ہیں۔‘‘ اس نے کہا۔

    ’’کہاں ہے دہانہ؟‘‘

    ’’دلّی دہانہ نہیں ہے؟ ملک کا، میرٹھ کا جمشید پور یابھاگل پور کا؟‘‘

    میں کمرے کی دیواروں کو دیکھنے لگا، جن میں کئی طرح کی پینٹنگز لٹکی ہوئی تھیں، کنیز کی بنائی ہوئی۔ ان میں حسین اور میبار کاملا جلا اثر واضح تھا۔ ظاہر ہے کہ میں بچنا چاہتا تھا۔ شاید ہم دونوں بچنا چاہتے تھے، اس بات سے جس کے چھڑ جانے کا ڈر ہم دونوں ہی کو تھا۔

    ’’تیری پرانی شکل لوٹ آئی ہے۔‘‘ جمیل نے بات پلٹتے ہوئے کہا، ’’پچھلی بیماری میں جانے وہ کہاں چلی گئی تھی۔‘‘

    ’’یہ ہارٹ اٹیک کی دین ہے۔‘‘ میں نے کہا اور بناوٹی ہنسی ہنسنے لگا جیسے میں کوئی قلعہ جیت لیا ہوں۔

    ’’اب تو تو بالکل ٹھیک ہے نا؟‘‘ اس نے پوچھا۔

    ’’بالکل کا تو پتا نہیں۔ ہاں، ٹھیک ضرور ہوں۔ اتنا ہی ٹھیک جتنا دل کے مریض رہتے ہیں۔‘‘

    اور یہ کہنے کے ساتھ ہی مجھے لگا کہ میرے لہجے میں خود رحمی آگئی ہے۔ میں نے پرانے، بے نیازی کے انداز پر لوٹتے ہوئے کہا، ’’اصل میں اب میں نے پروا کرنا چھوڑ دیا ہے۔ جب آنا ہے آجائے گی۔ تب نہ ڈاکٹروں کے چلتے رکے گی نہ میرے رکے۔‘‘

    ’’بہت دنوں تک یہاں کسی کو پتا نہیں تھا۔‘‘ جمیل نے کہا، ’’افواہ کی طرح خبر آئی تھی کچھ الٹی سیدھی۔ ہم لوگوں نے گھبراکر دلی فون کیا تھا، لیکن تمہارے وہاں کے دوستوں نے کہا کہ ویسی کوئی بات نہیں ہے۔ اسپتال میں ضرور ہے، انٹنسوکیئر یونٹ میں بھی ہے، لیکن ہارٹ وارٹ کا معاملہ نہیں ہے۔ وہ تو دلی سے تجھے دیکھ کر لوٹے پنکج نے بتایا کہ سب کچھ کتنا سیریس تھا۔ یہ ہوا کیسے؟‘‘

    ’’اسی طرح جیسے ہوتا ہے، اچانک۔‘‘

    ’’گھر پر؟‘‘

    ’’نہیں، دفتر میں۔‘‘

    ’’کیسے؟‘‘

    ’’میں باتیں کر رہا تھا ایک ملنے والے سے۔ یکایک مجھے بے چینی سی ہوئی۔ سینے میں جکڑن اور درد کے بگولے اٹھ آئے اور میں پسینے میں شرابور ہوگیا۔ میری آواز بالکل مدھم ہوگئی تھی۔ دل ڈوبنے لگا تھا۔ میں اٹھنا چاہتا تھا مگر مجھ میں دم نہیں تھا۔ میں بیٹھے رہنا چاہتا تھا لیکن اتنی بے چینی اور گھبراہٹ کہ تھوڑی ہی دیر میں میں فرش پر لیٹا چھٹپٹا رہا تھا۔۔۔‘‘

    کہتے کہتے میں رک گیا، کیوں کہ جمیل کے چہرے پر ایک رنج میں صاف صاف دیکھ رہا تھا، جو میں چاہتا تھا۔ مجھے خوشی تھی کہ میری جس اذیت کو یہاں معمولی ڈھنگ سے لیا گیا تھا، میں اس کا حساب برابر کر رہا ہوں۔ دلّی کے اپنے دوستوں کے رویے پر غصہ آرہا تھا سوالگ۔ یہ ٹھیک ہے کہ ایک مصلحت کے تحت میری بیماری کی سنجیدگی کو چھپایاگیا تھا، لیکن اس مصلحت نے مجھے اس سب سے یہاں محروم کردیا تھا جو میں چاہتا تھا۔ لگ بھگ ایک سال کے بعد میں اس شہر میں وارد ہوا تھا، ایک ایسے آدمی کی طرح جو نایاب ہوتے ہوتے یکایک رہ گیا تھا۔

    ’’تمہیں یاد ہے میں نے تغریت کا خط تمہیں کب لکھا تھا؟ وہ سات اپریل کا دن تھا، اور کوئی گھنٹہ بھر پہلے میں نے تمہیں لکھا تھا۔ تب میں نے سوچا بھی نہیں تھا کہ تھوڑی ہی دیر بعد میں بھی اسی راستے پر پہنچ جاؤں گا جہاں سے حسین کبھی نہیں آیا۔‘‘

    تبھی اندر سے کنیز نکل آئی اور میرے سامنے کباب، روٹیاں، رکابی رکھتے ہوئے بولی، ’’لو کھاؤ!‘‘ پھر ایک اسٹول کھینچ کر سامنے ہی بیٹھ گئی۔ پہلا ہی لقمہ توڑتے ہوئے مجھے لگا کہ حسین کا نام مجھے نہیں لینا چاہیے تھا۔ شاید میں چاہتا بھی نہیں تھا، بس بات کی روتھی۔ لیکن کیوں نہیں؟ کیا میں پُرسے کے لیے نہیں آیا تھا؟ پرسہ، وہ بھی حسین کا! یہ وہ آدمی تھا جو ابھی کل تک اسی شہر میں دوسروں کے پُرسے کے لیے جایا کرتا تھا اور نہیں جانتا تھا کہ اسے کیا کہنا چاہیے۔ وہ چپ چاپ بیٹھ جایا کرتا تھا، سونی آنکھوں سے ایک طرف دیکھتا رہتا۔

    خبر یہ بھی مجھے دفتر سے ملی تھی، دلی میں۔ جمیل نے نہیں دی تھی۔ اس شہر سے بھی نہیں گئی تھی۔ برہان پور سے سید محمود نے لکھا تھا،

    ’’تمہیں یہ جان کر بہت صدمہ ہوگا۔۔۔‘‘ اس نے خط میں کہا تھا، ’’کہ ہم دونوں کے عزیز دوست حسین احمد صدیقی کا نائیجریا میں انتقال ہوگیا۔ ان کا ہارٹ فیل ہوگیا تھا۔ نسرین بھابھی ان کی میت لے کر بھوپال آئی تھیں اور اسے دفناکر میں کل لوٹا ہوں۔ ہم لوگوں کا جو ہونا تھا وہ ہوا، لیکن سوچو کہ تین چھوٹے چھوٹے بچوں کے ساتھ رہ گئی ایک جوان عورت کے ساتھ جو ناانصافی ہوئی ہے، کیا اس کی کوئی تلافی ہوسکتی ہے۔‘‘

    بڑی دیر تک میں خط لیے بیٹھا رہ گیا تھا۔ میں نے اسے کوئی تین بار پڑھا تھا اور حسین کے نام پر پانچ بارنظر ڈالی تھی۔ میں یقین کرنا چاہتاتھا، لیکن ہو نہیں رہا تھا۔ اور جب ہوا تو اس پل کے ہزارویں میں راحت اور چھٹکارے کی سانس تھی۔ پھر میں نے دکھ کو دھیرے دھیرے سمیٹ کر اپنے اندر اکٹھا کیا تھا اور ایک دم دکھی ہوگیا تھا۔

    ’’یہ بھی کوئی بات ہوئی!‘‘ میں اس کے بعد ہر آنے والے کو بتا کر کہہ رہا تھا، ’’کیا یہ اس کی جانے کی عمر تھی، اور وہ بھی دل کے دورے سے! وہ تو مجھ سے بھی دوسال چھوٹا تھا۔ وہ خدا سے خوف کھانے والا اور پرہیزگار آدمی تھا اور سگریٹ تک نہیں پیتا تھا۔‘‘

    یہ سب کہتے ہوئے یا تو میں ڈرا ہوا تھا یا شاید اپنے ڈر کو دور کر رہا تھا، حالاں کہ دفتر سے گھر لوٹنے تک بھی اس سے پیچھا نہیں چھوٹا تھا۔ وہ کہیں اتنے اندر پہنچ کر بیٹھ گیا تھا کہ اس نے مجھے ایکا ایک چپ کر دیا۔ خبر یہ گھر کے لیے بھی بڑی تھی، لیکن میں نے اس دن بیوی سے بھی نہیں کہا۔ اس ڈر سے کہ گھر پر بھی دیر تک وہی ذکر ہوتا رہے گا اور رات کو حسین کا چہرہ مجھے سونے نہیں دے گا۔ اس رات میں سو تو گیا، لیکن حسین نے تنگ برابر کیا۔ اس کا چہرہ چاروں طرف سے آکر مجھ پر حملہ کرتا تھا اور خواب میں ساری رات اس کی میت دکھائی دی، کئی دن پرانی میت۔ یہ اس دن ہی نہیں، اگلے دن بھی ہوا تھا اور اس کے اگلے دن بھی، حالانکہ میں کسی سے کچھ بھی نہیں کہہ رہا تھا۔ تعزیت کاخط بھی تین دن ٹالنے کے بعد میں نے جمیل کو لکھا تھا، اور میں بھی حسین کی طرح نہیں جانتا تھا کہ پُرسے میں کیا کہنا چاہیے۔

    بات عجیب سہی لیکن سچ یہ ہے کہ حسین میرا دوست نہیں رہ گیا تھا، خاص کر اِدھر کے برسوں میں، جب وہ نائیجریا چلا گیا تھا، یا شاید اس سے بھی پہلے جب میں دھیرے دھیرے اس کے چھوٹے بھائی کا دوست ہوگیاتھا۔

    پندرہ برس پہلے جب میں بھوپال آیاتھا تو دوستی اسی سے ہوئی تھی۔ دونوں بھوپال میں باہر سے آئے ہوئے تھے اور وہاں ہمارا کوئی گھر نہیں تھا۔ حسین میں ایک خاص طرح کی مردانہ کشش تھی، سیدھے اپنی طرف کھینچ لینے والی۔ وہ لمبا اور چھریرا تھا اور ہلکے ہلکے گنجا ہو رہا تھا۔ پہلے ہی دن میں نے دیکھ لیا تھا کہ وہ ایک مہین احساسات والا ایسا غصیل اور خودپسند آدمی ہے جو اپنے آپ پر بھی ہنس سکتا ہے۔ وہ چھوٹے چھوٹے اور خوب صورت مبالغے کرتا تھا کہ کوئی بھی ہنستا ہنستا اس کا ہوجاتا تھا۔ تب ہم لوگ پرانے بھوپال کی امیرگنج گلی میں رہتے تھے اور جوان تھے۔ حسین ایک پرائیویٹ کالج میں سائنس پڑھاتا تھا اور میں ایک دفتر میں قلم گھسیٹ رہا تھا۔ محلہ پرانے رئیسوں اور امیروں کا تھا اور ہم جیسے پھٹے حال اکا دکا ہی پڑے ہوئے تھے، اپنے اپنے منھ چھپائے ہوئے۔

    اصل میں ہم دونوں کی دوستی دوتنگ دست، کندذہن اور غصیل آدمیوں کا ایسا میل تھا جو دونوں کو راحت دیتا تھا۔ ریجھا پہلے میں تھا، بعد میں اسے رجھالیا تھا، حالانکہ ہم دونوں الگ الگ قماش کے لوگ تھے۔ وہ سائنس پڑھاتاتھا، دقیانوس اور مذہبی تھا اور ہنسی ہنسی میں اپنے کو جنتی کہتا تھا۔ میرا سائنس سے کوئی لینا دینا نہیں تھا، لیکن میں اسی کے سہارے اپنے کو جدید لگتا تھا اور ترقی پسند بنا ہوا تھا، حسین کا فتویٰ سرماتھے پر لیے ہوئے کہ میں دوزخی ہوں۔ سچائی یہ ہے کہ ہم دونوں ایک دوسرے کو دوزخی سمجھتے تھے اور دونوں مل کر اس تیسرے کو جو ہمارے بیچ نہیں تھا اور جسے ہم کادو کہتے تھے۔

    ’’تم مکار ہو۔۔۔‘‘ ایک بار اس نے غصے سے دیکھتے ہوئے مجھ سے کہا تھا، ’’اول درجے کے پاکھنڈی اور دوغلے۔۔۔‘‘

    ’’کیوں، کیا تم سے بھی بڑا؟‘‘

    ’’ہاں، میں تو تمہارے پاؤں کی دھول بھی نہیں ہوں۔‘‘

    ’’وہ تو تم ویسے بھی نہیں ہو!‘‘ میں نے ہنس کر اُڑانا چاہا تھا۔

    ’’تم دونوں جہانوں کے مزے مارنا چاہتے ہو۔‘‘ اس نے قریب قریب بال نوچتے ہوئے کہا تھا، ’’دہریے وہریے کچھ نہیں، سب تمہارا ڈھونگ ہے!‘‘

    ’’تمہارے جنتی ہونے سے بھی بڑا ڈھونگ؟‘‘ میں نے مخالفت کی تھی، ’’کیوں ناحق فاقے کرتے ہو یار!‘‘

    میں اکثر کہا کرتا تھا کہ جو سچ مچ روزے دار ہوتے ہیں، وہ سحری کے بعد افطار اور افطار کے بعد سحری کی فکر نہیں کیا کرتے۔ جو لوگ رمضان کے دنوں میں صبح شام تھیلی لیے بازار بھاگتے نظر آتے تھے، کبھی مرغ تو کبھی تیتر کے لیے، کبھی لوے تو کبھی بٹیر، کبھی مچھلی تو کبھی بریانی کے لیے، میں ان کا مذاق اڑاتا تھا۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ اس سے حسین کو چوٹ لگتی ہے، کیوں کہ میں یہی چاہتا تھا۔

    ’’تم نہ ہیؤں میں نہ شیعوں میں، نہ یہاں نہ وہاں۔ اللہ تم پر رحم کرے!‘‘ وہ مجھ سے کہتا تھا۔

    یہ صرف ایک دن کی بات نہیں تھی۔ اکثر ہم دونوں کسی نہ کسی ایسی بات پر لڑتے تھے۔ غصے میں ایک دوسرے سے کبھی نہ بولنے کی دھمکی دیتے تھے، لیکن اگلے ہی دن پھر ملتے تھے، پھر سے لڑنے کے لیے۔

    یہ وہ دور تھا جب ملک میں فساد کی فصل آئی تھی اور ایک کے بعدایک کئی شہروں میں دنگے ہو رہے تھے۔ جبل پور، الہ آباد، جل گاؤں، احمد آباد، جمشید پور اور۔۔۔

    ہم لوگ بھوپال جیسے شہر میں رہ رہے تھے، جس میں فساد کی کوئی تاریخ نہیں تھی، پھر بھی ڈرے ہوئے تھے، کیوں کہ شہر میں تناؤ تھا۔ سرکار چوکس ہوگئی تھی۔ جگہ بے جگہ پولیس اور ہوم گارڈ کے جوان تعینات تھے۔ روز افواہیں اڑتی تھیں اور باہر سے روز خبریں آتی تھیں، ہیبت ناک خبریں۔ برسوں سے ساتھ رہتے آئے ہندومسلمان ایک دوسرے کو شک بھری نظروں سے دیکھنے لگے تھے اور چھوٹے چھوٹے گروہوں میں بٹ گئے تھے۔

    ’’دیکھ لو۔۔۔‘‘ ایک ایسی ہی شام حسین نے گھبرائے ہوئے لہجے میں کہا تھا، ’’حیوان کے بچوں نے ملک کا بٹوارا کرکے کیا کردیا ہے!‘‘

    اس نے صبح کے اخبار میں کچھ اور دل دہلانے والی خبریں پڑھ لی تھیں۔ اس کا شیو بڑھا ہوا تھا اور بال روکھے تھے، اڑے اڑے سے۔ وہ اور دنوں سے زیادہ گنجا لگ رہاتھا۔

    ’’اب یہ ملک رہنے لائق نہیں رہا!‘‘ وہ بولا، ’’کسی دن ہم لوگ بھی کاٹ کر پھینک دیے جائیں گے اور کوئی رونے والا نہیں ہوگا۔‘‘

    ’’کیوں، میں جو ہوں!‘‘ میں نے ہنس کر کہا۔ دراصل میں اپنے اور اس کے ڈرکو ہنس کر اڑانا چاہتا تھا، اندھیرے میں گائے جانے والے گیت کی طرح۔

    ’’تم بھی نہیں ہوگے۔‘‘ اس نے آنکھ تریر کر تلخی سے جواب دیا، ’’کل جب کافروں کا جتھا گنڈاسے اور خنجر لے کر تمہارے دروازے پر آئے گا، تب کوئی نہیں پوچھے گا کہ تم کیا سوچتے ہو یا تمہارے خیالات کیا ہیں! پہچان کے لیے تمہارا نام کافی ہے۔‘‘

    ’’تم تو کہہ رہے تھے کہ پہچان کے لیے صرف نام کافی نہیں ہوتا؟‘‘

    ’’وہ اور بات تھی۔ دوسرے سلسلے میں کہی گئی تھی۔ مسئلوں کو گڈمڈ مت کیا کرو۔ میں جانتا ہوں تم چالاکی کر رہے ہو۔‘‘

    ہاں، میں چالاکی کر رہا تھا، جان بوجھ کر انجان بنے رہنے کی چالاکی، سچائی سے ڈر کر بھاگ کھڑے ہونے کی چالاکی۔ میں حسین سے بالکل متفق نہیں ہونا چاہتا تھا، کیوں کہ اس کی بات ماننا اپنے پاؤں کے نیچے کے اس ٹیلے کو کاٹنا تھا جس پر میں کھڑا تھا۔

    اس بیچ ایک ایسی بات ہوئی جس کے بارے میں، میں نے کبھی سوچا نہیں تھا۔ حسین اچانک میرے لیے نایاب ہوگیا تھا۔ صبح اس کا کالج ہوا کرتا تھا، دوپہر میں میرا دفتر۔ ایک شام ہی کا وقت تھا جس میں ہم اکثر ملا کرتے تھے، لیکن ادھر وہ کئی شاموں سے غائب تھا۔ میرے لیے حسین کا گھر اجنبی نہیں تھا۔ جمیل بھی میرے لیے نیا نہیں تھا۔ میں جانتا تھا کہ وہ حسین کا چھوٹا بھائی ہے اور اسی کالج میں پڑھتا ہے۔ جب میں حسین کے یہاں گپ شپ، چائے یا کھانے پر ہوتا، اکثر جمیل بھی ہوا کرتا تھا۔ یہاں تک کہ اس کے باپ (بھائی جان) بھی۔ وہ اس لحاظ سے عجیب گھر تھا کہ یہاں پہنچ کر کسی بھی دوست یا مہمان سے پورا گھر ملتا تھا اور سبھی لوگ بات چیت میں شریک ہوتے تھے۔ مجھے بھائی جان کا اپنے بیچ ہونا کئی بار کھلتا تھا، کیوں کہ اس سے ہماری آزادی چھنتی تھی، لیکن جمیل کا ہونا مجھے اچھا لگتا تھا۔ دراصل میں جمیل کو شروع سے پسند کرتا تھا۔

    اب سوچتا ہوں تو لگتا ہے کہ جمیل کا پہلے مجھ سے نہ ٹکرانا یا حسین کے وسیلے سے ملنا محض ایک اتفاق تھا، ورنہ شاید میں سیدھے اسی کا دوست ہوتا۔ یہ بات تب بھی لگی تھی، جب میں حسین کا اتا پتا کرنے کئی بار اس کے گھر گیا تھا اور وہ مجھے نہیں ملا تھا۔ پھر میں دھیرے دھیرے حسین سے کٹ گیا تھا۔

    ’’حسین بھائی سے آج کل شام کو ملنا مشکل ہے۔‘‘ میری دو تین بار کی مایوسی کے بعد جمیل نے بتایا، ’’دراصل یہ اور سید محمود اسی چکر میں ہیں۔‘‘

    ’’کس چکر میں؟‘‘

    ’’تعجب ہے کہ آپ کو نہیں پتا! کیا آپ نہیں جانتے کہ دونوں باہر نکلنے کی جگاڑ میں ہیں؟‘‘

    ’’باہر یعنی؟‘‘

    ’’باہر یعنی کہیں بھی۔ مڈل ایسٹ، لیبیا، افریقہ۔ وہاں جہاں جاب ملے، اچھے پیسے ملیں۔ سید محمو دکی تو مجبوری ہے، ایسے کالج کی ماسٹری میں وہ ویسے ہی کنگال ہے۔ چار چار بیٹیاں سر پر بیٹھی ہیں اور بیٹا پولیو کا شکار ہے۔ حسین بھائی کا یہ ہے کہ وہ بہتر زندگی چاہتے ہیں۔‘‘

    سید محمود تب بھوپال میں تھا اور اسی کالج میں پروفیسر تھا۔ وہ ہم تینوں کا دوست تھا، لیکن کسی کے ہاتھ نہیں آتا تھا کیوں کہ وہ ہروقت جلدی میں ہوتا تھا، ایک ایسی بے چینی بھری جلدی جو اسے کہیں دوپل سے زیادہ ٹکنے نہیں دیتی تھی۔ وہ آتا تو بیٹھتا نہیں تھا، بیٹھتا تو پرتولنے لگتا تھا، اور سچ تو یہ ہے کہ اس کے آتے ہی یہ دھڑکا لگ جاتا تھا کہ وہ کسی بھی پل چلاجائے گا۔ حسین کی اس سے دوستی ایک حدتک پیشے کی وجہ سے تھی، لیکن مزاج کے لحاظ سے وہ میرے زیادہ نزدیک پڑتا تھا۔ پھر بھی مجھے تعجب نہیں ہوا، کیوں کہ دونوں ایک ہی مقصد کے لیے اکٹھے تھے، بھلے ہی کارن الگ الگ ہوں۔

    ’’کیوں، بھاگ لیے؟‘‘ کئی دنوں کے بعد جب حسین پکڑ میں آیا تو میں نے اسے دھر دبوچا۔ حسین نے مجھے اسی اندازسے دیکھا جس میں اس کی چھوٹی موٹی آنکھیں گول ہو کر نکیلی ہوجاتی تھیں اور مغرور لگتی تھیں۔۔

    ’’کون بھاگ رہا ہے؟‘‘

    ’’تم، اور کون!‘‘

    ’’میں بھاگ نہیں رہا، جارہا ہوں۔‘‘

    ’’ایک ہی بات ہے۔‘‘

    ’’ایک ہی بات نہیں ہے!‘‘ اس نے زور دے کر کہا، ’’بھاگنے والے پاکستان میں ہیں اور وہ کبھی لوٹ کر نہیں آئیں گے۔‘‘

    ’’تم کون لوٹ کر آنے والے ہو!‘‘

    ’’کیوں، کیا میں کالے حبشیوں کے بیچ مرنے جارہا ہوں؟‘‘

    ’’کیا پتا؟‘‘

    ’’تم جیسے دوست تو یہی دعا کریں گے۔ کرو!‘‘

    ’’میدان تو چھوڑ ہی رہے ہو۔‘‘

    ’’دوچار سال کے لیے گھر سے نکلنا میدان چھوڑنا ہے؟ بھاگنا ہے؟‘‘ اس نے بوکھلا کر کہا، ’’میں اپنے اور اپنے بچوں کے مستقبل کے بارے میں کچھ نہ سوچوں؟ یہیں پڑا سڑتا رہوں؟ اپنے آس پاس لچوں، لفنگوں، بدکاروں اور بدمعاشوں کو پنپتاہوا دیکھتا رہوں؟ روز کڑھوں؟ روز لہو جلاؤں؟‘‘

    ’’مستقبل اور بچے تو میرے بھی ہیں۔‘‘ میں نے کہا۔

    ’’تم اگر کیچڑ میں پڑے رہنا چاہتے ہو تو کوئی کیا کرسکتاہے!‘‘ وہ بولا، ’’نہ تو تم اوپر اٹھ سکتے ہو نہ اٹھنا چاہتے ہو۔‘‘

    ’’پیسوں کے پیچھے بھاگنا اوپر اٹھنا ہے؟‘‘

    ’’یہ بیماروں، نکموں اور بزدلوں کی فلاسفی ہے!‘‘ اس نے چلاکر کہا، ’’اسے تم اپنے ہی پاس رہنے دو۔‘‘

    اور وہ تیزی سے چلاگیا۔

    نائیجیریا جانے سے پہلے حسین سے یہ میری آخری بات چیت تھی، کم سے کم اس سلسلے میں۔ اس کے بعد ہم ملے ضرور، لیکن ہر ملاقات سرسری تھی اور ہماری باتوں کا کوئی مطلب نہیں تھا۔ ویسے بھی تب تک ہم ایک دوسرے سے کٹ چکے تھے۔ پھر ایک دن سنا کہ وہ چلا گیا، مجھ سے ملے بنا اور مجھے کہیں گہرائی میں زخمی کرتا ہوا۔ گیا سید محمد بھی، لیکن اس کا جانا ایک امید پر لگائی ہوئی چھلانگ تھی۔ وہ بیوی کے بچے کھچے زیور اور موروثی زمین بیچ کر سعودی عرب گیا تھا، جب کہ حسین کو نائیجیریا کے کسی اسکول میں باقاعدہ کام ملا تھا اور اس کے لیے ہوائی جہاز کا ٹکٹ آیا تھا۔

    ’’اور کچھ لاؤں؟‘‘ کنیز مجھ سے کہہ رہی تھی، میرے سامنے کھڑی اور رکابی کی طرف بڑھتی ہوئی۔ میں جیسے چونکا۔

    ’’اور کیا؟‘‘

    ’’کباب یا ایک آدھ روٹی؟‘‘

    ’’بس بس۔‘‘ میں نے کہا، ’’اول ہی بہت ہوچکا۔ قاعدے سے مجھے کھانا ہی نہیں کھانا چاہیے تھا۔ دوپہر کا کھانا اکثر میں ٹالنے کی کوشش کرتا ہوں، خاص کر باہر۔ ڈاکٹر کہتے ہیں کہ اسے معمول بنالو۔‘‘

    ’’اور تم نے مان لیا؟‘‘ جمیل نے مسکراکر ٹوکا، اور میں ہنسنے لگا۔ جمیل جانتا تھاکہ دلّی کے یہ تین چار برس میں نے ڈاکٹروں کے پیچھے کتنی ایڑیاں رگڑی ہیں۔ ابھی دلّی میں پاؤں بھی نہیں جمے تھے کہ معلوم ہوا ایک مہلک بیماری کی چپیٹ میں ہوں۔ کیا کرتا؟ نفرت یا ان کے خلاف اپنے بڑبولے پن نے میری کوئی مدد نہیں کی اور میں اسپتال پہنچ کر فائل بن گیاتھا۔ کیس نمبر سی ۵۳۵۔

    وہ دوزخ کے دن تھے۔

    رکابی اٹھاکر کنیز گئی نہیں۔ کھڑی رہی۔ پھر دوپل مجھے گھور کر پوچھا، ’’ابھی پچھلے دنوں تمہارا کیا ہارٹ وارٹ کا کچھ۔۔۔‘‘

    میں نے چونک کر دیکھا۔ ہاں، چوٹ لگی تھی۔ کیا کنیز کو خبر نہیں تھی؟ میں تو سمجھ رہاتھا کہ اس گھر میں کبھی میرے لیے نیم ماتم کا ماحول بنا ہوگا اور جب پہنچوں گا تو مجھے ایسا لیا جائے گا جیسے لگ بھگ کھویا ہوا آدمی اچانک برآمد ہوگیا ہو۔

    ’’اس کی بری حالت ہوگئی تھی۔‘‘ جمیل کنیز سے کہنے لگا، ’’میسو ہارٹ اٹیک تھا۔ کوئی پچاس گھنٹے زندگی اور موت کے بیچ جھولتا رہا۔ وہ تو دلّی جیسی جگہ تھی، پیس میکر لگا کر بچالیا، ورنہ خدا جانے کیاہوتا!‘‘

    کنیز کا چہرہ ایک پل کے لیے سفید ہوگیا، خوف سے۔ اس کے بہنوئی اسی سے گئے تھے، سسر اسی سے، اور اب جیٹھ بھی۔ جیٹھ، یعنی حسین بھائی۔ جانے سے پہلے وہ سنبھلتے ہوئے بولی، ’’اور سگریٹ پینا بھی مت چھوڑنا، اچھا!‘‘

    تھوڑی دیر بعد میری تپائی کے سامنے چائے کی ٹرے آگئی۔ اسٹول کھینچ کر کنیز میرے سامنے بیٹھ گئی او رچائے بنانے لگی۔ اندر کے کمروں میں باجی تھیں، لیکن ان کے وہاں ہونے کا احساس یہاں سے مشکل تھا۔ پہلے تو خیر وہ نماز پڑھ رہی تھیں، لیکن اتنی دیر میں نہ تو وہ باہر آئی تھیں اور مجھ میں ہی اتنی ہمت تھی کہ اٹھ کر ان سے مل لوں۔ میں پھر دیواروں کو دیکھنے لگا جن پر کنیز کی پینٹنگز لٹکی ہوئی تھیں، برسوں سے انہیں جگہوں پر اور ویسی ہی۔ لیکن جیسے پہلی بار دھیان آیا کہ وہ طغروں کے آس پاس ہیں۔ ایک طغرہ تھا اللہ، دوسرا تھا محمد۔ اس دروازے کے اوپر جو گھرکے بھیتر کھلتا تھا، قرآن کی ایک آیت تھی، ان اللہ مع الصابرین، یعنی صبر کرنے والے کے ساتھ خدا ہے۔

    کیا میں نے صبر کیا ہے؟ چائے کا آخری گھونٹ لیتے ہوئے سوچا۔ کیا میں نے ان دوستوں کو معاف نہیں کیا تھا جو اسپتال میں مجھے دیکھنے یا مجھ سے ملنے نہیں آئے تھے؟ اور کیوں ان دشمنوں کے لیے بھی میں نرم ہوگیا تھا جو میرے پلنگ کے پاس آکر کھڑے ہوگئے تھے؟

    ’’یا اللہ!‘‘ تبھی اندر سے باجی کی گہراتی ہوئی آواز آئی، ’’رضاے ربی!‘‘

    کنیز نے برتنوں کو ضرورت سے زیادہ آواز کرتے ہوئے سمیٹا اور ٹرے میں رکھنے لگی، ایک کے بعد ایک۔ پھر اٹھ کر چلی گئی۔

    ’’باجی کو کیسے سنبھالا تھا؟‘‘ کچھ پل کی خاموشی کے بعد میں نے پوچھا۔

    ’’سب اپنے آپ سنبھل جاتے ہیں۔‘‘ وہ بولا، ’’جس وقت حسین بھائی کی خبر نائیجیریا سے ملی تھی، باجی سخت بیمار تھیں۔ لگتا تھا بچیں گی نہیں۔ میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ میں کیا کروں۔ ڈاکٹر سے پوچھا تو کہنے لگا، پتا نہیں ایسی حالت میں یہ صدمہ برداشت بھی کرپاتی ہیں یا نہیں، لیکن انہیں نہ بتانا بھی تو زیادتی ہوگی۔ آخر کب تک چھپاؤگے؟ میں دو دنوں تک سب سے لڑتا رہا کہ انہیں نہ بتایا جائے۔ تم تو جانتے ہو، وہ حسین بھائی کو ہم سب سے زیادہ چاہتی تھیں۔ میرا کہنا تھا کہ کیا یہ ممکن نہیں کہ انہیں کبھی پتا ہی نہ چلے۔ جھوٹی چٹھیاں منگوائی جاسکتی ہیں، یا ایسا ہی کچھ۔ زیادہ سے زیادہ انہیں اتنی ہی چوٹ تو لگتی ناکہ لڑکے نے آنکھیں پھیر لیں اور نالائق نکل گیا؟ لیکن آخر مجھے ہی ہارنا پڑا۔ پھر انہیں بتایا گیا، اور اب سب کچھ تمہارے سامنے ہے۔۔۔‘‘

    میں نے پوچھ تو لیا، لیکن پوچھنے کے ساتھ ہی مجھے اپنے سوال کے بے تکے پن کا دھیان آیا۔ یہ وہی سوال تھا جو ہر ملنے والا مجھ سے بھی پوچھتا تھا اور مجھے جھنجھلاہٹ ہوتی تھی۔ میں کہنے لگا، ’’میرا مطلب ہے کہ اس سے پہلے کچھ۔۔۔‘‘

    ’’نہیں، کبھی کچھ نہیں۔ وہ ایک دن پہلے اپنی طبیعت کے ٹھیک نہ ہونے کی شکایت ضرور کر رہے تھے۔ بھابھی سے کہہ رکھا تھا کہ شام کو ڈاکٹر کے پاس لے چلیں گے۔ شام کو وہ تیاربھی ہوگئے تھے، لیکن اسی وقت ان کاایک پاکستانی دوست آگیا، ایک وڈیو کیسٹ کے لیے، اور وہ ٹی وی دیکھنے لگے۔ شاید تم نہیں جانتے کہ ادھر انہوں نے ہندی فلم کے کیسٹوں اور ہندوستانی سنگیت کے ایل پیز (LPs) کا کتنا بڑا ذخیرہ کر رکھا تھا۔‘‘

    ہاں، میں نہیں جانتا تھا۔ سات سال پہلے جب حسین یہاں تھا تو وہ ہندی فلموں سے نفرت کرتاتھا اور اسے ہندوستانی سنگیت سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔

    ’’اپنے پاکستانی دوست کو ڈرائنگ روم میں چھوڑ کر وہ اندر ایک کیسٹ لینے گئے تھے، لیکن کیسٹ دیکھتے دیکھتے انہیں بے چینی ہوئی اور وہ لیٹ گئے۔ بس، مشکل سے دو منٹ لگے ہوں گے۔ میں سمجھ رہا تھا کہ ان کا کفن دفن وہیں ہوچکا ہوگا۔ ہم لوگ رودھو کر چپ بھی ہوچکے تھے۔ کوئی دس بارہ دنوں بعد جب بھابی اور بچوں کو لینے بمبئی پہنچا تو مجھے گمان بھی نہیں تھا کہ وہ نائیجیریا سے حسین بھائی کا تابوت لے کر آئی ہیں۔ پھر سب کے زخم کھلے، پھر ایک بار نئے سرے سے ماتم ہوا۔۔۔

    ’’اور نصیب کی سنگ دلی تو دیکھو۔۔۔‘‘ تھوڑی دیر ٹھہر کر جمیل کہنے لگا، ’’اسے تب ہونا تھا جب وہ لوٹنے ہی کو تھے۔ ابھی چھ مہینے پہلے جب وہ یہاں آئے تھے تو کہنے لگے، بس کچھ دنوں کی بات اور ہے، کچھ بھی کہو، اپنا ملک پھر اپنا ملک ہے۔۔۔ انہوں نے یہاں شملہ ہلز میں ایک پسند کا شان دار مکان بنوالیا تھا۔ لوٹنے کے بعد وہ یہاں کیا کریں گے، یہ طے ہوچکا تھا، اور وہ بہت خوش تھے۔ تب انہوں نے کبھی نہیں سوچا ہوگا کہ جس گھر کی ایک ایک اینٹ انہوں نے اتنے پیار سے رکھوائی تھی، اس میں وہ کبھی نہیں رہ پائیں گے۔۔۔

    پچھلی بار ایک عجیب بات ہوئی تھی۔ جب میں انہیں ایرپورٹ چھوڑنے گیا تھا تو زندگی میں پہلی بار ایک ہوک سی اٹھی تھی۔ ایکا ایک جی میں آیا تھا کہ انہیں بہت زور سے بھینچ لوں، ایک دم کلیجے سے لگاکر، لیکن پھر لگا کہ یہ کوری جذباتیت ہوگی۔ حسین بھائی کون ہمیشہ کے لیے جارہے ہیں! اور اپنے کو روک کرمیں نے وہ موقع ہمیشہ کے لیے کھودیا۔ اب وہی تکلیف اتنی بڑی کسک بن گئی ہے کہ ہر وقت مجھے تنگ کرتی رہتی ہے۔ کیا تم نے کبھی سوچا ہے کہ ہم اکثر کسی زعم، کسی سیانے پن، یا کسی نامعلوم سی ضد کے تحت ایسے موقعوں کو کھوتے رہتے ہیں جن میں اکثر وہ آدمی چھپا ہوتا ہے۔ ہم انہیں آگے کے لیے ملتوی کردیتے ہیں، بنا یہ جانے کہ وہ ہماری زندگی میں پھر کبھی نہیں آئیں گے۔۔۔‘‘

    کنیز نے پان کی طشتری میری طرف بڑھادی۔ وہ کب پاندان لے کر آبیٹھی تھی، مجھے پتا نہیں تھا۔ میں نے چپ چاپ پان لے لیا۔

    میں جانتا تھا کہ جمیل نے مجھے کہیں گہرے چھولیا ہے۔ لیکن کیا وہ صرف چھونا تھا، اپنی گرفت میں لے کر نچوڑنا نہیں؟ میں سامنے کی دیوار کی طرف دیکھنے لگا جس پر طغرہ لگا ہوا تھا، اللہ، اللہ، اللہ۔

    دیکھتے ہوئے، پھر تصویریں آئیں حسین کی۔ حسین بھائی اپنے باغ میں تینوں چھوٹے بچوں کے ساتھ، حسین بھائی اپنی گاڑی میں اسٹیئرنگ کے سامنے جب کہ بھابھی کار کا دروازہ پکڑے کھڑی ہیں۔ میں نے وہ تصویر اٹھالی جو ادھر حال کی تھی، شاید یہاں کی۔ اس میں صرف حسین تھا، صرف اس کا ہنستا ہوا چہرہ۔ تصویر میں وہ بہت تیزی سے بڑھتا ہوا لگا اور یہ دیکھ کر تعجب ہوا کہ اس کے چہرے پرطمانیت کی کوئی چھاپ نہیں تھی۔ الٹے وہ کسی پیڑ کی طرح سوکھ رہا تھا۔ وہ پہلے سے کہیں زیادہ گنجا ہوگیا تھا اور اس کی داڑھی بڑھی ہوئی تھی۔

    ’’یہ تو یہیں کی لگتی ہے۔‘‘ میں نے کہا۔

    ’’ہاں، وہ اسی جگہ لیٹے تھے اور میں نے تصویر لے لی تھی۔ ابھی پچھلی بار۔‘‘

    ’’اس میں حجامت کیوں بڑھی ہوئی ہے؟‘‘

    ’’ادھر انہوں نے داڑھی رکھ لی تھی۔ تم ان سے کب ملے تھے؟‘‘

    ’’تین چار سال پہلے، یہیں پر۔ اس بار میں نے دلّی سے آیا تھا تو اتفاق سے وہ یہیں تھا۔ بیچ میں ایک آدھ بار وہ اپنے ویزا وغیرہ کے سلسلے میں دلّی آیا تو اس نے خبر بھیجی تھی اور میرے گھر پہنچا تھا، لیکن میں جانے کہاں الجھا ہوا تھا کہ وقت پر نہیں پہنچ سکا اور وہ بنا ملے چلا گیا۔‘‘

    میں جمیل سے صاف جھوٹ بول رہا تھا۔ سچ تو یہ ہے کہ میں حسین سے ملنا نہیں چاہتا تھا، اور اسے جان بوجھ کر ٹال گیا تھا۔ شاید میں اس سے بچنا چاہتا تھا، پتا نہیں کیوں۔ حالاں کہ میں اسی کی تصویر ہاتھ میں لیے بڑی دیر سے دیکھ رہا تھا اور مجھے ایک بے چین کرنے والی اور نامعلوم سی تکلیف ہو رہی تھی۔

    ’’معلوم ہے جب مجھے دورہ پڑا تو ڈاکٹروں نے کیا پوچھا تھا؟‘‘

    جمیل میری طرف دیکھنے لگا۔ کنیز وہاں سے جاچکی تھی اور ہم دونوں اکیلے تھے۔

    ’’کہنے لگا، بتائیے، جس دن آپ کو یہ تکلیف ہوئی اس دن یا اس سے ایک دو دن پہلے کیا ہوا تھا؟ کسی طرح کا تناؤ، کوئی صدمہ، کوئی ایسی ویسی خبر جس نے آپ کو ڈسٹرب کیا ہو؟ میں نے کہا، نہیں، ایسا کچھ بھی نہیں۔ یہ ٹھیک ہے کہ میرٹھ میں فساد ہو رہے تھے، لیکن وہاں میرا کوئی عزیز نہیں تھا۔ یہ بھی صحیح ہے کہ پرانی دلّی میں تناؤ تھا اور کرفیو لگا ہوا تھا، لیکن میں تو نئی دلّی میں رہ رہا تھا۔ پھر میں نے کچھ سوچ کر حسین کا بتادیا تھا، یہ کہتے ہوئے کہ وہ میرا دوست ضرور تھا لیکن ادھر کئی برسوں سے ہم دونوں ایک دوسرے سے بہت دور ہوگئے تھے۔ اب لگتا ہے کہ پتا نہیں اس بات میں کہاں تک سچائی تھی۔ سچ تو یہ ہے کہ سب کچھ کے باوجود حسین ایک صاف، ایمان دار اور نیک آدمی تھا، اور میں اس سے بہت پیار کرتا تھا، بہت۔۔۔‘‘

    اور یہ کہتے کہتے میں نے دیکھا کہ میرا گلا رندھ گیاہے، آنکھیں بھر آئی ہیں اور میں سچ مچ رونے لگا ہوں۔۔۔

    ہاں، سچ مچ۔

    مأخذ:

    ہندی کہانیاں (Pg. 144)

      • ناشر: آج کی کتابیں، کراچی
      • سن اشاعت: 2002

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے